اپنی اونچی ایڑی کی ہیل سے سڑک پر آواز کرتی ہوئی بڑی ادا سے چل رہی تھی۔ وہ چارلس کی بہن کے ریسیپشن سے فارغ ہوکر اب پارکنگ ایریا کی جانب جارہی تھی۔ مہرون ریشم کا سلک گاون اس کی سانولی رنگت پر کھل رہا تھا۔ کسی مسری دوشیزہ سے مشاہبت رکھتے اس کے نین نقش نو میک-اٙپ لُک میں بہت دلکش لگ رہے تھے۔ نازک جیولری اس کے کانوں ، گردن اور ہاتھوں کی زینت بنے ہوئے تھی۔ گھنی گہرے بھورے رنگ کی لہروں سی بناوٹ رکھتیں زلفیں کمر کو ڈھکے ہوئے تھیں۔ اچانک کسی کے بلانے پر اس نے رک کر اس سمت دیکھا۔
“کہاں بھاگے جارہی ہو؟” باربی ڈول جیسی رنگ و روپ رکھنے والی اس کی برطانوی سہیلی ایشلے نے سوال کیا۔ جو زرا فاصلے پر بلونڈ بالوں اور سفید رنگت رکھنے والے برطانوی نوجوان چارلس کے ساتھ کھڑی تھی۔
“تمھیں بتایا تو تھا… کہ دو گھنٹے بعد میری فلائٹ ہے…” ایلیاء نے بھویں جوڑتے ہوئے تفتیشی نگاہوں سے اپنی سہیلی کو یاد کروایا تھا۔
“ایکسکیوز می ایلی…اگر تمھارے پاس وقت ہو تو کیا میری بات سنو گی؟” برطانوی لب ولہجے میں چارلس سوال پوچھتے ہوئے ایلیاء کی جانب بڑھ رہا تھا۔ جس پر دونوں لڑکیوں میں آنکھوں کو تبادلہ ہوا۔
“ضرور…” ایلیاء نے اسے اپنے مقابل کھڑے دیکھ کر آہستہ سے جواب دیا۔ ایشلے ہاتھوں کو باندھے وہیں فاصلے پر کھڑی ہوکر سارا منظر دیکھ رہی تھی جو وہ ایک بار پہلے بھی دیکھ چکی تھی۔
“ایلی اب تک تو تم میرے احساسات سے باخوبی واقف ہوگئیں ہوگی لیکن میں آج تمھارے سامنے ان کا لفظوں میں اظہار کرنا چاہتا ہوں۔” چارلس نے ہمت کر کے ایلیاء کا ہاتھ تھام لیا۔
“میں تمھیں بہت پسند کرتا ہوں۔ مس ایلیاء کلماتی.. کیا تم میری گرل فرینڈ بنو گی؟” اس نے اپنے لبوں پر خوبصورت مسکراہٹ بکھیرتے ہوئے تہمل کے ساتھ جملہ مکمل کرکے پھر جلدی میں سوال کیا۔ جس کا جواب حاصل کرنے کی اسے بہت جلدی تھی۔
اس دوران اس کی سبز آنکھوں میں سحر کردینے والی چمک تھی مگر ایلیاء کے پتھر دل پر اس کے کسی حسن نے اثر نہیں کیا۔ اس لیے ایلیاء نے اپنا ہاتھ چارلس کی نرم گرفت سے آرام سے آزاد کروایا اور اپنے ہاتھ کی انگلی میں پہنی ہوئی ہیرے کی انگوٹھی اس کے چہرے کے سامنے لہرائی۔
“معاف کرنا چارلس لیکن میں انگیجڈ ہوں۔” معزرت خواہ نظروں سے چارلس کی بجھی سبز نگاہوں میں دیکھ کر اس نے سیاہ پلکیں جھپکاتے ہوئے کہا اور ہلکا سا جھینپتے ہوئے مسکرا کر رخ موڑ کے آگے بڑھ گئی۔
ایشلے بھی اپنی ہسی ہونٹوں میں دبا کر چارلس کے قریب سے گزرتے ہوئے اس کے کندھے کو تھپکانا نہیں بھولی تھی۔
“بہت بے غیرت ہو… کیسے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر صاف جھوٹ بول دیا۔” ایشلے نفی میں سر ہلاتے ہوئے اپنی برینڈڈ فینسی پمپس کو اس کی ہیلز کے ہم قدم اٹھاتے ہوئے کہہ رہی تھی۔ ایلیاء کے مہرون گاون کی طرح اس نے گلابی گاون زیب تن کیا تھا جس کی آستین کے شانوں پر گول سراخوں سے اس کے سفید بازو نظر آرہے تھے اور پیچھے کی جانب بھی گلہ زرا گہرا تھا۔ ایلیاء کا مہرون گاون مکمل طور پر اس کو ڈھانپے ہوئے تھا۔
“اگر میں اس کے سوال پر انکار بھی کردیتی تب بھی اس نے میرا پیچھا نہیں چھوڑنا تھا۔ اس لیے منع کرنے سے بہتر ہے منگنی کا جھوٹ بول دو۔” ایلیاء نے مسکرا کر کہا۔
