“آگے بھیٹو میں تمہارا کوئی ڈرائیور نہیں ہوں”
حسن آبش کو پیچھے کا دروازہ کھولتے ہوے دیکھ کر بولا
“اور میں تمہاری مسسز نہیں ہوں جو حق سے آگے بھیٹوں”
آبش نے جلد بازی میں جو منہ میں آیا بول دیا جب سمجھ آیا کہ کیا کہا تو اپنی زبان دانتوں تلے دبا گئی
“اہاں تمہیں شوق ہے مسسز بنے کا”
وہ اسے بغور دیکھتے ہویے بولا
“نہیں وہ میرے منہ سے نکل گیا”
وہ کنفیوز ہوگئی تھی
“بھیٹو آگے آکر”
وہ غصے سے بولا
“روب تو ایسے جھاڑ رہا ہے جیسے میں اسکے جہیز میں آئی ہوئی ہوں”
وہ سوچنے لگی
“اب بھیٹ بھی جاؤ انویٹیشن کارڈ لا کر دوں تمہیں؟؟ ”
وہ تپ کر بولا
وہ ڈر کر فوراً بھیٹ گئی
“کیا بات ہے بھئی کیوں اتنا مسکرایا جارہا ہے”
حسن جو اسکا ڈرا ہوا اور تھوڑا پھلا ہوا چہرہ سوچ کر مسکرا رہا تھا ایک دم سے سوچوں کی دنیا سے واپس آیا۔۔
حسن کا دوست حامد اسے مسلسل مسکراتے ہویے دیکھتے ہوئے کہنے لگا
آج حسن اپنے کولج کے دوستوں کے ساتھ باہر ڈنر کرنے آیا تھا وہ کافی ٹائم بعد ملا تھا پر وہ سارا ٹائم اپنی ماں کو دینا چاہتا تھا پتا نہیں یہ پل واپس آئیں نا آئیں اسکے دوست اس سے ملنے آئے تو زبردستی کھانے پر لے گئے اور ابھی یہ لوگ اسلام آباد کہ مشہور مونال ہوٹل میں بھیٹے اپنے آرڈر کا انتظار کر رہے تھے کہ اتنے میں اسکے ایک دوست کی نظر اس پر پڑی جو مسلسل مسکرا رہا تھا
“نہیں یار بس ایسے ہی”
حسن بات کو ٹالنے کے لیے کہنے لگا
“نہیں بیٹا کچھ تو چکر ہے ایسے ہی کوئی نہیں مسکراتا کوئی راز تو نہیں چھپا رہا”
حامد اسے جانچتی نظروں سے دیکھنے لگا
اسکی بات سن کر اسکے دو اور دوست اسکی طرف متوجہ ہویے
“بتا بھی دے اتنا بھی کیا چھپانا پیار ویار تو نہیں ہوگیا ”
حامد نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا
“مجھے نہیں پتا پیار کیا ہوتا ہے کیسے ہوتا ہے اسمیں اانسان کی فیلنگس کیا ہوتی ہیں وہ کیا محسوس کرتا ہے بس میں اتنا جانتا ہو جب سے اسے دیکھا ہے ہر سوچ اس پر آکر رک جاتی ہے کچھ بھی سوچلو ختم اس پر ہی ہوتی ہے بہت کوشش کر رہا ہوں کہ نکل جائے دل سے لکین شاید دل اب میری سنتا ہی نہیں”
حسن کسی خیالوں کی دنیا میں رہ کر سب کچھ کہ رہا ہوتا ہے اسکے دوست غور سے اسکی طرف متوجہ تھے
“بھائی تو تو گیا ہوگئی تجھے بھی محبت اللّه ہی حافظ ہے تیرا”
حامد افسوس کرہا تھا جیسے کوئی بری خبر سنی ہو
“تو جا کر کہ کیوں نہیں بتا دیتا تو ہے بھی کچھ دن کے لیے کب جائے کب آے کچھ پتا نہیں ہے اس سے ایک بار کہ کر تو دیکھ کیا پتہ وہ مان جائے”
