بالآخر وہ شام آ گئی تھی جب نین تارا کا نام تا زیست احتشام کے نام کے ساتھ جوڑ دیا جانا تھا۔ نکاح کے تین بول نین تارا کے وجود کی چلتی سانسوں کو بھی احتشام کی ملکیت میں آنے کا ثبوت دینے والے تھے۔ سادہ لوحی کے باعث نکاح خاندان کے گنے چنے افراد اور چند ایک عزیزوں کی موجودگی میں ہونا قرار پایا تھا۔ انصاری ہاوس کو بھی سرسری سا سجایا گیا تھا۔ بیوٹیشن نین تارا کو گھر ہی تیار کر گئی تھی۔ مکمل ٹچ ملتے نین تارا نے خود کو ایک نظر شیشے میں دیکھا۔
ریڈ اور گولڈن امتزاج کا لہنگا پہنے وہ آسمان سے اتری پری کا عکس معلوم ہو رہی تھی۔۔۔ گلے میں نفیس گل بند، کانوں میں وزنی جھمکے، بالوں کو بائیں جانب سلیقے سے سیٹ کیا گیا تھا جس میں خوبصورت پنز لگائی گئیں تھیں، دائیں کلائی میں چوڑیوں کا ہم رنگ سیٹ جبکہ بائیں کلائی میں ایک نفیس بریسلٹ تھا جو سیٹ کے ساتھ کا معلوم ہو رہا تھا۔
موتیوں کی نزاکت سی ادا۔۔۔۔ چاند کی مانند چمکول چہرہ۔۔۔ کون کہہ سکتا تھا کہ نین تارا عام سی لڑکی ہے؟؟
ان مصنوعی فانی اشیا نے اس کے حسن کو چار چاند لگا دیئے تھے۔
“ما شاءاللہ میری بچی بہت پیاری لگ رہی ہے۔۔۔ اللہ حاسدوں کے شر سے محفوظ رکھے”۔ نین تارا کا عکس شیشے میں دیکھتے قدسیہ بیگم اسکے قریب آ کر ہاتھ میں پکڑے پانچ ہزار کے نوٹ سے اسکی بلائیں اتارنے لگیں۔
بی جان آپ بھی”۔ بولتے ہی وہ شرما دی۔
“یہ لو اور کسی ضرورت مند کو دے دینا”۔ پاس کھڑی دوشیزہ کو نوٹ دیتے قدسیہ بیگم نے کہا۔ “چلو نینی سب منتظر ہیں”۔
قدسیہ بیگم نین تارا کے ہمراہ صحن کی جانب بڑھیں جہاں سبھی لوگ بیٹھے اسکی راہ دیکھ رہے تھے۔
احتشام کی جھکی نظریں بے اختیار سامنے کو اٹھیں جہاں پری سا چہرہ لیئے نین تارا قدسیہ بیگم کے ساتھ اس جانب آ رہی تھی۔ احتشام کے دائیں جانب بیٹھی سندس نے ازل سے حسرت بھری نگاہیں اس پہ ساکت کر رکھیں تھیں ۔۔۔۔ اسکا دل کرچی کرچی ٹوٹ کر بکھر چکا تھا۔۔۔ ایسے میں نین تارا کی جانب اٹھتیں احتشام کی چاہت بھری نظریں اسکی تکلیف دوبالا کر گئیں تھیں۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
روم کو نہایت عمدہ اور خوبصورت انداز میں پھولوں اور کینڈلز سے آراستہ کیا گیا تھا۔ نکاح کے بعد نین تارا احتشام کے روم میں لائی گئی تھی۔ اسکے دل کی ہلچل دماغ کے کیئے گئے فیصلے کو رد کرتی اپنی منمانی کرنے پر تلی تھی۔ بالکونی کا دروازہ شیشے کا بنا تھا اور ساتھ ہی کڑٹنز لگے تھے۔۔۔ گرچہ کڑٹنز سائیڈ پہ تھے مگر دروازہ بند تھا ایسے میں وہ دروازے کی طرف پشت کیئے بالکونی سے باہر دیکھ رہی تھی۔
جونہی وہ روم میں داخل ہوا امید کے برعکس اسنے نین تارا کو بالکونی کے پاس کھڑا پایا۔ اپنے پیچھے دروازہ لاک کرتے وہ نین تارا کے قریب آیا جو سارے جہاں نے بے خبر سوچ میں ڈوبی تھی۔
سفید پاجامے پہ بلیک شیروانی کافی حد تک اسے سوٹ کر رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔ عموما بلیک کلر کا کم استعمال آج کے دن اسکی پرسنیلٹی کو چار چاند لگا گیا تھا۔
شیروانی کی دائیں سائید باریکی سے سلور جیولز سے آراستہ کی گئی تھی جو اب اور بھی دمک رہے تھے۔
“اسلام و علیکم”۔ اسکے قریب آتے احتشام نے آہستگی میں کہا۔
“وعلیکم السلام”۔ اپنا لہنگا سمیٹتے وہ بھی اس جانب گھومی۔
“ہر ذی روح کو اس دن کا شدت سے انتظار ہوتا ہے کہ کب وہ شادی کے انمول بندھن میں بندھے۔۔۔ لیکن لگتا ہے تمھیں خوشی نہیں ہوئی؟”۔ اسکے چہرے کے تاثرات بھانپتے وہ دانستہ شریر ہوا۔
“خوشی تو تب ہوتی ہے جب رشتہ خلوص اور چاہت سے جوڑا جائے۔۔۔۔ جہاں زور زبردستی بندھن جڑ جائے وہاں کیسی خوشی؟”۔ اپنا جھکا چہرہ قدرے اوپر کو کرتے اسنے احتشام کی جانب دیکھا جہاں واضح حیرت تھی۔
