کیا ہوا ایسے کیوں بیٹھی ہو…شاہ میر در نجف کو خاموش صوفے پر بیٹھا دیکھ کر در نجف کے پاس صوفے پر بیٹھ کر بولا صبح ہی در نجف نے اپنے موبائل پر دیکھا تھا تو نور کا میسج تھا کہ وہ خیریت سے کل شام ہی گھر پونچھ گئی تھی اسے کچھ یاد بھی نہیں وہ ٹھیک ہے پریشانی کی بات نہیں ایک ہفتے کہ لیئے اپنے بابا کے پاس ملک سے باہر جارہی ہے جس سے در نجف نے سکون کا سانس لیا تھا ورنہ انِ سب چکر میں وہ نور کی طرف سے پریشان تھی اور اب فکر ہورہی تھی لیکن میسج پڑ کر سکون ملا…
ک…کچھ نہیں بھیا…در نجف گڑبڑا کر بولی…
کیا ہوا اچھا ٹھیک ہے رلیکس…شاہ میر در نجف کو گڑبڑاتا دیکھ کر بولا…
اسلام و علیکم…ایکدم دانیال نے چیخ کر سلام کیا تو درنجف اور شاہ میر دونوں نے اچھل کر گیٹ پر دیکھا تو دانیال زریاب ضیغم سحر دانیہ اندر داخل ہورہے تھے در نجف تو سب بھول کر اٹھی…
دانی…در نجف چیخ کر خوشی سے بولی…
آرام سے لڑکی ادھر ہی ہوں…دانیال نے کان پر ہاتھ رکھ کر کہا…
تم…تم لوگ کب آئے اور اور مجھے بتایا بھی نہیں…جاؤ اب بات مت کرنا…در نجف نے منہ بناکر کہا اور سحر کی طرف آگئی دانیال تو اس کے ایکدم عمل پر ہی حیران تھا…
ارے یہ کون آیا ہے…کاضم عینا در نجف چیخ سن کر نیچے آئے شہیر گھر کم ہوتا تھا پیپر ہونے والے تھے تو وہ دوستوں کے ساتھ اسٹوڈی میں ہی بزی ہوتا تھا…
کیسے ہیں کاضم بھائی…دانیال خوشی سے کاضم اور شاہ میر سے ملا سحر بھی سب سے ملی…
تجھے کیا ہوا…کاضم ضیغم کی خاموشی محسوس کرکے بولا..
ارے چڑیل بات تو سنو…دانیال در نجف سے بولا جو اسے لفٹ ہی نہیں کرا رہی تھی..
ضیغم نے کاضم کو کوئی جواب نہیں دیا بس نظریں دانیال اور در نجف پر تھی کاضم نے اسکی نظروں کے تعاقب میں دیکھا تو سمجھ گیا اور مسکراہٹ چھپائی…
مجھے سے بات مت کرو..در نجف منہ بناکر بولی…
ایسا ہو ہی نہیں سکتا کہ میں تم سے بات نہ کرو…دانیال نفی میں سر ہلاتا بولا…
اچھا اتنی ہی فکر ہے تو بتایا کیوں نہیں…در نجف تڑخ کر بولی…
تمہیں سپرائز دینا تھا نہ یار اب ناراضی ختم کرنے کے لیئے چلو آئسکریم کھانے…دانیال مسکرا کر بولی…
میر بھیا ماما بابا تو گھر نہیں تو کیا ہم چلے…در نجف نے شاہ میر سے پوچھا..
ہاں چلتے ہیں بابا کو میں میسج کردوگا…شاہ میر نرمی سے بولا…
ہاں بلکل آپ مومن انکل کو بولے کے وہ ہمارے گھر چلے جائے سب انتظار کررہے ہم لوگ بھی واپسی پر وہاں ہی آئے گے اور احمر انکل کو بھی ماموں کو بھی بتادے…زریاب جلدی سے شاہ میر سے بولا…
او ہیلو چلو تم لوگ بھی…دانیال نے عینا کو کہا اور کاضم پر بھی نظر ڈالی…
ہم بھی چل رہے ہیں بھائی…عینا نے کاضم کو دیکھ کر کہا تو کاضم نے چلنے کا اشارہ کیا…
یس چلو بھئی آو ضیغم زریاب سب سے بولا اور سب باہر نکلے…
ضیغم اپنی گاڑی کے پاس آکر رکا شاہ میر نے اپنی گاڑی نکلی اب شاہ میر کے ساتھ در نجف بیٹھ آگے والی سیٹ پر بیٹھی شاہ میر ابھی گاڑی میں بیٹھ ہی رہا تھا کہ…
شاہ میر میں بھی تم لوگوں کے ساتھ چلتا ہوں…دانیال شاہ میر کے پاس آیا…
ہاں بیٹھو…شاہ میر نے خوش دلی سے اشارہ کیا…