اسکا ایک اور دوست اسکو ایڈوائس دینے لگا
“یار میں اسے ایک بار ہی ملا ہوں وہ کیسے مجھے ہاں کردیگی”
حسن پریشان لہجے میں کہنے لگا
“تو جب تک ہے تب تک اسے گفٹس دے پھول دے مان جاےگی تو کوشش تو کر”
اسکا دوست لوو گرو بن کر اسے سمجھا رہا تھا
“اسکے گھر جانے کا کچھ سوچتا ہوں”
حسن سوچنے کے انداز میں کہنے لگا
“جلدی سوچ لینا ایسا نا ہو وقت ہاتھ سے نکل جائے”
وہ اسکی ہمت بڑھا رہا تھا جسمیں وہ کافی حد تک کامیاب ہوا اتنے میں ویٹر نے کھانا سرو کیا اور خوشگوار ماحول میں کھانا کھا کر سب اپنے اپنے گھر روانہ ہوگے
******
“میم آپ کو بوس نیچے بلا رہے ہیں”
وہ جو بستر میں آرام سے نیند کی وادیوں میں تھی اچانک اس افتاد کو دیکھ کر منہ کے زاویے بدلنے لگی
“صبح صبح کون سے کیڑے نے کاٹا ہے تمہارے بوس کو جو اتنی صبح صبح کسی جن کی طرح حاضر ہوگئی ہو”
وہ گھڑی میں ٹائم دیکتے ہویے بولی
“میم آپ خود جواب دیدیں وہ نیچے آپکا ویٹ کر رہے ہیں”
ملازمہ پہلے تو اسکی بے باکی پر حیران رہ گی تھوڑا سنمبھل کر بولی
“مجھے نہیں سننا پتا نہیں کیا مصیبت ہے نیند خراب کردی”
وہ منہ پر کمبل ڈال کر کہنے لگی
ملازمہ اسکو منہ پر کمبل ڈالتے ہویے دیکھنے لگی اور پھر مرے مرے قدم اٹھاتے ہویے بوس کے پاس جانے لگی
“بوس اب میرا کیا کرینگے”
ملازمہ ڈرتے ڈرتے۔بوس کے سامنے کھڑی ہوئی
وہ تیار ہوکر جاگنگ سوٹ پہنے کھڑا موبائل استمال کر رہا تھا
ملازمہ کو دیکھ اےبروو اچکا کر پوچھنے لگا جیسے کہ رہا ہو کہا ہے جسے لینے بھیجا تھا وہ کہاں ہے
“بوس انہوں نے منع کردیا وہ سورہی ہیں”
ملازمہ نے ڈرتے ڈرتے کہا جیسے ابھی غصے اسے ہی نا نکال دیں
“میں خود دیکھ لونگا جاؤ تم”
وہ اسکو ہاتھ کے اشارے سے جانے کا کہ کر خود سیڑیوں کی طرف بڑھا
جب وہ کمرے میں گھسا تو اسے نیند میں محو پورا بلنکٹ سے لپٹے ہویے پایا
گہری سانس لے کر وہ اسکی طرف بڑھا
“اٹھو جلدی ہمیں جوگنگ پر جانا ہے”
وہ اسکے منہ سے کمبل ہٹاتا ہوا بولا
اسکی پیشانی پر کچھ لکیریں ابھری جیسے اسے پسند نہیں آیا نیند میں تنگ کرنا
اسکی یہ حرکت دیکھ کر وہ دھیرے سے مسکرایا
“تم اٹھ رہی ہو یا میں تمہیں ایسے ہی اٹھا کر لے جاؤں واشروم”
وہ مسکرہٹ دباے اسے کہ رہا تھا
“اٹھ رہی ہوں پتا نہیں کیا مسلہ آگیا ہے جیسے میں نہیں جاونگی تو جنگ کا آغاز نہیں ہوگا”
وہ تپ کر بستر سے اٹھنے لگی
“جوگنگ پر جانا ہے جنگ پر نہیں”
