جوتے پر جوتا رسید کرتے ہوئے انہوں نے اس کے سلکی سیاہ بالوں کو مٹھی میں جکڑ کر اب کے بار جوتا عین اس کے منہ پر رسید کیا تھا ۔۔۔۔۔
مسلسل روتا چلاتا وہ ہاتھ جوڑ کے ان سے معافی مانگ رہا تھا مگر ان کا خون جس قدر کھول رہا تھا ۔۔۔
ممکن تھا وہ اسے قتل کر دیتے ۔۔
حیرت سے سارا منظر ملاحظہ کرتی وہ جہاں آرا بیگم کی قمیض کا دامن کھینچنے لگی ۔۔۔۔
اور ان کے متوجہ ہونے پر پریشانی سے گویا ہوئی ۔۔
“تایا ابو کیوں مار رہے ہیں عتیق بھائی کو ؟”
سوال پوچھ کر وہ کچھ خجل سی ہو گئی تھی ۔۔۔۔
وہاں موجود سب ہی افراد نے حتی کے جوتا چھوڑ اب وائپر سے اسے پیٹتے حمید صاحب اور لال نیلے ہوتے ‘ بھاری بھاری سسکیاں بھرتے عتیق نے بھی رک کر اسے دیکھا تھا ۔۔۔۔
“دیکھ ۔۔۔۔ دیکھ اسے ذلیل انسان دیکھ !
کتنی چھوٹی ہے وہ ۔۔۔ کتنی معصوم ہے ۔۔
یہ تک نہیں پتہ اسے کہ اس کے عتیق بھائی اس کے ساتھ کیا کرنے کی کوشش کر رہے تھے ۔۔۔۔”
وہ بہت کچھ کہنا چاہتے تھے ۔۔۔۔
اسے اچھی طرح ذلیل کرنا چاہتے تھے اور شائد خود کو بھی ۔۔!!!
اکلوتا بیٹا ہونے پر انہوں نے اس کے جتنے ناز نخرے اٹھائے تھے ۔۔۔
وہ نخرے انہیں گناہ لگ رہے تھے ۔۔۔۔۔
اور ان گناہوں کا بوجھ اس قدر تھا کہ ان سے سانس لینا دشوار ہونے لگا تھا ۔۔۔۔
اپنا سر پیٹتے وہ زمین پر بیٹھتے چلے گئے تھے ۔۔
اور ان کی حالت دیکھ کر باقی سب کی بھی آنکھیں بھر آئی تھیں ۔۔۔۔
جہاں آرا بیگم ان کے قریب ہی اکڑوں بیٹھ گئی تھیں ۔۔۔
خود ان کے لیئے بھی کچھ دیر پہلے اپنی آنکھوں سے دیکھے منظر پر یقین کرنا مشکل ہو رہا تھا ۔۔۔۔
کہاں کمی رہ گئی تھی ان کی پرورش میں ۔۔
انہوں نے تو اپنے تئیں بیٹیوں سے بڑھ کر اکلوتے بیٹے کی پرورش کی تھی ۔۔۔۔۔
حمید صاحب اٹھاتے تھے اس کے بے جا نخرے مگر انہوں نے ہمیشہ سونے کا نوالہ کھلایا تھا اور شیر کہ نگاہ سے دیکھا تھا ۔۔۔۔۔
پھر آخر کیوں ؟
کس بات کی سزا ملی تھی انہیں ؟
لائونج میں اس وقت صرف گھٹی گھٹی سسکیاں تھیں ۔۔۔
عتیق کی آنکھیں رو رو کر سرخ ہو گئی تھیں اور گردن جھکے رہنے کی وجہ سے درد کرنے لگی تھی ۔۔
وہ خود میں اتنی ہمت نہیں پا رہا تھا کہ کسی کا چہرہ دیکھتا ۔۔۔۔
جانتا تھا سب کے چہروں پر حیرت ، ملامت ، نفرت ، کراہیت ہوگی ۔۔۔۔
وہ جو ہمیشہ سب کی نظروں میں محبت دیکھنے کا عادی رہا تھا ۔۔۔
اپنے لیئے ان ہی محبت بھری آنکھوں میں یہ سب دیکھنے کا یارا اس میں نہ تھا ۔۔۔۔
وہ خود بھی حیران تھا آخر شیطان نے اسے اتنا کیسے بہکا دیا ۔۔؟
اس قدر اس پر حاوی کیسے ہوا شیطان ؟
وہ اپنی نفس سے کیسے ہار گیا تھا ۔۔۔۔ ؟
انسانیت کے رتبے سے کیسے گرنے لگا تھا وہ ؟
آخر کیسے ؟
بندہ بشر تھا نہ !
اپنی کوتاہیاں بھلائے وہ سارا الزام شیطان کے سر ڈال رہا تھا ۔۔۔۔
نماز روزہ سے دوری ۔۔
غلط سنگت ۔۔
انٹنیٹ کی کھلی آزادی ۔۔۔
اس نے خود شیطان کو موقح دیا تھا اپنی ذات پر قبضہ کرنے کا ۔۔۔!!!
دوسری طرف صوفے پر بیٹھی پیر جھلاتی پانچ سالہ کبیرا کچھ سمجھ نہیں پا رہی تھی مگر اسے اب اس ماحول سے وحشت ہونے لگی تھی ۔۔۔۔
یہ وقت انعام ہائوس کا سب سے پر رونق وقت ہوتا تھا ۔۔۔۔۔
ہانیہ آپی کوئی مزیدار سی چیز بنا لیتیں ۔۔
کبھی نمکین ۔۔ کبھی میٹھی ۔۔۔
روبینہ آپا چائے بنا لاتیں ۔۔
اور پھر سب مل کر گھر کے چھوٹے سے باغیچے میں ٹھنس ٹھنسا کر بیٹھے خوش گپیاں کیا کرتے تھے ۔۔۔۔
“آج کیا ہو گیا ہے ؟”
منہ بسورے وہ اپنے کمرے میں بھاگ جانے کے ارادے سے اٹھ کھڑی ہوئی تھی جب شمائلہ بیگم نے لائونج میں قدم رکھا تھا ۔۔۔۔
ماحول میں ارتعاش سا ہوا تھا ۔۔۔۔
عتیق نے اچٹتی سی ایک نظر ان پر ڈال کر اپنا سر اور جھکا لیا تھا جبکہ خاموش آنسو بہاتے حمید صاحب پھر اونچی آواز میں رو پڑے تھے اور اگلے ہی پل پھر عتیق پر پل پڑے تھے ۔۔۔۔
الجھن بھری نظروں سے سب کے انداز پرکھتی وہ پریشان سی ہو کر ان کے اور عتیق کے درمیان آئی تھیں ۔۔۔
“کیا بات ہے حمید بھائی ۔۔۔۔ کیوں مار رہے ہیں بچے کو ؟”
انہوں نے عتیق کی ڈھال بننا چاہا تھا ۔۔۔
حمید صاحب زخمی سا ہنس دیئے ۔۔۔۔
“بچہ نہیں ہے یہ ۔۔۔ بڑا ہو گیا ہے ۔۔۔ بہت بڑا ہو گیا ہے یہ ۔۔۔۔۔۔۔
ہماری سوچ سے بھی بڑا ہو گیا ہے یہ ۔۔ ہم سے بھی بڑا ہو گیا یے یہ بیغیرت ۔۔۔!!!”
