(Last Updated On: )
شہریار آفریدی نے لاء کیا ہوا تھا۔ وہ ایک جانا پہچانا وکیل تھا۔۔ آج تک اس نے جتنے بھی کیسز لیۓ تھے, جیت اس کا مقدر رہی تھی۔۔۔ اسے کوئ بھی نہیں ہرا سکا تھا۔۔۔ اس کے بابا کمال آفریدی کا پراپرٹی کا بزنس تھا, ممی رئیسہ شہروز سوشل ورکر تھیں اور بھائ عباد آفریدی سول انجینئر تھا۔ ہر کوئ اپنے کام میں اس قدر مگن رہتا کہ صرف سنڈے کو سب مل کر ناشتہ کرتے۔۔۔
*—————————*
مس جویریہ کا لیکچر شروع تھا۔۔ رانیہ اپنے نوٹس بنا رہی تھی۔۔۔۔
“اے ایمان والو اپنے گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں داخل نہ ہوا کرو جب تک کہ گھر والوں کی رضا نہ ہو۔” (النور ۲٧)
ذمانہ جاہلیت میں لوگ ایک دوسرے کے گھروں میں صبح بخیر, شام بخیر کرتے ہوۓ بے تکلف گھس جاتے تھے۔ کبھی کبھی تو ان گھروں کی عورتوں پر بھی نگاہ پڑ جاتی تھی جس سے شہوانیت پھیلنے کا خطرہ تھا۔ کسی بھی شخص کو کسی دوسرے کے گھر میں بلا اجازت نہیں گھسنا چاہیۓ بلکہ پہلے اجاذت طلب کرنی چاہیۓ۔ اگر تین مرتبہ اجازت طلب کرنے پر بھی اجازت نہ ملے یا گھر والے ملنے سے انکار کر دیں تو واپس ہو جانا چاہیۓ۔ دینِ اسلام نے کسی کے گھر میں جھانکنا بھی ممنوع کیا ہے۔
“میڈم کیا ایک انسان کو اپنی ماں, بہن کے پاس جانے کے لیۓ بھی اجازت طلب کرنی چاہیۓ۔۔؟”
“بہت اچھا پوائنٹ اٹھایا رانیہ آپ نے۔ آپ کے سوال کا جواب بھی یہی ہے کہ بلا اجازت اپنی ماں, بہن کے کمروں میں بھی نہیں جانا چاہیۓ۔ کیا معلوم وہ کس حالت میں ہوں۔ کوئ بھی انسان اپنی ماں, بہن کو برہنہ نہیں دیکھنا چاہے گا۔۔ حتیٰ کہ اپنی بیوی کے پاس بھی کوئ جاۓ تو کم از کم گلا کھنکار لیا کرے تا کہ اسے اپنے خاوند کے آنے کا علم ہو جاۓ۔۔
“میڈم اگر کوئ ایمرجنسی ہو جاۓ تو اس کے لیۓ کیا حکم ہے ۔؟؟” کلاس میں بیٹھی مصباح نے سوال کیا۔
“بیٹا ایمرجنسی تو ایک الگ کیس ہے۔۔ اگر کہیں آگ لگ جاۓ, کوئ خون خرابہ ہو جاۓ یا اسی طرح کا کوئ مسئلہ ہو تو اس سیچیوشن میں اجازت کی ضرورت نہیں پڑتی۔” مس جویریہ نے اطمینان سے جواب دیا۔
*————————-*
رامش نے پہلے سے ہی ٹیبل بک کروا لیا تھا۔ رمشا کو ساتھ لیۓ وہ اپنی ٹیبل پر آ گیا۔ آرڈر دینے کے بعد کافی دیر تک ان دونوں میں خاموشی چھائ رہی۔ رامش نے خاموشی کو توڑا۔۔
“رمشا تمہاری سٹڈیز کیسی جا رہی ہے۔۔۔۔؟”
