(Last Updated On: )
س:-(ازمسٹرگولڈمین):مسٹرکینن ! کیا آپ ہمیں بتائیں گے کہ جدید جنگ بارے سوشلسٹ ورکرز پارٹی کا کیامؤقف ہے؟
ج:-ہماری پارٹی کی نظرمیں جدید جنگیں سامراجی ممالک کے درمیان منڈیوں‘ نوآبادیات‘ خام مال کے ذرائع‘ سرمایہ کاری کے امکانات اورحلقہ اثر قائم کرنے کے حوالے سے ابھرنے والے تضادات کانتیجہ ہیں-
س:- مسٹرکینن ! ’’سامراج‘‘ سے آپ کی کیامراد ہے؟
ج:- وہ سرمایہ دار ملک جوبلاواسطہ یابالواسطہ دوسرے ملکوں کا استحصال کرتے ہیں-
س:- سرمایہ داری کے تحت جنگوں کی ناگزیریت بارے پارٹی کاکیامؤقف ہے؟
ج:-جب تک سرمایہ دارانہ نظام موجودہے اور اس کے ساتھ وہ تضادات موجود ہیں جن کا میں نے پہلے ذکر کیاہے جو دراصل سرمایہ داری اورسامراجی نظام سے خود کار طور پرجنم لیتے ہیں‘ جنگیں ہوتی رہیں گی-
س:- کیاکسی کی مخالفت ‘بشمول سوشلسٹ ورکرز پارٹی کی مخالفت‘ سے سرمایہ دارانہ نظام کے تحت جنگوں کاراستہ روکا جاسکتاہے؟
ج:- نہیں- ہماری پارٹی کاہمیشہ سے یہ کہنا ہے کہ سرمایہ داری کاخاتمہ کئے بغیر جنگوں کونہیں روکا جاسکتاکیونکہ سرمایہ داری جنگوں کی افزائش کرتی ہے- تھوڑے وقت کے لئے کسی جنگ کوٹالا جاسکتاہے مگر جب تک یہ نظام موجود ہے اورسامراجی قوموں کے تضادات موجود ہیں‘ جنگوں کو روکنا ناممکن ہے-
س:- گویاپارٹی یہ سمجھتی ہے کہ جنگیں عالمی معاشی تضادات کانتیجہ ہیں نہ کہ کچھ لوگوں کی نیک نیتی یابدنیتی کا؟
ج:-کسی ایک یادوسرے ملک کے حکمران ٹولے کی جانب سے امکانی حملوں کے امکان کو رد نہیں کیاجاسکتا مگر بنیادی طورپرسرمایہ دار طاقتوں کی اس کوشش کے نتیجے میں جنگیں جنم لیتی ہیں کہ نئے میدانوں میں قدم رکھاجائے- نئے میدان میں قدم تب ہی رکھا جاسکتا ہے کہ کسی دوسرے ملک سے وہ میدان چھینا جائے کیونکہ ساری دنیا سامراجی طاقتوں کے چھوٹے سے گروہ کے ہاتھوں میں تقسیم ہے- یہ ہے جنگوں کی وجہ، لوگوں کی مرضی کااس میں دخل نہیں- ہم یہ نہیں کہتے کہ اس وقت جنگ میںملوث سامراجی ملکوں کا کوئی حکمران ٹولہ جنگ کرنا چاہ رہا تھا- ہم کئی بار کہہ چکے ہیں کہ وہ جنگ سے بچ کرشائدخوش رہتے مگر وہ ایسا کرنہیں سکتے تھے ورنہ ان کے ملکوں میں سرمایہ داری باقی نہ رہتی-
س:- ایسی جنگ کے بارے میں پارٹی کاکیامؤقف ہے جسے پارٹی سامراجی جنگ کہتی ہے؟
ج:- ہماری پارٹی ایسی ہر جنگ کے سخت خلاف ہے-
س:- اورسامراجی جنگ کی مخالفت سے کیامراد ہے؟