تم پیچھے جاؤ گاڑی میں چلاتا ہوں راستے یاد ہیں ورنہ یہ محترمہ بیٹھی ہیں نہ ساتھ داینال در نجف کو دیکھ کر بول تو شاہ میر نے خوش دلی سے چابی اسے دی اور پیچھے بیٹھ گیا…
ضیغم نے غصے سے ٹھاہ کی آواز کے ساتھ زور سے گیٹ بند کیا اور کاضم جلدی سے اس کے ساتھ آگے بیٹھا…
عینا تم ادھر آجاؤ…در نجف نے عینا کو دانیہ کے ساتھ جاتے دیکھ کر کہا…
ن…نہیں…میں دانیہ کے ساتھ بیٹھتی ہوں…عینا گھبرا کر بولی اسُ واقعی کے بعد وہ شاہ میر کے سامنے کم کم آتنی تھی…
ارے آو ادھر چلو اسُ گاڑی میں زریاب بھائی ضیغم کاضم دانیہ سحر سب ہیں ادھر آجاو شرافت سے…در نجف نے جھڑکا تو مجبورن شاہ میر کے ساتھ پیچھے بیٹھنا پڑھا جس پر شاہ میر مسکرا اٹھا…
رلیکس ڈوڈ…کاضم آہستہ سے ضیغم کے غضب ناک چہرہ کو دیکھ کر بولا…
ضیغم آہستہ چلاو ہمیں سی سائٹ جانا ہے اپر نہیں…زریاب نے تیز اسپیڈ پر ہانک لگائی…
ہم ہاں نہیں وہ لوگ دیکھو آگے نکل گئے…ضیغم سمبھل کر بولا…
یہ دانیال بھائی ایسے ہی گاڑی چلاتے اب تو انُ کی جان نشین ساتھ ہے…سحر ہنس کر بولی…
ڈیم اٹ…کاضم نے سر پر ہاتھ مارا غلط وقت پر غلط بات بول دی تھی سحر نے…
شکر ہے تم زندہ ہوں…میرے لیئے…زریاب نے آخری بات خودُ سے کہئی تھی…
لو آگیا…دانیہ گاڑی رکتے دیکھ کر بولی اور سب ایک ایک کرکے اترے…
اوچ…دانیہ پھتر سے اتر رہے تھی کہ پیر پھسلا گرتی کہ کاضم نے فوری اس کا ہاتھ پکڑا…
آرام سے لڑکی ابھی ہڈی ٹوٹ جاتی بڑے پھتر ہیں اترو اب…کاضم نے جڑکا تو دانیہ سمبھال کر اتری اور شکریہ ادا کرتی انِ لوگوں کے پاس بھاگی…
سمبھل کر لڑکے…کاضم کھڑا اسے جاتے دیکھ رہا تھا کہ پیچھے گدی پر ایک چپت لگی تو مڑکر دیکھ ضیغم اسے چپت لگا بولا…
ہاں…کیا…او آو چلو ادھرُ کتنا اچھا دیکھ رہا ہے نہ سب…کاضم گڑبڑا کر بولا…
ہاں واقعی سب دیکھ رہا ہے…ضیغم دانت پیس کر بولا…
ہاہا..آجا…کاضم ہنسا اور بھاگا…
سالا خبیث…ضیغم بڑبڑایا…
اوے لڑکی تم زیادہ لڑاکا نہیں ہوگئی…دانیال در نجف سے بولا جو تب سے اس سے لڑی جارہی تھی…
کیا کرو تمہارے آنے کی خوشی میں لڑاکا بن گئی…در نجف ادا سے بولی اور دانیال اور در نجف نے ایک ساتھ زور دار قہقہ لگایا جس پر لوگوں نے مڑ کر دیکھا…
آرام سے ہم گھر نہیں ہیں…ضیغم نے ناگواری سے کہا…
اپس سوری ضیغم بھ…
ہاں ٹھیک ہے…در نجف ضیغم بھائی مکمل کرتی اس سے پہلے ہی ضیغم بول اٹھا اور کاضم کا قہقہ بےساختہ برآمد ہوا تو سب نے اسے دیکھا تو کاضم نے ضیغم کو دیکھ تو وہ خوانخوار نظروں سے دیکھ رہا تھا…
ہی ہی…وہ ادھر بچے کو دیکھ کر ہنسی آگئی دیکھو کیسے سمندر کو ڈپکی لگارہا ہے…کاضم نے زبردستی ہنستے ہوئے ہڑبڑا کر کہا…
آو ادھر چلتے ہیں…دانیہ نے تھوڑے آگے جانے کو بولا تو سب چلے گئی پیچھے ضیغم اور کاضم آہستہ آہستہ آرہے تھے…
وہ کب آئے گا…ضیغم نے سوال کیا…
وہ ہمیں گمراہ کرنے کے لیئے آج کا بولا کہ آج آئے گا لیکن وہ کل آئے گا پکا…کاضم نے جواب دیا…
تجھے کیسے پتہ…ضیغم نے غور سے اسے دیکھا…
جو اسُ کا خاص لازم ہے وہ ہر خبر مجھے دیتا ہے وہ ملازم نہیں نے سمجھے…کاضم نے کوڈ ورڈ میں بات کی تو ضیغم سمجھ کر مسکرایا…
ائیرپورٹ پر پکڑنا ہے یا…کاضم نے سوال کیا…