وہ اسکو غصے میں دیکھ کر لطف اندوز ہورہا تھا
“تم میرے منہ نہیں لگو ورنہ اچھا نہیں ہوگا”
وہ اسکی بات سن کر اور بھڑک کر بولی
“زبان سمبھال کر بات کرو ورنہ مجھے دیر نہیں لگیگی اسے کاٹنے میں”
وہ اسکو اپنی طرف کھیچ کر اسکے بال چہرے پر سے ہٹا کر کہنے لگا
وہ اسے دیکھ کر حیران تھی پل بھر میں وہ سنجیدہ روپ میں آجاتا ہے
“تم کچھ نہیں کر سکتے میرا میں نے ہاتھ میں چوڑیاں نہیں پہنی ڈرتی نہیں ہوں میں تم سے جو کرنا ہے کرلو میں تمہارے ساتھ نہیں چل رہی”
وہ ہمت جمع کرکے بولی
“آہاں نہیں ڈرتی تم اور تم میری بات بھی نہیں مانو گی تو ٹھیک ہے”
وہ کچھ سوچ کر موبائل نکالنے لگا
“میں تمہیں ایک تصویر بھیج رہا ہوں ڈیر سال کا بچہ ہے اسکے گھر جاؤ اور اسکو گولی سے اڑا دو ”
وہ فون پر کسی سے کہنے لگا
“نہیں پلیز ایسا نہیں کرو وہ معصوم ہے اسنے تمہارا کیا بگاڑا ہے پلیز ایسا نہیں کرو”
وہ اسکی بات پر تڑپ ہی تو گئی تھی اسلیے اسکے سامنے روتے ہوئے
منت کرنے لگی
تم چل رہی ہو یہ نہیں”
وہ اسکو دونوں ہاتھوں سے تھامتے ہویے بولا
“میں چل رہی ہوں پہلے اسے منع کرو وہ کچھ نہیں کرے”
تم چلنے کی تیاری کرو باکی کام میں خود کر سکتا ہوں”
وہ اسکا معائنہ کر رہا تھا سادی سی سی گرین رنگ کی لونگ شرٹ پر ہم رنگ کا دوپٹہ اور ٹراوزر پہنا ہوا تھا
“اسکاف پہنو جلدی”
“ہاں میں پہن رہی ہوں”
وہ کپکپتے ہوئے ہاتھوں سے جلدی جلدی اسکاف پہنے لگی
“اور یہ آنسو بھی صاف کرو تھوڑی دیر میں پھر بہنے والے ہیں”
وہ کہ کر کمرے سے باہر چلا گیا
وہ آنسو صاف کرکے فوراً اسکاف بھاند کر نیچے آئی جہاں وہ کپڑے تبدیل کرچکا تھا ریڈ شرٹ اور بلانک پنٹ میں لڑکیوں کے دلوں پر اتر جائے پر اسے کوئی پروا نہیں تھی
“جب جاگنگ پر نہیں جانا تھا تو اٹھایا کیوں”
وہ سر جھٹک کر سوچنے لگی
“Thats like a good girl اسے ہی بات مان لو گی تو کچھ کرنا ہی نہیں پڑیگا” ا
اسکا اشارہ کال پر تھا جو اسنے ڈرامہ کیا تھا موبائل کو سایلینٹ پر لگا کر بات کی تھی تاکہ اسکے دل میں ڈر بھیٹا جائے
“چلو”
وہ اسکے ہمرا باہر نکلی جہاں گھر کے دروازے کے سامنے چھوٹا سا بیھٹک بنا ہوا تھا
“تم یہاں کھڑی رہو گی جب تک میں واپس نا آؤں اور یہ چپل اتارو”
اسے اٹھانے کے چکر میں دس بج گئے تھے اب اسنے اپنا ارادہ ملتوی کردیا تھا
وہ اسے بیھٹک کے برابر میں کھڑا رکھا جہاں کی زمین تپ رہی تھی
وہ اسکی بات سن کر حیران کن نظر سے دیکھنے لگی
