بخش لائل پوری ،لندن کے ممتاز ترقی پسند شاعر ہیں۔ اب تک ان کے پانچ شعری مجموعے ”لہو کا خراج“، ”زندانِ شہر“، ”بادِ شمال“، ”ابھی موسم نہیں بدلا“ ۔۔۔شائع ہو چکے ہیں۔ ان کی شاعری اور ان کے ترقی پسند جذبات و احساسات کو ادبی دنیا میں بڑے بڑے ادیبوں نے خراج تحسین پیش کیا ہے۔ ان کی شاعری کو قبولیت کی سند دینے والے ادیبوںا ور دانشوروں میں فیض احمد فیض، ڈاکٹر محمد حسن، جمیل ملک، منیر نیازی، رئیس امروہوی، ڈاکٹر گوپی چند نارنگ، ڈاکٹر قمر رئیس، ڈاکٹر انور سدید، فارغ بخاری، محمود ہاشمی، ساقی فاروقی اور ایسے ہی متعدد دوسرے لوگ شامل ہیں ۔ ان چند ناموں سے ہی اندازہ کیا جا سکتاہے کہ بخش لائل پوری کی عوامی شاعری کو عوام کے ساتھ اعلیٰ ادب پسند کرنے والے ادیبوں نے بھی پسند کیا ہے۔
انگلینڈ میں آنے والے اور یہیں آباد ہو جانے کے باوجود بخش لائل پوری اپنی ثقافتی جڑوں سے پوری طرح جڑے رہے ہیں۔ پنجاب کے مانچسٹر لائل پور شہر کو کبھی کا فیصل آباد کا نام مل چکا ہے لیکن بخش لائل پوری نے اپنے نام کا وہی حوالہ قائم رکھا ہے جو دراصل ان کی ثقافتی پہچان کا حوالہ ہے۔ پنجابی شاعری اور گیتوں نے انہیں بچپن ہی سے اپنے سحر میں لے لیا تھا۔ پنجاب کے دیہاتوں اور شہروں میں یکساں مقبو ل منظوم قصے کہانیوں نے ان کے اندر کے شاعر کی تربیت کی اور رفتہ رفتہ انہیں شعر گوئی کا شعور عطا کیا۔ شعر گوئی کے شعور اور ترقی پسند شعور نے مل کر ان کی شاعری کو دو آتشہ کر دیا۔ اپنے اردگرد کے ماحول سے لے کر بین الاقوامی صورت حال تک بخش لائل پوری کی بصیرت اور بصارت نے جو کچھ دیکھا اور محسوس کیا اس کا برملا اظہار کر دیا۔ وہ مظلوم طبقوں کے لئے دردمند دل رکھنے کے ساتھ استحصالی قوتوں کے کڑے نقاد بھی ہیں۔ ترقی پسند تحریک کے سارے اثرات ان کی شاعری میں فنکارانہ طور پر آئے ہیں۔ فیض احمد فیض کی اس رائے میں بخش لائل پوری کی شاعری کے پس منظر اور پیش منظر کو بڑی ہی جامعیت کے ساتھ نشان زد کیا گیا ہے کہ
”یہ ایک حساس دل کی سچی آواز ہے جس کا نواسنج نہ صرف عصری تقاضوں سے بہرہ ور ہے بلکہ اپنی پرخلوص فکر اور جذبہ کے اظہار کو بھی مقدم سمجھتاہے۔ بخش نے اردو شاعری کی مروجہ ادبی زبان استعمال کی ہے اور ان کے کلام کا مزاج عوامی شاعری کا ہے۔ سادگی، بے باکی، صداقت اور بے ساختگی جو اس نوع کی شاعری کا خاصہ ہے بخش کے کلام میں آپ کو ملے گی اور لطف دے گی“۔
فیض کی بیان کردہ خوبیوں نے بخش لائل پوری کوموجودہ ترقی پسند شاعروں میں صف اول کا شاعر بنا دیا ہے۔
ترقی پسند تحریک کے زیر اثر لکھنے والوں نے اپنی تحریروں میں مصنوعی بین الاقوامیت پیدا کرنے کی بجائے ہمیشہ اپنے اردگر دکے ماحول کو اولین اہمیت دی ہے۔ عوام کے مزاج، جذبات و احساسات کو عوام ہی کی زبان میں لیکن ادبی سلیقے سے بیان کیا ہے۔ یوں ترقی پسند تحریک کے کامیاب تخلیق کاروں نے اپنی مقامیت سے ہی اپنے فن پاروں کو بین الاقوامیت عطا کی ہے۔ بخش لائل پوری نے بھی اپنی اوریجنلٹی کو قائم رکھتے ہوئے اپنی مقامیت سے ہی اپنی شاعری کی بنیاد اٹھائی ہے ۔ ماہیے سے ان کی دلچسپی اور وابستگی ان کے اسی رویے کی وجہ سے ہے ۔ پنجابی شاعری اور لوک گیت بچپن سے ان کے اندر رچے ہوئے ہیں۔ اب پنجابی ماہیے نے اردو میں آ کر ایک ادبی صنف کے طور پر خود کو نمایاں کیا ہے تو بخش لائل پوری نے اس نوخیز صنف میں اپنا ثقافتی حوالہ محسوس کیا ہے۔ اس ثقافتی حوالے سے اپنی ترقی پسند آن بان کے ساتھ انہوں نے ماہیا نگاری بھی کی ہے اور اردو ماہیے کو ترقی پسند افکار سے بھر دیا ہے ۔
یوںتو امین خیال، مناظر عاشق ہرگانوی، نذیر فتح پوری، انورمینائی اور متعدد دوسرے ماہیانگاروں کے ہاں عصری مسائل پر کھل کر جذبات کا اظہار کیا گیا ہے ۔ لیکن ان سب کے ہاں یہ انداز جزوی طو رپر آیاہے جبکہ بخش لائل پوری کے ہاں یہ رویہ اتنا مضبوط، توانا اور عمومی تاثر کا حامل ہے کہ یہی ان کی ماہیانگاری کی اصل پہچان بن گیا ہے۔ پہلے سے جزوی طور پر اس انداز کے ماہیے موجود ہونے کے باوجود بخش لائل پوری کے ماہیوں کا یہ مجموعہ اس لحاظ سے ترقی پسند رویے کا پہلا مجموعہ ہے جو ترقی پسند سوچ کے بیشتر پہلوﺅں کی ترجمانی کرتا ہے۔ ماہیے کی پنجابی روایت میں اپنی بات ہمیشہ ایسے سیدھے سادے انداز میں کہی جاتی ہے جو قابل فہم بھی ہو اورپُرتاثیربھی۔ ترقی پسند شاعری میں بھی مجموعی طور پر یہی انداز مقبول رہا ہے سو بخش لائل پوری کی پنجابیت اور ترقی پسندی ۔۔۔ دونوں کو ماہیے کی فضا راس آئی اور ان کی پنجابیت اورترقی پسندی نے مل کر اردو ماہیے کو اس انداز کے ماہیوں کا پہلا بھرپور مجموعہ عطا کر دیا ہے اور انہوں نے اردو غزل اور نظم کی طرح ماہیے میں بھی اپنی تازہ کاری کے جوہر دکھائے ہیں۔
اس مجموعے کا نام ”سوچ سمندر“ ہے ۔ اس نام سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ بخش لائل پوری کی شاعری میں سوچ کا غلبہ ہے۔ ان کی سوچ، ان کی فکر نے ترقی پسندی کے جذبات کے ساتھ گُندھ کر ان کی شاعری میں ظہور کیا ہے۔ اس بات کو یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ ان کی فکر اور جذبہ دونوں میں گہری ہم آہنگی ہے۔
میں نے تھوڑا پہلے اس امر کی نشان دہی کی ہے کہ بخش لائل پوری کے ماہیے ترقی پسند سوچ کے بیشتر پہلوﺅں کی ترجمانی کرتے ہیں۔ اس حوالے سے بخش لائل پوری کے ماہیوں کے مختلف موضوعاتی رنگ ایک نظر دیکھ لئے جائیں تو مناسب ہو گا۔ اہل سیاست جو درحقیقت اقتدار کی میوزیکل چیئر گیم کھیلتے رہتے ہیں۔ بخش لائل پوری ان اہل سیاست کے بارے میں کہتے ہیں:
گمراہ قیادت کی
نور پرستوں سے
کر بات نہ ظلمت کی
افتاد نے گھیرا ہے
اہلِ گلستاں کو
صیّاد نے گھیرا ہے
٭
اس قوم پہ لعنت ہے
اپنی سیاست میں
چوری ہے خیانت ہے
حاصل ہے کہانی کا
داغ نہیں جاتا
صدیوں کی غلامی کا
٭
٭
بے سمت غبارا ہے
نوک پہ جوتے کی
آئین کو مارا ہے
بندوق ہے شانوںپر
حکم اڑانوں کا
اور تیر کمانوں پر
