بارش تیز سے تیز تر ہوتی جا رہی جا رہی تھی۔ سیاہ رات کی سیاہی چار سوں پھیل رہی تھی۔۔ رات کے اندھیرے میں بینچ پر بیٹھا وہ اس رات کی سیاہی کا ہی حصّہ لگ رہا تھا۔وہ بینچ کی پشت سے سر ٹکائے آنکھیں موندے بیٹھا ہوا تھا ۔ آنسوں بارش کی ان بوندوں کے سنگ ہی بہ رہے تھے۔۔۔
“ﻣﺮﺍﺳﻢ ﻻﮐﮫ ﮔﮩﺮﮮ ﮨﻮﮞ۔۔
ﺩﻟﻮﮞ ﮐﮯ ﺩﻝ ﺳﮯ ﭘﮭﺮ ﺑﮭﯽ۔۔
ﺟﺐﻣﻠﮯ ﻧﮧ ﺍﻥ ﮐﻮ ﻭﮦ ﭼﺎﮨﺖ۔۔
ﮐﮧ ﺟﺲ ﮐﮯ ﺧﻮﺍﺏ ﺩﯾﮑﮭﮯﮨﻮﮞ۔۔
ﺗﻮ ﺍﯾﺴﮯ ﻣﯿﮟ ﭘﮭﺮ ﺍﮨﻞ ﺩﻝ۔۔
ﻭﻓﻮﺭ ﻏﻢ ﺳﮯ ﮔﮭﺒﺮﺍ ﮐﺮ۔۔
ﺩﻟﻮﮞ ﭘﺮ ﭼﻮﭦ ﺳﯽ ﮐﮭﺎ ﮐﺮ۔۔
ﻣﺮﺍﺳﻢ ﺗﻮﮌ ﺩﯾﺘﮯ ﮨﯿﮟ”!!
“مجھے اپنے حق میں مانگ لیں نا جلابیب”۔۔
ایک آواز اسکی سماعتوں سے ٹکرائی تھی۔۔ آنسوں میں مزید روانی آئی۔۔
اندر کا شور باہر کے شور پر سبقت لے جا رہا تھا۔۔
“مم میں مر جاؤنگی جلابیب”۔۔
ایک اور آواز ۔۔ ایک اور التجاء۔۔
“ﺳﻔﺮ ﺟﺲ ﮐﺎ ﻧﮧ ﻣﻨﺰﻝ ﮨﻮ،
ﺗﮭﮑﻦ ﮨﯽ ﺟﺲ ﮐﺎ ﺣﺎﺻﻞ ﮨﻮ،
ﻣﺴﺎﻓﺮ ﺗﮭﮏ ﮐﮯ ﺑﻶﺧﺮ،
ﻭﮦ ﺭﺳﺘﮯ ﭼﮭﻮﮌ ﺩﯾﺘﮯ ﮨﯿﮟ،،
ﺳﮑﻮﮞ ﺑﺮﺑﺎﺩ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ،
ﯾﮧ ﺩﻝ ﻧﺎﺷﺎﺩ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ،
ﺑﻈﺎﮨﺮ ﮐﭽﮫ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮩﺘﮯ،
ﺧﻤﻮﺷﯽ ﺳﮯ، ﺳﻠﯿﻘﮯ ﺳﮯ
ﺑﮑﮭﺮ ﮐﺮ ﭨﻮﭦ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ”۔۔!!
۔
“وشہ مر جائیگی آپ کے بغیر جلابیب۔۔مم میری سانسیں رک جائینگی”۔۔
اسکی سسکتی ہوئی آواز بارش کے شور میں کہیں گم ہوئی تھی۔۔
اندر کی گھٹن میں مزید اضافہ ہوا ۔۔
“میری آزمائش ختم کر دے میرے اللہ۔۔ مجھے سکون دے دے میرے رب۔۔ میری ہمّت ختم ہو رہی ہے۔۔ میں میں بکھر رہا ہوں میرے اللہ۔۔ مجھے سمیٹ لے میرے رب۔۔ مجھے سکون دے دے اللہ”۔۔
اسکی آواز بلند سے بلند تر ہوتی جا رہی جا رہی تھی۔۔ آتے جاتے لوگ مڑ مڑ کر اسے دیکھ رہے تھے۔۔ بلند آواز میں روتا وہ یہ بھی فراموش کر گیا تھا کے وہ اس وقت ہسپتال کے سامنے پارک میں بیٹھا ہے۔۔
“آپ تو بکھرنے سے پہلے ہی سمیٹ لیتے ہیں میرے اللہ۔۔ میں میں تو ریزہ ریزہ بکھر رہا ہوں مجھے سمیٹ لے میرے مولا۔۔ میرے قلب کو سکون دے دے میرے رب”۔۔
وہ بلند آواز میں روتا بار بار ایک ہی بات پکار رہا تھا۔۔
“جلابیب”۔۔
وہ جو پورے ہسپتال میں اسے تلاش کرتا پھر رہا تھا۔۔ پارک میں لوگوں کا ہجوم دیکھ کر اس جانب آیا تھا۔۔ مگر سامنے ہی جلابیب کو اس طرح روتے دیکھ اسکے ہاتھ پیر پھول گئے تھے۔۔ وہ سرعت سے اسکی جانب بڑھا۔۔
“جلابیب۔۔ ہوش میں آ یار”۔۔
اسنے اسے جھنجھوڑتے ہوئے کہا۔۔
“میں کیا کروں اشعر۔۔ میں میں سانس نہیں لے پا رہا ہوں۔۔ سمجھ رہا ہے نا تو مجھے گھٹن ہو رہی ہے۔۔ وہ وشہ وہ کہتی ہے وہ میرے بغیر مر جائیگی اشعر۔ ۔ وہ وہ مر جائیگی۔۔ اور میں مجھ سے رابیل کے بغیر زندگی گزارنی مشکل ہے اشعر۔۔ یہ یہ دیکھ رہا ہے نا تو کیا ہو رہا ہے زندگی گول گول گھوم رہی ہے اشعر۔ ۔ گول گول۔۔
وہ انگلی کو دائرے کی شکل میں گھماتا ہنس رہا تھا۔۔ آنسوں اب بھی روانی سے بہ رہے تھے۔۔
اشعر نے بےبسی سے اسکی جانب دیکھا۔۔
لوگوں کے بھیڑ کو چیرتا ہوا وہ اسے ہسپتال کے اندر لے گیا تھا۔۔
وہ بھی بناء کسی مزاہمت کے خاموشی سے اسکے ساتھ کھینچا چلا آیا۔۔
“آج اگر میں تجھ سے کچھ مانگوں تو تو مجھے دے گا جلابیب؟”۔۔
تولیہ سے اسکے بال خشک کرتے اس نے سنجیدگی سے سوال کیا ۔۔
“تو میری جان مانگ لے میرے یار”۔۔
وہ کرب سے مسکرایا۔۔
اشعر نے اسکے اس طرح مسکرانے پر ضبط سے اپنی آنکھیں میچی۔۔
“جان ہی تو مانگ رہا ہوں جلابیب۔۔ یوں سمجھ لے مجھے تیری جان درکار ہے۔۔ تیری زندگی کے ایک فیصلے کا اختیار چاہتا ہوں میں”۔۔
اسکے سوالیہ نظروں سے دیکھنے پر اسنے اس نظریں چرائیں۔ ۔
“وشہ کو ہوش آ گیا ہے”۔۔
اسکا چہرہ ہاتھوں میں لئے اشعر نے پرامید لہجے میں کہا۔۔
___________
“جانتی ہو عرش کل فرشتے کی سالگرہ ہے۔۔ کل تمہاری فرشتے ایک سال کی ہوجائیگی”۔۔
دو آنسوں پلکوں کی باڑھ توڑھ کر اسکے گال پر گرے۔۔
“تم تم بہت یاد آتی ہو مجھے عرش۔۔ ہم تمہیں بہت یاد کرتے ہیں عرش۔۔ دیکھو تمہاری بیٹی کتنی بڑی ہو گئی ہے عرش۔۔ جانتی ہو یہ یہ بولنے بھی لگی ہے عرش یہ یہ مم مجھے مم ما کہتی ہے”۔۔
وہ الماری کھولے ایک ایک عرش کی ایک ایک چیز سینے سے لگا رہی تھی۔۔ جیسے اسکی خوشبو اپنے اندر اتارنا چاہ رہی ہو۔۔
اسکی ایک ایک چیز سے آج بھی اسکی خوشبو آتی تھی۔۔ اسنے پاس بیٹھی فرشتے کو اپنے مزید قریب کیا۔۔
انگلیوں سے اسکے بالوں کو سنوارتی وہ دیوانہ وار فرشتے کے چہرے کو چوم رہی تھی۔۔
“عرش تو آپ کے پاس ہی ہے رابیل” ۔۔
کہیں پاس سے ایک مانوس سی آواز اسکے سماعت سے ٹکرائی تھی۔۔ آنسوں میں مزید روانی آئی تھی۔۔ وہ لہجہ وہ آواز آج بھی اسکے دماغ سے محو نہیں ہوا تھا۔۔
______________
“کیسی ہیں وشہ؟”۔۔
اسکے سامنے چیئر پر بیٹھتے ہوئے اسنے اپنے مخصوص دھیمے لہجے میں کہا۔۔
“زندہ ہوں”۔۔
اسکی بند آنکھوں سے آنسوں لڑھک کر تکیہ میں جذب ہوئے۔
جلابیب نے بےبسی سے اسے دیکھا۔۔اسکے گال پر اسکی انگلیوں کے نشان واضح تھے۔۔ سوجی آنکھوں اور بکھرے بالوں کے ساتھ وہ خود بھی بہت بکھری ہوئی لگ رہی تھی۔۔
