ڈائون اسٹریٹ پر چلتے ہوئے اس کا ذہن سوچوں سے بری طرح الجھا ہوا تھا۔ اسے اس وقت اس برستی بارش کی بھی کوئی پروا تھی نا اس ٹھنڈے موسم کی‘ چہرہ کسی بھی جذبات سے ایسے عاری تھا جیسے وہ کوئی ڈمی ہو اور کسی موسم یا بات کا اثر اس پر مطلق نہ ہوتا ہو۔
’’ایلیاہ میر‘ تمہیں عادت ہے چھوٹی چھوٹی باتوں پر پریشان ہونے کی۔ زندگی ایسے نہیں گزرتی۔‘‘ شام میں ہی اس کے ساتھ بیٹھی نمرہ نے کافی کے سپ لیتے ہوئے کہا تھا۔
’’میں بزدل نہیں ہوں نمرہ۔ مجھے ایسے مت دیکھو میں تھک کر رکنا بھی نہیں چاہتی۔ میں رک گئی تو زندگی رک جائے گی اور…!‘‘ اس سوچ سے آگے وہ سوچ سکی تھی نہ بول سکتی تھی۔ بس خاموشی سے نمرہ کی سمت دیکھا تھا۔ نمرہ نے اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ دیا تھا۔
’’ڈونٹ وری‘ آئی ایم ہیئر‘ اگر تمہیں خود پر بھروسا ہے تو پھر ساری منفی باتوں اور سوچوںکو ذہن سے نکال کر باہر پھینک دو۔ اس عمر میں اتنی ٹینشن لو گی تو آگے جا کر کیا کرو گی؟ چہرے پر رونق رہے گی نہ خوب صورتی۔ تم یوں بھی ’’آئس میڈن‘‘ مشہور ہو۔ کوئی تمہاری طرف مشکل سے ہی متوجہ ہوتا ہے۔ سوچنے کی رفتار یہی رہی تو کوئی بے تاثر نگاہ ڈالنا بھی ترک کردے گا۔ تم چاہتی ہو ایسا کچھ ہو؟‘‘ نمرہ نے مسکراتے ہوئے اسے ڈرایا تھا۔ وہ جانتی تھی نمرہ اسے اس سوچ سے باہر لانا چاہتی تھی تبھی مسکرا دی تھی۔ مگر مسکرانے سے اس کی سوچ ختم نہیں ہوئی تھی نہ وہ فکر گئی تھی۔
’’یہاں آنے کا میرا فیصلہ جیسے کوئی آخری راہ تھی نمرہ۔ مجھے اس سے آگے کی کوئی راہ دکھائی نہیں دی تھی۔ اب اگر یہ راہ بھی کسی بند گلی پر ختم ہوگئی تو میرا کیا بنے گا؟ میری ساری امیدوں کا پانی میں ملنا تو طے ہے نا؟‘‘ ایلیاہ میر نے کافی کا سپ لیتے ہوئے دوسرے ہاتھ سے اپنی کنپٹی کو دبایا تھا۔
’’اوہ مائی ڈیئر ایلیاہ میر‘ کاش میں تمہاری ان بے وجہ کی فکروں کی گٹھڑی بنا کر کسی دریا میں پھینک پاتی یا پھر تمہیں ہی اس دریا میں دھکا دے دیتی۔‘‘ نمرہ نے دونوں ہاتھ اس کے گلے کی سمت بڑھاتے ہوئے اسے گھورا تھا۔ ایلیاہ میر مسکرا دی۔
’’اچھی خاصی معقول لگتی ہو جب مسکراتی ہو۔ تمہیں روتی صورت بنائے رہنا کیوں پسند ہے؟‘‘ نمرہ نے بسکٹ کی پلیٹ اس کی سمت بڑھائی تھی جسے اس نے ہاتھ سے پرے کر دیا۔
