آدھے گھنٹے کمرے کی سیلنگ کو گھور لینے کے بعد وہ بیڈ سے اٹھ کر کمرے میں موجود کھڑکی کی جانب چل دی۔ کمرے میں کھڑکی سے جھانکتی چاندنی کی وجہ سے کچھ روشنی تھی۔ ورنہ نیم تاریکی میں کمرا ڈوبے رہنے کے باوجود بھی نیند اس کی نگاہوں روٹھی ہوئی تھی۔ اس نے ہمیشہ کی طرح آج بھی خود کو سنبھال لیا تھا۔
آسمان پر تاروں کو کھوجتی ایلیاء کی نگاہیں موبائل کی رنگٹیون کی جانب متوجہ ہوگئیں۔ بیڈ پر رکھا موبائل خاموشی توڑ رہا تھا۔ ایلیاء نے جاکر موبائل ہاتھ میں اٹھایا اسکرین پر نام کی جگہ اسک لفظ دیکھ کر اس کے اندر کال اٹھانے اور رد کرنے کی جنگ چھڑ گئی۔ اسک لفظ ترکی زبان میں پیار یا محبت کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس لیے اس نے عاص کا نمبر اسک نام سے سیو کر رکھا تھا۔ موبائل خاموش ہوگیا تھا ایلیاء نے رکھنا چاہا تو عاص کی دوبارہ کال آگئی۔ کچھ سیکنڈ میں اس نے خود سے یہ عہد کرکے کال اٹینڈ کرلی کہ وہ اس سے بات نہیں کرے گی اور جلدی کال کاٹ دے گی۔
“اسلام و علیکم” عاص کی بے چین آواز ایلیاء کی ساعتوں سے ٹکرائی۔ دل نے اس پر جوابی سلامتی بھیج دی تھی لیکن ایلیاء کی زبان نے اظہار نہ کیا۔
“میں تم سے ملنے آیا ہوں لیکن عارف انکل کے حکم پر گارڈ داخلے کی اجازت نہیں دے رہا ہے۔”ایلیاء دبے پاوں کھڑکی کی جانب چل دی۔ چپکے سے جھانک کر دیکھا تو عاص اور اس کی گاڑی گھر کے سامنے کھڑے تھے۔ وہ گاڑی سے باہر کھڑا ہوکر اس کے کمرے کی سمت ہی دیکھ رہا تھا۔
“مجھے تم سے بات کرنی ہے۔ باہر آسکتی ہو؟” اس کے سوال پر ایلیاء نے کال کاٹ دی۔
عاص نے موبائل جیب میں رکھا اور تھکے مسافر کی طرح گاڑی کی جانب چل دیا۔ گاڑی سے ٹیک لگائے وہ منتظر نگاہوں سے گیٹ کی جانب دیکھنے لگا۔ کچھ منٹ بعد ایلیاء سیاہ جینز اور سبز لانگ شرٹ زیب تن کئے ہوئے گیٹ سے نکل کر اسی کی جانب چلی آرہی تھی۔ پاوں میں سلیپرز تھیں۔ بالوں کا ڈھیلی چٹیا پس پشت بندھی ہوئی تھی۔
“سب خیریت ہے؟ اس وقت کیوں آئے ہو؟” ایلیاء نے نارمل انداز میں سوال کیا۔
“گاڑی میں بیٹھو۔ بات کرنی ہے۔” عاص یہ کہہ کر ڈرائیونگ سائیڈ کی طرف چلا گیا۔ ایلیاء نے سیاہ جینز پر گہری نیلی شرٹ پہنے اس شخص کو کچھ دیر دیکھا۔ پھر آنکھیں گھما کر پیسنجر سائیڈ کی جانب چل دی۔ گاڑی میں بیٹھ جانے کے بعد عاص نے بات شروع کرنے کا فیصلا کیا۔
“تم نے تو کہا تھا کہ تم میرا ساتھ نہیں چھوڑو گی؟” عاص کا جملہ سن کر ایلیاء طنزیہ زرا سا مسکرائی اور نظریں سامنے کی جانب اپنے گیٹ پر رکھیں۔
“مجھے ڈیڈ یہاں لائے ہیں۔” ایلیاء کا جواب سن کر عاص نے اثبات میں سر ہلایا اور گاڑی اسٹارٹ کی۔ ایلیاء نے حیرت سے اسے دیکھا۔
“کہاں لے جارہے ہو؟”اس کے سوال پر عاص نے اس سے نظریں ملائیں۔
“واپس لے جارہا ہوں۔” اس نے بنا کسی جزبات کے جواب دیا۔ جواب سن کر ایلیاء نے طنزیہ بھویں تان کر اسے دیکھا۔
