جب اشرف جہاں بیگم کو اپنی زندگی سے نا اُمیدی ہوئی ، حکیم جواب دے چُکے اُس آسمانی حُور نے جو انسانی صُورت لے کر دُنیا میں آئی تھی ، اپنے تمام عزیزوں کو جمع کیا۔ جاڑوں کا موسم تھا اور سوتیلے بچے اُس کے تلوؤں سے آنکھیں مَل رہے تھے۔ بُخار کی شدت تھی اور غفلت لمحہ بہ لمحہ ترقی کر رہی تھی۔ آدھی رات کا وقت تھا کہ اشرف جہاں بیگم نے آنکھ کھولی ، چاروں طرف سے اللہ بسم اللہ ہوئی۔ کسی نے دُعائیں کیں اور کسی نے بَلائیں لیں ، اُٹھنے کا اِرادہ کیا تو اُوپر والوں کی جان میں جان آ گئی ، شوہر نے جو دَم بخود کھڑا تھا سہارا لگایا ، ساس نے گاؤ تکیہ رکھا ، اور وہ نیک بی بی اُٹھ کر بیٹھ گئی۔ اُٹھنے کی تکان سے سانس پھُول گیا تھا۔ تھوڑی دیر بعد جب سانس ٹھیک ہو گیا تو پانی مانگا ، اور لڑکھڑاتی آواز میں زور سے کہا۔
پیاری بہنو! تُم میں سے بعض گو عُمر میں مجھ سے بڑی ہوں ، مگر رشتہ میں سب چھوٹی ہیں۔ اب کہ میرا آخری وقت ہے۔ ضرورت ہے میں تُم سب کے سامنے اپنی گُذشتہ زندگی پر ایک نظر ڈالوں ، میری زندگی اُن بیویوں کے واسطے جن کی شادی ہو چکی ہے شاید زیادہ مُفید نہ ہو ، مگر اُن لڑکیوں کے واسطے جو بیویاں بننے والی ہیں یقیناً ایک نمونہ ہو گی۔
بیٹیو ! تُمہاری طرح ایک دن میں بھی کُنواری تھی ! ماں باپ کا سایہ میرے سر پر موجود تھا۔ بے فِکری کے دن تھے ، آزادی کی راتیں ، خُوشی کا وقت تھا اطمینان کی باتیں ، مگر جوانی نے اِس بے فکری کا خاتمہ کر دیا۔ شادی کے پیغام آنے شروع ہوئے ، میں بظاہر خاموش تھی مگر نکاح میری زندگی اور موت کا فیصلہ تھا۔ تمام گفتگو غور سے سُنتی رہی ، مگر اِس لئے کہ محض واقعات پر نتیجہ نکالنا ہوتا تھا ، میں امّاں ابّا کی رائے محض اس واسطے کہ وہ تجربہ کار تھے اپنے سے بہت بہتر سمجھتی تھی۔
پھر بھی آج جبکہ نو برس سے زیادہ ہوئے ہیں زبان سے نکالتی ہوں کہ اماں جان کے ایک پیغام سے انکار کرنے کا مجھ کو اتنا رنج ہوا کہ میں نے دو وقت روٹی نہیں کھائی۔ یہ میرے چچا کے بیٹے کا پیغام تھا ، لیکن آخرکار اُن کی رائے ٹھیک نکلی اور میرا خیال بالکل غلط نکلا۔ اُس شخص نے پے در پے تین بیویاں کیں اور تینوں کو جَلا جَلا اور گھُلا گھُلا کر پار اُتارا۔ جب اماں جان نے اس گھر کو جس میں ہم سب بیٹھے ہیں پسند کیا اور اس بَر پر رضامندی ظاہر کی تو مجھ کو سب سے بڑا اندیشہ یہ تھا کہ اِن دونوں کلیجہ کے ٹکڑوں کو جو میرے پاس بیٹھے رو رہے ہیں ، کہنے کو سوتیلے مگر پیٹ کے بچوں سے زیادہ عاشقِ زار ، کِس طرح خُوش رکھوں گی۔ یہی دھڑکا تھا جس کو ساتھ لئے میں سُسرال میں آ داخل ہُوئی۔ سرکار نے جیسا دنیا کے تمام مردوں کا قاعدہ ہے میری صُورت دیکھتے ہی بچوں کی وقعت کم کر دی۔ اِن کا کھانا پینا ، پہننا اوڑھنا سب میرے ہاتھ میں تھا۔ میں خود بچہ تھی اور اِن بچوں کی خدمت میرے بَس کا کام نہ تھا ، پھر بھی خوفِ خُدا میرے دل میں تھا۔ میں سمجھتی تھی کہ دُنیا کی کسی حالت کو قیام نہیں۔ زندگی کے ساتھ انقلاب لگے ہوئے ہیں ، یہ دو معصُوم رُوحیں جو قُدرت نے میرے سُپرد کی ہیں محض میری شفقت کی محتاج ہیں۔ نہ معلوم چند روز بعد میں اِس شفقت کے قابل بھی رہوں یا نہ رہوں۔ میں اندھی ، لنگڑی ، گانڑی رانڈ ہو جاؤں اور بھیک بھی مُجھ کو مُیّسر نہ ہو۔ اِس لئے جہاں تک ممکن ہوتا میں اِن کی خاطرِ مدارات کرتی۔
دو سال اِسی طرح گُزرے اور میں بھی ایک بچہ کی ماں بن گئی۔ مُجھے اب اپنے بچہ کے آگے یہ دونوں زہر معلوم ہوتے اور ہر وقت یہ خواہش ہوتی کہ سرکار کی تمام محبت چاروں طرف سے کھنچ کر میری طرف آ جائے۔ میری آرزُو پُوری ہوئی ، سرکار دَم بھر میرے بچے سلمان کو آنکھ سے اوجھل نہ کرتے اور اپنے بچہ عرفان کو جو مشکل سے تین برس کا ہو گا ، ہمارے کمرے تک میں گھُسنے نہ دیتے۔ اِسی طرح چار برس بیت گئے۔ مُجھے دن عید اور رات شب برات تھی۔ اِن سوتیلے بچوں کا کانٹا قریب قریب نکل چُکا تھا۔ یہ زندہ تھے مگر مُردوں سے بدتر۔ میں بھی اُس وقت کچھ ایسے گھمنڈ میں تھی کہ مُجھے ان سے سیدھے منہ بات کرنا قَسم۔ میں جو ہاتھ اُٹھا کر دیتی یہ لے لیتے ، جو کہہ دیتی وہ کر لیتے۔ عرفان لاکھ بچہ تھا مگر چھ سات برس کا بچہ اپنی حالت اچھی طرح پہچانتا ، اور اپنی عزت پُوری پُوری طرح جانتا ، دن بھر میرے بچے کے پیچھے خُوشامد کرتا پھرتا ، پِٹتا کُٹتا ، گھُرکیاں سُنتا اور اُف نہ کرتا۔ مُجھ کو خود ایسے لڑکے کی ضرورت تھی ، جو ہر وقت سلمان کی خدمت کرتا ، اس کو بہلائے کھِلائے ، اس کی خدمت کرے۔ اِن داموں عرفان مجھ کو کُچھ گِراں نہ تھا۔ سلمان کھانا کھا چُکتا تو اس کے آگے کا بچا بچایا کھانا بھی میں اسی کو دے دیتی ، پُرانی دھُرانی جُوتی، پھٹا پُرانا کُرتا بھی اسی کے کام آتا۔
