اذلان نے ایلاف کے سرد نیم جان وجود کو سیدھا کر کے بیڈ پہ ڈالا تھا۔
” ایلاف! فار گاڈ سیک،ہوش میں آئیں۔یہ تم عورتیں اتنی جنونی کیوں ہوتی ہو؟” اذلان شاہ بیک وقت متضاد کیفیات کا شکار ہوا تھا۔
” امیراں!” اذلان شاہ نے اسے پکارا۔
” جی! جی پیر سائیں۔” امیراں دوڑی چلی آئی تھی۔
” کونسی دنیا میں رہتی ہو تم؟ ایک انسان اتنا بیمار ہے اور تمہیں خبر ہی نہیں ہوئی۔” اذلان شاہ نے اسے جھاڑا۔
” سائیں!مجھے کیا معلوم؟مجھے لگا ان بی بی کا مزاج ہی ایسا ہے۔کسی بات کا جواب ہی نہیں دیتیں تھیں۔مجھے لگا بعد میں کچن سے لے لیتی ہوں گی کھانا۔” امیراں منمناتے ہوئے بولی۔
اذلان شاہ اسے گھور کے رہ گیا تھا پھر کچھ سوچ کے موبائل نکالا۔
اصولا تو اسے ایلاف کو فورا اسپتال لے کے جانا چاہئیے تھا مگر ایلاف کا حلیہ،وہ اسی لباس میں تھی یعنی کالج یونیفارم میں تین دن سے’ ظاہر ہے ایلاف کی کوئی باقاعدہ شادی تو نہیں ہوئی تھی۔رسم و رواج کی مانند جو اسے بھر کے سوٹ کیس دئیے جاتے۔ اسے تو ایک بوجھ کی طرح اٹھا کے پھینک دیا گیا تھا خالی ہاتھ۔۔۔۔اب اس ملگجے یونیفارم،بکھرے بالوں کے ساتھ وہ اسے اسپتال لے جا کے اپنا تماشہ تو بنا نہیں سکتا تھا۔
کچھ سوچ کے اذلان نے ڈاکٹر انوشہ کو کال کی تھی۔ انوشہ اس کے ویلفئیر اسپتال میں ہوتی تھی اور شام میں اس کا پرائیوٹ کلینک تھا جو قریب میں ہی تھا۔
” ارے پیر شاہ!خیر تو ہے؟” سلسلہ ملنے پہ انوشہ نے پوچھا تھا
” جی سب خیر ہے۔آپ کا کچھ وقت مل سکتا ہے گھر میں کچھ ایمرجنسی ہوگئی ہے۔” اذلان شاہ نے پوچھا۔
” آپ کیلئے تو وقت ہی وقت ہے پیر صاحب۔ آپ مجھے لوکیشن بتائیں میں آجاتی ہوں۔” ڈاکٹر انوشہ احتراما بولی۔
” آپ کلینک میں ہی ہیں نا وہیں انتظار کریں۔ ہمارا ڈرائیور آرہا ہے آپ کو لینے اور مجھے لگتا ہے ڈرپ کی ضرورت بھی پڑے گی تو آپ مکمل تیاری کے ساتھ آئیے گا۔” اذلان اسے صورتحال بتاتے ہوئے بولا۔
” اوکے!پھر میں حاضر ہوتی ہوں۔” انوشہ نے کہہ کر رابطہ منقطع کیا۔
اذلان نے پھر امیراں کو آواز دی۔” ڈرائیور سے کہو ڈاکٹر انوشہ کو ان کلینک سے لے آئے۔ جلدی! اس سے پہلے اور دیر ہوجائے۔” اذلان شاہ اسے حکم دیتا ہوا بولا۔
” صاحب جی آخر اس بی بی کیلئے اتنا پریشان کیوں ہورہے ہیں مہمان ہی تو ہے۔” امیراں کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ اذلان شاہ اسے اتنی اہمیت کیوں دے رہا ہے۔
” بیوقوف تم سے کس نے کہا کہ یہ مہمان ہے۔بیوی ہے ہماری! ” اذلان کے انکشاف نے امیراں کا دماغ بھک سے اڑا دیا تھا۔
“جی!” وہ اذلان شاہ کی شکل ہی دیکھ کے رہ گئی۔
” کیوں بھئی ہم نے سورج کے مغرب سے نکلنے کی اطلاع دے دی ہے جو تمہارا منہ بند ہی نہیں ہورہا۔جاؤ سوپ تیار کرو اور دودھ بھی گرم کر لینا۔” اذلان شاہ کوفت ذدہ سا ہوگیا تھا امیراں کے تاثرات دیکھ کے۔
امیراں نے فورا کچن کی طرف دوڑ لگا دی تھی اذلان کے آرڈر کی تعمیل کیلئے نہیں بلکہ بختاں کو بریکنگ نیوز سنانے کیلئے۔
آخر کو یہ اتنی بڑی خبر تھی شادی اور وہ بھی ایسے،یہ تو سورج کے مغرب سے نکلنے سے بھی ذیادہ حیران کن خبر تھی امیراں کیلئے۔
______________________________
” پیر سائیں!بہتر ہوگا آپ مریضہ کو اسپتال لے جائیں انہیں مکمل ٹریٹمنٹ کی ضرورت ہے۔ یہ بہت ویک ہیں بلڈ پریشر حد سے ذیادہ لو ہے۔” ڈاکٹر انوشہ ایلاف کا چیک اپ کرتے ہوئے بولی۔
” جو ٹریٹمنٹ دینا ہے یہیں دیجئے۔ جس چیز کی ضرورت ہے بتا دیجئے آپ کو مل جائے گی علاج کیلئے۔” اذلان شاہ سرد مہری سے بولا۔
” فی الحال میں نے انہیں انجکشن دیا ہے اور یہ گلوکوز کی ڈرپ بھی لگا رہی ہوں۔انہیں میڈیسن سے ذیادہ مناسب خوراک کی ضرورت ہے یہ ہوش میں آئیں تو انہیں کچھ ہلکا پھلکا کھلا کے یہ ٹانک اور دوائیاں دیجئیے گا اور انہیں خوش رکھنے کی کوششش کریں یہ بہت ٹینس ہیں ان کے دماغ پہ بوجھ ہے۔” ڈاکٹر انوشہ نے اسے ساری تفصیل بتائی تھی اور ساتھ میں ہدایت بھی دیں تھیں۔
” شکریہ ڈاکٹر انوشہ۔امیراں ڈرائیور سے کہو انہیں واپس لے جائے اور یہ دوائیاں لے آئے۔” اذلان شاہ نے اسے ہدایات دیں۔
” ویلکم سر!ویسے یہ آپ کی کیا لگتی ہیں مینز ریلیٹو ہیں؟” انوشہ نے پوچھا تو امیراں فورا متوجہ ہوئی کہ اذلان کیا جواب دیتا ہے۔
” ریلیٹو ہی سمجھیں۔” اذلان نے گول مول جواب دیا۔
اب وہ اسے کیا کہتا کہ اتنے خستہ حلیے والی لڑکی اس جیسے شاندار آدمی کی بیوی ہے۔کیا سوچے گی انوشہ اور امیراں کا دل چاہا اپنا سر پیٹ لے۔
” یہ پیر سائیں پہلی بار میں ہی کیوں نہیں بتاتے چھپاتے کیوں ہیں؟کوئی بات نہیں دوسری بار پوچھنا بتا دیں گے۔” امیراں بڑبڑاتے ہوئے ڈاکٹر انوشہ کے ساتھ چل دی۔
اذلان سامنے موجود صوفے پہ بیٹھ گیا اور ایلاف کے ہوش میں آنے کا انتظار کرنے لگا۔
یوں ہی نگاہ بھٹک کے اس پہ گئی تو اس کی خستہ سامانی یاد آگئی۔ وہ اس کی ذمہ داری تھی اللہ نے اذلان کو اس کا کفیل بنایا تھا۔اس رشتہ کا جو بھی انجام ہونا تھا لیکن ابھی تو وہ اس کے نکاح میں تھی پھر بیمار بھی، اذلان کو اپنی کوتاہی کا اندازہ ہوا تھا اس کے لباس کا ,ایلاف کے نان نفقہ کی ذمہ داری بھی اس نے ادا کرنی تھی۔وہ تو اسے اپنا نام دے کے بھول ہی گیا تھا باقی حقوق و فرائض کی داستان بعد میں پہلے تو ایلاف کیلئے اسے مناسب لباس کا بندوبست کرنا تھا۔خواتین کی خریداری کا نہ تو اسے کوئی تجربہ تھا اور نہ ابھی وہ ایلاف کو چھوڑ کے جا سکتا تھا۔اس لئے اس نے اپنے دوست ابراہیم کو کال کی تھی اس کی بیوی شازمہ کا اپنا بوتیک تھا اور وہ ڈیزائنر تھی۔
