رات کے وقت صدف کے کمرے میں بچہ پارٹی کی گرلز بیٹھیں فیشن کے موضوع پہ بات کر رہیں تھیں کہ بیٹھے بیٹھے صدف کو تجربہ کرنے کی سوجھی وہ میک اپ میں کافی ایکسپرٹ تھی اور اس کے ہاتھ میں صفائی بھی تھی۔ بس پھرکیا تھا برائیڈل میک اپ کا ایک ٹیو ٹوریل چلاکر اس نے امبر کا برائیڈل میک اپ کرڈالا۔ اپنے جیولری باکس میں سے سب سے ہیوی جیولری نکال کر اسے پہنادی لال دوپٹہ بھی اس کے سر پر ڈال دیا امبر واقعی حسین لگ رہی تھی فوراً ہی ماہم نے کیف کو ٹیکسٹ کیا۔
’’آپکی دلہن تیار ہے جلدی سے صدف کے کمرے میں آجائیں‘‘وہ میسج پڑھ کے کیف کو الجھن سی ہوئی وہ اب واضح طور پر ماہم کو سمجھانا چاہتا تھا کہ وہ اس کے اور امبر کے بارے میں خیالی پلاؤ پکانا بند کرے اس نے جواب میں لکھا چھت پر آؤ کچھ بات کرنی ہے ماہم ٹیکسٹ پڑھ کر سمجھ گئی کہ امبر کے بارے میں بات کرنی ہے وہ فوراً سے چھت کی طرف بھاگی۔ ہلکی ہلکی مدہوش کردینے والی ہوا چل رہی تھی آسمان پر چودھویں کاچاند بے حد خوبصورت لگ رہا تھا یوں لگ رہا تھا جیسے آس پاس کی ہرشے چاندنی میں نہاگئی ہو ستاروں سے بھرا آسمان ایسے لگ رہا تھا جیسے کسی شفاف سے کپڑے پر کسی نے کہکشاں بکھیردی ہو۔
وہ اسی حسین منظر سے لطف اندوز ہوتی کیف کا انتظار کرنے لگی ۔
اس نے فروزی کرتا اور جینز پہن رکھی تھی بال ہمیشہ کی طرح ہلکی چوٹی میں گوندھ رکھے تھے چہرے کے آس پاس کچھ آوارہ لٹیں ہوا سے لہرانے لگتیں وہ چاند کو دیکھتے دیکھتے چہل قدمی کرنے لگی انتظار کرتے کرتے تھک کر وہ فرش پر ہی بیٹھ گئی اور
اپنے سیل فون میں نصرت فتح علی کی غزلیں پلے کردیں۔
کیف جلد ہی چھت پر آگیا سیل فون پہ استاد نصرت کا گانا’’آفریں آفریں”چل رہا تھا کیف اس کے پاس ہی بیٹھ گیا اپنی نیلی آنکھوں سے اسے دیکھنے لگا۔ماہم نے اس سے بات کرنے کے لیئے غزل بند کردی۔
’’چلنے دو سن کے دل کو سرور سا ملتا ہے‘‘
اس نے غزل دوبارہ پلے کردی۔
’’کتنا پیارا لگ رہا ہے چاند اور کتنے حسین لگ رہے ہیں یہ تارے دل تو چاہ رہا ہے میں انہی کی دنیا میں جاپہنچوں انہی میں کھوجاؤں انہی میں بس جاؤں‘‘وہ آسمان کی جانب دیکھتے ہوئے بولی ۔
(اور میرا دل چاہ رہا ہے کہ تمہارے دل کی دنیا میں جاپہنچوں تم ہی میں کھوجاؤں تم ہی میں بس جاؤں)وہ بس سوچ کر ہی رہ گیا.اس کا دل چاہا کہ وہ ماہم کا ہاتھ تھام لے ہمیشہ ہمیشہ کے لیئے۔اس کے دل نے کہا کہ کاش یہ وقت یہیں رک جائے یہ پل یہیں تھم جائیں۔ماہم آسمان میں کھوئی ہوئی تھی اور وہ اس میں ڈوبنے لگا تھا۔
’’کیسی لگ رہی تھی امبر؟آپ تو دیکھتے ہی لٹو ہوگئے ہوں گے ہے نا‘‘وہ آسمان کے سحر سے نکل کر اب اس پہ نظریں ڈالے شریر سے انداز میں بولی کیف پر چڑھا سرور ہوا ہوگیا”تمہیں واقعی ہی بتاؤں کہ کیسی لگ رہی تھی”اسے کچھ سوجھا تھا۔
’’بتائیں ناجلدی پوچھ تو رہی ہوں ‘‘وہ متجسس ہوئی
