اگلے روز الہیٰ بخش سادی کو کالج چھوڑ کر آیا اور ناشتہ کرنے کے بعد باہر چلا گیا- واپس آیا تو کرم دین کے کوارٹر میں چلا گیا- کرم دین کئی دن سے کہہ رہا تھا کہ گھر بھیجنے کے لئے خط لکھوانا ہے- الہیٰ بخش نے اس کا خط لکھ دیا-
دوپہر کو وہ سادی کو کالج سے لینے کے لئے گیا تو بہت خوش اور مطمئن تھا- سادی آئی- اس نے دروازہ کھولا- سادی بیٹھ گئی- الہیٰ بخش نے ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھنے کے بعد ڈیش بورڈ پر رکھا ہوا لفافہ اٹھایا اور پلٹ کر سادی کی طرف بڑھایا- “یہ لیجئے سادی بی بی”
سادی نے کچھ کہے بغیر لفافہ لیا اور اس میں موجود چیز نکالی- وہ ناصر کاظمی کا شعری مجموعہ پہلی بارش تھا- وہ کھل اٹھی-
“یہ آپ کی کتاب ہے، آپ کے لئے” الہیٰ بخش نے کہا “آپ کو تحفہ دینے کی تو میری اوقات نہیں- جو چاہیں سمجھ لیں”
“واہ میں تو اسے تحفہ ہی سمجھوں گی” سادی نے کہا “اور یہ امی والی باتیں نہ کیا کرو مجھ سے”
“حقیقت تو حقیقت ہی ہے سادی بی بی، اور میں اسے بدلنا بھی نہیں چاہتا”
“میں تمہارا شکریہ ادا نہیں کروں گی- لیکن کاش میں تمہیں بتا سکتی کہ اس تحفے سے مجھے کتنی خوشی ہوئی ہے”
الہیٰ بخش بھی خوشی سے سرشار ہو گیا-
——————-٭—————–
خوشبو کے سفر میں دن گزرتے رہے- سادی میں ایک نمایاں تبدیلی نظر آئی- اس کی شوخی ختم ہوتی جا رہی تھی- اس کے مزاج میں سنجیدگی آ گئی تھی اور وہ اپنی عمر سے بڑی لگنے لگی تھی- الہیٰ بخش جانتا تھا کہ ماں باپ کے جھگڑوں کا وہ بہت زیادہ اثر لیتی ہے-
اب ڈرائیو کت دوران وہ گفتگو بھی کم کرتی تھی- البتہ اس کا رویہ اب بھی پہلے جیسا ہی تھا- لہجے میں وہی مٹھاس، انداز میں وہی اپنائیت-
“مرد کتنے خوش قسمت ہوتے ہیں، اور عورتیں کتنی پابند”
الہیٰ بخش کی سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ کیاکہنا چاہتی ہے- “یہ خیال کیوں آیا آپ کو؟”
“اپنے گھر میں، اپنے علاقے میں تمہیں سکھ نہیں ملا تو تم کتنی آسانی سے گھر چھوڑ آئے- تمہاری جگہ کوئی لڑکی ہوتی تو وہ ایسا نہیں کر سکتی تھی”
“آپ ٹھیک کہتی ہیں ۔۔۔۔۔۔ لیکن پھر بھی یہاں عورتوں کو ہمارے ہاں کے مقابلے میں بہت زیادہ آزادی ہے”
سادی کسی سوچ میں پڑ گئی- پھر اس نے کہا- “الہیٰ بخش، تم پر میرا زور تو نہیں- لیکن چاہتی ہوں کہ تم میری ایک بات مان لو”
“کہیں سادی بی بی”
‘میں چاہتی ہوں کہ تم ڈرائیوری چھوڑو- کوئی اور نوکری کرو- پرائیویٹ امتحان دو اور کم از کم بی اے کرو”
الہیٰ بخش نے نظریں اٹھا کر عقب نما میں دیکھا تو سادی نظریں چرانے لگی-
“اور؟” اس نے پوچھا-
“اور تم اپنا رہن سہن، اپنا طرز زندگی بدلو اور یہیں کے ہو رہو- کوشش کر کے اپنا گھر بناؤ چاہے ابتدا میں وہ جھونپڑی ہو- پھر اپنا گھر بساؤ”
الہیٰ بخش حیرت سے اسے دیکھتا رہا-
“میں تمہیں کسی بلند مقام پر دیکھنا چاہتی ہوں الہیٰ بخش، اس لئے کہ تم چھوٹے آدمی نہیں ہو- میں چاہتی ہوں کہ تم کسی شہری لڑکی سے شادی کرو- کچھ بن کر دکھاؤ- ایسا کرو کہ جنہوں نے تمہیں حقیر سمجھا ہے، تمہاری عزت کرنے پہ مجبور ہو جائیں”
“آپ کی بات کا جواب طویل ہو گا- میں ڈرائیو کرتے ہوئے کیسے جواب دے سکتا ہوں” الہیٰ بخش نے بے بسی سے کہا-
وہ اس وقت کالج سے گھر جا رہے تھے- “ٹھیک ہت، تم گاڑی دائیں جانب موڑ لو” سادی نے کہا- پھر وہ اسے ہدایات دیتی رہی- بالآخر اس نے ایک ریسٹورنٹ کے سامنے گاڑی رکوا دی- “چلو گاڑی لاک کرو- یہاں ہم سکون سے بات کر سکیں گے”
“لیکن سادی بی بی، دیر ہو جائے گی- بیگم صاحبہ پریشان ہوں گی” الہیٰ بخش نے احتجاج کیا-
“ان کے پاس اتنی فرصت نہیں” سادی نے تلخی سے کہا- “آؤ میرے ساتھ”
ہچکچاتا ہوا الہیٰ بخش اس کے ساتھ ریسٹورنٹ میں چلا آیا- اندر نیم تاریکی تھی- خنک ماحول میں بہت دھیمی لائٹس روشن تھیں- سادی ایک فیمی کیبن کی طرف بڑھ گئی- ان کے بیٹھتے ہی ایک باوردی ویٹر مینیو لئے ہوئے آ گیا- اس نے ایک ایک مینیو کارڈ دونوں کی طرف بڑھا دیا-