میری سوکن کے زمانے کا ایک طوطا تھا جس کو سب ہیرامن کہتے تھے۔ ایک دن کا ذکر ہے۔ گرمی کے موسم میں شام کے وقت میں نہانے جا رہی تھی۔ سونے کی گھڑی نکال کر میں نے رکھنی چاہی۔ سلمان میرے پاس بیٹھا کھیل رہا تھا گھڑی دیکھتے ہی مچل گیا۔ دس بیس رُوپے کی چیز ہوتی تو خیر تھی ، ساڑھے تین سو کی گھڑی ، میں نے اٹھا صندُوقچہ میں چھُپا دی۔ بچہ مچل گیا ، لگا پٹخنیاں کھانے ، عرفان کھڑا اُس کو پنکھا جھل رہا تھا ، بہلایا چُمکارا مگر بچہ کسی طرح قابُو میں نہ آیا۔ اسی سلسلے میں غریب جا کر طوطے کا پنجرہ اُٹھا لایا اور کہنے لگا ،
” مٹھو میاں پر ہنس رہا ہے۔“
وہ تو ادھر بہلا اور میں غُسل خانہ میں پہنچی۔ ابھی اچھی طرح نہانے بھی نہ پائی تھی کہ اس کے بلکنے کی آواز میرے کان میں پہنچی ، کیسا نہانا اور کس کا غُسل ، جلدی سے تین لوٹے ڈال باہر آئی تو کیا دیکھتی ہُوں کہ بچہ کی اُنگلی سے خُون کی تللی بندھی ہوئی ہے اور وہ تڑپ رہا ہے۔ محبت کے مارے بے تاب اور غُصہ کے مارے آگ بگولہ ہو گئی۔ انّا نے کہا مُوئے عرفان نے طوطے سے اُنگلی کٹوا دی۔ اتنا سُنتے ہی میں آپے سے باہر ہو گئی۔ بَس چلتا تو عرفان کی بوٹیاں کاٹ کر چِیلوں کو دے دیتی۔ میں نے ایک غضب کی بھری ہوئی نگاہ اُس پر ڈالی ، اُس کی رنگت زرد پڑی ہوئی تھی اور تھر تھر کانپ رہا تھا۔ وہی طوطے کا پنجرہ جس کی ایک تیلی ٹوٹی ہوئی تھی ، اُٹھا کر اس کے منہ پر اس زور سے مارا کہ تیلی اُنگل بھر کان میں گھُس گئی۔ اس کے گورے گورے کلّے خُون میں لہُو لہان ہو گئے۔ بِن ماں کا بچہ اس وقت مُصیبت کی سچی تصویر تھا۔ بیکسی اس کے چہرے پر برس رہی تھی اور گھونگھر والے بال اُس کی بے گناہی کی داد دے رہے تھے۔ اُس کی معصُوم آنکھیں آنسوؤں کی جَھڑیاں بہا رہی تھیں مگر میرے غُصے کی آگ کسی طرح ٹھنڈی نہ ہوتی تھی۔ جب تک انّا نے اُنگلی دھُلا کر پٹی باندھی ، میں نے اس مُصیبت کے مارے کا ہاتھ پکڑ کر دو طمانچے اور مارے اور پھر ایک ایسا دھکا دیا کہ بے قرار ہو کر دَر پر جا کر پڑا اور ستون کی کگر بَھوں میں چُبھ گئی۔ کنپٹی پہلے ہی لہُولہان ہو رہی تھی ، بھوں بھی زخمی ہو گئی۔ بے بَس اور مظلوم عرفان کی وہ تصویر آج تک میرے دل سے فراموش نہ ہوئی۔ اس کے کپڑے خُون میں شرابور تھے مگر اس کو اپنی تکلیف کا مطلق خیال نہ تھا ، بلکہ اس سے بھی بہت زیادہ مار پیٹ کا یقین تھا ، اس کی آنکھ سے آنسو جاری تھے وہ ہاتھ جوڑے مجھ کو ایسی نظر سے دیکھ رہا تھا جو میرے رحم کی التجا کر رہی تھی۔ ڈر کے مارے آواز بند تھی اور ایک آٹھ برس کی جان میرے سامنے بیری کی طرح تھر تھر کانپ رہی تھی۔