جنونی انداز میں وہ پھر اس پر جھپٹے تھے ۔۔۔۔
حق دق کھڑی شمائلہ بیگم کو جہاں آرا بیگم نے اپنے ساتھ آنے کا اشارہ کیا تھا ۔۔۔
الجھی ہوئی سی وہ ان کے ساتھ اپنے کمرے کی طرف بڑھ رہی تھہں جب ان کی نظریں کبیرا پر پڑی تھیں جو خوفزدہ نظروں سے عتیق کو پٹتا دیکھ رہی تھی ۔۔
“کبیرا یہاں آئو ۔۔۔۔!”
ماں کی پکار پر وہ فوراً ان کی طرف دوڑی تھی مگر اس سے پہلے ایک آخری نظر پھر عتیق پر ڈالی تھی ۔۔
عین اسی وقت برستی آنکھوں کے ساتھ عتیق نے بھی اس کا دھندلا سا عکس دیکھا تھا ۔۔۔۔۔
اگلے ہی پل اس نے اس چہرے کو کبھی نا دیکھنے کا ارادہ کرتے ہوئے رخ موڑ لیا تھا ۔۔۔
***********************
“یہ کوئی وقت ہے گھر آنے کا ؟
نواب ذادے نے سمجھا کیا ہے گھر کو؟
سرائے ہے یہ کوئی ؟
جب چاہا آئے ۔۔ جب چاہا چلے گئے ۔۔؟”
خاموش نظروں سے عتیق نے سوا آٹھ بجاتی گھڑی کو دیکھا تھا ۔۔۔۔
کھانا آٹھ بجے لگتا تھا ۔۔
وہ پندرہ منٹ لیٹ ہو گیا تھا اور عتیق صاحب نے آسمان سر پر اٹھا لیا تھا ۔۔۔۔۔
اکتیس سالہ عتیق کی آنکھیں چھوٹے چھوٹے بھانجے بھانجیوں کے سامنے اس عزت افزائی پر نم ہونے لگی تھیں ۔۔۔
گم صم نظروں سے اس نے شانہ تھپکتا اپنی ماں کا جھریوں بھرا ہاتھ دیکھا تھا ۔۔
بدقت مسکراتے ہوئے اس نے جہاں آرا بیگم کی طرف دیکھا تھا پھر وہ کھانے کی طرف متوجہ ہو گیا تھا ۔۔۔
روبینہ آپا اور شاہانہ کی آنکھوں میں ترحم اتر آیا تھا ۔۔۔
وہ بہنیں تھیں ۔۔ ان کا دل عرصہ ہوا نرم پڑ چکا تھا ۔۔۔۔
مگر حمید صاحب کی وجہ سے وہ کھل کر اس سے محبت نہیں جتا سکتی تھیں ۔۔
جاننے والے حیران ہوتے تھے حمید صاحب کی تو اپنے بیٹے میں جان تھی ۔۔۔
ایسا کیا کر دیا تھا آخر لاڈلے بیٹے نے کہ وہ ہر آئے گئے کے سامنے چھوٹی سے چھوٹی بات کو نقطہ بنا کر اسے ذلیل کر کے رکھ دیتے تھے ۔۔۔۔
جہاں آرا بیگم ماں تھیں ۔۔۔
وہ بھی اسے معاف کر چکی تھیں ۔۔۔
اس کا خیال رکھتی تھیں ۔۔۔
اس کا حوصلہ بڑھاتی تھیں ۔۔
اس کی پیشانی بھی چوم لیتی تھیں ۔۔۔۔
مگر ان کے دل کو در حقیقت دھکا لگا تھا ۔۔۔۔
ان کی آنکھوں میں ہمہ وقت ایک بے اعتباری رقصاں رہتی تھی ۔۔
اس کا فون چیک کرنا ۔۔۔۔
اس کے گھر سے باہر گزارے ایام کے ایک ایک لمحے کا حساب لینا عتیق حمید کو اندر سے مار گیا تھا ۔۔۔۔
مسکرانا وہ بلکل بھول چکا تھا ۔۔۔
ہاں کبھی کبھی بے تاثر چہرے کے ساتھ ہونٹ زرا پھیلا دیتا اور بس !
اپنے اس ہی انداز کی وجہ سے وہ اپنے بھانجے بھانجیوں میں “زومبی ماموں” کے نام سے مشہور ہو چکا تھا ۔۔۔
***********************
اسے کبھی کسی نے بتایا نہیں تھا مگر گزرتے وقت نے اس پر حقیقت آشکار کر ہی دی تھی ۔۔۔۔
وہ الجھی ہوئی سی اداس شام اس کے ذہن سے ہٹتی ہی نہ تھی ۔۔۔۔
وہ نا چاہتے ہوئے بھی اس شام کے بارے میں سوچتی رہتی ۔۔ سوچتی رہتی ۔۔ اور بالآخر اسے سب سمجھ آ ہی گیا ۔۔۔
عتیق کے وہ انداز وہ لمس ۔۔۔۔
وہ جب بھی سوچتی جھرجھری لے کر رہ اتی ۔۔
اس واقعے کے بعد شمائلہ بیگم نے اپنے بھائی کے گھر رہنے کا فیصلہ کیا تھا جن کی اپنی صرف دوبیٹیاں ہی تھیں ۔۔۔۔
وہ اپنا کماتی تھیں سو بھابی نے بھی کھلے دل سے ویلکم کیا تھا ۔۔
ایک تو کام بٹے گا ۔۔ پھر کچھ مالی معاونت بھی ہو جائے گی ۔۔۔۔
حمید صاحب کے گھرانے سے ان ماں بیٹی کا ملنا ملانا بلکل ختم تو نہیں ہو گیا تھا ۔۔۔۔۔
شادیوں تہواروں پر ملنا جلنا ہوتا تھا اور خوب ہوتا تھا ۔۔۔۔
ہاں مگر عتیق اور وہ ایک دوسرے کے لیئے بلکل اجنبی ہو گئے تھے ۔۔۔
بلکل اجنبی ۔۔۔۔
***********************
“یہ لڑکی پٹ جائے گی میرے ہاتھوں سے ۔۔۔!”
ان کے اعلانیہ انداز پر جنت بیگم نے منہ بنایا تھا ۔۔۔
“پٹ ہی نا جائے کہیں ۔۔۔!!”
