شام ڈھل رہی تھی وہ آفس سے نکلا ہی تھا کہ عروہ کی کال آگئی ۔۔۔
” کیسے ہو شیری ؟؟ ”
” ہمم میں ٹھیک تم سناؤ ۔۔۔”
” پھر ڈنر پر مل رہے ہو ؟؟ بتاؤ کہاں آنا ہے ؟ ”
” عروہ آج میں بزی ہوں کل کا پلان کرتے ہیں مجھے تم سے کچھ اہم باتیں بھی کرنی ہیں ۔۔” شہریار عروہ کو سچائی بتانے کا فیصلہ کر چکا تھا
” ٹھیک ہے پھر کل ملتے ہیں ۔۔۔” وہ اداس ہو گئی
” کم لنچ پر آفس آجاؤ میں ویٹ کرونگا ۔” شہریار نے فون رکھا اور گھر کی طرف روانہ ہو گیا
گاڑی پارک کرکے وہ اپنی چابی سے دروازہ کھولتے ہوئے اندر داخل ہوا تو حسب معمول سویرا کچن میں مصروف تھی اس نے اپنا بریف کیس اور چابیاں مخصوص جگہ پر رکھیں اور سویرا کے سلام کا جواب دیتے ہوئے اپنے کمرے میں چلا گیا
سویرا پر سوچ نظروں سے شہریار کو جاتے دیکھتی رہی پھر سر جھٹک کر چولہے کی طرف متوجہ ہو گئی کچھ دیر بعد جھنجھلاتے ہوئے اس نے چائے کی کیتلی نکالی اور چائے بنانے لگی
چائے ایک کپ میں نکال کر سلیقہ سے چھوٹی ٹرے میں رکھی ساتھ ہی کیبنٹ سے سر درد کی گولی نکالی اور شہریار کے کمرے کی جانب بڑھی
شہریار ابھی فریش ہو کر نکلا ہی تھا کہ دروازے پر دستک ہوئی
” یس کم ان ۔۔۔ ”
سویرا نظریں جھکائے ہچکچاتے ہوئے اندر داخل ہوئی
” یہ آپ کیلئے چائے اور ٹیبلٹ ۔۔۔”
” رکھ دو ۔۔ ” شہریار نے میز کی جانب اشارہ کیا ویسے بھی اس وقت اسے اس کی اشد ضرورت تھی
سویرا ٹرے میز پر رکھ کر جانے کیلئے مڑی
” سنو لڑکی ۔۔۔” اس نے جاتی ہوئی سویرا کو پکارا
“جی ۔۔۔۔”
” آج نو بجے تک میرا ایک اہم دوست گھر آرہا ہے تم اپنے کمرے میں رہنا باہر نکلنے یا سامنے آنے کی ہرگز ضرورت نہیں ہے انڈر اسٹینڈ ۔۔۔”
“جی ۔۔۔”وہ اثبات میں سر ہلاتے ہوئے باہر نکل گئی
چائے پی کر تھوڑی دیر آرام کرنے کے بعد وہ کمرے سے نکلا بھوک سے اس کا برا حال تھا اس نے صبح سے سوائے کافی اور چائے کے کچھ بھی نہیں کھایا تھا وہ اپنی پیشانی مسلتا ہوا کچن میں داخل ہوا کچھ دیر میں جونس بھی آنے والا تھا اس کا ارادہ چائینیز آرڈر کرنے کا تھا سامنے ہی سویرا کچھ پکانے میں مصروف تھی
” سنو لڑکی !! کچھ اسنیک وغیرہ ہیں تو دو ۔۔۔”
” میں نے سنگاپورین رائس بنائیں ہیں آپ کو نکال دوں ؟ ”
” جتنا کہا ہے اتنا کرو ڈنر میں اپنے دوست کے ساتھ کرونگا کچھ اسنیک دے سکتی ہوں تو ٹھیک ہے ورنہ دماغ مت کھاؤ ۔۔۔” وہ برہمی سے بولا