نہیں اسےُ گھر آنے دو آرزو مامی سے مل لے اسے ضرور نہیں لیکن تمہاری ماما خوش ہوجائی گی مل کر پھر کرتے ہیں پہلے تھوڑا سا گیم بھی تو ہوجائے مجھے پتہ ہے اسےُ پتہ ہے یہ میں ہی ڈی زیڈ ہوں لیکن وہ سمجھتا ہے یہ میں نہیں جانتا کہ اسےُ پتہ ہے یہ میں ڈی زیڈ ہوں اس لیئے پہلے تھوڑا انجوائے کرکے گے…ضیغم نے تفصیل بتائی اور پھر دونوں باتیں کرتے ہوآے انِ لوگوں تک آئے…
آو ادھر چلے تمہارے سالے کھڑے ہیں جدھر…کاضم شرارت سے بولا…
اور تمہارا بہنوئی بھی ادھر ہی ہے…ضیغم مزہ سے شاہ میر کی طرف اشارہ کرتا ہوا بولا…
شیٹ آپ…کاضم ناگواری سے بولا تو ضیغم ہنس کر انی لوگوں کی طرف بڑھا…
چلے کیا رات ہورہی ہے اب…ضیغم نے قریب آکر کہا سب سے…
ہاں چلو..شاہ میر نے بھی کہا وقت زیادہ ہوگیا تھا ادھر…
آ…در…تم میرے ساتھ چلو کل ماما بابا کی اینی ورسری ہے اس لیئے کیک اور گفٹ لینا ہے تمہیں بابا کی چوائس زیادہ پتہ ہوگی کلوز تم زیادہ ہو بابا کے اور ماما کے بھی…ضیغم نے در نجف سے بولا تو اس نے ہاں میں سر ہلایا…
زریاب پارکنگ میں ڈرائیور گاڑی لے کر آیا ہے باقی اسُ میں چلے جانا اور گھر میں کسی کو نہیں بتانا سمجھے بول دینا مجھے کچھ کام یاد آگیا تھا…ضیغم نے زریاب سے کہا تو وہ اوکے کہتا سب کو لیتا چلا گیا…
آجاؤ…ضیغم گاڑی میں بیٹھتا در نجف سے بولا تو وہ بھی آگے بیٹھ گئی ایک نرم مسکراہٹ ضیغم کے چہرہ پر آئی…ابھی کچھ دور ہی گئے تھے کہ ضیغم کے موباآل پر کام آئی نمبر دیکھ کر کال رسیو کی…
ہاں بولو…سرد لہجہ…
سر وہ…وہ سر وہ لڑکی بہت تنگ کررہی ہے بول رہی ہے آپ کو بلاو…ملازمہ اس کی سرد لہجے پر اٹک اٹک کر بولی ملازمہ کی بات پر ضیغم کے ماتھے پر بل پڑھے..
کیا مسلئہ ہے…اب میں کیسے آو…ضیغم بول ہی رہا تھا کہ در نجف کو دیکھ کر ایک شرارت سے آنکھیں چمکی…
اچھا آرہا ہوں دو منٹ…ضیغم نے بول کر گاڑی اپنے زاتی گھر کی طرف موڑ لی…
یار در…وہ مجھے دوست سے ایک کام ہے تم انتظار کرلوگی کوئی مسلئہ تو نہیں…ضیغم مسکراہٹ دبا کر بولا…
جی ضیغم بھ…
ہاں ٹھیک لو آگیا گھر…ضیغم جلدی سے بولا ابھی کاضم ادھر ہوتا تو ضرور قہقہ لگاتا…
یہ…یہ آپ کے دوست کا گھر ہے…در نجف گھر دیکھ کر خوف سے بولی یہ گھر وہ ہی تھا جہاں اس کا نکاح ہوا تھا تو کیا ڈی زیڈ ضیغم کا دوست تھا او گوڈ وہ اسے دیکھ کر کیا کرے گا…در نجف نے خوف سے ضیغم کو دیکھا…
ہاں آو تم ادھر ڈرائنگ روم میں بیٹھو میں مل کر آتا ہوں…ضیغم سنجدگی سے اسے بیٹھا کر آگے بڑگیا اب اسے ڈی زیڈ کا روپ میں آنا تھا پھر نور سے بات کرنی تھی اور تھوڑا در نجف کے سے بات ڈی زیڈ بن کر آخر اتنا جلایا تھا آج اسے وہ تو شاید ڈی زیڈ کو بھول ہی گئی تھی…
انہوں…اب بتاتا ہوں اسے..بہت ہلکا لے لیا ہے مسز نے ضیغم کو…ضیغم بڑبڑاتا آگے بڑھا…
🌟🌟🌟🌟🌟
وہ اندر اپنے کمرے میں داخل ہوا پھر ڈی زیڈ کا روپ لیکر وہ اسُ روم کی طرف بڑھا جہاں نور کو رکھا تھا دروازہ پر ناک کرکے اندر داخل ہوا…
اسلام و علیکم.بولو کیا بات ہے کیوں بلارہی تھی مجھے…ڈی زیڈ صوفے پر بیٹھ کر نرم لہجے میں بولا…
مجھے اپنے گھر جانا ہے…نور ہچکا کر بولی..
