اخلاقی اعتبار سے اگر ہم سود کے نقصانات کا جائزہ لیتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کی مضرتوں سے سود لینے والے، سود دینے والے، اور جس معاشرہ میں اس کا چلن ہوتا ہے سبھی متاثر ہوتے ہیں اور کوئی بھی اس کے اخلاقی نقصانات سے بچ نہیں سکتا۔ چنانچہ اس کی وجہ سے سود لینے والوں کے اندر سے اپنے بھائیوں کے ساتھ ہمدردی، محبت، اور للہ فی اللہ تعاون کا جذبہ ختم ہو جاتا ہے، چنانچہ ہر شخص جانتا ہے کہ بینکوں اور سودی اداروں کی عالیشان بلڈنگوں، بیش قیمت اور اعلیٰ قسم کے کرسیوں پر اور انتہائی قیمتی و خوبصورت فرنیچر سے مزین کمروں اور اے سی کی پر کیف اور ٹھنڈی ٹھنڈی ہواؤں میں بیٹھنے والے سود خوروں کو اس سے سودی قرض لینے والے غریبوں کے دکھ درد، اور مجبوریوں و پریشانیوں کا ذرا بھی احساس نہیں ہوتا۔ اگر کوئی غریب وقت مقر رہ پر قرض مع سود کی رقم کے ادا نہیں کر سکتا تو فوراً اس کے خلاف قانونی کاروائی کرتے ہیں۔ اور عدالت کے ججوں سے لے کر تھانے کی پولیس تک سب ان کی مدد کرتے ہیں اور بیچارے غریب قرضدار کی مجبوریوں، پریشانیوں، فقر و فاقہ، کاروبار میں نقصان اور اس کے اور اس کے بال بچوں کے آنسوؤں کو کوئی نہیں دیکھتا، ان کی آہ و بکا کی آواز سے کسی کے دل میں جذبۂ ترحم پیدا نہیں ہوتا، بلکہ الٹے سبھی اس پر ناراض ہوتے، ڈانٹتے اور لعنت ملامت کرتے ہیں پھر اجنبی زبان میں لکھے ہوئے شروط کے مطابق جن کو شاید اس غریب نے سمجھا بھی نہیں تھا اور ایجنٹوں نے بھی جان بوجھ کر اس کو سمجھایا اور بتایا نہیں تھا، اس کی زمین، جائداد نیلام کر دی جاتی ہے، اور بینک کا قرض مع سود وصول کر لیا جاتا ہے۔
اسی طرح سودی قرض لینے والوں کے دل بھی اس کی نحوست سے ایمانداری، سچائی، وفا داری اور احسان شناسی کے اوصاف حمیدہ سے خالی ہو جاتے ہیں۔ اور ان کے اندر بے ایمانی، کذب بیانی، بے وفائی اور احسان فراموشی جیسے اوصاف خبیثہ پیدا ہو جاتے ہیں، چنانچہ اگر ان پر ترس کھا کر کوئی شریف آدمی قرضہ حسنہ دیدے اور ان پر اعتماد کر کے تحریری، قانونی کاروائی نہ کرے، اور وہ جسمانی طاقت اور افرادی قوت میں ان سے کمزور ہو تو نہ صرف وہ قرض کی واپسی میں ٹال مٹول کرتے ہیں اور طرح طرح سے پریشان کرتے ہیں بلکہ بسا اوقات اسے گالیاں دیتے، الزام تراشی کرتے، خود مارنے یا غنڈوں سے پٹوانے کی دھمکیاں دیتے ہیں، اور بسا اوقات مار پیٹ بھی کر لیتے ہیں، اور قرض دی گئی پوری رقم ہڑپ کر لیتے ہیں۔ اور ایسا صرف اس بنا پر ہوتا ہے کہ سود خوری نے ان کے دلوں میں قساوت اور بے ایمانی بھر دی ہے، جس سے وہ اس شریف آدمی کی شرافت اور کمزوری سے نا جائز فائدہ اٹھا رہے ہیں اور احسان فراموشی کر کے اس پر ظلم کر رہے ہیں۔
پھر ان لوگوں کی حرکتوں سے دوسرے لوگوں کے اندر سے بھی غریبوں، مجبوروں کے ساتھ تعاون وہمدردی کے جذبات ختم ہو جاتے ہیں، چنانچہ کچھ لوگ تو سودی اداروں کی طرح چاہتے ہیں کہ وہ بھی ان غریبوں کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھائیں اور قرض دے کر سود حاصل کریں۔ اور کچھ شرفاء اور نیکوکار لوگ قرض لینے والوں کے نازیبا سلوک کرنے اور ان کا مال ہڑپ کر جانے سے بد دل ہو جاتے ہیں، اور اس خوف سے کہ کہیں ان کے ساتھ بھی اسی طرح کا معاملہ اور سلوک نہ ہو، چاہتے ہوئے بھی قرض نہیں دیتے، اس طرح سودی نظام اور کاروبار کی وجہ سے پورا معاشرہ اخلاقی زوال کا شکار ہو جاتا ہے، لوگوں کے اندر خود غرضی، بے ایمانی، شقاوت قلبی، بے وفائی، جھوٹ و دغا بازی وغیرہ اخلاقی برائیاں اور بیماریاں پیدا ہو جاتی ہیں۔