بیٹی سے ان کی بے پناہ محبت سے جنت بیگم سخت بیزار رہتی تھیں ۔۔۔
“نہیں اس بار سچ مچ پٹے گی وہ مجھ سے ۔۔۔۔”
“اگر سچ مچ پیٹیں تو مجھے بتا دیجیئے گا ۔۔۔
میں ویڈیو بنا لوں گی ۔۔
ایسا یادگار موقح پھر کبھی آئے نا آئے ۔۔۔۔۔”
شمائلہ بیگم کے یقین دلاتے انداز پر سوہا شوخی سے بولی تھی ۔۔۔
بھتیجی کی بات پر وہ جھینپ کر ہنس پڑیں ۔۔۔
“ایک تو موسم اتنا خراب
اس پر بخار !
پھر بھی نکل پڑیں سہیلی کو برتھ ڈے وش کرنے ۔۔۔
بندہ پوچھے بھئی وہ وش نا کرتی تو کون سا گوہر بی بی کو ننھا کاکا رہ جانا تھا ۔۔۔”
“پھپھو ایک ہی تو دوست ہے وہ کبیرا کی ۔۔۔۔ وہ خود تو دبو ہے ۔۔۔ گوہر ہی اسے سنبھالتی ہے کالج میں ۔۔۔۔۔!
اتنا حق تو بنتا ہے ایسی عظیم بیسٹ فرینڈ کا ۔۔۔”
سارہ جو کبیرا سے ایک سال سینئر تھی نرمی سے سمجھانے لگی ۔۔۔
“مجھے کچھ نہیں پتہ ۔۔
بس یہی پتہ ہے کہ اسے بخار تھا اور موسم خراب ہے ۔۔۔۔
اور اس گوہر کی بچی کا گھر بہت دور ہے!”
“ابو بھی شہر سے باہر ہیں ۔۔”
سوہا زیر لب بولی تھی پھر ماں کی گھوری پر سر کھجا کر رہ گئی ۔۔
جنت بیگم کے چہرے پر بڑا بڑا لکھا تھا ۔۔
“ہاں ضرور ۔۔۔ میں بھیجتی اپنے شوہر کو ایسے موسم میں اس نواب ذادی کو لینے کے لیئے ۔۔!”
“وہ اکیلے گئی کیسے ؟
میری تو حیرت ہی ختم نہیں ہو رہی ۔۔
کب اتنی بہادر ہوئی وہ !”
شمائلہ بیگم داخلی دروازے کے آگے چکراتی پھر رہی تھیں اور نظریں گڑگڑاتے سرمئی بادلوں سے بھرے آسمان پر تھیں ۔۔۔
“جبار بھائی آئے تھے حلیم لے کر
انہیں کے ساتھ گئی تھی
مگر جبار بھائی سے ایسی امید نہیں ہے کہ وہ واپس بھی لائیں گے ۔۔۔۔
وہ چند ایک لوگوں پر ہی مہربان ہوتے ہیں!”
اپنے خالہ زاد کزن کا حوالہ دیتے ہوئے سوہا نے کن اکھیوں سے سارہ کا گلابی پڑتا چہرہ دیکھا تھا ۔۔
“ائے شمائلہ ۔۔۔! تمہارے دروازے پر ٹہلنے سے وہ جلدی تو نہیں آ جائے گی ۔۔۔۔
اس مہارانی کو جب آنا ہوگا وہ تب ہی آئے گی ۔۔۔ سکون سے بیٹھو ۔۔!”
“میری بیٹی گھر سے باہر ہے اور میں سکون سے بیٹھوں !”
“تو بیٹی کو اتنی آزادی کیوں دی آخر ؟
جو نکل پڑی وہ بن بتائے”
شمائلہ بیگم نے ناگواری سے اپنی بھابھی کو دیکھا تھا ۔۔۔۔
اور پھر ایک ہلکی پھلکی سی روایتی زنانہ قسم کی جنگ چھڑ گئی تھی۔۔۔
جس سے سارہ اور سوہا کو کوئی فرق نہیں پڑا تھا ۔۔
یہ تو معمول کی لڑائیاں تھیں ۔۔
دونوں خواتین پل میں لڑ پڑتیں اگلے ہی پل بیٹیوں کے نصیبوں سے لے کر
، دال سبزی ، ڈرامہ فلم
کسی بھی موضوع پر باتیں کرتی پائی جاتیں ۔۔۔۔
“میسج کیا اسے ؟”
سارہ نے سوہا سے پوچھا تھا ۔۔۔
“ہزاروں کر چکی ہوں ۔۔۔
صرف شروع کے چند میسجز کا جواب دیا ہے ۔۔”
سوہا کے بتانے پر سارہ کے چہرے پر تشویش کے آثار نمایاں ہوئے تھے ۔۔۔
اگلے ہی پل وہ اپنا فون اٹھا کر اپنے کمرے میں گھس گئی تھی ۔۔
***********************
“زہے نصیب !
آج آپ نے یاد کیسے کر لیا ؟”
دوسری طرف سے آتی سنجیدہ سی آواز میں شرارت کی ہلکی سی رمق بھی تھی ۔۔۔
جس نے سارہ کی پیشانی تر کر دی تھی ۔۔۔
“کبیرا آپ کے ساتھ گئی تھی ؟”
“تم جل رہی ہو ؟”
لہجے کی شوخی میں اضافہ ہوتا دیکھ کر سارہ نے ایک ہی سانس میں سب بتانے کا فیصلہ کیا تھا ۔۔۔۔
اور سب سننے کے بعد دوسری طرف سے ایک بیزار سا “ہمم” ہی کہا گیا تھا ۔۔۔۔
“آپ پلیز اس کی سہیلی کے گھر دیکھ آئیں ۔۔۔ پھپھو پریشان ہو رہی ہیں ۔۔۔!!!”
“میں تمہاری بات نہیں ٹال سکتا لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے میں ٹریفک میں پھنسا ہوا ہوں ۔۔۔۔۔۔!”
“اوہ !”
سارہ کے ہونٹ بیساختہ سکڑے تھے ۔۔۔
اچٹتی سی ایک نظر اس نے کمرے میں داخل ہوتی سوہا پر ڈالی تھی ۔۔
“مگر میں جب بھی ٹریفک جام سے نکلا اسے ضرور لینے چلا جائوں گا ۔۔۔
اول تو انشااللہ وہ جلد ہی خود ہی پہنچ جائے گی ۔۔۔”
جبار کے حوصلہ افزا انداز پر اس نے بھی مدھم سا “انشااللہ” کہا تھا اور پھر اس کی آگے کی باتیں نظر انداز کرتے ہوئے کال کاٹ دی تھی ۔۔۔
“کتنی بری ہو تم !
جبار بھائی کا کتنا دل دکھتا ہوگا تمہارے اس انداز پر۔۔۔۔”
“دکھتا ہے تو دکھتا رہے ۔۔!