چلی جانا تھوڑا ہمیں بھی موقعہ دو خدمت کا…ضیغم ہنس کر بولا…
نہیں مجھے گھر جانا ہے بس…نور چلائی…
آواز نیچے رکھو نرم لہجے میں بات کررہا ہو تو تمیز سے مان لو ورنہ تمہارے لیئے ہی اچھا نہیں ہوگا…ضیغم اس کے چلانے پر غرا کر بولا تو نور خوف سے خا،وش ہوئی…
دیکھے بھائی پلیز جانے دے مجھے..میں نے کیا کیا ہے کیوں ایسا کررہے ہیں آپ…نور روتے ہوئے بولی…
دیکھو بہنا…اچھا میں تمہیں سچ بتاتا ہوں بس تم دل مضبوط کرلو جو میں بتاوگا وہ خاموشی سے سنا…ضیغم نے نرم لہجے میں سالار کی ساری بات بتائی تو نور شاک کی کیفیت میں سن ہوگئی…
دیکھو ہمارا تمہیں یہاں رکھنے کی وجہ سے وہ اب پاکستان واپس آرہا ہے اگر تمہیں جانے دے گے تو وہ کبھی واپس پاکستان نہیں آئے گا تم ساتھ دوگی نہ ہمارا تم انصاف کروگی نہ مظلوموں کے خون کا ہوں بتاو…ضیغم نے سوال کیا…
جی…جی میں انصاف دیلاوگی انُ لوگوں کو ایسے باپ سے میں یتیم اچھی ہوں تو دوسروں کو تیتم و مسکین کردے…نور مضبوط لہجے میں بولی ایسے انسان کے لیئے وہ کیوں آنسوں بہائے…
گڈ اچھا میں چلتا ہوں اگر ضروری کام ہو تو ہی کال کروانا اوکے…خیال رکھنا…ضیغم مسکرا کر سر پر ہاتھ رکھتا روم سے نکلا اور ایک گہری سانس لی اب اسے در نجف کے پاس جانا تھا…
🌟🌟🌟🌟🌟
بھائی میں ایک بات کرنا چاہتا ہوں سب موجود ہے تو…آھاد مومن حنان احمر سب خواتین مومود تھی بچے تو سب باہر گئے ہوئے تھے کہ زامن بولا…
ہاں بولو…آھاد سمجھ گیا تھا زامن کیا بات کرے گا…
حنان میں تم سے کچھ مانگنا چاہتا ہوں…زامن ہچکاتے ہوئے بولا…
بولوں یار…بس میں تمہیں اپنی وہ والی گھڑی نہیں دوگا جس پر شروع سے تمہاری نظر ہے…حنان کی گھڑی ہے جو اسےُ زارا نے دی تھی وہ زامن کو اتنی پسند آئی تھی کہ حنان نے صاف انکار کردیا…
ارے یار سن تو لو اپنی ہی ہانکتے رہتے ہو…زامن چڑ کر بولا…
تو بولوں نہ…حنان بولا…
دیکھو حنان میں سحر کو اپنی بیٹی بنانا چاہتا ہوں…زامن بولا…
وہ تمہاری ہی بیٹی ہے یار فکر نہ کرو…او اچھا مطلب…حنان پہلے لاپرواہ انداز میں بولا پھر بات سمجھ آئی تو چونک کر بولا…
مطلب گدھے…زریاب کے لیئے سحر کو مانگنا چاہتا ہوں…زامن بولا تو حنان نے زارا کو دیکھا جس کے چہرہ پر خوشی صاف دیکھ رہی تھی تو حنان بھی مسکرایا…
زریاب بہت اچھا لڑکا ہے اور میری بیٹی کو خوش رکھے گا میری اور زارا کی طرف سے ہاں ہے لیکن میں رات سحر اور دانیال سے بھی پوچھ لوگا…حنان مسکرا کر بولا…
ہاں ہاں ضرور پہلے سحر سے پوچھ لینا…زامن بھی پرسکون ہوا…
مبارک ہوں بھائی…دعا چہک کر بولی تو سب مسکرا دیئے…
مومن میں بھی تم سے کچھ مانگنا چاہتا ہوں…آھاد کے بولنے پر مومن چونک کر سیدھا ہوا…
ہاں بولو…مومن بولا…
میں در کو ضیغم کے لیئے چاہتا ہوں…آھاد سنجدگی سے بولا…
ضیغم اور در…دعا بڑبڑائی اور پھر اسے وہ رات یاد آئی جب اسُ نے ضیغم سے در نجف کے رشتے آنے کے بارے میں کی تھی اسُ کا سرد لہجہ سرخ آنکھیں سب یاد آیا…
بولوں مومن…آھاد دعا اور مومن کے خاموش ہونے پر بولا تو مومن نے دعا کو دیکھا ضیغم اچھا لڑکا تھا ہر ایک لڑکی کا آئیڈیل ہوسکتا تھا تو دعا نے مسکرا کر مومن کو رضا مندی دی..
