ستارے گر بتا دیتے، سفر کتنا کٹھن ہو گا”
“پیالے شہد کے پیتے تلغ ایام سے پہلے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج اس ہوسٹل میں آۓ اسے دو سال ہو گۓ تھے۔
گھر سے ھوسٹل تک کا یہ سفر بہت ہی اذیت ناک تھا اس کے لیے۔۔۔۔
وہ یعنی باصفا رحمان اپنے مما پاپا کی بے حد لاڈلی بیٹی تھی۔
ماضی کی یادیں ہی اس کا واحد سرمایہ تھیں۔۔۔
آج بھی اپنے ماضی کو سوچتے اسکی شہد رنگ آنکھوں میں
کانچ کی سی چبھن تھی۔۔۔
بچپن کے وہ حسین دن کسی خواب کی لگتے۔
باصفا اور ھمزہ دو ھی بہن بھائی تھے۔
شگفتہ اور رحمان کی آنکھوں کی ٹھنڈک۔
چونکہ اسکے والدین کی پسند کی شادی تھی
اسلۓ ان کے گھر والوں نے انھیں گھر سے نکال دیا تھا۔
اپنے دھدیال کے بارے میں وہ بس اتنا ہی جانتی تھی کہ اسکے بابا کے ایک
بھائی اور ایک بہن تھی۔
چونکہ والدین کا انتقال انکے بچپن میں ہی ہو گیا تھا
اس لیے بھابی اور بھائی نے ہی انھیں پالا تھا۔۔۔
وہ لوگ کون تھے کدھر رہتے تھے اسے کچھ علم نہیں تھا
اور نا ہی گھر والوں نے کبھی اسکے سامنے انکا ذکر کیا تھا۔۔۔۔
اور ننھیال میں امی چونکہ اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھیں اور والد کا انتقال
ہو چکا تھا۔ اس لیے آنی نے انھیں معاف کر دیا تھا۔
آنی ان کے ساتھ ہی رہتی تھیں پھر انکا بھی انتقال ہو گیا
تو ان کی زندگی میں کسی تیسرے کی کوئی گنجائش نا رہی۔۔۔
وہ چونکہ ھمزہ سے بارہ سال چھوٹی تھی
اس لیۓ اپنی مما اور بابا دونوں کی آنکھوں کا تارہ تھی۔
ھمزہ چونکہ اپنے والدین کی توجہ کا عادی تھا
اس لیے اسے یہ تبدیلی پسند نہیں آئی۔
اسے اس بات سے چڑ ہوتی کہ اسکے والدین اس کی چھوٹی بہن کو کیوں پیار کرتے ہیں۔۔۔
اسے یہ توجہ بٹنا پسند نا آیا ایسے اُسے باصفا سے بھی چڑ ہو گئی۔
لیکن شگفتہ اور رحمان نے اس بات پہ زیادہ توجہ نا دی کہ وقت کے ساتھ
ساتھ سنبھل جاۓ گا۔۔۔
مگر باصفا کے دل میں اپنے بڑے بھائی کے لۓ بہت پیاراور عزت تھی۔
وہ اسکی توجہ حاصل کرنے کی بیت کوشش کرتی مگر سب بے سد۔
جب وہ چھوٹی تھی تب اسے سمجھ نہیں آتا تھا مگر جب وہ بڑی ہوئی بھائی کا رویہ
بہت کچھ باور کرا گیا۔یوں وہ ہمیشہ اس سے فاصلے پر ہی رہی۔۔۔
جب وہ اپنی سہیلیوں سے اپنے بھائیوں کے قصے سنتی تو اسکا بھی
دل چاہتا اسکا بھائی بھی اسے آئس کریم کھلانے لے کے جاۓ۔۔
اس کے لیے چاکلیٹ لاۓ مگر خیر وقت کے ساتھ وہ سنبھل گئی۔
اور اس میں زیادہ ہاتھ اس کے بابا کا تھا۔
جنھوں نے بھائی کی کمی کو پورا کیا تھا۔
وہ اسکے دوست،بھائی بابا سب کچھ تھے۔۔۔
World’s best baba…
وہ اپنے دل کی ہر بات اپنے بابا سے کرتی تھی۔
اسی طرح وقت گزرتا گیا اور وہ بھی بڑی ہو گئی۔۔۔۔۔
بھائی نے بھی اسٹدی کمپلیٹ کر کے بابا بزنس جوائن کر لیا۔
رحمان صاحب کی لیدر کی فیکٹری تھی۔
جو انہوں نے اپنی انتھک محنت سے بنائی تھی۔
گھر سے نکالے جانے کے بعد انہوں نے بہت سی مشقلات کا سامنا کیا تھا۔
