اس کی پگھلی ہوئی چھاتیاں
رات کے وقت ٹھہری ہوئی ریت میں بہہ گئیں
گرد میں
ناف تک جسم ڈوبا ہوا
اور آنکھوں میں کڑواہٹیں ڈبڈبائی ہوئیں
آئینے کے مقابل کھڑے
فاحشہ
فالتو جسم کو کاٹتے کاٹتے بے نشاں ہو گئی
آئینے کے مقابل کھڑے
زید اٹھے ہوئے بازوؤں کی کمانوں سے
چھوڑا گیا
اور اڑتے ہوئے
نیستی کے خرابے میں گم ہو گیا
ایک مہمل زیاں ناپنے کے لیے
دن کے سوراخ سے ریت رستی رہی
کل جہانوں کا عہد
زمیں کی ناف پھٹتی ہے
تو گہرے زلزلے چنگھاڑتے ہیں اور پھر
مرگی زدہ مینار
چڑ مڑ کاغذوں یا فروری کے خشک پتوں
کی طرح پاگل ہوا کی انگلیوں پر ناچتے ہیں
اور وہ دانتوں سے
بوڑھے بازوؤں کی رسیوں کو کاٹ دیتی ہے
پرانے آسماں کا زرد خیمہ
ٹوٹتا ہے
جھریوں کی چھال گرتی ہے درختوں سے
ادھر دیکھو
گرجتے پربتوں کے غول پے در پے
بلند آواز کے پرچم اڑاتے آ رہے ہیں
بجلیوں نے سخت سناٹے کو
اپنے ناخنوں سے چیر ڈالا ہے
ادھر دیکھو
تن آور فیصلے کی یورشوں میں ڈوبتی جاتی ہیں
بنجر گھاٹیاں کل کے اندھیرے کی
ابھی چہرے سے مصنوعی سفیدی کا پلستر
زور سے چٹخے گا
ہم آنکھوں سے گونگے ضبط کے گاڑے ہوئے
نیزے سے نکالیں گے
ابھی سبزہ خلاؤں میں اگے گا
نوجواں لڑکوں کے میلے میں ہرے موسم
ہمارے کند جسموں سے اتاریں گے
کئی برسوں کی نسواری تہیں
ہم وہ نہیں ہوں گے جو ’ہیں‘ یا ’تھے‘
مگر ننگے بدن پر وسوسوں کی، خوف کی
چمگادڑیں چمٹی ہوئی ہیں
اور خوش فہمی کا میٹھا ذائقہ
سب کی زبانوں سے ٹپکتا ہے
کئی سرگوشیاں
تاریک مفروضوں کے جالے بن رہی ہیں
اس نئے معبد میں
قوت کا خدا ہم سے کہے گا
میں نئے انبوہ کا آئین ہوں
اقرار جس کا
سب پہ لازم ہے
نہیں ایسا نہیں ہو گا
ہم اپنی خودکشی سے پیشتر اقرار کرتے ہیں
نہیں ایسا نہیں ہو گا
٭٭٭
صفر کی توہین پر ایک دو باتیں
اگر دو بالکل مختلف الخیال افراد یہ قسم کھا کر کسی چائے خانے میں گفتگو کرنے بیٹھیں کہ ہم اختلافی...