سویرا نے جلدی جلدی سے ڈھونڈ کر بیسن نکالا اور پکوڑے بنانے کی تیاری کرنے لگی پندرہ منٹ میں گرما گرم پکوڑے تیار تھے انہیں پلیٹ میں نکال کر کیچپ ساتھ رکھ کر وہ لاونج میں بیٹھے شہریار کے پاس آئی ۔۔۔
” سنئیے !! یہ پکوڑے ۔۔۔” اس نے پلیٹ آگے بڑھائی
ابھی شہریار نے پلیٹ تھامی ہی تھی کہ دروازے کی اطلاعی گھنٹی بجی
“اندر جاؤ اور باہر آنے کی ضرورت نہیں ہے ۔۔۔” وہ پلیٹ رکھ کر اسے ہدایت دیتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا
سویرا خاموشی سے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئی
*********************
شہریار اور جونس بہت دیر سے بزنس کے امور پر بات چیت کررہے تھے اسی دوران ڈیلوری بوائے ان کا آرڈر لیکر آچکا تھا شہریار پیکٹس سنبھال کر ٹپ دیکر اندر کچن کی جانب بڑھا وہ ابھی لفافے سے کھانا نکال ہی رہا تھا کہ جونس بھی بڑی بے تکلفی سے کچن میں چلا آیا
” کم سن مین مل کر فوڈ سرو کر لیتے ہیں ۔۔۔” وہ شہریار کے ہاتھ سے پیکٹ لیتے ہوئے بولا
” ہممم نائس !! کیا تم نے کچھ کک بھی کیا ہے بہت زبردست خوشبو آرہی ہے ۔۔” جونس نے ناک سکیڑتے ہوئے کہا
اس سے پہلے شہریار اسے کچھ جواب دیتا مین دروازہ کھلنے کی آواز سنائی دی ساتھ ہی ساتھ پینسل ہیل کی ٹک ٹک نزدیک آرہی تھی منٹوں میں بلیک اسکرٹ پر پنک ٹاپ پہنے اپنے گھنگھریالے بالوں کی اونچی پونی بنائے عروہ مسکراتے ہوئے اندر داخل ہوئی
” ہیلو بوائز ۔۔۔۔” اس نے خوشدلی سے ان دونوں کو مخاطب کیا
“عروہ بے بی واٹ آ پلیزنٹ سرپرائز !! شہریار نے تو مجھے نہیں بتایا کہ تم بھی ہمیں جوائن کررہی ہو ؟؟ ” جونسن نے آگے بڑھ کر اس سے گرم جوشی سے ہاتھ ملایا
” شیری کو بھی پتا نہیں تھا بس میرا دل چاہا اور میں آگئی ۔۔۔” وہ نزاکت سے کہتی ہوئی اس طویل کچن میں موجود ڈائننگ ٹیبل کی طرف بڑھی
” عروہ اب آ ہی گئی ہو تو ٹیبل سیٹ کر کے کھانا سرو کرو ۔۔” شہریار نے اسے بیٹھتے دیکھ کر ٹوکا
” کم آن شیری وہ تمہاری میڈ !! اوپس سوری وہ کزن سسٹر کدھر ہے اسے بلاؤ فری میں رہ رہی ہے کچھ کام تو کرے ۔۔۔۔” عروہ نے نخوت سے کہا
اس سے پہلے شہریار کچھ کہتا عروہ نے سویرا کو آوازیں لگانا شروع کردی
” سویرا !!!’