“کیا مطلب؟؟۔۔۔۔۔ نین تارا تم نے زبردستی میرے ساتھ رشتہ بنایا ہے؟”۔ حیرت کی چنگاڑیاں اسکی آنکھوں سے نکل رہیں تھیں۔۔۔ نین تارا کے کہے الفاظ اسکی سمجھ سے بالا تر تھے۔
“میں نے اپنی بات کہاں کی ہے احتشام؟”۔ اسنے بے زارگی سے کہا۔
“تو پھر؟؟؟۔۔۔۔۔۔ کہیں تمھارے یہ منفرد اور سوہانے خیالات میرے بارے میں تو؟۔۔۔۔۔۔۔ او مائی گاڈ ۔۔۔۔ مطلب نین تارا سیریسلی؟”۔ نین تارا کی خاموشی کے پیش نظر وہ معاملے کہ تہہ تک پہنچ گیا تھا۔
احتشام بہت کچھ کہنے کا خواہاں تھا مگر الفاظ کا چناو مشکل تھا۔ نین تارا بغیر کچھ کہے بیڈ کی پائینتی پہ آ بیٹھی تھی۔
“یہ سچ ہے کہ تمھارے ساتھ نکاح کا فیصلہ یوں اچانک سن لینے سے مجھے شاک لگا تھا۔۔۔ مگر میں اس رشتے سے بالکل انکاری نہیں تھا۔۔۔۔۔ تمھارے ساتھ نکاح میری رضا مندی سے ہوا ہے۔۔۔ نین تارا میں کسی بھی معاملے میں زبردستی کا قائل نہیں ہوں نا ہی دنیا کی کوئی طاقت مجھے اس پہ آمادہ کر سکتی ہے”۔ وضاحت کرتے وہ اسکے قریب آ گیا تھا۔
“آپ سچ بول رہے ہیں؟؟”۔ اسے جیسے اپنی سماعت پہ یقین نا آیا۔
“ہنڈرڈ پرسنٹ”۔ مسکراہٹ اسکی جانب اچھالتے احتشام نے کہا۔
یکایک احتشام کی نگاہیں نین تارا کے چہرے پہ ساکت ہوئیں جس سے اسکی سانسوں کی دوڑ مزید الجھ گئی۔
“آپ ایسے کیا دیکھ رہے ہیں؟؟”۔ اسنے ہچکچاتے کہا۔
نہیں محتاج زیور کا جسے خوبی خدا نے دی
کہ دیکھو خوشنما لگتا ہے کیسا چاند بن گہنے
“خدا کی خدائی پہ رشک آ رہا ہے کہ اسنے کتنی نفاست اور باریکی سے بغیر کسی گنجائش کے آرزوء احتشام کو بنایا ۔۔۔۔۔ میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا نین تارا کہ انتظار کا معاوضہ اتنا خوبصورت بھی ہو سکتا ہے”۔ احتشام متبسم اسکے چہرے کو ٹک ٹکی باندھے دیکھ رہا تھا۔ ” ویٹ آئی ہیو آ گفٹ فار یو”۔ بولتے ہی وہ اٹھ کر وارڈ روب کی جانب بڑھا اور اپنے ہمراہ ایک جیولری باکس لیئے واپس لوٹا۔
“دس از فار یو مائی بیوٹیفل ریوارڈ”۔ باکس اسکو دیتے وہ اسکے قریب ہو بیٹھا۔
“بہت پیارا ہے احتشام ۔۔۔ تھینک یو سو مچ”۔ جیولری باکس میں ایک نفیس نیکلیس تھا جو خاص طور پر احتشام نے نین تارا کیلیئے آرڈر پہ بنوایا تھا۔
نین تارا کے حصار میں احتشام جیسا ذی ہوش انسان بھی اپنے ہوش کھو بیٹھا تھا۔ جونہی احتشام نے اپنا چہرہ اسکے ہونٹوں کی جانب کیا نین تارا نے اپنی آنکھیں بھینچ لیں تھیں۔ اگلے ہی لمحے احتشام کی نظر اسکی آنکھوں سے نکلتے آنسوؤں پہ پڑی۔۔۔۔۔ یہ بات اسکے لیئے حیران کن تھی۔ اپنے جذبات سمیٹے وہ پیچھے کو ہوا کیونکہ شاید اسے اپنے ہی الفاظ برق رفتاری سے یاد آئے تھے
“نین تارا میں زبردستی کا قائل نہیں ہوں”۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
صبح کے اٹھ بج رہے تھے ۔۔۔۔ تیار ہوتے ہی وہ روم سے نکل گئی تھی۔
گولڈن جاما وار کی کیپری پہ پیج کلر کا فراق جو گھٹنوں سے اوپر تھا۔۔۔ باریک نیٹ کی سلیوز جن کے باعث اسکے شفاف دودھ مائل بازو عیاں تھے۔۔۔ گلے میں رونمائی میں ملنے والا نیکلیس۔۔۔ پیروں میں فلیٹ گولڈن چپل اور فراق کا ہم رنگ دوپٹہ جسکا بارڈر بھی سنہرے موتیوں کا تھا۔
جونہی اسنے سیڑھیاں عبور کیں اسکی نظر واجد کے ہمراہ چیئر پہ براجمان ایک انجان شکل پہ پڑی۔ جو قد کاٹھ میں آفیسر معلوم ہو رہا تھا۔
“نین تارا بیٹا احتشام کو بلا لاو ۔۔۔۔ انسپکٹر سعد اسکی راہ دیکھ رہے ہیں”۔ واجد نے اسے کہا جس پہ وہ ایڑیوں کے بل روم کی جانب گھومی۔
گھبراہٹ میں چلتی وہ بیڈ کے پاس آ رکی جہاں احتشام جہان فانی سے بے خبر نیند کے مزے لوٹ رہا تھا۔
