لزرتی ٹانگوں کے ساتھ وہ پانی لیے ہی بغیر کمرے میں واپس آچکی تھی۔
“ناعمہ ٹھیک کہتی تھی کہ بیگم سراج زری کو لے کر آئیں گی۔اس کا مطلب ہے ارسلان اب مجھے گھر سے نکال دیں گے۔” وہ پریشانی سے بڑبڑائی۔
” نہیں ارسلان مجھ سے بہت محبت کرتے ہیں ۔وہ مجھے گھر سے نہیں نکالیں گے۔” اگلے ہی لمحے اس کے ذہن میں یہ سوچ ابھری۔
لیکن دوسرے لمحے پھر وہ یہ سوچ رہی تھی کہ ارسلان زری کو دیکھ کر اسے بھول نہ جائیں ۔ان ہی باتوں کو سوچتے سوچتے کب وہ بیٹھے بیٹھے سو گئی اسے پتا ہی نہیں چلا۔
وہ گاڑی سڑک کے کنارے روکے سیٹ سے ٹیک لگائے بیٹھا تھا۔اسے ماہم پہ بہت غصہ تھا۔انسان کو اب اتنا بھی اچھا نہیں ہونا چاہیے کہ اگلا بندہ آپ کو روند ہی ڈالے۔
ماہم پتا نہیں کیوں اپنی عقل استعمال نہیں کرتی تھی ۔ہمیشہ ہر معاملے کے لیے خود کو دوسروں کا محتاج سمجھتی ہے۔کوئی کچھ بھی کہہ لے اسے برا نہیں لگتا۔البتہ کسی کے کہنے پہ اُس کی محبت پہ شک ضرور کر لیتی تھی۔
اب وقت آگیا تھا کہ اسے سنجیدگی سے ماہم کو خود کو تبدیل کرنے کا کہنا تھا۔اور وہ خود بھی اس سلسلے میں ماہم کی مدد کرنے کو تیار تھا۔
اب ماہم کو سٹرونگ ہونا تھا۔ہر طرح کے حالات اور رویے کو اچھے سے ہینڈل کرنا تھا۔
رات گئے وہ گھر واپس آیا تھا اور سیدھا اپنے کمرے میں گیا تھا۔ماہم بیڈ پہ بیٹھے بیٹھے ہی سو چکی تھی۔
وہ کچھ دیر کھڑا اس کے معصومیت بھرے چہرے کو دیکھتا رہا۔یہ چہرہ اسے بہت عزیز تھا۔پھر اس نے ماہم کو ٹھیک کر کے اس کے اوپر کمبل دیا اور خود دوسری طرف جا کر لیٹ گیا۔
ناعمہ کا خفت کے مارے چہرہ سرخ ہوچکا تھا۔وہ نہایت غصے میں پنڈال کی طرف بڑھ گئی۔
اس کی خالہ زاد نے چہرے پہ مسکراہٹ سجھائے ایک ایک کو ساری بات بتائی۔سارے لوگ اب سرگوشیوں میں ان کے خاندان کے بارے میں بات کر رہے تھے۔پہلے بھی محلے کی کچھ عورتیں رفعت بیگم کے ماہم سے ناروا سلوک کے بارے میں پیٹھ پیچھے باتیں بناتی تھیں اور اب تو خیر سے موقع بھی اچھا تھا۔
” ان لوگوں نے اس معصوم بچی کو مجال ہے جو سکون کا سانس لینے دیا ہو۔باپ کے مرنے کے بعد تو انہوں نے اسے نوکرانی بنا دیا تھا۔اور اپنی طرف سے دشمنی نبھاتے ہوئے بچی کو شادی شدہ اور ایک بچی کے باپ سے بیاہ دیا۔پر خدا کی قدرت کہ اس کا شوہر اچھا نکل آیا۔” خالہ شکورن ہاتھ ہلا ہلا کر محلے کی دو چار عورتوں کو تفصیل بتا رہی تھیں ۔
” صبح جب میں ماہم سے ملنے گئی تو اس معصوم کو کام پہ لگایا ہوا تھا۔وہ تو ادھر بہت ہی سکھی ہے ہر کام کے لیے ملازم ہیں ۔یہ لوگ تو ہیں ہی ظالم ۔اس بچاری کو سکون کا سانس نہیں لینے دیتیں ۔اور اس کے شوہر نے اچھا کیا جو اس ناعمہ چڑیل کی بےعزتی کی۔میں تو کہتی ہوں اس رفعت کو بھی دو چار سناتا۔”خالہ شکورن نے مزید کہا۔
” میں تو سنا تھا لڑکی پاگل سی ہے۔کسی چیز کا پتا نہیں ہے۔”ایک عورت نے کہا۔
