زویا آرام سے چلتی ہوئی مال کی پارکنگ میں کھڑی گاڑی کی طرف بڑھ رہی تھی اریانا آنکھوں میں نفرت لئیے اسے گاڑی کی طرف آتا دیکھ رہی تھی اسے زویا کے گاڑی میں بیٹھنے کا انتظار تھا ۔
سر فورڈ کا غصہ کے مارے برا حال تھا اتنی احتیاط اور نگرانی کے باوجود زویا ہاسٹل سے غائب ہو چکی تھی ۔
”جوناتھن کیا تمہیں میجر زوار کے رہائشی ٹھکانے کا پتہ ہے ۔“ سر فورڈ نے پوچھا
” جی سر ۔“ جوناتھن نے سر ہلایا
سر فورڈ نے گھڑی میں ٹائم دیکھا رات کے دو بج رہے تھے ۔۔
”تم اپنے ساتھیوں کے ساتھ میجر زوار کے ٹھکانے پر جاؤ اور وہاں کا جائزہ لیکر مجھے اطلاع کرو ۔“
جوناتھن ادب سے سر ہلاتا اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ میجر زوار کے ٹھکانے کی طرف روانہ ہوگیا
کاٹیج کے قریب پہنچ کر جوناتھن اور اس کے ساتھی چاروں جانب پھیل گئے ۔۔۔جوناتھن اب مزید کوئی غلطی نہیں کرنا چاہتا تھا کاٹیج کے احاطے میں گاڑی کھڑی تھی وہ دبے قدموں آگے بڑھا اس کی عقاب جیسی نگاہوں نے سیکیورٹی کیمرے تاڑ لئیے تھے۔ جوناتھن نے کاٹیج کے اندر داخل ہونے سے پہلے اپنی جیب سے ایک سکہ نکالا اور کاٹیج کے دروازے کی طرف پھینکا جیسے ہی سکہ دروازے کے نزدیک پہنچا ایک تیز لال شعاع نے اسے دو ٹکرے کردیا ۔
جوناتھن نے تیزی سے اپنا فون نکالا اور اپنے ساتھیوں کو واپس پلٹ کر باہر آنے کی ہدایات دی اور خود بھی دور ہٹ کر اندھیرے میں کھڑا ہو کر سر فورڈ کو فون ملانے لگا تھا جب اسے دیوار پھلانگ کر ایک نقاب پوش اندر آتا دکھا جو اپنے نسوانی خدوخال سے کوئی لڑکی لگ رہی تھی
اس نقاب پوش لڑکی نے گاڑی کے قریب جاکر اس گاڑی کے نیچے کچھ لگایا اور واپس چلی گئی ۔
”ابھی ابھی ایک نقاب پوش لڑکی نکلی ہے اس کا احتیاط سے پیچھا کرو اور اس کے ٹھکانے پر پہنچ کر مجھے اطلاع دو ۔“ جوناتھن نے واکی ٹاکی پر اپنے ایک ساتھی کو ہدایت دی اور خود اس گاڑی کی جانب بڑھا ۔۔
گاڑی کے نیچے ایک جدید باوردبم کیمرے کے ساتھ لگا ہوا تھا جوناتھن پرسوچ نظروں سے اس کیمرے اور بم کو دیکھتا اٹھا اور کاٹیج سے تھوڑی دور جا کر سر فورڈ کو فون ملانے لگا ۔۔
”سر اس میجر کی گاڑی کاٹیج میں موجود ہے کاٹیج کے اندر اندھیرا چھایا ہوا ہے اور باہر چاروں جانب لیزر پروٹیکشن آن ہے جو بھی قریب جائے گا ان شعاعوں کا شکار بن جائے گا اور ابھی ایک نقاب پوش لڑکی اس احاطے میں آئی تھی اس کا انداز کمانڈوز جیسا تھا اس نے میجر کی گاڑی میں ٹریکر کیمرہ اور بارود بم لگایا اور چلی گئی میرا آدمی اس کا پیچھا کررہا ہے اب آپ بتائیں آگے کیا کرنا ہے ۔“ جوناتھن نے تفصیلی رپورٹ دی
بارعب سے سر فورڈ نے جوناتھن کی پوری بات غور سے سنی۔۔
”جوناتھن اس گاڑی سے بم کو ناکارہ کردو کیمرہ لگا رہنے دو اور کاٹیج کے حفاظتی نظام سے ظاہر ہے کہ وہ میجر ہماری نواسی کے ساتھ اندر ہے تم دور سے کاٹیج کی نگرانی کرو اور اگر میجر باہر نکلے تو اس کا پیچھا کرنا ہے اور مجھے اطلاع کرنی ہے مزید اس نقاب پوش لڑکی سے ظاہر ہوتا ہے کہ کوئی اور تنظیم بھی میجر اور زویا کے پیچھے پڑی ہے ہمیں احتیاط سے کام لینا ہوگا ۔“ سر فورڈ نے جوناتھن کو ہدایات دیں ۔