’’آئی لوسٹ مائی جاب نمرہ‘ تم جانتی ہو یہ کتنا بڑا نقصان ہے۔ میں اسٹوڈنٹ ویزہ پر یہاں ہوں۔ یہ کساد بازاری کا دور ہے۔ جابز ملنا کتنا مشکل ہے یہ بات تم بھی جانتی ہو۔ میرا ویزہ آل ریڈی ایکسپائرڈ ہوچکا ہے۔ (UK Border Agency) میں ویزا ایکسٹنڈکرنے کی اپیل کیے دو ماہ گزر چکے ہیں۔ ابھی تک مجھے میری یونیورسٹی سے سرٹیفکیٹ ملنے کی کوئی خبر نہیں آئی۔ میں (Post Study Work) کے لیے تب تک اپلائی نہیں کرسکتی جب تک کہ یونیورسٹی مجھے وہ سرٹیفکیٹ نہ دے دے۔ میں اپنی اس ایک پارٹ ٹائم جاب سے بھی ہاتھ دھو چکی ہوں اور تم کہہ رہی ہو میں پریشان نہ ہوں۔ اس سچویشن میں اور کیا کروں میں؟ اب تک میں نے وہ‘ وہ کیا جو تم نے مجھے مشورہ دیا۔ اس موٹے پیٹ والے لائر کے منہ میں کتنے پائونڈز جا چکے ہیں اور کتنے وہ مزید کھانے اور ڈکار لیے بنا ہضم کرنے کو تیار ہے۔ اس کی فکر میں نہ کروں تو اور کون کرے گا؟ میں یہ سب کیسے کر پائوں گی؟ گھر سے ثناء کا فون آرہا ہے۔ ان کو وہاں پیسے چاہئیں۔ کہاں سے بھیجوں میں؟ سب بے کار رہا میرا یہاں آنے کا فیصلہ ہی غلط تھا۔ فضول میں آگئی میں نہ آتی تو اتنی پرابلم میں بھی نہ گھرتی۔ میرے ساتھ تو وہ ہوا آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا اور میری شامت آئی تھی جو اس بے کار کے کالج میں ایڈمیشن لیا اور یہ کساد بازاری کا ٹائم بھی ابھی آنا تھا؟ کب نکلوں گی میں ان پرابلمز سے؟ کہاں سے پیسے بھیجوں گی ثناء اور جامی کو؟ کتنی اسٹوپڈ ہوں میں اب PSW ملنے تک کیا کروں گی؟ یو کے والے مجھے اٹھا کر باہر پٹخ دیں گے اور ایسا نہ بھی ہوا تو کس طرح سروائیو کروں گی۔ سمجھ میں کچھ نہیں آرہا۔ دماغ پھٹ جائے گا میرا۔‘‘ ایلیاہ میر کے پاس فکروں کے انبار تھے۔ نمرہ نے اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھتے ہوئے اسے بھرپور ہمت دلانے کی اپنی سی کوشش کی تھی۔ ایلیاہ میر نفی میں سر ہلانے لگی تھی۔
’’مجھے دبئی کی جاب چھوڑ کر اس طرح یہاں نہیں آنا چاہیے تھا۔ تب مجھے لگا تھا یہی بہتری کی راہ ہے مگر اب لگتا ہے میں نے تمام سفر صرف ایک بند گلی کی طرف کیا۔‘‘
’’تم اتنا پریشان مت ہو کوئی نہ کوئی راہ نکل آئے گی ایلیاہ‘ ایسے نا امید نہیں ہوتے تم کچھ پیسے مجھ سے ادھار لے سکتی ہو۔ اس سے تم خود بھی گزارہ کر سکتی ہو اور جامی اور ثناء کو بھی بھیج سکتی ہو۔ جب جاب مل جائے تو مجھے لوٹا دینا۔‘‘ایلیاہ نے اس کے کہنے پر اسے خالی خالی نظروں سے دیکھا تھا۔ اس پرائے دیس میں نمرہ اس کا ایک مضبوط سہارا تھی۔ اگر وہ یہاں نہ ہوتی تو اس کے لیے یہاں آنا‘ سروائیو کرنا بہت مشکل ہوجاتا۔
’’تم خود کچھ پریشان لگ رہی ہو؟‘‘ ایلیاہ نے اپنی مشکل سے سوچ بچا کر اس کی سمت دیکھا تھا۔ نمرہ نے گہری سانس لی تھی۔
’’نہیں‘ سب ٹھیک ہے۔‘‘ وہ مطمئن نظر آنے کو مسکرائی تھی اور کافی کے سپ لینے لگی تھی۔
’’تم تو گھر جانے والی تھیں نا‘ کیا ہوا؟ ایسے منہ کیوں اترا ہوا ہے؟‘‘ ایلیاہ نے پوچھا تھا۔
’’اب نہیں جا رہی؟‘‘ نمرہ کا انداز مطمئن تھا۔