” ارے پیر صاحب!ہم مریدوں کی کیسے یاد آگئی؟” ابراہیم شوخی سے بولا انکی ملاقات بہت کم ہو پاتی تھی، اذلان کی بے پناہ مصروفیات کے باعث۔
” بھئی!جب مرید راہ بھولنے لگیں تو پیروں کو آواز لگانی پڑتی ہے۔خیر ابھی ہمیں ایک کام ہے بھابھی سے بات ہوسکتی ہے؟” اذلان شاہ نے پوچھا۔
“خیر تو ہے ہماری بیگم کی کیوں یاد آگئی کہیں کوئی لڑکی تو پسند نہیں آگئی؟ہاں کرلوبات۔”ابراہیم شرارت سے بولا
” تنگ نہ کرو،بات کراؤ۔” اذلان نے اسے ٹوکا۔
” جی اذلان بھائی!اسلام علیکم ،خیریت؟” شازمہ نے ایک ساتھ تین سوال کئے۔
” وعلیکم اسلام!بھابھی خیریت ہے۔آپ سے ایک فیور چاہئے۔”اذلان نے تمہید باندھی۔
” جی بھائی!” شازمہ ہمہ تن گوش ہوئی۔
“اصل میں ہمیں کچھ ملبوسات چاہئیں زنانہ ارجنٹ گھریلو استعمال کیلئے مگر بہترین ہونے چاہئیں۔” اذلان شاہ نے بتایا۔
” خیر تو ہے کس کیلئے چاہئیں؟” شازمہ حیرانی سے بولی۔
” تقریبا سترہ،اٹھارہ برس کی لڑکی کیلئے دھان پان سی ہے۔” اذلان شاہ نے آدھا جواب دیا تھا۔
شازمہ سمجھدار تھی سمجھ گئی کہ اذلان فی الحال بتانا نہیں چاہتا اس لئے وہ مطلب کے سوال پوچھنے لگی۔
“کتنے چاہئیں اور کلر کیسے ہوں؟”
” فی الحال تو آپ چار پانچ بھیج دیں بلکہ یوں کیجئے آپ کچھ تیار جوڑے کسی ورکر کے ساتھ بھیج دیں جو پسند آئیں گے رکھ لیں گے اور پیمنٹ کردیں گے۔کلر مکس ہی رکھئے گا۔” اذلان شاہ نے کہا۔
” غیروں جیسی بات کیوں کرتے ہیں بھائی۔میں ابھی بھیجتی ہوں ان شاء اللہ آپ کو پسند آئیں گے۔” شازمہ نے کہا
” کیوں رے بھائی؟کیا چکر ہے؟” ابراہیم دوبارہ لائن پہ آگیا تھا۔
اسی پل ایلاف کی پلکوں پہ خفیف جنبش ہوئی تھی۔
” چکر وکر سب بتائیں گے۔فی الحال کچھ مصروفیت ہے۔خدا حافظ اور شکریہ!” اذلان نے اختتامی کلمات کہے۔
____________________________
” ایلاف!کیسی ہیں آپ؟”اذلان شاہ نرمی سے پوچھ رہا تھا۔
ایلاف نے مندی مندی آنکھوں سے اسے دیکھا جس کی آنکھوں میں فکر مندی تھی، ہمدردی تھی۔
” خدا نے میری نہیں سنی،نہیں آئی مجھے موت۔مامی صحیح کہتی تھیں، بہت ڈھیٹ ہوں میں۔ ” ایلاف نے اذیت سے سوچا۔
” کیا سوچ رہی ہیں؟ ” اذلان نے پوچھا۔
” سوچ رہی ہوں کہ ہم جیسوں کو موت بھی قبول نہیں کرتی۔دیکھیں میں ابھی تک زندہ ہوں حالانکہ کتنی کوشش کی میں نے۔” ایلاف بولتے بولتے ہانپ گئی تھی۔
“ایلاف جو بیت گیا ہے اسے بھول جائیں۔فی الحال ہم اس موضوع کو مزید نہیں ڈسکس کرنا چاہتے مگر آپ دوبارہ یہ حرکت نہیں کریں گی۔” اذلان نے اسے تنبیہہ کی۔
” کیا کروں میں جی کے؟کس لئے جئیوں؟” ایلاف سراپا سوال تھی۔ اتنی سی گفتگو نے ہی اسے تھکا دیا تھا۔
ایک جھٹکے نے ایلاف کو بند گلی میں لا کے کھڑا کر دیا تھا،جس کا کوئی راستہ اسے نہ دکھ رہا تھا۔
” کمال ہے! آپ اپنے لئے جئیں۔ ایلاف زندگی ہماری ہے تو اسے اپنے لئے جینا چاہئے۔ ” ایلاف کی بات پہ اذلان یوں بولا جیسے کسی بچے کو سمجھا رہا ہو پھر مزید گویا ہوا۔
” باقی باتیں بعد میں’پہلے کچھ کھا لیں۔امیراں!”
” جی صاحب!” امیراں فورا آئی۔
” بی بی کیلئے سوپ لاؤ اور ابراہیم صاحب کی طرف سے جو بھی آئے مجھے فورا بتانا۔” اذلان نے اسے کہا۔
” مجھے کچھ نہیں کھانا۔مجھے بھوک نہیں ہے۔” ایلاف اب بھی انکاری تھی۔سوپ تو اسے ویسے بھی پسند نہ تھا۔
“کونسے سیارے کی مخلوق ہیں آپ؟ دو دن سے آپ کے معدے میں کچھ اترا نہیں اور اب بھی آپ انکاری ہیں۔سوپ تو پینا پڑے گا آپ کو۔” اذلان شاہ سختی سے بولا۔
امیراں سوپ لے کے آئی تو ایلاف کا نہ تو دل چاہ رہا تھا اور نہ اس سے چمچہ پکڑا جا رہا تھا۔ ظاہر ہے جسم میں جان ہی نہ تھی۔
اذلان اسے ہی دیکھ رہا تھا اس کی حالت کا اندازہ ہوا تو اٹھ کے اس کے پاس آکے مقابل بیٹھ گیا۔چمچ ہاتھ سے لیا اور اس کے منہ کی طرف بڑھاتے ہوئے بولا۔
” چلیں! شاباش منہ کھولیں۔”
ایلاف تو اسے دیکھ کے رہ گئی۔
“کس حساب میں یہ مہربانی کر رہا ہے مجھ پہ ابھی دو دن پہلے کتنا سنا رہا تھا۔”
ایلاف کو اس میں بھی اس کی کوئی چال دکھ رہی تھی۔حالات نے اسے ہر بات کا منفی پہلو دکھانا شروع کر دیا تھا۔
” پی لوں گی میں! ضرورت نہیں آپ کی۔” ایلاف اس کا احساس کسی طور نہ لینا چاہتی تھی۔
” ایلاف فی الحال ساری انا سائیڈ پہ رکھ دیجئے اور چپ چاپ منہ کھولیں ورنہ دوسرا طریقہ بھی آتا ہے ہمیں۔” اذلان شاہ نے دھمکی لگائی۔
ایلاف نے منہ کھول دیا تو اذلان نے اسے آہستہ’آہستہ سوپ پلانا شروع کردیا اور ختم کرا کے ہی چھوڑا۔
” یہ سمجھ رہا ہے اس طرح مجھے یہ پٹا لے گا۔ میری ہمدردیاں حاصل کرلے گا۔مر کے بھی نہیں معاف کروں گی تمہیں اور تمہارے خاندان کو۔” ایلاف زہر خند سی ہو کے سوچ رہی تھی۔
ایلاف کی اس عقل پہ ماتم ہی کیا جا سکتا تھا۔ وہ اذلان شاہ جس کی نگاہ الفت کیلئے ایک دنیا ترستی تھی، وہ اس وقت دنیا بھلائے ایلاف کی تیماداری میں مصروف تھا۔
حالات کچھ اور ہوتے تو ایلاف اپنی اس خوش نصیبی پہ فخر کرتی مگر اس کا کیا ہو کہ جن لوگوں کی عزت نفس پہ ضرب لگائی جائے،کیچڑ اچھالی جائے تو ان کی تو دنیا ہی اندھیری ہوجاتی ہے۔
” پیر صاحب!ابراہیم صاحب نے ایک عورت بھیجی ہے بلکہ ان کی بیگم نے کپڑے دے کے۔” امیراں اپنی دھن میں اندر آتے ہوئے بولی تو سامنے کا منظر دیکھ کے حیران ہوگئی۔
اذلان شاہ اور اس لڑکی کی ایسی تیماداری کہ اپنے ہاتھوں سے سوپ پلایا جا رہا ہے۔ آج تو لگتا تھا اذلان شاہ نے اسے حیران کرنے کا ریکارڈ قائم کرنا تھا۔