ہمم…ہمیں کوئی اتراض نہیں ضیغم اچھا ہمسفر رہے گا مجھے یقین ہے لیکن پھر بھی پہلے ہم شاہ میر اور در نجف سے پوچھے گئے…مومن مسکرا کر بولا تو آھاد نے پرسکون سانس لی…
اب جب یہ بات ہو ہی رہی ہے تو احمر میں بھی تم سے عینا کو میر کے لیئے چاہتا ہوں…مومن نے موقعہ دیکھ کر بات کی…
شاہ میر کے لیئے عینا…احمر بڑبڑایا پھر آرزو کو دیکھا اسُ نے مسکرا کر رضا مندی دی…
شاہ میر میں کوئی برائی نہیں سوائے غصے کا تیز ہونے کے اور مجھے پتہ ہے یہ چیز اسے تم سے ہی ملی ہے…ہاہا خیر شاہ میر بہت اچھا ہے مجھے اور آرزو کو کوئی مسلئہ نہیں لیکن ہم بھی رات بات کرے گے کاضم شہیر عینا سے…احمر پہلی بات ہنس کر بولا پھر مسکرا کر گویا ہوا…
اب جب سب ہی اپنے اپنے گھر رونق لارہے ہیں تو میں صرف روق بیجھ سکتا اس لیئے زامن میں کاضم کے لیئے دانیہ کو چاہتا ہوں…احمر زامن سے بولا تو زامن مسکرایا یہ بات احمر پہلے کرچکا تھا اور اریبہ بھی راضی تھی…
ہمیں کوئی اتراض نہیں احمر لیکن ہم بھی دانیہ زریاب ضیغم سے پوچھ کر بتائے گے…زامن مسکرا کر بولا…
یانی بات گھم کر واپس میرے پاس ہی آگئی…زامن شرارت سے بولا تو سب نے پرسکون قہقہ لگایا…
آھاد نے سب کے اس ہی طرح خوش رہنے کی دعا کی…
🌟🌟🌟🌟🌟
وہ ابھی ڈارئنگ روم کی طرف بڑ ہی رہا تھا کہ موبائل پر میسج بیپ بجی تو ضیغم نے موبائل نکالا میسج دیکھا تو کاضم کا تھا…
ہو سکے تو تم در کو سب سچ بتادو کہ اسُ کا نکاح تم سے مطلب ضیغم سے ہوا ہے پکی نیوز ہے سالار کل دن تک پاکستان آجائے گا اور وہ ہمارے گھر آنے کا ارادہ رکھتا ہے اگر در کو نہیں پتہ ہوگا کہ اسُ کا نکاح تم سے ہوا ہے تو مسلئہ ہوسکتا ہے سمجھ رہے ہو نہ اور ہاں خیال رکھنا میرے میں ہمت نہیں کہ اب ہوسپٹل آوں اس لیئے آرام سے جھٹکا دینا…آخری بات شرارت سے کی تھی اب ضیغم نے سوچا جو بات وہ بعد میں بتانا چاہتا تھا وہ آج ہی بتانی پڑھے گی…
زہے نصیب…ضیغم بلند آواز میں بولا تو در نجف اچھل کر کھڑی ہوئے اور ڈی زیڈ کو دیکھ کر خوف زدہ ہوئی…
ابھی تک ادھر بیٹھی ہو…اپنا گھر ہے یار سامنے کچن ہے کافی وفی بناتی لیکن تم تو…ضیغم مزہ سے بولا…
دیکھے میرے کزن کو بیج دے پلیز…در نجف اٹک اٹک کر بولی…
ارے اسُ کو بلانا تو ایک بہانا تھا اصل میں تمہیں سچ جو بتانا تھا…او یہ تو شعر بن گیا…ضیغم چونک کر بولا
واہ واہ ہی بول دو ظالم لڑکی…ضیغم بدمزہ ہوکر بولا…
دیکھے…در نجف جھنجھلا کر بولی…
دیکھ ہی رہا ہوں یار…ضیغم بولا…
مجھے جانا نے…در نجف دروازے کی طرف بڑھی…
میرے ساتھ ہو جاوگی نہ میرے بغیر کہاں جاوگی…ضیغم دروازے کر سامنے کھڑا ہوکر بولا…
اپنے کزن کے ساتھ جاوگی…در نجف اکڑ کر بولی…
تمہارا کزن کون ہے…ضیغم دلچسبی سے بولا…
وہ..وہ ایسے ہیں کہ آپ کو دو سیکنڈ میں ختم کردے اور اگر انہیں غصہ آجائے تو سب کچھ تہس نہس کردتے ہیں آپ کو بھی نہیں چھوڑے گے…وہ روانے میں بولی…
واقعی تم مجھے اتنا جانتی ہوں اچھی بات ہے یار…ضیغم خوش ہوکر بولا…
آپ کو نہیں اپنے کزن کی بات کی…در نجف گڑبڑا کر بولی ڈی زیڈ کے لہجے میں اب ہلکی ہلکی ضیغم کا لہجے مل رہا تھا…