میں نے نہیں کہا انہیں ویسی باتیں کرنے کو ۔۔۔”
“ایسی ویسی باتیں ! کیسی کیسی باتیں ؟؟”
سوہا کے کان کھڑے ہوئے تھے جبکہ سارہ زبان دانتوں تلے دبا کر کمرے سے باہر بھاگ گئی تھی ۔۔۔۔!
***********************
خود کو کوس کوس کر جب وہ تھک گئی تو گوہر کو کوسنا شروع کر دیا جس نے ڈھیرروں قسمیں دے کر اسے آنے پر مجبور کر دیا تھا ۔۔۔۔
وہ سو فیصد پر یقین تھی کہ جبار بھائی ایک بار اس سے واپسی کا تو ضرور پوچھیں گے اور پھر وہ کچھ جھجک کر انہیں واپسی کی ٹاٹمنگ بتا دے گی ۔۔۔
لیکن سلام تھا جبار کو جنہوں نے اس کے بائک سے اترنے کے بعد پلٹ کر ایک نظر بھی اس پر نہیں ڈالی تھی اور بائک اڑاتے لے گئے تھے ۔۔
گوہر کا کوئی بھائی بھی نہیں تھا ۔۔۔۔۔
جس سے وہ مدد مانگ لیتی
بے بسی سی بے بسی تھی ۔۔
“غلطی کی ہے تو اب بھگتو کبیرا بیٹا !”
اس سے کھڑا ہونا مشکل ہو رہا تھا ۔۔۔۔۔
بخار زور پکڑ چکا تھا اور جسم ٹوٹنے لگا تھا ۔۔۔۔
“واپس گوہر کے گھر چلی جاتی ہوں ۔۔۔۔ وہ روک بھی رہی تھی ۔۔
رک جاتی ۔۔۔
ایویں ای خواری اٹھائی ۔۔۔۔!”
فوٹ پاتھ پر کھڑے کھڑے اس نے گردن موڑ کر گوہر کے گھر کی گلی دیکھی تھی ۔۔۔
وہ دو قدم پیچھے ہوئی تھی جب سلور پرانی سی گاڑی اس کے قریب آ رکی تھی ۔۔۔
ٹھٹھک کر اس نے گاڑی پر غور کیا ۔۔
پہچانا ! اور ایکسائٹڈ سی ہو کر قریب چلی آئی تھی مگر پھر ۔۔۔
گاڑی کا شیشہ نیچے ہوا اور اندر بیٹھے عتیق کو دیکھ کر وہ فوراً ہی سیدھی ہو گئی تھی ۔۔۔۔
اس کا خیال تھا حمید صاحب ہوں گے مگر ۔۔۔۔۔۔
عتیق نے اس کی طرف دیکھا نہیں تھا مگر جانتا تھا اس کے کیا تاثرات ہوں گے ۔۔
“اکیلی یہاں کیوں کھڑی ہو ؟”
وہ ہرگز اس سے مخاطب ہونے کا خواہش مند نہیں تھا مگر وہ کافی فاصلے سے اسے دیکھ چکا تھا ۔۔
وہ کب سے اکیلی وہاں کھڑی تھی .۔۔
تعلق تو ایک تھا نا ۔۔۔
دونو مانتے نا مانتے ۔۔۔
جب ہی وہ اسے نظر انداز کرتا نہیں جا پایا تھا ۔۔۔
“مم۔۔۔۔ میں ۔۔۔ اپنی سہیلی کے گھر آئی تھی ۔۔ آج اس کی سالگرہ ہے !
مگر مجھے کوئی رکشہ نہیں مل رہا ۔!”
کبیرا کی آواز بہت دھیمی تھی ۔۔
عتیق کچھ لفظ ہی سمجھ پایا تھا جو معاملہ سمجھانے کے لیئے کافی تھے ۔۔۔
“آئو میں گھر چھوڑ دوں !”
دل پر پتھر رکھ کر اس نے کچھ لمحوں کی خاموشی کے بعد اسے آفر کر دی تھی ۔۔۔
یہ جانتے ہوئے بھی کہ اس کا جواب انکار ہوگا !
“نہیں شکریہ ۔۔۔۔ رکشہ مل جائے گا ۔۔!”
انگلیا چٹخاتے ہوئے اس نے ہوا سے پھڑپھڑاتی چادر کو سنبھالا تھا اور گاڑی سے کچھ دور کھڑی ہو گئی تھی ۔۔۔
عتیق کا دل تو چاہا شکر مناتا اسے یہیں چھوڑ جائے ۔۔
نہیں تو نا سہی ۔۔۔
مگر ۔۔۔۔۔۔
چادر اچھی طرح اپنے گرد لپیٹ کر کبیرا نے پھر اسے دیکھا تھا جو سگرٹ کے کش لگاتا اجنبی نظروں سے آس پاس کا جائزہ لے رہا تھا ۔۔
“یہ جاتے کیوں نہیں ؟”
“یہ آتی کیوں نہیں ؟”
دونوں کے ذہن ایک ساتھ جھنجلائے تھے ۔۔۔۔
اس کا اصول تھا پورے دن میں صرف ایک ہی سگرٹ پینی ہے مگر اس وقت ایک اور سگرٹ پینے کی شدید خواہش ہوئی تھی ۔۔۔۔
ابھی وہ خود کو سمجھا ہی رہا تھا جب شور کی آواز پر چونک کر وہاں دیکھا تھا جہاں کچھ دیر پہلے کبیرا موجود تھی ۔۔۔
اب وہاں چھ سات لوگوں کا مجمح تھا ۔۔۔۔
تیزی سے گاڑی سے نکل کر وہ حواس باختہ سا اس مجمح کی طرف بڑھا تھا ۔۔۔۔۔
نیم بیہوشی کی حالت میں پڑی کبیرا کو دیکھ کر وہ اچھا خاصہ پریشان ہو گیا تھا
پھر کچھ شش و پنج کے عالم میں اسے اٹھاتے ہوئے وہ چونک کر اس شخص کی طرف متوجہ ہوا تھا جو ناگواری سے اس کا کبیرا سے تعلق کا پوچھ رہا تھا ۔۔
“کون ہے بے توُ ؟
ہیرو بن کر آ گیا ہے ہیں ۔۔۔
جوان تنہا لڑکی کو ایسے کیسے اٹھا کر چل دیا
کب سے دیکھ رہا ہوں بچی کو پریشان کر رہا ہے ۔۔”
ماتھے پر بیشمار تیوریاں سجا کر عتیق نے اس شخص پر ایک اچٹتی سی نظر ڈالی تھی اور پھر بلکل نظر انداز کر دیا تھا مگر وہ شخص بھی بڑا کوئی فرض شناس شہری معلوم ہوتا تھا جو دیوار کی طرح اس کی راہ میں حائل ہو گیا تھا۔۔۔۔
“کزن ہے یہ میری !”
