ان کے ہاں 2 ہفتوں کی چھٹیاں چل رہی تھی۔ وہ اس وقت دوستوں کے ساتھ میدان میں فٹبال کھیلنے میں مصروف تھا۔
ریفری نے 5 منٹ تفریح کا اشارہ کیا تو وہ اپنے سامان کے پاس آکر پانی پینے لگا۔ پسینہ پونچھتے ہوئے اس نے موبائل دیکھا تو مسکان کے 3 مس کال آئی ہوئی تھی۔ اسے وقت دیکھ کر حیرانگی ہوئی۔
زوہیب:” اس وقت کیسے فون کیا ہے اس نے۔۔۔ اتنی صبح صبح” یہ سوچتے اس نے کال ملائی۔
مسکان:” اسلام علیکم زوہیب کیسے ہے آپ” اس نے خوشگوار انداز میں کہا اور زوہیب کے تعجب میں اور اضافہ ہوا۔
زوہیب:” میں تو ٹھیک ہوں۔۔۔ تم نے اتنی صبح صبح کال کیسے کی۔” وہ اب بینچ پر بیٹھے ٹیک لگا کر اس سے بات کر رہا تھا۔
مسکان:” جی میں ہسپتال آئی تھی تو۔۔۔”
زوہیب:” ہسپتال۔۔۔ کیوں کیا ہوا تمہیں” اس نے سیدھا ہوتے ہوئے بیچینی سے پوچھا۔
مسکان:” ارےے مجھے کچھ نہیں ہوا۔۔۔ کومل آپی کے ساتھ آئی تھی۔۔۔۔ مبارک ہو آپ چاچو بن گئے۔” اس نے خوشی سے چہکتے ہوئے کہا۔
زوہیب:”اوہ ہاں۔۔۔۔ بھائی نے بتایا تھا خوشخبری کا۔۔۔۔ خیر مبارک شکریہ” اس نے مسکرا کے کہا اور کچھ دیر اور بات کرنے کے بعد کال کاٹ دی۔ ابھی میچ دوبارہ شروع ہونے میں کچھ وقت تھا اس نے عثمان کو فون ملایا اور مبارکباد پیش کی۔ اس سے بات ختم کر کے وہ واپس بھاگتا ہوا میدان میں چلا گیا۔
****************
بورڈ کا نتیجہ اعلان ہو چکا تھا مسکان اور ستارہ دونوں کے ہی A+ میں نمبر آئے تھے۔ اب ان کے اگلے اقدامات یونیورسٹی میں داخلے کے تھے اور ساتھ ساتھ ستارہ کی شاپنگ کرنے کے تھے۔
اس دن بھی وہ شاپنگ کے لئے گئی تھی جب حارث صاحب نے کال کر کے جلدی واپس آنے کا کہا۔
جس وقت وہ گھر پہنچی اس نے لاؤنج میں کچھ نئے چہرے دیکھے۔
حارث صاحب:” آو مسکان۔۔۔ فردوس یہ میری بیٹی ہے مسکان۔۔۔۔۔” انہوں نے اپنے ساتھ بڑے صوفے پر بیٹھے ہوئے اپنے معزز دوست سے مسکان کا تعارف کرایا۔
مسکان کو لاؤنج میں قدم رکھتے ہی خطرے کا خدشہ ہوگیا تھا وہ دوپٹہ سر پر لیتی متذبذب سی چلتی ہوئی آگے آئی اور مہمانوں کو سلام کرتی امی کے ساتھ بیٹھ گئی جو ان حضرت کے بیگم کے ساتھ خوش گپیوں میں مصروف تھی۔
باتوں باتوں میں فردوس صاحب نے ان کے گھر رشتہ جوڑنے کی خواہش ظاہر کی۔ جہاں بابا اور امی نے حیرت سے نظروں کا تبادلہ کیا وہی مسکان کا حلق خشک ہو گیا۔
