“حسن مجھ سے سمرہ کی حالت دیکھی نہیں جارہی میں اسکو بتا رہی ہوں” حیا کو اپنی ساری کزنز سے پیار تھا اور سمرہ مسلسل اپنے کمرے میں بند تھی تو اسکو اب ٹینشن ہونے لگی تھی
“یار حیا آپی سارے سرپرائیز کا بیڑا غرق نہ کریگا پلیز” حسن نے با قاعدہ ہاتھ جوڑ دئیے
اتنے میں ہادیہ بھی آگئی اور سب ایک مشترکہ روم میں بیٹھ کر رات میں ہونے والی پارٹی کے بارے میںڈسکس کرنے لگے
“میں عثمان بھائی کو بلاتی ہوں وہ بہت اچھے ہیں اور ایسے کام انکو بہت اچھے سے آتے ہیں” ہادیہ چہک کر بولی جسپر سب نے ہاں میں ہاں ملائی
“کیوں ہم بھی کرسکتے ہیں” حیا اسکو بلانا نہیں چاہتی تھی نہ جانے وہ انکی تائی اور تایا کے رویوں کو دیکھ کر کیا سوچے
“تم تو چپ کرو انکو دیکھ کر ایسے ڈرتی ہو جیسے ایک دم بھوت سامنے آگیا ہو” ہادیہ اسکے کندھے پر دھپ لگاتے ہوئے بولی اور سب کا مشترکہ قہقہہ بلند ہوا
“میں کوئی ڈرتی ورتی نہیں” حیا نے اپنا کمزور سا دفاع کیا جبکہ ہادیہ نے کال کرکے عثمان کو بلالیا
________________________________________
“اسلام علیکم” عثمان کی آواز پر بے اختیار سب نے اسکو پیچھے مڑ کر دیکھا ہادیہ کی کال پر وہ انکے گھر آگیا تھا اگرچہ ان سے کوئی تعلقات وغیرہ نہیں تھے لیکن کسی کے اتنے فورس کو وہ رد بھی نہیں کرسکتا تھا
“اوووہ آپ ہیں عثمان بھائی؟” زینب نے ستائشی نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا
“ہاں جی بالکل” وہ مسکراتا ہوا سنگل صوفے پر بیٹھ گیا
“اوکے مانی بھائی میں ان سب کا تعارف کرواتی ہوں” ہادیہ ایک دم سیدھی ہو کر بیٹھ کر کہنے لگی
“ہاں کیوں نہیں میڈم” عثمان کا شگفتہ انداز سب کو ہی پسند آیا تھا
“حیا آپی آپ نے بتایا نہیں آپکے سر اتنے ہینڈسم ہیں ” زنیرہ کے کہنے پر خاموش بیٹھی حیا یک دم چونک کر اسکو دیکھنے لگی عثمان نے ابرو اچکا کر کر “کیا ہوا؟” کا اشارہ کیا تو حیا نے فورا نظریں پھیر لیں
“تمہیں کیوں بتاتی وہ؟” حسین نے اسکو گھورتے ہوئے کہا اب پھنسنے کی باری زنیرہ کی تھی
“میں تو ایسے ہی کی رہی تھی ورنہ میرا ہیرو کسی سے کم ہے کیا؟” زنیرہ اتراتے ہوئے بولی اور فورا ہی شرمائی جب سب کا ایک ساتھ شور بلند ہوا
“کون ہے آپکا ہیرو ویسے؟” عثمان کو ان کزنز کی پارٹی واقعی بہت اچھی لگ رہی تھی
“میں ہوں انکا سر آنکھوں کا تاج” حسین نے گردن اکڑا کر کہا
“خوش فہمی تو دیکھئے ابھی کوئی بات وات ہوئی نہیں فیملی میں اور یہ خود سر آنکھوں کا تاج سمجھ بیٹھے ہیں ویسے بھائی بتادوں کہ تاج سر کا ہوتا ہے آنکھوں کا نہیں” حسن نے حسین کی پیٹھ پر دھپ لگاتے ہوئے کہا
“تم تو جب بھی بولنا بلکہ بھونکنا فضول بھونکنا” حسین نے جل ککڑے انداز میں کہا جسپر سب کا قہقہہ بلند ہوا
“ہادیہ اب تعارف کرواؤ بھئی؟” عثمان نے کہا تو ہادیہ ایک دم کھڑی ہوئی ہاتھ کو مائیک بنا کر بولنا شروع ہوئی