“حیران ہونے کی ضرورت نہیں ہے یہ تمہاری سزا ہے میرے سامنے زبان چلانے کی اور اگر ایک سیکنڈ بھی بیھٹیں تو؟؟ ” وہ اسے انگلی سے وارن کرتا ہوا بولا
” اوت تم جانتی ہو مجھے پتہ چل جاتا ہے تو یہ غلطی ہر گز نہیں کرنا”
وہ کہ کر اپنی لینڈ کروزر میں بھیٹ کر چلا گیا
پیچھے سے وہ صرف اسے دیکھتی رہ گئی
__________
“کچھ کام کرلیا کرو جب دیکھو کھبی فون استعمال کرتے ہوئے ملتی ہو تو کھبی بکس کے آگے بیھٹی رہتی ہو آگے جا کر گھر ہی سمبھالنا ہے یہ موبائل تمہارے آگے کھانا پیش نہیں کریگا کہ تم نے ایک بٹن دبایا اور کھانا تمہارے سامنے حاضر ہوگیا”
آبش کی ماں اسکو ایک گھنٹے سے موبائل میں گھسا دیکھ کر غصے سے بولیں
“امی آپ فکر نہیں کرو میں وہاں جا کر بھی آپ کا نام روشن کرونگی یہی کہ دوں گی کہ مجھے کھانا بنانے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے مجھے آپ لوگ کچن سے بے دخل کرے گے تو میں خوشی خوشی چلی جاؤنگی ”
آبش نے تفری میں سر کو خم دیتے ہوئے کہا
“ہاں امی آپ سہی کہ رہے ہو کچھ بھی کام نہیں کرتی بس ہر وقت پلنگ توڑتی ہے”
عرش جو اپنے کمرے سے باہر آرہا تھا اپنی ماں کو سناتے ہوئے سنا تو بات میں مداخلت دینا ضروری سمجھا
“تم سے کسی نے نہیں پوچھا ہے تمہارا کمرہ وہ رہا دوبارہ وہیں چلے جاؤ ”
آبش کمرے کی طرف اشارہ کرتے ہویے بولی
“میں کیو جاؤں میں تو یہی بیھٹوں گا”
عرش صوفے پر بیھٹتا ہوا بولا
“میں ایک چماٹ لگا دونگی دفع ہوجاؤ یہاں سے”
آبش تپ کر بولی
“دیکھ لیں امی کیسے بات کرتی ہے”
عرش وہی بھیٹے اپنی ماں کو آواز دیتے ہوئے بولا
“بس کرو لڑنا ہر وقت لڑتے ہی رہتے ہو گھر کو جنگ کا میدان بنا دیا ہے اور تم اٹھو جا کر پوچا لگاؤ گھر کی صفائی تو کرنی ہی نہیں ہوتی”
اسکی ماں آبش کو بالٹی اور پوچا پکڑاتے ہوئے کہنے لگیں
“کر رہی ہوں حد ہوگئی”
آبش منہ بناتے کہنے لگی
“جاؤ پوچا لگاؤ لڑکیاں یہی کرتی ہیں”
عرش منہ پر ہاتھ رکھ کر ہسنے لگا
“بہت بول رہا ہے نا ابھی بتاتی ہو”
آبش دل ہی دل میں سوچنے لگی
آبش پانی کی بالٹی بھر کر آئی تو عرش اسکا مذاق اڑانے کے لیے کھڑا ہوگیا
آبش بالٹی کو مضبوطی سے تھامے اس پر پھیکنے ہی والی تھی کہ وہ اسکا ارادہ بھانپ کر نیچے جھکا اور جو شخص دروازے سے اندر آرہا تھا سارا پانی اس پر گر گیا۔۔
یہ دیکھ کر آبش نے اپنے منہ پر ہاتھ رکھا
آنے والا شخص پورا پانی میں بھیگ چکا تھا
******
“یہ ریڈ نشان کیو ہوگئے ہے”
وہ اسکے پاؤں کا جائزہ لیتے ہوئے کہنے لگا