“آ آپ نے ٹھیک کہا تھا جلابیب کوئی نہیں مرتا کسی کے لئے۔۔ کسی کی سانسیں نہیں رکتی۔۔ مم میں زندہ ہوں جلابیب نا چہرے ہوئے بھی سانسیں آ رہی ہے۔۔ مم میں نے پوری کوشش کی تھی کے میں مر جاؤں لیکن زندہ ہوں میں”۔۔
کمرے کی خاموشی میں اسکی سسکی گونجی تھی۔۔
آنسوں تواتر سے تکیہ میں جذب ہو رہے تھے۔۔
“آپ مجھے بھول کیوں نہیں جاتی وشہ؟”۔۔
اس نے بےبسی سے کہا تھا۔۔
“جو شخص قطرہ قطرہ کر کے اندر اتر گیا ہو۔
۔وہ بھلایا جا سکتا ہے کیا؟”۔۔
اسنے خالی خالی نظروں سے اسکی جانب دیکھا۔۔
جلابیب کے لئے مزید وہاں ٹھہرنا دوبھر ہو رہا تھا۔۔
“عقل سے کام لیں وشہ۔۔ آپ اس انسان سے چاہت کی طلب گار ہیں جو پہلے ہی اپنی تمام تر چاہتیں کسی اور پر لٹا چکا ہے”۔۔
اسکی بات پر اسنے کرب سے آنکھیں میچی تھیں۔۔ کتنا تکلیف دہ مقام تھا۔۔
جسکے لبوں سے وہ اپنا نام سننے کی طلب گار تھی انہی لبوں سے کسی اور کے لئے اقرار سن رہی تھی۔۔
“میں تو آپ سے آپ کی چاہتوں کی طلبگار ہوں ہی نہیں جلابیب۔۔
میں آپ سے صرف آپ کا نام چاہتی ہوں۔۔ میں آپ کے نام پر اپنی ساری زندگی بسر کر لونگی جلابیب”۔۔
اسنے دونوں ہاتھوں سے اسکا ہاتھ تھاما ۔۔
جلابیب نے بےیقینی سے اسے دیکھا۔۔
“یہ وقتی کشش ہے وشہ۔۔ وقت گزرنے کے بعد آپ کو احساس ہوگا کے آپ کا فیصلہ حماقت کی سواء کچھ نہیں تھا”۔۔
اسنے بےبسی سے کہا۔۔ اسکے ہاتھوں سے ہاتھ نکالنے کی کوشش نہیں کی تھی۔۔ نظریں اسکی کلائی پر ٹکی تھیں جس پر اب بینڈیج کر دی گئی تھی۔۔
“آپ کی نظر میں اگر یہ حماقت ہے تو میں اپنی زندگی بھی اس حماقت پر وارنے پر تیار ہوں”۔۔
اسکے آنسوں تواتر سے اسکے ہاتھوں پر گر رہے تھے۔۔
جلابیب نے لب بھینجے۔۔ آنکھیں ناجانے کس احساس کے تحت جلنے لگی تھیں۔۔
“ہم انسان بھی کتنے عجیب ہوتے ہیں وشہ۔۔ میں نے اپنی زندگی میں ماما کے بعد صرف رابیل سے محبت کی پر ستم دیکھیں میرے پاس ماما ہیں اور نا رابیل۔۔ کتنی عجیب بات ہے نا وشہ آپ مجھے اس حد تک چاہتی ہیں یہ جاننے کے باوجود میں مجھے خوشی نہیں ہو رہی ہے۔۔ دل اتنی محبتیں پا کر بھی اس ایک محبت کے لیے تڑپ رہا ہے”۔۔
اسکے آنسوں وشہ کے ہاتھوں میں گرے تھے۔۔وشہ کی سسکیوں کی آواز مزید بلند ہوئی۔۔ دونوں ایک دوسرے کا درد محسوس کر سکتے تھے مگر مداوا کسی کے پاس نہیں تھا۔۔
“یہ جو لاحاصل محبت ہوتی ہے نا وشہ یہ بہت اذیت ناک ہوتی ہے۔۔ اور ستم تو یہ ہے کے ہم سب ہی انہی لاحاصل محبتوں کے گرد چکّر لگا رہے ہیں۔۔ میں رابیل کے پیچھے۔۔ آپ میرے پیچھے۔۔ اس عشق کے پیچھے جس کی پہلے ہی ممانعت ہے۔۔ وہ کیسے ہمیں مل سکتی ہے۔۔ اور یقیں کریں اگر حاصل ہو بھی جائے نا تب بھی لاحاصل ہی رہتی ہیں ایسی محبتیں”۔۔
وہ اپنے مخصوص لہجے میں کہ رہا تھا۔۔ وہ نہیں جانتا وہ اس لڑکی سے یہ سب کیوں کہ رہا ہے۔۔ مگر کہنا تو تھا ہی۔۔
“مم مگر جو حاصل نہیں وہ ایک لاحاصل محبت ناجانے کیوں سب محبتوں پر حاوی ہے”۔۔
اسنے ہچکیوں کے درمیان کہا۔۔
“اسکے لئے آئی ایم رئیلی سوری۔۔ میرا یقین کریں میں ایسا نہیں چاہتا تھا”۔۔
اسکا اشارہ اسکے گال کی طرف تھا۔۔ جس پر اب بھی اسکی انگلیوں کے نشانات ثبت تھے۔۔
“یہ تھپڑ آپ نے میری محبت کو مارا ہے جلابیب۔۔ مم مجھے یہاں درد نہیں ہوا آپ نے مارا بہت تیز تھا پھر بھی نہیں۔
اس نے گال پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔۔
مم مگر اپکا تھپڑ میری محبت کو پڑا ہے جلابیب۔۔ وہ جو درد ہوتا ہے جو آپ نے مجھے دیا ہے۔۔ اسکا مداوا آپ نہیں کر سکتے”۔۔
“میری قسمت تو دیکھیں جلابیب۔۔ مجھے کسی اور عورت کی محبت میں روتے ہوئے مرد سے عشق ہو گیا۔۔ آپ مجھے بیوقوف کہتے ہیں ٹھیک ہی کہتے ہیں۔۔ بھلا جان بوجھ کر یہ کون کرتا ہے”۔۔
اسنے ہاتھوں کی پشت سے بےدردی سے آنسوں صاف کئے۔۔
“اگر میں کہوں میں مداوا کرنا چاہتا ہوں پھر بھی نہیں”۔۔
اسنے تھوڑے توقف سے گہری سانس لے کر کہا۔۔
وشہ نے نم آنکھوں سے اسے دیکھا۔۔ تو کیا دعائیں اتنی جلدی مقبول ہو جایا کرتی ہیں۔۔
“کل ہمارا نکاح ہے”۔۔
وہ نم آنکھوں سے مسکرائی۔ ۔
“رابیل فرشتے کو تیار کر دیا تم نے؟”
وہ کف فولڈ کرتا کہتے ہوئے اندر داخل ہوا ۔۔ مہرون کلر کر ڈریس میں ہم رنگ حجاب کرتی رابیل کو دیکھ کر اسکی رگیں تنی۔۔
“یہ ڈریس عرش کا ہے۔۔ اور میں انھیں ہی ان کپڑوں میں دیکھنے کا عادی ہوں۔۔ تم اچھی طرح جانتی ہو کوئی بھی میری عرش کی چیزوں کو چھوئے میں ہرگز برداشت نہیں کر سکتا”۔۔
چبا چبا کر کہتے اسنے ایک جھٹکے سے اسکا رخ اپنی جانب موڑا۔۔
“انصر میں۔۔
اسنے کچھ کہنا چاہا۔۔
“مم ما۔۔
اسکے انداز پر فرشتے نے سہم کر رابیل کو پکارا۔۔
“جانتی ہو تم کبھی نہیں سمجھ سکتی کے میں نے کتنی محبت کی ہے عرش سے۔۔
اس نے بےدردی سے اسکا چہرہ پکڑا۔۔
“میری زندگی تھیں وہ۔۔ ایک بات اپنے ذہن میں ڈال لو رابیل بی بی۔۔ تم کبھی میری عرش کی جگہ نہیں لے سکتی۔۔ اور فرشتے میری بیٹی ہے میری اور عرش کی بیٹی۔۔ تم ماں نہیں ہو اسکی اور نا کبھی بن سکتی ہو”۔۔
۔
اس نے بےیقینی سے اسکی جانب دیکھا اسکے چہرے پر کل والی نرمی کا شائبہ تک نہیں تھا۔۔
“محبت کس محبت کی بات کر رہیں ہیں آپ ؟..