” بھیجو اسے یہاں۔” اذلان شاہ نے کہا۔
ورکر کپڑے لے کے اندر آگئی تھی۔اس نے ایلاف کے ناپ کے مطابق کچھ جوڑے دکھائے تھے۔
” آپ پہ برائٹ کلرز بہت سوٹ کریں گے،اس لئے میرے خیال سے یہ بہترین ہیں۔” ورکر خوش اخلاقی سے بول رہی تھی۔
ایلاف چپ چاپ ساری کاروائی دیکھتی رہی منہ سے ایک لفظ بھی نہ نکال کے دیا۔ اذلان نے کچھ جوڑے سلیکٹ کئے۔ شازمہ نے کافی اچھا کلیکشن بھیجا تھا پیمنٹ کر کے ورکر کو رخصت کیا اور ایلاف سے بولا۔
” اب اپنا حلیہ بھی درست کر لیں پھر کھانا کھائیں گے۔” اذلان شاہ نے ایک اور آرڈر دیا۔
” تو یہ جو ابھی کھایا تھا وہ کیا تھا۔” ایلاف حیرانی سے بولی۔
” وہ آپ نے کھایا نہیں پیا تھا اور ڈنر کا ٹائم بھی ہوجائے گا جب تک آپ فریش ہوں گی۔” اذلان شاہ اسے بالکل بچوں کی طرح ٹریٹ کر رہا تھا۔
” ٹھیک ہوں میں ایسے۔ ” ایلاف نے انے گرد چادر لپیٹتے ہوئے کہا۔
” مانا کہ آپ کو کالج سے بہت محبت ہوگی اور اس محبت کے اظہار کیلئے تین دن بہت ہیں۔مگر اب آپ گھر میں ہیں۔” اذلان نے لطیف سا طنز کیا۔
اس کی نفیس طبیعت پہ ایلاف کا حلیہ گراں گزر رہا تھا۔
” کیا مصیبت ہے مجھ میں ہمت نہیں ہورہی۔” ایلاف نے جان چھڑانی چاہی۔
” امیراں کو زحمت دوں یا خود کو؟ آپ کی مدد کیلئے۔” اذلان شاہ بولا۔
ایلاف گڑبڑا کے رہ گئی۔
“جا رہی ہوں میں۔”
” گڈ!یہ کافی اور پنک کمبینیشن کا سوٹ اچھا ہے۔ یہ لے جائیں۔” اذلان شاہ اسے سوٹ پکڑاتے ہوئے بولا۔
ایلاف نے چپ چاپ سوٹ لے لیا جانتی تھی اب اگر کچھ اور بولی تو پھر اذلان اپنی بات پہ عمل کرلے گا۔
……………………………………………
شاہ حویلی میں اس وقت بے چینی اور انتظار کی کیفیت چھائی ہوئی تھی۔
شاہ بی بی تخت پہ بیٹھیں تسبیح کے دانے گھوما رہی تھیں۔پاس ہی تانیہ شاہ بیٹھی ناخن فائل کر رہی تھی۔ اس کا چار سالہ بیٹا پاس ہی کھیل رہا تھا۔
” ہماری باری میں تو کبھی اتنی بے چینی نہیں دکھائی انہوں نے آخر کو ان کی بھانجی ہے۔دیکھتے ہیں! کونسا شاہکار جنم دیتی ہے بنین شاہ۔” تانیہ شاہ آخر کو عالیہ شاہ کی بہن تھی،مثبت سوچنا تو سیکھا ہی نہ تھا۔ اس کے اپنے دو بچے تھے سات سال کی بیٹی اور چار سال کا بیٹا۔
” شاہ بی بی مبارک ہو۔لڑکا ہوا ہے کمال شاہ کے ہاں۔” دائی نے خوشخبری سنائی۔
” خیر مبارک!اللہ کا شکر ہے۔ٹھیک تو ہیں نا دونوں خیر سے؟” شاہ بی بی پرسکون سی ہو کے بولیں۔
“آہو جی! آخر کو جنتاں دائی ہوں مذاق تو نہیں۔میں تو اس بار سونے کی بالیاں اور گندم کی بوری لوں گی۔ ” جنتاں دائی نے اپنی فرمائش کی۔
” ہاں! ہاں کیوں نہیں۔ابھی تو جا کے دیکھ انہیں۔ہم آتے ہیں صدقہ دے کے۔” شاہ بی بی اپنی جگہ سے اٹھتے ہوئے بولیں۔
“کیا ضرورت ہے تائی اماں؟فضول میں سر چڑھانے کی۔” تانیہ کو برداشت نہیں ہوا تو بول اٹھی۔
” کونسی فضول خرچی ہے؟ ایک بوری دینے سے کونسے ہمارے مربع گھٹ جائیں گےخوشی کا موقع ہے۔اللہ حیاتی دے دونوں کو ابھی تو پوری جاگیر کو روٹی کھلائیں گے۔” شاہ بی بی کو اپنی بہو کی تنگ نظری بالکل نہیں بھاتی تھی۔
” ارے تائی اماں کہاں لے گئیں بات کو، چلیں بنین بھابھی کے پاس چلتے ہیں۔” تانیہ نے فورا پینترا بدلا
ساس کے سامنے دم مارنے کی مجال نہ تھی ان کی۔
” ہوں محنت بے چارے ہمارے شوہر کریں اور مزے اور حکومت یہ ماں بیٹا کریں۔” تانیہ نے سوچا۔ اسے چڑ ہوتی تھی اذلان شاہ اور شاہ بی بی کی خاندان بھر میں حاصل اہمیت پہ ابتدا میں اس نے بنین کو بھی ساتھ ملانا چاہا مگر بنین کی فطرت ایسی نہ تھی۔
” مبارک ہو بھابھی! خیر سے آپ بھی ماں بن گئیں۔” تانیہ نے بنین کو مبارک باد بھی یوں دی جیسے احسان کر رہی ہو۔
” خیر مبارک!تانیہ۔” بنین شاہ دھیرے سے بولی۔
” خیر سے ٹھیک ہو بیٹی اور کیسا ہے ہمارا شہزادہ؟” شاہ بی بی اس کی پیشانی کا بوسہ لیتے ہوئیں بولیں۔
” آپ دیکھ لیں۔” بنین نے پہلو میں موجود بچے کی طرف اشارہ کیا۔
” ماں صدقے جائے یہ تو پورا کمال ہے۔” شاہ بی بی واری صدقے ہوتے ہوئیں بولیں۔
“کمال بھائی کو اطلاع نہیں کی آپ نے تائی ان کا حق سب سے زیادہ ہے۔ ” تانیہ نے انہیں جتلایا۔
” خیر سے خبر کرادی ہے آرہا ہوگا۔مرد ذات کو سو جھنجھٹ ہوتے ہیں۔ ” شاہ بی بی پوتے سے لاڈ کرتے ہوئے بولیں۔
“رجو نی رجو میرے اذلان کو خبر کی کہ نہیں۔” شاہ بی بی نے پوچھا۔
” کردیا ہےجی انہیں ٹیلیفون۔”رجو نے بتایا۔
” ہوں!چلو بنین اب تم خیر سے ٹھیک ہوچکی ہو تو ہم بھی شہر جانے کی تیاری پکڑیں گے۔” شاہ بی بی نے اسے بتایا۔
” خیر تو ہے تائی؟” تانیہ نے انکا چہرہ غور سے دیکھا ۔یہ ابھی سفیان کی آمد کا مہینہ تو نہ تھا پھر بی بی کیوں اپنی راج دھانی چھوڑ کے جانا چاہتی تھیں۔
“ہاں پتر سب خیر ہے۔” شاہ بی بی آرام سے بولیں۔ اذلان کو اطلاع کا مقصد ہی یہی تھا کہ وہ اس میں چھپے پیغام کو سمجھ جائے اور ان سے رابطہ کرے۔فی الحال وہ اذلان کے نکاح کی بھنک کسی کو نہ لگنے دینا چاہتی تھیں۔
” یہ چکر کیا ہے اس دن اذلان شاہ کی بلا اطلاع آمد اور اب تائی کا یوں شہر جانا۔کیا بات ہوسکتی ہے؟” تانیہ کو کھد بد لگ گئی تھی۔
______________________________
ایلاف نہا کے نکلی تو طبیعت کچھ بہتر محسوس ہورہی تھی۔ امیراں نے اس کے بال سلجھا دئیے پھر ایلاف کے کہنے پہ ڈرائیر سے سکھا کے چوٹی بھی بنادی تو ایلاف نے دوپٹہ اچھی طرح لپیٹ لیا۔
کافی پنک کلر کے سوٹ میں وہ کافی بہتر لگ رہی تھی۔ اذلان کمرے سے جا چکا تھا ایلاف کو بھوک محسوس ہو رہی تھی مگر توبہ کرو جو وہ اپنے منہ سے بولتی بس چپ چاپ بیڈ پہ بیٹھ گئی اور اذلان کے رویے پہ غور کرنے لگی۔