الہیٰ بخش کی سمجھ میں نہیں آیا کہ مینیو کارڈ کا کیا کرے- سادی کی دیکھا دیکھی اس نے بھی اسے کھول لیا- وہ چھوٹی سی کتاب تھی- اس میں کھانوں اور مشروبات وغیرہ کی تفصیل درج تھی- “پہلے پانی لے آؤ” سادی نے ویٹر سے کہا-
الہیٰ بخش مرعوب ہو گیا- ویٹر کی وردی اسے احساس کمتری میں مبتلا کرنے کے لئے کافی تھی-
“کیا کھاؤ گے الہیٰ بخش؟” سادی نے پوچھا-
“سادی بی بی ۔۔۔۔۔۔”
“پلیز یہاں مجھے سادی بی بی نہ کہو” سادی نے اس کی بات کاٹ دی “صرف سادی کہو ورنہ ویٹر مجھے نہ جانے کیا سمجھے گا”
“بہت مشکل کام ہے” الہیٰ بخش ہچکچایا-
“میری خاطر کرنا ہو گا-” سادی نے کہا- پھر پوچھا “کیا کھاؤ گے؟”
“کھانا تو گھر پہ ہی کھاؤں گا- سادی بی بی ۔ ۔ ۔ ۔ ” وہ کہتے کہتے رکا “میرا مطلب ہے سادی” اسے سادی کہنا عجیب لگا لیکن اچھا بھی- اس کے اندر خود اعتمادی پیدا ہونے لگی-
“نہیں الہیٰ بخش کھانا یہیں کھائیں گے”
“تو جو جی چاہے، منگا لیں”
ویٹر ٹھنڈے پانی کی وتل اور گلاس لے کر آیا تھا- سادی نے اسے آرڈر نوٹ کرایا- وہ چلا گیا-
“سادی بی بی!”
“پھر وہی بی بی کا دم چھلا” سادی نے چڑ کر کہا- “تم مجھے ذلیل کرواؤ گے”
“نہیں ایسا نہیں ہو گا- بس عادت سی ہو گئی ہے نا” الہیٰ بخش نے معذرت خواہانہ لہجے میں کہا “لیکن سادی بی بی ۔ ۔ ۔ نہیں سادی، آپ مجھے گنہگار بنا رہی ہیں”
“میرا نام لینا گناہ ہے تمہارے لئے؟” سادی نے اس پر آنکھیں نکالیں-
“ہاں جی، میرے نزدیک تو یہ گناہ ہی ہے”
“تم آخر سمجھتے کیا ہو مجھے؟”
“بس سادی بی بی آپ بلند ہیں ۔۔۔۔ بہت اونچی- آپ آسمان ہیں میں زمین”
‘اسی لئے تو کہتی ہوں کہ میں تمہیں کسی بلند مقام پر ۔ ۔ ۔ ۔ بڑا آدمی دیکھنا چاہتی ہوں- پھر تم مجھے سادی کہو گے اور تمہیں پروا بھی نہیں ہو گی”
“ایسا تو کبھی نہیں ہو گا- اس لئے کہ میں یہ چاہتا نہیں” وہ کچھ اور بھی کہتا لیکن ویٹر کھانا لے آیا تھا- سادی نے ہاتھ کے اشارے سے اسے منع کر دیا-
ویٹر کھانا رکھ کر چلاگیا- الہیٰ بخش کو چھری کانٹے اور نیپکن دیکھ کر وحشت ہونے لگی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
سادی نے پلیٹ اپنے سامنے رکھ کر نظریں اٹھائیں تو الہیٰ بخش ویسے ہی بیٹھا تھا- “کیا بات ہے، کھانا شروع کرو نا- ہاں کباب بھی لے لو”
“میں جس طرح کھانا کھاؤں گا، اس میں آپ کی بے عزتی ہو گی”
“میں تمہیں سکھا دوں گی- مجھے دیکھو” یہ کہہ کر سادی نے نیپکن سامنے پھیلایا اور چھری کانٹا سنبھال لیا-
الہیٰ بخش نے بھی اس کی تقلید کی-
“بہت مشکل لگ رہا ہے؟” سادی نے پوچھا
“نہیں، لیکن اچھا نہیں لگ رہا ہے”
“کیوں؟”
الہیٰ بخش کچھ دیر سوچتا رہا پھر بولا- “کھانا کھانا ہمیشہ میرے لئے بہت ہی بڑئ خوشی ہوتی ہے- کھانا کھاتے ہوئے میرا رواں رواں خدا کا شکر ادا کرتا پے لیکن آج میں دونوں سے محروم ہو گیا ہوں۔۔۔۔۔ خوشی سے بھی اور شکر سے بھی”
“اس لئے کہ یہ تمہارے لئے اس طرح کھانا کھانے کا پہلا موقع ہے- اور یہ احساس تمہیں ستا رہا ہے- اس کی عادت ہو جائے گی تو کھانا کھاتے ہوئے خوش بھی ہو گے اور خدا کا شکر بھی ادا کرو گے”
“نہیں سادی، میں اس طرح کھانا کھانے کا عادی ہو بھی گیا تو مجھے یہ احساس رہے گا کہ میں دوسرو کو دکھانے، خوش کرنے کے لئے اس طرح کھا رہا ہوں- ایسے میں خوش ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا- اور شکر کا خیال بھی دل میں نہیں آ سکتا- میں آپ کی بات نیں کرتا لیکن میری حد تک یہ بات سچ ہے”
سادی بھی سوچ میں پڑ گئی پھر بولی “میں تمہیں خوش دیکھنا چاہتی ہوں، تم جس طرح چاہو کھانا کھاؤ- اس میں مجھے بےعزتی محسوس نہیں ہو گی”
الہیٰ بخش نے چھری کانٹاپلیٹ میں رکھا اور ہاتھ سے کھانا کھانے لگا- سادی نے نظریں اٹھا کر دیکھا تو اسے اس کے چہرے پہ طمانیت نظر آئی-
“باہر واش روم ہے، جا کر ہاٹھ دھو آؤ” کھاے کے بعد سادی نے کہا-
الہیٰ بخش ہاتھ دھو کر واپس آیا تو ویٹر آ چکا تھا اور برتن سمیٹ رہا تھا- “اب کافی لے آؤ پلیز” سادی نے اس سے کہا-