“ابھی تک تو کچھ خاص نہیں ہوا۔۔۔۔ مجھے کچھ خاص ہونے کا بے صبری سے انتظار ہے۔۔۔” رمشا نے کلچ سے موبائیل نکالتے ہوۓ کہا۔
“یہ سب تم آنٹی سے نہ کہہ دینا۔ وہ اس خاص کو کچھ اور ہی سمجھ لیں گی۔۔۔” رامش نے ٹیبل پر اپنے ہاتھ رکھ دیۓ۔۔
“کیا مطلب ہے رامش اس سب سے۔۔۔؟؟” رمشا اپنا موبائیل واپس رکھتے ہوۓ بولی۔
“آنٹی ہماری منگنی کا سوچ رہی ہیں۔۔۔ میں نے انھیں ٹال دیا ہے مگر ذیادہ ٹائم نہیں لگائیں گی ۔۔۔” رامش نے مشال کی آنکھوں میں دیکھتے ہوۓ کہا۔۔
“ممی ایسا سوچ بھی کیسے سکتی ہیں رامش۔۔۔ ایسا کبھی نہیں ہو گا۔۔ ” مشال کو اپنے آپ پر یقین تھا کہ جلد یا بدیر وہ ممی کو سمجھا دے گی۔۔۔۔
ویٹر نے کھانا سرو کر دیا تھا۔۔۔۔ اس کے بعد ان دونوں میں کوئ بات نہیں ہوئ۔۔۔ دونوں نے خاموشی سے کھانا کھایا اور واپسی کے لیۓ قدم بڑھاۓ۔۔۔ کچھ ہی دیر میں وہ دونوں آفندی ہاؤس پہنچ گۓ۔۔۔
*———————
“اے نبی! مومن مردوں سے کہو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کہ حفاظت کریں” (النور ٣۰)
میڈم جویریہ نے بورڈ پر یہ آیت لکھی اور کلاس کی طرف متوجہ ہوئیں۔
“آج ہم بات کریں گے غضِ بصر کے بارے میں۔۔۔۔ عام طور پر غضِ بصر کا مطلب نگاہ نیچی کرنا ہے۔ اس سے یہ ہر گز مراد نہیں کہ آدمی ہر وقت نیچے ہی دیکھتا رہے بلکہ ایک آدمی کو چاہیۓ کہ وہ نگاہوں کو بالکل آذاد نہ چھوڑے۔ جس چیز کو دیکھنا مناسب نہ ہو, اس سے نظر ہٹا لینی چاہیۓ۔ ایک مرد کو اپنی بیوی یا محرم خواتین کے علاوہ کسی کو بھی نگاہ بھر کر نہیں دیکھنا چاہیۓ۔ پہلی نظر پڑ جانا تو معاف ہے مگر دوسری مرتبہ نظر دوڑانا جائز فعل نہیں۔
کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ اگر عورت پردے میں ہو گی تو اس حکم کی ضرورت نہیں مگر یہ غلط ہے کیونکہ بعض اوقات ایسا موقع آ جاتا ہے کہ ایک عورت کا سامنا کسی مرد سے ہو جاۓ اور نظر مل جاۓ۔ حجاب کا حکم تو سورہ احزاب میں ناذل ہوا۔ ویسے بھی غیر مسلم خواتین تو ہر معاشرے میں ہوتی ہیں اور وہ بے پردہ ہوتی ہیں۔
اگر ایک آدمی کسی عورت سے نکاح کرنا چاہتا ہے تو وہ اسے دیکھ سکتا ہے, اس میں کوئ گناہ نہیں۔ بعض فقہاء کے مطابق ایک اور صورت میں بھی عورت کو دیکھا جا سکتا ہے: عدالت میں گواہی کے موقع پر, علاج کے لیۓ یا تفتیش کے سلسلے میں۔