اسنے ایک جھٹکے سے اسکا ہاتھ اپنے چہرے سے دور کیا۔۔
” آپ کو کیا لگتا ہے عرش کو صرف آپ نے کھویا ہے ؟ چار سال اپنی زندگی کے چار سال اسکے ساتھ گزارے آپ نے اور آپ مجھ سے کہ رہے ہیں کے میں نہیں سمجھ سکتی کے آپ نے کیا کھویا ہے ؟”
دو آنسوں پلکوں کی باڑھ توڑھ کر اسکے گال پہ گرے۔۔ مگر لہجہ مظبوط تھا وہ لڑکی جس نے اتنے عرصے میں اسکی کسی زیادتی کے خلاف ایک لفظ زباں سے نہیں نکالا تھا آج اس سے سارے حساب بے باک کر رہی تھی ۔۔
انصر کو اپنے لفظوں کی سختی کا اندازہ ہوا۔۔ مگر اب بہت دیر ہو چکی تھی۔۔
“میں آپ کو بتاتی ہوں میں نے کیا کھویا ہے میرے ساتھ اس دنیا میں آئ تھی وہ اپنی زندگی کے بیس سال گزارے تھے میں نے اسکے ساتھ بہن تھی میری مم میری زندگی تھی وہ۔۔
پہلی بار اسکی آواز لڑکھرائ۔۔
“میں اچھی طرح جانتی ہوں کے میں کبھی عرش نہیں بن سکتی مگر میں تو بننا بھی نہیں چاہتی ہوں میں نے کبھی اسکی جگہ اسکا مقام نہیں لینا چاہا اور معاف کیجیے گا مجھے آپ کی محبت کی قطعی طلب نہیں ہے مگر فرشتے میری بیٹی ہے میری بہن کی نشانی ہے”۔۔
اسنے فرشتے کو خود کو مزید قریب کیا تھا۔۔
“اسے پیدا ضرور عرش نے کیا ہے مگر اسکی ماں میں ہوں۔۔ میں اپنی زندگی میں تو کبھی اسے آپ کے حوالے نہیں کرونگی۔۔ اسکے لئے آپ کو میرےمرنے کا انتظار کرنا ہوگا میں فرشتے کو نہیں دونگی آپ کو”۔۔
وہ فرشتے کو اپنے سینے سے لگائے ہزیانی انداز میں کہ رہی تھی۔۔
وہ مزید کچھ کہے بغیر کمرے سے نکلتا چلا گیا۔۔
پیچھے وہ فرشتے کو سختی سے بھینجے بری طرح روتی نیچے بیٹھتی چلی گئی۔۔
“تم تم جانتی ہو نا عرش میں نے کبھی تمہاری جگہ لینے کی کوشش نہیں کی۔۔ مم مجھے اپنے ساتھ لے جاؤ عرش۔۔ میں نے کہا تھا تم سے کس کے سہارے چھوڑ کر جا رہی ہو تم مجھے۔۔ تمہاری رابی ٹوٹ گئی ہے عرش۔۔ مم میرا سب سے مضبوط سہارا ہی میرا نہیں ہے میں کیا کروں عرش”۔۔
وہ تڑپ کر روئی۔۔ بالکونی میں بیٹھے انصر کا دل کانپ اٹھا۔۔ پہلی بار اسے اپنی زیادتی کا احساس ہوا۔۔ پہلی مرتبہ اسکا اس طرح رونا اس سے برداشت نہیں ہو رہا تھا۔
مم میرا خدا گواہ ہے میں نے کبھی عرش کی جگہ لینے کی کوشش نہیں کی”۔۔
باہر بیٹھے انصر کا دل کانپ اٹھا۔۔
“آپ آپ جانتے جانتے ہیں نا اللہ پاک۔۔ آپ تو سب جانتے ہیں نا”۔۔
اسکی آواز مدھم ہو رہی تھی۔۔
پہلی بار اسکے آنسوں اسے تکلیف دے رہے تھے۔۔ایک کے بعد ایک سگریٹ سلگاتا وہ خود بھی ضبط کی انتہاء پر تھا۔۔ اسکی مدھم ہوتی آواز پر وہ سرعت سے کمرے میں آیا۔۔ وہ آنکھیں بند کئے ایک ہی بات دوہرا رہی تھی ۔۔
“رابیل۔ ۔
اس نے سرعت سے اسے اٹھا کر بیڈ پر لٹایا۔۔
فرشتے کو بڑی مشکل سے سلا کر وہ خود بھی دوسری طرف لیٹ گیا تھا۔۔ ساری رات وقفے وقفے سے اسکی سسکی کمرے میں گونجتی رہی ۔۔
۔”کوئی محوِ رقص ہے
تو کوئی گُم ہے خیالِ یار میں
یہ عشق کے رنگ ہیں
نہیں کچھ کسی کے اختیار میں”۔۔!!
وہ خیالوں میں گم لاؤنچ میں بیٹھا ہوا تھا۔۔ ساری زندگی کسی فلم کی مانند اسکی آنکھوں کے سامنے گھوم رہی تھی۔۔ رابیل کی سنگت میں گزرے وہ دن کسی ٹھنڈی ہوا کے جھونکے کی مانند تھے۔۔ اور پھر رابیل کی جدائی۔۔ اور اب وشہ۔۔ ایک جنونی دیوانی سی لڑکی۔۔ جو اب اسکی بیوی کے روپ میں اندر کمرے میں موجود تھی۔۔ جہاں کبھی اس نے رابیل کو سوچا تھا۔۔ وہ گہری سانس بھرتا ہوا اندر داخل ہوا۔۔
بیڈ خالی دیکھ کر اسنے تشویش سے ادھر ادھر دیکھا اسے زیادہ ڈھونڈنا نہیں پڑا وہ سامنے ہی پینٹنگ کے آگے کھڑی تھی۔۔
اسنے گہری سانس لے کر اسکی جانب دیکھا۔۔ وائٹ اور گولڈن امتزاج کا خوبصورت سے فروک میں وہ ارد گرد سے بےنیاز یک ٹک اس پینٹنگ کو ہی دیکھ رہی تھی۔۔
لمبے بال کمر پر کھلے ہوئے تھے۔۔ وہ کوئی نازک سی پری لگ رہی تھی۔۔ وہ دھیرے دھیرے چلتا ہوا اسکے نزدیک آیا۔۔
“کیا وہ بہت خوبصورت ہیں جلابیب؟”۔۔
خاموشی میں اسکی آواز ابھری۔۔ جلابیب کو حیرت ہوئی تھی۔۔ مطلب وہ اسکی آمد سے انجان نہیں تھی۔۔
“میں آپ کی خوشبو بہت دور سے ہی محسوس کر لیتی ہوں”۔۔
اسکے چہرے پر حیرانی محسوس کر چکی تھی۔۔ وہ قائل ہوا۔۔
“آپ یہاں کیوں کھڑی ہیں وشہ”۔۔
اسنے نظریں چراتے ہوئے کہا۔۔
“یہ پینٹنگ دیکھ رہی تھی۔۔ یہ آنکھیں کتنی حسین ہیں نا بہت سر راز اپنے اندر دفن کئے ہوئے۔۔ جیسے کسی کو بھی اپنے سحر میں جکڑ سکتی ہوں”۔۔
وہ اب بھی یک ٹک پینٹنگ ہی دیکھ رہی تھی۔۔
جلابیب نے گہری نظروں سے اسے دیکھا۔۔وہ کچھ غلط تو نہیں کہ رہی تھی ہاں وہ آنکھیں سحر زدہ کر سکتی تھیں کسی کو بھی۔۔ جلابیب زوار آج بھی ان آنکھوں کے سحر سے آزاد نہیں ہوا تھا۔۔
“بتائیں نا جلابیب جسکی آنکھیں اتنی حسین ہیں وہ خود کتنی پیاری ہونگی نا”۔۔
وہ انجانے میں ہی صحیح اسکے زخم کرید رہی تھی۔۔
“آپ بہت پیاری لگ رہی ہیں وشہ”۔۔
اسنے ہاتھ بڑھا کر اسے کچھ قریب کیا۔۔
“کیا رابیل جیسی ؟”۔۔
اس نے چہرہ اٹھا کر اسکی جانب دیکھا۔۔ اسکے آگے وہ اور بھی چھوٹی سی لگتی تھی۔۔ آنکھوں میں امید کے کچھ دئے ٹمٹمائے۔۔
“نہیں۔۔
مقابل نے ایک لفظ سے تمام دئے بجھا دئے تھے۔۔
“کیوں کے آپ رابیل نہیں وشہ ہیں۔۔ “وشہ جلابیب”۔۔
The most pretty girl in this universe..