میں اس حالت میں غُصہ سے بھری سلمان کو گود میں لئے اپنے کمرے میں پہنچی۔ وہ سو گیا تھا پلنگ پر لٹا دیا۔ اتنے ہی میں سرکار تشریف لے آئے۔ میں سلمان کو کلیجہ سے لگائے بیٹھی تھی دیکھتے ہی گھبرا گئے اور پُوچھا ،
” کیوں ؟ خیر تو ہے ؟“
میں آبدیدہ ہو کر ، ” ہاں شکر ہے اللہ کا ! اس کا پِنڈا پھیِکا ہو گیا ، وقت کی بات ہے ، چُوک گئی۔ انّا کمبخت بھی اُدھر چلی گئی ، عرفان نے طوطے سے کٹوا دیا ، اتنا سارا جیتا جیتا خُون نکل گیا ، یہ بِلَک رہا تھا وہ ہنس رہا تھا۔ میں نہ آؤں تو ساری اُنگلی الگ ہو جائے۔“
سرکار کی حالت تو اتنا سنتے ہی کچھ سے کچھ ہو گئی۔ وہ بغیر کپڑے اُتارے باہر گئے اور عرفان کو اُٹھا کر انگنائی سے باہر پھینک دیا۔ آٹھ برس کے بچہ کی بساط ہی کیا۔ ہاتھ کی ہڈی چڑ سے ٹوٹ گئی۔ ایسی حالت میں سرکار نے اُس کے کپڑے اُتروائے اور ہنٹر لے کر اس قدر مارا کہ تمام کھال اُدھڑ گئی۔ بے گناہ معصُوم کے پاس قصُور سے بَری ہونے کی کوئی شہادت نہ تھی۔ وہ سر سے پاؤں تک خُون میں ڈُوب چکا تھا اور کوئی حمایتی ، لا وارث عرفان کا ایسا نہ تھا جو ہم ظالموں کے قبضہ سے مظلوم کو نکال لے۔ آخر سرکار نے اس کا ہاتھ پکڑ کر گھر سے نکال دیا اور سلمان کو گود میں لے کر بیٹھ گئے۔ میں اُس وقت نہایت خُوش ، دل میں ہنستی ، ظاہر میں ٹھنڈے سانس بھرتی باہر آئی۔ رات چاندنی تھی ، آٹھ بج چُکے تھے ڈیوڑھی میں کھُسر پھُسر کی آواز کان میں آئی ، میرا قدم دھرنا تھا کہ احسان عرفان کا بڑا بھائی جو اب دس برس کا تھا ، میری صُورت دیکھتے ہی سہم گیا۔ اس کی گود میں عرفان کا سر تھا ، وہ ہاتھ جوڑ کر کہنے لگا ،
” یہ سو گیا ، جاگتا ہی نہیں ، میں اس کو ابھی لے جاتا ہوں۔“
احسان نے رو رو کر کچھ اس درد سے بھائی کی حالت بیان کی کہ اس وقت میں بھی لرز گئی ، دیکھتی ہوں تو عرفان بیہوش پڑا ہے۔
گھبرا کر گھر میں آئی ، سرکار کی آنکھ لگ گئی تھی۔ صندوقچی کھول کر عطر نکالا۔ ٹرنک منگوا کر کپڑے نکالے ، لے کر آئی تو دونوں بچے جا چکے تھے۔ خاموش آ کر بیٹھ گئی ، معاملہ پر غور کیا تو بِن ماں کا بچہ بے گناہ تھا۔ اُس پر جو ظُلم ٹُوٹا وہ خُدا دُشمن کو بھی نہ دِکھائے۔ اس کی عبرتناک تصویر ، اس کا میرے آگے ہاتھ جوڑنا ، بلکنا اور رونا میرے کلیجے کے پار ہو رہا تھا۔ دل نے اُس وقت یہ صدا دی۔ اشرف ! زندگی کا اعتبار نہیں۔ اگر آج تیرا دَم نکل گیا تو عرفان سے بدتر حالت سلمان کی ہو گی۔
