دونوں گھروں میں شادی کے مراسم کا آغاز ہوگیا تھا۔ رشتہ داروں کی آمد کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔ شکیل صاحب کے بیٹے خرم اپنے بیوی بچوں سمیت شادی میں شرکت کے لیے آگئے تھے۔ وہی سہیل احمد کے گھر کا بھی یہی ماحول تھا ان کی بیٹی مریم پہنچ چکی تھی۔ دونوں گھروں میں رونق کا سماں بندھ گیا۔
بڑے بھائی کے شادی کے نسبت سے تمام تر ذمہ داریاں، کیٹرینگ سے لئے کر میوزک اور ہال سجانے تک، زوہیب پر تھی جو وہ بخوبی نبھا رہا تھا اور کومل کا بھائی خرم بھی اس کا ہاتھ بٹا رہا تھا۔
اس سب کے چلتے زوہیب اور مسکان کے رابطے میں خاصی کمی آئی تھی۔ مسکان اور زوہیب کو ایک دوسرے کے مصروفیات کا اچھے سے اندازہ تھا اس لئے کبھی بات نہ ہونے پر شکایت نہیں کی۔
****************
وہ آئینہ کے سامنے کھڑی ہونٹوں پر lipgloss لگا رہی تھی جب اس نے امی کی پکار سنی۔ اس نے سر تا پیر خود پر نظر ڈالی اور اپنی تیاری سے مطمئن ہو کے کمرے سے باہر آئی۔
وہ زوہیب کے پسند کئے ہوئے سرخ فراک میں ملبوس تھی ساتھ میں میچنگ کے جھمکے پہنے ہوئے تھے۔ لمبے بال کھلے رکھے تھے اور ہلکا سا میک اپ کیا تھا جو اس کی خوبصورتی میں چار چاند لگا رہا تھا۔
آج ان کو اپنی کار میں جانا تھا جو حال ہی میں عرفان بھائی کو دفتر کی طرف سے ملی تھی۔ باقی سب مہمان بھی اپنی گاڑیوں میں سوار ہو کر ہال کے جانب روانہ ہوئے۔
شکیل صاحب اپنی بیگم اور ستارہ کے ہمراہ کافی پہلے ہی ہال جا چکے تھے اور کومل شام کو تیار ہونے پالر چلی گئی تھی۔
زوہیب کے اسرار کے باوجود اس نے اپنی تصویر نہیں بھیجی وہ زوہیب کو شادی میں پہنچ کر ہی سرپرائز کرنا چاہتی تھی۔ اس وقت وہ زوہیب کا پہلا ردعمل سوچ سوچ کر ہی مسرور ہو رہی تھی۔
ہال پہنچ کر وہ سٹیج کی طرف گئی جہاں ستارہ پہلے سے موجود تھی اور زوہیب سے میوزک اور سجاوٹ کے متعلق کچھ کہہ رہی تھی۔
مسکان:”ستارہ”۔۔۔ اس نے زوہیب کے پیچھے سے ستارہ کو مخاطب کیا۔
زوہیب مسکرا کے پیچھے مڑا اور دیکھتا ہی رہ گیا۔ زوہیب بلیک کلر کے تھری پیس سوٹ میں ملبوس تھا بال جیل سے ٹکاے ہلکی شیو رکھی ہوئی تھی۔ ستارہ آگے کو آئی اور مسکان کی تعریف کرنے لگی۔
ستارہ:” یہ ڈریس واقعی تم پر بہت جچ رہا ہے” اس نے زوہیب کی طرف دیکھ کر اس کی پسند کے لیے داد دینے والے انداز میں آبرو اچکائے اور سٹیج سے اتر گئی۔
زوہیب:”ماشااللہ کوئی اتنا حسین بھی لگ سکتا ہے” اس نے مسکان کے گرد چکر لگاتے ہوئے کہا۔ مسکان نے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا۔”اففف کیا بچے کی جان لو گی” اس نے شرارتی انداز میں کہا۔
مسکان:” بہت فلمی ڈائلاگ ہے” اس نے ہنس کر کہا۔