” ارے یہ رفعت کا سوتن سے حسد ہے۔ماہم کی خوبصورتی سے جلتی ہے۔ماہم تو پڑھائی میں بھی بہت اچھی تھی جبکہ اس کی ساری اولاد نالائق ۔ماہم کے اندر صرف ان چلتر ماں بیٹیوں والی چالاکی نہیں ہے۔ورنہ تو وہ بہت سمجھدار ہے۔”خالہ شکورن نے فوراً سے ماہم کی حمایت کی تھی۔
دوسری طرف رفعت بیگم کے کانوں میں بھی لوگوں کی سرگوشیاں پڑھ رہیں تھی۔انہوں نے کونے میں بیٹھی ناعمہ سے ساری بات پوچھی تھی۔ زرد ہوتے چہرے کے ساتھ ان کی یہ ہی کوشش تھی کہ فنکشن جلدی سے ختم ہو اور آئمہ کے سسرال والوں تک کوئی بات نہیں پہنچے۔
ماہم نے ایک نظر سوئے ہوئے ارسلان پہ ڈالی اور بستر سے اٹھ کھڑی ہوئی ۔پہلے جا کر اس نے اپنا حلیہ درست کیا۔رات پریشانی میں اس نے وہ بوسیدہ سے کپڑے تبدیل نہیں کیے تھے۔اب اگر ارسلان اسے اس حلیے میں دیکھتے تو ناراض ہوتے۔
پھر اس نے عنایہ کو اٹھا کر تیار کیا۔اور پھر کچن میں عنایہ کے لیے ناشتہ بنانے چل دی۔رانی بھی ناشتہ بنا رہی تھی۔
ناشتہ بنا کر رانی نے ٹیبل پہ لگا دیا۔تب تک بیگم سراج اور زری بھی آچکی تھیں ۔ماہم ایک چور نظر زری پہ ڈالتی عنایہ کو اٹھانے کے لیے سیڑھیوں کی طرف بڑھ گئی۔زری بھی خوبصورت تھی پر ارسلان کی نسبت کم۔
عنایہ نے جب ناشتے کی ٹیبل پہ اپنی ماں کو دیکھا تو ماہم کے پیچھے چھپ گئی۔وہ خوفزدہ ہوچکی تھی اگر اس کی مما واپس آگئی ہیں تو مطلب اب پھر پاپا پہلے جیسے ہوجائیں گے۔
” ڈرو نہیں میں تمہارے ساتھ ہوں ۔” ماہم زرد ہوتے چہرے کے ساتھ بولی۔وہ خود ڈری ہوئی تھی پر عنایہ کو بھی تو اس نے ہی سنبھالنا تھا۔
ناشتہ کرتی زری نے افسوس سے اپنی بیٹی کو دیکھا۔اس نے اپنی بیٹی کے ساتھ کس قدر زیادتی کی تھی۔اس کے پاس بہت سارے پچھتاوے تھے۔
” مما اب آپ ملازموں کو بھی ڈائننگ ٹیبل پہ بٹھا کر کھانا کھلاتی ہیں ۔” زری نے ماہم کو عنایہ کے ساتھ کرسی سنبھالتے دیکھ کر پوچھا۔
” یہ میری بیوی ہے۔” ارسلان نے لاؤنج میں داخل ہوتے ہوئے سخت لہجے میں کہا۔
زری نے افسوس سے سر ہلایا۔اب اسے احساس ہو رہا تھا کہ اس نے ارسلان کے ساتھ کس قدر غلط کیا تھا۔
ماہم کبھی ارسلان کو دیکھتی تو کبھی زری کو۔وہ شاید دونوں کے تاثرات دیکھنا چاہ رہی تھی۔پر دونوں کے چہرے پہ سپاٹ تاثرات تھے۔
” ہم لوگ جلدی ہی آگئے تھے لیکن ملازم نے بتایا کہ تم گھر پہ نہیں ہو۔اس لیے ملاقات نہیں ہوپائی۔” بیگم سراج مسکرا کر بولیں ۔آخرکار وہ لمحات آگئے تھے جن کا انہوں نے بےچینی سے انتظار کیا تھا۔بس چند دن کی بات تھی۔پر سب کچھ ٹھیک ہوجاتا۔
” آپ کیسی ہیں؟” اس نے سنجیدہ لہجے میں کہتے ہوئے ماہم کے برابر والی سیٹ سنبھالی۔زری کو یہاں دیکھ کر اسے جھٹکا لگا تھا۔کس ڈھٹائی سے وہ اس کے گھر میں موجود تھی اور اسے مما سے بھی یہ امید نہیں تھی۔خیر اس کا زری سے کیا لینا دینا۔
” میں ٹھیک ہوں۔تم سناؤ سب ٹھیک ہے۔”بیگم سراج نے پوچھا۔