ہاں وہ ہی یار خیر تم جانتی ہوں تمہارا نکاح کس سے ہوا ہے ڈی زیڈ کون ہے…ضیغم سنجدہ ہوا…
ہاں ایک جانور…در نجف بول ہی رہی تھی کہ ضیغم نے بات کاٹی…
شش…تم اپنے شوہر کے بارے میں بات کررہی ہو اور مجھے یقین ہے دعا نے تمہاری ایسی طربیت نہیں کی کہ تم مجھے سے بتمیزی کرو…اب وہ اپنے ضیغم والے لہجے میں بولا…
میں کون ہوں تمہیں جانا ضروری ہے تو دل تھام کے کھڑی رہو…ضیغم بول کر اپنی تھوڑی کھجانے لگا اس طرح کرنے سے ایک جلد ابھری ضیغم نے اسے کھیچا تو وہ کھچتی چلی گئی اور پورا ماکس اتر گیا اور در نجف بےیقینی سے یہ سب دیکھ رہی تھی اور پھر نظر ضیغم کے چہرہ پر پڑھی…
ضیغم بھ…در نجف آہستہ سے بولی…
انہوں…یار اب بھائی مت بولنا شوہر کو کوئی بھائی بولتا ہے کیا…ضیغم چڑ کر بولا اتنے میں در نجف چکرا کر کرنے پر تھی کہ ضیغم نے بڑ کر جھنجڑا تو وہ ہوش میں آئی…
اتنی نازک مجازی نہیں چلے گی ڈیئر تم مسز ضیغم ہو تمہیں مضبوط ہونا پڑھے گا تمہارے ہر خبر کے لیئے تیار رہنا پڑھے گا سمجھی…ضیغم سنجدگی سے بولا…
آپ آپ نے یہ کیوں کیا میرے ساتھ اتنا بڑا دھوکا…اور اور آپ لوگوں کو مارتے ہیں آپ…در نجف بےیقینی سے بولی…
اففف…سنو یہ سن کیا ہے کیوں ہے…ضیغم نے الف سے یے تک سن در نجف کو بتایا تو وہ شرمندہ ہوئی کہ کیا کیا نہیں بولا تھا اس نے ضیغم کو جانور جنگلی وحشی اففف…
اب اب کیا ہوگا بابا ماما میر بھائی ماموں سب…در نجف گھبرا کر بولی…
رلیکس یار بابا نے آج ماموں سے بات کرلی ہوگی اور وہ رات تم سے پوچھے گے تو تم نے ہاں میں جواب دینا ہے نکاح کا یا جو کچھ میں نے تمہارے بتایا اس کا زکر کسی سے نہیں کرنا سمجھی اگر یہ بات تم نے کسی کو بتائی کہ میں کون ہوں کیوں ہوں تو یقین کرو تمہیں جان سے مارنے میں وقت نہیں لگاوگا…ضیغم سنجدگی سے بولا اور آخری بات سخت لہجے میں…
میں کسی کو کچھ نہیں بتاوگی وعدہ…در نجف معصومیت سے بولی تو ضیغم مسکرایا…
اوکے مسز چلو پھر راستے سے کیک وغیرہ بھی لینا ہے او…ہاں بات سنو…ضیغم یاد آنے پر بولا…
میں بچپن سے اپنی چیزوں کو لے کر بہت حساس ہوں…اور میری چیز پر کوئی نظر ڈالے یا ہاتھ لگائے تو وہ ہاتھ میں توڑ دیتا ہوں اور تم کوئی چیز نہیں جیتی جاگتی میری بیوی ہوں اس لیئے اس بات کا خیال رکھنا کہ کسی کا ہاتھ نہ ٹوٹے…ضیغم سنجدہ لہجے میں اسے سمجھا دیا تھا…
اور یہ چادر صیح سے لیا کرو اللہ باپ بھائی شوہر کے بعد یہ ہی آپ کی محافظ ہوتی ہے یہ ہی طاقت سمجھی…ضیغم نرم لہجے میں بولا اور باہر آنے کا اشارہ کیا…
🌟🌟🌟🌟
گھر پونچھے تو سب نے خوشگوار محول میں ڈنر کیا اور مومن نے بتایا کے کل کا لنچ سن مومن کی طرف کرے کیونکہ کل زوار کو بھی بلایا ہے اسُ کے بیٹے کے ساتھ…
گھر آکر سب کے والدین نے پوچھا تو شاہ میر کاضم زریاب نے خوش دلی سے ہاں کی اور اپنی اپنی بہوں کے لیئے بھی خوش تھے کاضم کو کوئی مسلئہ نہیں تھا شاہ میر سے ضیغم نے بس اتنا بتایا تھا کہ اسُ وقت وہ بہت پریشان تھا عینا کے رشتے کو لے کر جو آنے والا تھا اور بس تو کاضم کو کیا مسلئہ تھا سب لڑکیوں نے بھی رضا مندی دے دی تھی جو والدین کو مرضی وہ..