” یہ شخص اب کیا چاہتا ہے مجھ سے؟ ”
حالانکہ حقیقت اتنی سی تھی کہ اگر ایلاف کی جگہ کوئی اور ہوتا تب بھی اذلان یہی کرتا جو اس نے کیا تھا۔
وہ ایک ذمہ دار آدمی تھا اور پھر اس کی طبیعت جن خطوط پہ ہوئی تھی اس کے تحت وہ ناانصافی کر ہی نہیں سکتا تھا۔
وہ نجانے کیا کیا اور سوچتی جب اذلان دوبارہ کمرے میں آیا پیچھے امیراں بھی تھی کھانے کی ٹرے اٹھائے۔
”آئیں ایلاف کھانا کھاتے ہیں اور امیراں بی بی کیلۓ دودھ گرم کرو۔ ہمارے لئے کافی تیار رکھنا، کھانے کے بعد لیں گے۔” اذلان نے دونوں کو حکم دیا تھا۔
ایلاف اپنی جگہ سے اٹھ کے صوفے کی طرف بڑھی تو امیراں بھی سر ہلاتے ہوئے چلی گئی۔
” میں دودھ نہیں پیتی،مجھے پسند نہیں ہے۔” ایلاف نے جیسے اطلاع دی۔
” کوئی بات نہیں!نہیں پسند تو کرلیں جو فائدہ دے اسے پسند کر لینا چاہئے۔”اذلان شاہ نجانے اسے کیا سمجھانا چاہ رہا تھا۔
” کیا لیں گی آپ چاول یا روٹی؟ ” اذلان نے پوچھا۔
” میں لے لوں گی۔ ” ایلاف نے انکار کیااور پیلٹ میں تھوڑے سے چاول ڈال دئیے۔
ہاتھوں میں کپکپاہٹ واضح تھی۔
” تو ثابت ہوا ایلاف آپ میں انا کچھ ذیادہ ہی پائی جاتی ہے لیکن مقابل آپ سے بڑھ کے ہے۔” اذلان شاہ اس کے ہاتھ سے پلیٹ لیتے ہوئے نجانے کیا جتا رہا تھا اسے۔
” یہ شخص مجھ سے چوہے بلی کا کھیل’کھیل رہا ہے۔ میری ساری توانائیاں ختم کرکے میرا شکار کرے گا۔” ایلاف لقمے یوں چبا رہی تھی جیسے دانتوں تلے کھانا نہیں اذلان شاہ ہو اور اس سمے اگر اذلان کو پتا چل جاتا کہ وہ کیا سوچ رہی ہے تو یقینا وہ اسے اٹھا کے باہر پھینک دیتا اس کی واہیات سوچ پہ۔
اذلان نے اسے کھلانے کے ساتھ ساتھ خود بھی اسی پلیٹ سے کھایا تھا۔ ایک ہی چمچ سے کھانے کے بعد وہ اپنا لیپ ٹاپ کھول کے نجانے کیا کرنے لگا۔ایلاف یوں ہی بیڈ کی چادر کے ڈیزائن پہ انگلیاں پھیرتی رہی موسم بہت سرد ہورہا تھا بادل چھائے ہوئے تھے شاید بارش ہوتی۔
” یہ اب جاتے کیوں نہیں میرے سر پہ کیوں سوار ہیں؟” ایلاف سوچ رہی تھی۔
” اگر نارمل حالات ہوتے تو شاید میں اس روئے زمین پہ سب سے خوش نصیب لڑکی ہوتی جس کے نصیب میں اتنا ذمہ دار،کئیرنگ ہسبینڈ ہوتا۔ ” ایلاف نے اب اذلان شاہ کا جائزہ لینا شروع کر دیا تھا۔
چھے فٹ سے نکلتا قد مضبوط کسرتی بدن، اس نے اپنی آستینیں فولڈ کر رکھیں تھیں جس سے اس کے بازو کی ابھری ہوئی مچھلیاں صاف دکھ رہی تھیں۔ سیاہ بال جو کشادہ پیشانی پہ بکھرے ہوئے تھے۔سونے جیسی رنگت میں سرخیاں گھلی ہوئی تھیں، شہد رنگ آنکھوں میں ذہانت کی چمک تھی۔
” مگر حالات مختلف ہوتے تو یہ میرا نصیب ہی کیوں ہوتا۔یہ توجہ یہ کئیر یہ سب تو کسی بھی بیمار کو میسر آسکتی ہے۔میں اتنی بخت آور ہوتی تو اپنی عزت نفس نہ گنواتی۔یہ شخص آسمان اور میں اس کے قدموں کی خاک ہوں جو دھول بن کے اس کی زندگی میں چھا گئی ہوں۔” ایلاف پھر احساس کمتری کا شکار ہوگئی تھی۔
” میرا جائزہ مکمل ہوچکا ہے تو اب یہ دوائی لے لیں۔” اذلان شاہ کب سے دیکھ رہا تھا کہ وہ اس پہ نظریں جمائے بیٹھی ہے ۔
ایلاف ہڑبڑا سی گئی۔” تو یہ وجہ تھی اس کے بیٹھنے کی۔ ” ایلاف نے سوچا اور دودھ کا گلاس تھام لیا۔
“یہ لیجئے!” اس کی طرف گولیاں بڑھائیں۔
ایلاف نے کھا لیں۔دودھ بھی شرافت سے پی لیا اور گلاس سائیڈ پہ رکھ دیا۔
بادل کہیں دور سے گرجنا شروع ہوچکے تھے اور اب برسنے کو تیار ایلاف کو بارش قطعا پسند نہ تھی۔ رات کی طوفانی بارش اس کی جان نکالتی تھی۔ وہ جتنی بہادر سہی بارش اسکی کمزوری تھی۔
” اب آپ جائیں۔” ایلاف نے اذلان شاہ سے کہا۔
” ظاہر ہے اب یہاں ٹھہر کہ میں نے کونسا آپ کو میڈل دینا ہے۔ آپ دوا لے چکی ہیں اب آرام کیجئے اور صبح ساڑھے آٹھ بجے خود ناشتے کی میز پہ آجائیے گا۔” اذلان شاہ کو اس کا انداز پسند نہیں آیا تھا اس لئے سرد مہری سے بولا۔
ایلاف کو رونا ہی آگیا اس نے تو یہ اس لئے کہا تھا کہ وہ کہے گا کہ آپ آرام کریں میں یہیں ہوں۔اب بھلا وہ اپنے منہ سے کیسے کہتی کہ یہ برستی بارش اس کی جان نکالتی ہےخواہ مخواہ میں ہی مذاق بنتا۔
اور یہ تو ایلاف کے ساتھ ہمیشہ ہوتا آیا تھا کہ جو وہ سوچتی تھی اس کے الٹ ہو۔
اگر ایلاف اسے صاف کہتی تو اذلان شاید رک بھی جاتا نہیں تو امیراں کو بھیج دیتا مگر یہ ایلاف اور اس کی انا۔
انا کے موڑ پہ بچھڑے تو ہم سفر نہ ملے
کے مصداق یہ حال تھا اس کا
بادل ادھر باہر گرجتے سانس اندر ایلاف کا سوکھتا تھا مگر پھر اسے نیند آہی گئی پہلی بارش اکیلی اس نے گزاری تھی۔ دوائیوں میں نیند کی گولی بھی تھی اس لئے ایلاف سوگئی تھی ورنہ ساری رات ڈر ڈر کے نکلتی۔
______________________________
اذلان شاہ جا چکا تھا پیچھے رہ جانے والی ایلاف اس کے دھوپ چھاؤں جیسے رویے پہ حیران ہوگئی تھی ابھی جو کچھ دیر قبل اتنا مہربان تھااور اب اتنا ہی کٹھور۔
کیا اسے میری آنکھوں میں موجود التجاآس نظر نہیں آئی۔
اور یہ سوچتے ہوئے ایلاف بھول گئی کہ اذلان کو بھلے سے اس کی آنکھوں کی آس اور امید نظر نہ آئی ہو لیکن اس کے لہجے کی بے اعتباری اور وہ انا بھرے لہجے میں ہر بات سے انکار کرنا ،اس کی ہر بات پہ تکرار کرنا اسے لازمی محسوس ہوگیا تھا۔
وہ کیا کہا ہے نا شاعر نے ایلاف جیسے لوگوں کیلئے
قرب کے نہ وفا کے ہوتے ہیں
جھگڑے سارے انا کے ہوتے ہیں
سو ایلاف نے اپنے ہاتھوں یہ موقع گنوایا تھا۔
اب سیاہ کالی رات تھی
اور
شور مچاتی برسات
اور!