“کم از کم آج اس کا دل رکھ لیتی۔ اس کی بہن کی شادی تھی اور تم نے آج ہی اس کا پرپوزل ٹھکرادیا۔ کتنا تنہا محسوس کرے گا۔” ایشلے نے افسوس سے کہا۔
“تمھیں افسوس ہے تو تم ایکسیپٹ کر لو۔ مجھے معاف کرو۔” ایلیاء نے اپنی کلائی سے بینڈ اتار کر اپنے بالوں کو ڈھیلے جوڑے میں باندھ لیا۔
“او میرے خدا… تمھیں تو عقل دینا بھی جرم ہے۔” ایشلے نے سر پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا۔
“اس نے تو یہ بھی نوٹ نہیں کیا کہ جس انگوٹھی کو میں نے منگنی کی انگوٹھی کہا ہے وہ ایک ہفتے سے میرے دوسرے ہاتھ میں تھی۔ اس کے سامنے ہی میں نے انگوٹھی کی جگہ بدلی تھی۔” ایلیاء نے مسکرا کر کہا۔ اسے چارلس کے احساسات کا اچھے سے اندازہ تھا اور شکر چارلس کی بہن نے پہلے ہی دبے لفظوں میں اسے آج چارلس کے اس پرپوزل کا بتادیا تھا۔
اس لیے ایلیاء نے ہمیشہ کی طرح اس بار بھی اپنی مرحوم ماں کی انگوٹھی کو منگنی کی انگوٹھی بتا کر تیسرے پرپوزل سے جان چھڑائی تھی۔
“سدھر جاو لڑکی تمھارے ساتھ کوئی ایسا کرے گا تو پھر تمھیں پتہ لگے گا۔ جب کوئی تمھاری محبت کو ایسے رد کرے گا.. تو میری جان تمھیں اس کے احساسات کی قدر ہوگی۔” ایشلے نے اپنے کلچ سے گاڑی کی چابی نکال کر اس کو ان لاک کیا۔
“پہلی بات اسے مجھ سے محبت نہیں… اس کے الفاظ پر غور کیا تھا ؟ وہ صرف مجھے گرل فرینڈ بنانا چاہتا تھا۔ دوسری بات مجھے جس سے بھی محبت ہوگی… میں اسے بوائے فریںڈ تو ہرگز نہیں بناوں گی اور نہ ہی اس کے انکار پر اسے چھوڑوں گی۔ ” آخری جملے پر اس نے آنکھ دبا کر شرارتی انداز میں قہقہ لگایا۔ جس پر ایشلے بھی بے یقینی سے سر ہلاتے ہوئے مسکرا کر گاڑی میں بیٹھ گئی۔ ایلیاء بھی اس کے ساتھ تھی۔
انگلینڈ میں آج اس کی آخری شام تھی جس کے آخری پل وہ اپنی سہیلی ایشلے کے فلیٹ میں پیکنگ کرتے ہوئے گزارنا چاہتی تھی۔ وہ ایک ہفتے پہلے ہی انگلینڈ ایشلے کی منگنی اور چارلس کی بہن کی شادی کے سلسلے میں آئی تھی اور رات کی فلائٹ سے اسے واپس اپنے وطن پاکستان لوٹنا تھا۔
•••••••••
“بہت بہت مبارک ہو یونس۔” عارف نے اپنے بزنس پارٹنر کو مشترکہ کاروبار کی کامیابی پر ہاتھ ملا کر مبارکباد دی۔
“تمھیں بھی مبارک ہو۔” یونس نے بھی خوشدلی سے جواب دیا۔ وہ عارف کے احسان مند تھے۔
یونس کے ڈگمگاتے بزنس کو ایک سال میں دوبارہ پاوں پر کھڑا کرنے میں ان کے بڑے بیٹوں کی انتھک محنت اور عارف صاحب کی دولت کا بہت بڑا ہاتھ تھا۔ ایک سال پہلے یونس کے رقیب نے دھوکے سے ان کی کمپنی کے آدھے سے زیادہ شئرز اپنے نام کرلیے تھے لیکن عارف صاحب کے بروقت ساتھ نبھانے پر یونس کا زیادہ نقصان نہیں ہوا۔ کئی ہوٹلز ان کے ہاتھ سے سرکنے سے رہ گئے۔
آج کی کامیابی کی تقریب بھی یونس نے کل اپنے ہوٹلز میں سے ایک ہوٹل میں منقد کی ہے۔ جس کی نگرانی یونس کے منجلے بیٹے عاص سلطان کے شانوں پر تھی۔ جس کی تیاریوں میں وہ ہفتوں سے مصروف تھا۔ اسے یقین تھا جس کام میں اس کے عارف انکل کا ہاتھ شامل ہو وہ کام ان کے حق میں بہتر ثابت ہوتا ہے۔
“ویسے ہمارا شیر ہے کہاں؟” عارف نے میٹنگ ہال میں نظر دوڑاتے ہوئے اپنے دوست سے سوال کیا۔
