لالہ میرے پاس آجا
گڑیا نے مسکرا کر اسے اپنی طرف کھینچا تھا
ارے گڑیا نہیں آسکتا ہانیہ کو میری ضرورت ہے
وہ مر جائے گی میں اسے چھوڑ گیا تو
عمر نے صاف انکار کیا تھا
لالہ گڑیا سے زیادہ ہانیہ پیاری ہے؟
گڑیا نے منہ پھلایا تھا
نہ میری گڈی تو مجھے سب سے زیادہ پیاری ہے پر تیری بھابھی کو ضرورت ہے نا عمر نے بےبسی سے عذر دیا تھا
میں اداس ہوں یہاں لالہ
گڑیا رونے کو تھی
گڈی تو تو میرے پاس آجا
عمر نے آس بھرے لہجے میں منت کی تھی
تو پھر تو مجھے سکول بھیجے گا؟
گڑیا نے تنک کر جواب دیا تھا
ہ۔ہاں پر ارے گڈی ٹائم سے پہلے لینے آیا کروں گا
عمر نے پرزور انداز میں اسے یقین دلایا تھا
جھوٹا!
گڈی منمنائی تھی
نا گڈی اللہ کا وعدہ کبھی دیر نہیں کرونگا۔
آجاوں پھر میں تیرے پاس۔۔؟
گڑیا سنجیدہ ہوئی تھی
آجا پوچھتی کیا ہے
عمر نے بانہیں پھیلائیں تھیں
لے آ گئی۔۔۔
گڑیا کھلکھلا کر ہنسی تھی اور عمر کی آنکھ کھل گئی تھی۔
مبارک ہو بیٹی ہوئی ہے
ڈاکٹر نے مسکرا کر بچی عمر کی گود میں دی تھی بچی کو دیکھ کر عمر کے منہ سے بےساختہ نکلا تھا ”گڑیا” اور اس نے اپنی گڑیا کا ماتھا چوم لیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اردگرد گھپ اندھیرا تھا بہت سب لوگوں کی چیخوں کی گونج سنائی دے رہی تھی۔ وہ خوف سے کانپ گئی تھی۔ اتنا گھپ اندھیرا اسے لگا اسے نگل جائے گا وہ خوف سے بےسمت دوڑنے لگی
منظر بدلا اب وہ ایک کھلے روشن میدان میں تھی۔ سامنے ہی روشنی کا ماخذ نور سے چمکتے ہوئے لاکھوں کروڑوں کی تعداد میں موتی پڑے تھے جن کی روشنی آنکھوں کو ٹھنڈک اور دل کو سکون دے رہے تھے۔ وہ آگے بڑھی اور ایک آبگینا اٹھایا اور خوشی سے جھوم اٹھی۔ یہ تو اسکی فجر کی نماز تھی۔ اس نے دوسرا موتی دیکھا جس پہ ماں کی خوشی کے لئے اسکا پیار سے انہیں دیکھنا درج تھا
وہ موتی اٹھاتی اور اس پہ اپنی کسی نہ کسی نیکی کا حوالہ دیکھ کر خوش ہوتی۔ اس نے فخر سے اپنی نیکیوں کے ہجوم کو دیکھا تھا اور۔۔۔
منظر بدل گیا تھا پیچھے روشنیوں کا عکس تھا اور سامنے سیاہی کا پہاڑ تھا۔ آسمان کو چھوتا بپھرا ہوا۔ پاس جانے کی ہمت ہانیہ میں نہیں تھی پر دور سے بھی اپنے گناہوں کو پہچاننا بہت آسان تھا۔ جگہ جگہ مایوسی کے نام پہ کفر کے ڈھیر تھے۔ ابراہیم سے تعلق بڑھاتے جان بوجھ کر قرآنی احکامات سے آنکھیں چرانا تھا۔ زندگی جیسی نعمت کے بدلے موت کی دعائیں مانگنا اور جانے انجانے میں کئے گئے تمام گناہ اور ناشکری اور۔۔۔
منظر بدلا تھا۔ نیکیوں کے بدلے گناہ مٹ رہے تھے۔ نیکیاں مٹ گئی تھیں اور گناہوں کا پہاڑ ہنوز کالے سانپوں کا روپ دھارے اب اس کی طرف بڑھنے لگا تھا
ہانیہ پہ لرزا طاری ہوگیا تھا وہ گڑگڑاتے ہوئے سجدے میں گری تھی۔
یا اللہ تھوڑی زندگی اور دےدے۔ مجھے توبہ کرنے کی توفیق دےدے۔ جب تونے آزمایا تو میں ش نکوہ کرنے لگی اور جب تونے عطا کیا تو مجھے گناہوں پہ توبہ کرنا نعمتوں پہ شکر کرنا کچھ بھی یاد نہ رہا میں دنیا کے رنگوں میں کھو گئی۔ مجھے نیکیاں بڑھانے کی توفیق دےدے مجھ پر رحم کر میرے اللہ مجھے توبہ کرنے تک کی توفیق دےدے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کسی کا لمس اپنے کندھے پہ محسوس کرتے وہ ہڑبڑا کر اٹھی تھی
ہانیہ کیا ہوا تم ٹھیک ہو کب سے سجدے میں ہو؟ عمر پریشان سا اس کی خیریت دریافت کر رہا تھا؟
وہ میں شائد سو گئی تھی میں ٹھیک ہوں۔ ہانیہ مسکرائی تھی۔
ہاہاہا اسی لئے کہتا ہوں میری پیاری بیوی کہ ایک نوکرانی لگوا لو اکیلی بچے گھر سنبھالتے یہ حال ہے کہ نماز میں سو گئی ہاہاہا
کرتا ہوں میں نوکرانی کا انتظام آج۔
جی نہیں میرے گھر کے کام کسی دوسری عورت کو کرنے کا حق میں کبھی نہیں دونگی۔ یہ میرا گھر ہے سمجھے آپ۔ ہانیہ نے رعب سے گھر پر اپنی ملکیت جمائی تھی
ہاہاہا گھر بھی تمہارا میں بھی تمہارا اور میرے یہ دونوں بچے بھی تمہارے۔۔خوش اب؟
ہانیہ نے سوئی ہوئی گڑیا اور اپنے اور عمر کے 6 ماہ کے بیٹے معاز کو مسکراتے ہوئے دیکھ کر اثبات میں سر ہلایا تھا اور دل نے خاموشی سے اقرار کیا تھا
”شکر زندگی ابھی باقی ہے”
ختم
۔۔۔۔۔۔۔ ۔ ۔۔۔۔۔۔۔ ۔