ج:- اس سے مراد ہے کہ ہم ایسی جنگ کی قطعاً حمایت نہیں کرتے ہم اس کے لئے ووٹ نہیںدیتے‘ ہم کسی ایسے شخص کو ووٹ نہیں دیتے جو ایسی جنگ کو پروان چڑھائے ہم اس کی حمایت میں بات نہیں کرتے‘ ہم اس کے حق میں لکھتے نہیں-
س:- سوشلسٹ ورکرز پارٹی امریکہ کی جنگ میں مداخلت کے نظریئے کی کیسے مخالفت کرتی ہے؟
ج:- جس طرح دیگر سیاسی جماعتیں خارجہ پالیسی پراپنے نظریات کی ترویج کرتی ہیں اسی انداز میں ہم بھی کرتے ہیں- ہم پرچے میں اس کے خلاف لکھتے ہیں‘ اس کے خلاف جذبات کو فروغ دیتے ہیں اوراس کے خلاف قرار دادیں منظور کراتے ہیں- اگر کانگرس اورسینٹ میں ہمارے ممبر موجود ہوتے تو وہ کانگرس اورسینٹ میں اس کے خلاف بولتے- عمومی طورپرجنگ میں امریکی شمولیت کے خلاف ہم عوامی سیاسی ایجی ٹیشن کرتے ہیں نہ صرف جنگ بلکہ ان تمام اقدامات کے خلاف ایجی ٹیشن کرتے ہیں جوکانگرس یاانتظامیہ کرتی ہے اورجن کے نتیجے میں امریکہ جنگ میں عملی شمولیت کی طرف جائے-
س:- ’’عملی‘‘ سے آپ کی کیامراد ہے؟
ج:-مثلاً وہ تمام اقدامات جو اب تک کئے گئے ہیں جن کے نتیجے میں امریکہ غیراعلانیہ طورپرجنگ میں مصروف ہے!
س:-آئین میں اس ترمیم بارے پارٹی کاکیامؤقف ہے جس کے تحت لوگوں کواعلان جنگ کاحق دینا تھا؟
ج:-کانگرس میں یہ پرپوزل پیش ہونے کے بعد سے ہم نے اس کی حمایت کی ہے‘ یہ پرپوزل جوغالباً لڈلو(Lud low) نے پیش کی اورلڈلو ترمیم کے نام سے منسوب ہے‘ اس کا مقصد آئین میںترمیم تھا جس کے تحت اعلان جنگ سے قبل ریفرنڈم کے ذریعے عوام کی جنگ بارے حمایت ضروری قرار دی گئی- ہم نے اس پرپوزل کی حمایت کی اور ایک وقت پرتوہم نے زبردست پراپیگنڈہ بھی کیاکہ ایک ایسی آئینی ترمیم کی جائے جس کے تحت اعلان جنگ کرنے سے پہلے ریفرنڈم کے ذریعے عوام سے رائے لی جائے-
س:- مسٹر کینن! کیاپارٹی کامؤقف اب بھی یہی ہے؟
ج:- جی ہاں! ہمارے پرچے کی لوح پرہماری روزمرہ کی پالیسی کے ایک نقطہ کے طورپریہ بات بھی شامل ہے- اگر میں غلط نہیں کہہ رہاتو یہ بات ہمارے ادارتی صفحہ پرہمارے موجودہ اصول کے طورپرشائع ہوتی ہے اورگاہے بگاہے اس موضوع پرکوئی اداریہ یامضمون بھی شائع ہوتارہتا ہے جس کا مقصد اس سوچ میں دلچسپی برقرار رکھتا ہے-
س:-اگرامریکہ یورپی جھگڑے میں ملوث ہوتاہے تو پارٹی اس امرکی مخالفت کس طریقے سے کرے گی؟
ج:- ہم اپنی موجودہ پوزیشن برقرار رکھیںگے-
س:- اورموجودہ پوزیشن کیاہے؟
ج:- یعنی اگر اعلان جنگ کربھی دیاجائے تو ہم اس جنگ کی مخالفت کریں گے- ہم جنگ کے مسئلے پر‘دیگر مسائل کی طرح‘ حزب اختلاف کاکردار ادا کریں گے-
س:-آپ جنگ کی حمایت نہیں کریںگے؟