الہیٰ بخش اپنی جگہ بیٹھ گیا تو سادی نے اس سے کہا “اب ہم باتیں کریں گے- میں تمہارے جواب کی منتظر ہوں”
“سادی آپ مجھے بلند دیکھنا چاہتی ہیں، میرے متعلق اپنائیت سے سوچتی ہیں، مجھے اس پر فخر ہے” الہیٰ بخش نے گہری سانس لے کر کہا “آپ چاہتی ہیں کہ جو مجھے حقیر سمجھتے ہیں وہ بھی میری عزت کریں- جب کہ میرا ایمان ہے کہ عزت دینے والا اللہ ہے اور میں جانتا ہوں کہ اس نے مجھے میری اوقات سے زیادہ دی ہے- جہاں تک بلند مقام کا تعلق ہے تو آپ دنیاوی مقا کی اور اس سے مختلف زندگی کی بات کرتی ہیں- میرے نزدیک اہمیت اس طویل زندگی میں بلند مقام حاصل کرنے کی ہے، جو کبھی ختم نہیں ہو گی- مجھے افسوس اس بات کا ہے کہ میں اس میں بھی کوئی بلند مقام حاصل نہیں کر سکوں گا- مجھ میں ایسا کوئی وصف کوئی خوبی نہیں، میرا عمل بھی ایسا نہیں، طرز زندگی بھی ایسا نہیں، اور اس دنیا کی زندگی میں میں جو کچھ بھی ہوں ، اس حیثیت میں، میں بہر خوش رہ ہوں- خوش اور مطمئن- یہی سب سے بڑی بات ہے- آپ چاہتی ہیں کہ میں اپنا لباس اپنا رہن سہن بدلوں اور یہیں رہ جاؤں- تو سادی، میں اپنی اصل سے ناتا توڑنے والا نہیں- میں اپنے گھر سے، اپنی زمین سے روٹھ کر آیا ہوں- مگر مجھے وہیں جانا ہے، وہاں رہنے کے لئے میرا رنگ سازی کا اور ڈرائیور کاہنر کافی ہے- وہاں کلرک کا کوئی مستقبل نہیں- میں تو مٹی سے اٹھنے والا آدمی ہوں، جسے آسمان کی حاجت تو ہو سکتی ہے لیکن اس تک پہنچنے کی خوائش نہیں ہو سکتی- میں جہاں ہوں، وہیں ٹھیک ہوں سادی”
سادی اس کی باتیں بڑی افسردگی سے سن رہی تھی- “پھر بھی آدمی کو آگے بڑھنے اور کچھ کرنے کیلگن تو ہونی چاہئے”
“یہ لگن مجھ میں ہے سادی، لیکن میری منزل یہ دنیا نہیں، وہ دنیا ہے اور مجھے یہ معلوم نہیں کہ اس سلسلے میں کیا کرنا چاہئے-یہی میرا دکھ ہے”
“لیکن جتنہ عرصہ اللہ نے مقرر کیا ہے وہ اس دنیا میں ہی گزارنا ہی ہے اور اس دنیا کا تعلق بھی اس دنیا سے ہے”
“یہی تو یں بھی کہتا ہوں” الہیٰ بخش نے زور دے کر کہا- “آس دنیا میں یہاں کی دولت، مرتبہ اور مقام تو کام نہیں آئے گا- فکر تو ہمیں کچھ اور کرنی چاہئے”
سادی لاجواب ہو گئی- ویٹر کافی لے آیا تھا- سادی نے کافی بنائی اور ایک پیالی الہیٰ بخش کی طرف بڑھا دی-
“سادی آپ مجھے سے ناراض تو نہیں ہیں نا ؟ ۔ ۔ ۔ ۔
“سادی، آپ مجھ سے ناراض تو نہیں ہے نا- میں نہیں چاہتا کہ آپ مجھ سے کبھی ناراض ہوں”
“میں تم سے کبھی نہیں ناراض ہوں گی الہیٰ بخش- مجھے افسوس ہے کہ تم نے میرے خوائش رد کر دی لیکن مجھے خوشی ہے کہ زندگی کے بارے میں تمہارا ایک پختہ نظریہ ہے اور تم اس سلسلے میں بہت پر اعتماد بھی ہو- ایسے لگتے تو نہیں تھے تم- یقین کرق میری نظروں میں تم اور بڑے ہو گئے ہو-”
“دیکھیں سادی، میں ایک اور آسان طریقے سے آپ کو سمجھاتا ہوں- آپ مجھ سے کہیں کہ میں اپنا نام بدل دوں- تو کیا یہ ممکن ہے- یہ تو ماں باپ کی دی ہوئی چیز ہے- میری شناخت ہے- میں کسی شہری لڑکی سے شادی کروں تو وہ مجھے اس نام سے پکارتے ہوئے شرمندہ ہو گی- لیکن مجھے اپنے نام سے شرمندگی نہیں ہوتی- میں کسی کی خاطر اپنی اصل تو نہیں بدل سکتا-”
‘ٹھیک کہتے ہو”
“اب میں آپ سے کہتا ہوں سادی کہ آپ خود کو دیہاتی بنائیں- کسی گاؤں میں جا کر رہیں ۔ ۔ ۔ ۔ وہاں کی عورتوں کی طرح- جو کام وہاں عورتیں کرتی ہیں، آپ بھی کریں- اپنا لباس، اپنا رہن سہن، اپنا طرز زندگی وہاں کا کر لیں تو کیا یہ ممکن ہے؟”
“تم یقین نہیں کرو گے، میں ایسا کر سکتی ہوں” سادی نے پر زور لہجے میں کہا- “لیکن میں با اختیار نہیں- مجھے ایسا نہیں کرنے دیا جائے گا اور پھر آدمی نیچے سے اوپر جانے کی کوشش تو کر سکتا ہے، اوپر سے نیچے کون آئے گا”
“یہ اوپر اور نیچے کا تصور بھی اپنا اپنا ہے، اوپر سے نیچے آنا آسان ہوتا ہے- اصل بات یہ ہے کہ سادی، کہ جو جہاں ہے، وہیں کے لئے ہے اور وہیں ٹھیک ہے”
“ٹھیک ہے الہیٰ بخش”
بیرا بل رکھ کر گیا تھا- سادی نے طشتری پر سو کا ایک نوٹ رکھ دیا- “آؤ چلیں”
اس دن کے بعد سادی بالکل بدل کر رہ گئی!