چبا چبا کر کہتے ہوئے وہ اپنے
بازئوں میں کراہتی کبیرا کی طرف متوجہ ہوا تھا ۔۔۔
“جی انکل ۔۔۔۔ کزن ہیں یہ میرے ۔۔۔۔۔!!”
اس کی آواز دھیمی سے دھیمی ہوتی آخر میں بلکل ہی گھٹ گئی تھی ۔۔۔
زبردست سی ایک گھوری اس شخص پر ڈال کر عتیق اپنی گاڑی کی طرف بڑھ گیا تھا جبکہ پیچھے کھڑے صاحب لفظ “انکل” ہضم کرنے کی کوشش کرنے لگے تھے ۔۔۔
***********************
شرمندہ سی نظروں سے کبیرا نے اسے دیکھا تھا جو اسے ہاسپٹل لے جانے سے لے کر اب گھر واپسی کے عرصے میں بھی اس سے بلکل مخاطب نہیں ہوا تھا ۔۔۔۔
بدقسمتی سے اس کا اپنا فون ڈیڈ ہو چکا تھا جبکہ عتیق کا فون کچھ دنوں پہلے ہی سٹریٹ کرمنلز نے چھین لیا تھا ۔۔۔
“آئندہ کبھی ایسی حرکت نہیں کروں گی ۔۔!”
کوئی دسویں بار اس نے خود سے عہد کیا تھا ۔۔۔۔
تیز بارش کے بعد اب ہلکی ہلکی پھوار برس رہی تھی ۔۔۔
موسم سردیوں کا تھا سو شام ڈھلے ہی لوگ گھروں میں بند ہو چکے تھے ۔۔۔
ہر طرف ایک اداس سی خاموشی تھی ۔۔
ٹھنڈی سانس بھر کر وہ پھر عتیق کی جانب متوجہ ہوئی تھی کچھ کہنے کو لب وا کیئے تھے مگر پھر چپ سی رہ گئی تھی ۔۔۔
گھر کا سیاہ گیٹ سامنے تھا ۔۔۔
گاڑی سے اترتے ہوئے اسے زور کا چکر آیا تھا ۔۔۔
عتیق نے بروقت ہی اسے شانوں سے تھام لیا تھا ۔۔
کبیرا نظریں نہیں اٹھا پائی تھی ۔۔
ایک دوسرے کے پہلو میں وہ ایک دوسرے کو نظر انداز کیئے گیٹ تک پہنچے تھے ۔۔۔
خوش قسمتی سے گیٹ کا چھوٹا دروازہ کھلا ہوا تھا ۔۔۔
جونہی وہ دونوں ایک ساتھ اندر داخل ہوئے
سامنے ہی برامدے میں میں موجود تمام افراد کی گردنیں ان کی طرف گھومی تھیں ۔ اور سب کے یوں دیکھنے پر وہ دونوں ہی ایک دوسرے سے کافی دور ہوتے جزبز ہو گئے تھے ۔۔۔۔
“اسلام عل۔۔۔!!”
کبیرا کا سلام ادھورا ہی رہ گیا تھا جب حمید صاحب نے آگے بڑھ کر عتیق کے گال پر ایک گونجدار تھپڑ رسید کر دیا تھا ۔۔
دنگ نظروں سے انہیں دیکھتی کبیرا مجرمانہ سے احساس میں گھر گئی تھی ۔۔۔۔
اور عتیق !
اس نے بس ایک زخمی نظر اپنے باپ پر ڈالی تھی جو چلا چلا کر اس سے پوچھ رہے تھے کہ اس نے پھر کبیرا کی طرف بڑھنے کی ہمت بھی کیسے کی !
“کہاں لے کر گئے تھے ؟
بتائو مجھے کہاں لے گئے تھے بچی کو ؟
یہاں اس کی ماں کی جان پر بنی ہوئی ہے ۔۔۔۔ تمہیں کوئی فکر نہیں ؟
اس کی ماں کی اجازت کے بغیر تم اسے کہاں لے گئے تھے
اور آخر کیوں لے گئے تھے ؟”
ممکن تھا وہ اس پر پھر سے ہاتھ اٹھا دیتے جب کبیرا شرمندگی سے پر لہجے میں ایک ہی سانس میں بولی تھی ۔۔
“تایا ابو !
عتیق بھائی نے میری مدد کی ہے ۔۔
مجھے بخار ہو رہا تھا ۔۔۔
امی نے مجھے منح بھی کیا تھا مگر میں پھر بھی اپنی دوست کے گھر چلی گئی تھی ۔۔۔
اور راستے میں بیہوش ہو گئی تھی ۔۔!
عتیق بھائی نا آتے تو نا جانے کیا ہوتا ۔۔۔
مجھے ڈاکٹر کے پاس بھی لے گئے تھے یہ ۔۔۔
میرا فون ڈیڈ تھا اور ان کا فون چوری ہو گیا تھا نہ !”
تمام قصہ ان کے گوش گزار کرتے ہوئے اس کی بھیگی نظریں اس ہی کو چوڑی پشت پر ٹکی تھیں جو گم صم سا گیٹ عبور کرتا چلا گیا تھا ۔۔۔
حمید صاحب کو اندازہ تو پہلے ہی ہو گیا تھا کہ انہوں نے نا حق ہی اس پر ہاتھ اٹھایا تھا
اور کبیرا سے سب سننے کے بعد وہ اور بھی شرمندہ ہو گئے تھے ۔۔
مگر ظاہر کیئے بغیر ہونق سی شمائلہ بیگم کو “خدا حافظ” کہتے اور کبیرا کا سر تھپکتے ہوئے نکلتے چلے گئے تھے ۔۔۔
***********************
“آئی کانٹ بلیو اٹ یار !
اتنے لمبے تڑنگے تمہارے وہ “زومبی بھائی”
اور تمہارے تایا ابو نے کیسے سب کے سامنے ان کے کان کے نیچے بجا دیا ۔۔۔ اور وہ چپ چاپ سر جھکائے نکل پڑے ۔۔”
سوہا کی حیرت ہی ختم نہیں ہو رہی تھی ۔۔۔۔
“حمید انکل کو کیا دشمنی ہے آخر اپنے ہی بیٹے سے ؟”
الجھی ہوئی سی سوہا اس سے پوچھنے لگی جو ٹشو سے ناک رگڑتی اپنی طرف ہی دیکھتی سارہ کو دیکھ کر رہ گئی تھی ۔۔
“ہو گا کوئی مسئلہ ۔۔۔ ہر کسی کے معاملے میں ٹانگ نہیں اڑاتے ۔۔!
تم جائو چائے بنا کر لائو ۔۔!”