ج:-جی میرا یہی مطلب ہے- ہم جنگوں کی حمایت نہیں کرتے یہ انسانی ہلاکتوں اورمنافع کے حصول کاذریعہ ہوتی ہیں اور بالآخرسرمایہ دارانہ نظام کے تسلط کو برقرار رکھنے کاذریعہ بن جاتی ہیں-
عدالت : میں اس آخری بیان کی اہمیت بارے پوچھ سکتا ہوں؟
مسٹرگولڈمین: جی ہاں
س:- جب آپ کہتے ہیں ’’جنگ کی عدم حمایت‘‘ تو یہ بتائیں دوران جنگ آپ جنگ کی عدم حمایت کا مظاہرہ کیسے کریں گے؟
ج:- ہمیں جہاں تک بولنے کی اجازت دی گئی ہم جنگ کو جھوٹی پالیسی قرار دیکر اس کی مخالفت کریں گے- ہمارے نقطہ نظرکے مطابق یہ ویسی ہی بات ہے جیسی کہ دیگر پارٹیوں کی طرف سے مثلاً دوران جنگ حکومتی خارجہ پالیسی کی مخالفت ‘ جیسا کہ مثلاً جنگ بائر(Boer war) کے دوران لائڈ جارج نے عوامی تقریروں میں اس جنگ کی مخالفت کی۔ رمزے میکڈا نلڈ ‘ جو بعدازاں برطانیہ کاوزیراعظم بنا‘ 1914-18ء کی جنگ میں اس نے برطانوی پالیسی کی مخالفت کی- ہمارا اپنا نقطۂ نظر ہے جو ان دو سیاسی شخصیات سے مختلف ہے جن کا میں نے ابھی ذکر کیااورجہاں تک ہمیں ہمارا حق استعمال کرنے کی آزادی دی گئی ہم امریکہ کے لئے ایک مختلف خارجہ پالیسی کے حق میں لکھتے اور بولتے رہیں گے-
س:- جنگ کی مخالفت یاعدم حمایت ثابت کرنے کے لئے کیاپارٹی کوئی عملی نام نہاد اقدامات کرے گی؟
ج:- کس قسم کے عملی اقدامات –
س:- کیاپارٹی جنگ میں شمولیت کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کرے گی؟
ج:- یعنی انڈسٹری ‘ ٹرانسپورٹ اورملٹری کے کام میں رکاوٹ، جنگ ملٹری فورسز کو سبوتاژ کیاجائے یاان کے راستے میں رکاوٹ ڈالی جائے-
س:-اور کیاآپ اس کی وجہ بتائیں گے؟
ج:- یوں ہے کہ جب تک تو ہم ایک اقلیت ہیں ہم خود کو اس بات کاپابندبنائیں گے جس بارے ہماری پارٹی کی طرف سے فیصلہ دیدیا گیاہے- فیصلہ ہوچکا ہے اورلوگوں کی اکثریت جنگ میں جانے کے لئے تیار ہے- ہمارے کامریڈ کو اس فیصلے کی پابندی کرناہوگی- اپنی باقی نسل کی طرح انہیں وہ فریضہ سرانجام دینا ہوگا جو ان پرلاگو کیاگیا ہے یہاں تک کہ وہ اکثریت کو ایک مختلف پالیسی بارے قائل کرلیں-
س:-گویادوران جنگ آپ کی مخالفت لازمی طورپرویسی ہی ہوگی جیسا کہ قبل از جنگ؟
ج:- سیاسی مخالفت- ہم صرف اس کی بات کرتے ہیں-
س:-کیاپارٹی نے کبھی ‘ یاپارٹی نے اب‘ کسی رکن‘ ہمدرد یارابطے میں آنے والے مزدور کو یہ ہدایت دی ہے کہ وہ امریکہ کی مسلح افواج میںسرکشی پھیلائیں؟
ج:- نہیں-
س:- کیاآپ اس کی وجہ بیان کریں گے؟