اس آیت میں ایک اور چیز کا ذکر ہے شرمگاہوں کی حفاظت کرنا۔ ایک انسان کو اپنے ستر کو دوسروں کے سامنے نہیں کھولنا چاہیۓ۔ مرد کے لیۓ ستر کی حدود ناف سے گھٹنے تک مقرر ہے۔ صرف دوسروں کے سامنے نہیں بلکہ تنہائ میں بھی اپنے ستر کو چھپا کر رکھنا چاہیۓ کیونکہ اللہ اس بات کا ذیادہ حقدار ہے کہ اُس سے شرم کی جاۓ۔”
“میڈم عورت کو اپنی نظر کی حفاظت کیسے کرنی چاہیۓ۔؟؟”
فرنٹ رَو میں بیٹھی رانیہ نے سوال کیا۔
“اس سے اگلی آیت میں ہی آپ کے سوال کا جواب ہے جسے ہم نیکسٹ کلاس میں ڈسکس کریں گے۔۔”
کلاس ختم ہو گئ تھی۔ سب لڑکیاں اٹھ کر چلی گئیں تو رانیہ نے میڈم کو روک لیا۔
“میڈم مجھے آپ کی ہیلپ کی ضرورت ہے۔۔؟؟”
“کس بارے میں رانیہ بیٹا۔۔۔؟؟ میڈم جویریہ وہیں کرسی پر بیٹھ گئیں۔
“میڈم میری ایک فرینڈ ہے رمشا۔ میں چاہتی ہوں کہ وہ بھی آپ سے تفسیر سیکھے لیکن وہ میری بات کو ہمیشہ ٹال دیتی ہے۔۔” رانیہ کی پریشانی اس کی آنکھوں میں صاف دکھائ دے رہی تھی۔
“آپ کتنے عرصے سے کوشش کر رہی ہیں۔۔؟؟ میڈم جویریہ نے بہت اپنائیت سے پوچھا۔
“پچھلے تین مہینے سے میڈم لیکن وہ سمجھ نہیں رہی۔۔۔” رانیہ بے بس دکھائ دینے لگی۔۔
“تو آپ یہ کوشش جاری رکھیں رانیہ بیٹا۔۔ کتنا ٹائم لگے گا میں نہیں جانتی لیکن مجھے یقین ہے کہ ایک دن آپ کے ساتھ والی کرسی پر رمشا ہو گی۔۔۔” میڈم جویریہ بہت مطمئن دکھائ دے رہی تھیں۔
“میڈم میں اب اس سے بات نہیں کرتی۔۔ ناراض ہوں اُس سے۔۔۔” رانیہ نے اپنی نظریں جھکا لیں۔
“آپ کو پتا ہے کہ اسلام کی اشاعت میں کتنی مشکلات آتی ہیں لیکن ان پر ثابت قدم رینا چاہیۓ۔ آپ سٹیپ بائ سٹیپ رمشا کو سمجھائیں۔۔۔۔” میڈم جویریہ نے دھیمے لہجے میں کہا۔
“کوشش کرتی ہوں میڈم۔۔ تھینک یو سو مچ۔” رانیہ میڈم سے اجاذت لے کر نکل گئ۔۔
*————————-*
رمشا کو رامش آفندی ہاؤس اتار کر چلا گیا تھا۔ وہ سیدھی اپنے کمرے میں گئ۔۔۔ اس نے اپنے کپڑے تبدیل کیۓ تو ملاذمہ رضیہ نے بتایا کہ علی احمد آفندی نے اسے کمرے میں بلایا ہے۔ کچھ ہی دیر میں وہ علی احمد آفندی کے کمرے میں موجود تھی۔ علی احمد آفندی بیڈ پر بیٹھے اپنی فائلوں پر جھکے ہوۓ تھے۔۔۔
“پاپا آپ نے مجھے یاد کیا۔۔۔” رمشا وہیں اُن کے پاس آ کر بیٹھ گئ۔
“جی۔۔ آپ سے کچھ ضروری بات کرنی تھی رامش کے سلسلے میں۔۔۔” علی احمد آفندی نے فائل بند کر کے وہیں رکھ دی۔