“تیاریوں میں مصروف ہے کہہ رہا تھا کہ عارف انکل کو فنکشن کے خوبصورت انتظامات سے سرپرائز دے گا۔” یونس نے مسکرا کر کہا اور عارف بھی مسکرا دئیے۔ اس منظر کو سامنے کھڑے فوٹوگرافر نے اپنے پروفیشنل کیمرے میں قید کر لیا تھا۔
دوسری جانب اونچے لمبے قد اور فٹ جسامت والے خوبرو نوجوان بڑے سے ہال میں کرسی سے ٹیک لگائے موبائل پر مصروف نظر آرہا تھا۔ پوری آستین کی آسمانی شرٹ اور گہری نیلی جینز زیب تن کیے ہوئے تھا۔ اس کی اس بزنس ڈریسنگ میں شرٹ اور جینز کے رنگ بدلتے رہتے تھے لیکن اسٹائل ہمیشہ یہی رہتا تھا۔ اس کے کھڑے نقوش پر خوشی کے تاثرات بکھر گئے۔
“تو خبر مل گئی؟” اس سے مختلف نقوش اور سانولی رنگت والے جوان نے اس کے شانے پر ہاتھ رکھے سوال کیا۔
“جی بھائی… ہماری پہلی کامیابی آپ کو مبارک ہو۔” اس نے نشست سے اٹھ کر بغل گیر ہوتے ہوئے کہا۔
” تمھیں بھی مبارک ہو عاص۔” عقیل نے اپنے سے چار سال چھوٹے بھائی کی پشت کو جوش سے تھپکایا۔
“واٹس اپ برادرز؟ بڑا بھائی چارہ امڑ رہا ہے؟” عاص سے ایک سال چھوٹے سلیمان نے دونوں بھائیوں سے سوال کیا۔ جو عقیل اور عاص سے زرا زیادہ شرارتی اور غیر سنجیدہ طبیعت کا تھا۔
“کہو تو… تم پر بھی پیار برساوں؟” عاص نے اس کی گردن کو دبوچتے ہوئے سوال کیا لیکن سلیمان تیزی سے اس کی گرفت سے نکل کر عقیل کی جانب بڑھ گیا اور اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کھڑا ہوگیا۔
“پیار، محبت تمکین بھابی کے لیے بچاو۔ جو ابھی منہ پھلائے تمھارا باہر انتظار کر رہیں ہیں۔” سلیمان نے ایک آنکھ دبا کر کہا۔ عاص نے حیرت سے بھویں جوڑیں اور خارجی دروازے کی جانب دیکھا۔ پھر جانچتی نگاہوں سے سلیمان کے چہرے کو دیکھا۔
“جھوٹے تمکین کا آج صبح یونیورسٹی میں لیکچر تھا… وہ یہاں نہیں آسکتی۔ میری ٹانگ کھینچتے ہو۔” عاص پھر اس کی طبیعت درست کرنے آگے بڑھا مگر عقیل دونوں کے درمیان آگیا۔
“عاص ہوش کرو… یہ تو بچہ ہے تم تو عقل رکھتے ہو۔ یہ ورک پلیز ہے یہاں بچگانی حرکتیں کرتے ہوئے تم اچھے لگو گے؟” عقیل نے زرا سلیمان سے نظر بچا کر ایک آنکھ دباتے ہوئے سنجیدہ لہجے میں کہا۔ عاص بھی اس کا اشارہ سمجھتے ہوئے اثبات میں سر ہلا کر مزید کچھ کرنے سے رک گیا۔
“ہاں ہاں بڑے بھائی بنو اور شرم کرو۔” سلیمان نے کالر جھڑک کر عاص سے کہا۔ عقیل وہاں سے جا چکا تھا جبکہ عاص اس کے سامنے کھڑا گھورنے لگا۔
“خود تو جیسے چلو بھر پانی میں ڈپکی لگائے بیٹھے ہو؟” عاص نے کمر پر دونوں ہاتھوں کو رکھے کہا۔ اس سے پہلے سلیمان اس کو جواب دیتا۔ کسی نے اس کے سر پر ڈیکوریشن کے باکس کی ساری تھرماکول بال الٹ دیں۔ جو سلیمان کے گھنگرالے بالوں اور کپڑوں پر چپک گئی۔ عاص کا قہقہ فضا میں بلند ہوا۔
“اب کرو تنگ…” عقیل نے خالی باکس فرش پر پھینکا۔ تھرماکول بال کے ڈھیر میں کھڑے سلیمان نے دونوں بڑے بھائیوں کو گھور کر دیکھا۔
“بخشوں گا تو اب بھی نہیں۔” یہ کہہ کر وہ عقیل اور عاص کے پیچھے بھاگنے لگا۔
یہ سب دیکھ کر وہ دو ملازم تھرماکول بالز کے ڈھیر پر صاف صفائی کا سامان لے کر فوراً لپکے۔ دو گھنٹے میں پورے ہال کو چمکایا تھا اور اب وہ اپنی محنت تھرماکول بالز کے اتنے سے ڈھیر سے برباد ہوتے ہوئے تو نہیں دیکھ سکتے تھے۔
•••••••
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...