کچھ بھنک سارہ کے کان میں بھی پڑ چکی تھی جو وہ بگڑ کر گویا ہوئی تھی ۔۔۔
“دفح ۔۔۔۔ میں نے ٹھیکا نہیں لیا چائے بنانے کا ۔۔
صبح سے دس بار بنا چکی ہوں ۔۔
دو گھنٹے میں دو بار بنا چکی ہوں ۔۔
اب اور نہیں ۔۔۔۔۔”
“اور کرتی ہی کیا ہو تم ؟
ایک چائے بنانے کی ذمہ داری ہے ۔۔ اس پر بھی نخرے ۔۔۔۔!!!”
سارہ بڑبڑاتی ہوئی آدھا گھنٹہ پہلے ہی پی گئی چائے کے برتن سمیٹتی نکلنے لگی تھی جب پیچھے سے کبیرا بولی تھی ۔۔۔۔
“میں نہیں پیوں گی ۔۔”
“کیوں ؟”
سارہ کا انداز لڑنے والا تھا ۔۔۔
“کیونکہ ہر کوئی تمہاری طرح چائے کا نشئی نہیں ہے ۔۔”
سوہا کے جل کر کہنے پر سارہ نے آنکھیں گھمائی تھیں
“مطلب تم بھی نہیں ؟”
“اب اتنی آس سے پوچھ رہی ہو ۔۔۔۔ اچھا بنا لینا ۔۔”
احسان جتانے والے انداز میں کہتی وہ دونوں کے گھورنے پر ڈھٹائی سے ہنس پڑی تھی ۔۔
***********************
نم ہوتی آنکھوں سے بازو ہٹا کر اس نے خالی خالی نظروں سے کمرے کے بند دروازے کو دیکھا تھا
جس کے دوسری طرف موجود جہاں آرا بیگم مسلسل دروازے پر دستک دیتی اسے آوازیں بھی دے رہی تھیں ۔۔۔
“میرا بچہ ۔۔۔۔۔۔ دروازہ کھول
تجھے پتہ تو ہے اپنے باپ کا
پھر کیوں بار بار دل پر لے لیتا ہے
آجا باہر عتیق ۔۔۔۔۔
کھانا کھا لے شاباش ۔۔ باہر آجا تیری پسند کی سبزی بنائی ہے
اگر تو کھانا نہیں کھائے گا تو مجھے نیند نہیں آئے گی ۔۔۔۔
کھانے سے کیا ناراضگی ؟
ماں کو ایسے نہیں ستاتے عتیق ۔۔”
ان کی یہ باتیں اپنے کمرے میں سگرٹ پھونکتے حمید صاحب بھی سن رہے تھے ۔۔۔
انہیں بھی اس طرح اپنے لاڈلے بیٹے کو چھوٹی چھوٹی بات پر دو ٹکے کا کر دینا اچھا نہیں لگتا تھا ۔۔۔۔
بلکہ اُس سے بھی زیادہ اذیت وہ اٹھاتے تھے ۔۔۔ اور یہ بات صرف وہی جانتے تھے ۔۔
پرورش تو اس کی انہوں نے ہی کی تھی نا ۔۔ سو وہ خود کو بھی قصوروار سمجھتے دوہری اذیت اٹھا رہے تھے ۔۔۔۔ یہ خیال ان کی روح کھینچنے لگتا کہ اگر اس دن وہ اچانک اس کے کمرے میں نا جاتے تو کیا ہو جاتا ۔۔
وہ خود بھی خود کشی کر لیتے اور اس سے پہلے عتیق کو مار دیتے ۔۔۔ ہاں وہ ایسا ہی کرتے ۔۔۔۔۔۔!
اور اب بھی وہ جو کر رہے تھے ان کا دل اس سب سے دُکھتا تو تھا ۔۔۔ مگر مطمئین بھی تھا ۔۔
اگر وہ کچھ وقت ناراض رہ کر معاف کر دیتے تو اس کے خیال میں یہ بات بہت معمولی ہو جاتی ۔۔۔
تھوڑی سی مار ۔۔ تھوڑی سی ناراضگی اور بس !
وہ چاہتے تھے وہ اپنی غلطی کی گہرائی جانے ۔۔۔۔ اسے ہمیشہ یاد رکھے۔۔ اور اس کے لیئے ان کی یہ بظاہری ناراضگی ضرری تھی ۔۔۔۔
بہت ضروری تھی ۔۔۔!!!
***********************
آئسکریم کا خالی کپ بے پروائی سے دیوار کے اس پار اچھالتی وہ اپنی طرف بھاگی آتی سوہا کی طرف متوجہ ہوئی تھی ۔۔۔
“لٹس ناچو !!”
اس کے کہنے کی دیر تھی ۔۔ بغیر کچھ پوچھے کبیرا اچھل کر دیوار سے نیچے اتری تھی اور ٹھمکے لگانے شروع کر دیئے تھے ۔۔۔۔
دونوں کی اچھل کود سے چھت کی زمین لرز گئی تھی اور نیچے کمروں کی چھت!! جو جنت بیگم اور شمائلہ بیگم نے چیخ چیخ کر انہیں رکنے پر مجبور کر دیا تھا ۔۔۔
اب وہ کافی “مہذب” ڈانس اسٹیپ کر رہی تھیں ۔۔۔۔
دھلے ہوئے کپڑوں کی بالٹی لیئے اوپر آنے والی سارہ منہ کھولے ان دونوں کو دیکھنے لگی ۔۔۔۔
اس سے پہلے کے وہ وجہ پوچھتی ۔۔۔۔
سوہا کی نگاہ اس پر پڑ گئی اور وہ آنکھیں مٹکاتی شیطانی مسکراہٹ مسکراتی اس کی طرف بڑھنے لگی ۔۔۔
سارہ کو خوف آیا ۔۔۔۔
“کیا ہے ؟”
“بنو تیری اکھیاں ۔۔ سرمے دانی ۔۔ بنو تیری اکھیاں ۔۔۔”
جواب میں وہ لہک لہک کر گاتی سارہ کے گرد چکر کاٹنے لگی ۔۔۔
مطلب سمجھ کر سارہ جھینپتے ہوئے ہنس پڑی جبکہ کبیرا کی چیخ بیساختہ تھی ۔۔۔۔
“ہیں ؟؟؟؟؟ سارہ کی شادی ہو رہی ہے ؟”
“جی ہاں ۔۔۔۔ آج رات خالہ خالو رخصتی کی تاریخ لینے آئیں گے ۔۔۔!”