الہیٰ بخش محسوس کرتا تھا کہ تبدیلی اس میں بھی آئی ہے- لیکن سادی تو وہ پہلے والی سادی رہی ہی نہیں تھی- یہ نہیں کہ اس کے رویے میں کوئی تببدیلی آئی ہو- گاڑی میں وہ اب بھی اس کونے میں بیٹھتی تھی- اس کا چہرہ دیکھنے کے لئے الہیٰ بخش کو صرف عقب نما کی طرف نظر اٹھانا پڑتی تھی لیکن اب عقب نما میں اسے مختلف منظر دیکھنے کو ملتا تھا- اسے کسی گہری سوچ میں ڈوبی سادی نظر آتی- اس کی پیشانی پر سوچ کی لکیریں مستقل ہو گئی تھیں- وہ اپنی عمر سے بڑی لگنے لگی تھی-
سب سے بڑی بات یہ کہ اب وہ بہت کم سخن ہو گئی تھی- ان کے درمیان بات کم ہی ہوتی تھی-
پھر ان ہی دنوں بیگم صاحبہ شیخ صاحب سے ناراض ہو کر اپنی والدہ کے گھر چلی گئیں- ان دنوں سادی یوں شرمسار نظر آتی تھی جیسے اس میں اس کا قصور ہو- اور تو اور اظہر بابا بھی اداس رہنے لگا- دس بارہ دن بعد شیخ صاحب انہیں لے آئے لیکن گھر کی فضا پہلے جیسی نہیں ہوئی- ادھر سادی کے امتحان سر پر آ گئے تھے- وہ ان کی تیاری میں بھی مصروف ہو گئی تھی-
امتحان کے بعد چھٹیاں ہو گئیں- کالج جانا موقوف ہوا- ایک ہفتہ گزرتے گزرتے الہیٰ بخش کو بے کاری کا احساس ستانے لگا مگر پھر ایک دن صبح دس بجے سادی باہر آئی- الہیٰ بخش اس وقت باغیچے میں کرمو کے پاس بیٹھا باتیں کر رہا تھا- سادی نے اشارے سے اسے بلایا-
الہیٰ بخش لپک کر اس کے پاس گیا- “جی سادی بی بی”
“کوئی مصروفیت تو نہیں تمہیں؟”
“میں تو بے کار بیٹھے بیتھے تنگ آ گیا ہوں”
“تو گاڑی نکالو- مجھے اپنے ایک دوست سے ملنے جانا ہے”
“ابھی لایا سادی بی بی”
“تم گاڑی صاف کرو- مجھے تیاری میں آدھا گھنٹہ لگے گا”
آدھے گھنٹے بعد سادی باہر آئی تو بہت اچھی لگ رہی تھی- الہیٰ بخش نے اس کے لئے دروازہ کھولا اور پھر ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا- “کہاں چلنا ہے سادی بی بی؟”
“ناظم آباد”
الہیٰ بخش اب تک راستوں اور علاقوں سے با خبر ہو چکا تھا- اسے سادی کی ہدایت کی ضرورت نہیں تھی-
“دو سال بعد میں اس دوست سے مل رہی ہوں” سادی نے خود کلامی کے انداز میں کہا-
الہیٰ بخش نے سر اٹھا کر عقب میں دیکھا- وہ اپنے مخصوص کونے میں بیٹھی تھی- اس کی آنکھوں میں چمک تھی-
“شاہد نام ہے اس کا، بہت اچھا لڑکا ہے- کل اس نے فون کیا تھا- میں نے سوچا، آج کل فرصت ہے مل ہی لوں”
الہیٰ بخش کو عجیب سا لگا- لڑکی کا دوست لڑکا! وہ جہاں کا تھا، وہاں لڑکی اور لڑکے کے درمیان کوئی تعلق نہیں ہوتا ۔ ۔ ۔ ۔ سوائے محبت کے- اور اس صؤرت میں وہ چھپ چھپ کر ملتے تھے- دوستی تو لڑکوں کی لڑکوں سے اور لڑکیوں کی لڑکیوں سے ہوتی ہے- اس نے خود کو سمجھایا، جو کبھی سادی کو سمجھایا تھا، جو جہاں ہے وہیں کے مطابق ہے، وہیں کے لئے ہے اور وہیں ٹھیک ہے- شہر میں ایسا ہی ہوتا ہو گا-
اچانک اس کے دل یں پھانس سی چھبی- کون جانے سادی اس لڑکے شاہد سے محبت کرتی ہو- یہاں نام دوستی کا ضرور ہوتا ہو گا لیکن لڑکے اور لڑکی میں تو ایک دوسرے کے لئے خاص کشش ہوتی ہے- کہا کچھ بھی جائے- “ایسا ہے بھی تو تجھے کیا” اس نے خود کو ڈپٹ دیا- “تو اپنا کام کئے جا- سادی سے بے طلب محبت کرتا رہ- اسے خوش کرنے کی کوشش کر”
“یہاں سے داہنی جانب لے لو الہیٰ بخش” سادی نے کہا-
وہ ناظ آباد پہنچ چکے تھے- اب سادی ہدایت دے رہی تھی- ذرا دیر بعد اس نے ایک بنگلے کے سامنے گاڑی رکوا دی- “اب تم واپس چلے جاؤ” سادی نے اترتے ہوئے کہا- “چار بجے مجھے لینے کے لئے آ جانا- یہ بیل دے دینا” اس نے بٹن کی طرف اشارہ کیا-
“بہت بہتر سادی بی بی”