🌟🌟🌟🌟🌟
رات وہ سونے کے لیئے لیٹا کہ موبائل پر انجان نمبر سے میسج تھا ضیغم نے میسج کھولا تو اسُ میں لکھا تھا…
آرہا ہوں میں…اور ہان تمہارا راز مجھے معلوم ہے تمہاری وجہ سے بیچاری جان سے جائے گی…آخر میں ڈی کے لکھا تھا ضیغم سمجھ گیا یہ سالار کا میسج ہے اور راز یا تو اس کا ڈی زیڈ ہونا ہے یا نکاح کا خیر اسے کوئی خوف نہیں تھا ایک نہ ایک دن یہ بات پتہ چلنی ہی تھی لیکن یہ جو دھمکی دی تھی جان سے مارنے کی اس پر ضیغم نے غصہ ضبط کیا تھا اور موبائل بند کرکے سونے لیٹ گیا…
نفرت ہورہی ہے مجھے تم سے قاتل ہو تم میری بیٹی کے مر گئی میری بیٹی تمہاری وجہ سے ضیغم…دعا ضیغم کا گربان پکڑے روتے ہوئے چلاکر بولی…
تم…تمہاری…تمہاری وجہ سے مری ہے میری بیٹی..مار دیا تم نے ضیغم اسےُ..مار دیا میری بیٹی کو میری در کو ماردیا…دعا زہنی انداز میں چلائی شاہ میر نے ضبط سے دعا کوسمبھالا اور وہ وہ تو بےآواز رو رہا تھا اور نظریں سفید کفن میں لپٹے وجود پر تھی کہ سکی نے اسے جھنجھوڑا وہ چونک کر اٹھا…
کیا بھنگ پی کر سوئے ہو…زریاب بیزاری سے بولا آدھر گھنٹے سے اٹھا رہا تھا اسے لیکن جناب شاید مردوں سے شرط لگا کر سوئے تھے ضیغم پسینے میں شرعہ بور اٹھ کر کھڑا ہوا…
کیا ہوا طبیت ٹھیک ہے…زریاب اس کی حالت دیکھ کر بولا…
اہوں…ہاں سب ٹھیک ہے توُ چل میں آرہا ہوں بس ٹیبل پر…ضیغم سمبھال کر بولا…
اللہ خیر کرے…ضیغم بڑبڑایا ویشروام کی طرف بڑگیا…
🌟🌟🌟🌟🌟
لو آگئے جناب جلدی کرو ناشتہ پھر مومن بھائی کی طرف جانا ہے…سدرہ ضیغم کو دیکھ کر بولی…
ماما ایک بات بتائے…کچن میں گئی تو ضیغم بھی سدرہ کے پیچھے آکر بولا…
ہاں بولوں چندا…سدرہ بولی اور چائے کے کپ اترانے لگی…
ماما اگر خواب میں کسی کا جنازہ دیکھے اور آپ رو رہے ہوں تو کیسا ہوتا ہے…ضیغم الجھا سا بولا تو سدرہ نے چونک اسے دیکھ پھر جواب دیا…
بیٹا مجھے صیح نہیں پتہ لیکن سنا ہے کہ کسی کا جنازہ دیکھو تو اسُ کی عمر دراز ہوتی ہے اور جو خواب میں اپنے آپ کو روتے دیکھے تو بولتے ہیں کہ اسےُ کوئی خوش نصیب ہوئے گی…سدرہ نے آرام سے بتایا تو ضیغم پرسکون ہوا…
اگر ایسا کوئی خواب دیکھا ہے تو صدقہ ضرور دینا صدقہ ہر بلا کو ٹال دیتا ہے…سدرہ ضیغم کے بال بگاڑ کر بولی اور چائے لیکر ٹیبل پر آئی…
ماما آپ بابا سب چلے جائے میں تھوڑی دیر میں آجاو گا دعا کی طرف…ضیغم بولا تو سدرہ نے ہاں میں سر ہلایا…
🌟🌟🌟🌟🌟
کیسے ہو زوار سب ٹھیک ارے ارمان بیٹا آرام سے بیٹھو…مومن زوار سے بولا پھر ارمان سے جو بڑوں کی موجودگی میں ہچچکارہا تھا…
ارے تم ضیغم کے دوست وکی ہو نہ…سدرہ چونک کر بولی تو ارمان گڑبڑایا…
وکی نہیں یہ ارمان ہے…مومن زوار کو دیکھ کر بولا…
ارے آنٹی میرا اصل نام ارمان ہے دوست مجھے وکی بولتے ہیں…ارمان سمبھال کر بولا پھر ضیغم کو دیکھا جو مسکراہٹ دبائے اس ہی کے برابر میں بیٹھا تھا…
اچھا…سدرہ بولی اور پھر دعا اور باقیوں کی طرف متوجہ ہوئی…
جب میری ماں تمہیں نہیں پیچھانی تھی جب تک تم ایک اچھے لڑکے تھے لیکن اب تم میری ماں کی نظر میں ایک آوارہ لڑکے ہوگئے جس کے ساتھ میں رات بھر آوارہ گردی کرتا ہوں…ضیغم مزے سے بولا…
تم بہت ہی کمینی چیز ہو مجھ بیچارے کو بدنام کرکے رکھ دیا…ارمان جل کر بولا تو ضیغم نے قہقہ لگایا…