جوناتھن سے فارغ ہو کر سر فورڈ نے اسرائیلی تنظیم کے سربراه کو فون ملایا۔۔
”مسٹر بنجامن ۔۔“
”جی سر فورڈ فرمائیے ۔“
”میں نے اپنی نواسی زویا کو ٹریک کرلیا ہے میں اسے لیکر چوبیس گھنٹے کے اندر اندر تل ابیب پہنچ رہا ہوں آپ معاہدہ کے مطابق سلویا کی اسٹیٹ کے پیپرز تیار رکھیں ۔
”سر فورڈ آپ زویا کو لیکر میونخ آجائیں میں بھی وہی پہنچتا ہوں ہماری مصدق اطلاع کے مطابق آپکا داماد زندہ ہے اور میونخ میں یا کسی قریبی شہر میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ اپنی رسرچ کے آخری مراحل میں ہے ۔
”مگر مسٹر بنجامن اس سب سے میری نواسی کا کیا تعلق ۔“ فورڈ الجھا
زویا کو یرغمال بنا کر ہم اس خطرناک پروفیسر کو بل سے نکلنے پر مجبور کردینگے اور اس کا رسرچ ورک ہمارے اسرائیل کے دفاع کو مضبوط بنانے میں کارآمدہوگا ۔“بنجامن نے کہا
***************************
بلال کا ہاتھ سوئی ہوئی لڑکی کے نقاب کی طرف بڑھا ہی تھی کہ اس لڑکی نے بند آنکھوں کے ساتھ بجلی کی تیزی سے اس کا ہاتھ پکڑ لیا ۔۔
”یہ کیا کررہے ہو۔“ وہ آنکھیں کھول کر اس کے ہاتھ کو ایک زوردار جھٹکا دے کر وہ غرائی
” کون ہو تم ۔“ بلال اس کے اسقدر تیز اور ماہرانہ انداز پر اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے سلگتے لہجے میں بولا ۔
اس کی گہری شہد رنگ آنکھیں اور دائیں آنکھ کے اندر موجود تل چیخ چیخ کر اس کے صوفیہ ہونے کا اعلان کررہا تھا ۔۔۔
”میں جو بھی ہوں تم سے مطلب ۔“ اس نے تنک کرکہا اور اپنا ہاتھ ائیرہوسٹس کو بلانے کیلئیے بیل کی طرف بڑھایا تاکہ جگہ بدلنے کی درخواست کرسکے ۔
بلال نے تیزی سے اس کے ہاتھوں کو اپنی آہنی گرفت میں جکڑا
”تم اچھی طرح جانتی ہو کہ میں تمہیں پہچان چکا ہوں اب تم مجھے جواب دہ ہو بولو ایسا کیوں کیا میرے ساتھ ۔“ بلال کے لہجے میں بلا کی سختی تھی
صوفیہ نے پوری طاقت لگا کر اپنا ہاتھ چھڑانا چاہا مگر بلال کی گرفت بہت مضبوط تھی ۔
” مسٹر تم کسی بڑی غلط فہمی کا شکار ہو کر ایک باپردہ لڑکی سے بدتمیزی کررہے ہو چھوڑو میرا ہاتھ مجھے تمہارے ساتھ نہیں بیٹھنا ۔“وہ تلملا کر بولی
”ٹھیک ہے تم میری غلط فہمی دور کردو اپنا چہرہ دکھا دو میں پیچھے ہٹ جاؤنگا ۔“ بلال نے بڑے آرام سے کہا
”میں پردہ کرتی ہوں کسی نامحرم کو چہرہ نہیں دکھا سکتی ۔“ وہ بھی اپنے نام کی ایک تھی ۔
”ٹھیک ہے تو پھر مجھے محرم بنا لو اتنے بڑے پلین میں کئی مسلم سفر کررہے ہیں میری گزارش پر کوئی بھی ہمارا نکاح پڑھوا دے گا ویسے بھی ایک دن تو تمہیں میری دسترس میں آنا ہی ہے تو یہ نیک کام آج ہی کرلیتے ہیں ۔“ بلال نے اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے اس کے ہاتھوں کو ایک زور کا جھٹکا دیا
”ذلیل کمینہ میرے ہاتھوں مرے گا ۔“ وہ بڑبڑائی اسکا دماغ تیزی سے چل رہا تھا
”دیکھو مسٹر میرے شوہر میونخ ائیرپورٹ پر میرا انتظار کررہے ہیں تم میرے ساتھ رہنا میں تمہیں اپنے شوہر سے ملوادونگی اس کے بعد بھی اگر تم نے ضد کی تو میں اپنے شوہر کی موجودگی میں تمہیں اپنا چہرہ دکھادونگی اب پلیز میرا ہاتھ چھوڑو میں کچھ نہیں کررہی ۔“ وہ بڑے کانفیڈنس سے بولی