زری نے ایک نظر ارسلان کے پہلو میں بیٹھی ماہم پہ ڈالی۔رات میں وہ اپنی پریشانی میں اس پہ غور ہی نہیں کرپائی تھی۔اب کیا تو پتا چلا کہ لڑکی تو بہت خوبصورت ہے اور اس کے چہرے پہ معصومیت کے ساتھ ایک انوکھی سی چمک تھی۔زری کو وہ چمک محبت کا اعجاز لگی لیکن مما تو کہتی تھیں کہ ارسلان نے عنایہ کے لیے یہ شادی کی تھی۔اسے ارسلان بھی بہت خوش اور مطمئن لگا۔
ارسلان اس کے پاس بیٹھے تو اسے کچھ تسلی ہوئی۔وہ ان کے ابھی بھی اہم ہی تھی۔عنایہ نے ناشتہ کر لیا تو ارسلان اسے سکول چھوڑنے چلا گیا اور پھر وہ وہاں سے ہی آفس چلا گیا۔جبکہ وہ اپنے کمرے میں آگئی پھر سے اس کے اندر مختلف سوچوں کی جنگ جھڑ چکی تھی۔
” میں تو سیدھی بات کہتی ہوں ۔تم نے تو ہمیشہ ہی بچی کے ساتھ ذیادتی کی لیکن اللہ بڑا مہربان ہے ۔دیکھو تو سہی اسے کیسا اچھا اور خوبصورت شوہر ملا ہے۔” رفعت بیگم کی بڑی بہن نے کہا۔
“آپا یہ ہمارا ذاتی معاملہ میں ہے ۔تم اس میں نہ ہی بولوں تو اچھا ہے۔” رفعت بیگم ناگواری سے بولیں ۔
” لوگ تو گناہ کر کے بھی شرمندہ نہیں ہوتے۔”آپا تیز لہجے میں بولیں ۔
” منگنی ختم ہوچکی ہے اور اب تو صبح بھی ہوگئی ہے۔ تو میرا خیال ہے اب آپ لوگوں کو چلے جانا چاہیے۔”رفعت بیگم نے بھی تیز لہجے میں کہا۔
آپا غصے سے اٹھ کھڑی ہوئیں اور اپنے خاندان والوں کے ساتھ ناراض ہو کر وہاں سے چلیں گئی۔
رفعت بیگم بیٹیوں کے کمرے میں آئیں جہاں آئمہ مسکراتے ہوئے موبائل پہ اپنے منگیتر کے ساتھ مصروف تھی اور آئمہ کے ساتھ بیڈ پہ ناعمہ بازو آنکھوں پہ رکھے لیٹی ہوئی تھی۔
رفعت بیگم نے نفی میں گردن ہلائی۔ ان کی اولاد کے اندر ایک دوسرے کا بالکل بھی احساس نہیں تھا۔
” اٹھ جاؤ کب تک سوگ مناؤ گی۔” آئمہ کو کمرے سے باہر بھیجنے کے بعد انہوں نے ناعمہ سے کہا۔
” میں اس سے کتنی محبت کرتی ہوں اور اس نے اس ماہم پاگل کے لیے میری بےعزتی کر دی۔” ناعمہ روتے ہوئے بولی۔
” دفع کرو اس کو۔وہ تمہارے قابل ہے ہی نہیں ۔” انہوں نے ناعمہ کا دل رکھا۔
” وہ میرے قابل نہیں ہے یا میں اس کے قابل نہیں ہوں ۔ہر انسان خوبصورتی پہ مرتا ہے۔دل تو کسی کو دکھتا ہی نہیں ہے۔”ناعمہ کی آواز دکھ سے بوجھل ہوئی۔اس کے خیال میں وہ اچھے دل کی مالک تھی۔
” بھلا حسد میں ڈوبا دل بھی کبھی اچھا ہوسکتا ہے۔”
” اس ماہم کے پاس کیا یے۔بس گوری چمڑی۔جبکہ تم ہر لحاظ سے بالکل ٹھیک ہو وہ ماہم تو پاگل ہے ۔ابھی ارسلان اس کی خوبصورتی پہ مر رہا ہے۔کل کو اس نے ذرا سی غلطی کی تو چوٹی سے پکڑ کر باہر نکال دے گا۔” وہ یقین سے بولیں ۔
” بس دعا کریں ایسا ہی ہو۔میرا تو سچ میں برا حال ہے۔ایک ارسلان کا نفرت بھرا لہجہ اور دوسری طرف خاندان والوں کی باتیں ۔سچ میں محبت انسان کو بڑا رسوا کرتی ہے۔”ناعمہ ٹھنڈی آہ خارج کرتے ہوئے بولی۔
” اچھا اب کچھ چھوڑو۔اور اٹھ کھڑی ہو۔روگ لینے کے بجائے آگے کا سوچو۔”وہ اس کے کندھے پہ ہاتھ رکھتے ہوئے بولیں ۔اپنے خیال میں وہ ناعمہ کی بھلائی کررہی تھیں درحقیقت وہ اسے تباہی کی طرف دھکیل رہیں تھیں ۔