زوہیب:” ہماری جوڑی بھی تو فلمی ہے تم لیلا میں مجنوں تم ہیر میں رانجھا۔” وہ اب اس کے سامنے آ رکا۔
مسکان:” نہیں مجھے فلمی جوڑی نہیں بنانی وہ سب تو آخر میں بچھڑ گئے تھے مجھے زندگی بھر کا ساتھی چاہیئے۔” اس نے دبے دبے لہجے میں اپنی دلی آرزو بیان کی۔
زوہیب اس کی خواہش پر مسکرایا۔ کچھ دیر خاموشی سے ایک دوسرے کو دیکھتے رہے۔
زوہیب:” ایسا ہی ہوگا انشاءاللہ” اس نے پیار سے کہا اور وہاں سے چلا گیا۔
سارا فنکشن اچھے سے اپنے اختتام کو پہنچا۔ رخصتی کے وقت سب نے اشک بھار آنکھوں سے کومل کو رخصت کیا۔
****************
گھر آکر وہ اپنے بیڈروم میں کھڑکی کے سامنے رکھے سنگل صوفے پر بیٹھی شادی کی تصاویر دیکھ رہی تھی۔ آج زوہیب کے لیے اس کے جذبات کی الگ ہی نوعیت تھی۔
وہ کھڑکی سے باہر پھیلتی رات کو دیکھتی رہی۔
مسکان:” کتنا الگ انداز ہے اس کا اتنے کم عرصے میں بھی اتنا گھر کر گیا میرے دل میں”۔ اس نے آنکھیں بند کر کے چہرے کو چھوتی تازی ہوا کو محسوس کیا۔۔۔ ” مجھے نہیں پتہ میرے اللہ۔۔۔ دلوں کے راز سے تو صرف آپ واقف ہو۔۔۔ اگر زوہیب کی دل لگی سچی ہے اور میرا ارادہ نیک ہے تو آپ زوہیب کو میرا نصیب بنا دو۔۔۔ بیشک آپ ہر چیز پر قادر ہو۔۔۔”
اس نے دل سے دعا کی۔ آنکھیں کھول کر لمبی سانس لی اور سونے کے لیے اٹھ گئی۔
*************
سہیل احمد کے گھر نئی دلہن کے آنے سے خوشی کا سماں تھا۔ زوہیب رات دیر گئے تک فیملی کے ساتھ خوش گپیوں میں مصروف رہا۔ بیڈروم آکے اس کی ہمت جواب دے گئی تھی۔
“مسکان بھی اب سو گئی ہوگی صبح بات کروں گا” یہ سوچتے وہ تھکن سے چور سوگیا۔
*************
شادی ختم ہوجانے کے بعد ایک ایک کر کے سب مہمان واپس گھروں کو لوٹ گئے۔اس کی زندگی معمول پر آگئی۔ گھر سے کالج اور کالج سے گھر۔ زوہیب سے رابطہ بھی پھر سے بحال ہوگیا۔
اس دن وہ قلم دانتوں میں دبائیں بیٹھی نوٹس بنا رہی تھی جب زوہیب کا میسج موصول ہوا۔ کئی دنوں سے وہ اسے ملنے کے لیے التجا کر رہا تھا اور مسکان مسلسل ٹالتی رہی تھی۔ اسی بات پر ان کی زرا سی ناراضگی بھی ہوگئی تھی۔ رات کو وہ ناراض ہو کر سوئی اور صبح سے اس نے کوئی رابطہ نہیں کیا تھا۔ اب بھی پہل زوہیب نے کی لیکن اسے میسج کا جواب دینے میں جھجک ہو رہی تھی۔
“اگر اس نے پھر سے اکیلے ملنے کا مطالبہ کیا تو” اس کی سوچ کا تسلسل موبائل فون کے بجنے سے ٹوٹا لیکن اب بھی وہ اس کا کال اٹھانے کے لیے راضی نہیں تھی۔ کال 2 دفعہ کی گئی اور پھر موبائل بجنا بند ہوگیا۔