بلال کو اس کی بات سن کر ایک جھٹکا لگا اس نے بڑی بےیقین نگاہوں سے اسے دیکھا اور اس کا ہاتھ چھوڑ دیا
”ٹھیک ہے جہاں اتنا انتظار کیا ہے تھوڑا اور کرلیتا ہوں مگر کان کھول کر سن لو میونخ ائیرپورٹ پر تمہاری رونمائی میں کرونگا اور سیدھا مسجد لیجاکر پہلے ہمارا نکاح ہوگا پھر تم سے اپنا پورا ایک ایک لمحے کی تڑپ کا حساب لونگا۔“
بلال کے لہجے پر اس کے دل کی بیٹ مس ہوئی وہ اپنا ہاتھ مسلتی رخ موڑ کر بیٹھ گئی ۔
تھوڑی ہی دیر بعد اس کی کلائی میں موجود گھڑی میں ارتعاش ہوا اس نے گھڑی کو دیکھا اور سانس لیکر بلال کی طرف رخ کیا
”مسٹر راستہ دیجئیے مجھے باتھ روم جانا ہے ۔“
بلال اپنی سیٹ سے اٹھا ۔
”چلو میں تمہیں وہاں تک لے چلتا ہوں “ وہ آگے بڑھتا ہوا بولا
”حد درجہ کے ذلیل کمینے ہو تم زندگی عزیز ہے تو خاموشی سے اپنی جگہ بیٹھو میں پلین سے کود کر بھاگ نہیں رہی ابھی تھوڑی دیر میں واپس آجاؤنگی ۔“ اب کے وہ اپنا ضبط کھو کر غصہ سے اپنی اصل آواز میں بول اٹھی تھی ۔
بلال مسکراتے ہوئے واپس بیٹھ کر اسے جاتا دیکھنے لگا یہ شیرنی اس کی صوفیہ ہی تھی اب کسی بھی قیمت پر اسکا پیچھا نہیں چھوڑنا تھا اور جلد از جلد اس شیرنی کو نکاح کی زنجیروں میں جکڑنا تھا ۔
***************************
صوفیہ نے باتھ روم میں آکر گھڑی کو اتار کر منہ سے لگایا
”یس ٹائیگر ۔“
دوسری طرف سے زوار کی آواز ابھری ۔۔
” فوکسی میں پلان کے مطابق زویا کو مال میں لے آیا ہوں فورڈ کے آدمی پارکنگ میں موجود ہیں تھوڑی دیر بعد میں زویا کو اکیلے پارکنگ میں بیجھونگا فورڈ زویا کو لیکر میونخ پہنچے گا تمہاری فلائٹ بیس منٹ پہلے پہنچے گی تم استنبول سے آنےوالی فلائٹ کا انتظار کرنا میں بھی اسی فلائٹ میں ہوں ہم وہی سے فورڈ کو ٹریک کرینگے اور جیسے ہی پروفیسر شبیر سامنے آتے ہیں ہم زویا اور پروفیسر شبیر دونوں کو لیکر نکل جائینگے ۔“ اوور
”اوکے ٹائیگر ۔“
صوفیہ نے اپنی گھڑی جو ایک جدید ٹرانسمیٹر ڈیوائس تھی دوبارہ اپنی کلائی پر باندھی اور باہر نکل گئی ۔
**************************
زویا نے گاڑی کے قریب پہنچ کر دروازہ کھولا ہی تھا کہ ایک بارعب پرسنیلٹی والے بزرگ جو شاید انگریز تھے اس کے پاس آئے اور سشتہ انگریزی میں بڑے شفیق لہجے اس سے مخاطب ہوئے ۔
”مائی چائلڈ مائی گرینڈ ڈاٹر زویا میٹ یور گرینڈ فادر “۔
سر فورڈ جوناتھن کی اطلاع پر مال پہنچ چکے تھے تھوڑی ہی دیر بعد انہیں سلویا کی ہمشکل ایک بھولی بھالی ستره سال کی بیحد خوبصورت لڑکی مال سے نکلتی نظر آئی وہ ٹکٹکی باندھ کر اپنے خون اپنی نواسی کو دیکھ رہے تھے بلآخر خون کی کشش نے زور مارا اور وہ جوناتھن کو اریانا کو پکڑنے کی ہدایت دے کر زویا کی جانب بڑھے جو گاڑی کا دروازہ کھول رہی تھی ۔۔اور اس سے مخاطب ہوئے ۔
”مائی چائلڈ مائی گرینڈ ڈاٹر زویا میٹ یور گرینڈ فادر “
وہ آنکھوں میں حیرت اور خوف لئیے سر فورڈ کو دیکھ رہی تھی تبھی فورڈ کے اشارے پر ان کے آدمی نے زویا کی ناک پر رومال رکھا وہ بیہوش ہوگئی سر فورڈ نے بڑے ہی پیار اور احتیاط سے زویا کو خود اٹھایا اس کے ماتھے پر شفقت سے بوسہ دیا ۔
” میری بچی میری چھوٹی سلویا ۔“
اتنے میں جوناتھن اریانا کو بیہوش کرکے اپنے ساتھیوں کے حوالے کرکے گاڑی فورڈ کے پاس لے آیا ۔