زری کے آنے سے اسے فرق نہیں پڑا تھا۔ وہ زری سے شدید نفرت کرتا تھا اور یہ نفرت کبھی بھی دوبارہ محبت میں بدلنے والی نہیں تھی۔ وہ اپنی شادی شدہ زندگی میں بہت خوش تھا ۔اس کے پاس ایک محبت کرنے والی وفادار بیوی اور ایک بیٹی تھی۔کسی غیر کے بارے میں سوچ کر وہ اپنی زندگی نہیں خراب کرنا چاہتا تھا۔
وہ آفس سے واپس آیا تو زری اسے لان میں بیٹھی نظر آئی وہ اسے نظرانداز کرتا اندر کی جانب بڑھا۔
” مجھے تم سے بات کرنی ہے.” زری نے ایک دم سے سامنے آ کر اس کا راستہ روکا۔
” لیکن مجھے تم سے کوئی بات نہیں کرنی۔” وہ سپاٹ لہجے میں بولا۔
” ارسلان میں نے تمہارے ساتھ جو کیا ۔میں اس پہ بہت شرمندہ ہوں ۔” اس کے لہجے میں پشیمانی تھی۔
” ریئلی۔” وہ طنزیہ انداز میں بولا۔اسے یقین تھا اس میں بھی زری کی کوئی چال ہوگی۔
” میں جانتی ہوں تمہیں میری بات کا بالکل بھی یقین نہیں آئے گا لیکن سچ اب جب میرے ساتھ برا ہوا ہے تو مجھے احساس ہوا ہے میں نے تمہارے ساتھ کس قدر زیادتی کی تھی ۔احسن نے جب…
” مجھے تمہارے کسی بھی معاملے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔”وہ اس کی بات کاٹ کر سرد لہجے میں بولا اور اندر چلا گیا۔
زری بہتی آنکھوں کے ساتھ لاؤنج میں داخل ہوئی اگر ارسلان اسے معاف کردیتا تو شاید اس کی زندگی آسان ہوجاتی ۔
ماہم کی طبیعت صبح سے بوجھل تھی ۔اسکا جی متلا رہا تھا۔صبح سے وہ کمرے میں بند تھی کھانا بھی اس نے کمرے میں ہی کھایا تھا۔تازہ ہوا لینے کے لیے وہ ٹیرس پہ چلی آئی۔اس کی نظر لان میں باتیں کرتے ارسلان اور زری پہ پڑی۔وہ زرد ہوتے چہرے کے ساتھ ان دونوں کو دیکھ رہی تھی۔پھر ارسلان اندر کی طرف بڑھ گئے وہ وہ بھی پیچھے ہوگئی۔
وہ سر تھامے ٹیرس پہ پڑی کرسی پہ بیٹھی تھی۔ارسلان تو زری سے اتنی نفرت کرتے تھے پھر وہ کیوں زری سے بات کر رہے تھے۔کیا زری کو دیکھ کر انکا دل بدل گیا تھا؟
” کیا ہوا طبیعت تو ٹھیک ہے؟” ارسلان کی تشویش بھری آواز پہ اس نے سر اٹھایا۔اسے پتا ہی نہیں چلا کہ کب وہ کمرے میں آئے۔
” جی ٹھیک ہے۔” اس نے لہجے کو بشاش بنایا۔
” تم جانتی ہو کہ تم مجھ سے جھوٹ نہیں بول سکتی۔اب بتاؤ کیا ہوا ہے؟ کیا مما یا زری میں سے کسی نے کچھ کہا ہے۔”وہ کف فولڈ کرتا اس کے سامنے والی کرسی پہ بیٹھا۔وہ بھول چکا تھا کہ اسے ماہم کو سمجھانا تھا۔
” صبح سے سر میں درد ہے۔” اس نے آدھا سچ بولا۔
” چلو ڈاکٹر کے پاس چلتے ہیں ۔” وہ کرسی سے اٹھتے ہوئے بولا۔
” سر میں درر ہو تو تھوڑی ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں ۔”اس نے کہا۔
” مجھے تو تمہاری طبیعت زیادہ ہی خراب لگ رہی ہے۔” وہ ماہم کے ماتھے پہ ہاتھ کی پشت رکھتے ہوئے بولا۔بخار تو نہیں تھا۔
” میں نے گولی لے لی ہے۔آپ پریشان نہ ہوں ۔”وہ ہلکا سا مسکرا کر بولی۔ارسلان کو اس کی کتنی پروا تھی ۔
” لیکن اگر طبیعت نہ سنبھلی تو ہم رات میں ڈاکٹر کے پاس جائیں گے۔”وہ دوبارہ سے بیٹھتے ہوئے بولا۔