“مجھے رامش کے بارے میں کوئ بات نہیں کرنی۔ آپ مجھے میری اسٹڈیز پر فوکس کرنے دیں۔۔” رمشا نے بے ذاری سے کہا۔
“آپ آرام سے کریں اپنی اسٹڈیز, کس نے روکا ہے۔۔ میں اور آپ کی ممی چاہتے ہیں کہ آپ کی منگنی کر دی جاۓ۔۔۔” رمشا کے لیۓ یہ سب بہت غیر متوقع تھا۔۔۔
“پاپا پلیز ابھی میں ریڈی نہیں ہوں۔ میرا دل رامش کو قبول نہیں کر سکتا۔۔۔” رمشا نے التجا کی۔۔۔
“کوئ کمی نہیں ہے رامش میں۔۔۔ ایک سے ایک لڑکی مل جاۓ گی اُسے۔۔۔ لیکن ہمیں وہ بہت عزیز ہے, اسی لیۓ ہم نے یہ فیصلہ کیا ہے۔۔” علی احمد آفندی کے فیصلے میں رمشا کو کوئ گنجائش نظر نہیں آ رہی تھی لیکن وہ اتنی جلدی ہتھیار ڈالنے والوں میں سے نہیں تھی۔۔۔
“میرے فیصلے کی کوئ امپارٹنٹ نہیں پاپا۔۔۔” رمشا کی آواذ میں کرب محسوس کیا جا سکتا تھا۔
“رمشا آپ بہت ضدی ہوتی جا رہی ہیں۔ ٹھیک کہتی ہیں آپ کی ممی کہ آپ کو فیملی ویلیوز کی قدر نہیں۔۔۔” علی احمد آفندی غصے سے گویا ہوۓ۔
“اوکے پاپا۔۔۔ ایز یو وش۔۔” رمشا پیر پٹختی ہوئ وہاں سے چلی گئ۔۔۔
*————————-*
ستارہ ٹوٹ کے بکھرا اور اک جہان کھلا
عجیب رخ سے اندھیرے میں آسمان کھلا
پھر اس کے بعد کوئی راہ واپسی کی نہ تھی
ہوا کے دوش پہ اس طرح بادبان کھلا
آج کی صبح آفریدی خاندان کے لیۓ خاص تھی کیونکہ آج سنڈے تھا۔۔ یہ وہ واحد دن ہوتا جب سب گھر والے ایک ہی میز پر اکٹھے ہوتے۔۔۔ شہریار آفریدی پورا ہفتہ اس دن کا انتظار کرتا رہتا۔۔
میز طرح طرح کے کھانوں سے سجا ہوا تھا۔ آس پاس آفریدی خاندان کے نفوس بیٹھے تھے۔۔۔
“شیری تمہارا کیس کیسا جا رہا ہے۔۔۔ اس لڑکے کے خلاف گواہی دینے کے لیۓ کوئ تیار ہوا۔۔؟ رئیسہ شہروز نے میز پر بیٹھتے ہی سوال کیا۔
“جی ممی ایک گواہ ہے ہمارے پاس لیکن وہ کافی نہیں ہے۔ ہمیں ایک اور گواہ چاہیۓ۔۔۔” شہریار آفریدی نے بتایا۔
“کیسا وقت آ گیا ہے کمال کہ ایک بھائ نے اپنی ہی بہن کو فروخت کر دیا۔۔۔ بہت شرمناک واقعہ ہے یہ۔” رئیسہ شہروز نے کمال آفریدی کو دیکھتے ہوۓ افسوس کا اظہار کیا۔
“ہم سب جانتے ہیں مما کہ شیری اس لڑکی کو انصاف ضرور دلاۓ گا۔۔۔” عباد آفریدی نے جوس کا سپ لیتے ہوۓ پرجوش انداز میں بتایا۔
“یہ بتاؤ رئیسہ کہ تمہاری آرگنائزیشن نے کچھ کیا اس سلسلے میں۔۔۔؟؟ کمال آفریدی نے سوال کیا۔