سودی کاروبار کے اخلاقی نقصانات میں سے یہ بھی ہے کہ اس نظام نے لوگوں کے درمیان کافی اونچ نیچ پیدا کر دی ہے، اور ان کو دو طبقات میں تقسیم کر دیا ہے، اور اس کی وجہ سے ان کے درمیان عداوت و دشمنی، کینہ و کپٹ اور بغض وحسد عام ہو گیا ہے۔
لوگ پہلے بڑی محبت و سکون سے رہتے تھے، پریشانیوں اور مصیبتوں کے وقت ایک دوسرے کے ساتھ قرضہ حسنہ اور صدقہ و خیرات وغیرہ کے ذریعہ تعاون کرتے تھے، قرض کی وصولی میں سختی کرنے کی بجائے سہولت ہونے تک مہلت دیتے تھے اور غرباء ومساکین اور پریشانیوں میں مبتلا حضرات بھی ان کے اس احسان و تعاون کا اپنے دل میں احساس رکھتے اور زبان سے تسلیم کرتے اور اس پر ان کا شکریہ ادا کرتے تھے۔ اس طرح سے مسلم معاشرہ میں بڑا سکون، محبت، ہمدردی اور بھائی چارگی تھی، اونچ نیچ کا احساس نہیں تھا، کیونکہ مالدار اپنے غریب بھائیوں کے ساتھ جو بھی احسان و تعاون کرتے تھے وہ اپنا دینی فریضہ اور عبادت سمجھ کر کرتے تھے، احسان جتلانے، ان کا استغلال کرنے، ان کی دولت لوٹنے اور خون چوسنے کے لئے نہیں کرتے تھے، وہ یہ کام صرف رضا الٰہی اور آخرت میں اجر و ثواب کے لئے کیا کرتے تھے۔ اور جانتے تھے کہ احسان جتلانے اوراس سے کوئی مادی فائدہ اٹھانے کی صورت میں ان کی نیکیاں ضائع ہو جائیں گی، لیکن سودی نظام نے ان کے دلوں سے ان نیک جذبات کو ختم کر دیا ہے، اور لوگ دو مختلف گروپ اور متحارب طبقوں میں تقسیم ہو گئے، اس نظام کو چلانے کے لئے ظالموں نے غریبوں، محتاجوں اور مظلوموں کی ہمدردی ودستگیری کے نام پر اشتراکیت اور کمیونزم جیسے مذہب دشمن نظریات والی پارٹیوں کو جنم دیا جنھوں نے سماجی و اقتصادی مساوات، عدل و انصاف، زر، زن اور زمین میں سب کا حصہ، عوام کی حکومت عوام کے ذریعے وغیرہ خوش کن نعرے لگائے اور اس کے ذریعہ طبقاتی نا برابری، غربت ومسکنت، اور ظلم و ستم کے خاتمے کا پر زور بلکہ پر شور دعویٰ کیا۔ لیکن عملی دنیا میں اس میں سے کچھ بھی حاصل نہ ہوا، بلکہ ظلم و جور، فقر و فاقہ اور محرومی وبیکسی اپنی انتہا کو پہنچ گئی۔ اور روس جیسا عظیم ملک جو ان نظریات کا سب سے بڑا علمبردار تھا، خود ان مسائل و مصائب میں مبتلا ہو کر لوگوں کے لئے عبرت کا سامان بن گیا۔
دوسری طرف انہیں یہودیوں نے جن کے اوپر ان کے شریعت میں سود کو حرام قرار دیا گیا تھا اور اس کی مخالفت کی پاداش میں انہیں بہت سی پاکیزہ اور عمدہ چیزوں اور نعمتوں سے محروم کر دیا گیا، جیسا کہ اللہ رب العالمین نے فرمایا:
’’ پس یہودیوں کے ظلم کی بنا پر ہم نے بہت سی وہ پاکیزہ چیزیں ان پر حرام کر دیں جو پہلے ان کے لئے حلال تھیں، اور ان کے بکثرت اللہ کے راستے سے روکنے کی بنا پر اور ان کے سود لینے کی بنا پر جس سے انہیں منع کیا گیا تھا۔‘‘ انہیں یہودیوں نے دنیا کے اقتصاد اور حکمرانوں کو اپنے کنٹرول میں کرنے، پوری دنیا پر اپنا دبدبہ و غلبہ قائم کرنے اور جب چاہیں دوسرے ممالک اور خاص طور سے جن سے ان کی عداوت اور دشمنی ہو کے اقتصاد کو تہ و بالا کرنے کے لئے یہ سودی نظام رائج کیا اور دنیا پر اس کو اس طرح مسلط کیا کہ لوگوں کے لئے اس سے نجات اور بلا سودلئے کوئی بڑا کاروبار کرنا مشکل ہو گیا ہے، یہودی پروٹوکولز میں ہے:
’’ہماری انتظامیہ کو ماہرین معیشت کی بہت بڑی تعداد کی خدمات میسر ہوں گی، یا یہ کہہ لیجئے کہ وہ ماہرین اقتصادیات سے گھری ہوئی ہو گی، یہی وجہ ہے کہ یہودیوں کو دی جانے والی تعلیم میں اقتصادی سائنس کو ایک اہم مضمون کی حیثیت حاصل ہے، ہمارے چاروں طرف بنکاروں، صنعت کاروں، سرمایہ کاروں اور کروڑ پتیوں کا ایک مجمع ہو گا، ہمیں ان کی خدمات بہت سی کاموں کے لئے درکار ہوں گی، کیونکہ ہم ہر مسئلہ کا فیصلہ اعداد و شمار کی روشنی میں کرتے ہیں۔
وہ وقت بہت قریب ہے جب ہماری مملکتوں کے کلیدی عہدوں پر ہمارے یہودی بھائی تعینات ہوں گے، ان کی تقرریوں میں نہ کوئی رکاوٹ ہو گی اور نہ کوئی خطرہ ہو گا لیکن وہ وقت آنے تک ہم معاملات کی باگ دوڑ ایسے لوگوں کو دیں گے جن کا ماضی اور حال یہ ثابت کر سکے کہ ان کے اور عوام کے درمیان ایک وسیع خلیج حائل ہے۔ ہماری ہدایات کی خلاف ورزی کرنے پر انہیں سخت الزامات کا سامنا کرنا پڑے گا، یا پھر شرم و ندامت کی وجہ سے خود کشی کئے بغیر کوئی چارہ نہ ہو گا۔ اس طریقہ کار سے دوسرے لوگوں کو نا فرمانی کرنے والوں کے انجام سے سبق ملا کرے گا اور وہ آخری وقت تک ہمارے مفاد کے لئے کام کرنے پر مجبور ہوں گے۔ (یہودی پروٹوکولز: ص۳۳۱)
اور یہی وجہ ہے کہ علم الاقتصاد یہودی طبقہ کا بنیادی موضوع ہے، اور امریکہ، برطانیہ وغیرہ ممالک، بڑے بڑے یہودی سرمایہ داروں، بینک کاروں اور کروڑ پتیوں کے گھیرے اور نرغے میں ہیں، اور تمام دنیا کی دولت کے حقیقی مالک چند ہزار یہودی اور سود خور ہیں، ان کے علاوہ تمام اصحاب ثروت، تجار اور کار خانوں اور فیکٹریوں کے مالک جو بینکوں اور سودی اداروں سے قرض لے کر کام کرتے ہیں در حقیقت یہ بندھوا مزدور کے سوا کچھ نہیں، کیونکہ اخیر میں ان تمام کاروباروں کے اصل منافع انہیں یہودی سود خوروں کے جھولیوں میں چلے جاتے ہیں اور دوسرے لوگوں کو ان کی محنت، کار کردگی اور فرائض ومسؤلیات کے اعتبار سے صرف مزدوری مل پاتی ہے۔
یہودی پروٹوکولز کے اس اقتباس کو دوبارہ پڑھئے اور دیکھئے سودی نظام اور قرضوں وغیرہ کے ذریعہ کس طرح یہودیوں اور صلیبیوں نے مسلم ممالک پر خصوصاً اور تیسری دنیا کے ممالک پر عموماًایسے حکمرانوں کو مسلط کر دیا ہے جن کو اپنے عوام سے نہ کوئی ہمدردی ہے اور نہ ان سے کوئی تعلق اور ربط ہے، جو واضح طور پر ان کے پروردہ ایجنٹ ہیں، اور انہیں کے ہدایات و احکامات پر عمل کرتے اور اپنے اپنے ملک اور عوام کو معاشی، اخلاقی، دینی، اور عسکری ہر اعتبار سے تباہ کر رہے ہیں، اور جس روز ان کے ذریعہ وہ مطلوبہ کام کر لیتے ہیں اور ان کی ضرورت نہیں رہ جاتی ہے، یا جس دن انہیں یہ محسوس ہوتا ہے کہ یہ ہمارے حکم سے سرتابی کر رہے ہیں ان کے خلاف سنگین قسم کے الزامات لگا دیتے ہیں اور میڈیا جو ان کا غلام اور کارندہ ہے ان حکمرانوں کے خلاف شب و روز الزامات کی بوچھار کرتا اور ان کے مظالم اور کالے کرتوں کی داستانیں سناتا ہے اور پھر مجرموں کے کٹہرے میں کھڑا کر کے یا تو انہیں پھانسی دلا دی جاتی ہے یا کسی ذریعہ سے قتل کرا دیا جاتا ہے، یا خود کشی پر مجبور کر دیا جاتا ہے، بہر حال انہیں ذلیل و خوار کر کے اس طرح منظر سے غائب کر دیا جاتا ہے کہ کہیں ان کا پتہ بھی نہیں لگتا اور ایسا اس لئے کیا جاتا ہے کہ دوسروں کے لئے عبرت ہو۔