“یا اللہ میں انکو کیسے جگاوں؟؟”۔ دانت میں انگلی دبائے وہ منمنائی۔ “کتنے اچھے لگ رہے ہیں سوتے ہوئے۔۔۔ دل ہی نہیں چاہ رہا انہیں جگانے کا۔۔۔ اگر نا جگایا تو تایا ابو غصہ کریں گے”۔ سیدھا لیٹنے کی بدولت اسکا چہرہ چھت کی طرف تھا۔۔۔ نین تارا بھی خیالات میں گھن چکر بنی تھی۔
“احتشام”۔ اسکی جانب ہلکا سا جھکتے اسنے سرگوشی کی۔
“احتشام اٹھ جایئے تایا ابو بلا رہے ہیں”۔ اب کی بار اسکی آواز تھوڑی اونچی تھی مگر پھر بھی انسان کو نیند سے اٹھانے کی غرض سے ناکافی تھی۔
“ایسا کرتی ہوں تایا ابو کو بتا دیتی ہوں کہ احتشام سو رہے ہیں”۔ جونہی وہ دروازے کی جانب گھومی بائیں ہاتھ پہ مضبوط گرفت اسکی سانسیں تیز کر گئی جس پہ وہ سرعت سے پلٹی اور یہ دیکھ کر حیران کی کہ احتشام کی آنکھیں مکمل طور پہ کھل چکی ہیں۔۔۔۔ ان میں نیند کی رمق بھی باقی نا تھی جیسے وہ سویرے سے اٹھا ہے۔
“آپ جاگ رہے تھے؟؟”۔ اسے صورت حال سمجھ میں نا آئی۔
“نہیں مگر تمھارے آنے کی آہٹ نے نیند میں خلل پیدا کیا اور دانستہ آنکھیں بند کر رکھیں تھیں۔۔۔۔ دیکھنا چاہ رہا تھا کہ تم کیا کرتی ہو۔۔۔۔ مائی ڈیئر۔۔۔ انوسینٹ وائف۔۔۔۔ جیسے آپ نے آج جگایا ہے ایسے تو انسان اصحاب کہف کی نیند کی مانند سویا ہی رہے گا”۔ نین تارا کی اس بچگانہ حرکت پہ وہ ہنس دیا تھا پھر اٹھ کر بیڈ کے تاج سے پشت ٹکا لی۔
“میرا دل نہیں کیا آپکو جگانے کا”۔ نین ہارا پشیماں نظریں جھکا گئی۔
“تو پھر تمھارا دل کیا کرتا ہے؟؟”۔ مسکراہٹ دبائے اسنے مصنوعی سنجیدگی میں کہا۔
” وہ نا ۔۔۔ احتشام آپکو تایا ابو بلا رہے ہیں۔۔۔۔ انسپکٹر سعد آئے ہیں اس لیئے”۔ بات کو ٹالتے اسنے احتشام کا دھیان بھٹکانے کی کوشش کی۔
“سعد اگر گھر آیا ہے تو ممکن ہے کوئی سنگین مسئلہ ہو؟”۔ اسے اندیشہ ہوا۔ “ٹھیک ہے نین تارا میں جاتا ہوں۔۔۔۔ میرا ڈریس نکال دو”۔ عجلت میں بیڈ سے اٹھتا وہ واش روم کی جانب بڑھا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
“گڈ مارننگ سر”۔ احتشام کو اپنی طرف آتا دیکھ،، نشست سے کھڑے ہوتے اسنے احتشام کو پرتپاک انداز میں سلوٹ کیا۔
“گڈ مارننگ”۔ احتشام بھی اب سعد کے قریب آ گیا تھا۔
“سوری سر آپکو ڈسٹرب کیا۔۔۔ اگر ضروری کام نا ہوتا تو میں ہر گز مخل نا ہوتا”۔ چھوٹتے ہی اسنے معذرت کی۔
“اٹس اوکے ۔۔۔ کہو کیا مسئلہ ہے؟؟”۔ اپنے دائیں جانب اسے بیٹھنے کا اشارہ کرتے وہ بھی بیٹھ گیا تھا۔
سعد نے اسے موجودہ صورت حال سے کامل طریقے سے آگاہ کیا تھا جسے احتشام نے اپنی سماعت پہ بھرپور توجہ کیساتھ بٹھایا۔
“سعد تم ایسا کرو ہر چیک پوسٹ پہ رسٹرکشنز لگا دو۔۔۔۔ آوٹ سائیڈ دا یونیورسٹیز شپیشیلی پارکس۔۔۔۔۔ کوئی بھی مشکوک لگے اسے تھانے لے آو۔۔۔۔ سٹوڈنٹس کے پاس سٹوڈنٹ آئی ڈی موجود ہو ۔۔۔۔۔۔ اف ناٹ دین آئی ڈی کارڈ از کمپلسری۔۔۔۔۔ بالخصوص اگر دو اپوزٹ جینڈر ساتھ ہوں۔۔۔۔ سمجھ گئے”۔ احتشام نے اسے تحکم انداز میں کہا۔
“جی سر”۔ سعد نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
“بلال صاحب آپ کے دوست آپ سے ملنے آئے ہیں”۔ جونہی وہ فریش ہو کر واش روم سے نکلا واچ مین اسکے روم کی دہلیز پہ کھڑا تھا۔
“کونسا دوست؟؟ نام بتایا کیا اسنے؟؟”۔ ہاتھ میں پکڑا ٹاول سٹینڈ سے لگاتے وہ اس طرف آیا۔
“نہیں صاحب نام تو نہیں بتایا۔۔۔ یہ کہا ہے کہ بلال کا پرانا دوست ہوں اسے سرپرائز دینا ہے”۔ بولتے ہی اسنے مزید کہا۔
“ٹھیک ہے تم جاو میں کچھ دیر میں آتا ہوں”۔
واچ مین رخصت ہوا ۔۔۔ کچھ ہی منٹوں میں وہ بھی روم سے نکل آیا تھا۔
ڈرائنگ روم میں صوفے پہ بیٹھے وہ دائیں ہاتھ کی انگلیوں میں سگریٹ دبائے وقفے سے اسکے کش لگا رہا تھا۔
“ارے تقی تو؟؟”۔ ڈرائنگ روم میں اسکا وجود بلال کو حیرت میں ڈال گیا۔