سر فورڈ نے زویا کو گاڑی میں لٹایا اور خود جوناتھن کے ساتھ آگے کی سیٹ پر بیٹھ گئے ۔
”جوناتھن ائیرپورٹ چلو ہم پہلی فلائٹ سے میونخ جائینگے ۔“ یہ کہہ کر انہوں نے فون نکالا اور کال ملائی۔
”بنجامن ہم اپنی نواسی کو لیکر ائیرپورٹ پہنچ رہے ہیں تم تین آدمیوں کی سیٹ کا انتظام کرواؤ فوراً ۔“
” سر فورڈ آپ بےفکر ہو کر ائیرپورٹ پہنچیں اسٹیشن مینجر اپنا آدمی ہے اس نے سارا انتظام پہلے ہی کررکھا ہے ایک گھنٹہ بعد کی میونخ فلائٹ میں آپ کی جوناتھن اور میڈم سلویا جونئیر کی سیٹس بک ہیں۔“ بنجامن نے جواب دیا
ائیرپورٹ پہنچتے ہی زویا کو وہیل چیئر پر بٹھا کر سر فورڈ اور جوناتھن بڑی تمکنت کے ساتھ بورڈنگ کی طرف بڑھے ۔
**************************
آٹھ گھنٹے پہلے ۔۔
زوار نے اپنے سامان سے نکالی ہوئی ٹریکنگ چپ اپنے ہاتھ میں لی اور سوئی ہوئی زویا کی جانب بڑھا ۔۔
نیند میں گم زویا کے اوپر سے چادر ہٹائی اور اس کے ہوش ربا سراپے سے نظر چراتے ہوئے اس کی نازک سی پتلی صراحی دار گردن پر جھکا اور بڑی مہارت سے وہ چپ اس کی گردن پر گلو کردی اب اس چپ نے آدھے گھنٹے کے اندر اندر زویا کی کھال کی اندرونی تہہ میں سرایت کرجانا ۔اس نے زویا کو دوبارہ چادر اڑھائی اور خود باہر نکل کر سیکیورٹی کیمرے کی اسکرین چیک کرنے لگا ۔
پہلے جوناتھن اور اس کے ساتھی پھر جوناتھن کا سکہ اچھالنا وہ جوناتھن کو اچھی طرح جانتا تھا پھر وہ نقاب پوش لڑکی اس کے بعد جوناتھن کا گاڑی سے بم نکالنا کچھ بھی اس کی نظروں سے پوشیدہ نہیں تھا ۔۔۔وہ چلتا ہوا واپس کمرے تک آیا اور زویا کے برابر اس کے آبشار جیسے بالوں کو اپنے ہاتھوں میں لپیٹ کر لیٹ گیا ۔
***************************
حال ۔۔
زوار نے زویا کو گاڑی کی جانب بھیجا یہ لڑکی اس کی عزت اس کی شہ رگ تھی مگر اس وقت اپنے وطن کی سلامتی کیلئیے پروفیسر شبیر کو ڈھونڈنے کیلئیے زویا کا فورڈ کے ہاتھ لگنا ضروری تھا زوار جانتا تھا کہ جب شیری چاچو ان کی مدد کیلئیے قطر میں بندے بھیج سکتے ہیں تو زویا کی فورڈ کے ساتھ موجودگی تو انہیں ہرگز برداشت نہیں ہوگی اسی لئیے اس نے بڑی مہارت سے جال بچھاتے ہوئے زویا کو فورڈ کے حوالے کیا ویسے بھی زویا کی عزت اور زندگی کو اس کے نانا فورڈ سے کوئی خطرہ نہیں تھا فورڈ کے زویا کو لیجاتے ہی اس نے صوفیہ عرف فوکسی سے رابطہ کیا اسے ہدایات دے کر زوار مال سے نکل کر اپنی گاڑی کی طرف بڑھا ڈگی سے میک اوور کا سامان نکال کر اپنا حلیہ مال کے واش روم جا کر بدلا ۔
فرنچ کٹ ڈاڑھی نیلی آنکھیں اور بلونڈ بالوں کی پونی کے ساتھ لمبے کوٹ میں ملبوس اب وہ کوئی فرنچ آرٹسٹ لگ رہا تھا اب اس کا رخ استنبول ائیرپورٹ کی طرف تھا
زوار ائیرپورٹ پہنچ چکا تھا پلین کی بورڈنگ شروع ہوچکی تھی وہ چاروں طرف نظر دوڑاتا سیکیورٹی سے گزرتا پلین میں داخل ہوچکا تھا اپنا بورڈنگ پاس ہاتھ میں لئیے وہ فرسٹ کلاس کیبن میں داخل ہوا تیسری رو میں ہی اسے زویا سر فورڈ اور جوناتھن کے درمیان بیٹھی نظر آگئی تھی اس کا سر ڈھلکا ہوا تھا اور آنکھیں بند تھی زوار قریب سے گزرتے ایک سرسری سی نگاہ زویا کے بیہوش وجود پر ڈالتے اگلی رو میں جاکر بیٹھ گیا خوش قسمتی اس کی سیٹ کا رخ ایسا تھا کہ زویا اسے بآسانی نظر آرہی تھی ۔۔