ان چند ماہیوں سے ارض وطن کی گزشتہ نصف صدی کی تصویر کا ایک واضح خاکہ ابھر آتا ہے۔ آئین کو جوتے کی نوک پر مارنے کی بات کرنے والے اور بندوق کے زور پر حکومت کرنے والے عہد کا ذکر آئے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ مذہب کی آڑ لے کر ظلم و تشدد کرنے والوں کو نظرانداز کر دیا جائے۔ بخش لائل پوری ایسے مذہبی لیڈروں اور ان کی حقیقت کو یوں ظاہر کرتے ہیں:
ہے ان کی حقیقت کیا؟
شہر کا ملّا کیا؟
یہ پیرِ طریقت کیا؟
اوہام کے غاروں میں
بند ہیں مولانا
ماضی کے مزاروں میں
لیکن اہل مذہب اور مذہبی قیادتوں کے منفی کردار کے باعث بخش لائل پوری جیسے مذہب ہی سے بیزار ہونے لگتے ہیں۔ یہ مذہبی بیزاری ترقی پسند تحریک کے زیر اثر بھی ہو سکتی ہے ۔ تاہم اس رویے کے پنپنے میں بہرحال اہلِ مذہب کا عموماً اور مذہبی قیادتوں کا خصوصاً اہم کردار رہا ہے ۔ یہ سب اپنے قول و فعل میں تضاد کے باعث منافقت کو فروغ دے رے ہیں۔ محبت کے بلند بانگ دعوے کرنے اورعملًا نفرت کے بیج بونے، ظاہری طور پر آزادی اور رواداری کی باتیں کرنی اور حقیقتاً جبر و تشدد اور بلیک میلنگ کو فروغ دینا، عوام کو قناعت کا درس دینا او رخود جاگیریں، جائیدادیں اور کمپنیوں میں حصے بناتے چلے جانا۔۔۔ ایسے ہی بے شمار منافقانہ رویوں کے باعث بخش لائل پوری مذہب ہی سے متنفر ہونے لگتے ہیں اور اس تنفر میں طنزیہ انداز ابھر آتا ہے۔
معبد ہیں، کلیسے ہیں
کہنہ عقائد ہیں
صدیوں کے کلیشے ہیں
مذہب وہ کانٹا ہے
جس نے فرقوں میں
انسان کو بانٹا ہے
٭
٭
مذہب کی پناہوں سے
مجھ کو ثواب الٹا
ملتا ہے گناہوں سے
رہتے ہیں سرابوں میں
حال مقدر کا
پڑھتے ہیں کتابوں میں
مذہب کے نام پر جبر و تشدد کرنے والوں کے برعکس بخش لائل پوری اس کے صوفیانہ رواداری والے عمل پر یقین رکھتے ہیں اور ان کے نزدیک عملی رواداری اور انسانیت کو اس وقت تک فروغ نہیں ملے گا جب تک دل کو صاف نہیں کیا جائے گا۔ اسی لئے وہ مذہب کی ظاہری صورت کو رد کرنے کے باوجود قلبی طہارت پر زور دیتے ہیں اور نفرت سے زخمی ہونے والوں کے داغ اپنے سینے پر سجاتے ہیں۔
کاشی ہو مدینہ ہو
سجدے لاحاصل
جب پاک نہ سینہ ہو
اخلاص کی مورت کو
صاف کرو پیارے
اب دل سے کدورت کو
٭
٭
یہ بخش قلندر ہے
دل میں مسجد ہے
آنکھوں میں مندر ہے
آنکھوں کے ستارے ہیں
زخمی چہروں کے
سب داغ ہمارے ہیں
دنیا میں جو سماجی اور اقتصادی اونچ نیچ اور ناانصافی رائج ہے بخش لائل پوری اس سے بے حد دکھی ہیں۔ غریب عوام، محنت کش مزدور ا ور کسان ان سب سے ان کی محبت اور وابستگی مذکورہ ناانصافیوں کے باعث مزید گہری ہوتی ہے۔
جینے کے قرینے سے
سانس معطر ہیں
محنت کے پسینے سے
جتنے بھی وڈیرے ہیں
قوم کے ڈاکو ہیں
یا بینک لٹیرے ہیں
تقدیر کے ہیٹے ہیں
جبر شکنجوں میں
دھرتی کے بیٹے ہیں
محنت کی کمائی ہے
روزِ روشن میں
آ جر نے اُڑائی ہے
٭
٭
ظلم ، جبر اور ناانصافیوں کے خلاف بخش لائل پوری کہیں امید کے دیئے جلاتے ہیں تو کہیں غریبوں کو عزم و عمل کے لئے آمادہ کرتے ہی، جدوجہد کرنے کی تلقین کرتے ہیں اور کہیں جرات رندانہ دکھاتے ہی۔ اس نوعیت کے چند ماہیے دیکھیں۔
قسمت کے سکندر ہیں
جیل کے باہر ہیں
یا جیل کے اندر ہیں
لب اپنے کھول کبھی
