(Last Updated On: )
بہیت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو بغیر کسی لالچ وصلے کے دوسروں کے دکھوں کو اپنے دامن میں سمیٹ کر ان کا بوجھ کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کی خوشیوں میں دل سے شریک ہوتے ہیں۔ جھوٹی انا ، بے جا ضد ، لالچ اور جیلسی کے باعث دوسروں کی خوشیوں کو ملیا میٹ کرکے جشن منانے والوں کی تعداد دن بدن بڑھتی جا رہی ہے۔
اپنے انجام سے بے خبر آنکھوں میں دھول جھونک کر__ آستین کا سانپ بنے دوسروں کی خوشیوں کو دیمک کی طر__ح چاٹنے والوں کی کمی نہیں ہے۔ وہ علی الحسن کے کمرے سے نکلی تو اس کی پلکوں پر__ چمکتے موتیوں کی چمک نے دو نینوں میں خوشی کے دیپ ر__وشن کیے تھے۔ دل اس کی بے بسی پر جھوم اٹھا تھا۔
” خدیجہ بوا یہ بیلہ کو کیا ہوا؟ صبح تو اچھی بھلی تھی رو کیوں رہی ہے ؟” جھومتی گنگناتی انداز میں وہ گرین ہاوس میں پودوں کو پانی دیتی خدیجہ بوا کے پاس آ کھڑ__ی ہوئی اور__ ان سے پوچھنے لگی۔ جانتی تھی کہ خدیجہ ہی وہ انسان ہیں جو ہر__ بات سے با خبر ہوتی ہیں اس لیے سار__یہ سیدھی انہی کے پاس آئی تھی۔ خدیجہ نے اس کی طرف دیکھا جو آگے پیچھے کیاریوں میں لگے پودوں کو دیکھ ر__ہی تھی۔
غرور سے تنا سر__ بے فکر__ انداز__ چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ صاف ظاہر__ تھا کہ وہ اس وقت کتنی خوشی محسوس کر__ رہی ہے . ہر__ بات سے با خبر ہے یا صر__ف اس خبر__ کی سچائی پر__ مہر_ثبت کرنے کو آئی ہے۔تصدیق چاہ ر_ہی ہے کہ واقعی بیلہ کے خواب بکھر__ چکے ہیں واقعی زرغم لاکھانی لاج چھوڑ__ کر_ لا محدود مدت کے لیے چلا گیا- چند پل اس پر__ نظر_یں جمانے کے بعد خدیجہ نے خاموشی سے رخ موڑ_ لیا اور_ اپنے کام میں مشغول ہو گئیں۔
” بتائیں نا بوا کیا ہوا ؟” بے تحاشہ ہمدر_دیاں سمیٹ کر_ وہ فکر_ مندانہ انداز_ میں پھر_ سے گویا ہوئی لیکن خدیجہ متوجہ نہ تھی دوسر_ے پل سار_یہ شر_مندگیوں میں گر_ گئی. اس طر_ح نظر_ انداز_ کرنا بر_داشت نہ کر_ سکی۔
” ٹھیک ہے بیلہ سے پوچھ لیتی ہوں۔” کہتی وہ باہر کی طرف بڑ_ھی۔
” سار_یہ بی بی یہ سب آپ کی مہر_بانی کا نتیجہ ہے اب انجان کیوں بن ر_ہی ہیں ؟” خدیجہ کی کاٹ دار_ تلخ آواز_ پر_ باہر_ جاتی سار_یہ کے قدم تھم گئے۔
” یہ آپ کی غلط فہمی ہے خدیجہ بوا۔ اگر زرغم کو مجھ سے محبت ہے تو اس میں میرا کیا قصور ؟ تایاابا اس شادی بیلہ سے کرنا چاہتے تھے جب زرغم ایسا نہیں چاہتا اور بھاگ گیا تو اس میں میرا کیا قصور_ ؟” سار_یہ لاکھانی بے پر_وائی سے گردن اکڑ_ا کر بولی تو خدیجہ نے پلٹ کر اس کو دیکھا۔