” بس تھوڑا سا جدائی کا موسم جھیل لو مسز زی اس کے بعد تم ہمیشہ میری پناہوں میں رہو گی ۔“زوار نے خود کلامی کی ۔
تھوڑی ہی دیر میں پلین ٹیک آف کرچکا تھا چھ گھنٹے کا سفر تھا وہ رات بھر کا جاگا ہوا تھا پر اس کی آنکھوں سے نیند غائب تھی وہ چاہتے ہوئے بھی اپنی نظریں اور توجہ زویا پر نہیں ہٹا پا رہا تھا ۔
************************
چکراتے ہوتے سر کے ساتھ اس نے دھیرے سے اپنی آنکھیں کھولیں اس کا دماغ ابھی بھی غنودگی میں تھا چند منٹ تو وہ غائبانہ انداز میں سامنے دیکھتی رہی پھر اسے اچانک اپنی پوزیشن کا احساس ہوا اس نے تیزی سے کھڑا ہونا چاہا پر سیٹ بیلٹ بندھی ہونے کی وجہ سے وہ کھڑی نہیں ہو پائی ۔۔
اس کے ہلنے کی وجہ سے سر فورڈ اخبار چھوڑ کر اس کی طرف متوجہ ہوئے ۔
” شکر ہے تمہیں ہوش آگیا سلویا اب تم کیسا محسوس کر رہی ہو بیٹی ۔“ سر فورڈ نے بڑی محبت سے پوچھا
” میں کدھر ہوں میجر وہ آئی مین زوار کدھر ہیں ۔“ وہ بے چینی سے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے بولی
”میجر زوار تمہارا کون ہے بیٹی سلویا ۔“ سر فورڈ نے تفکر سے پوچھا ۔
”زوار میرے ہسبنڈ ہیں اور سر آپ کو کوئی بڑی غلط فہمی ہوئی ہے میرا نام سلویا نہیں زویا ہے ۔“ وہ دھیمے سے بولی
”ابھی تم صرف سترہ سال کی ہو تمہاری شادی کیسے ہوسکتی ہے وہ بھی ایک مسلمان کے ساتھ ۔“ سر فورڈ کے لہجے میں الجھن تھی ۔
” تمہارا گرینڈ فادر ہونے کے ناطے میں تمہارا گارجین ہوں اور میں اس شادی کو تسلیم نہیں کرتا سلویا ۔“ سر فورڈ قطعی انداز میں بولے
”سر مجھے میرے ہسبنڈ کے پاس جانا ہے آپ مجھے واپس بھیجیں پلیز ۔“وہ روہانسی ہوئی
”سلویا بس ! اب چند باتیں اپنے دماغ میں بٹھالو آج سے تم مجھے نانا کہوں گی میرے ساتھ میرا بازو بن کر رہوگی اور اس زوار کو بھول جاؤ اب تم اس سے کبھی نہیں ملوگی ۔“
”میرا نام زویا ہے اور بہت جلد زوار مجھے ڈھونڈ کر اپنے ساتھ واپس لیجائنگے ۔“ وہ بڑے پریقین لہجے میں بولی ۔
” حد ادب لڑکی آج سے تمہارا نام سلویا ہے تم ایک یہودی گھرانے کا چشم چراغ ہو میں جلد ہی تمہیں ہیکل سلیمانی لیجا کر پوپ اعظم کے ہاتھوں پاک کرواؤنگا پھر تمہاری شادی دھوم دھام سے اپنے ہم پلہ یہودی گھرانے میں کرونگا جو کالک تمہاری ماں نے میرے منہ پر ملی تھی اب اس کالک کو تم صاف کروگی ۔“ سر فورڈ نے قطعی لہجے میں کہا ۔
”میری شادی ہوچکی ہے میرا نام مسز زویا زوار ہے اور میں پلین کے رکتے ہی سیکیورٹی سے مدد لیکر اپنے ہسبنڈ اپنے زوار کے پاس چلی جاؤنگی ۔“ وہ ضدی لہجے میں بولی
”جوناتھن ۔“ سر فورڈ نے خاموشی سے انکی باتیں سنتے جوناتھن کو پکارا
” جی سر فورڈ حکم .“ وہ تابعداری سے بولا
” اس نادان لڑکی کو پھر سے بیہوش کردو اب منزل پر پہنچ کر ہی اسے ہوش آنا چاہئیے ۔“
جوناتھن نے تیزی سے اپنی جیب سے کلوروفارم میں بھیگا ہوا پیک رومال نکالا اور زویا کو سوچنے کا موقع دئیے بغیر پھرتی سے اسکی ناک پر رکھ دیا۔
”کیسے نانا ہیں آپ خودغرض اور بےحس ۔“ زویا بولتے بولتے بیہوش ہوگئی ۔۔