اس صبح اٹھ کر وہ زوہیب کو میسج کر کے کالج کے لیے تیار ہونے لگی اور بار بار جواب کے انتظار میں موبائل اٹھا کہ دیکھتی لیکن سب بیکار۔ وہ موبائل بیڈ پر پٹختی کمرے سے باہر نکل گئی۔ کالج جانے سے پہلے اس نے کمرے میں آ کے پھر سے موبائل دیکھا لیکن کوئی جواب موصول نہیں ہوا تھا اس نے غصہ میں آکر کال ملائی موبائل فون آف تھا۔ اسے شاک سا لگا۔ وہ اپنا موبائل بھی آف کرتی کالج کے لیے چل پڑی۔
دن بھر وہ چڑچڑے پن کی کیفیت میں مبتلا رہی پڑھائی میں بھی اس کا دل نہیں لگ رہا تھا۔ ستارہ کو نظرانداز کئے گھر لوٹتے ہی موبائل آن کیا پر وہاں اب بھی کوئی notification نہیں تھا۔ اب اس کا دل ڈوبنے لگا اس کا غصہ، فکرمندی میں تبدیل ہوگیا۔
اسے اب زوہیب کے اس طرح مسلسل غیر موجودگی خوف زدہ کر رہی تھی۔
“اس طرح تو پہلے کبھی نہیں کیا اس نے” وہ اب بے چینی سے کمرے میں دائیں سے بائیں چکر کاٹ رہی تھی۔
اس نے ایک اور کوشش کی موبائل آن ہوگیا تھا رنگ جا رہی تھی لیکن جواب موصول نہیں ہوا۔ اس کے دل میں وسوسے آنے لگے۔
“کیا اس کی پسندیدگی صرف مجھ سے ملنے تک تھی۔ میں نے ملنے سے منع کیا تو اس نے رابطہ ختم کر دیا” اس کا دل بھر آنے لگا۔ اس کا زور زور سے رونے کا دل کیا۔
“نہیں میں نہیں رو گی آخر کیوں رووں میں اس کے لیے لگتا کیا ہے وہ میرا” اس نے بھرائی آواز میں کہا اور گیلی سانس اندر کھینچ کر سونے کے لیے لیٹی۔
اگلی صبح اسے اٹھنے میں مشکل پیش آرہی تھی۔ اسے اپنے سر اور آنکھوں میں شدید درد محسوس ہوا کچھ دیر بیڈ پر بیٹھی اپنی پیشانی مسلتے ہوئے تکلیف کم کرنے کی کوشش کی پھر فریش ہونے واشروم چلی گئی۔ رات بھر رونے اور جاگتے رہنے کی وجہ سے آنکھیں اور ناک سرخ ہوگئے تھے۔ وہ ناشتہ کرنے ٹیبل پر بیٹھی تو امی اس کی حالت دیکھ کر فکرمند ہوئی۔
امی:”تمہیں کیا ہوا” امی نے قریب آ کر اس کی پیشانی پر ہاتھ رکھ کر بخار چیک کیا۔
کوشس کے باوجود وہ امی سے اپنی حالت نہیں چھپا سکی۔
مسکان:”کچھ نہیں ہوا امی۔۔۔ بس طبیعت ٹھیک نہیں لگ رہی نیند پوری نہیں ہے” اس نے بیزاری سے امی کا ہاتھ پرے کیا۔
امی:” طبیعت نا ساز ہے تو کالج سے چھٹی کر لو” امی نے اسے چائے دیتے ہوئے تجویز دی۔
مسکان:” نہیں امی اتنی نہیں خراب۔۔۔ٹھیک ہوں۔۔۔” امی سے کہتے وہ اٹھ کر کمرے میں آگئی اور کالج جانے کی تیاری کرنے لگی۔
“چھٹی کرو گی تو سارہ دن زوہیب کے بارے میں سوچتے اداس رہوں گی۔۔ بہتر ہے کالج چلی جاو کچھ دھیان بٹا رہے گا۔” اس نے تیار ہوتے ہوئے سوچا۔
***********
کالج میں بریک کا وقت تھا وہ لان میں درخت کے سایے تلے گھاس میں چوکڑی کئے گم سم بیٹھی تھی۔ ستارہ بچتے بچاتے سموسوں کی 2 پلیٹ لیئے اس کے پاس آئی۔