’’کیوں؟‘‘ ایلیاہ حیران ہوئی تھی۔
’’وہاں کسی کو میری ضرورت نہیں ہے‘‘ وہ اطمینان سے مسکرائی تھی اور اس کی سمت سے نظریں چرا گئی تھی۔ ایلیاہ کو ان آنکھوں میں کچھ دکھائی دیا تھا تبھی ہاتھ اس کے ہاتھ پر رکھا تھا۔
’’کیا ہوا ایسے کیوں کہہ رہی ہو؟ تم تو چھ سال بعد گھر جانے والی تھیں نا؟ اتنی ڈھیر ساری شاپنگ کی سب کے لیے گفٹس لیے سب کو سرپرائز دینے کی ٹھانی اور اب…؟‘‘
’’ہاں میں سرپرائز دینا چاہتی تھی چھ سال بعد وہاں جا کر مگر ابھی وہاں بہت سی ضرورتوں کو پورا کرنا باقی ہے۔ ممی نے بتایا ہے عروسہ کی شادی کے لیے بڑی رقم چاہیے اور مجھے اس کے لیے یہیں رہنا پڑے گا۔‘‘
’’مگر تم تو کچھ ہی مہینے پہلے اپنے بھائی کا یونیورسٹی میں ایڈمیشن کروا چکی ہو اور اس کے سمسٹرز کی فیس بھی بھر چکی ہو۔ پچھلے مہینے تم نے گھر بنانے کے لیے بھاری رقم بھیجی تھی اس کا کیا؟‘‘ ایلیاہ حیران تھی۔
’’میں نہیں جانتی مگر وہ سب اس وقت کی ضرورت تھی۔ اب نئی ضرورتیں منہ کھولے کھڑی ہیں اور اس کے لیے میرا پاکستان جانے کا ٹرپ منسوخ کرنا ضروری ہے۔ ممی نے کل کہا پیسوں کی سخت ضرورت ہے اور میں انہیں یہ بتا نہیں سکی کہ میں آپ سب سے ملنے کو کتنی بے قرار تھی اور کتنی ڈھیر ساری شاپنگ بھی کر چکی تھی۔‘‘ وہ سر جھکائے کہہ رہی تھی۔ ایلیاہ کو افسوس ہو رہا تھا۔
’’اوہ‘ یہ ٹھیک نہیں ہوا‘ نا تم اگر آنٹی کو بتاتیں تو…!‘‘
’’اس سے کچھ نہیں ہوتا۔‘‘ نمرہ اس کی بات کاٹ کر بولی۔
’’لڑکیوں کے کاندھوں پر ساری کی ساری زمہ داریاں ڈال دینے سے ان کے خواب مر جاتے ہیں نمرہ اور وہ اس کی شکایت بھی کسی سے نہیں کرسکتیں۔ دیکھو تم کتنی اسٹرگل کر رہی ہو۔ پچھلے چھ سال سے یہاں ہو۔ جو کماتی ہو سارا کا سارا گھر بھجوادیتی ہو اور اس پر بھی کسی کو تمہاری کوئی پروا نہیں وہ پلٹ کر یہ تک نہیں پوچھتے کہ ٹھیک بھی ہو کہ نہیں۔ گھر واپس آنا چاہتی بھی ہو کہ نہیں؟ ہمیں مس بھی کرتی ہو کہ نہیں بات ہوتی ہے تو صرف پیسے بھجوانے کی‘ ضرورتیں گنوانے کی‘ میری صورت حال مشکل ہے۔ مگر تم میری صورت حال سے کہیں زیادہ مشکل میں ہو۔ میری طرف سارا کا سارا بوجھ اور ذمہ داری اس لیے کہ وہاں کوئی اور ایسا کرنے کے لیے نہیں ہے۔ مگر تم… سب رشتوں کے ہوتے ہوئے بھی سب جھیل رہی ہو۔‘‘ ایلیاہ افسوس سے بولی تھی۔
’’مجھے اس کی پروا نہیں ہے ایلیاہ‘ تم زیادہ مت سوچو میں خوش ہوں۔ میں ان کی کوئی مدد کر رہی ہوں جاذب کی پڑھائی مکمل ہوجائے گی تو میری ذمہ داریاں بھی پوری ہوجائیں گی۔ اینی وے میں اپنے آفس میں تمہاری جاب کے لیے بات کروں گی تم فکر مت کرو۔‘‘ نمرہ مشکل صورت حال سے نمٹنے کا ہنر جانتی تھی اور تھکی ہوئی تو وہ بھی نہیں تھی۔ مگر اسے فی الحال سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اس سچویشن سے کس طرح باہر نکلا جائے۔