سود کے اخلاقی نقصانات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ جو لوگ سودی قرض لیتے ہیں انہیں مقر رہ مدت پر اسے سود کی ایک بڑی رقم کے ساتھ واپس کرنا رہتا ہے، اس واسطے وہ ایسے پروجیکٹوں میں جو انسانی ضروریات و مصالح کے مطابق اور ملک و ملت کے حق میں مفید ہوں پیسے لگانے کے بجائے ایسے کاروبار میں لگاتے ہیں جن سے زیادہ سے زیادہ نفع کما سکیں، بھلے ہی وہ مخرب اخلاق اور تہذیب و شرافت، حیا و غیرت اور ایمانداری و ہمدردی اور حق و صداقت کا جنازہ نکالنے والے ہوں۔ چنانچہ آج ہر شخص اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے کہ لوگ کس طرح گندی فلموں، فحش رسالوں، رقص گاہوں، شراب خانوں، تھیٹروں، بیوٹی پارلروں اور گندے گانوں اور فلموں کے آڈیو، ویڈیو کیسٹوں اور سیڈیز بنانے کے کارخانوں میں سرمایہ لگا کر زیادہ سے زیادہ پیسہ کمانے لگے ہیں تاکہ یقینی طور سے اور زیادہ سے زیادہ نفع کمائیں اور سودی قرض ادا کرنے کے بعد ایک اچھی بڑی رقم پس انداز کر لیں۔ بلا سے اس کی وجہ سے معاشرے میں فحاشی و عیاشی کا سیلاب آ جائے، نوجوانوں کے اخلاق بگڑ جائیں، قتل و خونریزی کے بازار گرم ہوں اور شراب نوشی اورسٹہ بازی کی وجہ سے گھر، خاندان اور پورا معاشرہ تباہ و برباد ہو جائے۔
یہ سودی قرضوں کی ہی دین ہے کہ مسلم حکمراں اپنے آقاؤں کے حکم پر دینی تحریکوں کو کچلتے، علما ء و دعاۃ کو قتل کرتے، دینی و اخلاقی لٹریچر پر پابندی لگاتے اور فحش لٹریچر کی اشاعت کرتے اور اجازت دیتے ہیں۔
یہ اسی سود کی برکت ہے کہ دینی اداروں اور مساجد ومدارس کے نشاطات پر پابندیاں لگائی جا رہی ہیں، مجاہدین کو دہشت گرد قرار دے کر انہیں اعدائے اسلام کے حوالے کیا جا رہا ہے، وہ فوج جسے قوم و ملت کی حفاظت اور ملک کے دفاع کے لئے تیار کیا گیا تھا اس کے ذریعہ بے گناہ مسلم مجاہدین اور علماء وطلبہ کو قتل کرایا جا رہا ہے، دینی مدارس پر بم باری کی جا رہی ہے، انہیں دہشت گردی کا اڈہ کہا جا رہا ہے، ان کے نصاب میں یہود و نصاریٰ کی خواہشوں اور سازشوں کے مطابق تبدیلیاں کی جا رہی ہیں، ان میں مخلوط تعلیم اور سا تویں اور آٹھویں جماعت کے طلبہ و طالبات کے لئے جنسی تعلیم کو لازم قرار دیا جا رہا ہے، جس سے اخلاق و حیا اور عفت و پاکدامنی کا جنازہ نکل رہا ہے اور پوری قوم ناکارہ، بے غیرت اور بے دین ہو رہی ہے۔ غرض یہ کہ امت مسلمہ کے لئے خصوصاً اور پوری انسانیت کے لئے عموماًسود کے بے شمار دینی و اخلاقی نقصانات ہیں ۔
بہرحال اللہ ہم سب کو سود جیسی بیماری سے بچنے کی توفیق عطاء فرمائے ۔
آمین ثم آمین
٭٭٭
تشکر: مصنف جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی
ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...