ج:- بنیادی طورپرتو اس کی وجہ وہی ہے جس کا میں نے ابھی ذکر کیا- ایک سنجیدہ سیاسی جماعت جو معاشرے کی معاشرتی تبدیلی کانصب العین رکھتی ہو- جو اکثریت کی حمایت اورمرضی سے ہی ممکن ہے- ایسی جماعت اقلیت ہوتے ہوئے اکثریت کے فیصلوں کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش نہیں کرسکتی- سبوتاژ ‘ سرکشی اور ڈسپلن کی خلاف ورزی کرکے کوئی بھی پارٹی اپنے لئے بدنامی ہی کماسکتی ہے اور لوگوں کو قائل کرنے کے تمام امکانات کھودیتی ہے نیز کسی بھی مقصد کے حصول کیلئے ایسی پارٹی ناکارہ ہوکررہ جائے گی-
س:- کیاآپ بتائیں گے کہ کیوں آپ کی پارٹی موجودہ امریکی حکومت کی جانب سے شروع کی گئی جنگ کی حمایت نہ کرے گی؟
ج:- عمومی طورپرہم اس ملک کے حکمران سرمایہ دار ٹولے پر ذرا سابھی اعتماد نہیں کرتے- ہم ان کی کوئی حمایت نہیں کرتے کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ وہ ان بنیادی معاشرتی مسائل کو حل نہیں کرسکتے یاکرسکیں گے جن کو حل کرنا تہذیب کوتباہی سے بچانے کے لئے ضروری ہے-
ہم سمجھتے ہیں کہ موجودہ سرمایہ دارانہ نظام کی جگہ زیادہ مؤثر سوشلسٹ نظام لاگو کرنے کی جو ضرورت ہے وہ ضرورت ایک مزدور قیادت کے تحت ہی پوری کی جاسکتی ہے- مزدوروں کے لئے لازمی ہے کہ وہ سرمایہ دارانہ سیاسی پارٹیوں کے مقابل خود کو منظم کریں- ان کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنی پارٹی بنائیں‘ اپنی محنت کش جماعت کو پروان چڑھائیں اور سرمایہ دارانہ سیاسی جماعتوں کی پالیسی کو رد کردیں ان سیاسی جماعتوں کا نام چاہے ڈیموکریٹک ہو یاری پبلکن-
س:-موجودہ امریکی حکومت کی جانب سے شروع کی گئی جنگ آپ کے خیال میں کس قسم کی جنگ ہوگی؟
ج:-میں اسے سرمایہ دارانہ جنگ سمجھوں گا-
س:-کیوں؟
ج:- کیونکہ امریکہ اس وقت سرمایہ دارانہ ملک ہے- یہ دوسرے ملکوں سے صرف اس لئے مختلف ہے کہ یہ زیادہ بڑا اورزیادہ طاقتور ہے- ہم سرمایہ دارانہ پالیسی پریقین نہیں رکھتے- ہم نوآبادیات حاصل نہیں کرناچاہتے- ہم امریکی سرمایہ داری کے منافع کے لئے خون خرابہ نہیں چاہتے-
س:- اس دعویٰ کے بارے میں پارٹی کاکیامؤقف ہے کہ ہٹلر کے خلاف جنگ جمہوریت کی فاشزم کے خلاف جنگ ہے؟