” یہ حیا اسکو تو آپ جانتے ہی ہیں یہ زنیرہ ہے حیا کی بہن۔۔یہ شہیرہ جو کہ بولنے کے فن سے نا واقف ہیں (وہ شہیرہ کی کم گوئی پر چوٹ کرتے ہوئے بولی) یہ بھی حیا کی بہن ہیں۔۔۔ یہ زینب بڑی تائی کی بیٹی اور انکی بہن سمرہ بطور احتجاج کمرے میں بند ہیں۔۔۔ یہ سمیہ اور یہ فائقہ جو ان دو نمونوں کی غلطی سے بہن ہیں اور چھوٹی تائی کی اولادوں میں انکا شمار ہوتا ہے اور ابھی ایک اور پارٹی شام میں آئیگی وہ ہوگی پھوپھو کی بچہ پارٹی” ہادیہ کے تعارف کروانے پر سب مسکرا رہے تھے
“اب میں آپکی ریلیشنز کا بھی بتادیتی ہوں
حیا آلویز سنگل۔۔۔۔زینب کو کوئی نہ کوئی مل جائیگا۔۔۔ زنیرہ اور حسین لو برڈز۔۔۔سمرہ اور حسن کا نکاح ہوگیا ہے اب بیچارے حسن صاحب کہیں ہاتھ نہیں مار سکتے (حسن نے بے چارگی والا منہ بنایا) فائقہ بھی سنگل اور سمیہ اور شہیرہ کا اللہ کو پتہ ہے کیونکہ دونوں بولنے کے فن سے نا واقف ہیں۔۔۔۔” اسکی آخری بات پر سب ہنس دیئے
“آپی۔۔۔آپی” ایک دم دروازہ کھول کر ایمان کمرے میں داخل ہوئی اور آؤ دیکھا نہ تاؤ سیدھا حیا کے پاس آگئی
“کیا ہوا آپی کی جان؟” حیا ایمان کو اپنے پاس بٹھاتے ہوئے بولی
“یہ دیکھیں۔۔۔ یہ نہیں کھل رہا” وہ اسکو اپنا ٹیب دکھاتے ہوئے بولی اور تقریبا رو دینے کو تھی
“اچھا دکھاؤ۔۔۔حسین اسکو دیکھ لو” اس نے ایمان سے ٹیب لے کر حسین کی طرف بڑھایا جو کہ عثمان نے لے لیا اور کچھ ادھر ادھر کر کے ٹیب آن کردیا
“واؤ آپ کون ہیں وہسے” ایمان پہلے ٹیب کھل جانے پر خوش ہوتے ہوئے بولی پھر اسکو یاد آیا کہ ان صاحب کو تو کبھی گھر پر نہیں دیکھا تو پوچھ بیٹھی
“میں آپکا بھائی ہوں” عثمان کو یہ پھولی پھولی گالوں والی کیوٹ بے بی بہت اچھی لگی
“ہیں سچی آپی، زنیرہ آپی ،شہیرہ آپی دیکھیں بھائی آگئے اب بابا واپس آجائیں گے نا” وہ خوشی سے چیختے ہوئے بولتے ہوئے عثمان کے گلے لگ گئی اسکی بات کر عثمان تو کیا باقی سب بھی شاق میں تھے کسی کو اندازہ نہیں تھا ایمان اتنا گہرا سوچ سکتی ہے
“ارے یہ بے بی کون ہے؟” عثمان نے ماحول کی کلفت دور کرتے ہوئے کہا اور ایمان کو گود میں بٹھالیا
“یہ حیا کی سب سے چھوٹی گڑیا کے” ہادیہ بھی مسکراتے ہوئے بولی
” اوہ یہ تو بڑی کیوٹ ہے بھئی” عثمان نے اسکے گال کھینچے ہوئے کہا جسپر ایمان سرشاری سے واپس گلے لگ گئی حیا کا دل چاہا اسکو اٹھادے وہ گو واقعی میں اسکو بھائی سمجھ بیٹھی تھی۔۔۔لیکن عثمان بھی تو اسکے لاڈ اٹھائے جارہا تھا تو وہ کچھ نہیں کہ پارہی تھی
“چلو بھئی ارینجمنٹ ڈیسائیڈ کرو ٹائم ختم۔ہوجائیگا” حسن کے کہنے پر سب نے ارینجمنٹس خوش گوار ماحول میں ڈیسائیڈ کیا اور آخر میں دادا دادی کو بلا کر سب کچھ انکے گوش گزار کر مطمئن ہوگئے