” لڑکی کدھر ہو باہر آؤ ۔۔۔”
“شہریار یہ جواب کیوں نہیں دے رہی ؟؟ ” عروہ نے تنک کر پوچھا
شہریار خاموشی سے اٹھا اور سویرا کے کمرے کی طرف گیا دروازہ ناب گھما کر کھولا سامنے ہی سویرا اپنی کتابوں کو الٹ پلٹ کر دیکھ رہی تھی اس کے چہرے پر ایک مدھم سی مسکان تھی
” سنو لڑکی !! کیا تمہیں آواز سنائی نہیں دی بہری ہو کیا ؟؟ “وہ اس کے چہرے سے نظریں ہٹاتے ہوئے بولا
” وہ اپ نے منع کیا تھا باہر مت آنا ۔۔۔۔” وہ بوکھلائی
” امید ہے تمہیں گھر آئے مہمانوں کو ویلکم کہنے کے خاطر داری کرنے کے کچھ مینرز تو آتے ہونگے چلو باہر آؤ اور سب سے ملکر ڈنر سرو کرو ۔۔۔” وہ تیزی سے کہہ کر باہر نکل گیا
سویرا نے جلدی سے اپنا دوپٹہ درست کیا اور پیروں میں سلیپرز پہنتی ہوئی باہر نکل کر لیونگ روم کی جانب بڑھی
عروہ جونس کے ساتھ خوش گپیوں میں مصروف تھی جب سویرا اندر داخل ہوئی ۔۔۔۔
” اسلام علیکم ۔۔۔۔” اس نے دھیرے سے سلام کیا
“شہریار یہ کون ہیں تعارف تو کروا دوں ۔۔۔”جونس نے سویرا کو دیکھتے ہوئے پوچھا
” یہ دو صدی پرانا موڈل شہریار کی کزن سسٹر ہے !!! ” عروہ نے مزاق اڑاتے ہوئے کہا
” سنو لڑکی تم کچن میں جاؤ اور جا کر ڈنر ٹیبل سیٹ کرو ۔۔۔” عروہ تحکم بھرے انداز میں بولی
سویرا ،خود کو مرکز نگاہ بنے دیکھ کر گھبرا گئی تھی اس نے شہریار کی طرف دیکھا جو لاتعلقی سے بیٹھا ہوا تھا اور چپ چاپ پلٹ کر کچن کی جانب چلی گئی
“عروہ تمہیں ایسے نہیں بولنا چاہئیے تھا اب اٹھو اور اس کی مدد کرو ۔۔۔” جونس نے اسے ٹوکا
عروہ نے اسے گھورا اور شہریار کی طرف متوجہ ہو گئی ۔۔
” شیری لگتا ہے اے سی کولنگ نہیں کررہا ہے ذرا چیک تو کرو مجھے گھٹن ہو رہی ہے ۔۔۔” وہ بے تکلفی سے اس کے کندھے پر سر رکھ کر بولی
شہریار اور عروہ کو تاسف سے دیکھتے ہوئے جونس کچن میں آیا جہاں سویرا سارا کھانا گرم کر کر کے برتنوں میں ڈش آؤٹ کررہی تھی ۔۔
“ہیلو لٹل گرل ، کیا کررہی ہو ؟ ” وہ ڈشز اٹھا کر ٹیبل پر رکھتے ہوئے بولا
” آپ !!! ” سویرا اسے کچن میں دیکھ کر حیران رہ گئی
میں جونس ہوں تمہارے کزن برادر کا دوست تو اس رشتے سے میں بھی تمہارا برادر ہوا ۔۔۔۔” وہ پاس آکر مسکراتے ہوئے بولا
” وہ وہ میرے بھائی نہیں ہیں ۔۔۔۔” سویرا نے بمشکل جواب دیا
” اچھا پر میں تو ہوں پتا ہے میری چھوٹی سسٹر بالکل تمہارے جیسی تھی چپ چاپ گم سم سی تھی ۔۔۔” جونس ازابیلا کو یاد کرتے ہوئے بولا
” آپ کی سسٹر کدھر ہیں ؟؟ ” سویرا نے پوچھا
” شریر لڑکی مجھے باتوں میں لگا دیا چلو جلدی جلدی ڈنر سرو کرتے ہیں ۔۔۔” جونس نے اس کے سر پر ہلکی سی چپت ماری
شہریار جو بیسمنٹ سے عروہ کے ساتھ سینٹرل ائیر کنڈیشن چیک کر کے آریا تھا یہ منظر اس کی آنکھوں سے مخفی نہیں رہا اس کے چہرے پر ناگواری اتر آئی
” جونس تم مہمان ہو کچن سے نکلو ۔۔۔” وہ اسے ٹوک گیا