اسنے نرمی سے اسے بیڈ پر بٹھایا۔۔
“اور رابیل حدید۔ ۔
وہ آنکھوں میں نمی لئے مسکرائی۔ ۔
“میری خواھش ہے کے میں ایک بار ہی صحیح رابیل سے ضرور ملوں۔۔
“میں دیکھنا چاہتی ہوں کے قسمت جن پر اتنی مہربان ہو انکے چہرے پر طمانیت کا احساس کتنا خوبصورت لگتا ہے”۔۔
اسنے نرمی سے اسے ٹھیک سے بیڈ پر بیٹھایا۔۔
اسکی بات کا کوئی جواب نہیں تھا میرے پاس۔۔
“جانتی ہیں وشہ۔۔کبھی کبھی زخم بھی سکون کا ذریعہ بن جاتے ہیں اور کبھی کچھ خوشیاں بھی اذیت کا سامان کر جاتی ہیں۔۔ انسان کا دل بہت عجیب ہے اسے ہمیشہ اسی چیز کی خواھش ہوتی ہے جو اسکی پہنچ سے دور۔۔ بہت دور ہوتی ہے ۔۔ یہ ہمیشہ اسی چیز کے لئے تڑپتا ہے۔۔ سسکتا ہے۔۔
وہ سانسیں روکے اسکی باتیں سن رہی تھی۔۔
اسکا دل چاہ رہا تھا وہ یونہی بولتا رہے اور وہ سنتی رہے۔۔
“میں نے رابیل کو بہت شدّت سے چاہا ہے وشہ۔۔ میں انھیں بھول نہیں سکتا۔۔ یہ میرے اختیار میں نہیں ہے۔۔ آپ میری بیوی ہیں۔۔ میری زمیداری ہیں۔۔ میں آپ کی عزت کرتا ہوں۔۔ مگر آپ کی محبت کا جواب اتنی ہی محبت سے دینے میں مجھے کچھ وقت درکار ہے وشہ”۔۔
اس نے اسکے ہاتھوں کو اپنے ہاتھ میں لیا۔۔ وشہ نے حیرت اور خوشی کے ملے جلے تاثر سے اسے دیکھا۔۔
“میں سمجھ سکتی ہوں جلابیب۔۔
جن سے محبت ہوں وہ بھلائے کب جاتے ہیں”۔۔
مجھے بس اس محبت کا ایک چھوٹا سا حصّہ درکار
ہے جو آپ رابیل سے کرتے ہیں”۔۔
وشہ نے اسکے ہاتھ اپنی آنکھوں سے لگائے۔ ۔ جلابیب نے حیرت سے اسے دیکھا۔۔ محبت کا یہ انداز اسکے لئے نیا تھا اور انوکھا بھی۔۔
دور کہیں سے اذان کی آواز آنے پر دونوں نے حیرت سے ایک دوسرے کو دیکھا۔۔ تو کیا رات بیت گئی تھی۔۔
وہ نماز کے لئے اٹھ کھڑا ہوا۔۔
وشہ انگلیاں مروڑتی اسے دیکھ رہی تھی جو شاید اسکے ہی انتظار میں کھڑا تھا۔۔
“آپ نماز نہیں پڑھینگی وشہ”۔۔
اسے یونہی بیٹھے دیکھ کر جلابیب نے سوال کیا۔۔
“مم میں بھول گئی ہوں”۔۔
اسنے شرمندگی سے سر جھکائے گویا اپنے جرم کا اعتراف کیا۔۔
“نماز پڑھنا؟”
اسکے جھکے سر کو دیکھتے ہوئے اس نے نرمی سے سوال کیا۔۔
“جب ماما تھیں تو وہ اپنے ساتھ پڑھوایا کرتی تھیں۔۔ ماما کے بعد کسی نے نماز پر زور ہی نہیں دیا۔۔ پھر جب ہوسٹل گئی تو نماز کی عادت ہی ختم ہو گئی۔۔ اور اور اب اب یاد بھی نہیں کے کک کیسے پڑھتے ہیں”۔۔
اسکا جھکا سر مزید جھک گیا تھا۔۔
“ابھی آپ نے کہا نا جن سے محبت ہو وہ بھلائے کب جاتے ہیں؟”۔۔
جلابیب نے سوالیہ انداز میں اسکی جانب دیکھا۔۔
“تو کیا جو آپ سے محبت کرتے ہیں وہ یہ ڈیزرو کرتے ہیں کے انھیں بھول جایا جائے؟ “۔۔
اسنے نرمی سے اسکا آنسوں سے تر چہرہ اوپر اٹھایا۔۔
وشہ نے زور زور سے نفی میں گردن ہلائی۔ ۔
“آپ جانتی ہیں اللہ آپ سے سب سے زیادہ محبت کرتا ہے۔۔ بہت زیادہ آپ کی سوچ سے بھی زیادہ۔۔ تو کیا وہ یہ ڈیزرو کرتا ہے کے وشہ اسے بھول جائے” ۔۔
اسکی بات پر اسنے پھر سے اسی انداز میں نفی کی۔۔
اسکے انداز پر بےاختیار اسکے لبوں پر مسکراہٹ ابھری۔
“تو پھر چلیں شاباش “۔۔
وہ اسے اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کرتا کمرے سے منسلک باتھ روم کی جانب بڑھا۔۔
وہ خاموشی سے اسکی تقلید میں آگے بڑھی۔۔
اپنی نگرانی میں اسے وضو کرواتا وہ اسے لے کر کمرے کی جانب بڑھا۔۔
“میرے ساتھ ساتھ پڑھتے جائیں ہممم”۔۔
جائے نماز بچھا کر اسنے سوالیہ نظروں سے اسکی جانب دیکھا۔۔
وہ دھیمی آواز میں نماز ادا کر رہا تھا۔۔ وہ اسکے پیچھے اسکے الفاظ دوہرا رہی تھی۔۔ آنسوں تواتر سے اسکے چہرے پر گر رہے تھے۔۔ ایک الگ سا سکون تھا جو اندر اترتا محسوس ہو رہا تھا۔۔ اتنے سال وہ اپنے رب سے دور رہی تھی۔۔ یہ سوچ کر ہی دل پھٹ رہا تھا۔۔ جائے نماز سائیڈ پر رکھ کر جلابیب نے اسے دیکھا وہ دونوں ہاتھ چہرے پر رکھے بری طرح رو رہی تھی۔۔ اسنے اسے چپ کروانے کی کوشش نہیں کی تھی۔۔۔ ٹھنڈی ہوا کھڑکی سے اندر داخل ہوئی ۔۔ ایک خوبصورت صبح کا آغاز ہوا تھا۔۔
۔دریچے سے جھانکتی وه لڑکی۔۔
عجیب دکھ سے بھری ھوئی ھے۔۔
کے اس کے آنگن میں پھول پر۔۔
اک نیلی تتلی مری ھوئی ھے۔۔
کبھی اذانوں میں کھوئی کھوئی۔۔
کبھی نمازوں میں روئی روئی۔۔
وه ایسے دنیا کو دیکھتی ھے۔۔
که جیسے اس سے ڈری ھوئی ھے۔۔
درود سے مهکی مهکی سانسیس۔۔
وظیفه پڑھتی ھوئی وه آنکھیں۔۔
که اک شمعِ مید ان میں۔۔
کئ برس سے پڑی ھوئی ھے۔۔
وه دکھ کی چادر میں لپٹی لپٹی۔۔
وه کالے کپڑوں میں سمٹی سمٹی۔۔
محبت اس نے بھی کسی سے شائد۔۔
میری طرح ھی کی ھوئی ھے..!!