سادی نے بٹن پر انگلی رکھ دی تھی- الہیٰ بخش نے گاڑی آگے بڑھا دی- اس کے دل میں سادی کی آرزو نہیں تھی- کوئی طلب نہیں تھی- لیکن وہ اس شاہد کو دیکھنا نہیں چاہتا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ٹھیک چار بجے الہیٰ بخش وہی بٹن دبا رہا تھا-
چند لمحے بعد ایک خوش پوش اور خوش شکل جوان لڑکے نے گیٹ کھولا- اسے دیکھتے ہی الہیٰ بخش کے دل میں رقابت کی ایک تند لہر اٹھی-
“سعدیہ کو لینے آئے ہو؟” لڑکے نے پوچھا
‘جی ہاں”
“آبھی آتی ہے وہ” یہ کہہ کر وہ لڑکا اندر چلا گیا-
الہیٰ بخش کو احساس بھی نہیں ہوا کہ وہ اپنا موازنہ اس سے کر رہا رہا ہے- احساس ہوا تو اس نے خود کو روکا- اس کا اس سے کیا جوڑ ۔ ۔ ۔ ۔
اسی لمحے سادی باہر آ گئی- لڑکا بھی ساتھ ہی آیا تھا “خدا حافظ شاہد”
الہیٰ بخش نے سادی کے لئے پچھلا دروازہ کھول دیا تھا ” خدا حافظ سعدیہ” لڑکے نے کہا “پھر کب آؤ گی؟”
“جب موقع ملا” سادی نے مسکراتے ہوئے کہا اور گاڑی میں بیٹھ گئی-
راستے میں سادی نے پوچھا- “امی نے تم سے کچھ پوچھا تو نہیں تھا؟”
“جی نہیں” الہیٰ بخش نے بجھے بجھے لہجے میں کہا-
‘جب بھی پوچھیں تو کہنا کہ نورین کے ہاں گئی ہوں- شاہد کا نام نہ لینا”
“کیوں سادی بی بی؟” الہیٰ بخش نہ چاہتے ہوئے بھی پوچھ بیٹھا-
“خوامخواہ جھک جھک کریں گی امی”
ماں باپ سے پوچھے بغیر کسی سے ملنا تو بری بات ہے سادی بی بی”
“ہاں بری بات تو ہے، لیکن پوچھوں تو اجازت نہیں ملے گی”
الہیٰ بخش چپ ہو گیا لیکن اسے دلی تکلیف ہوئی- وہ سادی کو بہت اچھا بہت بلند دیکھنا چاہتا تھا-
اسے یہ معلوم نہیں تھا کہ اس کے لئے اذیت کا وقت شروع ہو گیا ہے- سادی تقریباٰ ہر ہفتے شاہد سے ملنے جانے لگی تھی- ادھر الہیٰ بخش کے خود سے مباحثے شروع ہو گئے تھے- وہ خود کو سمجھاتا کہیہ عشق کی آزمائش ہے- اور اسے کیا لینا- سادی اس کے لئے تو نہیں ہے- یہ اس کی قربت، ایک التفات کی نظر، کوئی میٹھی بات- یہ تو اس کے احسانات ہیں، جن کا وہ کبھی صلہ نہیں دے سکتا- وہ عشق کر سکتا ہے اس سے ۔ ۔ ۔ اور کئے جائے گا-
وہ پانچواں یا چھٹا موقع تھا کہ وہ اسے گھر واپس لے جانے کے لئے آیا تھا اس روز سادی اکیلی باہر نکلی۔ ۔ ۔ اور وہ روہانسی لگ رہی تھی-
“الہیٰ بخش چلاؤ گاڑی- جلدی سے مجھے یہاں سے لے چلو”
الہیٰ بخش نے گاڑی سٹارٹ کر کے آگت بڑھائی- “کیا بات ہے سادی بی بی، خیر تو ہے؟” اس نے پر تشویش لہجے میں پوچھا
“بس میں آئندہ یہاں نہیں آؤں گی”
الہیٰ بخش نے چونک کر دیکھا- سادی کی آنکھوں میں آنسو تھے “کیا ہوا- کیا بات ہے؟”
“اس نے ۔ ۔ ۔ اس نے مجھ سے بدتمیزی کی”
الہیٰ بخش کے وجود میں سناٹے تیر گئے- بلا ارادہ اس نے بریک پر دباؤ ڈالا اور گاڑی سائیڈ میں روک دی- “کیا ہوا، کیاکہااس نے؟” اسے خود بھی اپنی آواز اجنبی لگی-
“آج گھر میں کوئی نہیں تھا” سادی اس کی بدلتی کیفیت سے بے نیاز کہتی رہی “آس نے میرا ہاتھ پکڑا اور ۔ ۔ ۔ ” آگے اس سے کچھ کہا ہی نہیں گی
الہیٰ بخش کی آنکھوں سے شعلے نکلنے لگے- اس نے دروازے کے ہینڈل پر ہاتھ رکھا- اس بار سادی اس کی کیفیت سے بے خبر نہیں رہی- وہ سہم گئی- “الہیٰ بخش ادھر دیکھو”
الہیٰ بخش نے پلٹ کر اسے دیکھا ” جی سادی بی بی”
“تم کیا کر رہے ہو، گاڑی چلاؤ نا”
“نہیں سادی بی بی- پہلے اسے بدتمیزی کی سزا دوں گا” الہیٰ بخش نے دروازہ کھول لیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔
“تم ایسا کچھ نہیں کرو گے” سادی نے سخت لہجے میں کہا “نہ آج نہ آئندہ کبھی- نہ شاہد کے ساتھ اور نہ کسی اور کے ساتھ”
“لیکن اس نے آپ کے ساتھ بد تمیزی کی ہے”
“غلطی میری تھی میں خود یہاں آئی تھی”