“ہاں بہت کچھ کر رہے ہیں ہم۔ آج بھی ہمارا ایک احتجاج ہے پریس کلب کے باہر۔۔ انصاف کے سفر میں ہم شیری کے ساتھ ساتھ ہیں۔۔۔” رئیسہ شہروذ نے مسکرا کر وضاحت دی۔
“ممی پاپا آپ دعا کریں۔ ان شاء اللہ کیس کا فیصلہ ہمارے حق میں ہو گا۔۔۔” شہریار آفریدی کو اپنی قابلیت کے ساتھ ساتھ ماں باپ کی دعا کی بھی ضرورت تھی کیونکہ مخالف پارٹی اتنی آسانی سے گھٹنے ٹیکنے والی نہیں تھی۔
*————————-*
رانیہ کچن میں رات کے لیۓ ہانڈی بنانے میں مصروف تھی جب مہرین آئ اور اُس کے پاس ہی شیلف پر بیٹھ گئ۔۔۔ اس کے ہاتھ میں قراقرم کا تاج محل ناول تھا جو وہ اپنی کسی فیلو سے لے کر آئ تھی۔۔ دوپہر سے وہ اسی میں مگن تھی۔۔
“مل گئ تمہیں چھٹی اپنے اس تاج محل سے۔۔۔” رانیہ نے پیاذ کاٹتے ہوۓ پوچھا۔
“آپی آپ سے ایک ضروری بات کرنی تھی اسی لیۓ۔۔۔۔” مہرین نے ناول وہیں بند کر کے رکھ دیا۔۔۔
“کس سلسلے میں میری جان۔۔ کوئ مسئلہ ہے تو بتاؤ مجھے۔۔۔؟” رانیہ کو فکر ہونے لگی۔۔
“آپی وہ آپ کافی دن سے آپ رمشا باجی کی طرف نہیں گئ۔ کوئ بات ہوئ آپ کے بیچ۔۔۔؟؟ مہرین اس کے پاس آئ اور ٹماٹر کاٹنے لگی۔۔۔
“میرے ایگزامز آنے والے ہیں اسی لیۓ نہیں جا سکی۔۔۔” رانیہ نے وہیں کھڑے کھڑے بہانہ تراشا۔
“بہانہ اچھا ہے آپی۔۔۔ لیکن مجھے پتا ہے آپ ناراض ہیں۔۔۔ ورنہ دو دن سے ذیادہ آپ دونوں الگ نہیں رہ سکتی۔ اس مرتبہ رمشا باجی بھی نہیں آئ آپ کو منانے۔۔” مہرین اچھے سے جانتی تھی کہ کوئ نہ کوئ بات تو ہے اسی لیۓ رانیہ بھی کئ دنوں سے پریشان ہے۔
“تمہارا آج کا ٹیسٹ کیسا ہوا۔۔؟؟ لاؤ ذرا اپنی نوٹ بُک۔۔۔۔” رانیہ مہرین کو کچھ بھی نہیں بتانا چاہتی تھی اسی لیۓ اس نے بات کو گول کیا۔
“اوکے آپی ابھی تو میں نہیں پوچھتی لیکن اگر آپ کل رمشا باجی کی طرف نہیں گئ تو پھر پوچھوں گی۔۔۔۔” مہرین نے ناول اٹھایا اور کچن سے باہر چلی گئ۔۔۔
رانیہ کے ذہہن میں میڈم جویریہ کی باتیں گردش کرنے لگیں۔۔ اُس نے سوچ لیا تھا کہ کل وہ رمشا کی طرف ضرور جاۓ گی۔۔
رانیہ سویرے ہی آفندی ہاؤس آ گئ تھی۔ وہ سیدھی رمشا کے کمرے میں پہنچ گئ جہاں رمشا اوندھے منہ بیڈ پر پڑی ہوئ تھی۔ اس کے بال بکھرے ہوۓ تھے اور آنکھیں سرخ متورم تھیں۔ رانیہ کو دیکھتے ہی وہ اٹھ کر بیٹھ گئ اور سر بیڈ کراؤن کے ساتھ ٹکا دیا۔
“یہ کیا حالت بنا دی ہے تُم نے رمشا۔۔ آئینہ دیکھو ذرا اٹھ کے۔۔۔” رانیہ اسے گلے ملتے ہوۓ کہنے لگے۔