ایلاف کا ڈر کے مارے نازک بل کھاتا وجود۔ایسے میں اسے فیض کی نظم یاد آنے لگی۔
میرے قاتل میرے دلدار میرے پاس رہو
جس گھڑی رات چلے
آسمانوں کا لہو پی کے سیاہ رات چلے
ایلاف کو اپنے پورے بدن میں سنسناہٹ محسوس ہورہی تھی۔بارشوں سے اس کی کبھی نہیں بنی تھی اور اب وہ تنہا تھی تو یوں لگ رہا تھا کہ اس کے جسم کا سارا خون خشک ہورہا ہے۔پیشانی پہ پسینہ پھوٹ آیا تھا۔
بحر آسودگی مٹائے نہ مٹے
جب کوئی بات بنائے نہ بنے
جب نہ کوئی بات چلے
جس گھڑی رات چلے
جس گھڑی ماتمی سیاہ رات چلے
میرے قاتل میرے دلدار میرے پاس رہو
ایلاف بڑبڑاتی رہی یہ نظم مگر جس چراغ کو اپنے ہاتھوں سے بجھایا جائے وہ دوبارہ اتنی آسانی سے نہیں جلتا اور اذلان شاہ کو کونسی وحی آتی تھی اس کے متعلق یا ہر بار وہ اس کیلئے مثل معجزہ تو نہیں ہوسکتا تھا اور نہ وہ ایلاف کا واقف مزاج تھا سو یہ برستی سیاہ رات ایلاف کو ایک سبق دے کے گئی تھی کہ زندگی میں ہر معاملے میں دوسروں سے مدد نہیں ملتی بس ایک خدا کی ذات ہوتی ہے جو ہمیں کبھی تنہا نہیں چھوڑتی۔
اور
بھلے سے ہمارے پاس رونے کیلئے کوئی کندھا نہ ہو سجدہ کرنے کیلئے زمین ضرور ہوتی ہے۔
سو ایلاف نے بھی خدا سے رجوع کر لیا تھا تین دن قبل جو بے حسی اس پہ مذہب کو لے کے طاری ہوئی تھی وہ اس بارش میں بنا بھیگے اتر گئی تھی۔
نیند کی دوائی کے زیر اثر ایلاف سو چکی تھی تجربہ کی رات ڈھل رہی تھی۔
اور ایلاف کو ذندگی کا سبق دے چکی تھی جو اسے بہت کام آنے والا تھا
______________________________
رات کتنی ہی طویل کتنی ہی سیاہ کیوں نہ ہو،سویرا ضرور ہوتا ہے اور اتنا ہی اجلا ہوتا ہے کہ اندھیرے پہ حاوی ہوجاتا ہے۔
رات بھر کی بارش سے صبح نکھری نکھری سی تھی۔ چمکیلی کرنیں آہستہ آہستہ پھیل رہی تھیں۔
ایلاف فجر سے اٹھی ہوئی تھی ندامت کا احساس اس پہ پوری طرح حاوی تھا۔ اس نے تین دن قضا ہونے والی ساری نمازیں ادا کیں۔ اللّه سے معافی بھی مانگی تھی۔وہ مہربان ذات جس سے اس نے بہت شکوے کئے تھے وہ یہ کیوں بھول گئی کہ اگر وہ چاہتا تو اسے حقیقتا ذلیل و رسوا کر ڈالتا، نہ بھیجتا اذلان شاہ کو چڑھنے دیتا اسے پیر خرم شاہ کی ہوس کی بھینٹ،کیا کرلیتی تب وہ؟
کہاں جاتی وہ اپنا لوٹا پھٹا وجود لے کے؟
مگر خدا ایسا تو نہیں ہے نا
وہ تو بہت مہربان ہے
کیا وہ اسے نہیں جانتا تھا
یقینا!کیوں کہ خدا تو ہماری شہ رگ سے بھی زیادہیادہ قریب ہے۔
اس نے ایلاف کی عزت بچائی۔ اسے ایک نیک فطرت انسان کے نکاح میں دیا تھا۔ایک ایماندار شخص کو اسکا کفیل بنایا تھا۔
ایلاف نے آج دیر سے سہی مگر شکر ادا کیا تھا اپنی عزت کے بچ جانے کا مگر اذلان شاہ کی طرف سے اس کا دل صاف ہی نہ ہوتا تھا۔اس کی کچلی ہوئی خودداری نے اس کی آنکھوں پہ وہ پٹی باندھی ہوئی تھی کہ اسے اذلان شاہ کا ہر عمل ڈھونگ دکھتا تھا۔
ساڑھے آٹھ کا ٹائم ہوا تو ایلاف ازخود کمرے سے باہر نکل آئی،ذہن میں اذلان کی ہدایت تھی۔بارش نے موسم اور سرد کر دیا تھا اس نے اذلان کی دی ہوئی شال کو اچھی طرح لپیٹا موزوں پہ روم سلیپر ہی پہن لئے ظاہر اس کے پاس گھریلو استعمال کا مکمل سامان تھا ہی نہیں۔
لاؤنج میں آئی تو اذلان شاہ نک سک سے تیار ڈائینگ کی گرد موجود تھا نیوی بلیو سوٹ پہ ہائی نیک پہنے،کاندھوں پہ شال ڈالے وہ خاصا تروتازہ سا اخبار دیکھ رہا تھا۔
ایلاف دھیرے دھیرے چلتی ہوئی ڈائینگ کی طرف آئی۔ اس کی موجودگی محسوس کر کے اذلان نے اخبار سے نظریں اٹھا کے اسے دیکھا۔ اس کے پیروں پہ نظر پڑی تو لب بھینچ لئے اور پیشانی پہ بل پڑ گئے۔
” لو اگر میری آمد اتنی ہی ناپسند تھی تو آنے کا آرڈر ہی کیوں دیا تھا۔” ایلاف نے اس کی ناگواری محسوس کرتے ہوئے سوچا
اذلان کی یہ کیفیت پل بھر کیلئے تھی اس کے بعد اس کے چہرے پہ وہی ازلی بہتے پانیوں جیسا سکون تھا۔
” السلام علیکم!” اذلان نے پہل کی تھی انداز جتاتا ہوا تھا۔
ظاہر اصولا ایلاف کو پہلے سلام کرنا چاہئے تھا مگر ایلاف کا تو دماغ ہی کام نہ کرتا تھا۔
” وعلیکم اسلام!” ایلاف جی بھر کے شرمندہ ہوئی۔
” کیا سوچے گا یہ باتیں اتنی بڑی بڑی کرتی ہوں اور سلام تک نہیں کیا۔” ایلاف شرمندہ’ شرمندہ سی سوچ رہی تھی چہرہ سرخ ہوگیا تھا۔
“کیسی طبیعت ہے اب آپ کی؟” اذلان شاہ نے اپنا فرض نبھایا تھا۔
” جیسا رات کو چھوڑ کے گئے تھے ویسی ہی ہوں۔” ایلاف کے لبوں سے بے ساختہ نکلا۔
” ہوں!وہ تو دکھ رہا ہے۔کہیں آپ ان مریضوں میں سے تو نہیں جنہیں ہم لاعلاج کہتے ہیں۔” وہ بھی اذلان شاہ تھا اینٹ کا جواب پھتر سے ہی دیا۔
” مطلب!” ایلاف نے بھنویں سکیڑتے ہوئے پوچھا۔
” یہ مجھے پاگل سمجھ رہا ہے یا کہہ رہا ہے۔
ہمارا مذاق کا کونسا رشتہ ہے؟بس زبردستی کا ایک بندھن۔” ایلاف نے سوچا۔
” مطلب چھوڑیں!آپ کو سیدھی باتیں بھی سمجھ نہیں آتیں تو مطلب آمیز گفتگو ہوئی بھی تو کیا فائدہ آپ تو کوری ہیں ان معاملات میں،فضول میں آپ کی جان مشکل میں پڑ جائے گی۔” اذلان شاہ کا لہجہ معنی خیز تھا۔
ایلاف کے پلے ککھ بھی نہ پڑا بس چپ چاپ اس کی شکل دیکھ کے رہ گئی۔
امیراں نے ناشتہ لگانا شروع کیا ساتھ میں چوری چوری وہ ایلاف پہ بھی نظریں ڈالتی۔
” سائیں کی بیوی ہیں تو ساتھ کیوں نہیں بیٹھتیں کونسا کوئی دیکھ رہا ہے،ایسے شجر ممنوعہ کی طرح کیوں بیٹھیں ہیں۔” امیراں سوچ رہی تھی۔
ڈائینگ پہ وہی دونوں تھے۔ سربراہی کرسی پہ اذلان شاہ تھا اور ایلاف ایک کونے پہ کرسی پہ ٹکی ہوئی تھی نہ اذلان نے اسے بیٹھنے کو کہا نہ وہ گئی اذلان کی کونسی وہ من چاہی تھی جو وہ اسے یوں پہلو میں بٹھاتا وہ تو ایک حادثے کی مانند اس کی زندگی کا حصہ بنی تھی ایلاف نے محسوس کیا تھا اس بات کو۔