تقی اور بلال بہت پرانے دوست تھے اور گہرے بھی۔۔۔۔ برسوں بعد اسے اپنے گھر موجود دیکھ بلال کے چہرے پہ حیرت سے زیادہ خوشی کے آثارعیاں تھے۔
“تو تو مجھے بھول گیا تھا۔۔۔۔ سوچا تجھے اپنا دیدار کروا کے اس بات کا کامل یقین دلا دوں کہ تقی امام ابھی زندہ ہے”۔ سگریٹ کو زمین پہ پھینکتے اسنے پیر سے مسلا پھر صوفے سے اٹھتا بلال کی جانب بڑھا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
ارے ارے یہ سوہنی ماہینوال کی جوڑی کہاں چل دی؟”۔ احتشام اور نین تارا انٹرنس کی جانب بڑھ رہے تھے جب ممتاز نے انہیں آواز دی۔ ” احتشام تم اس نگوری کے ساتھ یوں چھپتے چھپاتے کہاں جا رہے ہو؟؟ جو ماں کو بتانا بھی گوارہ نہیں”۔ ممتاز کی آواز پہ وہ دونوں یکجا اسکی جانب گھومے۔ جب وہ قدم اٹھاتی زبان سے انگاڑے اگلتی ان کے قریب آئی۔
“ماما وہ ہم باہر جا رہے تھے۔۔۔ نین تارا صبح سے کام کر رہی تھی سوچا فریش ہو جائے گی”۔ ممتاز کی سرد خصلت کے پیش نظر اسنے دھیمے لہجے میں کہا۔ ۔۔۔صحن میں مجمع لگا دیکھ روہینہ بھی اس جانب آئی تھی۔
“قربان جاوں ۔۔۔ کبھی ماں بہن کا تو احساس نہیں ہوا تجھے۔۔۔۔ کبھی ان کے بارے میں نہیں سوچا یہ کل کی نو بیاہی تجھے ماں بہن سے زیادہ عزیر ہو گئی”۔ احتشام کی بات پہ وہ مزید تپ اٹھی تھی۔
“ماما آپ اپنا مقابلہ نین تارا سے کیوں کر رہی ہیں بھلا آپکا اور اسکا کوئی میچ ہے؟؟”۔ احتشام نے کوفت میں کہا۔
“یہ تو بات تمھاری سولہ آنے ٹھیک ہے ۔۔۔ بھلا میرا اور اس نیچ کا کیا جوڑ؟۔۔۔۔ یہ ٹھہری بھگوڑی ماں کی بیٹی اور میں اس خاندان کی عزت دار بہو جس نے اپنے گھر پہ آنچ تک نا آنے دی”۔ ممتاز نے نخوت سے کہا۔
“ماما پلیز ۔۔۔۔ یہ سب باتیں کرنے کا مقصد کیا ہے؟؟ کیوں آپ گڑھے مردے اکھاڑنے میں لگی ہیں”۔ نین تارا کے خلاف بولا گیا ہر لفظ احتشام کے دل پہ خنجر کی مانند لگا تھا۔
صحن میں اٹھتی ہنگامی آوازیں اسے اپنی جانب مائل کر گئیں۔۔۔ اپنے روم سے نکلتے وہ بھی اس جانب آئیں تھیں۔
“یہ مت بھولو ممتاز کہ تمھارے باپ نے تمھاری ماں کو چھوڑ کر ایک گانے بجانے والی سے من پسند بیاہ رچایا تھا۔۔۔ جس نے تمھیں تمھاری ماں سمیت گھر سے نکال دیا تھا وہ بھی دھکے مار کر”۔ قدسیہ بیگم نے اس جانب آتے مزاحمت کی جس پہ ممتاز کا منہ اتر آیا تھا۔ ” ممتاز اب احتشام کو اپنے کلیجے کا ٹکڑا بنا کر گھٹنوں کے ساتھ لگا کر بٹھانے کا خواب قتل کر دو کیونکہ ما شاء اللہ احتشام اب شادی شدہ ہے۔۔۔ ہر بات بخوبی سمجھتا ہے۔۔۔ احتشام بیٹا تم لوگ جاو”۔ ممتاز کو باور کراتے اسنے احتشام کو مخاطب کیا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
یونیورسٹی سے کچھ مسافت پہلے کی چیک پوسٹ پہ چند اہلکاروں کے ہمراہ وہ اپنی ڈیوٹی سرانجام دے رہا تھا۔
کچھ ہی منٹوں میں ایک بلیک مرسڈیز کا چیک پوسٹ سے گزر ہوا جو ایک جوان چلا رہا تھا۔
“کیا ہوا ہے تم لوگوں نے مجھے کیوں روکا ہے؟؟”۔ سعد کے اشارے پہ ہڑڈل کار کے سامنے جا رکی جس پہ کار میں موجود جوان طیش میں آیا۔
“معذرت لیکن یہ ہماری ڈیوٹی ہے۔۔۔۔ اپنا آئی ڈی دکھاو”۔ قدم اٹھاتا وہ ڈرائیونگ سیٹ کے قریب آ کھڑا ہوا۔
“میں سٹوڈنٹ ہوں”۔ اپنی آسانی کیلیئے اسنے فورا سے کہا۔
“ڈیٹس گڈ ۔۔۔۔ دین شو می یور سٹوڈنٹ آئی ڈی”۔ تمسکن آمیز انداز میں اسنے اپنا بائیاں بازو کار کی چھت سے ٹکا لیا۔
“تم جانتے بھی ہو میں کون ہوں؟؟۔۔۔۔ آج سے پہلے کسی پولیس والے کی جرات نا ہوئی کہ وہ میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات بھی کر سکے”۔ سن گلاسز اتارتے اسنے غصے میں کہا۔
“تم کون ہو ۔۔۔ کون نہیں ۔۔۔ مجھے اس سے کوئی سروکار نہیں ۔۔۔ یہ میری ڈیوٹی ہے جو مجھے ہر حال میں کرنی ہے”۔ بولتے ہی وہ دوبارہ سیدھا ہوا۔