_________________________________________
“سمرہ دروازہ کھولو” حیا دروازہ کھٹکھٹا رہی تھی اور حیا کی آواز سن کر اس نے دروازہ کھول دیا لال آنکھیں اور سرخ ناک دیکھ کر حیا وہیں کی وہیں رہ گئی
“اے تم رو کیوں رہی ہو؟” حیا اسکو اندر دھکیلتے ہوئے بولی
“حیا کسی کو میری برتھ ڈے یاد نہیں اور تو اور حسن کو بھی یاد نہیں” وہ روہانسی انداز میں بولی
“ارے مارو گولی سب کو میں نے تو وش کردیا تھا نا”
یہ بھی انکے پلین میں شامل تھا کہ حیا پہلے سے ہی وش کردے تاکہ حیا سے اسکی دوستی بر قرار رہے
“اچھا تم یہ ڈریس پہن لو پھر ہم ڈنر پر چلتے ہیں” وہ اسکے سامنے لائٹ بلیو میکسی کرتے ہوئے بولی جسکی آستینوں اور سامنے بہت نفاست سے باریک سلور کام تھا اور نیچے سے پھولی ہوئی تھی جیسے کوئی پرنسس کا ڈریس ہو سمرہ اس کو دیکھ کر مبہوت ہوگئی
“یہ یہ میں پہنوں گی حیا پاگل تو نہیں ہوگئی ہو؟” حیا کو پتہ تھا وہ نہیں مانے گی اس نے یہ خدشہ حسن سے بھی کہا تھا جس نے کچھ سوچے سمجھے بغیر بڑے مزے سے آرڈر پر منگوالیا تھا اور حسن نے کہا کہ کسی بھی طریقے سے منا لینا اور حیا کو اب بہت مشکل لگ رہا تھا
“ہاں تو۔۔۔۔ یار اب تم میرے لئے اتنا بھی نہیں کرسکتی میں نے تمہاری خوشی کیلئے اتنی مشکل سے یہ مانا مطلب کہ منگوایا اور اور تمہیں وش بھی کیا” حیا بے ربط جملے کہ رہے تھی اور اسکی جذباتی اسپیچ کام کرگئی اور سمرہ ڈریس اسکے ہاتھ سے لے کر پہننے چلی گئی
سمرہ واپس آئی تو حیا اسکو دیکھ کر ساکت سی رہ گئی بنا میکپ کئے وہ صرف اس میکسی میں ہی شہزادی لگ رہی تھی
“حیا تم پاگل ہوگئی ہو میں اسمیں تمہارے ساتھ ڈنر پر کیسے جاؤں گی” سمرہ کو اپنا آپ آکورڈ لگ رہا تھا
“دیکھو سمی تم نیچے اترو گی نا تو وہاں سب بیٹھ کر تمہاری تیاری دیکھیں گے انکو یاد آجائیگا تمہاری برتھ ڈے ہے پھر سب خود شرمندہ ہوجائیں گے اور خاص کر حسن جسکو اپنی محبوبہ کی برتھ ڈے یاد نہیں” وہ بے چارگی سے اسکو قائل کر رہی تھی
“اچھا ٹھیک ہے لیکن ہم ہوٹل۔میں ڈنر نہیں کریں گے بس لانگ ڈرائیو پر جائیں گے میں یہ ڈریس پہن کر ہوٹل میں نہیں جاسکتی” سمرہ کو حیا کا آئیڈیا پسند آیا تھا اور ساتھ ساتھ اپنا مشورہ بھی دے دیا جسپر حیا اطمینان سے سر ہلا کر نفاست سے اسکو تیار کرنے لگی (یہ بھی حسن کا آرڈر تھا)
_________________________________________
“یہاں تو کوئی بھی نہیں ہے حیا” حیا سمرہ کو لے کر نیچے آرہی تھی تو لاونچ میں اندھیرا اور مسلسل خاموشی دیکھ کر سمرہ نے کہا
“ہاں شاید باہر ہونگے تم چلو تو سہی” وہ اسکا ہاتھ پکڑ کر باہر کے جانے لگی مبادا کوئی اور سوال ہی نہ کرلے
حیا اسکو باہر گاڑڈن میں لائی جہاں معمول میں چلنے والی لائٹیں بھی بند تھیں سامنے صرف ایک میز تھی جسپر لائٹ بلیو لائٹ چل رہی تھی حیا اسکو اس میز کے قریب لائی کہ ایک دم ساری بلیو لائٹس روشن ہوئیں اور کہاں کہاں سے سب نمودار ہوئے اور اسپر اسپرنکل فائر کردیئے سمرہ یک ڈھک ساکت کھڑی سب کچھ دیکھ رہی تھی اسکے تو وہم و گمان میں بھی یہ سب نہیں تھا
