دستک کی متواتر آواز پر سکندر نے کسلمندی سے اپنی سائیڈ ٹیبل پر ہاتھ مار کر موبائل اُٹھایا اور وقت دیکھنے کو آنکھیں کھولی تو 11 کو چھوتے ہندسے دیکھ کر دستک دینے والے کی بے چینی سمجھ آئی
اُٹھ کر دروازہ کھولا تو اسفی نے ایسے گھورا جیسے کہہ رہا ہوں اب بھی نہ کھولتے –
تم آج کیسے اُٹھ گئے
وہ کیا ہے نہ بھائی آپ کی بھروسے آج سوتا تو ولیمہ پر آپ کو یاد آتا کے کوئی آپ کے آسرے پر سویا ہے تو سکندر بالوں پر ہاتھ مارتے جھینپ گیا
بھابھی کہاں ہیں اسفی نے کمرے میں جھانکتے کہا پر اندر نہیں آیا
تبی باتھ روم سے نکلی اور سکندر اور اسفی کو دیکھ کر جھجک کر رُک گئی
بھائی بھابھی میں اور امی ناشتہ پر انتظار کر رہے ہیں جلدی آ جائیں اسفی نے سلام کے بعد پیغام دیا اور موڑ گیا
سکندر نے دروازہ بند کیا اور ہماتک آیا جو ابھی بھی نظریں جھکائے کھڑی تھی میں فریش ہو کر آتا ہوں آپ بھی ریڈی ہو جائے اور باتھ روم میں گھس گیا
ولیمے کا فنکشن بھی شاندار طریقے سے ہوا تو زندگی معمول پر آ گئی
_+_+_+_+_
ویلکم ویلکم بیک
اشعر ہسپتال سے گھر آیا تو سب نے ہم آواز ہو کر خوشامدید کہا
تو اشعر نم آنکھوں سے مسکرا دیا
اشعر بیڈ پر تکیوں کی سہارے زرا اُن اور ہو کر لیٹا تھا اور نگاہیں بیا پر جمی تھی جو ان پندرہ دنوں میں نچھر کر رہ گئی تھی بیانے سوپ پلاتے ہوئے اشعر کی محویت نوٹ کی اور کہا
ایسے کیا دیکھ رہے ہیں
دیکھ رہا ہوں میری بیوی میری جدائی میں کیا سے کیا ہو گئی ہے
بیا پھر رونے لگی تو اشعر نے ہاتھ پکڑ کر تسلی دی
بیا میں ٹھیک ہوں جاؤں گا تمہیں زیادہ دیر میری معذوری برداشت نہیں کرنی پڑے گی
بیا نے سرذشی انداز میں گھورا بولی آج کے بعد آپ نے ایسی کوئی بات کی تو مجھ سے بُرا کوئی نہیں
تو اشعر نے قہقہہ لگایا اور بولا اس حال میں تو معاف کر دو
بیا مجھے یاد آیا ایکسیڈنٹ والی رات تم مجھے کوئی سرپرائز دینے والی تھی نہ
بجا نے نظریں جھکائی اور ہاں میں سر ہلایا
کیا سرپرائز تھا بتاؤ
پہلے آپ یہ سوپ ختم کرے پھر بتاتی ہوں
بیا بتا بھی دو
بیا نے بنا کچھ کہے اپنی رپورٹ نکالی اور اشعر کے ہاتھ میں دے دی
یہ کیا ہے
خودی دیکھ لیں
اشعر نے بیا کے لال ہوتے چہرے کو دیکھا اور حیران ہوتے ہوئے رپورٹ کھول کر پڑھنے لگا
بیا نے اشعر کے چہرے پر پہلے حیرانی پھر خوشی کے تاثرات ابھرتے دیکھے
او مائی گاڈ
بیا یہ سچ ہے اور خوشی سے جھوم اٹھا وہ ہلنے سے کاثر تھا پر خوشی انگ انگ سے پھوٹ رہی تھی
بیا نے جھک کر اشعر کے سینے میں سر رکھ دیا تو اشعرنے اپنا ہاتھ بیا کے گرد پھیلا لیا
بیا میں بہت بہت خوش ہوں میرا دل کر رہا ہے بھنگڑے ڈالو اور ساری دنیا کو بتاؤں کہ میں باپ بننے والا ہوں اللہ تیرا شکر ہے تو نے مجھ گناہ گار کو یہ شرف دیا
اشعر نے سر کو مشکل سے بیا کے ماتھے تک لایا اور محبت سے بھرپور لمس چھوڑا تو بیا نے آسودگی سے آنکھیں میچ لی