” بے شر می کی بھی حد ہوتی ہے سار_یہ بی بی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور_ آپ اچھی طرح جانتی ہیں زرغم کس کو چاہتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔اور_ آپ مت بھولیں کہ اللہ نیتوں کو دیکھتا ہے اور انصاف کرنے والا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس معصوم ماں کی بچی کے ہاتھوں پر مہندی رچنے والی تھی مہندی کا جوڑا تیار کیے وہ چوڑیوں سے کلائیاں سجانے کو تھی تو آپ نے اس کی آنکھوں کو آنسوؤں سے بھر دیا۔” سار_یہ وہیں کھڑی رہی پھر کچھ سوچ کر بیلہ لاکھانی کے کمر_ے کی طرف بڑھ گئی۔
” ساریہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دھوکا کیا اس نے میرے ساتھ چھوڑ کر چلاگیا۔” ساریہ اس کے کمرے میں داخل ہوئی تو ہر طرف پڑی ٹوٹی چوڑیاں بکھری پڑی تھی اور اس سے زیادہ بری حالت بیلہ کی تھی بکھرے ہوئے بال رورو کر آنکھوں کا جل گالوں پر بہہ رہا تھا۔ سار_یہ کو دیکھتے ہی بھاگ کر اس کی لپٹ کر رونے لگی اتنی شدت سے روئی کہ ساریہ بھی بوکھلا گئی۔
” بیلہ صبر_ اور_ حوصلے سے کام لو پلیز_ ر_ونا بند کر_و کچھ نہیں ہو گا۔” وہ اس کے آنسو صاف کر_تی اس کو چپ کر_انے لگی۔
” تم نے ہمیشہ یہی کہا کہ ” کچھ نہیں ہو گا ” لیکن ایسا کبھی بھی نہ ہوا میر_ی ہی غلطی ہے میں نے تمہاری بات مان کر_ زرغم سے بولا کہ مجھے اس کی ضر_ورت نہیں مجھے اس سے پیار_ نہیں لیکن میں اس کے بغیر نہیں رہ سکوں گی سار_ یہ میں مر_ جاؤں گی۔” وہ ایک بار_ پھر اس کے گلے لگ کر_ رونے لگ گئی تو ساریہ سکتے میں آ گئی ۔
” ساریہ بی بی آپ جائیں یہاں سے ۔” خدیجہ بوا جانے کب آئی اور بیلہ کو ساریہ سے الگ کر_ تی ہوئی ساریہ کے گنگ چہر_ے کی طرف نا گوار_ی سے دیکھتے بولی اور بیلہ کا ہاتھ پکڑ کر اس کو بیڈ پر_ بٹھا کر_ اس کے بکھر_ے بال سمیٹنے لگی اور ساریہ لاکھانی کتنی دیر_ وہاں کھڑی ان کو دیکھتی ر_ہی اور_ پلٹ کر باہر نکل گئی۔
” او نہہ جیسے بڑ_ی ہمدر_د ہے ناں۔۔۔۔۔۔۔۔۔” اس کے جاتے ہی خدیجہ بوا بڑ_ بڑ_ائیں۔
” بیلہ آپ کو کسی کے سامنے رونے کی ضر_ورت نہیں آپ کو ہمت سے کام لینا ہے کچھ لوگ آپ کو ٹوٹا ہوا ہی دیکھنا چاہتے ہیں ۔ اگر_ آپ ان کے سامنے یوں بکھر_ بکھر_ جائیں گی تو خوشی ہی ہوں گے ناں کہ وہ کامیاب ہو گئے ہیں۔” خدیجہ بوا اس کے بال سہلاتی اس کو سمجھا رہی تھیں۔
” آپ دل چھوٹا نہ کر_یں زرغم واپس آئے گا۔ سب ٹھیک ہو جائے گا۔” وہ اس کے آنسو صاف کرتی بولیں ۔
” بوا زرغم نے بہت بر_ا کیا میر_ے ساتھ بہت غلط ٹائم پر اس نے مجھے چھوڑا ۔ میں اس کو کبھی معاف نہیں کر_وں گی۔ کبھی بھی نہیں۔” بیلہ بھر_ائے ہوئے ضدی لہجے میں بولی تو خدیجہ بوا نے اس کو دیکھا۔