” میں کونسا مری جا رہی ہوں اس کے برابر بیٹھنے کو۔” ایلاف نے اپنے زخموں پہ مرہم خود ہی رکھنا شروع کردیا تھا۔
” امیراں بی بی کے پاس جاؤ انہیں ناشتہ کرواؤ۔” اس کی ساری کیفیات سے بے نیاز اذلان نے اپنی ہی کہی۔
“میں لے لوں گی۔” ایلاف نے کہا۔
جواب میں اذلان نے امیراں کو ایک ذبردست گھوری سے نوازا تو وہ جلدی سے ایلاف کے برابر آکے کھڑی ہوگئی۔
” پہلے بوائل ایگ دو۔” اذلان نے حکم دیا تھا۔
” بی بی کو کیا خود کھانا نہیں آتا رات میں خود کھلا رہے تھے ابھی مجھے کہہ رہے ہیں۔یہ بی بی کیا واقعی کسی اور جہاں کی پیداوار ہے۔”
انڈہ ختم ہوا تو ااذلان نے دوسرا دینے کو کہا ایلاف اسے دیکھ کے رہ گئی مگر کھاناہی پڑا۔
” اب یوں کرو سلائس پہ جیم کے بجائے مکھن لگاؤ وہ زیادہ اچھا ہے۔ ” اذلان شاہ اسے ایک پرفیکٹ ناشتہ کروانے کے موڈ میں تھا۔
” ساتھ میں دودھ دو چائے بعد میں دینا۔” اسے چائے دینے سے منع کرتے ہوئے دودھ کے جگ کی طرف اشارہ کیا۔
” پھر دودھ!پلیز مجھ سے نہیں پیا جاتا۔ ” ایلاف جی بھر کے بدمزہ ہوئی ایک تو زبردستی ناشتہ اوپر سے دودھ۔
” آپ کو ایک بات دس دفعہ کیوں بتانی پڑتی ہے۔ امیراں اس میں شہد ڈال دو یا اولٹین۔ پوچھ لو بی بی سے؟” اذلان نے بڑا احسان کیا تھا اس پہ۔
” رہنے دو ایسے ہی پی لوں گی میں،اب زہر کو شہد میں کیا لپیٹنا۔” ایلاف نے امیراں کے ہاتھ سے گلاس لے لیا تھا اور دانتوں سے آہستہ آہستہ سلائس کترنے لگی۔
خدا خدا کر کے ناشتہ ختم ہوا تو ایلاف نے شکر ادا کیا کہ اذلان شاہ کو کسی اور ڈش کے کھلانے کا دورہ نہیں پڑا۔
” ہم اب جا رہے ہیں اپنی جاگیر کافی دن لگ جائیں گے پیچھے آپ نے اپنا خیال رکھنا ہے۔ پہلے والا کام کیا تو یاد رکھیں اس بار اپنے ہاتھوں سے آپ کو قبر میں اتار دیں گے۔ ” اب وہ پہلے والا اذلان شاہ بن گیا تھا۔
کٹھور!
سنگ دل!
” آپ کو کیا میں جئیوں یا مروں کونسا فرق پڑ جائے گا؟آپ کا شملہ تو ہر حال میں اونچا ہے۔نقصان تو ہم چیونٹی جیسے حقیر لوگوں کا ہے۔” ایلاف نے بھی دیر نہیں لگائی اپنی کھولن باہر نکالنے میں۔
“واقعی ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا آپ کے جینے مرنے سے مگر آپ انسان ہیں اور ہم بھی۔ انسانیت ہی کے تحت ہم نہیں چاہتے کہ آپ اپنے آپ کو کسی مشکل میں ڈالیں۔چلتے ہیں خدا حافظ۔” اذلان شاہ پھتر پھوڑتے آخر میں اسے خدا کی امان میں دے کے چلا گیا۔
ایلاف دوبارہ سے اپنی کرسی پہ بیٹھ گئی تھی۔
” سائیں چلے گئے؟” امیراں نے پوچھا۔
” تمہیں دکھ رہے ہیں؟” ایلاف نے پوچھا۔
” نہیں! تبھی تو پوچھ رہی ہوں۔” وہ بھی امیراں تھی۔
” آپ نہیں گئیں سائیں کے ساتھ بڑا خوشی کا موقع حویلی والوں کیلئے۔” امیراں نے اس سے پوچھا۔
” ہوں! مجھے اپنے ساتھ کس منہ سے لے کے جائیں گے تمہارے پیر سائیں۔ کیا کہیں گے لوگوں سے کہ دیکھو ہم نے اپنے بھانجے کی غلطی کا مداوا کیا ہے؟ ایک لڑکی کو زمین سے آسمان پہ بٹھایا ہے۔” ایلاف یہ سب سوچ ہی سکی کہہ نہ سکی۔
” بنین شاہ کو خدا نے آٹھ سال بعد بیٹے کی نعمت دی ہے اب پیر سائیں خاندان کے سربراہ ہیں وہ تو ہاتھ رکھنے جائیں گے ہی اور دو ہفتے سے پہلے لوٹنا مشکل ہی ہے خیر سے عقیقہ کرواکے ہی آئیں گے۔” امیراں اسے بتاتے ہوئے ساتھ ساتھ برتن بھی اٹھا رہی تھی۔
” عادت ہے تمہارے پیر سائیں کو ہر کسی کے سر پہ ہاتھ رکھنے کی۔” ایلاف طنزیہ بولی۔
” ہاں جی!پیر سائیں تو خدا کی رحمت ہیں،فضل ہیں۔” امیراں تو گوڈے گوڈے اذلان کی تعریف میں ڈوبی ہوئی تھی۔
” اچھا!اپنا کام کرو۔” ایلاف کو اذلان شاہ کی تعریفوں میں کوئی دلچسپی نہ تھی اس لئے اٹھ کے اپنے کمرے میں آگئی تھی۔
کرنے کو کچھ تھا ہی نہیں یوں ہی بیٹھ کے وہ اپنی زندگی کی الجھی ڈور کے سرے سلجھانے لگی تھی۔
______________________________
شاہوں کی حویلی میں آج خوشیوں کی بارات اتری ہوئی تھی۔پوری جاگیر میں مٹھائی بانٹی جا چکی تھی ماں بیٹے کا صدقہ دیا جا چکا تھا۔مہمانوں کا ایک ہجوم تھا ہر سننے والا ملنے کو آرہا تھا سارے رشتہ دار جمع تھے آج خیر سے دوسرا دن تھا نو مولود کی آمد کو۔
” پیر سائیں پہنچ چکے ہیں شاہ بی بی۔” رجو نے بریکنگ نیوز دی تو سب میں ہلچل مچ گئی تھی۔
” خیر سے لمبی عمر ہے میرے بچے کی۔” شاہ بی بی بولیں۔
” جی سائیں! زنان خان کی طرف ہی آرہے ہیں منے کو دیکھنے۔” رجو نے کہا تو ساری مہمان خواتین کا رش کم ہونے لگا۔تانیہ شاہ کی بہن نازیہ شاہ بھی آئی ہوئی تھی، وہ بھی اٹھنے لگی تو تانیہ نے اس کا ہاتھ پکڑ کے دوبارہ بٹھا لیا۔
” کیا ہوا آپی کیوں بٹھا لیا؟تائی اماں کو اچھا نہیں لگے گا۔” نازیہ سرگوشی میں بولی۔
” تمہیں میں نے یہاں اس لئے نہیں بلایا کہ بنین کے بیٹے کے درشن کرو۔ مجھے پتا تھا پیر اذلان آج ضرور آئے گا۔ ایسے تو ملاقات ہوتی نہیں آج ہوجائے گی تو دو چار باتیں کر لینا سمجھیں۔” تانیہ اس کے کان میں بولی۔
عالیہ شاہ کے انتقال کے بعد پیر اعظم شاہ اور ان کی بیوی نے بہت چاہا تھا کہ اذلان شاہ کا عقد نازیہ شاہ سے ہوجائے مگر اذلان کیلئے ایک تجربہ کافی تھا۔اس نے صاف لفظوں میں کہا تھا کہ اگر اس نے دوبارہ کبھی شادی کی بھی تو وہ خاندان میں نہیں کرے گا۔ وہ اپنی زندگی پہ اور سفیان پہ ان ہٹ دھرم لوگوں کا سایہ بھی نہیں ڈالنا چاہتا تھا۔