“یہ حکم باقیوں کیلیئے ہو گا میرے لیئے نہیں ۔۔۔ اب یہ ہٹاو مجھے جانا ہے”۔ ہڑڈل کی جانب دیکھتے اسنے دوبارہ سے گلاسز لگائیں۔
“ہم قانون کے غلام ہیں تمھارے نہیں ۔۔۔۔ تمھارے ساتھ کونسے سرخاب کے پر لگے ہیں جو جانے دیں؟۔۔۔۔ شرافت سے باہر نکل آو ورنہ اچھا نہیں ہو گا”۔ دروازہ کھولتے اسنے اسے وارن کیا۔
“یہ تم ٹھیک نہیں کر رہے انسپکٹر”۔ نخوت سے کوٹ جھاڑتا وہ کار سے باہر نکلا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
ممتاز بیگم کو نین تارا سے دشمنی کرنے کا بہانا چاہیئے تھا جو نکاح نے میسر کر دیا تھا۔ نین تارا کے وجود سے درکنار اسے نین تارا کے سائے سے بھی نفرت تھی۔۔۔ شدید نفرت۔
آج احتشام کی آخری چھٹی تھی غرض یہ کہ اسے چھٹیوں میں بھی کوئی چھٹی بہم نا تھی۔
نین تارا نے ڈائننگ ٹیبل پہ مختلف اشیا سجا دیں تھیں۔
“اسلام و علیکم”۔ احتشام بھی فریش ہو کر کچن میں آ گیا تھا۔
“وعلیکم السلام”۔ پیالیوں میں چائے انڈیلتے اسنے سرسری نگاہ احتشام پہ ڈالی جو اب صدارتی چیئر پہ جا بیٹھا تھا۔ “گھر کے باقی افراد کہاں ہیں؟؟ کیا انہوں نے ناشتہ نہیں کرنا؟”۔ کچن میں بقیہ افراد کی غیر حاضری اسے ناگوار گزری۔
“بی جان کو روم میں ہی دے آئی ہوں۔۔۔ روہینہ یونیورسٹی چلی گئی ہے۔۔۔۔ تایا ابو بھی باہر نکلے ہیں اور تائی جان کا موڈ نہیں”۔ ٹرے میں پیالیاں رکھے وہ اس طرف آئی۔
“آپ ناشتہ کریں ورنہ ٹھنڈا ہو جائے گا پھر میری ساری محنت رائیگاں چلی جائے گی”۔ ٹرے ٹیبل پہ رکھتے اسنے تاسف سے کہا پھر چیئر گھسیٹتے احتشام کے دائیں جانب بیٹھ گئی۔
“ارے ایسے کیسے رائیگاں چلی جائے گی۔۔۔ میں ہر ممکن کوشش کروں گا کہ میری جان کی محنت ضائع نا ہو چاہے اسکے لیئے مجھے اپنا پیٹ ہی کیوں نا پھاڑنا پڑے”۔ گلاس میں جوس ڈالتے اسنے لاف زنی کی۔
“احتشام اب ایسا بھی نہیں کہا میں نے”۔ نین تارا نے منہ کا زاویہ بدلا جس پہ احتشام کا بے اختیار جاندار قہقہ گونجا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
“کیا تیرے ہاتھوں میں جان نہیں ہے؟؟ ذرا ٹھیک سے دبا”۔ نین تارا ممتاز کے سامنے بیڈ پہ بیٹھی اسکے پیر دبانے میں لگی تھی۔۔۔۔ جب ممتاز نے سرزنش کی۔
جس پہ وہ اثبات میں سر ہلاتی ہاتھوں کی حرکت مزید تیز کر گئی۔
“ٹھیک ہے میں تھوڑی دیر میں پہنچ رہا ہوں”۔ فون کان کے ساتھ لگائے وہ عجلت میں ممتاز کے روم میں داخل ہوا۔
“نین تارا ۔۔۔۔ میرا یونیفارم نکال دو”۔ کال کاٹتے ہی اسنے نین تارا کو مخاطب کیا۔ احتشام کے کہتے ہی وہ فورا سے بیڈ سے اتری۔
“احتشام تم نے ایسا نہیں کیا کہ ماں کو سلام ہی کر دو ۔۔۔۔ سچ ہے بھئی جس سے کام ہے یہ دنیا اسی کی غلام ہے”۔ احتشام کا طرز عمل پہ ممتازہ نے منہ بسورا ۔
“ایم سوری ماما ۔۔۔۔ مجھے جلدی ہے اس وجہ سے دھیان نہیں رہا۔۔۔۔ آپ سے واپسی پہ ملاقات کرتا ہوں ۔۔۔ ابھی مجھے اجازت دیں”۔ معذرت کرتے وہ نین تارا کے ہمراہ روم سے نکل گیا تھا۔
“پتہ نہیں کیا گھول کے پلا دیا ہے میرے معصوم بچے کو؟”۔ ان دونوں کے جاتے ہی ممتاز نے بھڑاس نکالتے کہا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
“تمھارا ایس پی کب آئے گا؟؟؟ میں یونیورسٹی سے لیٹ ہو رہا ہوں۔۔۔ وہ خود لیٹ ہے اپنی ڈیوٹی تو ٹھیک سے نبھا نہیں پا رہا۔۔۔۔ حالات کیا خاک سیٹ کرے گا؟”۔ احتشام کے کیبن میں وہ چیئر پہ بیٹھا ٹانگ پہ ٹانگ رکھے ہوئے تھا اور آدھے گھنٹے سے اسکا انتظار کرنے پہ اکتا گیا تھا۔
“اب ہر کوئی تم لوگوں کی طرح منہ میں سونے کا چمچہ لے کر تو نہیں پیدا ہوتا۔۔۔۔ سر چھٹی پر ہیں پھر بھی اپنی ڈیوٹی سے کبھی بھی غفلت نہیں برتی۔۔۔ انہیں خود سے زیادہ اس نظام کی فکر ہے”۔ تفصیل دیتے اس نے احتشام کی قابلیت کر سراہا۔ “تم اگر چراغ لے کر بھی نکلا گے نا تب بھی تمھیں سر جیسا ایماندار پولیس آفیسر نہیں ملنا”۔ سعد نے مزید کہا۔