وہ سب سے معذرت کرتی اپنے کمرے میں آئی اور دروازہ بند کر دیا اب لاؤنج میں سے آتی آوازیں آنا بند ہوگئی۔
حارث صاحب:” آپ کے ساتھ رشتہ جوڑنا تو ہمارے لئے اعزاز کی بات ہے فردوس صاحب۔۔۔ لیکن مسکان میری اکلوتی بیٹی ہے اس کی رضامندی میرے لیے اولین ترجیح ہے۔۔۔ میں اس سے پوچھ کر ہی آپ کو جواب دونگا۔” انہوں نے چائے کا کپ رکھتے ہوئے کہا۔
فردوس صاحب:” جیسے آپ کو مناسب لگے حارث صاحب۔۔۔ ہم آپ کے ہر فیصلے کی قدر کریں گے۔۔۔ آپ کے فون کا انتظار رہے گا۔” انہوں نے بھی چائے کا کپ رکھا اور بیگم کو اشارہ کرتے جانے کے لیے اٹھ گئے۔
حارث صاحب کے اصرار پر بھی انہوں نے کھانے پر رکنے کی زحمت نہیں دی اور وہاں سے چلے گئے۔
*******************
پہلے سمسٹر کے نسبت دوسرا سمسٹر آغاز سے ہی تھکا دینے والا اور طویل مدت ثابت ہوا۔ پہلے سمسٹر کے مقابلے اپنی کارکردگی برقرار رکھنے اسے اور زیادہ محنت کرنی پڑ رہی تھی۔ دوستوں کے ساتھ باہر گھومنا پھیرنا بھی کم کر دیا تھا۔ گھر میں حسب ضرورت خاموشی نہ ملنے کی بناء پر وہ روز یونیورسٹی سے لائبریری چلا جاتا اور رات دیر سے صرف سونے کےلئے گھر جاتا۔ اس معمول کے چلتے اس کا فاروق اور اس کی فیملی کے ساتھ بیٹھنا بھی کم ہوگیا اور اس نے فاروق سے گھر کی اضافی چابی طلب کر لی تاکہ جب وہ رات دیر سے گھر آئے تو بنا کسی کی نیند خراب کئے خود ہی دروازہ کھول کے اندر داخل ہو جایا کریں۔
مسکان نے اسے ستارہ کی منگنی کی خبر کر دی تھی جس میں مشغول ہونے کی وجہ سے وہ 5 یا 10 منٹ سے زیادہ بات نہیں کر پاتے تھے اور اس بات کا فائدہ زوہیب کو ہی ہو رہا تھا وہ سنڈے کے دن بھی لائبریری یا کیرل کے ہاسٹل کے سٹڈی ایریا میں چلا جاتا۔
اس دن بھی وہ کسی پروجیکٹ پر کام کر رہا تھا اور چونکہ کیرل فائن آرٹ سٹوڈنٹ تھی اس لئے وہ زوہیب کے ساتھ سکیچ بنانے میں مدد کر رہی تھی۔ وہ نیچے بیٹھا چارٹ پیپر پر رنگ بھر رہا تھا اس کے ہاتھ سیاہی سے لٹ پٹ تھے جب اس کا فون بجا اس نے مصروف انداز میں دیکھا اور موبائل گندا ہونے بچانے کے لیے سپیکر آن کیا۔
زوہیب:” ہاں مسکان بولو۔” اس نے مصروف انداز میں جواب دیا۔ مسکان کا بگڑا ہوا موڈ اور بگڑنے لگا۔
مسکان:” زوہیب مجھے آپ سے کچھ ضروری بات کرنی ہے۔” وہ اپنے بیڈروم میں کھڑکی کے سامنے رکھے سنگل صوفے پر بیٹھی اضطراب میں ناخن چبا رہی تھی۔