وہ یک ٹک اسے ہی دیکھ رہا تھا۔۔ آنسوں کے نشان اسکے چہرے پی واضح تھے۔۔ اذان کی آواز پر اس نے اسکی جانب دیکھا۔۔ اسے ہنوز سوتے دیکھ کر اس نے پکارا۔۔
“رابیل۔ ۔ اٹھ جاؤ نماز کا وقت نکل رہا ہے”۔۔
اسے نماز کے لئے نہیں اٹھتے دیکھ اسے تشویش ہوئی۔۔ایسا پہلی بار ہوا تھا کہ وہ نماز کے لئے نہیں اٹھی ہو۔۔
“رابیل۔ ۔
اس نے آرام سے اسکا شانہ ہلایا۔۔ اگلے ہی پل اسے جھٹکا لگا ۔۔ وہ بخار میں پھنک رہی تھی۔۔
اسے آہستگی سے آنکھیں کھولتے دیکھ اس نے اسے سہارا دیا۔۔
“مم میں ٹھیک ہوں۔۔
اسکا ہاتھ اپنے بازو سے ہٹاتی وہ بڑی مشکل سے اٹھ بیٹھی ۔۔
“آؤ میں وضو کروا دوں۔۔ نماز پڑھ لو”۔۔
اسکے رویے کو نظرانداز کرتا زبردستی اسے سہارا دیتا باتھروم کی جانب بڑھا۔۔
اسکے وضو کر لینے کے بعد اسی طرح سہارا دیتے کمرے میں داخل ہوا۔۔
اسنے مزید کوئی مزاہمت نہیں کی۔۔ نماز ادا کر لینے کے بعد بامشکل بیڈ تک آئی۔۔
“میں ماما کے پاس جانا چاہتی ہوں۔۔ آپ نے میرا وجود آج تک قبول نہیں کیا انصر یہ بات آپ کے رویے نے مجھ پر بہت اچھی طرح ظاہر کر دیا ہے۔۔ ایک سال پہلے میں نے ایک فیصلہ کیا تھا فرشتے کی بہتری کے لئے۔۔ اور اس فیصلے کی میں نے بہت بڑی قیمت چکائی ہے۔۔ آج بھی میں ایک فیصلہ کر رہی ہوں فرشتے کی ہی بہتری کے لئے۔۔
میں آپ کے ساتھ مزید نہیں رہ سکتی انصر”۔۔
آنسوں تواتر سے اسکا چہرہ بھگو رہے تھے۔۔
“رابیل پلیز میں شرمندہ ہوں اپنے رویے پر۔۔ مجھے مجھے ضرورت ہے تمہاری۔۔ فرشتے کو ضرورت ہے تمہاری رابیل۔۔ اسے اسکی ماں چاہیے۔۔ بچے کب ماں کو بھولتے ہیں” ۔۔
اسنے اسکے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لئے۔۔
“ماں۔۔
اسنے استہزائیہ انداز میں اسکی جانب دیکھا۔۔
“یہ آپ کہ رہے ہیں میں ماں ہوں اسکی۔۔ ہر بار انصر ہر میں نے میرے وجود کی نفی کی ہر بار میں نے پہلے سے بڑھ کر فرشتے کو ماں کا پیار دیا انصر۔۔ مجھ میں مزید ہمّت نہیں ہے۔۔ میں تھک گئی ہوں انصر۔۔ اب مم مجھے بخش دیں۔۔ مم مجھ میں مزید سہنے کی سکت نہیں ہے انصر”۔۔
وہ فرشتے کو سینے سے لگائے بری طرح رو رہی تھی۔۔
انصر نے بےبسی سے اسکی جانب دیکھا۔۔
“میں تمہیں ماما کے پاس لے چلوں گا “۔۔
اس نے نرمی سے کہا۔۔
“مم میں فرشتے کو لے کر جاؤنگی “۔۔
اسنے فرشتے کو اور بھی مظبوطی سے خود میں بھینجا۔۔
“ہاں ہم جائینگے ماما کے پاس”۔۔
اسنے نرمی سے اسے بیڈ پر لیٹایا۔۔
“میں فرشتے کی ماں ہوں۔۔ فرشتے مم میری بیٹی ہے۔۔ آآپ مجھ سے اسے نہیں لے سکتے”۔۔
اس نے اب بھی فرشتے کو مظبوطی سے تھاما ہوا تھا۔۔
“ہاں تم فرشتے کی ماں ہو”۔۔
اس نے جیسے خود سے اعتراف کیا ۔۔
کافی دیر تک پٹٹیاں کرتے رہنے کے بعد اسکے بخار میں تھوڑی کمی محسوس کر کے وہ ناشتہ لے کر اسکے پاس آیا ۔۔
“رابیل اٹھو ناشتہ کرو “۔۔
اسنے سہارا دے کر اسے بٹھایا۔۔
اسکے مزاہمت کے باوجود اسے زبردستی ناشتہ کروانے کے بعد میڈیسن دے کر دوبارہ لیٹایا۔۔
“فرشتے کہاں ہے ؟”۔۔
اسنے مدھم آواز میں پوچھا۔۔
“یہیں ہے تمہارے پاس ہے۔۔ دیکھو”۔۔
انصر نے فرشتے کو اسکے قریب بٹھایا۔۔
__________
“رابی میری بچی”۔۔
وہ ابھی نماز سے فارغ ہوئیں تھیں۔۔ اسے یوں اچانک اپنے سامنے دیکھ کر حیرت اور خوشی کے ملے جلے تاثر سے اسکی جانب بڑھیں۔۔
“کیسی ہیں ماما؟”۔۔
اسنے مسکراتے ہوئے خیریت دریافت کی۔۔
“ماں صدقے میرا بچہ۔۔ اپنی بچی کو دیکھ کر تو بلکل ٹھیک ہو گئیں ہوں۔۔ تم آنے کی اطلاع تو کر دیتی میری جان”۔۔
وہ دیوانہ وار اسکے چہرے کو چوم رہی تھیں۔۔ پاس کھڑے انصر نے مسکراتے ہوتے ہوئے یہ منظر دیکھا۔۔
“ماما مجھ سے بھی مل لیں”۔۔
وہ کتنی ہو دیر اسے ساتھ لگائے کھڑی رہیں۔۔ انصر کی آواز پر آنسوں صاف کرتے اسکی جانب بڑھیں۔۔
“تم لوگوں نے اطلاع کیوں نہیں کی آنے کی۔۔ اپنی بچی کے پسند کا کھانا ہی بنوا لیتی میں؟”۔۔
انہوں نے فرشتے کو اسکی گود سے لیتے مصنوعی خفگی سے کہا۔۔
“آپ کی رابی کو بہت جلدی تھی آپ سے ملنے کی۔۔ کل سے ضد کر رہی تھی۔۔ آخر مجھے ماننی ہی پڑی”۔۔
اسنے پرشوخ نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔۔
رابیل نے حیرانی سے اسکی جانب دیکھا۔۔ وہ ایسا شو کر رہا تھا جیسے کچھ ہوا ہی نا ہو۔۔
“ماما میں روم میں جا رہی ہوں۔۔ بہت تھک گئی ہوں”۔۔
ناچاہتے ہوئے بھی اسکا لہجہ بھیگ گیا تھا۔۔
“کیا بات ہے میری جان۔۔ طبیعت ٹھیک نہیں ہے؟”۔۔
انہوں نے گہری نظروں سے اسکا بجھا بجھا چہرہ دیکھا۔۔
“ٹھیک ہے ماما۔۔ بس تھوڑی تھکن ہے”۔۔
“لاؤ فرشتے کو مجھے دو۔۔ تم جاؤ میرا بچہ آرام کرو”۔
وہ فرشتے کو انکی گود میں دیتی اپنے کمرے کی جانب بڑھی۔۔
______________
“کیا بات ہے ماما۔۔ آپ اتنی ٹینس کیوں ہیں۔۔ جب سے رابی آئی ہے آپ ایسے ہی پریشان نظر آ رہی ہیں”۔۔
اسنے انکے ہاتھ کا بوسہ لیتے ہوئے کہا۔ ۔ رابیل کو یہاں آئے دو دن ہوگئے تھے۔۔ وہ جب سے آئی تھی فاطمہ بیگم کچھ پریشان سی تھیں۔۔ وہ کئی بار انھیں خاموشی سے آنسوں صاف کرتے ہوئے بھی دیکھ چکا تھا۔۔
“مجھے لگ رہا ہے اشعر۔۔ میں رابی کے ساتھ زیادتی تو نہیں کر دی اسکی آنکھوں میں خوشی اور آسودگی کی جگہ ویرانی نظر آ رہی ہے”۔۔
انکی بات پر اشعر نے نم آنکھوں سے انکی جانب دیکھا۔۔
وہ کہنا چاہتا تھا زیادتی تو ہوئی ہے رابیل کے ساتھ۔۔ وہ انھیں بتانا چاہتا تھا کے انکی ضد نے کسی کا کتنا نقصان کر دیا ہے جس کا مداوا اب ممکن ہی نہیں تھا۔۔ مگر اس نے کہا تو بس اتنا ہی۔۔
“آپ پریشان نہیں ہوں۔۔ میں بات کرونگا انصر سے”۔۔
انکی پیشانی چومتا وہ کمرے سے نکل گیا۔۔