“او بس بس۔۔۔ کان پک گئے ہیں میرے۔۔۔ بہت دیکھے ہیں تم جیسے قابل احترام پولیس والے۔۔۔۔ میرے پاس تمھارے ساتھ بحث کرنے کا ٹائم نہیں ہے تمھیں یہ بات سمجھ نہیں آ رہی؟”۔ غصے میں چیئر سے اٹھتے اسنے میز پہ رکھا گلاس دیوار کے ساتھ دے مارا جس سے وہ کرچی کرچی ہو کر بکھر گیا تھا۔
اسی اثنا میں گلاس ڈور کھولتے احتشام کیبن میں داخل ہوا۔
“اسلام و علیکم سر”۔ احتشام کو دیکھتے سعد فورا سے الرٹ ہوا بغیر جواب دیئے وہ اپنی قہر آلود ساکت نظریں سامنے کھڑے جوان پر جمائے ہوئے تھا جو عمر میں تقریبا تئیس سال کا معلوم ہو رہا تھا۔
“سر یہ”۔ جونہی احتشام اسکی جانب بڑھا سعد نے اسے آگاہ کرنا چاہا مگر احتشام نے ہاتھ کے اشارے سے اسے منع کیا تھا۔
“کانچ کے ٹکڑے سمیٹو”۔ سن گلاسز اتارتے اسنے تحکم سنجیدہ لہجے کا سہارا لیا۔
“تم نہیں سعد ۔۔۔ یہ اٹھائے گا”۔ جونہی سعد آگے بڑھا احتشام نے اسے ٹوک دیا۔
“تم مجھے حکم دو گے؟؟”۔ اپنی جانب اشارہ کرتے اسنے نخوت سے کہا۔
“تم نے سنا نہیں؟؟؟ کانچ کے ٹکڑے اٹھاو فورا”۔ اب کی بار احتشام نے واشگاف آواز بلند کی تھی۔
“ایس پی میرے پاس زیادہ ٹائم نہیں ہے ۔۔۔ تم آلڑیڈی میرا ٹائم ویسٹ کروا چکے ہو۔۔۔۔ کانچ کے ٹکڑے تو یہ ۔۔۔ قانون کے ٹکڑوں پہ پلنے والا بھی اٹھا لے گا۔۔۔ ہاں”۔ اپنے برابر کھڑے سعد کی جانب دیکھتے وہ دروازے کی جانب بڑھا جس پہ احتشام آپے سے باہر ہوا۔
“تم نے اگر ایک بھی قدم اس دروازے سے باہر نکالا تو جس قانون کو تم نے گالی دی ہے اسی قانون کی قسم کھا کر کہتا ہوں۔۔۔۔۔ تم اپنے پیروں پہ چل کر نہیں جا پاو گے”۔ گردن کو جنبش دیتے اسنے اسے باور کرایا۔
“کیا کہا ایس پی؟؟”۔ احتشام کی بات پہ وہ سرعت سے پلٹا تھا۔ ” تم میری ۔۔۔ یعنی بلال رفیق نیازی کی ٹانگیں توڑو گے ہاں”۔ بولتے ہی وہ طنزا ہنسا۔
“ضرورت پڑی تو تمھارا یہ منہ بھی توڑ سکتا ہوں”۔ اسکا رویہ احتشام کے تن بدن کو جلا گیا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
بقیہ کام سے فارغ البالی وہ آسودہ حال پرسنگ روم میں مخصوص ٹیبل پہ احتشام کے کپڑے پرس کرنے میں انہماک تھی۔۔۔۔ طلسم ٹوٹا،، سندس پرسنگ روم میں داخل ہوئی۔
“ارے سندس تم کب آئی؟؟”۔
“تمھیں اس سے کیا لینا دینا؟؟ میری سگی خالہ کا گھر ہے میں جب چاہوں یہاں آ سکتی ہوں۔۔۔ کیا یہاں آنے سے پہلے تمھاری اجازت لینا ہو گی؟؟”۔ نین تارا کے پوچھنے پہ وہ بھڑک اٹھی۔
“ارے نہیں سندس تم غلط سمجھ رہی ہو ۔۔۔ میں تو بس ایسے ہی پوچھ رہی تھی”۔ بولتے ہی اسنے استری ٹیبل کے ساتھ بنی مخصوص جگہ پہ رکھی۔
“میرا حق چھین کر۔۔۔ میرے احتشام کو مجھ سے دور کر کے تم کیا سوچ رہی ہو کہ تم جیت گئی؟؟”۔ بولتے ہی وہ نین تارا کے مزید قریب آئی اور اسکے بالوں کو دبوچتے اسکا سر قدرے اوپر کو کیا۔
“سندس یہ تم کیا کر رہی ہو؟؟ چھوڑو مجھے درد ہو رہا ہے”۔ سندس کے بازو کو پکڑتے اسنے احتجاج کیا۔
“میں ایسا بالکل نہیں ہونے دوں گی۔۔۔۔ میں آسانی سے ہار ماننے والوں میں سے نہیں جو یوں تمھیں احتشام کے ساتھ آرام سے رہنے دوں گی”۔ بولتے ہی اسنے اسکو جھٹکے سے پیچھے کیا۔
“یہ سارے خیالات تمھارے خود کے ایجاد کردہ ہیں ۔۔۔ میں تم سے بحث نہیں کرنا چاہتی۔۔ مجھے اور بھی بہت کام ہیں”۔ حلیہ درست کرتے وہ دوبارہ سے احتشام کی شرٹ استری کرنے لگی تھی۔
“تم میرے احتشام کے کپڑے استری کرو گی؟بہت شوق ہے نا تمھیں استری کرنے کا؟”۔ بولتے ہی اسنے آگے بڑھ کر اسکے ہاتھ سے استری کھینچ لی۔