زوار بڑے ضبط کے ساتھ زویا کو آنکھوں میں نمی بھرے سر فورڈ سے بات کرتا دیکھ رہا تھا زویا کے ہلتے لبوں سے وہ بآسانی اپنا نام ادا ہوتے دیکھ رہا تھا پھر دیکھتے ہی دیکھتے ان لوگوں نے زویا کو پھر بیہوش کردیا ۔۔زوار کو اپنے دماغ کی رگیں تنی ہوئی محسوس ہو رہی تھی غصہ ضبط کرتے کرتے اپنے ہاتھ میں موجود پین کو وہ توڑ چکا تھا ۔
*************************
صوفیہ آنکھیں بند کرے سیٹ کی بیک سے ٹیک لگائے بیٹھی تھی اس کا دماغ سرفورڈ زویا اور پھر اس کے سر پر سوار بلال کے بارے میں سوچ رہا تھا ائیرپورٹ پہنچتے ہی اسے استنبول سے آنےوالی فلائٹ سے زوار کو کانٹیکٹ کرنا تھا اور پھر وہاں سے سر فورڈ کو فالو کرنا تھا مگر اگر یہ بلال اپنی ضد پر اڑا رہا تو مشکل ہوجانی تھی ۔۔
وقت گزر رہا تھا منزل قریب آرہی تھی سیٹ بیلٹ کے سائن آن ہوچکے تھے تبھی بلال نے اسے مخاطب کیا ۔
”محترمہ پردےدار خاتون جاگ جائیے ہم میونخ لینڈ کررہے ہیں ۔“
صوفیہ نے آنکھیں کھول کر اس بلال نامی بلا کو گھور کر دیکھا اور سیدھی ہوکر بیٹھ گئی ۔
”کیا ہوا تمہاری طبعیت تو ٹھیک ہے اتنی چپ کیوں ہو ۔“ بلال نے مصنوعی تفکر سے پوچھا
وہ اب بھی چپ چاپ اسے اگنور کئیے بیٹھی رہی ۔
”اوکے اچھی بات ہے مت بولو اپنی انرجی بچاؤ اب قاضی کے سامنے ہی تین بار قبول ہے بولنا ۔“
یہ کہہ کر بلال سیدھا ہو کر بیٹھ گیا وہ صوفیہ کی رگ رگ پہچانتا تھا وہ اس وقت یقیناً اسے چکمہ دے کر بھاگ نکلنے کا پروگرام بنا رہی ہوگی پر اس بار وہ ایسا ہونے نہیں دیگا وہ ٹھان چکا تھا ۔
لینڈنگ ہو چکی تمام مسافر ایک ایک کر کے قطار بناتے اتر رہے تھے بلال اپنی جگہ سے کھڑا ہوا اوپر کیبن سے اپنا بیگ نکال کر دوسرے کیبن سے صوفیہ کا کالا چمکتا بیگ نکال کر دونوں بیگ اپنے کندھوں پر لٹکائے صوفیہ کو اپنی خاموشی اس کی اس حرکت پر توڑنی پڑی
” اوے مسٹر میرا بیگ مجھے دو ۔“
بلال نے سنجیدگی سے اسے دیکھا اور ہاتھ بڑھا کر اسے کھینچ کر کھڑا کیا
”کیا بدتمیزی ہے چھوڑو میرا ہاتھ ۔“ وہ دھیمے لہجے میں غرائی
بلال نے جواب دئیے بغیر اس کے ہاتھ پر اپنی گرفت مضبوط کی اور آگے بڑھنے لگا ۔۔
صوفیہ کا غصہ سے برا حال تھا مگر وہ اتنے لوگوں میں کوئی تماشہ نہیں بنانا چاہتی تھی وہ چلتے چلتے بلال کے قریب ہوئی اور اس کے شانے پر دوسرا ہاتھ رکھ کر اس کے کان میں سرگوشی کی ۔۔۔
” تم بہت بڑی غلطی کررہے ہو ۔۔۔مجھے چھوڑ دو ۔“
بلال نے اس کی مہکتی سانسوں کی گرمی اپنی گردن پر محسوس کی اور اس کی جانب رخ کیا ۔
” میں اب وہ بلال نہیں ہوں جسے تم جانتی تھی تم مجھے پتھر بنا چکی ہو اس لئیے احتیاط کرو ۔“ اس کے چہرے پر کرختگی چھائی ہوئی تھی
وہ تیزی سے اسکا ہاتھ تھامے آگے بڑھ رہا تھا پلین سے اتر کر اب وہ امیگریشن کاؤنٹر کی طرف بڑھ رہا تھا جب صوفیہ نے اس کے ہاتھ کو جھٹکا دیا ۔
”مجھے ابھی ادھر ہی رکنا ہے پندرہ منٹ میں استنبول کی فلائٹ سے میرے ہسبنڈ آرہے ہیں انہوں نے مجھے ادھر ہی رک کر انتظار کرنے کو کہا ہے ۔“ وہ سنجیدگی سے بولی
بلال کسی مشین کی طرح چلتے چلتے رک گیا اور اس کی طرف پلٹا اس کی آنکھیں لہو رنگ ہو رہی تھی اس نے صوفیہ کو دونوں شانوں سے تھام کر جھٹکے سے اپنے قریب کیا اور اس کی نقاب سے جھلکتی شہدرنگ آنکھوں میں جھانکا ۔