ج:-ہم کہتے ہیں یہ محض دھوکہ ہے- امریکی سامراج اورجرمن سامراج کے مابین دنیا پرقبضے کی خاطر کش مکش ہے- یہ بالکل درست ہے کہ ہٹلر دنیا پر قبضہ کرناچاہتاہے مگر ہم سمجھتے ہیں یہ بات بھی بالکل سچ ہے کہ امریکی سرمایہ داروں کے ذہن میں بھی یہی سوچ ہے اورہم دونوں میںسے کسی کی بھی حمایت نہیں کرتے ہم نہیں سمجھتے کہ ساٹھ خاندان جو امریکہ کے مالک ہیں وہ جمہوریت جیسے کسی ارفع مقصد کے لئے جنگ چاہتے ہیں- ہم سمجھتے ہیں وہ اس ملک میں جمہوریت کے بدترین دشمن ہیں- ہم سمجھتے ہیں وہ اس موقع کو استعمال کریں گے اورملک میںموجودہ تمام سول آزادیوں کاخاتمہ کریں گے وہ فاشزم کی ہرممکن نقالی کریں گے-
س:-امریکہ کے کسی سامراجی یاسرمایہ دارانہ دشمن مثلاً جرمنی یااٹلی بارے پارٹی کاکیا مؤقف ہے؟
ج:- ہم جرمن کے حمایتی نہیں- ہم امریکہ کے کسی سامراجی دشمن کی کامیابی میں دلچسپی نہیں رکھتے-
س:- اگر امریکہ کی جرمنی ‘اٹلی یاجاپان سے جنگ ہوجاتی ہے تو ایسی جنگ میں سامراجی دشمنوں کے مقابلے میں امریکہ کی فتح یاشکست کے حوالے سے پارٹی پالیسی کیاہوگی؟
ج:-ہم جرمنی یاجاپان یاکسی اورسامراجی ملک کی امریکہ کے خلاف فتح کے حامی نہیں-
س:-کیایہ درست ہے کہ پارٹی ہٹلر کے بھی اتنا ہی خلاف ہے جتنا کہ وہ سرمایہ دارانہ امریکی دعوئوں کے؟
ج:- ان کاآپس میںکوئی مقابلہ نہیں- ہٹلر اورہٹلر ازم کو ہم انسانیت کاسب سے بڑا دشمن سمجھتے ہیں- ہم اس کو صفحہ ہستی سے مٹادینا چاہتے ہیں- ہم امریکی اسلحہ کے ساتھ اعلان جنگ کی مخالفت اس لئے کرتے ہیں کہ ہمارے خیال کے مطابق امریکی سرمایہ دار ہٹلر اورفاشزم کو شکست نہیں دے سکتے- ہم سمجھتے ہیں ہٹلر ازم کی تباہی مزدور قیادت کے تحت جنگ کرکے ہی ممکن ہے-
س:-پارٹی ہٹلر کی شکست کے لئے کس طریقہ کار کو پیش کرتی ہے؟
ج:- اگر مزدور حکومت بناتے‘ ویسی حکومت جس کا میں نے ذکر کیااور ایسی مزدور حکومت موجود ہوتی تو ہم دو کام کرتے
اول ہم جرمن عوام کے نام ایک اعلان نامہ جاری کرتے ان سے سنجیدہ وعدہ کرتے کہ ہم ان پرایک نیا معاہدہ ورسائی مسلط نہیں کررہے‘ ہم جرمن عوام کو برباد نہیں کرنا چاہتے‘ نہ ہم ان سے دودھ دینے والی گائیں چھیننا چاہتے ہیں جیسا کہ ہولناک معاہدہ ورسائی کے تحت ہوا اورجرمن بچے اپنی مائوں کی چھاتیوں سے لگے لگے فاقوں کا شکار ہوگئے اورجرمن لوگوں کے اندر ایسی نفرت نے جنم لیا انتقام کے ایسے جذبے نے جنم لیاکہ ہٹلرجیسے موذی نے اس خوفناک معاہدہ ورسائی سے بدلہ لینے کے نعرے کے ذریعے اس نے جرمن عوام کی تائید حاصل کرلی- ہم ان سے کہیں گے’’ہم وعدہ کرتے ہیں کہ ایسی کوئی شرط جرمن عوام پرمسلط نہیں کی جائے گی- اس کے برعکس ہم سوشلسٹ بنیادوں پردنیا کی از سرنو تنظیم کی پیش کش کرتے ہیں- جس کے تحت جرمن عوام اپنی مسلمہ صلاحیتوں ‘ذہانت اورمحنت کے ساتھ برابری کی بنیاد پراس نئی تنظیم کاری میںشامل ہوں گے- ہماری پارٹی کی طرف سے یہ پہلی تجویز ان کو پیش کی جائے گی-