“یہ تم کیا کر رہی ہو؟؟؟”۔ سندس نے استری کا والیم بڑھا دیا تھا جس پہ وہ پہلے سے زیادہ تپ رہی تھی۔
“بہت شوق ہے نا استری کرنے کا۔۔۔ لو اور استری کرو۔۔۔ تمھاری ہمت بھی کیسے ہوئی میرے احتشام کے کپڑے استری کرنے کی؟؟”۔ بولتے ہی اسنے نین تارا کا دائیاں ہاتھ پرسنگ ٹیبل پہ رکھتے اس کی ہتھیلی پہ استری اوندھی کر دی تھی۔
“سندس میرا ہاتھ چھوڑو ۔۔۔ مجھے درد ہو رہا ہے”۔ ہتھیلی پہ تپش محسوس کرتے وہ چلائی۔
“سندس پاگل ہو گئی ہو؟؟؟ چھوڑو اسے۔۔۔ کیا کر رہی ہو؟؟”۔ نین تارا کی آواز پہ روہینہ اس طرف دوڑتی آئی تھی۔
“اسکی ہمت کیسے ہوئی؟؟ ۔۔۔ میں اسے چھوڑوں گی نہیں”۔ روہینہ نے سندس کے ہاتھ سے استری پکڑتے ٹیبل پہ رکھی پھر اسے پرسنگ روم سے باہر لے آئی۔
“سندس ہوش کے ناخن لو۔۔۔۔ اگر احتشام بھائی کو پتہ چلا کہ یہ سب تم نے کیا ہے تو وہ تمھیں چھوڑیں گے نہیں”۔ روہینہ اسے زبردستی صحن میں لے آئی تھی۔
“احتشام نے اس سے شادی کیوں کی؟؟؟۔۔۔۔ مجھ میں کیا کمی تھی جو اس نے نین تارا کو مجھ پہ فوقیت دی؟”۔
“سندس بھائی کو پینٹ شرٹ میں ملبوس لڑکی زہر لگتی ہے۔۔۔۔ انہیں بالکل پسند نہیں ایسی لڑکیاں ۔۔۔ شاید یہی وجہ ہے جو انہوں نے تم سے شادی نہیں کی۔۔۔۔ اور ایسا کرنے سے کونسا احتشام بھائی تم سے شادی کر لیں گے۔۔۔ ابھی نین تارا بھائی کی بیوی ہے اور یہی سچ ہے”۔ سندس کو تفصیل دیتے اسنے منہ بسورا۔
“تو کیا ہوا؟؟؟ میں اسے مار کر احتشام کو اپنا بنا لوں گی”۔ روہینہ کی جانب دیکھتے اسنے کہا۔
“یہ اتنا آسان نہیں ہے سندس۔۔۔۔ گرم گرم کھاو گی تو اپنا ہی منہ جلاو گی۔۔۔ اگر اس بات کی بھنک بھائی کو پڑ گئی تو۔۔۔”۔ انٹرنس کی جانب پشت کیئے وہ سندس سے مخاطب ہوئی۔
“کونسی بات؟؟؟ ۔۔۔ کس کو نہیں پتہ چلنی چاہیئے؟؟”۔ عقب سے آتی احتشام کی رعب دار آواز اسکے بقیہ الفاظ اسکے منہ میں ہی دبا گئی۔
“ک۔ ک۔۔۔ کچھ نہیں بھائی۔۔۔ میں تو بس ایسے ہی بات کر رہی تھی”۔ احتشام کے ٹوکنے پہ وہ ہکلا اٹھی۔
“اچھا۔۔۔۔ روہینہ یہ نین تارا کہاں ہے؟؟”۔ ہر جا سرسری سا جائزہ لیتے اسنے کہا۔
“پتہ نہیں بھائی یہیں کہیں۔۔۔ہو سکتا ہے اپنے روم میں ہو”۔ لٹوں کو کان کے پیچھے اڑستے وہ انجان بنی۔ احتشام کے منہ سے نین تارا کا نام سنتے سندس کے پیروں تلے سے زمین کھسک گئی تھی ۔۔۔ روہینہ نے سندس کو دیکھتے بھنووں کو جنبش دی۔
“چلو ٹھیک ہے میں دیکھ لیتا ہوں۔۔۔۔ نین تارا”۔ جونہی وہ سیڑھیوں کی جانب بڑھا بائیں جانب پرسنگ روم کی طرف اٹھتی نگاہ اسکے قدم وہیں روک گئی۔
“نین تارا کیا ہوا ہے؟؟؟”۔ بجلی کی تیزی وجود میں سموئے وہ نین تارا کی جانب لپکا۔
بکھرے بال۔۔۔۔ نم پلکیں ۔۔۔۔۔ بھیگے رخسار۔۔۔۔ نین تارا کی نظریں احتشام کے متعاقب میں سندس پر پڑی جو احتشام نے بھی نوٹ کیا تھا۔ سندس بھی ہڑبڑاہٹ کے عالم میں نین تارا پہ نظریں جمائے ہوئے تھی۔
“ک۔ کچھ نہیں احتشام وہ آپ کے کپڑے استری کرتے ہوئے میرا ہاتھ جل گیا”۔ ہاتھ کی جانب اشارہ کرتے اسنے بات کو ٹال دیا جس سے سندس کی گزشتہ لمحے سے اٹکیں سانسیں بحال ہو گئیں تھیں۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
“نین تارا کپڑے پرس کر رہی تھی جب اسکا ہاتھ جلا۔۔۔۔ استری کے ساتھ ہاتھ لگنے کی وجہ سے اصولا ہاتھ کی پشت جلنی چاہیئے مگر پشت پہ جلے کا نشان تک نہیں اسکے برعکس ہتھیلی مکمل جلی ہوئی ہے۔۔۔۔۔ کیا نین تارا کا ہاتھ اتفاقا جلا ہے؟؟ یا یہ مجھ سے کچھ چھپا رہی ہے؟”۔ روم میں بیڈ کی دائیں جانب اسنے نین تارا کو اسکے ہاتھ کی مرہم پٹی کرتے سلا دیا تھا اور خود بیڈ کی متضاد سمت تاج سے ٹیک لگائے سوچ میں گم تھا۔
“نہیں ۔۔۔ میں نے کچھ نہیں کیا۔۔۔ پلیز ایسا مت کرو”۔ سونے کی غرض سے وہ جونہی اپنا تکیہ ٹھیک کرنے لگا نین تارا نیند میں بڑبڑائی تھی جس سے وہ دوبارہ سے سیدھا ہوتے اسکے قریب ہوا۔