”کہہ دو کہ یہ مذاق ہے اب ختم کردو اس مذاق کو میرے ضبط کا مزید امتحان مت کو میں بپھر گیا تو بہت پچھتاؤگی ۔“ وہ اس کے کانوں کی لو کو چھوتے ہوئے سلگتے لہجے میں بولا
صوفیہ نے بلال کو ایک زوردار جھٹکا دیا پر وہ ٹس سے مس نہیں ہوا ۔۔
”مادام کہا نا مجھے پہلے والا بلال سمجھنے کی غلطی مت کرنا ۔“
”ٹھیک ہے خود کو سپر ہیرو سمجھنے والے انسان فلائٹ کا ویٹ کرو اب میرے ہسبنڈ ہی تمہارا دماغ درست کرینگے ۔“ وہ تپ کر فاصلہ قائم کرتے ہوئے بولی
اب وہ دونوں فلائٹ کا انتظار کر رہے تھے صوفیہ پردے میں تھی اور زوار کا حلیہ کیا ہوگا وہ نہیں جانتی تھی وہ بھیس بدل کر سفر کررہا ہے اسے معلوم تھا پر صوفیہ نقاب میں ہوگئی یہ زوار کو نہیں پتہ تھا اور پلان کے مطابق زوار کو صوفیہ کے پاس آنا تھا ۔۔۔۔
یہ لڑکی صوفیہ ہی ہے میں اس کا نقاب اٹھائے بغیر وثوق سے کہہ سکتا ہو کہ یہ میری ضدی محبوبہ صوفیہ ہے مگر یہ بار بار کس ہسبنڈ کا ذکر کررہی ہے شادی کرنے والا مٹیریل تو یہ ہے ہی نہیں تو اتنے کانفیڈنس سے کس کا انتظار کررہی ہے ۔۔۔
وہ دونوں اپنی اپنی سوچوں میں مگن استنبول سے آنےوالی فلائٹ کا ویٹ کررہے تھے جو کسی بھی لمحے لینڈ ہونے والی تھی میونخ میں اس وقت صبح کے سات بج رہے تھے مسافروں کے ہجوم میں اس صبح وہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھے اپنی اپنی سوچوں میں گم آنےوالے وقت کے منتظر تھے ۔
******************************
صبح سویرے کا وقت تھا ہلکی ہلکی سی روشنی پھیل رہی تھی نواحی علاقے میں موجود اس بڑی سی اسٹیٹ کے رننگ گراؤنڈ میں وہ جاگنگ کررہا تھا ٹھیک ایک گھنٹے بعد اس کی گھڑی نے بیپ کی جاگنگ ٹائم ختم وہ دوڑتا ہوا اندر کی جانب بڑھا جہاں ایک سفید فام ملازم اس کیلئیے جوس کا گلاس اور تولیہ لئیے کھڑا تھا ۔
”تھینکس رابرٹ “
اس نے ملازم کے ہاتھ سے تولیہ لیا اور اپنے ہاتھ اور چہرے کو صاف کرکے جوس اس کے ہاتھ سے لیکر گھونٹ گھونٹ پیتا ہوا اندر اپنے کمرے کی جانب بڑھا ۔
اندر بیڈ پر اسکا لباس رابرٹ اس کے ہاؤس کیپر نے تیار کررکھا تھا وہ لباس اٹھاتا شاور لینے چلا گیا ۔شاور لیکر ترو تازہ بلیک ڈریس پینٹ اور وائٹ شرٹ میں ملبوس باہر نکلا اور آئینہ کے آگے کھڑا ہو کر پہلے اپنے بکھرے بال بنائے پھر ٹائی اٹھائی بلیک سلکی ٹائی ۔۔
وہ بنا آواز کئیے تیزی سے تیار ہورہا تھا آج اس کی ایک بڑی کیمیکل کمپنی سے میٹنگ تھی جلدی جلدی اپنے بال سنوارے اور ٹائی ریک سے فان کلر کی ٹائی نکال کر باندھنے ہی لگا تھا کہ اس کے شانوں پر ایک نرم و ملائم دودھیا ہاتھ آرکا ۔۔۔
اس نے تیزی سے مڑ کر اپنی بیوی اپنی محبوبہ کو اپنے حصار میں لیا اور اس کے ماتھے کو ہونٹوں سے چومتے ہوئے بولا
” اتنی کوشش کرتا ہوں کہ تمہاری آنکھ نہ کھلے پھر بھی تم جاگ جاتی ہو ۔“ وہ پیار سے بولا
اس نے دھیرے سے مسکراتے ہوئے اس کی سفید شرٹ پر اپنا نازک ہاتھ پھیرا ۔۔۔
”مجھ سے ملے بغیر آپ باہر جائیں یہ مجھے منظور نہیں ۔۔۔“ وہ بڑے ناز سے بولا
اس کی اس ادا پر وہ اپنے آپ پر قابو نہیں رکھ سکا اور اسے اپنے اندر سما کر اس دلربا کے دلکش وجود کی نرمی اپنے اندر محسوس کرنے لگا ۔۔۔