” سوری آپ کو چائے پانی کا تو پوچھا ہی نہیں.” وہ ماتھے پہ ہاتھ مار کر بولی۔
” پانی پی چکا ہوں اور چائے کی طلب نہیں ۔تم بس آرام کرو۔” وہ مسکرا کر بولا۔
اس نے اثبات میں سر ہلایا۔
” عنایہ کدھر ہے؟” ارسلان نے پوچھا۔
” بیگم سراج مطلب مما عنایہ کو آئس کریم کھلانے لے کر گئی ہیں ۔”وہ جواباً بولی۔
” کیا کِیا سارا دن؟” وہ کرسی سے ٹیک لگا کر بولا۔
” کچھ بھی نہیں ۔آج تو بور ہی ہوتی رہی ۔پڑھنے کو بھی دل نہیں کر رہا تھا۔” وہ منہ بنا کر بولی۔
” اس کا مطلب ہے تمہاری طبیعت زیادہ خراب ہے اور تم کہہ رہی ہو کہ ٹھیک ہوں ۔”وہ پریشان ہوا۔
” میں سچ میں ٹھیک ہوں ۔تھوڑی دیر سو جاؤں گی تو سکون ملے گا۔” اس نے مسکرا کر ارسلان کو تسلی دی ۔
” تم پھر آرام کرو۔مجھے ایک ضروری کام ہے وہ نمپٹا کر آتا ہوں ۔” وہ کرسی سے اٹھتے ہوئے بولا۔
ارسلان کے جانے کے بعد وہ کمرے میں آکر لیٹ گئی۔اسے بالکل سمجھ نہیں آرہی تھی کہ ارسلان اس کے ہیں یا زری کے۔
” عنایہ تم اپنی مما سے پیار نہیں کرتی۔”بیگم سراج نے کہا۔وہ زری کے متعلق ہی بات کرنے کے لیے عنایہ کو آئس کریم کھلانے لے کر آئی تھیں ۔
” وہ مجھے بالکل بھی اچھی نہیں لگتی۔آپ ان کو کیوں لے کر آئیں اب پھر پاپا مجھ سے دور ہوجائیں گے۔” عنایہ نے منہ بناتے ہوئے اپنی رائے کا اظہار کیا۔
” ایسا نہیں ہوگا۔زری کو اپنی غلطی کا احساس ہوگیا ہے۔وہ تم سے بہت پیار کرتی ہے اور تم سے معافی مانگنا چاہتی ہے۔بس تم نے اسے معاف کردینا ہے۔”انہوں نے کہا۔
” پر وہ مجھے بالکل بھی اچھی نہیں لگتیں ۔ماہم کتنی اچھی ہے وہ ہی میری مما ہے۔” عنایہ نے سیدھا سیدھا انکار کیا۔
” ماہم تمہاری سوتیلی مما ہیں ۔تم دیکھنا ایک دن وہ تمہارے پاپا کو تم سے چھین لے گی۔”وہ ناگواری سے بولیں ۔
” ایسا نہیں ہوگا۔وہ زری ماما سے بہت اچھی ہیں ۔اور مجھ سے پیار کرتی ہیں ۔”عنایہ نے کہا۔وہ بھی اپنے ماں باپ کی طرح تیز تھی۔اسے پتا تھا کہ ماہم ہی اس کے ساتھ مخلص ہے۔
” اچھا ٹھیک ہے لیکن تم نے زری کو معاف کردینا ہے۔”وہ جھلا کر بولیں ۔وہ زری کا معاملہ حل کرنا چاہتی تھیں اور عنایہ نے ماہم نامہ شروع کر رکھا تھا۔
جب وہ دونوں گھر آئیں تو بیگم سراج عنایہ کو فوراً زری کے کمرے میں لیں گئ۔
” میں نے آپ کے ساتھ بہت برا کیا۔میں بالکل بھی اچھی مما نہیں ہوں۔میں نے کبھی آپ سے پیار نہیں کیا۔پلیز مجھے معاف کردو۔” زری عنایہ کے سامنے ہاتھ جوڑے رو رہی تھی۔پچھتاوں کے ناگ روز اسے ڈستے تھے۔
” اگر میں نے آپ کا سوری قبول کرلیا تو آپ میرے پاپا کو مجھ سے چھین لیں گی۔”عنایہ نے اپنا خوف ظاہر کیا۔
” اب کیسا کبھی بھی نہیں ہوگا۔تمہارے پاپا تمہارے ہی رہیں گے۔بس تم مجھے مما بنا لو۔” اس نے کہا۔
” نہیں میں صرف ماہم کو اپنی مما بناؤں گی۔وہ بہت اچھی ہیں ۔انہوں نے مجھ سے میرے پاپا کو نہیں چھینا۔”عنایہ نفی میں سر ہلا کر سچ بول گئی۔