__________
“”ایک کپ چائے مل سکتی ہے”۔۔
وہ کچن میں کھڑی فرشتے کے لئے دودھ ابال رہی تھی۔۔
وہ خاموشی سے اسکے پیچھے آ کھڑا ہوا۔۔ دو دن سے وہ اسے مسلسل نظر انداز کر رہی تھی۔۔
“جانتی ہو کبھی کبھی کچھ نا کہنے والے اپنی خاموشی سے بہت کچھ سمجھا جاتے ہیں۔۔ تمہاری خاموشی مجھے ہرٹ کر رہی ہے رابیل”۔۔
وہ اسکے نزدیک آیا ۔۔
“ہم سب کچھ پہلے جیسا بھی تو کر سکتے ہیں نا رابیل” ۔۔
اسنے اسکا ہاتھ تھاما۔۔
“پہلے جیسا؟۔۔
اسنے استہزائیہ انداز میں اسکی جانب دیکھا۔۔
“پہلے بھی ہمارے درمیان ایسا کیا تھا جسکا حوالہ دے رہے ہیں آپ مجھے انصر۔۔ میں آپ کی زندگی میں صرف فرشتے کی ماں کی حیثیت سے آئی تھی۔۔ آپ مجھے کوئی مقام نا بھی دیتے تو وہی ایک درجہ میرے لئے بہت تھا۔۔ میں اپنی ساری زندگی فرشتے کی ماں کی حیثیت سے ہی آپ کے ساتھ بسر کر لیتی۔۔ آپ نے تو مجھے اسکی ماں تسلیم کرنے سے ہی انکار کر دیا۔۔ وہ واحد کڑی جو آپ کے اور میرے رشتے کو جوڑتی تھی۔۔ آپ نے اس کڑی کو تسلیم کرنے سے سرے سے ہی انکار کر دیا۔۔ تو اب کیا بچتا ہے آپ کے اور میرے درمیان انصر یزدانی”۔۔
اسنے اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا۔۔اسکے لہجے میں آنسوں کی آمیزش تھی۔۔
اسکے پاس کہنے کو کچھ نہیں تھا۔۔
“آپ کے پاس کہنے کو کچھ نہیں ہے انصر۔۔ کوئی حسین یاد بھی نہیں جسکا حوالہ دے کر آپ مجھے روک لیں۔۔ کوئی حسین لمس نہیں جو مجھے آپ کی یاد دلائے۔ ۔ اس رشتے نے مجھے بلکل کھوکھلا کر دیا ہے انصر۔۔
“ایک شکستہ کھوکھلا سا دل جو ادب میں سب کچھ سہ گیا”۔۔
اسکے آنسوں اسکے ہاتھوں پر گر رہے تھے۔ وہ حق رکھتے ہوئے بھی انھیں اپنے پوروں پر چننے کی ہمّت نہیں جٹا پایا تھا۔ چائے ابل ابل کر سوکھ رہی تھی۔۔ جل رہی تھی۔۔ اسکے دل کی مانند۔۔ وہ خود اپنے ہاتھوں کی پشت بے دردی سے چہرے پر رگڑتی کچن سے نکل گئی۔۔
۔۔
پیچھے کھڑے اشعر نے نا صرف یہ منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا بلکے لفظ با لفظ سنا بھی تھا۔۔
اسکی لاڈلی بہن کس کرب سے گزر رہی تھی۔۔ یہ سوچ ہی اسکی آنکھیں نم کرنے کے لئے کافی تھی۔۔ بغیر کچھ کہے اسے بہت کچھ جتاتی نظروں سے دیکھتا وہ باہر کی جانب بڑھا۔۔
__________
وہ دعا کر کے ہاتھ چہرے پر پھیر رہی تھی۔۔ ایک سکون سا تھا اسکے چہرے پر وہ یونہی بیٹھا اسے تکتا رہا۔۔ وہ دن بہ دن اس کے قریب تر آتی جا رہی تھی۔۔ اسنے خود کو سارے کا سارا جلابیب کے پسند کے مطابق ڈھال لیا تھا۔۔ حلال رشتے کا اثر تھا یا اسکی محبت کا مگر اجنبیت کی دیوار گر چکی تھی۔۔ وہ خاموشی سے چلتا گلاس دوڑ کے قریب آ گیا۔۔
تھوڑی ہی دیر میں وہ چائے کا کپ لئے اسکے ساتھ ہی آ کھڑی ہوئی تھی۔۔
“چائے۔ ۔
اسنے چائے کا کپ اسکی جانب بڑھایا۔۔
“نماز ادا کر لی”۔۔
اس نے چائے کا کپ اسکے ہاتھ سے لیتے نرمی سے اسے دیکھا۔۔
“تیار ہوجائیں اشعر کی برات ہے آج جانتی ہیں نا”۔۔
اسکے اثبات میں سر ہلانے پر نرمی سے اسکے چہرے پر ہاتھ پھیرا۔۔
“آپ بھی تو تیار ہو جائیں”۔۔
اسنے اپنی گول گول آنکھیں گھمائیں۔ ۔
جلابیب نے مسکرا کر اسکی جانب دیکھا۔۔
چائے ختم کر کے کپ اسکے ہاتھ میں دیتا وہ ڈریسنگ روم کی جانب بڑھا۔۔
تھوڑی دیر میں وہ تیار ہو کر ڈریسنگ روم سے نکلا تو وہ تقریباً تیار تھی۔۔ پرپل اور گرین کلر کا ڈریس پہنے شاید اسکارف پہننے کی کوشش کر رہی تھی۔۔ اسے اس طرح دیکھ کر اسے خوشی کے ساتھ حیرانی بھی ہوئی تھی۔۔
“یہ یہ بن کیوں نہیں رہا”۔۔
وہ بار بار ڈوپٹہ سر پر ٹکاتی جو بار بار پھسل جا رہا تھا۔۔ وہ رونے والی ہو گئی تھی۔۔
“میں کچھ مدد کروں”۔۔
اسنے قریب آ کر اجازت طلب نظروں سے اسکی جانب دیکھا جس پر اسنے ناسمجھی سے اثبات میں سر ہلایا۔۔ جلابیب نے اسکا رخ اپنے جانب کیا۔۔
تھوڑی ہی دیر کی کوشش کے بعد اسنے ڈوپٹہ خوبصورتی اسکے چہرے کے گرد لپیٹ دیا تھا۔۔ وشہ نے خوشی سے آئینے میں اپنا عکس دیکھا۔۔ ڈوپٹہ چہرے کے گرد لپیٹی وہ بہت معصوم سی لگ رہی تھی۔۔ اسکا حسن گویا نکھر گیا تھا۔۔
“بہت پیاری لگ رہی ہیں۔۔ اور جانتی ہیں اسکی اصل وجہ یہ ہے۔۔ اللہ نے عورت کو بہت خوبصورت بنایا ہے وشہ۔۔ اور اسکی اصل خوبصورتی چھپے رہنے میں ہی ہے”۔۔
اسکا ڈوپٹہ مزید ٹھیک کرتا اپنا لمس اسکی پیشانی پر چھوڑتا وہ اسے حیران کر گیا تھا۔۔
“رابیل ماما نیچے تمہارا انتظار کر رہی ہیں”۔۔
وہ کہتا ہوا کمرے میں داخل ہوا تھا۔۔ سامنے کھڑی رابیل کو دیکھ کر اسکی نگاہیں اس پر ہی ٹک گئیں تھیں۔۔ سلور کلر کے خوبصورت لباس میں ہم رنگ حجاب چہرے کے گرد لپیٹے وہ سیدھا اسکے دل میں اتر رہی تھی۔۔ مگر یہ کہنے حق وہ اپنے ہاتھوں سے کھو چکا تھا۔۔
“جی چلیں۔۔
اسنے بیڈ پر بیٹھی فرشتے کو گود میں اٹھایا۔۔
“یہ پہن سکتی ہو”۔۔
اسنے ایک مخملی ڈبّہ اسکی جانب بڑھایا۔۔ رابیل نے سوالیہ نظروں سے اسکی جانب دیکھا۔۔ اسے شش و پنج میں مبتلا دیکھ کر اسنے خود ہی دو خوبصورت کنگن اسکی کلائی میں پہنائے۔۔ رابیل نے زخمی نگاہوں سے اسے دیکھا۔۔
“دیر ہو رہی ہے چلیں۔۔
رابیل نے ہاتھ چھڑا کر جانا چاہا اگلے ہی لمحے اسکے بڑھتے قدم تھمے۔۔ انصر کی گرفت اسکے ہاتھوں پر مضبوط ہوئی تھی۔۔
“پلیز چلیں۔۔
اسنے بیزاری سے کہا۔۔
“میرے ساتھ چلو نا”۔۔
اسنے فرشتے کو اسکی گود سے لے کر اسے اپنے حصار میں لیا۔۔ اسکی آنکھوں سے آنسوں نکل کر کارپیٹ میں جذب ہوئے۔ ۔کیا تھا یہ شخص کبھی چٹانوں جیسا سخت ۔۔ کبھی پھولوں سے بھی نرم۔۔
_____________
“چل میرے بھائی بلآخر برباد ہو ہی گیا تو”۔۔
