وزن کی جانے والی یا کسی پیمانے سے ناپے جانے والی ایک جنس کی چیزیں اور روپے وغیرہ میں دو آدمیوں کا اس طرح معاملہ کرنا کہ ایک کو عوض کچھ زائد دینا پڑتا ہو ربا اور سود کہلاتا ہے جس کو انگریزی میں Interest یا Usuryکہتے ہیں۔ جس وقت قرآنِ کریم نے سود کو حرام قرار دیا اس وقت عربوں میں سودکا لین دین متعارف اور مشہور تھا، اور اُس وقت سود اُسے کہا جاتا تھا کہ کسی شخص کو زیادہ رقم کے مطالبہ کے ساتھ قرض دیا جائے خواہ لینے والا اپنے ذاتی اخراجات کے لیے قرض لے رہا ہو، یا پھر تجارت کی غرض سے، نیز وہ Simple Interestہو یا Compound Interest، یعنی صرف ایک مرتبہ کا سود ہو یا سود پر سود۔ مثلاً زید نے بکر کو ایک ماہ کے لیے 100 روپے بطور قرض اس شرط پر دیے کہ وہ 110 روپے واپس کرے، تو یہ سودہے۔ البتہ قرض لینے والا اپنی خوشی سے قرض کی واپسی کے وقت اصل رقم سے کچھ زائد رقم دینا چاہے تو یہ جائز ہی نہیں۔ بلکہ ایسا کرنا نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے عمل سے ثابت ہے۔ لیکن پہلے سے زائد رقم کی واپسی کا کوئی معاملہ طے نہ ہوا ہو۔ بینک میں جمع شدہ رقم پر پہلے سے متعین شرح پر بینک جو اضافی رقم دیتا ہے، وہ بھی سود ہے۔
اللہ رب العزت نے انسان کو جس مقصد کے لئے پیدا کیا ہم وہ مقصد بھول چکے ہیں اللہ رب العزت نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا کہ وما خلقت الجن والانس الا لیعبدون(سورۃ الذاریات آیت نمبر۵۶پارہ ۲۷رکوع نمبر۳)ہم نے جن و انس کو پیدا نہیں کیا مگر عبادت کے لئے۔ اللہ رب العزت نے ہمیں عقل و شعور دیا اللہ تعالیٰ ہمارے سامنے نیکی اور برائی دونوں راستوں کو رکھ دیا۔ قرآن مجید نے یہودیوں کے ان بڑے بڑے جرائم اور مظالم کی نشاندہی کی ہے جس کی وجہ سے ان پر عذاب آیا اور ان سے سلطنت چھین لی گئی۔ اللہ پاک نے حلال رزق ان کے لیے ختم کر دیا۔ ان کے اقتصادی نظام تباہ کر دیا۔ قرآن مجید نے یہودیوں کے ہولناک مظالم میں سے ان کے سودی نظام کو صراحت کے ساتھ بیان کیا ہے۔ ارشاد خداوندی ہے ” تو یہودیوں کے بڑے ظلم کے سبب ہم نے وہ بعض ستھری چیزیں جو ان کے لیے حلال تھیں ان پر حرام کر دیں۔ اور اس لیے کہ انہوں نے بہتوں کو اللہ کی راہ سے روکا” یہودی سود کھاتے تھے سود پر اپنا کاروبار چلا تے تھے حالانکہ انھیں سود کا نظام چھوڑنے کا حکم تھا اس لیے یہودیوں کو تباہ و برباد کر دیا گیا۔
ربا عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معانی زیادہ ہونا، بڑھنا یا اصل سے زیادہ کے ہیں۔ اردو میں ربا سے مراد سود کے ہیں یعنی وہ فکسڈ اضافہ جو قرض دینے والا اپنے مقرض سے لیتا ہے۔ فی الشرع فضل مال بلا عوض فی معاوضۃ مال بمال۔ (دستور العلماء، جز نمبر ۲ ص۱۲۸) اسلام امیر و غریب سب کے لئے یکساں سلامتی اور خیر کا دین ہے جو دولت کو چند ہاتھوں میں رکھنے کا قائل نہیں اس لئے ہمارے دین میں ربا یعنی سود کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ قرآن پاک میں سود کی حرمت کے بارے میں سات آیات اور چالیس احادیث ہیں۔ سودی نظام انسانی ہمدردی اور مدد کے اصولوں کے خلاف ہے جس میں ایک فرد یا گروہ کسی کی مجبوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اسے معاشرے کے بے بس افراد کی صف میں لا کھڑا کرتا ہے۔ اس سے معاشرے میں غریب افراد کی غربت میں نہ صرف اضافہ ہوتا ہے بلکہ بغیر کسی محنت کے سود کے ذریعے سے حاصل کی جانے والی دولت معاشرے میں حرام مال کے اضافے کا باعث بنتی ہے۔ سود کسی بھی معاشرے میں ظلم کو جنم دیتا ہے۔ جب مجبور کی مجبوری سے فائدہ اٹھایا جانے لگے تو لوگ اپنی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے غلط راہ اختیار کرنے میں بھی عار محسوس نہیں کرتے۔ اس لئے اسلام ایسے نظام کو حرام قرار دیتا ہے جو لوگوں کے استحصال کا باعث بنتا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ربا کے بارے میں فرمایا کہ آخری چیز جو آپﷺپر نازل ہوئی وہ ربا کی آیت ہے لہٰذا تم سود کو چھوڑ دو اور اس چیز کو بھی چھوڑ دو جس میں سود کا شبہ بھی ہو۔
قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ سود کو نہ چھوڑنے والا اللہ اور اس کے رسولﷺ سے جنگ کر رہا ہے۔ سودکا کاروبار کرنے والے سے اس سے بڑھ کر اللہ اور اس کے رسولﷺ کی ناراضگی کا اظہار اور کیا ہو گا کہ اس کیلئے جنگ کا لفظ استعمال کیا گیا۔ ہمارا ایمان ہم سے تقاضا کرتا ہے کہ ہم دینے والے بنیں۔ کسی کو دیتے وقت اس کی مجبوری سے منافع حاصل کرنے کی بجائے اس سے احسان کا رویہ اختیار کریں۔ جبکہ سود کا نظام معاشرے میں خود غرضی پیدا کرتا ہے۔ اس میں بظاہر دنیا کا فائدہ تو ہے لیکن آخرت میں سود لینے والا ایسے اٹھے گا جیسے دیوانگی کی حالت میں ہو۔ حلال طریقے سے محنت کے ذریعے حاصل کیے جانے والے مال میں اللہ کی طرف سے برکت پیدا ہوتی ہے جبکہ بغیر کسی محنت و مشقت سے منافع کے طور پر حاصل کردہ مال کبھی نہ کبھی قلت کا شکار ضرور ہوتا ہے۔ آپﷺ نے بھی اس بارے میں فرمایا جس کسی کا مال سود سے زیادہ ہو گا آخرکار وہ قلت کی طرف جائے گا۔