زری کے دل کو دھچکا لگا۔وہ کس کس گناہ کی معافی مانگتی۔اپنی کس کس غلطی کو سدھارتی۔
” ٹھیک ہے مما نہیں بناؤ لیکن دوستی تو کر لو۔”وہ اپنا ہاتھ اس کی طرف بڑھا کر بولی۔
” کل بتاؤں گی۔”عنایہ نے کہا۔
” عنایہ ۔”کب سے خاموش کھڑی بیگم سراج نے تنبیہ لہجے میں عنایہ کو پکارا۔
” یہ ٹھیک کہہ رہی ہے۔مجھ جیسی انسان سے دوستی کرنے سے پہلے ہزار بار سوچنا چاہیے۔”وہ تلخ لہجے میں بولی۔
” عنایہ تم اپنے روم میں جاؤ ۔اور کل تک زری سے دوستی کر لینا۔” بیگم سراج نے جیسے حکم دیا تھا ۔
” ویسے ارسلان کی بیوی نہ صرف خوبصورت ہے بلکہ نیچر وائز بھی اچھی ہے۔تب ہی تو نہ صرف عنایہ اس کے گن گاتی ہے۔بلکہ ارسلان کے چہرے پہ بھی محبت کی بہار ہے۔ایسی بہار میری موجودگی میں نہیں تھی اور یہ بہار میں آج تک احسن کے منہ پہ دیکھنے کے لیے ترس رہی ہوں ۔آج دوسرا دن ہے احسن نے پلٹ کر پوچھا ہی نہیں ۔”زری کے لہجے میں حسرت اور محرومیاں بول رہیں تھی۔
” بس کردو پہلے عنایہ کے منہ سے ماہم نامہ سن سن کر کان پک گئے اور اب تم کہہ لو۔پتا نہیں اس پاگل میں کیا ہے جو ہر کوئی اس کے گن گا رہا ہے۔”بیگم سراج ناگواری سے بولیں اور کمرے سے باہر نکل گئی۔
زری نے دوبارہ سے احسن کا نمبر ملایا۔لیکن احسن نے فون نہیں اٹھایا۔
” کیسی طبیعت ہے اب۔” ارسلان نے پوچھا۔وہ ابھی میٹنگ اٹینڈ کر کے واپس آیا تھا۔
” ٹھیک ہوں ۔آپ کے لیے کھانا لاؤں ۔” وہ بستر سے اٹھتے ہوئے بولی۔عنایہ سو چکی تھی۔
” بھوک نہیں ہے۔” وہ ٹائی اتارتے ہوئے بولا۔
” کیا آپ کی بھی طبیعت خراب ہے۔” اس نے فکرمندی سے پوچھا۔
” نہیں ۔بس ویسے ہی دل نہیں چاہ رہا۔میں نے رانی کو دو کپ چائے کا بول دیا ہے۔میں چینج کر کے آتا ہوں ۔” ارسلان نے کہا ۔وہ اپنا کوئی بھی کام ماہم سے نہیں کرواتا تھا۔ماہم بس عنایہ کا کھانا وغیرہ بناتی اور دیکھ بھال کرتی۔
ماہم نے اثبات میں سر ہلایا۔وہ سوچ رہی تھی جس طرح پریشانی کی وجہ سے اس کی بھوک اڑ گئی ہے ۔اس طرح ارسلان کی بھی اڑ چکی ہے۔بیگم سراج کھانے کے بعد اس کے پاس آئی تھیں اور انہوں نے اس سے کہا تھا کہ اس کے اس گھر میں چند دن ہیں اور اگر اسے ارسلان پہ اتنا ہی یقین ہے تو وہ ارسلان سے یہ نہ پوچھے کہ کیا زری کے آنے کے بعد وہ اسے نکال دے گا۔
وہ صدا کی سادی بیگم سراج کی بات مان بیٹھی تھی۔پتا نہیں ارسلان کیا فیصلہ کرتے۔
” نیا پاکستان تمہارے خیالوں بن گیا ہو تو چائے پی لیں ۔” ارسلان نے اسے گم صم دیکھ کر اسکے سامنے چٹکی بجاتے ہوئے کہا۔
ماہم سخت شرمندہ ہوئی۔رانی نے کب دروازہ کھٹکھا کر چائے رکھی اسے پتا ہی نہیں چلا۔
” مجھے بتاؤ تم آج کل کن خیالوں میں کھوئی رہتی ہو۔” وہ دونوں چائے کا کپ پکڑے ٹیرس پہ موجود تھے۔
” کہیں بھی نہیں ۔آپ مجھ سے ابھی تک ناعمہ والی بات پہ ناراض ہیں ۔” وہ پریشانی سے بولی۔
” اگر ناراض ہوتا تو ہم یہاں سکون سے نہ بیٹھے ہوتے اور اس وقت مجھے تم پہ بہت شدید غصہ تھا ۔”وہ جواباً بولا ۔