“تمہیں اس سے کیا کہ میں جیوں یا مروں۔ تمہیں کونسی میری پرواہ ہے۔۔” رمشا کے لہجے میں بلا کی تلخی تھی۔
“کتنے دن ناراض رہنے کا ارادہ ہے۔۔۔ بتاؤ ذرا۔۔۔” رانیہ نے اس کے بال پیچھے کۓ۔ اسے رمشا کا یہ روپ بالکل پسند نہیں آیا۔
“تم سب برے ہو رانیہ۔۔۔ بہت برے۔۔۔ کوئ بھی مجھے نہیں سمجھتا۔۔۔۔ چلی جاؤ تم یہاں سے۔۔۔۔” رمشا نے رانیہ کو بیڈ سے پرے دھکیلا۔
“جانا ہی ہوتا تو میں آتی ہی کیوں۔۔۔ اچھا اٹھو فریش ہو جاؤ, پھر ہم باہر چل کے باتیں کریں گے۔۔۔” رانیہ نے اُسے ذبردستی بیڈ سے اٹھا کر باتھ میں بھیجا اور خود وہیں اس کا انتظار کرتی رہی۔
پندرہ منٹ بعد رمشا کمرے میں آئ اور بُت بن کر بیڈ پر ہی جم گئ۔۔ رانیہ نے اپنے ہاتھوں سے اس کے بالوں میں کنگھی کی اور پونی ٹیل بنائ۔۔۔ پھر وہ کچن میں گئ اور رضیہ سے اس کے لیۓ ناشتہ تیار کروایا۔۔۔ اب تک رمشا ساری ناراضگی بھلا چکی تھی۔۔۔۔ اسے رانیہ کے ساتھ کی بہت ضرورت تھی۔۔۔
رانیہ ناشتہ لے کر لان میں آ گئ جہاں رمشا پہلے سے اس کا انتظار کر رہی تھی۔ وہ ایک کرسی کھینچ کر بیٹھ گئ۔
“اب بتاؤ مجھے کیا ہوا ہے تمہیں۔۔۔؟؟ رانیہ نے چاۓ مگ میں انڈھیلتے ہوۓ پوچھا۔۔ چاۓ کی دلفریب مہک ہو سُو پھیل گئ۔۔
“تمہیں تو سب پتا ہے رانیہ اس رامش کے بارے میں۔۔؟” رمشا کی آواذ میں کرب رانیہ نے محسوس کیا۔
“کیوں اب کیا ہو گیا۔۔۔؟؟ رانیہ نے فکرمندی سے پوچھا۔
“ممی پاپا میری منگنی کروانا چاہ رہے ہیں لیکن میں کیسے رامش کے ساتھ۔۔۔۔۔۔۔۔” رمشا نے چاۓ کا مگ ٹیبل پر رکھتے ہوۓ بتایا۔
“دیکھو رمشا جذبات میں آ کر کوئ بھی فیصلہ مت کرنا۔ جہاں تک میں نے رامش کو آبزرو(observe) کیا ہے وہ بہت سلجھے مزاج کا ہے اور تمہیں پسند بھی کرتا ہے۔۔۔” رانیہ نے رمشا کو سمجھانے کی ایک ناکام کوشش کی۔۔
“لیکن وہ میرے ٹائپ کا نہیں ہے یار۔۔۔ میں اس کے ساتھ ذندگی گزارنے کا سوچ بھی نہیں سکتی۔۔۔” رمشا بہت بے ذار نظر آ رہی تھی۔
“تو تم اب کیا کرو گی۔۔۔۔” رانیہ نے چاۓ کا مگ رکھتے ہو ۓ پوچھا۔۔۔۔
“منگنی ہونے دو پھر دیکھنا۔۔۔ کچھ نہ کچھ تو کر ہی لوں گی۔۔۔” رمشا نے ایک تلخ مکراہٹ کے ساتھ بتایا۔۔۔
دو گھنٹے رانیہ رمشا کے ساتھ رہی۔۔ اس کے بعد گھر آ کر اس نے دن کے لیۓ سبزی اور ساتھ چپاتیاں بنائ اور پھر میڈم جویریہ کی طرف چلی گئ۔
*————————-*