…٭٭٭…
وہ گھر کے قریب تھی۔ بارش کے باعث سڑک پر کچھ پھسلن تھی۔ وہ اپنی ہی سوچوں میں تھی۔ تبھی ایک دم سے پائوں پھسلا اور وہ اپنا توازن برقرار رکھنے کی کوشش میں گھنٹوں کے بل زمین پر آرہی اسی وقت اس کے سامنے سے آتی ہوئی کار کے ٹائر چرچرائے تھے۔ وہ اپنی آنکھیں خوف سے بند کر گئی تھی۔ اس نے ڈرتے ڈرتے آنکھیں کھول کر دیکھا۔ گاڑی کی ہیڈ لائٹس اس کی آنکھوں پر پڑ رہی تھی۔ اس نے آنکھوں پر کلائی رکھ لی تھی۔ تبھی گاڑی کا دروازہ کھول کر کوئی باہر نکلا اور اس کے قریب آن رکا۔ ایلیاہ نے اسی طرح گھٹنوں کے بل زمین پر بیٹھے ہوئے آنکھوں پر سے بازو ہٹا کر دیکھا تھا۔ کوئی اسے خشمگین نظروں سے دیکھ رہا تھا۔
’’آپ کو مرنے کا بہت شوق ہے لیکن اس کے لیے میری ہی گاڑی کا انتخاب کیوں؟ آپ کو کوئی اور گاڑی نہیں ملی؟‘‘ کسی نے اسے لتاڑا تو وہ چندھائی ہوئی آنکھوں کو دیکھنے کے قابل بنانے کی سعی کرتے ہوئے اپنی دونوں آنکھوں سے اس بندے کو گھورنے لگی تھی۔ لمحۂ توقف سے اس کی آنکھیں اس قابل ہوئی تھیں کہ وہ سامنے کھڑے لمبے چوڑے بندے کودیکھ پائی تھی۔
’’اب اس طرح کیا دیکھ رہی ہیں؟ گاڑی کے سامنے سے ہٹنے کا موڈ ہے یا نہیں؟‘‘ اس شخص کا موڈ خراب تھا یا اسے دیکھ کر خراب ہوگیا تھا؟ وہ اخذ نہیں کر پائی تھی۔ بس خاموشی سے اس شخص کو دیکھا تھا اور اس کے معصوم انداز میں اس کی سمت دیکھنے سے اثر یہ ہوا تھا کہ اس شخص نےاپنا ہاتھ اس کی سمت مدد کے لیے بڑھا دیا تھا۔ جسے ایلیاہ میر نے حیرت سے دیکھا تھا۔
’’اب ایسے کیا دیکھ رہی ہیں‘ ہاتھ دیجیے۔‘‘ وہ مدد کی بھرپور پیشکش کرتا ہوا بولا۔ ایلیاہ نے تب بھی اپنا ہاتھ اس کی سمت نہیں بڑھایا تھا۔ اس بندے کو شاید ایلیاہ پر ترس آگیا تھا تبھی لمحہ بھر کو اسے خاموشی سے دیکھنے کے بعد وہ گھٹنوں کے بل جھک کر اس کے قریب بیٹھ کر پوچھا۔
’’آپ ٹھیک تو ہیں کہیں کوئی چوٹ تو نہیں آئی؟‘‘ اس کے توجہ سے پوچھنے کا اثر تھا کہ وہ ہی زددرنج ہو رہی تھی آنکھوں سے آنسو نکل پڑے تھے۔
’’اوہ آپ کا پروگرام تو لمبا لگ رہا ہے۔ ٹھیک ہے آپ یہاں بیٹھ کر آنسو بہائیے میں جاتا ہوں میں صرف یہ تسلی کرنا چاہتا تھا کہ آپ ٹھیک تو ہیں۔‘‘ وہ شخص اتنا بے حس ہوسکتا ہے ایلیاہ کو سوچ کر ہی غصہ آیا تھا اور اپنے انتہا سے زیادہ حساس ہونے پر بھی جی بھر کے ملال ہوا تھا۔ اسے اپنے یہ آنسو اس طرح کسی کے سامنے بہانا نہیں چاہیے تھے۔ وہ شاید یہی سمجھ رہا تھا کہ وہ کوئی فضول سی لڑکی ہے اور…!