ستارہ:” اففف توبہ اتنا رش لگتا ہی نہیں کوئی لڑکی گھر سے ناشتہ کر کے آئی ہو” اس نے مسکان کے پاس بیٹھ کر ہاتھ جھاڑتے ہوئے کہا۔
مسکان اب بھی چپ چاپ سموسے کو گھور رہی تھی۔
ستارہ:” اب شکل کیا دیکھ رہی ہو جلدی کھاو بریک ختم ہوجائے گی” اس نے سموسے کا ٹکڑا توڑ کر منہ میں ڈالا۔
مسکان:”پیار کیا ہوتا ہے” اس نے بے دھیانی میں نظریں سامنے غیر مروی نقطہ پر جمائے ہوئے کہا۔
ستارہ:” پیار۔۔۔۔ پتہ نہیں لیکن اتنا جانتی ہوں یہ پیار ایک دفعہ کسی کو ہوگیا تو دماغ خراب کردیتا ہے۔۔۔” اس نے مذاق اڑانے والے انداز میں کہا۔ “کہیں تمہیں پیار تو نہیں ہوگیا” اس نے تجسس سے مسکان کو دیکھا جو ایسا سوال پوچھنے کی اپنے بیوقوفی پر پچھتا رہی تھی۔۔۔۔
” ھمممممم زوہیب۔۔۔۔۔ زوہیب سے پیار ہوگیا ہے تمہیں۔” وہ شرارت بھری دلچسپی سے مسکان کے قریب کھسکی۔
مسکان:” ارے نہیں یار میں نے ایک جنرل سا سوال کیا اور تم کہاں سے کہاں کا جوڑ توڑ رہی ہو” اس نے منہ بنایا اور ستارہ کے مزید سوالوں سے بچنے کیلئے سموسہ کھانے لگی۔
وہ بھاری قدموں سے گھر میں داخل ہوئی۔ کپڑے تبدیل کر کے موبائل اٹھایا تو زوہیب کے میسجز اور مس کال آئی تھی۔ اس کے ماتھے پر شکن در آئی۔
مسکان:” تو اب فرصت ملی ہے جناب کو۔۔ جائے میں بھی نہیں بات کروں گی” وہ منہ پھلائے ہاتھ باندھ کر بیٹھ گئی۔
کال پھر سے آنا شروع ہوئی اور متواتر آتی رہی۔ مسکان کو بیچنی ہونے لگی۔
مسکان:” جی فرمائیں” اس نے بنا سلام دعا کے بنا کوئی تہمید باندھے سیدھ سادھے کہا۔
زوہیب:” اسلام علیکم کیسی ہے میری جان۔” اس نے مسکان کے ناراضگی کو نظرانداز کئے خوشگوار مزاج سے کہا۔
وہ ابھی ابھی کسی سفر سے لوٹا تھا فون کان اور کندھے میں دبائے جھک کر اپنے جوتوں کے تسمیں کھول رہا تھا۔
مسکان:” آپ سے مطلب جیسی بھی ہوں۔ آپ جاو اپنا انجوائے کرو” وہ ٹس سے مس نہیں ہوئی۔
زوہیب:” OMG اتنا غصہ۔۔۔۔ انجوائے کون کرنے گیا تھا یار سکالرشپ کے کام سے اچانک اسلام آباد جانا پڑا تھا انٹرویو کے لئے بلایا تھا and guess what ویزا منظور ہوگیا ہے” اس نے ایک ہاتھ سے موبائل پکڑے دوسرے سے شرٹ اتاری۔۔۔ “پرسوں یہی بتانے کے لیے تو کالز اور میسجز کر رہا تھا پر آپ میڈم نے کوئی رسپانس نہیں دیا اور صبح مجھے جلدی میں جانا پڑا بتانے کا موقع نہیں ملا۔”
وہ اب بیڈ پر ٹانگیں دراز کئے سستاتا ہوا مسکان کو وضاحت پیش کر رہا تھا۔
مسکان کے غصہ و غضب پر جیسے گھڑوں پانی پھیر گیا ہو۔ اسے پرسوں زوہیب کے کالز نہ اٹھانے پر احساس ندامت ہوا۔
مسکان:” اگر فون اٹھا لیتی تو دو دن پریشانی نہیں اٹھانی پڑتی” اس نے مایوسی سے سوچا۔
***************
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...