“میرا دل ہوا تو میں دھوپ میں بینا چپل پہنے کھڑی ہوگئی اور پتہ ہے اتنا مزہ آرہا تھا کڑکتی دھوپ میں کھڑے رہنے پر میری تو سورج سے دوستی بھی ہوگئی ہے”
وہ ٹونٹ مارتی ہوئی بولی
“اچھا جب تپتے سورج سے دوستی کرلی ہے تو مجھ سے کرنے میں اتنی مشکل نہیں ہوگی اور ہمارا رشتہ تو دوستی سے کہیں اوپر ہے ”
وہ معنی خیز نظروں سے بولا
وہ اسکی بات سن کر نظریں جھکا گئی وہ اس سے فضول کی بہس نہیں کرنا چاہتی تھی اسلیے چپ ہوگئی
وہ الماری سے دوائی نکل نے لگا اور اسکے پاؤں پر آہستہ آہستہ دوا لگانے لگا
وہ اسکے ہاتھ کا لمس محسوس کرکے ضبط سے آنکھیں بند کرکے بیڈ شیٹ کو مضبوطی سے ہاتھوں میں پکڑے بھیٹی تھی وہ درد بھول کر بس اسکے ہاتھوں کی موومنٹ کو محسوس کر رہی تھی
“بس ٹھیک ہوگیا”
وہ اپنا پاؤں اسکے ہاتھ سے نکلاتے ہویے مدھم آواز میں کہنے لگی
“ٹھیک ہے کھانا بھیج رہا ہوں چپ کرکے کھا لینا ورنہ مجھے کھلانے آتا ہے ”
وہ اسکا سرخ چہرہ دیکھ کر سمجھ گیا اسلیے اسکا پاؤں چھوڑ کر اسکا گال تھپتھپا کر کہنے لگا
اسکے سر ہلانے پر وہ روم سے باہر چلا گیا
اسنے اسے جاتے دیکھ گہری سانس لی
“ڈرینکولا”
وہ بڑبڑا کر تکیے پر نیم دراز ہوگئی
_____________
آبش منہ پر ہاتھ رکھ کر حسن کو دیکھنے لگی جو پورا پانی میں بھیگ چکا تھا
حسن کے پیچھے سے عرش اسے منہ چڑا کر اور اشاروں سے وارن کرکے باہر چلا گیا جیسے کہ رہا ہو اب بچو امی کے کہر سے
“سوری بیٹا اسے پتہ نہیں تھا….تم اندر اؤ”
آبش کی امی (آمنہ) آبش کو گھورتی ہوئی حسن کے پاس آتے ہوئے کہنے لگی
“اٹس اوکے آنٹی کوئی بات نہیں ہے”
حسن اپنے کپڑے جو پورے پانی میں بھیگے ہوئے تھے اسے دیکھتے ہویے بولا
“جاؤ آبش بھائی کو واشروم دکھاؤ”
آمنہ آبش کو کہنے لگی جو جانے کے چکر میں تھی
حسن آمنہ کے منہ سے بھائی کا لقب سن کر زور سے کھاسنے لگا
“کیا ہوا بیٹا پانی دوں”
آمنہ اسکو کھانستے ہوئے دیکھ کر پریشانی سے بولی
“نہیں آنٹی میں ٹھیک ہوں”
حسن اپنی کھانسی پر کنٹرول کرکے بولا
اب انکو کیا بتاتا کہ جسکو انہوں نے بھیٹے بیٹھائے بہن بنا دیا اسی سے مجھے محبت ہوگئی ہے
حسن دل میں سوچنے لگا
“چلے میں آپ کو واشروم دکھا دوں”
آبش سر جھکا کر کہنے لگی
“جی چلیں”
حسن اسکے پیچھے جانے لگا
“یہ رہا واشروم اور سوری میں نے آپ کو دیکھا نہیں تھا”
آبش واشروم کی طرف اشارہ کرکے معذرت کرنے لگی
“اٹس اوکے”
وہ لگ ہی اتنی پیاری رہی تھی کہ نظر ہی نہیں ہٹ رہی تھی اوپر سے اسکی معصوم سی معذرت یہاں دل نہ ہارتے تو کہاں ہارتے