یہی سوچ کر اس نے اٹھنے کی کوشش کی تھی اورگھٹنے کی چوٹ کے باعث کراہ کر رہ گئی تھی۔ اس اجنبی نے جو اپنی گاڑی کی طرف پلٹ رہا تھا مڑ کر اسے دیکھا تھا اور پھر جانے کیوں اس کے قریب آیا اور مدد کو ہاتھ دوبارہ اس کی سمت بڑھا دیا تھا۔
ایلیاہ نے اس کا پھیلا ہوا ہاتھ دیکھا تھا اور پھر جانے کیا سوچ کر اس کے پھیلے ہوئے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ دیا اور اٹھ کر کھڑی ہوگئی تھی۔
’’آپ کو چوٹ زیادہ لگی ہے تو اسپتال لے چلوں؟‘‘ اس بندے نے پیشکش کی تو ایلیاہ نے سر نفی میں ہلا دیا تھا۔
’’اچھا کہاں رہتی ہیں آپ‘ گھر ڈراپ کردوں؟‘‘ وہ مہربان بننے کی پوری کوشش کر رہا تھا۔
’’اس کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘ وہ سپاٹ لہجے میں کہتے ہوئے اس کے ہاتھ سے اپنا ہاتھ نکال کر ایک سمت کھڑی ہوگئی تھی۔ اس شخص نے اسے بغور دیکھا تھا۔ شاید وہ بھی لیا دیا انداز رکھنے والا تھا یا پھر وہ جلدی میں تھا اور اس میں دلچسپی نہیں رکھتا تھا۔ تبھی گاڑی کا دروازہ کھول کر بیٹھا اور گاڑی آگے بڑھا لے گیا۔ ایلیاہ میر نے بھی کوئی خاص نوٹس نہیں لیا اور زخمی گھٹنے کے ساتھ آہستہ آہستہ چلتی ہوئی گھر کے اندر داخل ہوئی تھی اس کا ارادہ لینڈ لیڈی کا سامنا کرنے کا قطعاً نہیں تھا۔ اس نے کمرے کا رینٹ مانگنا تھا اور وہ فی الحال اس حملے کے لیے تیار نہیں تھی۔ تبھی نظر بچا کر چلتی ہوئی اپنے کمرے میں آگئی تھی۔ بیگ ایک طرف رکھ کر جب وہ گھٹنے کا زخم دیکھ رہی تھی تبھی فون بجا تھا۔ ثناء کا نام دیکھ کر اس نے کال پک کر نے میں ایک لمحے کی بھی تاخیر نہیں کی تھی۔
’’آپا آپ ٹھیک تو ہیں؟ میں کافی دیر سے آپ کا نمبر ٹرائی کر رہی تھی۔ آپ کال پک کیوں نہیں کر رہی تھیں؟‘‘ دوسری طرف ثناء نے فکر سے پوچھا تھا۔
’’میں ٹھیک ہوں۔‘‘ وہ گھٹنے پر اینٹی سپٹک لگاتے ہوئے سسکی تھی۔
’’کیا ہوا‘ آپ ٹھیک تو ہیں نا؟‘‘ ثناء کو فکر ہوئی تھی۔
’’کچھ نہیں ہوا‘ سب ٹھیک ہے تم کیسی ہو؟ جامی کہاں ہے‘ کئی دنوں سے اس نے فون نہیں کیا؟‘‘
’’وہ اپنے سمسٹر میں بزی تھا اور اس کے بعد اسے اسائمنٹ جمع کروانا تھے۔ اس کے نئے سمسٹر کی فیس بھرنا تھی۔ آپ نے کہا تھا پیسے بھجوا رہی ہیں ابھی تک اکائونٹ میں پیسے آئے نہیں۔‘‘
’’وہ ہاں میں تمہیں ویسٹرن یونین سے پیسے بھجوانے والی تھی مگر…!‘‘
’’مگر کیا آپا؟‘‘
’’میں رقم جلد بجھوائوں گی ثناء تم فکر مت کرو۔ تمنا کی اسٹڈی کیسی چل رہی ہے؟ تمہیں فون کرتی ہے یا نہیں؟‘‘
’’کرتی ہے مگر اس کی اسٹڈی ٹف ہے سو زیادہ ٹائم نہیں ملتا اور دو چار سال میں ڈاکٹر بن جائے گی تو آپ کو کافی آرام مل جائے گا۔ ابھی تو ساری ذمے داریوں کا بوجھ آپ کے کاندھوں پر ہے اور…!‘‘