_+_+_+_
بھابھی کھانا لگا بھی دے
لا رہی اسفی کیا ہو گیا ہے
نہیں ملی نا میری شرٹ- اسفی نے اپنے کمرے سے باہر آتے سکندر سے پوچھا
نہیں یار سارا کمرا دیکھا میں کہیں بھی نہیں ہے اور واش بیسن سے ہاتھ دھونے لگا
میں کہہ رہا ہوں بھائی امی نے کسی کو دے دی ہے میری لکی شرٹ ہے شرٹ نا ملی تو میں پیپر نہیں دوں گا بتا رہا ہوں
ندا نے تو فرمائش نہیں کی کے وہی کاہی شرٹ پہن کر آنا ہما نے ٹیبل پر کھانا لگاتے ہوئے کہا
ایک لمحے کے لیے جھینپا پر اگلے ہی لمحے ڈھٹائی سے بولا بھابھی ان کی وکیشنز چل رہی
سکندر نے کچن کے دروازے پر کھڑے ہو کر ہما کو بلایا آ جاؤ یار
بھائی میں آنکھیں بند کر لو اگر رومینس کا موڈ ہو رہا تو
سکندر داڑھی کجھا کر رہ گیا اور اسفی کے سامنے والی کرسی گھسیٹ کر بیٹھ گیا اتنی مہربانی کوئی خاص وجہ
ہے نہ اسفی چہک کر بولا
کیا
بھائی سمجھا کرو
سکندر نے حیرانی سے آنکھیں اُچکائی
دیکھو آج میں آپ دونوں کو (ہما بھی سکندر کے پاس آ کر بیٹھ گئی تھی) پرائیوسی دوں گا تو کل آپ لوگ میرا احساس کروں گے
پتر کل پیپر ہے اور تجھے پتا اے سی سی اے میری خواہش ہے اسلئے اپنا دھیان ادھر لگا ان کاموں کے لیے ساری زندگی پڑی اور ویسے بھی تیرے پاس ہونے کی صورت میں ہی ہم رشتہ لے کر جائیں گے
بھائی اب اتنی بڑی شرط تو نا رکھو ویسے تو کوئی مجھے فیل نہیں کر سکتا پر بھائی ایک آدھ سپلی تو آ ہی سکتی اسفی نے منہ بسورتے کہا
سکندر نے بمشکل اپنا قہقہہ روکا اور کھانے کی طرف متوجہ ہو گیا جبکہ ہما کھلکھلا کر ہنس دی تو اسفی شرمندہ ہو گیا
ہما امی کب تک آئے گی
شام کا کہہ کر گئی تھی 4 بجے تک آ جائیں گی گھڑی کی طرف دیکھتے جواب دیا
بعد میں ہونے والی کسی بات میں اسفی نہیں بولا اور کھانا ختم کر کے روم میں چلا گیا
سکی آپ نے ایسے اسفی کا موڈ خراب کر دیا ہما نے اسفی کو جاتے دیکھ کر کہا
اسے ایسے ہی سنجیدہ کیا جا سکتا ورنہ تو ادھر بیٹھ کر چونیاں بگھارتے رہنا تھا ٹائم ضائع کرنا تھا
_+_+_+_+_
اشعر آج آپکی اپوائنمینٹ ہے ڈاکٹر ساتھ یاد ہے نہ
یاد ہی ہے یار آج ڈیڑھ ماہ بعد بازو اور پاؤں کے پلاسٹر سے جان چھوٹے گی
میں اطہر کو بلاتی ہوں وہ چینج کروا دیتا ہے آپکواور باہر نکل گئی
اشعر اطہر کے ساتھ ہسپتال آیا تو ڈاکٹر نے پلاسٹر کھولنے کے بعد کہا کے انہیں اشعر سے اکیلے میں کوئی بات کرنی ہیں ڈاکٹر نے دراز سے ایک پیکٹ نکالا اور اشعر کے سامنے رکھ دیا
مسٹر اشعر میں یہ رپورٹ آپکے کسی بھی فیملی ممبرکو دے سکتا تھا پر ایسے پیشنٹ اپنی ایسی باتوں کے لیے بہت پوزیسو ہوتے ہیں ان کا تعلق آپ ساتھ تھا اس لیے آپ کو دے رہا ہوں
ایسا کیا ان میں ڈاکٹر اشعر نے رپورٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا
آپ کے سارے زخم بھر جائے گے لیکن ان رپورٹس کے مطابق ایک ایسا زخم بھی ہے جو ساری زندگی ریکور نہیں ہو گا اور اشعر کا کندھا تپھک کر باہر نکل گئے
اشعر فائل کھول کر پڑھنے لگا اور جیسے جیسے پڑھ رہا تھا رنگ اُڑتا جا رہا تھا
رپورٹ بند کرتے ہوئے اشعر کا رنگ ایسے تھا جسے دھلا ہو لٹھاوہ ابھی اللہ سے اس ناانصافی پر شکوہ بھی نہیں کر پایا تھا کہ اچانک کچھ کلک ہوا تو چہرے کی ساری بے چینی اطمنان میں بدل گئی اور وہیں میز پر سجدے کی طرح گر گیا اور اللہ کا شکر بجا لایا
باہر آنے سے پہلے اشعر نے رپورٹس پھاڑ کر پھینک دیں
اطہر نے اشعر کے چہرے پر طمانیت دیکھی تو خود بھی اندر تک شانت ہو گیا اور آگے بڑھ کر اشعر کی وہیل چیئر کو گھسیٹنے لگا
_+_+_+_+_+_
اسفی تم چاچو بن گئے ہو
اسفند جو پیپرز کے بعد بڑے ریلیکس انداز میں اپنے دوستوں میں بیٹھا اس خبر پر خوشی سے اُچھل گیا
سچ بھائی
ہاں یار بھتیجا ہوا ہے
آپ کہاں ہو میں آ رہا ہوں اور بھابھی ٹھیک ہے نہ
سب ٹھیک ہے تم آرام سے آؤ پھر ہسپتال کا نام بتا کر کال کاٹ دی
اُیے میں چاچا بن گیا میں چاچا بن کر بھنگڑا ڈالنے لگا سب دوستوں نے اسے روک روک کر گلے مل کر مبارکباد دی اور خود بھی اسفی کا ساتھ دینے لگے
پھر بچے کا نام بھی اسفی کی خواہش پر ولی سکندر رکھا گیا جو سب کو پسند آیا
بھائی یہ میرا بیٹا ہے اس شہزادے کو میں اپنا داماد بناؤں گا اسفی نے ندا کو آنکھ مارتے ہوئے کہا (یہ جانے بنا کے تقدیر واقعی ولی کو اس کی جھولی میں ڈال دیں گی)
جہاں ندا نے غصے سے اسفی کو گھورا وہاں باقی سب اسفی کی فرمائش پر اپنے قہقہے کا گلا نہ دبا سکے
_+_+_+_
زندگی یونہی سبک روی سے چل رہی تھی کہ اچانک ایک حادثے نے اسفی اور مسز ہمدانی کو پتھرا دیا
سکندر اور ہما ڈنر پر باہر گئے اور واپس نہ آئے سامنے سے آتے ٹرک میں گاڑی لگنے پر دونوں موقع پر ہی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے
اسفی تو سکندر کے بغیر زندگی کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا پر اس کے دوست روز آ کر اسفی کو بھلانے کی کوشش کرتے پر کب تک
مسز ہمدانی کے دکھ سے بڑا تو کسی کا دکھ نہ تھا پر اُنہیں خود کو سنبھالنا پڑا تو ڈیڑھ سال کے ننھے ولی کے لئے
دوماہ بعد مسز ہمدانی نے اسفی کو کہا کہ وہ شادی کر لے کیوں کہ وہ اکیلی اب گھر بزنس اور ولی کو نہیں سنبھال سکتی
اسفی کو بھی ماں کی بے بسی پو ترس آ گیا
تو ندا کو فون کر کے گھر بلایا جو کے ان دو ماہ میں تین سے چار دفعہ ہی گھر آئی تھی
ندا امی چاہتی ہیں کہ ہمیں اب شادی کر لینی چاہیے کیونکہ وہ اکیلی سب کچھ نہیں سنبھال پا رہی
ندا اسفی کے روم میں تھی جب اسفند نے کہا
تم کیا چاہتے ہو
میں بھی یہی چاہتا ہوں
کیوں
کیا مطلب کیوں میں چاہتا ہوں تم مجھے ولی کو میرے گھر کو سمیٹ لو اس مکان کو دوبارہ گھر بنا دو
تمہیں پتہ نہ میرا آخری سمیسٹر ہے ابھی