“سرپرائیز” سب نے چیخ کر کہا اور حسن اسکے پاس آکر کھڑا ہوگیا
“ارے تم سب کو یاد تھا اسکی برتھ ڈے ہے میں تو بالکل بھول گیا تھا” وہ برابر میں کھڑے ہوکر بھی تنگ کرنے سے باز نہیں آیا اور سمرہ سے اب آنسو روکنا مشکل۔ہوگیا وہ وہیں حسن کے بازو سے لپٹ گئی اور حسن گڑبڑا گیا
“ہیں ہیں میں نے کسی کا خدانخواستہ قتل کردیا یا مجھے عمر بھر قید تنہائی کی سزا سنا دی گئی ہے؟” وہ اسکے آنسو سے پریشان مگر شگفتہ انداز میں اندازے لگاتے ہوئے بولا جسپر سب ہنس دئیے
“کیا کر رہی ہو سمی اتنی محنت سے میں نے میک اپ کیا تھا” حیا چیختے ہوئے بولی اور بھاگ کر اسکو حسن سے الگ کیا جو خود بھی اسکو مبہوت کھڑا دیکھ رہا تھا وہ بالکل آج ایک شہزادی لگ رہی تھی اور حسن ایک شہزادہ
“میں بھی کہوں یہ چڑیل۔سے ایک انسانی لڑکی کیسے بن گئی؟” حسن کے کہنے پر حیا نے اسکو ایک مکہ رسید کیا اور حسن نے دل ہی دل میں۔ماشاءاللہ کہا
سمرہ باری باری سب کے گلے ملی تو اس نے غور کیا کہ سب نے ہی بلیو تھیم پہن رکھی ہے لان کا سارا منظر بھی لائٹ بلیو تھا عثمان اریشہ سے بھی اسکا تعارف کروایا گیا اتنے میں تایا تائی دادا دادی اور پھوپھو کی فیملی بھی آگئی اور سمرہ کو حسن کی محبت پر رشک آنے لگا کیونکہ وہ جانتی تھی یہ سب اس نے یہ کیا ہے
سمرہ کو کیک کے پاس لے کر جو ایک 4 لیئر کیک تھا اور اسپر سمرہ کی ایڈیبل پکچر لگی ہوئی تھی جو حسن کو سب سے زیادہ پسند تھی اور کیک کے آس پاس بقیہ ریفریشمنٹس تھیں اس نے بے ساختہ حسن کی طرف دیکھا جو آج اسکو بہت محبت سے دیکھ رہا تھا
“چلو کیک کاٹو” سب آس پاس کھڑے ہوگئی اور شائستہ اور انکی بچیاں تھوڑی میز سے ہٹ دور کھڑی ہوئیں اپنے تایا تائی کے رویوں سے بچنے کیلئے عثمان نے اس بات کو بہت محسوس کیا
“حیا” وہ ایک کونے میں بیٹھی سمرہ اور تایا کا پیار دیکھ رہی تھی جو اسکو گلے سے لگا کر بار بار پیار کر رہے تھے۔ عثمان نے یہ سب شدت سے محسوس کیا اور اسکے پاس پہنچ کر پکارے بنا نہیں رہ سکا
عثمان کے پکارنے پر حیا نے سر اٹھا کر اسکو دیکھا۔ آنکھوں سے بھری آنکھیں لئے وہ اسکو دیکھ رہی تھی اور عثمان اپنی جگہ سن سا ہوگیا تھا
” حیا تم رو رہی ہو؟” عثمان نے دوستانہ انداز میں کہا اور اسکے پاس ہی گھاس پر بیٹھ گیا یہ لان کا سب سے الگ حصہ تھا جہاں سے سپ کچھ دیکھا جاسکتا تھا لیکن لان میں بیٹھے لوگ نہیں دیکھ سکتے تھے
“بتاؤ نا کیوں رو رہی ہو؟ تم مجھے اپنا دوست سمجھ سکتی ہو” عثمان کے لہجے میں اپنائیت تھی پر حیا نے نہ بولنے کی قسم کھائی ہوئی تھی اسکی آنکھیں بس ایک جگہ مرکوز تھیں تایا اور سمرہ۔۔۔سمرہ اور تایا