زوہیب:” ہاں سن رہا ہوں۔۔۔۔۔ کیرل یہاں نہیں۔۔۔۔۔ سرخ نشان پہ۔۔۔۔۔ ہاں وہاں۔۔۔۔” وہ ساتھ ساتھ کیرل کو ہدایت بھی دے رہا تھا۔
مسکان کو اس کا توجہ نا دینا کھٹک رہا تھا۔ لیکن زوہیب اب بھی مصروف نظر آرہا تھا۔
“ہیلو مسکان۔۔۔ مجھے بہت کام ہے تم بول رہی ہو یا میں فون کاٹوں۔۔ ” اس نے مسکان کی لمبی خاموشی پر چڑ کر کہا۔
مسکان:” زوہیب گھر پر میرا رشتہ آیا ہوا ہے۔۔۔۔ لیکن آپ کے پاس شاید اس سے زیادہ ضروری کام ہے۔۔۔۔” مسکان نے بے ترتیب سانسوں میں جلدی جلدی کہا۔
زوہیب کے چلتے ہاتھ رک گئے چہرے کا رنگ اڑنے لگا۔ کیرل اس سے کچھ کہہ رہی تھی پر اس کی سماعت میں صرف مسکان کی بات گردش کر رہی تھی۔
وہ ایک جھٹکے رنگ سے لتھڑے ہاتھوں سے موبائل اٹھاتا باہر نکل گیا۔
زوہیب:”مسکان۔۔۔ تم سچ کہہ رہی ہو” اس نے خفت سے پوچھا۔
مسکان:” میں نے کبھی آپ سے ایسا مذاق کیا ہے کیا۔” اس نے افسوس سے اپنا دل بھر آنے سے روکتے ہوئے کہا۔
زوہیب:” کون لوگ ہیں” اس نے کوریڈور میں چکر کاٹنا شروع کر دیا۔
مسکان:” بابا کے بچپن کے دوست ہے اسلام آباد میں بہت بڑے بزنس مین ہے کسی کام سے یہاں آئے ہوئے تھے تو گھر پر ملنے آگئے اور اچانک رشتے کی بات کر دی۔۔” وہ اب بیڈ کے پائنیتی کے ساتھ زمین پر بیٹھی اور سر گھٹنوں پر ٹکا دیا۔
زوہیب:” اور حارث انکل کیا کہتے ہے” اس کے سر میں ٹیس اٹھنے لگی وہ اپنی گنپٹیاں مسلنے لگا۔
مسکان:” بابا کے تو بچپن کے دوست ہے اور پھر اتنے جانے مانے بزنس مین ہے۔۔۔۔ بابا تو خوشی سے پھولے نہیں سماء ریے۔”
زوہیب:” اور بچپن کے دوستوں کے بچوں میں شادی ضرور ہوجاتی ہے۔۔۔۔۔ مما اور ثمرین آنٹی کو ہی دیکھ لو۔” اس نے زخمی سا مسکرا کے سر جھٹکتے ہوئے کہا۔
مسکان:” اب ایسا بھی نہیں ہے میں بات کرتی ہوں بابا سے۔” اس نے پر امید انداز میں کہا۔
زوہیب:” اور وہ مان جائے گے۔” اس نے بے یقینی سے سوال کیا۔
مسکان:” کیوں نہیں مانے گے میں ان کی اکلوتی بیٹی ہوں میری بات وہ ضرور مانے گے۔” اس نے زوہیب کو خود سے زیادہ پریشان دیکھ کر آس دلائی۔
زوہیب:” امید ہے ایسا ہی ہو۔۔۔ مسکان پہلے تم بات کرو اگر بابا نہیں مانتے تو مجھے فوراً اطلاع دو میں مما سے بات کرتا ہوں اوکے۔” اس نے مسکان کو تجویز دی۔
مسکان نے ہامی بھرتے اسے تسلی دی اور واپس اپنا کام جاری رکھنے کا کہہ کر کال کاٹ دی۔
زوہیب کا دل کام سے اچھاٹ ہوگیا تھا۔ اسے اپنا دماغ بے حس ہوتا ہوا محسوس ہوا۔ وہ اندر جانے کے لیے مڑا تو اس نے کیرل کو ہال کے چوکٹ پر ہاتھ باندھے کھڑے پایا۔