حسن اسکے جھکے چہرے کو گور سے دیکھتے ہوئے سوچنے لگا
ایسا نہیں تھا کہ وہ عورتوں کی عزت کرنا نہ جانتا ہو وہ تو اپنے اکیڈمی میں بھی آج تک کسی لڑکی کو نظر اٹھا کر نہیں دیکھتا اس میں کچھ الگ ہی بات تھی جو اسکو اپنی طرف کھنچتی تھی تبھی اسکے چہرے سے نظر نہیں ہٹتی تھی
“آپ فریش ہوجائیں میں تولیہ دیتی ہوں”
آبش اسکا دیکھنا محسوس کر چکی تھی اسلیے گھبراہٹ میں کہا
“جی ٹھیک ہے”
حسن اسکا گھبرانا دیکھ کر نظر چرا کر۔ واشروم میں چلا گیا
“عجیب ہی کوئی انسان ہے ”
آبش بڑبڑا کر واشروم کے ہینڈل پر تولیہ لٹ کا کر اپنے روم میں چلی گئی
حسن نے کپڑوں پر ہیئر ڈرائر مار کر اور بالوں کو تولیے سے رگڑ کر تھوڑے بہت کپڑے سوکھا لیے تھے
حسن باہر آیا تو آمنہ اسکا انتظار کر رہی تھی وہ خود بھی شرمندہ تھی
آمنہ کا چہرہ دیکھ کر اسے اپنے فیصلے پر غصہ آنے لگا کہ بنا بتاے آگیا پر کیا کرتا اپنے دل کے ہاتھوں مجبور بھی تو ہوگیا تھا
حسن اپنے دل کو تسلی دیتے ہویے سوچنے لگا
“آؤ بیٹا بیھٹو کیسے ہو”
آمنہ اسے ڈرائنگ روم کے صوفے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولی
“جی آنٹی ٹھیک الحمدللہ”
حسن اپنے ہاتھ مسل کر صوفے کی طرف بڑھتے ہوئے کہنے لگا
“معذرت بیٹا تمھے تکلیف ہوئی”
آمنہ شرمندہ سی بولی
“نہیں آنٹی کوئی بات نہیں ہے”
حسن انکی شرمندگی کو دهور کرنے کی کوشش کرنے لگا
“تمہارے بارے میں انہوں نے نے بتایا تھا ماشااللہ تم بہت بہادر ہو کبھی اپنی امی کو بھی لے کر آو”
آمنہ اسے پانی کا گلاس تھماتے کہنے لگی
“جی آنٹی ضرور بس میں یہاں کچھ ہی دن ہوں پھر واپس چلا جاؤنگا”
حسن پانی کا سپ لیتے ہویے بولا
“اللّه تمہاری حفاظت کرے”
آمنہ اسے دعا دینے لگی
“میں تمہارے لیے جوس منگواتی ہوں تم بیٹھو”
آمنہ صوفے سے اٹھتے ہوئے بولیں
“نہیں آنٹی اسکی کوئی ضرورت نہیں ہے بس میں یہاں سے گزر رہا تھا تو سوچا کہ سر سے ملتا چلوں مجھے ویسے بھی دیر ہورہی امی بھی گھر میں میرا انتظار کر رہی ہونگی بنا بتاے آنے کے لیے تکلیف معاف”
حسن صوفے سے اٹھتے ہویے بولا
“نہیں نہیں اس میں کیا تکلیف اچھا لگا تم آے ایسے ہی آتے رہا کرو خوشی ہوتی ہے”
آمنہ۔ خوش دلی سے اسکے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولی
“جی آنٹی ضرور ابھی کے لیے اجازت انشاءاللہ پھر ملینگے”
آخری بات اسنے دل میں کہی
“چلو سہی ہے اللہ حافظ امی کو سلام کہنا”
آمنہ نے اسے گیٹ تک چھوڑتے ہوئے کہا