“بابا کی اجازت کے بغیر میں نہیں جاوں گی۔”ایلیاء نے جواب دے کر گاڑی کا دروازہ کھول دیا لیکن عاص نے اس کی کلائی پکڑ لی اور گاڑی کے انجن کو خاموش کرادیا۔ ایلیاء نے رخ موڑ کر اسے دیکھا۔
“شوہر کی اجازت کے بغیر یہاں آسکتی ہو تو بابا کی اجازت کے بغیر واپس جا بھی تو سکتی ہو۔ ” عاص کی بات سن کر ایلیاء نے دوسرے ہاتھ سے اس کا ہاتھ اپنی کلائی سے آرام سے ہٹادیا۔
” اس گھر میں مجھے میرے شوہر نے تنہا چھوڑا تھا۔ بابا نے تنہا نہیں چھوڑا تھا.. اس لیے میں بابا کی اجازت کے بغیر نہیں جاوں گی۔” ایلیاء نے اس کی آنکھوں میں دیکھ کر حقیقت کا آئینہ دکھایا تھا۔ ایلیاء گاڑی سے نکل کر گھر کی جانب چل دی۔ عاص بھی گاڑی سے نکل کر اس کے پیچھے چل رہا تھا۔
گیٹ میں داخل ہوتے ہوئے اس نے ایک مرتبہ مڑ کر عاص کو سوالیہ نظروں سے دیکھا۔ عاص نے کندھے اچکا دئیے۔
“تم نے تو کہا ابھی… کہ انکل کی اجازت کے بغیر تم نہیں جاو گی۔” عاص کا جواب سن کر ایلیاء نے بے یقینی سے سر ہلایا اور اس کے ہمراہ گیٹ سے اندرداخل ہوگئی۔
دونوں چند قدم ساتھ چلے تھے.. سامنے سے عارف صاحب کواپنی جانب بڑھتا ہوا دیکھ کر وہ وہیں رک گئے۔ عاص نے رسماً سلام کیا اور عارف صاحب نے باروب لہجے میں جواب دیا۔
“میں ایلیاء کو واپس لے جانے آیا ہوں۔ ” عاص نرم لہجے میں مخاطب تھا۔
” تاکہ اس گھر میں پھر تنہا چھوڑ دو؟ کیا میری بیٹی اتنی بے مول ہے؟ ” عارف کے سوالات پر عاص نے ایک نظر ایلیاء کو دیکھا اور پھر عارف صاحب سے نظریں ملائیں۔
“اس کی قدر و قیمت کا آج مجھے احساس ہوا۔” عاص ایک قدم ان کی جانب بڑھا۔ ” پلیز انکل مجھے غلطی سدھارنے کا موقع تو دیں۔ میں آپ کو پھر شکایت کا موقع نہیں دوں گا۔ ” عاص کے جملے سن کر ایلیاء نے مسکرا کر عارف صاحب کو دیکھا۔ عقرب ان کی جانب تیزی سے چلتا ہوا آیا۔
“مدثر صاحب آپ سے بات کرنا چاہتے ہیں۔” عقرب نے ان سب کے چہروں کا ایک نظر جائزہ لیا اور عارف صاحب کی سمت فون بڑھا دیا۔
“میں آکر بات کرتا ہوں۔” عارف صاحب نے عاص سے کہا جو فون کو دیکھ رہا تھا لیکن ان کے مخاطب کرنے پر صرف اثبات میں سر ہلادیا۔
عقرب اور عارف کے جاتے ہی عاص نے ایلیاء کی جانب رخ کیا۔ ایک قدم آگے بڑھ کر اس کے مقابل کھڑا ہوگیا۔
” مدثر کون ہے؟ ” عاص کے عجیب لہجے میں سوال پوچھنے پر ایلیاء نے بھویں جوڑیں۔
” میرا دوست ہے۔” اس کے مختصر جواب پر عاص نے ضبط کا سانس لیا اور دوسری جانب دیکھا۔
” کیوں پوچھ رہے ہو؟ کیا تم اسے جانتے ہو؟ ” ایلیاء کے سوالات پر عاص نے جبڑے کسے اس سے نظریں ملائیں۔
” ہاں ابھی چند گھنٹے پہلے ہی کسی نے اطلاع دی تھی کہ میرے سسر جی مجھ سے تمھاری خلا کروا کر تمھارا اس مدثر نامی شخص سے نکاح کروا دیں گے۔ ” اس کی بھڑاس پر ایلیاء نے بھویں تانے چند لمحے حیرت سے اسے دیکھا۔ پھر دل کھول کر باآواز ہسنے لگی۔ رات کی خاموشی میں اس کی کھنکتی ہسی بہت دلکش لگ رہی تھی۔
