(Last Updated On: )
قیصر جمال(پٹنہ)
سوندھے جسموں کو عتابوں کے بھنور اچھے لگے
سر پھرے سیلاب کو مٹّی کے گھر اچھے لگے
جب سے میں رہنے لگا ہوں مجرموں کے شہر میں
قتل کے الزام سارے اپنے سر اچھے لگے
کجروی میری تھی یا عزمِ سفر تھا دوستو!
چلچلاتی دھوپ بے سایہ شجر اچھے لگے
ساحلِ دریا نے سمجھا ہی نہیں موجوں کا راز
بکھرے بکھرے سے گھروندے ریت پر اچھے لگے
فاتحانہ قہقہے ہیں بارشوں کے ہونٹ پر
ان کی نظروں میں ہزاروں بے بسر اچھے لگے
بے بسی کی گردشوں کے درمیاں قیصرؔجمال
روز و شب کے فاصلے کچھ مختصر اچھے لگے