“السلام علیکم!مبارک ہو بھرجائی۔ ” اذلان شاہ نے سب کو مشترکہ سلام کرتے ہوئے بنین شاہ کو مبارک باد دی۔
” وعلیکم السلام!خیر مبارک ہو آپ کو بھی بھایا۔” بنین شاہ نے کہا۔
” کیسا ہے ہمارا نیا شہزادہ؟یہ تو پورا کمال ہے۔واہ بھرجائی کیا فوٹواسٹیٹ ہے۔” اذلان شاہ کو وہ نرم روئی کے گالوں جیسا بچہ بہت اچھا لگا تھا۔
” ہوں اپنے بچے کو تو سات سمندر پار پھینکا ہوا ہے اور سارا لاڈ دوسروں کی اولاد کیلئے بے۔ چارا ہمارا بچہ ہم تو اس کی شکل بھی دیکھنے کو ترس گئے ہیں۔” تانیہ ایک رشتہ دار خاتوں کی طرف جھکتے ہوئے بولی۔
” نام کیا سوچا بھرجائی؟” اذلان نے اسے پیسے اور کچھ ہینڈ بیگ پکڑاتے ہوئے پوچھا۔
“بھایا!کمال کہتے ہیں نام آپ رکھیں گے سو جو آپ کی رضا۔” بنین نے اسے بتایا۔
” آپ ماں ہیں، پہلا حق آپ کا بنتا ہے۔ یہ آپ کی اولاد ہے آپ جو کہیں گی،یہ اسی نام سے پکرا جائے گا۔” اذلان شاہ کو مان دینا خوب آتا تھا۔
بنین کا چہرہ کھل اٹھا تھا کس ماں کی خواہش نہیں ہوتی کہ وہ اپنی اولاد کو من چاہے نام سے پکارے۔
” سچ بھایا!سلجوق کیسا نام ہے؟خالہ بی بی آپ کو پسند آیا۔” بنین نے پوچھا۔
” کیوں نہیں بہت اچھا نام ہے۔خدا اسے بلند کردار کرے۔” اذلان شاہ نے بڑے ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے اسے دعا دی۔
” خیر سے بھایا ہم بھی ہیں ادھر، مانا کہ بنین بھابھی وی آئی پی ہیں آج کی پر ہمیں بھی کچھ وقت مل سکتا ہے۔ ” تانیہ کی بات پہ وہ اس کی طرف متوجہ ہوا۔
” ہمارا وقت آپ لوگوں کیلئے ہی تو ہے کیسی ہیں آپ ؟” اذلان نے پوچھا تھا۔
” ہم ٹھیک ہیں۔ہمارے ساتھ کوئی اور بھی ہے غالبا۔” تانیہ نے تیکھے لہجے میں نازیہ کی طرف اشارہ کیا۔
نازیہ نے بڑے ناز بھرے اندازمیں سلام کیا تھا۔
اذلان اس کے سلام کا جواب دے کے فورا اٹھ کھڑا ہوا تھا۔
” گوہر آپا نہیں آئیں۔ ” یاد آنے پہ پوچھا تھا اس نے۔
” وہ دونوں تو ملک میں ہیں ہی نہیں آج رات تک پہنچیں گے۔بھلا بھابھی رہ سکتیں تھیں وہ تو خوشی سے پاگل ہی ہوگئی تھیں جب میں نے بتایا تھا انہیں۔” نازیہ اترا اترا کے بولی۔
اذلان شاہ نے صرف سر ہلانے پہ اکتفا کیا وہ بچہ تو نہیں تھا جو نازیہ کے انداز سمجھ نہ پاتا۔
” کہاں چلےآپ؟” تانیہ نے پوچھا۔
” بھئی بہت کام ہیں اماں سائیں کل عقیقہ ہے اس کا انتظام ہے۔ دعوت نامے بھی بھیجنے ہیں آپ بھی بتادیجئے گا پھر کسانوں کا بھی کچھ مسئلہ چل رہا ہے۔ہم تھوڑا آرام کرلیں تو زمینوں کی طرف جائیں گے۔آج رات ڈیرے پہ ہی ہیں میں اور احمد شاہ۔” اذلان نے انہیں سارا پروگرام بتایا۔
” ہوں بچے!ٹھیک ہے پھر کل ملتے ہیں بہت ضروری باتیں کرنی ہیں آپ سے۔” شاہ بی بی نے اسے رخصت کرتے ہوئے کہا۔
” یہ ماں بیٹا کورڈ ورڈز میں کیا باتیں کر رہے ہیں؟” نازیہ پھر تانیہ کے کانوں میں گھسی۔
” پتا نہیں آج کل تائی اماں شہر جانے کو بھی پر تول رہی ہیں۔نجانے کیا معاملہ ہے؟” تانیہ الجھے لہجے میں بولی۔
” ہائے آپی کہیں اذلان شاہ شہر میں ہی تو شادی نہیں کر رہا اس لئے شہر لے کے جا رہا ہو تائی کو۔” نازیہ نے اپنا خدشہ ظاہر کیا۔
” خدا نہ کرے کیا ہوگیا ہے۔شادی اگر وہ کرے گا بھی کبھی تو وہ نازیہ سے کرے گا تو فکر مت کر۔” تانیہ اسے تسلی دیتے ہوئے بولی۔
” نہیں آپی کچھ تو گڑ بڑ ہے ورنہ تائی شہر جانے کا نام کبھی نہ لیں۔” نازیہ بے چین سی ہو کے بولی۔
” میں پتا کرتی ہوں۔ایسا کرتی ہوں شہر کی کوٹھی فون کر کے ملازمہ سے سن گن لیتی ہوں۔” تانیہ اٹھتے ہوئے باہر کی طرف نکل لی۔
باہر آکے اس نے کوٹھی کا نمبر ملایا فون امیراں نے حیرانگی سے اٹھایا تھا اذلان شاہ کی غیر موجودگی میں آج تک حویلی سے فون نہیں آیا تھا۔
” بی بی خیر تو ہے۔” امیراں نے پوچھا۔
” ہاں بھئی خیر ہےتم سناؤ کیسا چل رہا ہے نظام؟” تانیہ نے پوچھا
” بس جی شکر ہے مالک کا۔” امیراں نے جواب دیا۔
“امیراں!مہماں تو نہیں آئے ہوئے کوئی۔” تانیہ اب آہستہ آہستہ مدعے پہ آرہی تھی۔
” مہمان تو آپ کو پتا ہے آتے ہی رہتے ہیں۔” امیراں نے حیرانی سے جواب دیا۔
” نہیں میرا مطلب آج کل کوئی خاص مہمان،کوئی خاتون؟” تانیہ نے صاف صاف پوچھ لیا۔
” اوہ!” امیراں کو ساری کہانی سمجھ میں آگئی۔ اس خاتون سے مراد اس کی ایلاف تھی مگر وہ بھی امیراں تھی اذلان شاہ کا نمک کھاتی تھی اور اس نے دیکھا تھا کہ اذلان نے ابھی تک کسی کو کچھ نہیں بتایا تھا تو وہ کیسے اپنا منہ کھولتی وہ بھی تانیہ کے سامنے۔
” نہ جی ادھر تو کوئی نہیں آیا۔کیا آپ کی سہیلی نے آنا ہے؟” امیراں صاف منکر ہو گئی تھی۔
“نہیں بس اچھا چلو گھر کا خیال رکھنا اور کام دھیان سے کرنا۔” تانیہ شاہ کو جب کچھ پتا نہیں چلا تو بات ختم کردی۔ فون رکھ کے مڑی تو اس کے چودہ طبق روشن ہوگئے سامنے اذلان شاہ کھڑا تھا ماتھے پہ بل ڈالے۔
” کیا بات ہے تانیہ شاہ آپ کو ہمارے گھر کے معاملوں میں کیوں اتنی دلچسپی ہوتی ہے؟” اذلان شاہ سراپا سوال تھا۔
” اذلان بھا!وہ میں تو بس حال چال پوچھ رہی تھی آخر ملازموں کے سر پہ گھر چھوڑنا اچھا تو نہیں ہوتا۔” تانیہ شاہ نے بوکھلاتے ہوئے بات بنائی۔
” میرے خیال سے آپ اپنے گھر کی خصوصا اپنی اولاد کی خیر خبر لیں۔ اتنی ٹھنڈ میں عباس شاہ باہر کیا کر رہا تھا گرم کپڑوں کے بغیر۔” اذلان نے اس کے بیٹے کی انگلی پکڑ رکھی تھی۔
” اچھا اس مصیبت کی وجہ سے میں پھنسی ہوں۔” تانیہ نے اپنے بیٹے کو گھورا۔
“بس بچے ہیں لاپرواہی ہو ہی جاتی ہے۔” تانیہ نے عباس کو لیتے ہوئے کہا۔