کیرل:” تمہارا پروجیکٹ پورا کریں” اس نے سپاٹ انداز میں جتاتے ہوئے پوچھا۔
زوہیب:”میرے سر میں درد ہو رہا ہے ۔۔ باقی کا تم اپنے حساب سے دیکھ لو۔” اس نے بھاری قدموں سے اندر جاتے ہوئے کہا۔
کیرل کو وہ کسی اور دنیا میں کھویا ہوا لگا۔
کیرل:” کیا تم ٹھیک ہو” اس نے پریشانی سے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھے پوچھا۔
زوہیب:”ہاں بس گھر جا کر آرام کرنا چاہتا ہوں۔” اسے اپنی آواز کسی کھائی سے آتی ہوئی محسوس ہوئی۔ وہ بنا کیرل سے نظریں ملائے اپنا سامان سمیٹ کر وہاں سے چل پڑا۔
کیرل نے افسوس سے اسے جاتے دیکھا اور پھر اس ادھورے چارٹ پیپر کو۔
********************
ڈائننگ ٹیبل پر آج موضوع گفتگو فردوس صاحب اور ان کی پیشکش رہی۔ آج شکیل چاچو اور ان کی فیملی بھی ان کے ساتھ ٹیبل پر موجود تھیں۔ بابا بڑی دلچسپی سے فردوس اور اپنی دوستی کے قصے سناتے رہے۔ کھانا کھاتے ہوئے سب کا اچھا ٹائم پاس ہورہا تھا سوائے مسکان کے۔ جیسے جیسے باقی گھر والے بابا کے باتوں سے مسرور ہو رہے تھے ویسے ویسے مسکان کی بیچینی میں اضافہ ہورہا تھا۔ اس کی یہ کیفیت ستارہ سے چپائے نہیں چپ سکی۔ اس نے کئی دفعہ آبرو ریزی سے مسکان کو سکون سے رہنے کا اشارہ کیا پر اس کے اضطراب میں کوئی کمی نہیں ہوئی۔ عرفان بھائی بھی اس کے چہرے پر پریشانی کے آثار دیکھ سکتے تھے۔
سب کی باتوں سے اکتا کر وہ کھانا بیچ میں ہی چھوڑ کر کمرے میں بھاگ آئی۔
امی:” اسے کیا ہوا بھئ” امی نے اسے پکارتے ہوئے کہا۔
ثمرین آنٹی:” ایسے سب کے سامنے بار بار رشتے کا ذکر آئے گا تو وہ شرمائے گی نہیں کیا”۔ سب پھر سے ہنستے مسکراتے باتوں میں لگ گئے۔ عرفان کے کچھ دیر پہلے کا گمان سچ ثابت ہوا۔ کھانے کے بعد عرفان مسکان کے کمرے میں آیا۔ مسکان بیڈ پر پاوں اوپر کئے بیٹھی تھی اور سر گھٹنوں پر ٹکایا ہوا تھا۔
عرفان:” کیا ہوا میری سونا کو” اس نے پیار سے اس کے سر پر ہاتھ پھیر کر کہا۔
مسکان:”بھائی مجھے شادی نہیں کرنی” اس نے منہ بھسورتے ہوئے کہا۔
عرفان:” شادی تو سب کرتے ہے میری گڑیا” انہوں نے پیار سے سمجھاتے ہوئے کہا۔
مسکان:” لیکن مجھے ابھی نہیں کرنی۔۔۔ میں آگے پڑھنا چاہتی ہوں۔۔۔ آپ کچھ کریں بھائی بابا کو روکے پلیز” اس نے عرفان کا ہاتھ پکڑ کر التجا کی۔