“پھر بھی ۔ ۔ ۔ اسے حق نہیں پہنچتا کہ ۔ ۔ ۔ ”
“الہیٰ بخش تم میری بات نہیں مانو گے؟”
الہیٰ بخش نے بے بسی سے اسے دیکھا “سادی بی بی”
“بس، میں جو کہہ رہی ہوں-میری وجہ سے تم کبھی کسی پر ہاتھ نہیں اٹھاؤ گے-ورنہ میں تمہیں کبھی معاف نہیں کروں گی”
الہیٰ بخش کا غصہ جھاگ کی طرح بیٹھ گیا- اس نے خاموشی سے انجن اسٹارٹ کیا اور گاڑی آگے بڑھا دی-
الہیٰ بخش کو یہ اطمینان ہو گیا تھا کہ سادی اب شاہد کے گھر کبھی نہیں جائے گی- اس واقعے کے تین ہفتے کے بعد اچانک سادی نے پھر اس سے گاڑی نکالنے کو کہا-
گاڑی گیٹ سے نکالنے کے بعد الہیٰ بخشش نے پوچھا “کہاں جائیں گی سادی بی بی”
“ناظم آباد- شاہد کے گھر”
الہیٰ بخش سناٹے میں آ گیا ۔ ۔ ۔ ۔
الہیٰ بخش سناٹے میں آ گیا- “پچھلی بار آپ نے کہا ۔۔۔۔۔”
“ہاں ۔۔۔۔۔۔ میں نے فیصلہ تو یہی کیا تھا لیکن اس نے فون پر اتنی معافیاں مانگیں، اتنا گڑگڑایا- میں کیا کرتی- میں بھی تو اسے پسند کرتی ہوں”
اس اظہار پسندیدگی کے بعد کچھ کہنے کی گنجائش نہیں تھی- پھر بھی الہیٰ بخش نے کہا “آس نے آپ کے ساتھ بدتمیزی کی تھی”
“وہ کوئی اتنی بڑی بات نہیں” الہیٰ بخش کا دل خراب ہونے لگا- مگر فوراٰ ہی تکدر دور بھی ہو گیا- سادی نے جو بات کی تھی، وہ کوئی خراب ، بگڑی ہوئی لڑکی ہی کر سکتی تھی- مگر وہ جیسی بھی سہی، اسے تو اس سے محبت کرنا تھ اور اچھوں سے محبت کرنا تو کچھ مشکل بھی نہیں ہوتا-
وہ سادی کو واپس لینے گیا تو سادی اداس تھی- لیکن وجہ ن اس نے بتائی نہ الہیٰ بخش نے پوچھی- الہیٰ بخش عشق میں سراپا تسلیم ہونے کے مرحلے سے گزر رہا تھا-
————————————————-٭————————————
امتحان کا نتیجہ نکل آیا تھا- سادی نے فرسٹ ڈویژن لی تھی- اس کا داخلہ یونیورسٹی میں ہو گیا- اب الہیٰ بخش اسے لانے لے جانے کے لئے یونیورسٹی جاتا تھا- یونیورسٹی اتنی بڑی تھی، جیسے پوری دنیا اور الہیٰ بخش کو وہ بہت مختلف دنیا لگی- وہاں کا ماحول بہت آزادانہ تھا- لڑکے لڑکیاں بے حجابانہ ساتھ گھومتے تھے، بے فکری سے گھاس پر بیٹھے یا کینٹین میں کھاتے پیتے نظر آتے-
الہیٰ بخش کا وجھل دل اور بوجھل ہونے لگا-
یونیورسٹی میں ایک بس اسٹاپ تھا جہاں پتھر کی بینچیں تھیں- بس کا انتظار کرنے والے تو وہاں کم ہی بیٹھتے تھے لیکن ہر وقت دو چار جوڑے بیٹھے گپ شپ کرتے نظر آتے- یونیورسٹی میں ایک اور بات کالج سے مختلف تھی- کالج کی طرح وہاں مقررہ وقت پر چھٹی نہیں ہوتی تھی- کسی دن تین بجے، کسی دن ایک بجے اور کسی دن گیارہ بجے ہی چھٹی ہو جاتی تھی- سادی ہر روز اسے وقت بتاتی کہ کب اسے لینے آنا ہے اور جگہ اس نے بس اسٹاپ ہی مقرر کی تھی-
ابتدا میں الہیٰ بخش نے محسوس کیا کہ سادی یونیورسٹی میں خود کو اجنبی محسوس کرتی ہے- وہ سہمی سہمی نظر آتی- اس کی چال میں بھی اعتماد نہ ہوتا- الہیٰ بخش اس بات کو سمجھ سکتا تھا- وہ پہلی بار کراچی آیا تو اس کا بھی یہی حال تھا- سادی بھی جیسے کالج کے گاؤں سے ایک دم یونیورسٹی کے شہر میں آ گئی تھی- ایک ہفتے میں اس نے چند لڑکیوں سے دوستی کر لی- کبھی کبھی اس کی کوئی سہیلی بھی گاڑی میں اس کے ساتھ ہی بیٹھ جاتی ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور راستے میں کہیں اتر جاتی-
دو مہنیے ہو گئے تو سادی کے انداز میں اعتماد آ گیا- پھر ایک دن الہیٰ بخش اسے لینے پہنچا تو بس اسٹاپ پر سادی کو ایک لڑکے کے ساتھ بیٹھے دیکھا- دونوں قریب بیٹحے بڑی بے تکلفی سے یک دوسرے سے باتیں کر رہے تھے-
گاڑی رکی تو سادی اٹھ کھڑی ہوئی- “آؤ ریاض تمہیں میں راستے میں ڈراپ کر دوں گی”
“نہیں سادی شکریہ- مجھے کسی سے ملنا ہے” لڑکے نے کہا-