پھر انہوں نے نئے سرے سے زندگی کا آغاز کیا۔
چونکہ پڑھے لکھے تھے لہٰزا کچھ دوستوں کے ساتھ مل کر کاروبار کیا جس میں آللہ نے انہیں خوب ترقی دی۔
اور آج بلا شرکت غیر پوری فیکٹری کے مالک تھے
وہ سب اپنی زندگی بہت خوش اور متمئن تھے۔ سب کچھ ٹھیک تھا۔
مگر پھر اچانک اسکی زندگی میں جو طوفان آیا وہ اسکی سارے خوشیاں اپنے ساتھ بہا لے گیا
وہ دن اسے آج بھی یاد تھا۔ وہ چھٹی کا دن تھا جب مما اور بابا گروسری کا سامان لینے گۓ تھےمگر واپسی پے انکا اس قدر شدید ایکسیڈینٹ ہوا کہ وہ دونو ں ہی اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔۔۔۔
وہ دونوں کیا اس دنیا سے گئے یوں لگا اسکا سب کچھ ہی چھن گیا ہو
اسکی خوشیاں بھی اسی ہی رخصت ہو گئیں تھیں۔
اسکی دنیا میں اسکے مما بابا کے علاوہ کوئی تھا ہی نہیں۔
وہ تو اسکی کل کائنات تھے۔اور اب وہ بھری دنیا میں اکیلی رہ گئی تھی.بلکل تنہا۔
دنیا والوں کے وار سہنے کے لئے۔ اسے انکی کمی شدت سے محسوس ہو رہی تھی۔
وہ سکول سے آنے کے بعد اپنی کمرے میں ہی رہتی. اور انہیں یاد کرکے روتی رہتی۔
سکول میں بھی اسکی کسی سے خاص دوستی نہ تھی۔
بھائی اپنے ہی کاموں میں مصروف رہتے۔
گھر میں بھی ملازم تھے تو اس پہ کوئی ذمہ داری نہ تھی۔
خیر وقت کا کام ہوتا ہے گزرنا وہ چاہے جیسا بھی ہو اچھا یا برا گزر ہی جاتا ہے۔
اس نے اپنا میٹرک کمپلیٹ کیا اور کالج میں داخلہ لے لیا۔
وہ بہت ذہین اسٹوڈنٹ تھی میٹرک اسنے سائینس کے ساتھ کیا۔
اسے ڈاکٹر بننے کا بہت شوق تھا۔ مگر مما بابا کے جانے کے بعد اسنے سائنس چھوڑی اور آرٹس رکھ لی۔
وہ شروع سے ہی تنہا رہنے والی لڑکی تھی اور بہت جلد گھبرا جاتی تھی۔
کتنے ہی ماہ لگے اسے ایڈجسٹ ہونے میں۔ یہاں بھی وہ تنہا اور الگ الگ ہی رہتی تھی۔۔۔
چھ ماہ ہونے کو آۓ تھے اسے کالج آتے ہوئے مگر ابھی تک اس کی کسی سے کوئی خاص دوستی نہیں ہوئی تھی۔
وہ سادہ طبیعت تنہا رہنے والی لڑکی تھی اور نہ ہی اسے لوگوں کی پہچان تھی۔
اتنا بڑا کالج مختلف لڑکیاں اور باتیں۔ ایسے میں حیا تھی جس نے اسکی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا۔
شروع میں تو وہ اس سے بھی فاصلے سے ہی ملتی۔ اگر کبھی بات چیت ہوئی بھی تو صرف پڑھائی پر ہی۔
مگر حیا اسکے رویے سے بیزار ہو کر دور نہیں ہٹی۔اور یوں انکی دوستی گہری ہو گئی۔
وہ ایک بہت ریچ فیملی سے تھی اور اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھی۔
مگر بہت بولڈ اور کانفیڈنٹ تھی۔ حیا اس سے بلکل مختلف تھی۔ اسکا اسٹائل،اسکی باتیں،اسکا انداز باصفا سے بلکل مختلف تھا۔
اور جو بات باصفا کیلئے زیادہ حیرت کا بائث تھی وہ تھی اسکی لڑکوں سے دوستی۔
وہ اپنے کزنز سے بھی بہت فرینک تھی۔ جبکہ باصفا تو کڑکیوں سے بات کرتے ہوئے اکثر گھبرا جاتی تھی۔۔۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...