عرفان:”اچھا تم فکر مت کرو میں صبح بابا سے بات کرتا ہوں۔۔ میں تمہارے ساتھ ہوں جب تک تم نہ کہو بابا تمہارا رشتہ نہیں کروائے گے۔”
مسکان ان کی یہ بات سن کر تر و تازہ ہوگئی۔ اس نے بھائی کا شکریہ ادا کیا اور عرفان اسے دلاسہ دے کر باہر چلے گئے۔ اسے کچھ سکون ملا اب وہ آگے کا لائحہ عمل سوچ رہی تھی۔
**********************
وہ آج جلدی گھر آگیا تھا فاروق اور شیزا ابھی تک جاگ رہے تھے البتہ بچے سوگئے تھے۔
فاروق:”کدھر گم ہو تم آج کل نظر ہی نہیں آتے۔۔۔ لگتا ہے لندن کے رنگ میں رنگ گئے ہو” انہوں نے زوہیب کو لاؤنج میں داخل ہوتے دیکھ کر کہا۔
زوہیب چہرے پر جعلی مسکراہٹ لاتا قریب آیا اور ان کے ساتھ صوفے پر بیٹھ گیا۔
زوہیب:” ایسی بات نہیں ہے۔ بس پڑھائی میں مصروف ہوں۔ آپ کا کام کیسا چل رہا۔” مزید سوالوں سے بچنے کیلئے اس نے بات کا موضوع بدل دیا۔
اب فاروق بھائی اپنے کام کے متعلق باتیں کر رہے تھے اور وہ بے دھیانی سے ان کی باتیں سنتے ادھر اُدھر دیکھ رہا تھا۔ ایک گھنٹہ ان کے پاس سر پکانے کے بعد وہ اپنے بیڈروم میں آیا اور سر درد کی گولی کھا کر آنکھوں پر بازو رکھتا لیٹ گیا۔
********************
اگلی صبح حارث صاحب بڑے طیش میں اس کے کمرے میں داخل ہوئے انہیں روکنے امی اور عرفان بھائی بھی ان کے پیچھے تھے۔ ایک پل کےلئے تو مسکان یہ سمجھنے سے قاصر تھی کہ اس نے ایسی کیا غلطی کر دی جس سے بابا اتنے غضب میں ہے۔
حارث صاحب:” تمہیں مسئلہ کیا ہے اس رشتے سے۔ اچھے لوگ ہیں بڑا کاروبار ہے نیک بیٹا ہے۔۔۔۔۔ ان کے ہاں رشتہ کرنے تو لڑکیوں کی لائن لگی پڑی ہے تمہیں تو خوش ہونا چاہئے تھا کہ فردوس نے تمہارا انتخاب کیا” وہ اس کے سر پر کھڑے تیز آواز میں بول رہے تھے اور مسکان کو اپنے پیروں سے جان نکلتی محسوس ہوئی۔ بابا کی وہشتناک آواز سن کر چاچی اور ستارہ بھی تیزی سے اس کے کمرے میں آگئی۔
“خود اپنے پیر پر کلہاڑی مارنا کوئی تم سے سیکھے جو اتنے اچھے رشتے کو رد کر رہی ہو۔” وہ اب ہاتھ اٹھائے اسے تردید کر رہے تھے۔ عرفان آگے آیا اور انہیں بیٹھ کر آرام سے بات کرنے کا کہا امی بھی بابا کا بازو پکڑے انہیں کمرے سے باہر لیں جانے کی کوشش کرتی رہی۔ جیسے تیسے کر کے وہ بابا کو لاؤنج میں لیں گئے۔ اس سارے منظر میں مسکان کے زبان سے ایک لفظ تک نہ نکل سکا۔ بابا کے کمرے سے نکلتے ہی وہ رونے لگی اور ستارہ اسے ساتھ لیئے بیڈ پر بیٹھ کر اسے چپ کروانے لگی کچھ آنسو تھمے تو ستارہ گویا ہوئی۔