*************************
وہ سب میز کے گرد بیٹھ چکے تھے بھاپ اڑاتی ڈشز سامنے رکھی ہوئی تھیں سویرا نے بازاری کھانے کے ساتھ ساتھ گھر کے پکے سنگاپورین رائس اور چکن چلی بھی سرو کر دی تھی اب وہ پانی کا جگ رکھ کر واپس جانے ہی لگی تھی کہ جونس نے اسے ٹوکا
“سوئیٹ گرل !! تم کدھر جا رہی ہو ؟ ڈنر تو ساتھ کر لو ۔۔”
” سویرا جسٹ سٹ ڈاؤن ۔۔۔”شہریار نے ناگواری دباتے ہوئے کہا
وہ چپ چاپ کرسی گھسیٹ کر بیٹھ گئی
“شیری نیکسٹ ویک ہماری انگیجمنٹ پارٹی رکھ لو میں نے تو ممی ڈیڈی کو بھی بتا دیا ہے ۔۔۔”
عروہ چمکتی آنکھوں سے اسے دیکھتے ہوئے بولی
“کیوں جونس تم کیا کہتے ہو ؟؟ ” عروہ نے جونس کو گھسیٹا
” ویل !! تم دونوں اتنے عرصے سے ڈیٹ کررہے ہو اچھا ہے لیگلی انگیج ہو جاؤ ۔۔۔” جونس کوک کا سپ لیتے ہوئے بولا
” بولو شیری !! فرائیڈے منگنی کر لیتے ہیں اور نیکسٹ ماہ میں شادی !! ” عروہ کا لہجہ کھنک رہا تھا
سویرا نے بڑے حوصلے سے اپنی پلیٹ کھسکائی اور معذرت کرتے ہوئے بنا رکے کمرے سے باہر نکل گئی ۔۔شہریار کی پر تفکر نظروں نے اس کا دور تک تعاقب کیا تھا
ایک پرتکلف ڈنر کے بعد جونس نے جانے کی اجازت لی
“فرینڈز مجھے صبح ایک اہم میٹنگ اٹینڈ کرنی ہے اس لئیے اب اجازت ۔۔۔” وہ شہریار سے مصافحہ کر کے عروہ کو بائے بائے کہتا چلا گیا
” شیری میرے خیال سے میں بھی اب چلوں نیکسٹ ویک انگیجمنٹ کرنی ہے بہت کام ہونگے صبح سے ہی شروع کرونگی یو نو یہ اس سال کی سب سے بڑی پارٹی ہو گی ۔۔۔” عروہ کی نظروں میں چمک تھی
” عروہ بیٹھو مجھے تمہیں کچھ بتانا ہے ۔۔۔۔”
شہریار اسے سب کچھ بتانے کا فیصلہ کر چکا تھا
عروہ اس کے انداز کو دیکھتے ہوئے سنجیدگی سے بیٹھ گئی
” تمہیں مجھ پر ٹرسٹ ہے ؟؟ ” شہریار نے اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے پوچھا
” ہاں ٹرسٹ ہے بہت ہے جبھی تو اتنے سالوں سے تمہارے پیچھے ہوں ۔۔۔”
شہریار نے اس کو بغور دیکھتے ہوئے آہستہ آہستہ اپنے اور سویرا کے رشتے کی حقیقت بتانی شروع کی عروہ کا چہرہ تیزی سے رنگ بدل رہا تھا وہ یہ سب کچھ سن کر ایک شاک میں آگئی تھی
” مجھے اندازہ ہے کہ تمہیں یہ سب جان کر بہت دکھ پہنچا ہے۔۔۔ ”
” دکھ ۔۔۔۔” عروہ نے اس کی بات کاٹی
” شیری تم نے میرا مان توڑا ہے میری انا کو ٹھیس لگائی ہے ۔۔۔” وہ برائے ہوئے لہجہ میں بولی
” لیکن میرے نزدیک اس رشتے کی کوئی اہمیت نہیں ہے ۔ ”
” جو بھی ہوں مسٹر شہریار تم اس سو کالڈ رشتے کو رکھو یا نا رکھو لیکن میں کبھی بھی سیکنڈ وائف بننا پسند نہیں کرونگی ۔۔۔۔”
عروہ نے اپنا ہینڈ بیگ اٹھایا
” تم اپ سیٹ ہو رکو میں گھر چھوڑ دیتا ہوں ۔۔”
” چھوڑ تو تم نے دیا ہے شیری ؟؟ ۔۔۔۔”
” فار گاڈ سیک عروہ !! کچھ نہیں ہوا ہے ۔۔۔”
” میرے پیچھے آنے کی ضرورت نہیں ہے جس دن اس دو ٹکے کی لڑکی کو اپنی زندگی سے نکال دو گئے میں تب کچھ سوچوں گئی ۔۔۔۔” وہ دو ٹوک انداز میں کہتی ہوئی دروازہ پار کر گئی