دوم‘ہم ان سے یہ بھی کہیں گے ’’اس کے ساتھ ساتھ ہم دنیا کی سب سے بڑی بحریہ‘فضائیہ اوربری فوج تشکیل دے رہے ہیں‘ جو آپ کے ہاتھ میں ہوگی‘ تاکہ ایک محاذ پرہٹلر کابذریعہ بازو خاتمہ کیاجائے جبکہ اندرون ملک آپ اس کے خلاف بغاوت کردیں-‘‘
میرے خیال سے ہٹلر کے حوالے سے پارٹی پروگرام کی یہ ماہیت ہو گی اگر امریکہ میںمزدور کسان حکومت ہوتی اور ہمارا خیال ہے کہ صرف اس انداز میں ہٹلرازم کو شکست دی جاسکتی ہے- صرف اور صرف اس صورت میںکہ بڑی طاقتیں جرمن عوام کو یہ باور کرادیں کہ انہیں ہٹلر کے خلاف اٹھنا ہو گا کیونکہ ہمیں یہ نہیںبھولنا چاہئے کہ …
مسٹرشیون ہاٹ : مسٹرکینن! آپ نے سوال کاجواب دیدیا ہے-
س:-لیکن جب تک امریکہ میں مزدور کسان حکومت قائم نہیں ہوجاتی اوروہ ہٹلر کو شکست دینے کے لئے اپنے منصوبہ پرعمل درآمد نہیں کرتی تب تک سوشلسٹ ورکرز پارٹی اکثریت کی مرضی کی پابندی کرے گی- کیایہ درست ہے؟
ج:- ہم یہی کرسکتے ہیں- ہم یہی کچھ کرنے کی بات کرتے ہیں-
س:-اور پارٹی کا مؤقف یہ ہے کہ حکومت جو ذرائع اورراستے جنگ کو بہتر طریقے سے لڑنے کے لئے اختیار کرے گی ان کی راہ میں پارٹی رکاوٹ نہیں ڈالے گی؟
ج:-فوجی طریقے یااقلیت کے انقلاب کے ذریعے کسی قسم کی رکاوٹ نہیں ڈالی جائے گی اس کے برعکس پارٹی نے کھلے عام اس قسم کے طریقہ کار کی مخالفت کی ہے-
جنگ اور انقلاب
س:- جنگ اور ممکنہ انقلابی صورتحال مابین تعلق کے اوپر پارٹی کا کیامؤقف ہے!
ج:- انقلابات نے اکثرجنگوں کاتعاقب کیاہے- جنگیں بذات خود زبردست معاشرتی بحران کااظہار ہوتی ہیں- جسے وہ حل نہیں کرپارہی ہوتیں- لاچارگی اورغربت دوران جنگ اس تیزی سے بڑھتی ہیں کہ اکثر ان کا اختتام انقلاب کی صورت ہوتاہے- 1904ء کی روس جاپان جنگ کے نتیجے میں 1905کاروسی انقلاب آیا- 1914ء کی عالمی جنگ نے 1917ء کے روسی انقلاب‘ انقلاب ہنگری‘ انقلاب جرمن وآسٹریا اوراٹلی میں لگ بھگ انقلاب کوجنم دیا- عمومی طورپر(پہلی عالمی جنگ کے بعد) پورے یورپ میں ایک انقلابی صورت حال نے جنم لیا-
میرے خیال سے اس بات کے پورے امکانات موجود ہیں کہ اگر یورپ میں جنگ جاری رہتی ہے تو لوگوں کی اکثریت خاص کر یورپ میںقتل وغارت گری روکنے کے لئے انقلابی ذرائع اختیارکریں گے-
س:- تو گویا یہ کیا درست ہوگا کہ انقلابی صورت حال کو سوشلسٹ ورکرز پارٹی نہیں بلکہ جنگ جنم دے گی‘ اگر انقلابی صورت حال سامنے آتی ہے تو ؟