ندا مجھے تمہاری ضرورت ہے
تمہیں میری نہیں اپنے بھتیجے کے لیے ایک آیا کی ضرورت ہے اور اسفی میں ایسے کیسے اس ماحول اور ان حالات میں تم سے شادی کر سکتی
میں ایک گرینڈ شادی چاہتی ہوں اور اگر شادی کرتی بھی ہوں تو اس سوگ کے ماحول میں شادی کی خوشی کسے ہو گی(وہ اسفی کو دیکھے بنا بول رہی تھی جبکہ آ کی آنکھوں میں ایسی حیرانی تھی جیسی سکندر کی لاش کو سامنے دیکھ کر اسکی آنکھوں میں اتری تھی)
اورتم چاہتے ہو میں شادی بعد تمہارے ساتھ انجوائے کرنے کی بجائے ولی کے پیمپر بدلو تمہاری ماں کی تیمارداری کروں وہ بھی ایسی صورت میں جب تمہارے پاس جاب بھی نہیں ہے اور نہ کوئی پراپر پروفیشنل ڈگری بھی نہیں – اسفی جب تک میری ڈگری پوری ہوتی تم کوئی جاب ڈھونڈ لو تب تک گھر کا ماحول بھی صحیح ہو جائے گا پھر میں سوچو گی
اسفند ناکوں جاتے دیکھ کر ایسے بیڈ پر بیٹھا جیسے کوئی جواری اپنی آخری پونجی بھی ہار جائے
سانحے اور بھی گزرے تھےزندگی میں
مرحلہ تجھ سے بچھڑنے کا مجھے مارگیا
_+_+_+_
اشعر چلنے کے قابل تو نہیں ہوا تھا پر اب سہارے سے کھڑا ہونے لگاتھاآج بھی اظہر کے سہارے کھڑا تھا اور بیا اور روبینہ بیگم دیکھ دیکھ کر خوش ہو رہی تھیں اچانک اظہر بیل کی آواز پر موڑا تو اشعر اپنی گرفت اظہر کے کندھے پر جما نہ سکا اور لڑکھڑا کر گرنے لگا
بیا اشعر کی طرف بڑھتے ہوئے بے دھیانی میں کیاری میں پڑے گملے سے الجھی اور منہ کے بل زمین پر گری
یہ سب ایک لمحے میں ہوا کے کچھ نہیں کر سکا
بیا کے چِلانے پر اظہر جو اشعر کو سنبھال کر کرسی پر بیٹھا رہا تھا چونک کر بیا تک آیا
بھابھی
اظہر گاڑی نکالو بیا کو ہسپتال لے کر جانا ہو گا روبینہ بیگم جو بیا کے چیخنے پر اس کی پاس آئی تھی اظہر سے بولی
تبی عظیم صاحب کی گاڑی گیراج میں آ کر روکی وہ باہر آنے ہی لگے تھے کہ اظہر بیا کو اٹھائے ان تک آیا انہوں نے صورتحال کو سمجھتے ہوئے بیک ڈور کھولاتو اظہر نے بیا کو گاڑی میں ڈالا
روبینہ بیگم بیا کے پاس بیٹھتے ہوئے اظہر کو اشعر کے پاس روکنے کو کہا اور گاڑی نظروں سے اوجھل ہو گئی
پیچھے اشعر اپنی زندگی کا آخری اساسہ لوٹتے ہوئے دیکھ رہا تھا
_+_+_+_
ارے واہ بیوی تم تو پہچانی نہیں جا رہی آج کس پالر سے تیار ہو کے آئی ہو
اشعر اور بیا سعد کی طرف دعوت پر انواٹیڈ تھے اور اشعر جانتا تھا اُس کے لیٹ ہونے کی وجہ سے بیا کا منہ پھولا ہونا اسلئے آتے ہی شروع ہو گیا
اشعر بیا نے غصے سے گھورا تو اشعر درمیانی فاصلہ طے کرکے بیا کے مد مقابل آ گیا بازو بیا کی قمر میں ہائل کیا اور بولا یار سعد ساتھ ہی تھا اُسی نے روکا تھا ورنہ میری مجال جو اپنی اتنی خوبصورت بیوی سے قریب رہنے کا موقع ضائع کروں بیا کی ناک دباتے ہوئے اور قریب کیا
اشعر جو بھی ہے آج کے بعد اگر آپ لیٹ ہوئے تو میں کبھی آپ سے بات نہیں کروں گی