شہریار نے دروازہ لاک کیا اس کے چہرے پر گہری سوچ کی پرچھائیاں تھیں وہ سیدھا اپنے کمرے میں آیا ابھی بیڈ پر بیٹھا ہی تھا کہ اس کی نظر اینا سے منگوائے گئے لیب ٹاپ پر پڑی اس نے کچھ سوچتے ہوئے لیب ٹاپ اٹھایا اور سویرا کے کمرے کی طرف بڑھا
***********************
اسے پتا تھا کہ شہریار اس کا نہیں ہے مگر پھر بھی دکھ کی انتہائی حدود کو چھوتے ہوئے وہ عروہ سے شہریار کی منگنی اور شادی کا ذکر سن رہی تھی اسے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے زمانوں کی تھکن اس کے وجود میں بسیرا کر رہی ہے بڑی مشکل سے اس نے خود کو سنبھالا اور ایکسکیوز کرتے ہوئے اپنے کمرے میں آگئی
قالین پر بیٹھ کر بستر پر سر رکھ کر وہ اپنی ناقدری پر آنسو بہا رہی تھی ۔۔۔
“پھپھو آپ ٹھیک کہتی ہیں میں ہوں ہی منحوس مجھے کوئی رشتہ راس نہیں آتا ۔۔۔۔” وہ خود ترسی کی انتہا پر تھی نا جانے کتنی دیر بعد وہ اٹھی اب وہ فیصلہ کر چکی تھی مزید آنسو نہیں بہانے بس اب یہاں سے جانا تھا یہ لوگ یہ رشتے اس کے نہیں تھے ۔۔۔۔
وہ مجھ دھو کر واپس آئی ہی تھی کہ شہریار کمرے میں داخل ہوا
” یہ تمہارا لیب ٹاپ آئندہ میں تمہیں ادھر ادھر کسی کے ساتھ نا دیکھوں ۔۔۔۔” وہ ایک جدید لیب ٹاپ اس کی جانب بڑھاتے ہوئے بولا
سویرا نے چپ چاپ لیب ٹاپ لے لیا ویسے ہی وہ اس کے گھر میں رہ رہی تھی وہ اسے پاکستان سے لیکر آیا تھا پڑھنے کی اجازت دی تھی تو اتنے احسانات کے بعد اب کیا نخرہ دکھاتی ۔۔۔
” تم روئی ہو ؟ مگر کیوں ؟؟ میں بہت پہلے یہ واضح کر چکا تھا کہ یہ زبردستی کا رشتہ صرف عارضی ہے پھر تم ایسا ری ایکشن کیوں دے رہی ہو ؟؟ ” وہ اس کی سرخ آنکھوں کو دیکھتے ہوئے تپ اٹھا
” آپ غلط سمجھ رہے ہیں میں تو بس وہ صابن آنکھ میں چلا گیا تھا ۔۔۔”
” سنو ۔۔۔عروہ کے بارے میں ابھی شاہ بی بی یا کسی سے بھی کوئی ذکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے تم سیٹ ہو جاؤ پھر میں دیکھوں گا ۔۔۔” وہ سنجیدگی سے اسے دیکھتا ہوا واپس پلٹ گیا
********************
_سویرا ، شہریار کی منکوحہ ہے ۔۔۔” اس انکشاف نے اسے جڑ سے اکھاڑ دیا تھا اس کے اندر آگ بھڑک رہی تھی ۔۔۔
تین دن سے وہ اپنے کمرے میں بند تھی شہریار سے سچائی جاننے کے بعد اس کا ذہن ماؤف ہو گیا تھا آج تک وہ محبتوں اور چاہتوں کے درمیان گھری رہی تھی ہر خواہش کا پورا ہونا خوشیاں بھی پانا جیسے اس کا حق تھا لیکن اب زندگی کی اس سب سے بڑی بازی پر سویرا نام کی دراڑ سامنے آکھڑی ہوئی تھی اس کا دل چاہا کہ کہیں سے جادو کی چھڑی مل جائے اور وہ سویرا کو شہریار کی زندگی سے غائب کر دے ۔۔۔
” کاش تم میرے اور شہریار کے بیچ میں نا آئی ہوں کاش شہریار کے نام کے ساتھ پہلا اور آخری نام صرف اور صرف میرا جڑتا کاش کاش کاش ۔۔۔” ایسے کئی کاش اس کے دماغ میں ادھم مچا رہے تھے اپنی سوچوں سے فرار حاصل کرنے کے لئیے اس نے گاڑی کی چابی اٹھائی اور باہر نکل گئی ۔۔