ج:- میرے خیال سے انقلابی صورتحال سرمایہ داری کی خامیوں کی وجہ سے جنم لیتی ہے‘ جنگ اس عمل کو محض ہوا دیتی ہے-
س:- پارٹی کی مختلف مطبوعات میں حالات حاضرہ پرمختلف رائے دینے کے حوالے سے پارٹی پالیسی کیاہے؟
ج:- اس پرکوئی پابندی نہیں ہے- عموماً حالات حاضرہ پربعض ساتھی انفرادی طورپرخاص جھکائو کے مطابق مضامین لکھتے ہیں اوراس کے ساتھ کمیٹی کی اکثریت کا متفق ہونا ضروری نہیں-
س:-کیاآپ یہ کہیں گے کہ مستقبل بارے پیش گوئیوں پررائے زنی کے حوالے سے پارٹی آزادی دیتی ہے؟
ج:- جی ہاں ! یہ تو لازمی ہے کیونکہ پیش گوئیوں کی ہڑتال نہیں کی جاسکتی ‘ مکمل طورپرتاآنکہ واقعہ پیش آجائے‘ اورمختلف آراء ابھرتی ہیں- پارٹی میں خاص کرجب سے عالمی جنگ شروع ہوئی ہے اس بابت مختلف آراء آرہی ہیں کہ امریکہ کب جنگ میں باقاعدہ کودے گا یایہ کہ کیاامریکہ جنگ میں حصہ لے گا یانہیں- ایسے لوگوں کی اکثریت تو نہیں تھی جویہ کہتے ہوں کہ امریکہ جنگ میں حصہ نہیں لے گا البتہ میں نے بعض لوگوں کو ایسا کہتے ہوئے سناضرور –
س:- کیاآپ یہ کہیں گے کہ مستقبل کی انقلابی صورت حال بارے بھی مختلف آراء پیش کرنے کی اجازت ہے؟
ج:- جی یقینی طورپر
س:-کیااس بابت بھی مختلف آراء رکھنے کی اجازت ہے کہ انقلاب بذریعہ تشدد آئے گا یابلا تشدد؟
ج:- ہوں ایک حدتک ‘ ایک حدتک – مارکسزم کی تاریخ سے واقفیت رکھنے والے پارٹی کے تعلیم یافتہ لیڈروں کے مابین اس بابت کافی اتفاق پایاجاتاہے بہ نسبت اس مسئلہ کے کہ کیاامریکہ موجودہ جنگ میں شامل ہوگا یانہیں-
س:-مگر انقلابی صورت حال کے صحیح وقت اور انقلاب کے ارتقاء کے بارے میں مختلف رائے پائی جاتی ہیں اور اختلاف کیاجاسکتاہے؟
ج:- جہاں تک وقت کا تعلق ہے تو اس بارے قیاس بھی کیاجاسکتاہے- اگرکسی پارٹی رکن کی اس بارے رائے پائی جاتی ہے تو وہ رائے محض تجزیاتی ہی ہوسکتی ہے-
س:-کیا آپ باضابطہ قراردادوں اوراداریوں کے مابین کوئی فرق کرتے ہیں؟
ج:- جی ہاں- قرار داد باضابطہ ڈاکومنٹ ہوتی ہے جسے نیشنل کمیٹی یاکنونشن منظور کرتاہے- اس پرسوچ و بچار ہوئی ہوتی ہے اوریہ پارٹی کاباضابطہ بیان ہوتاہے- میرے خیال سے اس کی حیثیت اداریہ کی نسبت زیادہ ہوتی ہے اورہونی چاہئے کیونکہ اداریہ ہوسکتاہے پرچے کے ایڈیٹر نے جلدی میں اس وقت لکھا ہوجب پرچے کو پریس بھیجنے کی پڑی ہواور ہوسکتاہے اداریہ اس دھیان اورتوجہ سے نہ لکھا گیاہوجس توجہ سے قرارداد کو نیشنل کمیٹی منظور کرتی ہے-