اس نے دولہا بنے اشعر کو دھموکا جڑا ۔۔
“ہاہاہا یار آج تو بخش دے مارتا ہی رہتا ہے مجھ معصوم کی۔۔ نئی نویلی بیوی کے سامنے تھوڑی تو عزت رہنے دے”۔۔
اس نے اپنا کندھا سہلایا۔۔ دلہن بنی ثمر نے بامشکل اپنا قہقہا روکا۔۔
“ہاہاہاہا تیری نئی نویلی دلہن بھی جانتی ہے تو کتنا معصوم ہے”۔۔
اسنے ہنستے ہوئے کہا۔۔
“میری بیوی کو میرے خلاف نا کر”۔۔
اس نے منہ بنا کر ثمر کا ہاتھ تھاما۔۔
“میں وشہ کو دیکھ لوں۔۔ آنٹی کے ساتھ تھیں وہ۔۔
وہ مسکراتا ہوا وشہ کی جانب بڑھا۔۔
_________
“سب چلے گئے؟ آپ نے تو کہا تھا ماما انتظار کر رہی ہیں”۔۔
اس نے کھڑکی سے باہر دیکھتے ہوئے خفگی سے کہا۔۔
“میں انتظار کر رہا تھا نا”۔۔
اس نے آس بھری نظروں سے اسے دیکھا۔۔
وہ بناء کچھ کہے کھڑکی سے باہر دیکھتی رہی۔۔
“تم چلو میں اور فشے گاڑی پارک کر کے آتے ہیں کیوں فشے”۔۔
اسکے کہنے پر وہ اثبات میں سر ہلاتی گاڑی سے اتری۔۔
وہ جو اپنے خیالوں میں گم ہال کی جانب بڑھ رہی تھی دوسری جانب سے آتی تیز رفتار گاڑی کو نہیں دیکھ سکی۔۔ گاڑی اسے اڑاتی آگے بڑھی۔۔
“رابیل۔۔۔
“وہ جو کسی کام کی غرض سے باہر آیا تھا رابیل کی چیخ سن کر اسکی جانب آیا۔۔ سامنے کا منظر اسکے جسم سے روح کھینچنے کے لئے کافی تھا۔۔ وہ خون میں لت پت پڑی تھی۔۔
وہ تڑپ کر اسکی جانب آیا۔۔ گاڑی پارک کر کے آتے انصر نے بھی یہ منظر دیکھا تھا وہ بھی تیر کی سی تیزی سے اس جانب آیا۔۔آس پاس سے بےنیاز اس نے اسے اٹھا کر گاڑی میں ڈالا۔۔ اس وقت اسے یہ یاد نہیں تھا کے وہ انصر یزدانی کی بیوی ہے۔۔ اس وقت وہ صرف اسکی رابیل تھی۔۔ جسے اس نے پوری شدّتوں سے چاہا تھا۔۔ جس لڑکی کے آنسوں اسکے دل پر گرتے تھے۔۔ اسکا خون اسکے سامنے پانی کی طرح بہ رہا تھا۔۔
وشہ کی جلتی آنکھوں نے بھی یہ منظر دیکھا۔۔ رابیل سے ملنے کی اسکی خواھش اس طرح پوری ہوگی اس نے یہ کب سوچا تھا۔۔
________
وہ ہسپتال کے کاریڈور میں بےچینی سے ٹہل رہا تھا۔۔
“میں فرشتے کی ماں ہوں۔۔ فرشتے میری بیٹی ہے”۔۔
اسکی لرزتی ہوئی آواز اسکے کانوں میں گونجی۔۔
“میری بچی بہت صابر ہے انصر۔۔ اسکے ساتھ کوئی زیادتی نہیں ہونے دینا”۔۔
“تجھے کبھی یہ احساس ہی نہیں ہوا انصر کے جس لڑکی کی تیری نظر میں کوئی وقعت ہی نہیں۔۔ جسے تو اپنے گھر میں پڑے کسی بےجان اشیاء سے زیادہ اہمیت نہیں دیتا۔۔ اسی لڑکی کو کوئی راتوں میں اٹھ کر خدا سے مانگا کرتا تھا۔۔اور کوئی آج بھی اس لڑکی کی خوشیاں اپنی خوشیوں سے پہلے مانگتا ہے”۔۔
اشعر کی آواز پر اس نے سرخ آنکھوں سے ایک نظر اسکی جانب دیکھا۔۔ ایک نظر بینچ پر سر جھکائے بیٹھے جلابیب کو۔۔ ایک لمحہ لگا تھا سمجھنے میں۔۔ تو کیا جلابیب۔۔ اس سے آگے سوچنے کی اس میں ہمّت نہیں تھی۔۔
“پہلی بار۔۔ پہلی بار آنکھ بھر کر اسے دیکھا میں نے اشعر۔ ۔ اسے مم میری ہی نظر لگ گئی۔۔ وہ وہ ٹھیک ہو جائیگی نا اشعر”۔۔
وہ اسکے سینے سے لگا تڑپ کر رو رہا تھا۔۔
جلابیب نے تاسف سے اسکے جانب دیکھا۔۔
“یہ انسان کی فطرت ہے انصر۔۔ اسے اس چیز کی قیمت کا اندازہ کبھی نہیں ہوتا جو اسے آسانی سے میسر ہو۔۔ وہ بہت اچھی ہیں انصر۔۔ بہت سادہ”۔۔
اس نے سرخ آنکھوں سے اسکی جانب دیکھتے اسے دلاسہ دیا۔۔
اس رات اسکی سسکیوں نے اعتراف کیا تھا کے انصر یزدانی کو رابیل حدید سے محبت ہو گئی ہے اور پوری شدّت سے ہوئی ہے۔۔
عشق میں تھا کا سیغہ کب ججتا ہے۔۔
عشق تو بس ہے کا سیغہ ہے۔۔
(لائبہ ناصر)
وہ پھولوں کا گلدستہ لئے ہسپتال میں اسکے کمرے کا دروازہ کا کھولتی اندر داخل ہوئی۔۔ سامنے ہی وہ اسٹریچر پر آنکھیں موندے لیٹی ہوئی تھی۔۔ وشہ نے بہتی آنکھوں سے اسکی جانب دیکھا۔۔
کھٹکے کی آواز پر رابیل نے دھیرے سے آنکھیں کھولیں۔۔ یہ آنکھیں۔۔ بلاشبہ رابیل حدید کی آنکھوں میں وہ سحر تھا کے جلابیب زوار جیسا شخص اسکے سحر میں گرفتار ہو۔۔ وہ کرب سے مسکرائی۔۔ یہ آنکھیں اس نے ہونے گھر میں اپنے کمرے ہر جگہ دیکھی تھی۔۔ وہ ان آنکھوں کو پہچاننے میں غلطی نہیں کر سکتی تھی۔۔ ان آنکھوں کا عکس تو اس نے جلابیب کی آنکھوں میں دیکھا تھا۔۔
رابیل نے حیرت سے گلدستہ لئے دروازے پر کھڑی اس چھوٹی سی لڑکی کو دیکھا۔۔ جو آنکھوں میں حسرت لئے اسے ہی دیکھ رہی تھی۔۔
“رابی گڑیا یہ وشہ ہیں جلابیب کی وائف”۔۔
اشعر نے وشہ کو آگے بڑھنے کا اشارہ کرتے رابیل سے کہا۔۔
“وشہ۔۔۔ یہاں آئیں”۔۔
رابیل نے محبت سے اس پیاری سی لڑکی کو دیکھا ۔۔ ہاں جلابیب کی بیوی کو اتنی ہی خوبصورت ہونا چاہئیے تھا۔۔
“آپ بہت اچھی ہیں رابیل” ۔۔
اس نے محبت سے اسکے ہاتھ آنکھوں سے لگائے۔۔
“آپ مجھ سے بھی اچھی ہیں پیاری لڑکی”۔۔
اس نے پیار سے اسکے گالوں پر ہاتھ پھیرا۔۔
ریڈ اور وائٹ شرٹ اور ٹراؤزر میں وائٹ حجاب چہرے کے گرد لپیٹے آنکھوں کے گول گول چشمے لگائے رابیل کو وہ بہت معصوم لگی۔۔
“میرے لئے دعا کیجیے گا نا رابیل”۔۔
اس نے رابیل کا بےریا چہرہ دیکھتے ہوئے کہا۔۔
“خدا آپ کو دنیا کی ساری خوشیاں دے پیاری لڑکی۔۔ لیکن اپنے لئے دعا انسان کو خود مانگنا چاہئیے۔۔۔ اپنا سب سے بڑا وکیل انسان خود ہوتا ہے۔۔ اور وہ خدا تو منتظر ہی رہتا ہے بندا اس سے کچھ مانگے۔۔ اس سے دل کھول کر مانگا کریں وشہ۔۔ میں بھی آپ کے لئے دعا کرونگی”۔۔
وشہ نے نم آنکھوں سے اسکی جانب دیکھا۔۔ اسنے محبت سے رابیل کی پیشانی چومی۔۔
“رابیل حدید میں کچھ تو ایسی بات ہے اسے اتنی شدّت سے چاہا جائے” ۔۔
“بھیا جلابیب۔۔
اسنے اشعر کی جانب سوالیہ نظروں سے دیکھا۔۔
“تم ملنا چاہتی ہو”۔۔
