(Last Updated On: )
سو سو تہمت ہم پہ تراشی کوچہ رقیبوں نے خطبے میں لیکن نام ہمیں لوگوں کا پڑھا خطیبوں نے شب کی بساط ناز لپیٹو ، شمع کے سرد آنسو پونچھو نقارے پر چوب لگا دی صبح کے نئے نقیبوں نے کس کو خبر ہے رات کے تارے کب نکلے کب ڈوب گئے شام و سحر کا پیچھا چھوڑا آپ کے درد نصیبوں نے امن کی مالا جپنے والے جیالے تو خاموش رہے فتح مبین کے جھنڈے گاڑے شہر بہ شہر صلیبوں نے انشا جی اب آئے جو ہو دو بیت کہوا ور اٹھ جاؤ تمہی کہو تمہیں شاعر ما نا کب سے بڑے ادیبوں نے