“ہائے اللہ آج رات ؟
مجھے کسی نے بتایا ہی نہیں ۔۔۔ کتنی تیاریاں کرنی ہیں ۔۔ یا اللہ ! کون کون آئے گا بھلا ؟”
“ہولی ہو جائو میڈم ہولی ہو جائو ۔۔۔۔۔
صرف خالہ خالو آئیں گے اور مہ جبیں آپی اور ان کے میاں جی ۔۔ اور رہی بات تمہاری اور میری تیاری کی تو میں اور تم تیاری کے نام پر بس کھانا تیار کریں گے ۔۔۔
یہ دستور دنیا ہے ! چھوٹی بہنوں کو ایسے موقح پر چھپنے کی یا گندہ لگنے کی خاص ہدایات کی جاتی ہیں ۔۔۔۔”
سوہا کے دلگیر انداز پر کبیرا نے آنکھیں گھمائی تھیں جبکہ سارہ اس کے سر پر ہاتھ مارتی کپڑے تار پر ڈالنے لگی تھی ۔۔۔
“وہ اس لیئے کیا جاتا ہے کہ آنے والے کہیں چھوٹی کا ہاتھ نا مانگ لیں ۔۔۔ یہاں تو معاملہ ہی الگ ہے ۔۔ سارہ ہاتھ سمیت پوری کی پوری پہلے ہی ان کی ہے ۔۔۔۔
اور ہم معصوم نظر بھی کہاں آتے ہیں سارہ بی بی کے شاہکار حسن کے آگے ۔۔۔!”
“اب یہ تم نے کچھ زیادہ ہی کہ دیا ۔۔۔۔!”
سارہ خالی بالٹی جھلاتی ہوئی بولی تھی ۔۔۔۔۔ سنہری دھوپ میں اس کے چہرے سے بھی سنہری کرنیں پھوٹتی نظر آ رہی تھیں ۔۔۔
سوہا نے بھی کچھ سنجیدگی سے کچھ خفگی سے سارہ کی بات پر اثبات میں سر ہلایا تھا ۔۔۔۔۔
“سارہ ! سارہ ! جانے سے پہلے دو ٹھمکے لگا لو ہمارے ساتھ ۔۔۔ پھر ساتھ ہی چلے ہیں ۔۔”
کبیرا کا شائد ٹھمکے لگانے سے دل نہیں بھرا تھا جو بولی تھی۔۔۔
ایک گہری سانس بھر کر سارہ نے اسے دیکھا تھا پھر بالٹی سائڈ رکھ کر دوپٹہ کمر کے گرد باندھ کر تیار ہو گئی ۔۔۔۔۔
“راجہ کی آئے گی بارات ۔۔۔۔ رنگیلی ہوگی رات ۔۔۔۔ مگن ہم ناچیں گے ہووو ۔۔۔۔۔!!”
زمین پر ایک بار پھر زلزلہ آ گیا تھا ۔۔۔ اور اس بار زیادہ شدت کا آیا تھا پھر ۔۔۔ جو تب ہی رکا تھا جب بکتی جھکتی جنت بیگم جوتی اٹھائے ان کے سر پر ہہنچی تھیں ۔۔۔۔
************************
حمید صاحب کی قمیض میں بٹن ٹانک کر انہوں نے آنکھوں سے نظر کا چشمہ اتار کر قمیض کے ساتھ ہی سائڈ رکھا تھا اور انہیں دیکھا تھا جو اپنے بالوں میں رنگ کر رہے تھے ساتھ ہی کوئی پرانا گانا بھی گنگنا رہے تھے ۔۔۔۔
ان کا موڈ اچھا لگتا تھا ۔۔۔
سو گلا کھنکھار کر گویا ہوئی تھیں ۔۔
“گھر کتنا سونا سونا رہنے لگا ہے بچیوں کی شادیوں کے بعد ۔۔۔
آپ لوگ تو باہر چلے جاتے ہیں ، مجھے گھر کی خاموشی کاٹ کھانے کو دوڑتی یے ۔۔۔۔”
“تم بھی خاموشی کو کاٹ کھا لیا کرو بیگم ۔۔ حساب برابر !”
حمید صاحب کا موڈ واقعی خوشگوار لگتا تھا ۔۔ مگر جو مزاق انہوں نے کیا تھا وہ جہاں آرا بیگم کو کچھ خاص پسند نہیں آیا تھا ۔۔۔
پر یہ وقت نخرے دکھانے کا نہیں تھا ۔۔۔۔!!
انہیں جو بات کرنی تھی ابھی ہی کرنی تھی ۔۔
ایک تو حمید صاحب موڈی بہت تھے ۔۔۔
“چار بچیوں کو بیاہا ہے ۔۔۔ میں کیا کہنا چاہ رہی ہوں آپ سمجھ تو اچھی طرح گئے ہوں گے ۔۔!”
جہاں آرا بیگم کی بات پر اس بار انہوں نے فقط ہنکار بھری تھی جسے جہاں آرا بیگم نے بہت جانا تھا ۔۔۔
“میں عتیق کی شادی کا سوچ رہی ہوں ۔۔۔ ماشااللہ کسی چیز کی کمی نہیں ۔۔۔۔۔ اپنا کماتا ہے اور اچھا کماتا ہے ۔۔ تو ؟؟”
“تو کیا بھئی ؟”
وہ جو بہت غور سے انہیں سن رہے تھے ۔۔ ان کے چپ ہونے پر بگڑے ۔۔۔ ساتھ ہی شیشے میں انہیں گھورا بھی تھا ۔۔
“یہ شادیوں کا ٹھیکا تمہارا ہے ۔۔۔
جو مرضی کرو ۔۔! میں اپنے فرائض نبھا لوں گا ۔۔۔”
جہاں آرا بیگم کھل اٹھی تھیں ۔۔
“میری نظر میں تین چار لڑکیا ہیں ۔۔۔۔ لیکن ہانیہ کی جو نند ہے نا ۔۔ مجھے وہ بہت زیادہ پسند ہے ۔۔ رونق لگا دیتی ہے جہاں جاتی ہے
ہنس مکھ بھی ہے ۔۔۔ سگھڑ بھی ہے ۔۔۔۔۔ ہانیہ بھابی جیسے رشتے سے منسوب ہونے کے باوجود اس کی تعریفیں کرتی ہے ۔
ہمارے گھر کو ایسی ہی بہو کی ضرورت ہے !”
پر جوش سے انداز میں کہتے کہتے وہ ٹھنڈی پڑ گئی تھیں جب ان کی نظریں شوہر کے سپاٹ چہرے پر پڑی تھیں ۔۔۔۔
“کیا بات ہے ؟”
“کچھ نہیں ۔۔۔۔ دراصل ! میں کبیرا کے لیئے سوچ رہا تھا ۔۔”
جس بات کا دھڑکا انہیں لگا تھا وہی بات حمید صاحب نے کر ڈالی تھی ۔۔
وہ گردن کھجانے لگیں پھر سرسری انداز میں گویا ہوئیں ۔۔۔
“وہ بہت چھوٹی ہے عتیق سے ۔۔۔
آٹھ دس سال چھوٹی !”
“گیارہ !!!!”