” جی آنٹی ضرور اللہ حافظ ”
حسن کہ کر اپنی ہیوی بائیک پر بھیٹ کر نکل گیا
*****
“یار میرا کچھ ایڈوینچر کرنے کا دل ہو رہا ہے”
سارہ جوش سے بولی
“تمہارا کیا کرنے کا دل کر رہا ہے دیکھو کچھ الٹا مت کرنا آج تو عناہیہ بھی نہیں آئی ہے اس کی امی کی طبیعت بھی ٹھیک نہیں تھی پتہ نہیں کیسی ہوگی ”
آبش فکرمندی سے بولنے لگی
“ارے میری ابھی بات ہوئی ہے اس کی امی اب ٹھیک ہے کل سے وہ یونی آئے گی اور اگر نہیں آئی تو میں اسے گھر سے اٹھا کر لے آؤں گی”
سارا دھمکی دیتے ہوئے بولی
“وہ دونوں آج کلاس لے کر گارڈن میں بیٹھے تھے دوسری کلاس کا بھی ٹائم تھا اس لیے آرام کے غرض سے وہ وہاں بیٹھے تھے
“یار تم نے اس سوہا کو دیکھا ہے”
سارہ کچھ سوچتے ہوئے شیطانی مسکراہٹ لا کر بولی
“تم کیوں اس بلا کو یاد کر رہی ہو ابھی حاضر ہو جائے گی”
آبش بنا اسکی مسکراہٹ دیکھ کر بولی
“یار میرے دل کر رہا ہے اس سے ملنے کو”
سارہ ڈرامہ کرتے ہوئے بولی
“تمہارے اندر تو ہیں ہی اتنے کیڑے جو مرتے ہی نہیں ہیں”
آبش اس کا ذکر سن کر بدمزہ ہو کر بولی
“ارے وہ دیکھو وہ رہے کتنی لمبی عمر پائی ہے اس نے”
سارہ جوش سے بولی
“سارا تو ایسے خوش ہو رہی تھی جیسے اس کو کوئی ہیرا ہاتھ لگ گیا ہو”
آبش بس سوچ کے ہی رہ گئ
“میں تو جا رہی ہوں تم ہی بات کرو بلکہ نہیں جا کر لڑو ویسے بھی وہ بات کم لڑتی زیادہ ہے”
آبش اس کو اپنی طرف آتا ہوا دیکھ کر فوراً اپنا بیگ اٹھاتے ہوئے بولی
“ارے رکو نا یار تمہاری اتنی پھٹتی کیوں ہیں چلو نہ کچھ مزا کرتے ہیں”
سارا آبش کو گھسیٹتے ہوئے لے جاتے ہوے بولنے لگی
“میں کوئی نہیں ڈرتی اسے اگر اس نے مجھے کچھ بھی ٹیڑے میڑے نام سے بلایا تو میں اس کی ہڈیاں توڑ دوں گی بہت لوگوں کے منہ سے سنا ہے یہ سب کو بےعزت کردیتی ہے اسے کسی کا لحاظ نہیں ہے”
آبش اس کو آگاہ کرتے ہوئے بولی
جیسے اسے پتہ ہی نہیں کہ وہ کیا چیز ہے
“ارے بھائی تم چلو بہت بولتی ہو”
سارہ آبش کو گھسیٹتے ہوئے سوہا کے پاس لے گئی
“ہائے برو کیسے ہو تم”
سوہا گلے کی چین کو ہلاتے ہوئے پوچھنے لگی
اس کا حلیہ لڑکوں سے کم نہیں تھا لمبا قد اور اگر کسی کا ہاتھ پڑ جائے تو وہ اٹھتا ہی نہیں ہے پوری یونی کی لڑکیاں اس کے ہاتھ سے ڈرتی تھی یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ وہ پوری لڑکے کی مشابہت رکھتی تھی لو جی اس پر وائٹ شرٹ گلے میںچین لٹکی ہوئی جسے وہ بات بات پر ہلاتی تھی
“ہم ٹھیک ہے تم سناؤ”
سارا نے ہاتھ آگے بڑھاتے ہوئے کہا