اس نے اپنا سر اس کے سینے سے اٹھا کر دونوں ہاتھوں سے اسے دور کیا ۔
”اب دیر نہیں ہورہی آپ کو ۔۔۔
”کیا کروں یار تمہیں دیکھتے ہی سب بھول جاتا ہوں ۔“ وہ تیزی سے ٹائی گلے میں ڈالتا ہوا گویا ہوا
”یہ کون سی ٹائی پہن رہے ہیں ہٹیں سامنے سے “ وہ اس کے گلے سے ٹائی اتار کر ریک کی طرف بڑھی اور ایک دوسری ٹائی اٹھا کر اس کے پاس آکر بڑے پیار سے اس کے گلے میں ڈال کر ناٹ بنانے لگی ۔۔۔
” یہ دیکھیں سلکی بلیک ٹائی کتنی اچھی لگ رہی ہے آپ کی سفید شرٹ پر پورے کے پورے ہیرو لگ رہے ہیں “ وہ کھلکھلائی کر دور ہٹی
”سلویا ٹہر جاؤ ورنہ میں ناراض ہوجاؤنگا “ وہ اس کے دور ہٹنے پر تلملایا پر۔۔۔
سلویا کہیں نہیں تھی بس اس کی یادیں تھی شبیر نے ایک آہ بھر کر کالی ٹائی لگائی وہ آج بھی ویسا ہی تھا شاندار وقت نے اس کے گریس میں اضافہ کیا تھا ۔
آئینہ سے ہٹا ہی تھا کہ اس کا سیل بجا اس کے سیکریٹری پلس سیکیورٹی اانچارج عمر کا میسج تھا
”سر آج ٹھیک آٹھ بجے آپ کی میٹنگ لیب میں ہائر نئے سائنٹسٹ سے ہے ۔“
وہ سیل بند کرتا کمرے میں نصب بڑے کمپیوٹر اسکرین کی طرف بڑھا اپنی شہزادی زویا کو دیکھے بغیر وہ کبھی باہر نہیں جاتا تھا کیمرے کی فریکیونسی سیٹ کی اور چونک گیا ۔
کیمرہ زویا کی موجوگی میونخ میں بتا رہا تھا اس نے تیزی سے کیمرے کو زوم کیا ۔۔۔۔زویا وہیل چیر پر تھی اور اس کے پاس جھک ہوا آدمی کوئی اور نہیں اسکا سسر سلویا کا ڈیڈ سر فورڈ تھا ۔
”زویا فورڈ کے ساتھ زوار کدھر ہے ۔“ شبیر کا فکر کے مارے برا حال تھا اس کی گڑیا وہیل چئیر پر تھی اس کے دشمن کے ساتھ استنبول سے آنےوالی فلائٹ لینڈ کرچکی تھی تمام مسافر باہر نکل رہے تھے صوفیہ کی نظریں آرائیوول سے نکلتے مسافروں پر جمی ہوئی تھی
بلال بھی اسی طرف متوجہ تھا جب دور سے اسے ویل چیئر پر زویا اور اسے دھکیلتا جوناتھن نظر آیا ۔۔
زویا نیم بیہوش تھی ان کے ساتھ ہی ایک بڑا گریس فل ادھیڑ عمر سفید فام آدمی تھا بلال اپنی جگہ سے کھڑا ہوگیا اگر زویا جوناتھن کے ساتھ ہے تو میجر زوار کدھر ہیں وہ تیزی سے زویا کی جانب بڑھ رہا تھا جب پیچھے سے آتے کسی فرنچ مسافر نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا ۔۔
”ریلیکس یہ جو نظر آرہا ہے یہ ایک جال ہے جوناتھن تمہیں اچھی طرح پہچانتا ہے بنا رکے سیدھے باہر نکلو میں تمہیں ٹیکسی اسٹینڈ پر ملتا ہوں ۔“ اس مسافر نے اس کے گلے لگتے ہوئے کان میں سرگوشی کی ۔۔
بلال زوار کی آواز پہچان گیا تھا وہ اس کی ہدایات سن کر تیزی سے مڑا مگر ان چند منٹوں میں وہ نقاب پوش لڑکی اپنی جگہ سے غائب ہوچکی تھی ۔وہ چاروں جانب نظر دوڑاتا زوار کی ہدایات پر عمل کرتا باہر نکل گیا اس وقت زویا کی حفاظت ضروری تھی اور یہ تو طے تھا کہ وقت ان تینوں کو اکھٹے ایک ساتھ پھر ایک جگہ ایک مشن پر لے آیا تھا ۔۔۔
”اوکے مادام صوفیہ کب تک یہ آنکھ مچولی کھیلوں گئی میں بھی دیکھتا ہوں ۔“ وہ سیدھا باہر نکل کر ٹیکسی اسٹینڈ کی جانب بڑھ گیا۔
*********************************************
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...