یہ کمینی نہیں کمینی سے بھی اپرُ کی چیز ہے…کاضم انِ لوگوں کے پاس بیٹھ کر بولا…
او ہیلو سمبھال کر ہاں…ابھی جاکر زامن چاچو سے بولوں کا کہ دانیہ کا رشتہ کینسل کرے کوئی جمعہ کو نکاح نہیں ہورہا…ضیغم نے دھمکی دی…
او ہیلو ہلکے میں آو…کاضم چڑ کر بولا…
ابھی جاؤ میں زامن چاچو کے پاس بغیر وجہ جانے میرے ایک بار انکار پر ہی وہ خاموشی سے اس رشتے کے لیئے انکار کردے گے یا میں دانیہ سے بولوں ایک بار میں ہی خود رشتے سے انکار کرے گی ہلکہ مت لو مجھے سمجھے…ضیغم گردن اکڑ کر بولا…
یار میں تو مجاق کررہا تھا توُ تو سیریس ہوگیا آآ سب باہر جارہے ہیں ہم بھی چلتے ہیں لان مین جارہے سب…کاضم سمبھال کر نرمی سے بولا تو ضیغم اور ارمان نے قہقہ لگایا…
ڈرگیا بیچارا…ارمان کھڑا ہوکر بولا تو کاضم نے گھوری دیکھائی…
تم لوگ جاؤ میں کال پر بات کرکے آیا…ضیغم کے موبائل پر کال آرہی تھی کہ وہ کال رسیو کرتا انِ لوگون سے بول تو سب لان میں آگئے اور ضیغم اندر ہی کمرے میں بیٹھا کال پر بات کررہا تھا…
🌟🌟🌟🌟🌟
تو بس اس جمعہ کو کنفروم ہوا کہ نکاح جمعہ کو ہے…دعا چہک کر بولی..
جی بلکل…سب نے کہا…
ہائے عینا تم میری بھابھی بنوں گی واؤ…در نجف عینا کو گلے لگا کر بولی ابھی سب نے سب کا نکاح کا کہا تھا رخصتی لڑکیوں کی پڑھائی کے بعد…
ہمم..عینا مان تو گئی تھی لیکن شاہ میر کے رویئے سے خوف زدہ تھی وہ اتنا خاموش کیوں تھا اسُ نے تو کہا تھا کہ وہ اس کی زندگی مذاق بنادے گا پھر وہ خوش کیوں تھا…
آرو…ابھی سب بیٹھے ہی تھے کہ پیچھے سس آواز آئے اور پیچھے مڑ کر دیکھا تو سب شاک سے کھڑے ہوئے…
س…سالار بھائی…آرزو سالار کو اتنے سال بعد دیکھ کر بھاگ کر گلے لگی اور رونے لگی…
بس میری جان…سالار بولا…
بھائی آپ آپ کہاں تھا کتنا ڈھونڈا آپ کو سب نے کہاں کہاں نے دیکھا میری یاد نہیں آئی بھائی…آرزو روتے ہوئے بولی اور کاضم کا دل چاہا کہ وہ اپنی ماں کو اس شخص سے دور کردے لیکن وہ مجبور تھا اسُ کی مان کتنی پریشان تھی اپنے بھائی کہ لیئے…
سوری آرو میں کیا بتاو لیکن لیکن اب آگیا ہوں نہ میں ہوں…سالار نرمی سے بولا جو بھی تھا بہن تھی آرزو اس کی پیار کرتا اپنی بہن سے…
دعا…سالار کی نظر دعا پر گئی تو وہ آرزو سے الگ ہوکر بولا اور دعا کی طرف قدم بڑھائے…
ہیلو سالار ہم بھی ادھر ہیں…سالار دعا تک آتے کہ راختے میں ہی مومن سالار کے سامنے آکر کھڑا ہوا…
سالار نے لب بیچھ کر مومن کو دیکھا پھر سب پر نظر ڈالی اور نظر در نجف پر گئے جو شاہ میر کے ساتھ کھڑی تھی سالار مسکرایا در نجف کو دیکھ کر یہ منظر کاضم نے دیکھا تو غصے سے مٹھیاں بیچھی اور ضیغم کے آنے کی دعا کی…
مومن کیسے ہو…خوش تو بہت ہو…کتنے بچے ہیں تمہارے ملوں تو…سالار بولا تو آرزو کا احساس کرتا مومن زبردستی شاہ میر کی طرف مڑا…
یہ میرا بیٹا شاہ میر اور…مومن بول ہی رہا تھا کہ سالار بولا..
اور بیٹی در نجف…سالار کے بولنے پر سب نے چونک کر اسے دیکھا…
وہ بلکل تم پر گئی ہے نہ اس لیئے نہیں بلکل دعا پر گئی ہے معصومیت آنکھیں…سالار بولا تو شاہ میر نے در نجف کو اپنے پاس کیا اسے یہ آدمی اچھا نہیں لگا تھا…
ارے ملوگی نہیں مجھ سے…سالار نے قدم در نجف کی طرف بڑھایا…
نہیں ایسے لوگوں سے وہ نہیں ملتی…سالار در نجف کے پاس جا ہی رہا تھا کہ پیچھے سے سرد آواز نے پلٹنے پر مجبور کیا…
🌟🌟🌟🌟🌟