“اپون بھی ٹھیک ہے ”
سوہا ہاتھ ملاتے ہوئے بولی
“یہ گونگی ہے کیا”
سوہا آبش کی خاموشی پر بولی
“پاگل ہو گئی ہو کیا تمہیں میں کہیں سے گونگی لگتی ہو کیا”
آبش اسکی بات پر تپ کر بولی
اس کا موڈ ویسے ہی آف تھا یہاں آنے سے اور پھر سونے پر سہاگہ اس کی بات سن کر اور بھڑک گئ
“دیکھنے سے تھوڑی پتہ چلتا ہے کس کی زبان ہے کس کی نہیں ”
سوہا پینٹ کی جیب میں ہاتھ ڈال کر سکون سے بولی
“دیکھو تم فالتو کے میرے منہ مت لگو ورنہ اچھا نہیں ہوگا”
آبش اسکو انگلی دکھاتے ہوئے بولی
“ورنہ کیا کرے گی چوزی جتنی تو ہے دو منٹ میں مسل کر رکھ دوں گی”
سوہا پرسکون لہجے میں بولی
“تم نے مجھے چوزی کیسے بولا تم خود بلڈوزر سے کم ہوکیا”
آبش اسکے چوزی کہنے پر بھڑک کر بولی
“سارا مزے سے دونوں کو دیکھ رہی تھی اسے یہی ایڈوینچر تو چاہیے تھا
“بہت ہوگیا اب میری نظروں سے دفع ہو جاؤ چپکلی”
سوہا رخ موڑتے ہوئے بولی
“کیوں یونی تمہارے باپ کی ہے”
آبش وہی کھڑے رہ کر بولیں
آبش کی لینگویج ہرگز ایسی نہیں تھی بس جب وہ غصے میں آتی تھی تو ہر چیز بھول جاتی تھی
آتے جاتے اسٹوڈنٹ بھی انہیں گھور گھور کر دیکھ رہے تھے لیکن کسی میں ہمت نہیں تھی کہ وہ ان کا جھگڑا سلجھاے
“باپ پر مت جانا ورنہ میرا ہاتھ اٹھ جائے گا”
سوہا اپنے باپ کا نام سن کر بھڑک گئی
“اس کو بھڑکتے ہوئے دیکھ سارہ آبش کا ہاتھ پکڑ کر لے جانے لگی
اس کا کوئی بھروسا نہیں تھا یہ ہاتھ بھی اٹھا دے اور اپنے بندے بھی بلا لے
“چلو آبش بس بہت ہوگیا”
سارہ اسے زبردستی لے جانے لگی
“نہیں رک جا اس نے ہاتھ اٹھانے کی بات کیسے کی ہم ڈرتے ہیں کیا اس سے”
آبش مسلسل اپنا ہاتھ چھڑاتے ہوئے کہنے لگی
“ہاں ہاں لےجا ویسے بھی اتنی سی مینڈکی نے میرا کچھ نہیں بگاڑنا”
سوہا اسکو ہاتھ سے بائے کرتے ہوئے کہنے لگی
“دیکھ وہ کیا کیا بول رہی ہے میرے بارے میں اور تو مجھے باہر لے کر جا رہی ہے”
” دیکھ نہیں سن رہی ہوں تو چھوڑ اسے ہم باہر چلتے ہیں”
سارہ اسے یونی سے باہر لے جاتے ہوئے کہنے لگی
“نہیں رہنے دیں میں خود ہی گھر جا رہی ہوں مجھے بیٹھنا ہی نہیں ہے تم لوگوں کے ساتھ”
آبش غصے سے اسکا ہاتھ جھٹکتے ہوے بولی
“یار سن تو”
سارہ اسے آوازیں دیتی رہ گئی
پر وہ ان سنی کرکے یونی سے باہر چلی گئی
_____________
تابناک مستقبل کی تشکیل کے لئے ماضی کو محفوظ کرنا ضروری
تابناک مستقبل کی تشکیل کے لئے ماضی کو محفوظ کرنا ضروری اسٹیٹ پبلک لائیبریری ، پریاگ راج میں یونیسکو اور...