’’ایسا نہیں ہے ثنائ‘ میں ایسا نہیں سمجھتی یہ بوجھ نہیں ہے میری ذمہ داری ہو تم لوگ میں تم سب کا حصہ ہوں‘ تم سب کے علاوہ میرا کون ہے؟ ہم ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ سو ایک دوسرے کی طاقت بھی ہیں۔‘‘ ایلیاہ میر نے کہتے ہوئے گھٹنے کے زخم کو پٹی سے چھپایا تھا۔
’’میں دو چار دنوں میں پیسے بھجوا دوں گی تم جا کر گرو سری کر آنا اور ہاں جامی سے کہنا بائیک زیادہ تیز مت چلائے ورنہ میں آئوں گی تو اس کے خوب کان کھینچوں گی۔‘‘
’’یونیورسٹی سے سرٹیفکیٹ مل گیا آپ کو؟ میں نے نیوز پیپر میں پڑھا تھا آج کل یو کے میں اسٹوڈنٹس کے لیے انہوں نے اپنی پالیسیز کافی سخت کر دی ہیں۔ اب آپ اسٹڈی کے بعد وہاں رک نہیں سکتیں۔ میں نے پڑھا تھا کہ اسٹؑوڈنٹس صرف چائے بسکٹ پر گزارا کر رہے ہیں۔ مجھے آپ کی بہت فکر ہو رہی تھی۔ آپ کو دبئی کی جاب کو چھوڑ کر یو کے جانے کا فیصلہ نہیں کرنا چاہیے تھا۔ یو کے اسٹوڈنٹ ویزا پر جانا بہت بڑا رسک تھا۔ اگر کچھ غلط ہوتا تو…!‘‘ ثناء فکر مندی سے بولی۔
’’کچھ غلط نہیں ہوگا ثنائ۔ میرے پاس دو دو ایم بی اے کی ڈگریاں ہیں اب… اگر چہ یہاں سے کیے گئے ایم بی اے کی ڈگری ابھی نہیں ملی مگر جلد یا بدیر مل ہی جائے گی پھر میں پی ایس ڈبلیو کے لیے اپلائی کروں گی اور دو سال کے لیے لیگلی یہاں رہ سکوں گی اور کام بھی کر سکوں گی۔ اگر ایسا کچھ نہیں ہوتا تو میں جانتی ہوں مجھے کیا کرنا ہے۔ تمہیں اس کے لیے فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں اپنی ذمہ داریوں کو خوب سمجھتی ہو ثنائ۔ میرے ہوتے ہوئے تم لوگوں کو کوئی فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں نے جو بھی کیا جو بھی فیصلہ لیا تم لوگوں کو ذہن میں رکھ کر لیا۔ دو سال بہت ہوتے ہیں۔ دو سال یہاں ٹک جانے کا مطلب ہے تمنا کے میڈیکل کی تعلیم مکمل ہوجانا۔ تمہارا بی بی اے مکمل ہوجانا اور جامی کا ہائی اسکول پاس کرلینا۔ اس کے بعد میں کہیں بھی جا کر کوئی بھی اچھی جاب کرسکتی ہوں۔ میں یہاں مستقل قیام کا سوچ کر نہیں آئی صرف تم لوگوں کا اچھا فیوچر میری نظر میں ہے اور دو سال اس کے لیے کافی ہیں۔‘‘ ایلیاہ میر اسے سہولت سے سمجھاتے ہوئے بولی۔
’’اچھا سنو ثناء میں تم سے بعد میں بات کرتی ہوں مجھے بہت بھوک لگ رہی ہے تھوڑی پیٹ پوجا کرنے دو۔‘‘
’’آپ کھانا کھانے کے بعد SKYPE پر آئیں گی نا؟ ہم نے کئی دنوں سے آپ کو نہیں دیکھا۔‘‘
’’ٹھیک ہے ثناء میں بات کرتی ہوں۔‘‘ ایلیاہ میر نے کہہ کر سلسلہ منقطع کیا تھا اور اٹھ کر واش روم میں گھس گئی۔
…٭٭٭…