حمید صاحب نے اطمینان سے کہا تھا ۔۔۔۔
“عمر بس نمبر ہے بیگم ۔۔۔
ہماری روبینہ بھی تو اپنے شوہر سے چار سال بڑی ہے ۔۔! کیا ہو گیا پھر اس سے ؟ جب میاں بیوی راضی خوش ہیں تو عمر کی کوئی اہمیت نہیں رہ جاتی ۔۔۔۔!
اب بہتر یہ ہے کہ تم مجھے کبیرا کے لیئے انکار کی اصل وجہ بتائو تاکہ میں اس حساب سے جواب دے کر تمہیں مطمئین کروں ۔۔!”
جہاں آرا بیگم کھسیانی سی ہنسی ہنس دیں ۔۔۔
حمید صاحب انہیں اچھی طرح سمجھتے تھے ۔۔!!!
“سچ کہوں تو وجہ وہی واقعہ ہے ۔۔۔۔
میں جانتی ہوں کبیرا بہت چھوٹی تھی اس وقت ۔۔ اس کا کوئی قصور ہو ہی نہیں سکتا تھا ۔۔۔۔
اس لیئے میں اسے کچھ نہیں کہتی
مگر بہو کے طور پر میں اس کے ساتھ زیادتی کر جائوں گی ۔۔۔
مجھے ڈر ہے وہ ہر وقت سامنے ہوگی تو آپ عتیق کو اور بھی باتیں سنائیں گے ۔۔۔۔ اور میں ماں ہوں ۔۔ برداشت نہیں کر پائوں گی اور کبیرا کو باتیں سنائوں گی ۔۔۔۔۔۔
آپ عتیق پر چیختے رہیں گے ، میں کبیرا پر چلاتی رہوں گی ۔۔
کچھ اندازہ ہے کیا حالات ہو جائیں گے گھر کے ؟
اگر وہ سب نا ہوا ہوتا تو میں آپ سے پہلے کبیرا کا نام لیتی ۔۔!”
وہ واقعی ایسا ہی کرتیں اور اس وقت بھی انہوں نے جو کچھ کہا تھا ۔۔۔ حمید صاحب جانتے تھے کچھ غلط نہیں کہا تھا ۔۔۔۔
تب ہی خاموشی کے لمبے وقفے کے بعد گلا کھنکھار کے گویا ہوے تھے ۔۔۔
“عتیق کی مرضی جاننا بھی ضروری ہے ۔۔۔۔ تم سمجھ رہی ہو نا ؟ ہو سکتا ہے وہ کبیرا میں ۔۔۔۔
تم یوں کرنا اس کے سامنے پہلے کبیرا کا نام رکھنا ۔۔۔۔ بلکل بھی زور مت ڈالنا نا کسی قسم کی نا پسندیدگی ظاہر کرنا ۔۔
تاکہ وہ کھلے دل و دماغ سے اپنا فیصلہ کر سکے ۔۔۔
اگر ہاں کر دے تو سو بِسْمِ اللّٰہ ۔۔۔
نہیں تو تم جسے چاہو بہو بنا لائو ۔۔۔۔!”
جہاں آرا بیگم کو آئڈیا پسند آیا تھا ۔۔۔۔ اب بس انہیں عتیق کے گھر آنے کا انتظار تھا ۔۔۔۔
************************
“آپ لوگ مجھے اور کتنے کوڑے ماریں گے اس غلطی کو لے کر ؟؟
مانتا ہوں میں بہت غلط کر رہا تھا ۔۔۔ مگر اللہ نے مجھے بچا لیا اس گناہ سے ۔۔!
جانتی ہیں ! میرا دل مطمئین رہتا ہے ۔۔ اسے سکون رہتا ہے کہ اللہ نے معاف کر دیا ہے مجھے ۔۔
لیکن اللہ کے بندے معاف نہیں کرتے ۔۔۔ یہ انسان کو ذہنی اذیت دیتے رہتے ہیں ۔۔۔۔!”
کبیرا سے رشتے کا سنتے کے ساتھ ہی وہ پھٹ پڑا تھا ۔۔۔۔۔۔
بہت عرصے سے صبر کر رہا تھا وہ ۔۔۔
اندر پکتا لاوا باہر آنے کو بیقرار ہوا تھا ۔۔
“میں نے صرف بات کی ہے ۔۔۔۔ ظاہر ہے پہلے انسان ایسے موقعوں پر اپنوں کا ہی سوچتا ہے اور تمہاری ننھیال ددھیال میں اور کوئی کزن ہے ہی نہیں ایسی جس کا نام لیتی ۔۔۔!”
جہاں آرا بیگم حواس باختہ ہو اٹھی تھیں ۔۔۔۔
گھبرائی ہوئی سی وضاحتیں دینے لگیں ۔۔
“اس کا نام بھی مت لیں میرے سامنے ۔۔۔۔ کبھی مت لیا کریں ۔۔ کچھ بھی ہو جائے مت لیا کریں ۔۔
زہر کی طرح میرے اندر اترتا ہے اس کا نام !”
حلق کے بل چلاتا وہ ان کا اڑا رنگ دیکھ کر بمشکل واپس آپے میں آیا تھا ۔۔۔
“آئی ایم سوری ۔۔۔۔ امی پلیز مجھے اکیلا چھوڑ دیں اس وقت میرا دماغ خرا ہو رہا ہے ۔۔”
عاجزانہ انداز میں ہاتھ جوڑ کر کہتا وہ یوں لگ رہا تھا جیسے کسی بھی وقت پھوٹ پھوٹ کے رو دے گا ۔۔۔۔
اس کے بندھے ہاتھوں کو نرمی سے اپنے ہاتھ سے دباتی وہ دروازے کی طرف بڑھ گئی تھی مگر دہلیز پر رک کر وہ پلٹ کر کچھ بیچارگی سے پھر گویا ہوئی تھیں ۔۔۔۔
“وہ” نہیں تو کوئی بھی ؟”
طویل سانس خارج کر کے عتیق نے انہیں دیکھا تھا ۔۔۔
کچھ دیر تک بغیر کچھ کہے دیکھتا ہی رہا ۔۔
پھر آہستگی سے سر اثبات میں ہلا دیا تھا ۔۔۔۔
جہاں آرا بیگم کا دل کیا تھا کہ بھنگڑا شروع کردیں مگر خوشی پر کنٹرول کرتی بھرپور انداز میں مسکراتے ہوئے اس کے صدقے واری ہوتی کمرے سے باہر نکل گئیں ۔۔۔
غیر مرئی نقطے پر نظریں جمائے وہ کسی روبوٹ کی طرح بیڈ پر بیٹھا تھا اور پھر بے جان وجود کی پیچھے کی طرف گر گیا تھا ۔۔۔۔
“ہاں” تو اس نے کہ دیا تھا مگر دل مرجھا سا گیا تھا ۔۔۔۔
اور وجہ وہ اچھی طرح جانتا تھا ۔۔!
***********************
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...