۱۔
سوچنا تھا کچھ تو اس دن کے لیے
تھا تکلف کس لیے، کن کے لیے
ان گنت لینے تھے کیوں گن کے لیے
تو نے بلبل جب سے دو تنکے لیے
’’ٹوٹتی ہیں بجلیاں ان کے لیے‘‘
چوڑیاں، انگشتری، پازیب، ہار
بڑھ گئیں فرمائشیں جب بے شمار
چڑ کے میں نے کہہ دیا جانِ بہار
ہے جوانی خود جوانی کا سنگھار
’’سادگی گہنا ہے اس سن کے لیے‘‘
تیری ہمدردی نے دنیا تنگ کی
ہے کمی ہر تول میں پا سنگ کی
بات ہونی چاہئے کچھ ڈھنگ کی
’’باغباں کلیاں ہوں ہلکے رنگ کی
بھیجنی ہیں ایک کم سن کے لیے‘‘
دل فریبِ حسن میں جب آ گیا
ساری دنیا سے میرا جھگڑا ہوا
حشر لیکن عشق کا الٹا ہوا
وہ زمانے بھر کے ہیں میرے سوا
میں نے دنیا چھوڑ دی جن کے لیے
کھو گئی رنگیں نظاروں میں نظر
شکل بھی دیکھی نہ گھونگھٹ کھول کر
ہو گئی باتوں ہی باتوں میں سحر
’’وصل کی شب اور اتنی مختصر
دن گنے جاتے اس دن کے لیے‘‘
۲
نت نئے سینکڑوں اشعار کہاں سے لائیں
وقت اتنا بھلا بے کار کہاں سے لائیں
سوچے سمجھے ہی بنا داد جو دیتے جائیں
ایسے با ذوق سمجھدار کہاں سے لائیں
حشر قربانی کے بکروں کا بہت دیکھ چکے
لوگ اب جذبۂ ایثار کہاں سے لائیں
ٹمٹماتے سے دئے کوہی غنیمت جانو
روشنی کا کوئی مینار کہاں سے لائیں
مانا بے تاب زلیخائیں بہت ہیں لیکن
ہند میں مصر کا بازار کہاں سے لائیں
سر ہمیں اپنے رقیبوں کا قلم کرنا ہے
دور ایٹم کا ہے تلوار کہاں سے لائیں