“نین تارا کیا ہوا ہے؟؟”۔ اسکے چہرے کو ہاتھوں کی اوک میں لیتے احتشام اس پہ ہلکا سا جھکا۔
اسکے ساکت چہرے میں اب حرکت پیدا ہوئی تھی۔۔۔۔۔ پلکوں میں ارتعاش پیدا ہوا جیسے وہ کوئی ڈراونا خواب دیکھ رہی ہو۔
“نہیں ایسا مت کرو ۔۔۔ مجھے۔۔۔ مجھے درد۔۔۔۔۔ نہیں ایسا مت۔۔۔۔ پلیز”۔ نیند میں مسلسل اسکی زبان حرکت میں تھی۔
اگلے ہی لمحے اسکی آنکھوں سے آنسو جاری ہوئے جیسے وہ کرب میں ہو۔
“نین تارا ۔۔ میری جان کیا ہوا ہے؟؟”۔ نین تارا کی حالت احتشام کے دل کی دھڑکنیں مضطرب کر گئی۔
“وہ میرا ہا تھ ۔۔۔۔۔ جلا رہی۔۔۔۔۔ میرا ہاتھ۔۔۔۔ بہت زیادہ ۔۔۔۔ درد ۔۔۔۔۔”۔ اسکے چہرے کی حرکت اب قدرے دھیمی ہو گئی تھی جبکہ آنکھ سے آنسو مسلسل رواں تھے جو احتشام بارہا صاف کرنے کی کوشش میں تھا۔
“نین تارا تمھارے ہاتھ کو کون جلا رہا ہے؟؟۔۔۔ کون تکلیف پہنچا رہا ہے؟۔۔۔ اپنے احتشام کو بتاو”۔ اسکے قریب ہوتے احتشام نے آواز بلند کی۔
“وہ میں کپڑے استری ۔۔۔۔۔ میرا ہاتھ جلا دیا۔۔۔۔۔ درد ہو رہا ہے”۔ نین تارا کی آواز اب مدھم پڑ گئی تھی۔
“نین تارا مجھے اسکا نام بتاو کس نے تمھارا ہاتھ جلایا ہے”۔
“سندس”۔ نین تارا نے سرگوشی کی۔
نیند میں بولنے کی بیماری کی بدولت سندس کی رہی سہی عزت بھی خاک میں مل کر ملیا میٹ ہو گئی تھی۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑے وہ آئینے سے نین تارا کا عکس دیکھ رہا تھا جو معمول کے برعکس سو رہی تھی۔۔۔۔ اسی دوران اسکی آنکھ کھلی احتشام کو ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑا دیکھ وہ بوکھلا کر اٹھ بیٹھی تھی۔
شانوں پہ بکھرے بالوں کو بینڈ میں مقید کرنے کی کوشش کی مگر بے سود۔۔۔احتشام اسکی جانب گھوما۔
“خبردار جو ایک قدم بھی نیچے رکھا”۔ الفاظ کے تیر سے اسنے نین تارا کے زمین کی جانب بڑھتے قدم وہیں روک دیئے تھے۔
“احتشام میں پہلے ہی اتنا سو چکی ہوں ۔۔۔۔ اتنی دیر ہو گئی ہے اور آپ ہیں کہ ۔۔۔آپ نے مجھے کیوں نہیں جگایا؟؟۔۔۔ ناشتہ بنانا ہے اور بھی اتنے سارے کام ہیں”۔ ہڑبڑاہٹ میں وہ خود کو کوستی بیڈ سے اتر گئی۔
“ناشتے کی فکر نا کرو میں ناشتہ آل ریڈی باہر سے لے آیا ہوں اور رہی بات گھر کے بقیہ کاموں کی تو وہ روہینہ اور ماما دیکھ لیں گیں”۔ قدم اٹھاتا وہ اسکے قریب جا پہنچا۔
“آپ لے آئے ہیں مگر کیوں احتشام؟؟ میں بنا لیتی نا۔۔۔۔۔۔ اور آپ اچھے سے جانتے ہیں احتشام کہ گھر کے کام میری ذمہ داری ہیں۔۔۔ روہینہ یونیورسٹی جاتی ہے اور تائی جان کہاں کر سکتی ہیں؟؟ انکی تو آرام کرنے کی عمر ہے”۔ احتشام نے زبردستی اسے بیڈ پہ بٹھایا اور خود اسکے سامنے پنجوں کے بل بیٹھ گیا۔
“نین تارا گھر کے کام صرف تمھاری ہی ذمہ داری نہیں انکی بھی ہے۔۔۔۔۔ اور مجھے کچھ نہیں سننا۔۔۔۔۔ تم کام نہیں کرو گی”۔ کھڑے ہوتے وہ سائیڈ ٹیبل کی جانب بڑھا اور واپسی پہ ایک کیچر اٹھا لایا تھا۔
“میں بتا رہا ہوں نین تارا ۔۔۔۔ اگر مجھے تم کام کرتی معلوم بھی ہوئی تو میں تم سے بات نہیں کروں گا”۔ اسکے بالوں کو سمیٹتے اسنے کیچر لگا دیا تھا۔
“چھوٹی سی بات کی اتنی بڑی سزا احتشام؟؟”۔ چہرہ اٹھا کر اسنے احتشام کو معصومیت بھرے انداز میں دیکھا۔۔۔۔۔ جہاں اسکی بات کا رتی برابر بھی اثر نا ہوا تھا۔
“بلکہ تم یہیں ٹھہرو میں تمھارے لیئے ناشتہ لے آتا ہوں”۔ بولتے ہی وہ روم کی دہلیز کی جانب بڑھا۔
“نہیں احتشام میں وہیں آتی ہوں۔۔۔ احتشام ۔۔۔ احتشام میری بات تو سنیں”۔ احتشام بغیر رسپانس کیئے روم سے نکل گیا تھا اور نین تارا اسے آوازیں لگاتی رہ گئی تھی۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