ستارہ:”مسکان۔۔۔۔۔۔کیا تم زوہیب کی وجہ سے منع کر رہی ہو” اس نے سپاٹ انداز میں سنجیدگی سے کہا۔
مسکان:” اس نے مجھ سے وعدہ لیا ہے کہ میں اس کے لوٹنے تک اس کا انتظار کروں۔” اس نے بہتی آنکھوں کے ساتھ اسے دیکھ کر کہا اور آنکھیں صاف کرنے لگی۔
ستارہ:”کیا تمہیں پکا یقین ہے کہ وہ تمہیں دھوکا نہیں دے گا۔۔۔۔۔میرا مطلب اب وہ یہاں سے دور۔۔۔۔ الگ ماحول میں رج بس گیا ہے۔۔۔ اور زوہیب ہے بھی جوان اور ہینڈسم اس کے پیچھے تو لڑکیوں کی قطاریں ہوگی۔۔۔۔ ایسے میں اسے بگڑنے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا۔۔۔۔۔ صرف فون پر میھٹی باتیں کرنے سے پیار نہیں ہو جاتا۔۔۔” اس نے مسکان کا ہاتھ تھام لیا اور مسکان بھیگی آنکھوں سے اسے دیکھتی رہی۔
مسکان:” شاید تم ٹھیک کہہ رہی ہو پر مجھے تو جب سے محبت کا مطلب سمجھ آیا ہے میں نے زوہیب کو ہی ہمسفر مانا ہے اب اسے چھوڑ کر کسی اور سے شادی کیسے کر لوں”وہ ستارہ کے گلے لگ کر ایک دفعہ پھر رونے لگی۔
ستارہ:” میں سمجھ سکتی ہوں۔۔۔۔۔ پر ایک مرتبہ میری بات پر غور ضرور کرنا۔” وہ اس کے آنسو پونچھ کر پیار سے سمجھا کر چلی گئی اور مسکان کا دل پھر ڈبڈبا گیا۔
شام کو جب وہ رو دھو کر نکلی تو اسے لاؤنج میں ٹی وی دیکھتے صرف عرفان بھائی نظر آئے وہ منہ لٹکائے ان کے پاس آکر بیٹھ گئی۔
عرفان اسے دیکھ کر مسکرائے اور ہلکی سرگوشی کی۔
عرفان:” بابا نے منہ کر دیا”
مسکان کا چہرہ کھل گیا لیکن اگلے ہی لمحے پھر سے مڑجھا گیا۔
عرفان:”کیا ہوا خوش نہیں ہوئی تم۔” انہوں نے ٹی وی بند کرتے ہوئے رخ مسکان کی طرف کر کے کہا۔
مسکان:” خوش تو ہوں لیکن۔۔۔۔ میں نے بابا کو ہرٹ کر دیا” اس نے افسوس سے کہا۔ اس کی آنکھیں پھر سے بھیگنے لگی۔
عرفان:”ارےے نہیں سونا۔۔۔۔ بابا کو بس اپنے بزنس مین دوست کو منع کرنا اچھا نہیں لگ رہا تھا۔۔۔۔ نہیں تو بابا تم سے بہت پیار کرتے ہے ان کی لاڈلی بیٹی ہو تمہارے رضامندی کے بغیر رشتہ نہیں کروائے گے۔۔۔۔” انہوں نے مسکان کے سر پر ہاتھ رکھ کر اسے جنبش دی اور واپس ٹی وی لگا لیا۔ مسکان کو کچھ تسلی ہوگئی۔ وہ زخمی مسکرا کر زوہیب کو کال کرنے کے ارادے سے اپنے کمرے میں آگئی۔
********************
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...