“حیا” عثمان نے اسکے سامنے ہاتھ لہرایا تو حیا ہوش کی دنیا میں آئی اور اسکو ٹکٹی باندھ کر دیکھنے لگی عثمان نے اسکی آنکھوں میں دیکھا کیا نہیں تھا ان آنکھوں میں دکھ۔۔۔۔درد۔۔۔زمانے بھر کی تھکن۔۔۔کچھ پا لینے کی خواہش۔۔۔ کچھ کھو دینے کا غم بڑی سیاہ پلکوں کے نیچے ایک آنسوؤں کا سمندر آباد تھا
“کوئی روتے ہوئے اتنا پیارا لگ سکتا ہے؟” عثمان صرف سوچ کر رہ گیا
“پلیز حیا رو مت مجھ سے شیئر کرو” عثمان کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیسے اسکا درد سمیٹے
“میں اس دنیا میں سب سے زیادہ اپنے بابا سے پیار کرتی تھی” حیا کی آواز اتنی ہلکی تھی کہ عثمان کو باقاعدہ جھک کر کان لگا کر سننا پڑا
“اور جب وہ چھوڑ گئے نا تو اب سب سے زیادہ نفرت سلمان صاحب سے ہے” حیا کے لہجے میں چبھن تھی
“جانتے ہیں کیوں چھوڑا انہوں نے۔۔۔نہیں کوئی نہیں جانتا سوائے ماما میری بہنوں اور دادا دادی کے۔۔۔۔ سب امی کو ذمہ دار ٹہراتے ہیں کہ انہوں نے بابا کو خوش نہیں رکھا تایا تائی پھوپھو کسی نے بھی تو میری ماں کا ساتھ نہیں دیا۔۔ سب اب بھی طعنے دیتے ہیں” حیا ہچکیوں سے رو رہی تھی نجانے کتنے عرصے سے رکے ہوئے آنسو آج بہا رہی تھی
“انہوں نے مجھے میرے ماں کو میری بہنوں کو اسلیئے چھوڑا کہ ہم سب بیٹیاں تھیں میری ماں انکو بیٹا نہیں دے سکی انہوں نے ہمیں اسلیئے چھوڑا کہ اللہ نے انہیں چار رحمتیں دے دیں۔۔” وہ آنسوؤں کے درمیان بول رہی تھی دل کی بھڑاس نکال رہی تھی اور عثمان لب بھینچے سن رہا تھا وہ اسکو چپ کرانا چاہتا تھا اسکو بتانا چاہتا تھا کہ اسکے آنسو اسے تکلیف دے رہے ہیں پر وہ کچھ نہیں کہ سکتا تھا ابھی اسکا اسپر کوئی حق نہیں تھا
_________________________________________
“آہم آہم” سمرہ کیمرہ لینے اپنے کمرے میں گئی تو حسن کی آواز سن کر ٹھٹھک گئی
“آپ۔۔۔ادھر کیوں آئے ہیں” وہ تھوڑا گھبراتے ہوئے بولی مبادا کوئی اور نہ آجائے
“بہت پیاری لگ رہی ہو سمی” آج حسن نے تنگ کرنے کا ارادہ موقوف کر رکھا تھا اور اسکی بات پر سمرہ شرم سے سر جھکا گئی
” میری جان کیلئے یہ بے جان سا تحفہ جسکو میری جان پہنے گی تو اسمیں جان آجائیگی” حسن نے بھونڈا سا ڈائیلاگ مارا تو سمرہ کی ہنسی نکل گئی
حسن نے آگے بڑھ کر اسکو نیکلس پہنایا جو ایک ہارٹ شیپ تھا اور اسمیں “سمرہ۔حسن” لکھا تھا
“بہت خوبصورت ہے حسی” وہ شیشی میں دیکھتے ہوئے بولی
“تم سے کم” حسن نے اسکے ماتھے پر محبت کی مہر ثبت کی اور ایک یاد گار سیلفی لیکر اسکو باہر آجانے کو کہا
_________________________________________
“حیا کہاں ہے بھئی” ہادیہ کب سے اسے ڈھونڈ رہی تھی لیکن حیا تھی کہ ایسے غائب ہوئی جیسے گدھے کے سر سے سینگ
“حیا کہاں ہو؟” ہادیہ کا میسج پڑھ کر وہ اٹھ کھڑی ہوئی اور لان میں آگئی اور عثمان اپنے دل پر اسکے درد کو محسوس کر رہا تھا