” ساری غلطی زرغم کی تو نہیں بیلہ اس کے یوں چلے جانے پر_ آپ کا بھی ہاتھ ہے اور_ بھی بہت سے لوگ ملوث ہیں آپ کو ضد کر_نے کی بجائے یہ بات سمجھنی چاہیے۔”
خدیجہ بوا کو دونوں عزیز تھے اور_ وہ ان کا بھلا ہی چاہ ر_ہی تھیں لیکن وہ کسی کا بھی نام لینے سے گر_ یزاں تھیں۔
” ہاں بوا میر_ی ہی غلطی ہے ۔ ” وہ اٹھتے ہوئے غصے سے بولی۔
” زرغم آپ کے لیے خط دے کر_ گیا ہے .” خدیجہ بوا نے اس کو بتایا تو اس نے پلٹ کر ان کو دیکھا ۔
” مجھے ضرورت نہیں ہے اس کے خط کی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بوا آپ کہتی ہیں ناں میر_ ی غلطی ہے لیکن یہ دیکھیں ۔” بیلہ چلتی ہوئی ان کے مقابل آ کھڑ_ ی ہوئی اور_ مہندی چوڑیوں اور پیلے جوڑے سے سجے تھال ان کے سامنے کرتے ہوئے کہنے لگی۔
” کیا زرغم کو ایک بار بھی یہ خیال نہیں آیا کہ میر__ ے ہاتھوں پر___ اس کے نام کی مہندی سجنے والی ہے ایک بار_ بھی اس کو یہ خیال نہیں آیا کہ اس کے یوں چلے جانے پر__ میر__ے دل پر__کیا گز_ر_ے گی؟ ایک بار___ اس نے یہ نہیں سوچا کہ بابا کیا کہیں گے لوگوں سے دو دن بعد مہندی کی ر__سم میں در_جنوں لوگ مدعو ہیں ان سب کے سامنے بابا۔۔۔۔۔۔۔۔۔” کہتے کہتے بیلہ کی آواز بھر___اگئی اور__وہ ر__وتی چلی گئی۔
” میر__ے نام خط لکھنے کا مطلب بنتا ہے بوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔” وہ آنسو صاف کر__تی ان سے پوچھ ر__ہی تھی۔
” بیلہ بیٹا آپ پھر__غلط سوچ ر__ہی ہیں۔ ایک بار__ زرغم کا خط پڑ__ھ لو ہو سکتا ہے اس نے آپ کو بتایا ہو وہ کیوں گیا؟ وہ اتنا پتھر__ دل نہیں کہ یوں چھوٹی سی غلط فہمی پر__ اس طر__ح آپ کو چھوڑ___کر__ چلا جائے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔” خدیجہ بوا نے اس کے بناؤ سنگھار__ کی طر__ف اشار_ہ کر__کے کہا تو وہ ر_خ موڑ_ گئی۔
” یہ لو خط۔۔۔۔۔۔۔” خدیجہ بوا نے ہاتھ میں دبے کاغز_ کو اس کی طر__ف بڑ_ھایا تو وہ کچھ دیر__ ان کے بڑ__ھے ہاتھ کو دیکھتی ر__ہی پھر__خط ان کے ہاتھ سے لے کر_ بیڈ کے سائیڈ ٹیبل کی ڈر_ا میں رکھ کر__ خود چینج کر__نے چلی گئی تو خدیجہ بوا وہیں کھڑی کی کھڑ__ی ر_ہ گئی۔
” کیا بات ہے سار__یہ کب سے دیکھ رہی ہوں یو نہی گم صم بیٹھی ہو۔” فاطمہ کافی دیر__سے بت بنی بیٹھی ساریہ کو دیکھ رہی تھیں جو گہری سوچ میں ڈوبی تھی آخر ان سے ر__ہا نہ گیا تو پوچھنے لگیں ۔
” ساریہ ؟” وہ ٹس سے مس نہ ہوئی تو فاطمہ کو تشویش لاحق ہوئی کہ ہر دم چہکنے والی ساریہ کو آخر آج ہوا کیا جو گھنٹوں یونہی بیٹھی نجانے کون سی سوچوں میں ڈوبی کن الجھنوں کو سلجھا رہی ہے تو وہ اٹھ کر اس کے پاس آکھڑی ہوئیں۔
” جج۔۔۔۔۔۔جی مما۔۔۔۔۔۔۔” وہ یوں چونکی جیسے ان کے وجود سے ہی بے خبر ہو۔