” لیکن میں نے کیا کِیا تھا؟” وہ حیران ہوئی۔
ارسلان کا دل کیا اپنا سر پیٹ لے۔مجال ہے جو اس لڑکی کو اپنی غلطی کا احساس ہو
” تم کچھ نہیں کرتی۔بس میری ہی غلطی ہے۔”وہ بگڑ کر بولا۔ اب ماہم کی کلاس لینی ضروری تھی۔
” اب مجھے ڈانٹ کیوں رہے ہیں ۔” وہ روہانسی ہوئی۔
” تمہیں ڈانٹنے کے ساتھ ایک آدھ لگانی بھی چاہیے۔” وہ چائے پیتے ہوئے بولا۔انداز نارمل تھا۔
لیکن ماہم اپنی پریشانی میں لہجوں کے بجائے لفظوں پہ غور کررہی تھی۔
” اب آپ بھی مجھے سب کی طرح ماریں گے۔”وہ نم ہوتی آنکھوں کے ساتھ بولی۔
” بالکل۔”وہ جواباً خفگی سے بولا۔
” مجھ سے تو کوئی بھی پیار نہیں کرتا۔ پہلے آپ کرتے تھے اب آپ بھی نہیں کرتے ۔” آنسو بہنا شروع ہوگئے تھے۔
” تمہاری حرکتیں ہی ایسی ہیں ۔” اس نے لہجے کو سنجیدہ بنایا۔ماہم کو روتا دیکھ کر اس کا دل کٹا تھا۔زری کے آنے کی وجہ سے ماہم کو سمجھانے والا معاملہ کھٹائی میں پڑ گیا تھا لیکن اب اسے ماہم کی بھلائی کے لیے سخت ہونا تھا ۔تاکہ ماہم کو احساس ہو کہ صرف ارسلان ہی اس کے ساتھ مخلص ہے۔اور ارسلان کی باتوں پہ دھیان دینا ہے۔
” آپ مجھ سے محبت نہیں کرتے ۔” وہ سوں سوں کرتے ہوئے بولی۔
” نہیں ۔” وہ سامنے دیکھ کر بےمشکل بولا۔
” مجھے پتا تھا میں آپ کو اچھی نہیں لگتی۔میں کسی کو بھی اچھی نہیں لگتی۔میں بہت بری ہوں ۔” وہ چہرے سے آنسو صاف کرتے ہوئے بولی لیکن چہرہ پھر آنسوؤں سے تر ہوچکا تھا۔
ارسلان جواباً خاموش رہا۔اس کا دل کر رہا تھا کہ ماہم کے آنسو صاف کر کے اسے یقین دلائے کہ وہ اس سے بہت محبت کرتا ہے لیکن ابھی سنگدل بنے رہنا ہی بہتر تھا۔صبح وہ خود ہی اسے حقیقت بتا دے گا تب تک ماہم کو اپنی غلطی کا احساس ہوچکا ہوگا۔
” اب مجھے گھر سے نکال دیں گے نا۔ زری جو آگئی ہے اب تو آپ کو میری ضرورت نہیں رہی۔” وہ دل کی بات زبان پہ لائی۔
یہ بات سن کر ارسلان کا دماغ گھوم گیا۔اسے ماہم سے یہ توقع نہیں تھی۔ہر روز اس کے منہ سے اظہار محبت سننے کے بعد بھی وہ اسے ایسا سمجھتی تھی تو پھر تف ہے اس کی محبت پہ۔
” اپنی بکواس بند کرو۔ تنگ آچکا ہوں میں یہ سب سن سن کر۔”وہ دہاڑا۔
ماہم نے خوفزدہ نظروں سے اسے دیکھا۔
” تمہیں کچھ سمجھانا بھینس کے آگے بین بجانے کے مترادف ہے۔تم نے بس اپنی آنکھوں سے ہی دیکھنا ہے اور اپنے دماغ سے ہی سوچنا ہے۔دوسرا کیا کہہ رہا ہے تمہاری جوتی جانے۔”وہ غصے کہتا کمرے سے باہر نکل گیا۔
ماہم دونوں ہاتھوں میں منہ چھپائے پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔واقعی ہی اب ارسلان کو اس کی ضرورت نہیں تھی۔اسے آج یا کل اس گھر سے جانا ہی تھا۔
” کہاں جارہے ہو ۔تمہاری تو کل صبح دس بجے کی اسلام آباد کی فلائیٹ نہیں تھی۔” بیگم سراج نے ارسلان کو لاؤنج سے باہر نکلتے دیکھ کر پوچھا۔
” باہر جا رہا ہوں ۔کچھ دیر میں واپس آجاؤں گا۔” وہ سرخ ہوتے چہرے کے بمشکل نارمل انداز میں بولا۔