’’وہ مجھے اس دنیا کی سب سے حسین دلہن لگی جنت سے اتری کسی حور کی طرح لگی معصومیت بھی جس کے آگے پھیکی پڑجائے وہ مجھے ایسی معصوم لگی وہ مجھے پھولوں میں سے سب سے حسین کنول کے جیسی لگی تاروں میں سب سے روشن زہرہ کے جیسی لگی ہیروں میں سب سے قیمتی کوہ نور کے جیسی لگی وہ مجھے”بس بس بس سمجھ گئی میں کہ کیسی لگی”وہ بات کاٹ کر بولی تھی اسے کچھ برا سا لگا تھا کچھ جلن ٹائپ سی ہوئی تھی جس سے وہ خود بھی انجان ہی تھی کیف کو اس کا یہ چہرہ دیکھ کر بڑا مزہ آرہا تھا وہ ابھی مزید مزے لینے کے لیئے بولا”ابھی نہیں سمجھی تم تھوڑا اور سمجھانے دو وہ مجھے”
’’میں نے کہا نا سمجھ گئی ہوں تو مطلب سمجھ گئی ہوں”انداز میں کچھ چڑچڑا پن تھا۔
’’چلو سمجھ ہی گئی ہو تو اچھی بات ہے لیکن مزے کی بات تو یہ ہے کہ اس کی ناک بھی چھوٹی نہیں ہے”وہ اب چڑا رہا تھا۔
’’جنگی جہاز جیسی تو ناک ہے اسکی”اس نے جل کر کہا تھا اسے کیوں جلن ہورہی ہے یہ و ہ خود بھی سمجھ نہیں پارہی تھی۔اس کے اس انداز سے کیف خوب لطف اندوز ہورہا تھا اسے ماہم کا یوں جل بھن جانا بڑا ہی کیوٹ لگ رہا تھا۔
’’ کچھ لوگوں کی ناک نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے اس لیے انہیں کیوٹ سی ناک بھی جنگی جہاز لگتی ہے تمہیں ابھی صحیح سے اس کی خوبصورتی کا اندازہ نہیں ہوا میں بتاتا ہوں تمہیں ‘‘وہ آیا تو ماہم کوسمجھانے کے لیے تھا کہ وہ امبر کے نام سے اسے ستانا چھوڑدے پر یہاں آنے کے بعد وہ اسی کو امبر کے نام سے ستانے لگا تھا۔
’’اب جو بتانا ہے اپنی امی کو بتائیے گا تاکہ وہ اس کا ہاتھ مانگنے کے لیئے راضی ہوجائیں”وہ اٹھ کر جاتے ہوئے بولی ۔
وہ جاچکی تھی اور کیف وہیں مسکراتا رہا
“تم دونوں پھر سے چھت پر اکیلے تھے کیا”سعد نے کیف کو اکیلا دیکھ کر بات چلائی
’’ہاں تو‘‘انداز لاپرواہ تھا۔
’’تمہاری ذاتی زندگی میں دخل دے رہا ہوں اس کے لیے معذرت لیکن باحیثیت دوست تمہیں ہر بات سے آگاہ کرنا اور سمجھانا میرا فرض ہے میں پہلے بھی تمہیں بتاچکا ہوں کہ سب تم لوگوں کے بارے میں جانے کیا کیا سوچ رہے ہیں آج پھر سب کل رات تم دونوں کے اکیلے چھت پر رہنے کو بڑھا چڑھا کے ایک دوسرے سے ڈسکس کررہے تھے”
’’میں اسے اگنور کرنے کی کوشش میں ہی تھا اس سے ملنے کے پیچھے مقصد بھی کچھ اور تھا مگر جانے دو۔انجانے میں ہی سہی مجھ سے غلطی ہوئی ہے پر میں آئندہ محتاط رہونگا وہ اب پریشان ہوچکا تھا۔
سعد نے اس کا کندھا تھپتھپایا اور چلاگیا۔کیف اپنا ماتھا مسلنے لگا اسے ماہم سے بات کرنا ہی ہوگی جب تک وہ خود اسے اگنور نہیں کرنے لگے گی تب تک جانے انجانے میں وہ سب کی نظر میں آتے رہیں گے
وہ صدف کے کمرے میں ڈریسنگ ٹیبل کے آگے اپنے کالے لمبے بال سلجھارہی تھی ۔اس نے جامنی کلر کا شلوار سوٹ پہنا تھا جو اس پہ بہت جچ رہا تھا۔
دروازے پر کیف نے آکر کھنکارا
’’ارے آپ”وہ دروازے کے قریب جاکر بولی”کچھ ضروری بات کرنی ہے تم سے”وہ اپنا ماتھا اپنی شہادت کی انگلی سے کھجاتے ہوئے بولا”کہیں نا‘‘