” کیا بات ہے کب سے دیکھ رہی ہوں اسی طرح گم صم ہو کھانا بھی نہیں کھایا ۔ سب خیریت ہے ناں؟” وہ اس کے بیڈ کے پاس رکھی کرسی پر بیٹھتے ہوئے پوچھ رہی تھیں۔
” مما آپ کو پتہ ہے زرغم لاکھانی لاج چھوڑ کر شاید سارے رشتے توڑ کر چلا گیا؟” ساریہ نے اسی خاموش لہجے میں ان کو بتا کر ان کی طرف دیکھا تو وہ نظریں چرا گئیں۔
” یہ تو اچھا ہوا اب وہ جہاں کہیں بھی گیا ہے تم اس کا نمبر ضرور حاصل کر لینا پھر جب وہ واپس آئے گا تو تمہارے حق میں بولے۔۔۔۔۔۔۔۔تم بس اس سے رابطہ ضرور رکھنا۔” فاطمہ راز درانہ انداز میں مدھم لہجے میں اس کو ہدایت دینے لگیں تو وہ جیسے بھری بیٹھی تھی۔
” مما پلیز بس کریں ۔ کب تک آپ ایسے کرتی رہیں گی؟” وہ نفرت سے ان کا ہاتھ جھٹکتے ہوئے بولی۔
” لو میں نے کیاکیا ہے ؟” وہ نا گواری سے بولیں ۔
” زرغم اپنی مرضی سے گیا ہے نہ میں نے بھیجا نہ تم نے پھر تمہیں کیا ہے؟” فاطمہ بے پروائی سے بولیں ۔
” ہاں نہ میں نے بھیجا نہ آپ نے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن وہ کیوں گیا ہے آپ کیوں بھول رہی ہیں ؟” ساریہ طنزیہ نظروں سے ان کی طرف دیکھتی بولی تو فاطمہ سٹپٹا کر اٹھ کھڑی ہوئیں۔
” تم خوامخواہ مجھے اور اپنے آپ کو موردالزام ٹھہرا کر سب کی نظروں میں مجرم بنا رہی ہو ۔” فاطمہ اپنے آپ کو حق بجانب ہی سمجھ رہی تھیں۔
” نہیں مما یہ سب خوامخواہ نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ غلط ہے ۔” وہ فاطمہ کو سمجھاتے رسان سے بولی۔
” تمہیں زیادہ ہمدردی دکھانے کی ضرورت نہیں ہے نہ ہی میں نا سمجھ ہوں جو مجھے سمجھا رہی ہو میں تمہاری ماں ہوں تمہارا بھلا ہی چاہتی ہوں۔” وہ ہتھے سے اکھڑا کر تیز لہجے میں بولیں تو اس کا حلق تک کڑوا ہو گیا۔
” مما آپ نے بیلہ کو روتے دیکھا ہے ؟ اس کا مجھ پر اعتبار دیکھا ہے ؟ باقی سب کی نظروں میں اپنے لیے اور میرے لیے نفرت دیکھی ہے ؟” ساریہ بے بسی سے بھرائی آواز میں ان کو بتا رہی تھی وہ یک ٹک اس کی طرف دیکھ رہی تھیں۔
” آپ نے یہ کچھ بھی نہیں دیکھا مما آپ صرف اپنے بارے میں سوچ رہی ہیں۔ آپ صرف مجھے میری خوشیاں دلا رہی ہیں مما میں کسی کے آنسوؤں پر اپنی خوشیوں کے محل نہیں تعمیر کر سکتی ۔ میری اور آپ کی وجہ سے یہاں اس لاکھانی لاج میں لوگ تنگ ہو رہے ہیں میں نے ہی زرغم کو بیلہ کو چھوڑ نے پر مجبور کیا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔اور اب سب ٹھیک کرنا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔” روتے ہوئے فاطمہ کو بتا رہی تھی۔فاطمہ جیسے حواس باختہ ہو گئیں۔