بیگم سراج کے لبوں پہ مسکراہٹ آئی۔ ارسلان کے چہرے سے لگ رہا تھا وہ شدید غصے میں ہے ۔یقیناً اس پاگل لڑکی نے ان کی کہی باتیں دہرا دی ہوں گی۔تب ہی تو ارسلان کو غصہ آگیا تھا۔
وہ مسرور سی سیڑھیوں کی طرف بڑھیں ۔ماہم انہیں ٹیرس پہ روتی ہوئی ملی تھی۔
” میں نے تم سے کہا تھا نا۔دیکھ لو اپنی اوقات۔” وہ طنزیہ انداز میں بولیں ۔
“وہ مجھ سے محبت نہیں کرتے۔” وہ روتے ہوئے بولی۔
” تم سے بھلا کون محبت کرسکتا ہے۔تمہاری بھلائی اسی میں ہے کہ اس گھر سے چلی جاؤ۔اس سے پہلے ارسلان تمہیں طلاق دے پھر سب لوگ تمہیں طلاق یافتہ کہیں گے۔”وہ خوش ہو کر بولیں ۔انہیں تو کچھ بھی نہیں کرنا پڑا تھا۔
” ارسلان ایسا نہیں کریں گے۔” وہ نفی میں سر ہلاتے ہوئے بےمشکل بولی۔ دل کی حالت عجیب تھی۔
” وہ طلاق کے کاغذات بنوا چکا ہے۔باقی تمہاری مرضی ۔”وہ کندھے اچکا کر بولیں ۔
” مم میں صبح چلی جاؤں گی لیکن آپ ارسلان سے کہیے گا کہ وہ مجھے طلاق نہ دیں ۔” اس نے منت کی۔آخر وہ وقت آچکا تھا جب اسے اس گھر سے رخصت لینی تھی۔
” کیا تم اپنے میکے جاؤں گی۔” وہ کچھ سوچتے ہوئے بولیں ۔
ماہم نے اثبات میں سر ہلایا۔
” پاگل لڑکی اگر تم وہاں گئی تو ارسلان تمہیں وہاں آ کر طلاق دے دے گا۔”انہوں نے اسے مزید ڈرایا۔
” پھر میں کدھر جاؤں گی۔” وہ سخت خوفزدہ ہوئی ۔
” کسی اور رشتہ دار کے گھر چلی جاؤ۔ جسے کوئی اور نہ جانتا ہو۔” انہوں نے کہا۔
ماہم سوچ میں پڑگئی۔بیگم سراج نے کوفت سے اسے دیکھا۔ارسلان کے آنے سے پہلے انہیں سارا معاملہ نپٹانا تھا۔
” میری امی کی خالہ ہیں ۔ادھر کراچی میں ہی رہتی ہیں ۔”وہ یاد آنے پہ بولی۔
” ان کا پتہ تو یقیناً نہیں ہوگا۔” انہوں نے کہا۔
” میں اپنی اماں کا صندوق ساتھ لائی تھی ۔اس میں پتا موجود ہے۔” ماہم نے کہا۔
” ٹھیک ہے صبح میں تمہیں وہاں بھیج دوں گی۔اور تم نے ارسلان سے کوئی بات نہیں کرنی ۔یہ نہ ہو وہ تمہیں ابھی کے ابھی طلاق دے دے۔” جاتے جاتے بھی وہ اسے خوفزدہ کرنا نہ بولیں ۔
ماہم نے اڑی رنگت کے ساتھ اثبات میں سر ہلایا ۔
رات کو جب وہ واپس آیا تو ماہم سو رہی تھی اور صبح جب وہ آفس کے لیے نکل رہا تھا تب بھی ماہم سو رہی تھی ۔عنایہ کو ناشتہ مما نے کروایا تھا۔
ماہم کا یہ رویہ دیکھ کر اسے بہت دکھ ہوا۔وہ اس سے پاگلوں کی طرح محبت کرتا تھا اور ماہم کو پروا نہیں تھی۔
وہ ایک دن کے کیے اسلام آباد آیا تھا۔اس نے گھر میں ایک فون کال بھی نہیں کی۔اگلی صبح سویرے جب وہ گھر واپس آیا تھا تو صرف عنایہ ہی کمرے میں موجود تھی۔اس نے ملازمہ سے ماہم کا پوچھا تو پتا چلا کہ وہ تو کل سے میکے گئی ہے۔
غصے کی ایک تیز لہر اس کے اندر دوڑی۔اس لڑکی نے نہیں سمجھنا تھا۔جو مخلص تھا اس پہ شک تھا اور جو لوگ دھتکار رہے تھے وہ بار بار ان کے پاس جا رہا تھا۔
اس نے سوچا کہ شام کو جا کر اس بیوقوف لڑکی کو لے آئے گا اور اسے پھر سے پیار سے سمجھائے گا۔