“اچھا خدا حافظ، کل ملیں گے” سادی نے گاڑی میں بیٹھتے ہوئے کہا-
چار پانچ دن الہیٰ بخش کو لگا کہ زندگی کی رفتار بہت تیز ہو گئی ہے- لیکن نہیں ۔۔۔۔۔۔۔ زندگی کی رفتار تو سست ہو گئی تھی- البتہ سادی بہت تیز دوڑ رہی تھی- اس روز وہ ایک اور لڑکے کے ساتھ بیٹھی ملی- اس لڑکے کا نام عمر تھا- چند روز بعد اس کی رشید سے دوستی ہوئی ۔۔۔۔۔۔ اور اس کے بعد اس کے دوستوں کی تعداد اتنی تیزی سے بڑھنے لگی کہ الہیٰ بخش کے لئے لڑکوں کے نام یاد رکھنا ممکن نہیں رہا لیکن اس دوران بھی وہ ہفتے پندرہ دن میں شاہد سے ملنے ضرور جاتی تھی-
چھ ماہ کے اندر سادی بالکل بدل کر رہ گئی لیکن اس کے وہ معمول نہیں بدلے تھے- صبح وہ تیار ہو کر آتی تو اسے گڈ مارننگ کہتی ۔۔۔۔۔۔ اور وہ گاڑی میں اسی مخصوص کونے میں بیٹھتی- الہیٰ بخش کبھی عقب نما میں اسے دیکھتا تو دل مسوس کر رہ جاتا- اس کے چہرے پر اب وہ پہلے والئ تازگی اور رونق نہیں رہی تھی- آنکھوں میں بھی چمک نہیں تھی- آنکھوں کے نیچے حلقے پڑ گئے تھے-
الہیٰ بخش کا ایمان تھا کہ میلی نظروں سے چہروں کے گلاب مرجھا جاتے ہیں!
پھر ایک روز الہیٰ بخش سادی کے بتائے ہوئے وقتپر اسے لینے پہنچا تو وہ موجود نہیں تھی- الہیٰ بخش کی سمجھ میں نہ آیا کہ اب کیا کرے- اس نے گاڑی ایک طرف کچے میں لگا دی اور یہ سوچ کر انتظار کرنے لگا کہ شاید چھٹی میں دیر ہو گئی ہے-
پانچ منٹ بعد ایک لڑکی اس طرف گزری- وہ سادی کی سہیلیوں میں سے تھی- الہیٰ بخش کو اس کا نام تو معلوم نہیں تھا لیکن وہ چہرے سے اسے جانتا تھا-
“اے۔۔۔۔۔ تم سعدیہ کے ڈرائیور ہو نا؟” لڑکی نے پوچھا-
‘جی ہاں”
“اس کا انتظار کر رہے ہو؟”
“جی”
“وہ تو جا چکی ہے”
الہیٰ بخش کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا- “آپ کیسے کہہ رہی ہیں؟”
“ارے وہ میرے سامنے عمر کی موٹر سائیکل پر بیٹھ کر گئی ہے- آج اس نے کوئی کلاس اٹینڈ نہیں کی- وہ تو دس بجے ہی چلی گئی تھی”
الہیٰ بخش کو اب بھی یقین نہیں آ رہا تھا “مجھے تو انہوں نے اسی وقت بلایا تھا- میں تو ان کا انتظار کروں گا جی”
“تمہاری مرضی، میں نے تمہیں بتا دیا- اب تم جانو” یہ کہہ کر لڑکی آگے بڑھ گئی-
اس وقر سوا ایک بجا تھا- سادی نے اس روز اسے ایک بجے بلایا تھا- الہیٰ بخش کشمکش میں پھنس گیا- عقل کہتی تھی کہ سادی جا چکی ہے- اس کی سہیلی کو جھوٹ بولنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی- لہذاٰ اسے واپس چلے جانا چاہیئے- لیکن دل نہیں مانتا تھا- اسے یہیں انتظار کرنا چاہیئے-
اسی کشمکش میں تین بج گئے- جب سادی اسے ایک بجے بلاتی تو وہ کھانا کھا کر نہیں آتا تھا- بلکہ کھانا واپس جا کر کھاتا تھا- چنانچہ اس کا بھوک سے بھی برا حال ہو گیا- مگر وہ بھوک کی وجہ سے انتظار سے دست کش نہیں ہوا- البتہ تین بجے اسے یہ یقین ہو گیا کہ سادی واپس جا چکی ہے- بلکہ ممکن ہے، وہ گھر بھی پہنچ گئی ہو- بالآخر وہ واپس چل دیا-
کار کو گیٹ میں داخل ہوتا دیکھتے ہی کرمو چاچا بیگم صاحبہ کو اطلاع دینے کے لئے لپکا- بیگم صاحبہ نے سختی سے اسے ہدایت کی تھی کہ گاڑی کے آتے ہی انہیں مطلع کرے-
الہیٰ بخش نے گاڑی پورچ میں کھڑی کی اور باہر آیا- اسی وقت بیگم صاحبہ باہر آ گئیں- “سادی کو ساتھ نہیں لائے؟”
الہیٰ بخش جواب دینے ہی والا تھا کہ بیگم صاحبہ نے مزید کہا “تمہاے جانے کے دو منٹ بعد سادی نے فون کیا تھا کہ ایک اضافی پیریڈ کی وجہ سے دیر ہو جائے گی- ممکن ہے،چار بج جائیں- تمنکل چکے تھے- تمہیں کیسے بتایا جا سکتا تھا- لیکن اتنا انتظار کیا اور پھر بھی تم سادی کو لئے بغیر چلے آئے” ان کا لہجہ سخت ہو گیا-