توڑیہ خاموشی
سناٹے میں بول کبھی
٭
٭
بدلی ہے ہوا سائیں
ظالم کے آگے
مت سر کو جھکا سائیں
پُر مغز مقالوں سے
وقت کو بدلیں گے
ہم تازہ خیالوں سے
٭
٭
سُولی پہ اذاں دیں گے
اندھوں کو آنکھیں
گونگوں کو زباں دیں گے
گردن کو اُٹھا کے چل
ظلم کی بستی میں
مت سر کو جھکا کے چل
بخش لائل پوری کے اب تک کے ماہیوں سے جو مجموعی تاثر بنتا ہے وہی ان کی اصل پہچان ہے لیکن ان کے ہاں جمالیاتی ذوق کی تسکین کرنے والے ماہیے بھی ملتے ہیں اور محبت کے مضمون سے متعلق بعض دلچسپ کیفیتیں بھی ملتی ہیں۔
پہلے عہد پیری کے ہاتھوں ہونے والے محبت کے یہ ماہیے دیکھیں۔ ہر محبت کرنے والا آخر کار ایسی ہی کیفیتوں سے دوچار ہوتا ہے۔
دریا کی روانی کو
عمر کے گھوڑے نے
پٹخاہے جوانی کو
ہے جوش سمندر میں
پتھر مت پھینکو
خاموش سمندر میں
٭
٭
حالات بھی یخ بستہ
جسم بھی ٹھنڈے ہیں
جذبات بھی یخ بستہ
رنگین کہانی کا
بھول گیا مجھ کو
اب دور جوانی کا
اب بڑھاپے کے ستم سے ہٹ کر ایسے ماہیے دیکھیں جن میں جمالیاتی عنصر نمایاں ہے۔
آنکھوں کے نگینے سے
ایک اشارہ کر
لگ جائیں گے سینے سے
آنکھوں نے اتاری ہے
دل کی چوکھٹ میں
تصویر تمہاری ہے
٭
٭
ہونٹوں کی حلاوت سے
سانس پگھلتے ہیں
بوسوں کی حرارت سے
کیا پھول ہیں سرسوں کے
ٹوٹ گئے پل میں
یارانے برسوں کے
٭
٭
موجوں کی روانی کا
سیل نہیں تھمتا
منہ زور جوانی کا
شعروں میں سمایا ہے
درد پرائے کو
سینے سے لگایا ہے
٭
٭
خوش رنگ نظاروں کا
رات کے چہرے پر
گونگھٹ ہے ستاروں کا
یہ رات، یہ تنہائی
دل بہلانے کو
چپکے سے چلی آئی
٭
٭
مجبور سے آئے ہیں
حسن کی بھکشا دو
ہم دور سے آئے ہیں
تفسیر بتا کوئی
درد کے سپنوں کی
تعبیر بتا کوئی
٭
٭
ہم دل بہلاتے ہیں
جھوٹے سپنوں کو
آنکھوں میں سجاتے ہیں
سونے کابدن تیرا
وسدا رہے ہر دم
یہ حسن چمن تیرا
ایسے ماہیوں سے بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ بخش لائل پوری کو اس انداز کے ماہیے کہنے میں بھی قدرت حاصل ہے لیکن ایسے ماہیے غالبا انہوں نے منہ کا ذائقہ بدلنے کے لئے کہہ دیئے ہیں۔ ان کی اصل وابستگی ترقی پسند خیالات اورجذبات سے ہے۔ انہوں نے اپنی انسان دوستی والی سوچ کا جو شہر بسایا ہے ”سوچ سمندر“ کے ماہیے ہمیں اسی شہر کی سیر کراتے ہیں۔ اس مجموعے میں گنتی کے چند ثلاثی اور قطعات بھی شامل ہیں تاہم بخش لائل پوری نے انہیں ماہیے سے واضح طور پر الگ کر دیا ہے۔ ”سوچ سمندر“ کے ماہیوں کی اہمیت کئی حوالوں سے بنتی ہے لیکن میرے لئے اس مجموعے کے دو حوالے بے حد اہمیت کے حامل ہیں۔ ایک حوالہ یہ کہ بخش لائل پوری جیسے لندن کے معتبر شاعر نے اس نوخیز اردو صنف میں اپنی تخلیقی بصیرت کا اظہار کر کے اس صنف کو مزید وقار اور اعتبار عطا کیا ہے اور دوسرا حوالہ یہ ہے کہ یہ مجموعہ اردو ماہیے میں ترقی پسند فکر کی بھرپور نمائندگی کرنے والا پہلا مجموعہ ہے ۔ میں اردو ماہیے میں اس نئے اور اہم اضافہ کرنے والے مجموعہ ”سوچ سمندر“ کا محبت کے ساتھ استقبال کرتا ہوں!
(بخش لائل پوری کے ماہیوں کے مجموعہ”سوچ سمندر“کا پیش لفظ)