کافی دیر تک غائب دماغی سے گاڑی چلانے کے بعد اسے ہوش آیا تو وہ شہریار کے آفس کے باہر تھی ایک گہرا سانس لیکر وہ گاڑی کو ریورس کرنے ہی لگی تھی کہ سامنے بلند شیشے کی عمارت کا دروازہ دربان نے کھولا اور شہریار کی سیکریٹری اینا باہر نکلتی نظر آئی ۔۔
عروہ تیزی سے گاڑی پارکنگ کی طرف بڑھتی اینا کے پاس لے گئی گاڑی کا شیشہ اتارا
” ہے اینا ہاؤ آر یو ۔۔۔”
اینا جو اپنی گاڑی کے پاس جا رہی تھی عروہ کو دیکھ کر چونک گئی
” فائن میم ۔۔۔” اس نے جواب دیا
” اینا مجھے تم سے ایک ضروری کام ہے میرے ساتھ آؤ ۔۔”
” بٹ میم !! ۔۔۔”
” اگر مگر کچھ نہیں آؤ گاڑی میں بیٹھو کافی پینے کے بعد تمہیں واپس ادھر چھوڑ دونگی ۔۔۔” عروہ قطعی لہجہ میں بولی
اینا خاموشی سے دروازہ کھول کر بیٹھ گئی آفس کے سامنے ہی کافی شاپ تھی عروہ ، اینا کو لیکر اندر داخل ہوئی دو کافی کا آرڈر دے کر وہ دونوں اپنی اپنی کافی تھامتے ہوئے کونے پر واقع میز بیٹھ گئیں
” اینا ۔۔”
” یس عروہ میم ۔۔۔”
“شہریار بتا رہا تھا اس کی کزن سویرا کا ایڈمشن شاپنگ اور دیگر سارے معاملات تم ہینڈل کررہی ہوں ؟؟ ”
” یس میم سر نے ڈیوٹی لگائی تھی اور وہ مس سویرا بہت انوسینٹ ہیں اس لئیے ان کی ہیلپ کر دیتی ہوں ۔۔۔”
” اچھی بات ہے ویسے وہ کس اسکول میں ایڈمٹ ہوئی ہے ؟؟ ” عروہ نے کافی کا سپ لیتے ہوئے سرسری انداز میں پوچھا
” اسکول ؟؟ ” اینا نے حیرت سے عروہ کو دیکھا
” نو میم ، مس سویرا سکول میں نہیں کوئین میری یونیورسٹی میں ایڈمٹ ہوئی ہیں ۔۔۔”
” واٹ !! ” عروہ کو پھندا سا لگ گیا
” آر یو اوکے میم !! ” اینا نے جلدی سے ٹشو پیپر اس کی طرف بڑھایا
” او یس آئی ایم فائن !!” عروہ نے نیپکن سے منھ صاف کیا
” کس ڈپارٹمنٹ میں پڑھتی ہے وہ لڑکی ؟؟؟ ” عروہ نے اپنی حیرت پر قابو پاتے ہوئے پوچھا
” میڈیکل سائنس فرسٹ سمسٹر میں ہیں سویرا میم ۔۔۔” اینا نے سادگی سے جواب دیا
دو تین ادھر ادھر کی باتیں کرنے کے بعد اس نے اینا کو ڈراپ کیا اور سیدھی اپنے گھر روانہ ہو گئی ۔۔۔
وہ لب بھینچے آئینہ کے سامنے کھڑی اپنے خوبصورت وجود کو دیکھ رہی تھی سویرا اگر میڈیکل میں تھی تو وہ بھی اس سے کم ہر گز نہیں تھی اسے محفل پر چھا جانے کا ہنر آتا تھا تو سویرا ایک دبو سی دیسی لڑکی تھی لیکن نا جانے کیوں اس وقت سویرا اسے اپنے سے ایک قدم آگے نظر آرہی تھی اس کے اندر حسد کا انبار کھڑا ہو رہا تھا وہ سویرا سے سخت متنفر اور بیزار تھی سویرا کا وجود اسے کانٹے کی طرح چبھ رہا تھا وہ اس کانٹے کو اپنی راہ سے نکال دینا چاہتی تھی اسے سزا دینا چاہتی تھی اس کے سارے خواب توڑ کر اسے شہریار کی نظروں سے گرا دینا چاہتی تھی ۔۔۔
” سویرا تمہیں میری اور شہریار کی زندگی سے کہیں دور بہت دور جانا ہوگا ۔۔۔” وہ بڑبڑائی
******************