” یہ غصب کبھی بھی نہ کرنا ساریہ۔” وہ دانت پیستے ہوئے اس کا ہاتھ دبوچتی ہوئی بولیں۔
” مما…….”وہ فاطمہ کا ہاتھ جھٹک کر اٹھ کھڑ___ی ہوئی۔
” مما بیلہ مجھے اچھا سمجھتی ہے لیکن میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کو دھوکا دے رہی ہوں ۔ نہیں مما اب اور نہیں ۔” وہ تیزی سے چپل میں پاؤں پھنساتے بولے جا رہی تھی اور___ فاطمہ اس کو دیکھے جا ر__ہی تھیں۔ یقینا اس کا دماغ تواز__ن بگڑ__چکا ہے ۔ فاطمہ نے اس کو باز_و سے پکڑ__ کر__دوبار__ہ بیڈ پر__پٹخا۔
” خبر__ دار جو کسی کو ایک لفظ بھی کہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تم بھول گئی اس لاکھانی لاج نے تمہاری ماں کے ساتھ کیا سلوک روار__کھا ہے اور__تم سب کو چھوڑ__واپنے باپ کا ر__ویہ دیکھا ہے ہم دونوں لا وار_ثوں کی طرح رہ رہے ہیں اور تم اس بیلہ کے لیے لڑ__رہی ہو جس نے ہمیشہ تمہیں نیچے ر_کھا ہمیشہ تمہاری حق تلفی کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں نے ان سب کو تباہ و بر_باد نہ کر دیا تو میر_انام بھی فاطمہ نہیں۔” وہ کسی خونخوار شیرنی کی طرح ڈھار ر__ہی تھیں۔
” تمہاری شادی زرغم سے ہی ہو گی یہ میرا فیصلہ ہے اب تم جلد از جلد زرغم سے رابطہ کرو ۔ کسی شرم یا جھجک کی قطعی ضرورت نہیں۔ اپنی چیز اپنا حق لینا کوئی غلط بات نہیں ہے۔” اب وہ قدرے نرم لہجے میں بول رہی تھیں ۔
” تم بیلہ سے دور ہی رہو اور یہاں سے کہیں جانے کی ضرورت نہیں تمہارا کھانا اور باقی ضرورت کی چیزیں تم تک پہنچ جایا کریں گی ۔ سمجھ میں آئی ناں میری بات ۔” وہ انتہائی سفا کی سے بولتی رہیں اور ساریہ ڈبڈباتی آنکھوں کے ساتھ ان کو دیکھے جا رہی تھی ۔ اپنی بات ختم کر کے فاطمہ لاکھانی دوسرے ہی پل اس کمرے سے باہر نکل گئیں لیکن جاتے جاتے دروازہ لاک کرنا نہ بھولی تھیں. گویا اس کو قید کر دیا۔ ماں کے ان اطوار پر وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آنسو بہانے سے مسئلے حل نہیں ہوتے جب تک ان کے خلاف کوئی لائحہ عمل نہ اختیار کیا جائے۔
ہاتھ کی پشت سے آنکھیں رگڑتی وہ اٹھ بیٹھی ۔
ذہن مسلسل سوچوں کی وادیوں میں گھوم رہا تھا۔اچانک ذہن میں ایک ر__وشنی کا ستار___ہ جھلملایا اور___ایک پھیکی مسکان اس کے ہونٹوں پر____ آ کر__ رک گئی وہ مطمئن تھی۔ اب ایک کفار__ہ ادا کر__نا ہے۔ اور___اپنی خوشی کی قر__بانی تو دینی ہی پڑ__ے گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور___ اللہ صبر__ کر__نے والوں کو پسند کر__تا ہے ۔ اب اس نے بھی صبر___کرنا ہے اور اپنی اور__فاطمہ لاکھانی کی کھوئی عزت واپس لانی ہے۔ اک نئے عز__م کے ساتھ وہ اس ستار___ے کے گر__د پھیلے بادل ہٹانے کے پلان سوچتی چلی گئی۔