“تم… تم.. گلٹ میں پاگل تو نہیں…”وہ ہس رہی تھی۔ یعنی وہ اور مدثر؟ ایلیاء ہستے ہوئے کبھی آگے جھکتی تو کبھی چہرہ اٹھا کر ہستی چلی جاتی۔
“ایلیاء..” عاص نے اس کا نام کھینچ کر ادا کیا۔ ایلیاء نے اپنی ہسی پر قابو پایا اور عاص کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔
“مانا کہ میں اداس تھی لیکن تم سے کس نے کہا تھا کہ ایسا لطیفہ سناو۔” وہ زرا سا پھر ہسی۔ “وہ شادی شدہ ہے۔ اپنی فیملی کے ساتھ خوش اور سیٹل ہے۔” ایلیاء نے اسے بتاتے ہوئے ایک نظر گھر کی عمارت کو دیکھا۔
“تم سے کس نے کہا کہ بابا ایسا چاہتے ہیں؟” ایلیاء نے مسکرا کر کہا اور اپنے چہرے کے پاس جھولتی لٹ کو کان کے پیچھے کیا۔
“اور ایک منٹ.. تم اس لیے یہاں آئے تھے کہ کہیں میں مدثر سے واقعی شادی نہ کرلوں؟” ایلیاء نے گھورتے ہوئے سوال کیا۔ عاص نے مسکرا کر اسے کندھوں سے تھاما۔
” میں اپنی بیوی کو اپنے ساتھ لے جانے آیا تھا۔ مجھے ڈر تھا کہیں میں اپنی بے وقوفی سے اسے کھو نادوں۔” عاص کا اظہار سن کر ایلیاء نے مسکرا کر اسے دیکھا۔
” ساتھ نہیں چھوڑو گے تو مجھے کبھی نہیں کھو گے۔ ہمیشہ ساتھ رہوں گی تمھارے۔ ” ایلیاء نے اس کے سامنے ہاتھ پھیلایا جسے مسکرا کر عاص نے تھام لیا۔
“پیاری ایلین…” عاص نے مسکرا کر کہا تو جواب میں ایلیاء نے اس کے بازو پر ایک مکا مارا۔
” نام بگاڑا نا تو جان لے لوں گی۔” ایلیاء نے اس کی شرٹ کو گرفت میں لے کر کہا۔
“میں آپ کو اپنا دل دے رہا ہوں مسز سلطان۔ آپ جان کا سوال کر رہیں ہیں۔” عاص کے کہنے پر ایلیاء کا حیرت سے منہ کھل گیا۔
“زیادہ پیارے نا بنو۔ میری نظر لگ جائے گی۔” ایلیاء نے اس کے گال نوچ لیے اور گھر کی جانب چل دی۔
“میرے ساتھ نہیں چلو گی؟” عاص نے مسکرا کر سوال کیا ایلیاء نے رخ موڑ کر دیکھا۔
“بابا سے اجازت تو لے لو۔ میرے سلطان۔” ایلیاء نے ایک آنکھ دبا کر کہا۔
“جو حکم مسز سلطان کا۔” عاص نے کسی فوجی کی طرح اسے سلامی پیش کی اور اس کے پیچھے چل دیا۔
وہ جانتا تھا اس کی محبت ایلیاء کی طرح پیشنیٹ نہیں ہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ وہ اسے کھونا نہیں چاہتا تھا۔ کل تک وہ ایلیاء کو اس کی شخصیت سے جانچتا پرکھتا آیا تھا۔ اس لیے اس کے سوز دل کی کیفیت صرف ضد اور خود سری لگی تھی لیکن آج اس نے اس کی محبت کو ذہنیت سے پرے ہوکر دل سے سمجھا تھا۔ سچ یہی ہے کہ اسے کھو دینے کے ڈر سے اس کے دل کو ایک ذبردست دھچکا ضرور لگا تھا۔
اپنے ہم قدم چلتی ہوئی اس حسین لڑکی کو عاص نے مسکرا کر دیکھا۔ جو اپنی ہی دھن میں ہس کر کوئی بات بتا رہی تھی۔ اس کی کھنکتی ہسی سن کر بے ساختہ عاص کے ہونٹوں پر بھی مسکراہٹ بکھر گئی اور اس نے ایلیاء کا ہاتھ تھام لیا۔ جس پر ایلیاء نے اس کی سمت دیکھا اورعاص نے دل میں اپنے کریم اللّه کی اس کرم نوازی پر شکر ادا کیا۔
•••••••
ختم شُد
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...