اِس خیال کا دل میں آنا تھا کہ سلمان کی یہی تصویر آنکھوں میں پھر گئی۔ برقع اوڑھ باہر نکل گئی۔ کوٹھی کے سامنے قبرستان تھا۔ چاندنی رات میں دو معصُوم بچے ایک قبر پر نظر آئے۔ چھوٹا بیہوش تھا اور بڑا اُس کی صُورت دیکھ دیکھ کر تڑپ رہا تھا۔ میں چُپکی کھڑی اُن کو دیکھ رہی تھی۔ دفعتاً چھوٹا کسمسایا اور بڑے نے اُس کے منہ پر منہ رکھ کر کہا ،
”بھائی ، اُٹھ بیٹھ۔“
عرفان : ” بھائی میرے ہاتھ میں بڑا درد ہو رہا ہے۔ ہاتھ نہیں اُٹھتا۔ ابا جان نے جو باہر پھینکا تو چوٹ لگ گئی۔“
احسان : ” لا ، میں اپنا کُرتا اُتار کر باندھ دُوں۔ ہمارا بھی تو اللہ ہے۔ اب ہم بڑے ہو جائیں گے تو آپ کمانے لگیں گے۔“
عرفان : ” اچھے بھائی ، خُدا کے لئے میرا سر دبا دے بڑا درد ہو رہا ہے۔ تیلی آدھی گھُس گئی ہے ، پھر ستون گھُسا۔ میری اماں ہوتیں تو وہ دبا دیتیں۔“
احسان : ” اماں کے سامنے ابا مارتے ہی کیوں ! اماں ہی کے مرنے سے تو ہماری مٹی ویران ہوئی۔ اس قبر میں اماں میری سو رہی ہیں۔ اماں جان ہم کو بھی کلیجے سے لگا لو۔“
یہ کہہ کر دونوں بھائی لپٹ گئے اور چیخیں مار مار کر رونے لگے۔
اس وقت میری حالت بھی بگڑ چکی تھی ، موت میرے سامنے کھڑی تھی اور ظُلمِ ناحق کی سزا دوزخ کے شعلے میرے رُو برُو بھڑک رہے تھے۔ میں دونوں کو اُٹھا کر گھر لائی۔ رات بھر ان کی خدمت کی۔ صبح اُٹھتے ہی ڈاکٹر کو بلایا۔ ہاتھ پر پٹی بندھوائی اور سچے دل سے خُدا کے حضور میں توبہ کی۔
وہ دن اور آج کا دن یہ تینوں اب جوان جوان میرے سامنے بیٹھے ہیں۔ ان میں رتّی بھر فرق کیا ہو تو خُدا کے ہاں کی دیندار ہوں۔
پیارے بچو احسان ، عرفان ! اس ظلم کی آج تم دونوں سے معافی مانگتی ہوں۔ میری زندگی ختم ہو گئی۔ اور اب میں اس جگہ جا رہی ہوں جہاں ہر فعل کی جزا اور ہر کام کی سزا بھُگتنی ہے۔ ایسا نہ ہو تم اس ظُلم کا دعویٰ کرو۔“
اب دونوں بچے اشرف جہاں بیگم کو لپٹے دھاڑیں مار مار کر رو رہے تھے اور کہہ رہے تھے ،
”اماں جان ہمیں تو وہ بات ایک خواب سی یاد ہے۔ ہاں یہ اچھی طرح یاد ہے کہ آپ کی محبت نے حقیقی ماں کو بھُلا دیا۔“
اب اشرف جہاں بیگم نے کہا ،
”پیاری بچیو ! ممکن ہے تم کو بھی میری طرح ایسے بچوں سے سابقہ پڑے مگر یاد رکھو کہ ان کے دُکھے دلوں کی آہ اچھی نہیں ہوتی۔ جس طرح میں اپنے فعل پر نادم ہو کر آج خُدا کے حضور میں سُرخ رُو جا رہی ہوں ، اسی طرح جانے کی کوشش کرنا ، اور وہ موت ایسی ہو گی جس پر ہزاروں زندگیاں قربان ہوں۔
1914ء