’’ماہم آج سے ہم لوگ کم بات کیا کریں گے بلکہ نہ ہی کریں تو اچھا ہے تم مجھے غلط مت سمجھنا تم میری بیسٹ کزن ہو پر اب ہم ایک دوسرے سے دور رہا کریں گے”واہ ابھی تو دلہن ملی نہیں کے کزنز بھول گئیں؟ میں نے تو امبر اس لیئے دکھائی تھی کہ کوئی اور آپ کو مجھ سے دور نہ کردے”ماہم نے روٹھے لہجے میں کہا۔وہ یہاں اسے سمجھانے آیا تھا پر وہ اپنی ہی سوچی جارہی تھی
’’اب یہ امبر کہاں سے آگئی۔حد ہوتی ہے ماہم کبھی تو بات کو سمجھا کروْ میں تم سے ہماری بات کررہا ہوں تمہاری اور میری بات کررہا ہوں کہ ہماری فرینکنس کا سب غلط مطلب نکال رہے ہیں۔ سب کو لگتا ہے کہ ہمارا چکر چل رہا ہے اس لیئے میں تمہیں سمجھانے آیا ہوں کہ اب ہم ایک دوسرے کو اگنور کریں گے خاص کرتب جب سب بیٹھے ہوں میں جانتا ہوں تمہیں میرے منہ سے یہ سن کر بہت عجیب لگ رہا ہے پر یہی سچ ہے”
“یہ کیسے ممکن ہے میں تو آپکی عزت کرتی ہوں سب جانتے ہیں ایسا کچھ نہیں پھر کیوں؟اسے شاک لگا۔
’’ماہم لوگ ویلے ہیں اور ہمارے ہاں تو رواج ہی یہی ہے دوسروں کی زندگی میں دخل دینا اور دوسروں پر باتیں کرنا۔میں نہیں چاہتا کہ تم پر کوئی فضول بات کرے اور تم تو خاص طور پر ڈرو کیونکہ تم پہلے ہی اپنے ماضی کی وجہ سے بدنام ہو”وہ بول تو بیٹھا لیکن اسے فوراً احساس ہوگیا کے وہ غلط بول بیٹھا ہے ۔
ماہم پہ بجلی گرچکی تھی وہ شکستہ حال سی بولی”جو ہوا اس میں میرا کیا قصور تھا ؟کیف کے کچھ کہنے سے پہلے ہی وہ کمرے سے چلی گئی
ماہم صدف کے کمرے میں آنسو بہا رہی تھی۔کیف دونوں ماموں کے ساتھ سیاست پر تبصرہ کر رہا تھا۔
’’ہواؤں کا رخ بدلا بدلا سا ہے ‘‘۔ احسن بولا تھا۔
’’کن ہواؤں کا‘‘۔سعد بولا تھا۔
’’کیف اور ماہم کا بریک اپ ہوگیا ‘‘۔احسن نے چائے کا سپ لیا۔
’’اوہ مائی گاڈ ….ناٹ اگین‘‘۔سعد کو کوفت ہوئی ۔
’’سعد بھائی …احسن کی بات میں دم تو ہے ….کچھ تو گڑبڑ ہے …1,2دن سے وہ دونوں بات تو دور ایک دوسرے کی طرف دیکھتے بھی نہیں ‘‘ صدف نے کہا۔
’’exactly اس وقت بھی ماہم شاید یہ سوچ کر لان میں ہمارے سا تھ نہیں آئی کہ کیف یہاں ہوگا….اور کیف بھی یہی سوچ کر نہیں آیا ہوگا کہ ماہم یہاں ہوگی ‘‘۔ امبر بولی ۔
سعد نے اپنے دونوں ہاتھ ہوا میں کیئے …’’کمال ہے ‘‘۔ہاتھ نیچے کرکے بولا۔”what the hell yaar وہ ساتھ ہوں تب بھی مسئلہ ….نہ ہوں تب بھی مسئلہ۔تم سب چاہتے کیا ہو؟‘‘۔سعد نے کچھ چڑکر کہا۔
’’nothing ہم تو بس یونہی ڈسکس کر رہے تھے ‘‘۔ امبر نے صفائی پیش کی۔
’’ایسی ڈسکشن کا کیا فائدہ جس سے کسی کے کردار پر کیچڑ اچھالا جائے ۔اول تو ایسا کچھ ہے نہیں…اگر ہوتا بھی تو وہ ہمارے کزنز ہیں …ہمیں بات پہ پردہ ڈالنا چاہیے تھا نہ کہ اچھالنا‘‘۔ سعد نے اپنی سوچ بتائی ۔
’’leave this topic guys ہم کیوں بے وجہ بحث کریں ۔ کچھ کھیلتے ہیں ‘‘۔صدف نے بات کو بدلنا چاہ۔ سب نے اثبات میں سرہلا دیا۔
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