الہیٰ بخش سناٹے میں آ گیا- پھر بھی وہ بہت تیزی سے سوچنے کی کوشش کر رہا تھا- سادی کی سہیلی نے بتایا تھا کہ وہ دس بجے عمر کے ساتھ چلی گئی تھی اور وہ اب تک گھر نہیں پہنچی تھی- بیگم صاحبہ کا کہنا تھا کہ سادی نے ساڑھے بارہ بجے فون کر کے بتایا تھا کہ اسے یونیورسٹی سے دیر ہو جائے گی- اب وہ بیگم صاحبہ کو اصل بات تو نہیں بتا سکتا تھا-
“بولتے کیوں نہیں، جواب دو” بیگم صاحبہ کے سخت لہجے نے اسے چونکا دیا-
“مجھے تو معلوم نہیں تھا بیگم صاحبہ، پھر بھی میں نے تین بجے تج بی بی کا انتظار کیا”
“تمہیں نہیں معلوم تھا تو تمہیں قیامت تک اس کا انتظار کرنا چاہئے تھا-”
الہیٰ بخش کہنا چاہتا تھا کہ اس صورت میں تو اسے رات یونیورسٹی میں گزارنا پڑتی لیکن اس نے یہ بات کہی نہیں- “غلطی ہو گئی بیگم صاحبہ” اس نے معذرت خواہانہ لہجے میں کہا-
‘یہ غلطی نہیں غیر ذمےداری ہے اور غیر ذمے داری حرامخوری ہوتی ہے” ان کے لہجے میں بلا کی نفرت تھی-
اسی لمحے سادی بھی آ گئی-
مگر بیگم صاحبہ اس کی موجودگی سے بے خبر اپنی کہتی رہیں “اور کیوں نہ کرو حرام خوری- بیوقوف جو مل گئے ہیں تمہیں- دن میں دو بار ڈرائیو کرتے ہو اور تین بار مفت کی روٹیاں تڑتے ہو- رہنے کا ٹھکانہ میسر ہے- تنخواہ بڑے سرکاری افسروں کی لیتے ہو- حرام منہ کو لگے گا تو حرام خوری تو ہو گی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔”
سادی اس دوران تین بار ماں کو پکار چکی تھی- اب اس نے ماں کا ہاتھ پکڑتے ہوئے بلند آواز میں کہا “بس کریں امی، آپ نا جائز اسے برا بھلا کہہ رہی ہیں” اس نے نظریں اٹھا کر الہیٰ بخش کو دیکھا، جس کا چہرہ ست گیا تھا- “اس میں الہیٰ بخش کی تو کوئی غلطی نہیں”
:غلطی کیسے نہیں، اسے وہیں تمہارا انتظار کرنا چاہئے تھا”
“اس صورت میں، میں گھر آ جاتی اور یہ وہیں بیٹھا انتظار کرتا رہتا- پھر کیا ہم اسے لینے کے لئے کسی کو بھیجتے”
بیگم صاحبہ لاجواب ہو گئیں- لیکن وہ ہار ماننے والی نہیں تھیں- “ہاں- ایسا ہی ہوتا اور یہی بہتر تھا” وہ الہیٰ بخش کی طرف مڑیں- “تمہیں احساس نہیں کہ میرے شوہر نے تمہیں میری بیٹی کی ذمے داری سونپی ہو اور یہ بڑی ذمے داری ہے”
کیسی ذمےداری! الہیٰ بخش نے سوچا- میں تو اسے غلط راستے پر جانے سے روک بھی نہیں سکتا تھا لیکن اس نے منہ سے کچھ نہیں کہا-
“امی آپ بلاوجہ اسے برا بھلا کہہ رہی ہیں” اس بار سادی نے سخت لہجے میں کہا- “میں نے فون کیا تھا اور مجھے معلوم ہو گیا تھا کہ الہیٰ بخش گاڑی لے کر نکل چکا ہے- میں نے آپ سے کہہ دیا تھا کہ اب میں اپنے طور پر آ جاؤں گی- الہیٰ بخش نے تو بس یہ غلطی کی کہ تین بجے تک میرا انتظار کیا”
“ہاں آنا تھا تو پہلے ہی آ جاتا”
“اب میں آپ کے سامنے کہہ رہی ہوں کہ مقررہ وقت پر میں نہ ملوں تو صرف پندرہ منٹ میرا انتظار کرے – پھر گاڑی لے کر چلا آئے” سادی الہیٰ بخش کی طرف متوجہ ہوئی “تم نے کھانا نہیں کھایا ہو گا”
“نہیں جی سادی بی بی، مجھے بھوک ہے بھی نہیں”
بیھم صاحبہ پاؤں پٹختی ہوئی اندر چلی گئیں- سادی نے کہا-“تم کھانا نہیں کھاؤ گے تو میں سمجھوں گی کہ تم مجھ سے ناراض ہو”
“میں آپ سے کہہ چکا ہوں کہ میں آپ سے ناراض ہو ہی نہیں سکتا”
“خیر دیکھیں گے” سادی نے بے نیازی سے کہا ” لیکن کھانا تمہیں کھانا پڑے گا۔میں جمیلہ کے ہاتھ بھجوا رہی ہوں”
“بہت شکریہ سادی بی بی” الہیٰ بخش نے کہا اور اپنے کوارٹر کی طرف چل دیا-
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ٭ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...