اسکے کہنے پر وہ اثبات میں سر ہلاتا باہر کی جانب بڑھا۔۔
“کیسی ہیں رابیل؟ “۔۔
تھوڑی ہی دیر میں اسکی گمبھیر آواز پر اس نے دھیرے سے آنکھیں کھولیں۔۔
“کبھی کبھی میں سوچتی ہوں جلابیب کے میں نے کسی کے ساتھ کچھ برا نہیں کیا۔۔ مم مگر میں نے آپ کے ساتھ بہت برا کیا جلابیب۔۔ میں نے آپ کا دل دکھایا ہے۔۔۔ آپ نے مجھے معاف کر دیا نا جلابیب”۔۔
آنسوں تواتر سے اسکی آنکھوں سے گرتے تکیہ میں جذب ہو رہے تھے۔۔
“آپ کی محبت نے مجھے اللہ سے ملا دیا رابیل۔۔ جو محبت اللہ سے رابطہ کروا دے وہ کسی کا برا کیسے کر سکتی ہے”۔۔
اسنے اپنے مخصوص لہجے میں کہا تھا۔۔
بےاختیار اسکے چہرے پر مسکراہٹ ابھر آئ۔۔
دل سے جیسے بہت سا بوجھ یکدم جھٹک گیا تھا۔۔
“وشہ بہت اچھی ہے جلابیب۔۔ بہت معصوم۔۔ اور اور آپ سے بہت محبت کرتی ہے۔۔ بہت زیادہ”۔۔
اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔
“جانتا ہوں”۔۔
وہ طمانیت سے مسکرایا۔۔
“خدا آپ کو اپنی آمان میں رکھے۔۔ خوش رہیں”۔۔
میں انصر کو بھیجتا۔۔ ساری رات بہت پریشان رہا ہے وہ۔۔
وہ کہتا ہوا چلا گیا تھا۔۔۔ اسے سوچوں میں گھرا چھوڑ کر۔۔
______
وہ ہسپتال سے سیدھا گھر آیا تھا۔۔ اسے پورے گھر میں ڈھونڈنے کے بعد وہ سٹڈی میں آیا۔۔
وہ دونوں ہاتھ گھٹنوں کے گرد لپیٹے بری طرح رو رہی تھی۔۔
“وشہ”۔۔۔
وہ سرعت سے اسکے پاس آیا۔۔
“مم میں نے آپ کو بہت منگا جلابیب۔۔ آپ آپ مجھے نہیں ملے۔۔ آپ کو پانے کی چاہ میں مم میری نمازیں لمبی ہو گئیں۔۔ میری دعائوں کا دورانیہ بڑھ گیا۔۔ مم میرے سجدے لمبے ہو گئے۔۔ آپ تو کہتے ہیں اللہ مجھ سے بہت قریب ہے۔۔ پھر اس نے میری کیوں نہیں سنی۔۔ آپ کو حاصل کر کے بھی آپ میرے لئے لاحاصل ہی رہے”
وہ اسکے ہاتھوں پر سر رکھے پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی۔۔
جلابیب نے بڑھ کر اسکے آنسوں صاف کئے۔۔
“اپنے سجدے کبھی کسی کی چاہ میں لمبے نہیں کرتے وشہ۔۔ سجدے تو اللہ کی محبت میں لمبے کئے جاتے ہیں وشہ۔۔ اور وہ آپ کے قریب تو ہے دیکھیں۔۔ کیا آپ کی دعا مقبول نہیں ہوئی۔۔
“جانتی ہیں ہاتھ پکڑنے اور تھامنے میں بہت فرق ہوتا ہے۔۔ پکڑنے والے کی پکڑ چاہے کتنی ہی مضبوط کیوں نا ہو وقتی ہوتی ہے۔۔ جبکہ تھامنے والے تاحیات ہوتے ہیں۔۔ اللہ ہاتھ تھامتا ہے وشہ۔۔ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے”۔۔
اسنے اسکی پیشانی چومی۔۔۔
“وہ محبت دنیا کی بہترین محبت ہے جو آپ کو عشق کے معراج تک لے جائے” ۔۔
___________
رابیل۔ ۔
اسکی آواز پر اسنے اٹھ کر بیٹھنا چاہا۔۔
“میں بہت تھک گئی ہوں انصر۔۔ اس اس زندگی نے بہت تھکا دیا ہے مجھے”۔۔
“اس نے تڑپ کر اسے ساتھ لگایا ۔۔ اسکے آنسوں اسکے بالوں میں جذب ہو رہے تھے۔۔
“میں میں تھک گئی ہوں انصر۔۔ مجھے مجھے آپ کے اس وقتی سہارے کی ضرورت نہیں ہے۔۔ آآپ کے یہ وقتی سہارے مجھے توڑ دیتے ہیں انصر “۔۔
اس نے ہچکیوں کے درمیان کہا۔۔
“میں میں سمیٹ لونگا نا تمہیں۔۔ مجھے ضرورت ہے تمہاری۔۔ مجھے رابیل کی ضرورت ہے۔۔ فرشتے کو اپنی ماما کی ضرورت ہے رابیل”۔۔
اسنے اسکا رخ اپنی جانب کیا۔۔
جو بکھر گیا تیری یاد سے۔۔
جو بچھڑ گیا غمِ یار میں۔۔
وہ عشق تھا ممنوع۔ ۔
پھر خدا سے اس نے ملا دیا۔۔
غم سارے ہی سجدوں میں بہا دیا۔۔
وہ عشق وہ نہیں ہے آساں۔۔
وہ عشق جو نہیں ہے ممنوع۔ ۔
(لائبہ ناصر )
۔
محبت کی کہانی میں ہزاروں موڑ آتے ہیں
کبھی محسوس ہوتا ہے محبت دائمی سچ ہے
جسے بدلا نہیں جاتا، جسے روندا نہیں جاتا
جسے روح کے دریچوں سے پکارا جا توسکتا ہے
جسے ہرحال میں سچا سنایا جاتوسکتا ہے
یہ اک پُرکیف لذت ہے
یہ اک شعلہ بیانی ہے
یہ وہ دائمی سچ ہے
جسے محسوس کرنا ہے
جسے آنکھوں میں رکھنا ہے
جسے سانسوں میں بھرنا ہے
جسے کیونکر بدلنا ہے
اگر یہ گیت ایسا ہے، جسے لب کی تمنا ہے
جسے کانوں کوچھونا ہے
جسے مدھر تاروں پر،
اک آواز بننا ہے
تو پھر اے دل بریں میرے
اسے چھونا ضروری ہے، اسے سننا ضروری ہے
ہاں! اس لے میں،مجھ، تجھ، کو
کہیں بہنا ضروری ہے،کہیں اڑنا ضروری ہے
ضروری ہے کہ یہ سب رنگ
الفت سے بھی گہرے ہوں
جو نقش ہم، تم، میں ہیں جاناں!
محبت سے بھی گہرے ہوں۔۔۔۔۔۔
محبت۔۔۔۔ سے۔۔۔۔ بھی ۔۔۔۔گہرے۔۔۔۔ ہوں۔۔۔۔۔۔
(نعمان ساغر )۔۔
وہ وشہ کے ہمراہ اسٹیج پر بیٹھا۔۔ اسکی کسی بات پر مسکرا رہا تھا۔۔
بادامی رنگ کی میکسی پہنے برائیڈل میک اپ میں بڑی بڑی آنکھیں پھیلائے دلہن بنی نان اسٹاپ بول رہی تھی۔۔ ہاں وہ وشہ حسن تھی۔۔
اس نے آنکھ بھر کر اسے دیکھا۔۔ نہیں وہ وشہ جلابیب تھی۔۔
“بہت مبارک ہو پیاری لڑکی”۔۔
فرشتے کو گود میں اٹھائے وہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی۔۔ وشہ کے پاس آئی۔۔
“آپ بہت پیاری لگ رہی ہیں رابیل آپی۔۔ اور فرشتے کو دیکھیں۔۔ یہ یہ کتنی پیاری لگ رہی ہے”۔۔
اسنے وائٹ فروک میں ملبوس۔۔ گول مٹول سی فرشتے کو پیار کیا۔۔
“کیا خیال ہے بیگم کل چلیں کراچی پھر “۔۔
“جی نہیں۔۔ میں اور فشے تو ابھی ماما کے پاس رہینگے”۔۔
اسنے مسکراتے ہوئے فرشتے کے گال چومے۔۔ جو اپنی آنکھیں پٹپٹا رہی تھی۔۔ انصر نے پیار سے انکی جانب دیکھا۔۔
کہیں دور گگن کا چاند بھی مسکرا اٹھا۔۔
“بےشک خدا چاہے تو ادھورے قصے بھی یوں ہی مکمّل کر دیتا ہے”۔۔
____
اوپر والے نے ہر چیز ہمارے لئے نہیں رکھی ہوتی۔۔ ضروری نہیں کہ زندگی میں وہ ساری چیزیں جنکی ہم چاہ کریں وہ اللہ نے سب ہمارے لئے ہی رکھی ہوں۔۔ مگر خدا نے ہمارے لئے بھی بہتر نہیں بہترین رکھا ہوتا ہے۔۔ جو آپ کو میسر ہوں انکی قدر کریں۔۔
_____