” بچے تو لاپرواہ ہی ہوتے ہیں تانیہ بیگم لیکن اگر بڑے لاپرواہ ہو جائیں تو خاندان بکھر جاتے ہیں۔ذرا دھیان رکھیں!” اذلان شاہ جتاتے ہوئے بولا اور چلا گیا۔
” مسئلہ کیا ہے ان کا بہت دماغ خراب کرنے لگے ہیں بڑے آئے خدائی فوجدار۔” تانیہ بولتی ہی رہ گئی۔
_____________________________
امیراں کی ہنسی ہی رکنے کا نام لے رہی تھی۔
” کیا ہوگیا ہے بھئی کونسا لطیفہ سن لیا تم نے؟” ایلاف نے پوچھ ہی لیا وہ صبح کا اخبار پڑھ رہی تھی۔
” بی بی لطیفہ ہی ہے۔ وہ نا سائیں کی بھاوج نے آج فون کیا کیا پوچھنےکو کوئی لڑکی مہمان تو نہیں میں نے بھی کہہ دیا نہیں۔ ” امیران نے سے بتایا
” کہاں گئے ہیں تمہارے صاحب؟” ایلاف نے کچھ سوچ کے پوچھا
” اپنی جاگیر جی وہ ان کے چھوٹے بھائی کے ہاں بچہ ہوا ہے نا پورے آٹھ سال بعد۔” انگلیوں سے واضح کر کے بھی بتایا۔
” اچھا ان کی وہی بھابھی تھیں۔ ” ایلاف نے مزید پوچھا۔
” اوہ نہ جی وہ تو تانیہ شاہ تھیں۔گوہر شاہ کے وٹے میں آئیں ہیں احمد شاہ کی بیوی۔” امیراں نے بتایا
” گوہر شاہ کون؟” ایلاف نے پوچھا۔
” سائیں کی سب سے بڑی اور اکلوتی لاڈلی بہن ،ان کے بچوں میں جان ہے سائیں کی خاص طور سے خرم شاہ میں،بڑا ٹیم ہوا آیا نہیں خرم شاہ بھی۔” امیراں نے اسے بتاتے ہوئے کہا۔
” اوہ! تبھی تم نے اذلان شاہ آپ نے بھانجے کا گناہ اپنے سر لے لیا اور کس منہ سے سامنا کرے گا وہ اپنے ماموں کا اور میرا؟” ایلاف نے تلخی سے سوچا۔
” یہ پیر خرم شاہ کیا اکلوتاہے؟” ایلاف نے جانے کیا سوچ کے پوچھا
” نہ جی بڑا ہے سب سے اس لئے گدی پہ وہی بیٹھے گا۔ ” امیراں ایک بات کے دو جواب دیتی تھی۔
” ہرگز نہیں میں ایسا نہیں ہونے دوں گی۔ آنے دو تم اپنے سائیں کو مجھے انصاف چاہئے،جس طرح خرم کی وجہ سے میں ذلیل و رسوا ہوئی ہوں ویسے ہی خرم شاہ بھی اپنا منہ چھپاتا پھرے گا۔ ” ایلاف نے سوچ لیا تھا۔
______________________________
دن یونہی پھیکے پھیکے سے گزر رہے تھے۔ ایلاف سارا دن خرم شاہ سے انتقام لینے کے منصوبے بناتی رہتی یا پھر اپنی بیتی ہوئی زندگی پہ غور کرتی رہتی۔ اسے ڈھونڈنے سے بھی اپنی ایسی کوئی خطا نہیں ملتی تھی جس کی بنا پہ اس کو یہ تنہائی ملی تھی۔
اذلان شاہ کو گئے ہوئے ہفتہ ہوچکا تھا۔ اس کی کوئی خیر خبر ہی نہ تھا امیراں اس کا پورا خیال رکھتی تھی اس لئے ایلاف کی صحت اب بہت بہتر تھی۔چہرے کی شادابی اور آنکھوں کی رونق لوٹ آئی تھی بس آنکھوں میں حزن و ملال کی کیفیت ٹھہر سی گئی تھی۔سبز آنکھوں میں حزن کے رنگ قیامت ڈھاتے تھے۔
اس دن بھی امیراں اس کے بال بناتے ہوئے اس ہی تعریفوں کے پل باندھ رہی تھی۔
” بی بی آپ کے بال کتنے خوبصورت ہیں جیسے وقفوں میں کام کرنے والی لڑکیوں کے ہوتے ہیں پر کیا اصلی ہوتے ہیں مجھے نہیں لگتے۔” امیراں خود ہی سوال کرتی اور جواب دیتی۔
” تمہیں جو صحیح لگے بھئی۔” ایلاف کے جواب مختصر ہی ہوتے تھے۔
” ارے بھئی کس حور کی زلفوں کی اسیر ہوگئیں امیراں بی بی،ہمیں بھی تو بتا دو۔” وہ ایک اسٹائلش سی لڑکی تھی خوبصورت سی۔
” ارے شازمہ بی بی تسی۔ہیں نا بی بی خوبصورت؟ ” امیراں نے پوچھا۔
” ہاں بھئی آخر کو اذلان شاہ کے گھر میں کوئی معمولی چیز ہو بھی کیسے سکتی ہے۔میں شازمہ ہوں، اذلان کے دوست ابراہیم کی بیوی اذلان نے مجھے شاپنگ کرانے کو کہا تھا آپ کو۔” شازمہ نے اسے بتایا۔
ایلاف نے اس کی بات میں اپنا اور اذلان شاہ کے بے نام سے رشتے کا احساس ڈھونڈنا چاہا مگر اسے کوئی سراغ نہ ملا۔
” آپ ٹھیک تو ہیں اتنی شاکڈ کیوں ہیں؟” شازمہ اس کا شانہ ہلاتے ہوئے بولی۔
“کچھ نہیں آپ بیٹھیں پلیز۔” ایلاف نے کہا۔
” بیٹھنے کا ٹائم نہیں یار ابھی نکلیں گے تو ٹائم سے پہنچیں گے ورنہ ابراہیم تو کان کھا جاتے ہیں اگر میں انہیں شام میں گھر نہ ملوں۔” شازمہ کے لہجے میں مان بھرا غصہ تھا۔
ایلاف نے اسے رشک سے دیکھا یہ ہوتی ہیں بیویاں …من چاہی …پیا من بھائی!
اور میں کس کیٹیگری میں ہوں
ایک بوجھ
ایک عذاب
ایلاف گم صم سی سوچ رہی تھی۔
” بی بی پہلے کچھ کھا پی لیں۔ایلاف بی بی دوپہر کا کھانا نہیں کھاتیں صرف فروٹ لیتی ہیں یہ بھی کھا لیں گی۔” امیراں نے کہا۔
” ارے بھئی تمہارے ہاتھ کی چائے کو کون کافر نہ کر سکتا ہے جلدی سے دو۔” شازمہ نے کہا۔
شازمہ ذیادہ تر خود بولتی رہی اسے اذلان نے بتایا تھا ایلاف کے بارے میں اور اسے شاپنگ پہ لے جانے کو کہا تھا۔
” پر بھابھی آپ کی کسی بات سے ظاہر نہ ہو کہ آپ ہمارے نکاح کے بارے میں جانتی ہیں۔ وہ الٹے دماغ کی لڑکی کچھ الٹا سیدھا ہی سمجھے گی آپ کے بارے میں۔” اذلان کو اس سے کسی عقلمندی کی امید نہ تھی۔
” اوکے بھائی!” شازمہ اسی بات پہ عمل کر رہی تھی۔
ایلاف کو لے کے وہ ہر شاپنگ مال میں اتنا گھومی کہ ایلاف کا سر چکرانے لگا تھا یوں لگ رہا تھا پورا بازار ہی خرید لے گی۔
کپڑے ,جوتے جیولری اور نہ جانے کیا الم غلم گرم کپڑوں کی خریداری بھی الگ سے کی تھی اس نے میک اپ شاپ پہ پہنچے تو ایلاف نے منع کردیا۔
” میں میک اپ نہیں کرتی۔” ایلاف نے آج تک لپ اسٹک بھی نہ لگائی تھی۔
” کوئی بات نہیں ا۔ لگا لینا۔ویسے آپ کو ضرورت بھی نہیں۔” شازمہ نے ناک پہ سے مکھی اڑائی۔
” یہ لوگ میری بات کو سنجیدگی سے کیوں نہیں لیتے بھاڑ میں جائے میں بھی نہیں استعمال کروں گی۔ ” ایلاف روہانسی ہوگئی۔
اللہ اللہ کر کے شاپنگ مکمل ہوئی تو شازمہ نے اسے گھر چھوڑا۔ ایلاف اتنا تھک چکی تھی کہ نماز پڑھ کے فورا سوگئی تھی اتنا لانگ مارچ تو زندگی میں نہ کیا تھا اس نے۔
______________________________