ارے ارے بیوی یہ ظلم نہ کرنا تمہاری ناراضگی سہنے سے بہتر ہے میں مر جاؤں
اللہ نہ کرے اشعر کیسی دل دہلانے والی باتیں کر رہے ہیں بیا نے اشعر کے ہونٹوں پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا
اشعر نے بیا کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا اور بیا کے منہ پر جھکتے ہوئے بولا
بیا سچ میں تم ناراض ہوتی ہو تو لگتا ہے جان جا رہی ہو اور بیا کے ہونٹ چوم لیے بیا نظر تک نا اُٹھا سکی تو اشعر کے قہقہے پر اسکے بازو پر ہاتھ مار کر رہ گئی
اور آج وہ ناراض ہے تو اشعر کو پروا بھی نہیں
بیا اندر ایمرجنسی میں تھی اور باہر راہداری میں روبینہ بیگم جلے پیر کی بلی طرح چکر کاٹ رہی تھی بیٹھ جاؤ روبی عظیم صاحب نے کہا
عظیم یہ لوگ اتنا ٹائم کیوں لے رہے ہیں سب ٹھیک ہو گا نہ
ہاں انشاءاللہ سب ٹھیک ہو گا تم بیٹھ جاؤ اور ہاتھ پکڑ کر بیٹھا بھی دیا
میر ےدل میں ہول اُٹھ رہے ہیں
ڈاکٹرثنا بابر آئی اور عظیم صاحب اورمسز عظیم پاس آ کر بولی
مسز عظیم ہمیں ابورشن کرنا پڑا خون بہت بہہ گیا تھا
روبینہ بیگم کرسی پر ایسے گری جیسے دوبارہ کبھی کھڑی نہ ہو گی
ہم اپنی بہو کو واپس کب لے جا سکتے ہیں
ابھی تو وہ بے ہوش ہیں جیسے ہی ہوش آتا آپ لے جاسکتے بس اٹھنے بیٹھنے میں تھوڑی احتیاط کیجئے گا
عظیم صاحب کے پوچھنے پر ڈاکٹر ثنا نے کہا اور بڑے پیشہ ورانہ انداز میں آ گے بڑھ گئی
یہ جانے بناکہ اسکے انکشاف کےبعد کس کس کی زندگی برباد ہونے والی ہے
بیا گھر آئی تو اشعر نے سب کے سامنے ایسی کلاس لی اس کی بداحتیطی اور اشعر کے نزدیک نااہلی پر کہ سب اپنی اپنی جگہ منجمد ہو گئے کسی نے بھی اشعر کو اتنی اونچی آواز میں اور اتنے غصے میں پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا
بیا تو اشعر کی ہر بات پر نئے سرے پر چونک کر سراُٹھاتی اور اس کا منہ دیکھتی جیسے یقین کرتی ہو کہ یہ سب اشعر کہہ رہا ہے اُس کا اشعر اور آخری الفاظ
بیا تم ڈیزرو ہی نہیں کرتی کہ اللہ تمہیں ماں جیسےمقدس مقام تک پہنچاتا پیچھے کھڑا اطہر اپنے وہمے کے سچ ہونے پر بونچھلا گیا وہ وہم جوایک ماہ پہلے اشعر کو ڈاکٹر کے روم سے باہر آتے دیکھ کر جھوٹ لگا تھا پوری سچائی ساتھ سامنے کھڑا تھا اسے اس دن اشعر کا اطمینان آج سمجھ آیا اس دن ایک امید سامنے تھی آج وہ بھی ختم ہو گئی
آیے ہاے بچے کیوں واہی تباہی بول رہا ہے اللہ پھر کرم کرے گا اس سب میں بیا کا کیا قصور دیکھ نہیں رہے کیسے سرسوں کی طرح پیلی ہو رہی ہے
سب سے ہوش میں روبینہ بیگم آئی اور اشعر کو چپ کرایا
اور ماں کی اس بات پر اشعر نے اپنی مٹھیاں بھینچ لی کے وہ اپنا بھرم کھونا نہیں چاہتا تھا
بیا جو ہسپتال سے ہی بے دم ہو کر آ ئی تھی اشعر کی باتیں سُن کر بے جان بھی ہو گئی
_+_+_+_
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...