ماہم اور کیف نے ایک دوسرے کو مسلسل اگنور کیاتھا ۔خالہ ندا اور ماموں صفدر وغیرہ چلے گئے تھے ۔ ماہم بھی جانا چاہتی تھی پر صدف نے زبردستی اپنی دوستی کے واسطے دیکر کچھ دن مزید روک لیا۔کیف بھی وہاں ہی تھا۔اب گھر میں بس سعد،صدف ،ٖکیف اور ماہم ہی بچے تھے ۔کیف اب ماہم سے معافی مانگنے کا موقع ڈھوندنے لگا تھا۔ اسے اپنے الفاظ کا بہت پچھتاوا تھا۔ جب تک ماموں صفدر اورخالہ ندا وغیرہ تھے اس نے معافی مانگنے کی کوشش نہیں کی صرف اس غرض سے کہ کہیں پھر انہیں اکیلا دیکھ کر کوئی ایشو نہ بنادے۔پر اب وہ آسانی سے معافی مانگ سکتا تھا بس ایک موقع ملنے کی دیر تھی جو ماہم اسے دے ہی نہیں رہی تھی۔کیف جس جگہ آتا …وہ وہاں سے چلی جاتی ۔
ٓٓآخرکیف نے سوچا کہ معافی تو وہ مانگ کر ہی رہیگا چاہے زبردستی ہی کیوں نا مانگنی پڑے ۔وہ صدف کے کمرے میں چلاگیا جہاں ماہم اور صدف دونوں گپیں مارنے میں مصروف تھیں ۔ اسے کمرے میں آتا دیکھ ماہم وہاں سے فوراً كھسکی
’’نہیں نہیں ماہم…تم پلیز میرے لیئے چائے بنانے مت جاؤ…مجھے تمہارے ہاتھ کی چائے پسند نہیں ‘‘۔کیف بولا اور وہ حیران سی ہوکر اسے دیکھنے لگی۔
’’کون سی چائے ؟ کیسی چائے ‘‘۔اسی حیران تاثر میں بولی۔
’’میں یہاں صدف کو چائے کا کہنے آیا تھا…تم جارہی تھی تو مجھے لگا تم جان گئی ہوکہ میری چائے کا ٹائم ہوگیا ہے اور تم چائے بنانے جارہی ہو…ویل اٹس اوکے ‘‘اس نے کندھے اچکائے ماہم بغیر جواب دیئے جانے لگی”ارے تم بیٹھو میں نے کہا نا مجھے صدف کے ہاتھ کی چائے پسند ہے کیا کمال چائے بناتی ہے صدف اب ہر کوئی تو ویسی نہیں بناسکتا تم بس بیٹھو یہاں صدف تم جاکر چائے بنالاؤ ‘‘اس نے ہوشیاری دکھائی ۔وہ اب ہاتھ باندھے اسے گھورنے لگی صدف اپنی تعریف سن کے پھولے نا سمائی اور بھاگی گئی چائے بنانے”گھورو مت تم سے کچھ کہنا ہے ‘‘کیف نے کہا۔وہ بے تاثر چہرہ لیئے وہ جو جارہی تھی اچانک سے رک گئی ۔کیف نے اس کا ہاتھ تھاما تھا۔اس نے مڑکر نہیں دیکھا یونہی اس کی طرف پیٹھ کیئے ہاتھ چھڑانے کی کوشش کرنے لگی”میرا مطلب وہ نہیں تھا ماہم جو تم سمجھی میرے الفاظ کا چناؤ غلط تھا مگر میری نیت میں کوئی کھوٹ نہیں تھا دراصل میں تو تمہیں لوگوں کی فضول باتوں سے بچانا چاہتا تھا‘‘وہ جو ہاتھ چھڑانے کی جدوجہد میں تھی اب اپنی کوشش چھوڑ چکی تھی۔کیف سمجھ گیا کہ اب وہ اس کی بات سننے کے لیئے تیار ہے ۔اس نے ماہم کا ہاتھ چھوڑدیا۔وہ اب بھی نہیں مڑی تھی پر وہاں سے گئی بھی نہیں تھی ۔وہ نامحسوس انداز میں اپنی آنکھوں میں آئی نمی صاف کرنے لگی”میں تمہیں دل سے معصوم جانتا ہوں اور یہ بھی معلوم ہے کہ میرے الفاظ سے تمہیں بہت تکلیف ہوئی ہے تم اس کے لیئے جو چاہے سزا دے لو”وہ واقعی بہت شرمندہ تھا وہ خاموش ہی رہی”اچھا چاہے کچھ مت کہو ایک دفعہ پیچھے مڑکر دیکھ لو‘‘لہجہ التجائیہ تھا وہ مڑی اور بے اختیار مسکرادی وہ اسکے سامنے اپنے دونوں کان پکڑے کھڑا تھا…