“حیا ایک دن ضرور تمہارے بابا کو احساس ہوگا کہ تم بیٹوں سے کم نہیں” وہ اسکو دیکھ کر مسکراتے ہوئے دل میں بولا
“کیا ہوا ہادیہ؟” حیا ہادیہ کے قریب آئی
“کہاں تھیں تم چڑیل؟” وہ اسکے کندھے پر ہاتھ مار کر بولی
“ایک منٹ تم روئی تھی؟” اسکی لال آنکھیں دیکھ کر فورا ہادیہ نے کہا تو وہ نفی میں سر ہلادی
“مجھ سے جھوٹ بولنا نا چھوڑدو چلو کمرے میں ذرا انسان بناؤں تمہیں” وہ اسکو کھینچ کر کمرے میں لے گئی
“حیا ادھر دیکھو میری طرف” ہادیہ نے اسکو بیڈ کر بٹھا کر تھوڑی پکڑ اسکا چہرہ اپنی طرف کیا
“رو لو میری جان” ہادیہ اسکو اپنے کندھے سے لگاتے ہوئے بولی اور حیا کو کچھ کہنے کی ضرورت نہیں تھی وہ بس رو دی جتنا رو سکتی تھی اور اسکی آنسوؤں کی زبان ہادیہ سمجھ سکتی تھی
ابھی وہ اسکو چپ کرانا نہیں چاہتی تھی کچھ دیر بعد جب وہ نارمل ہوئی تو ہادیہ پیار سے اسکو سمجھا کر باہر کے آئی
_________________________________________
“سچ بتائیں حسن بھائی آئیڈیا کس نے دیا،” اریبہ (پھوپھو کی بیٹی) نے اشتیاق سے پوچھا
“بھئی اب میں اپنی جان کیلئے اتنا تو سوچ ہی سکتا ہوں” وہ اتراتے ہوئے بولا
“اوہو آج تو کچھ زیادہ ہی پیار آرہا ہے” زونیرہ چہکتے ہوئے بولی
“مجھے بھی آتا ہے زونی” حسین اسکے قریب جھکتے ہوئے بولا جسپر زونیرہ جھینپ۔سی گئی
“حیا آپی آج تو آپ بہت پیاری لگ رہی ہیں” اریشہ اسکی طرف جھکتے ہوئے بولی تو وہ مسکرادی
“میری کوئی بہن نہیں ہے نا آپی تو آپ کو میں اپنی بہن کی سکتی ہوں آپ ایمان سے بہت پیار کرتی کی نا” وہ اتنی معصومیت سے بولی کہ حیا کو بے ساختہ اسپر پیار آیا
“ہاں کیوں نہیں گڑیا” وہ اسکے بال سہلاتے ہوئے بولی اسکو چھوٹے بچے بہت اچھے لگتے تھے جو بناوٹ اور دکھاوے سے پاک ہوتے ہیں
لیٹ نائٹ تک سب ہلا گلا کرتے رہے واپسی پر ایمان عثمان کے جانے پر اداس ہوگئی
“حیا کل میری گڑیا کو آفس لے آنا” عثمان ہنستے ہوئے بولا تو ایمان خوش ہوگئی
“جی نہیں کل انکا اسکول ہے” وہ ایمان کا ہاتھ پکڑے ہوئے بولی جو عثمان کو جانے ہی نہیں دے رہی تھی
“چلو کوئی بات نہیں کل ایمان کو میں اسکول سے پک کرلوں گا پھر گھومنے چلیں گے ٹھیک” وہ اسکے حال کھینچتے ہوئے بولا جسپر ایمان نے خوشی سے سر ہلادیا
“میں بھی چلوں گی مانی بھائی” اریشہ لاڈ سے بولی
“اچھا میری ماں” وہ اسکے سر پر چلے لگاتے ہوئے بولا جسپر حیا ہنس دی اور عثمان نے اسکی ہنسی کو بغور دیکھا تھا
“حیا چلو” عثمان اپنے روم سے نکل کر اسکے پاس آتے ہوئے دوستانہ انداز میں بولا
“کہاں؟” اس نے حیرانگی سے پوچھا
“ارے بھئی ایمان اور اریشہ کو اسکول سے پک کرنا ہے نا” وہ اسکی عقل پر ماتم کرتا ہوا بولا
“چھوڑیں سر وہ وین میں آجائیگی ” حیا ہچکچاتے ہوئے بولی
“سوری ڈیئر پر میں اپنے وعدہ سے نہیں پھرتا اور دوسری بات مجھے یہ آئندہ سر ور نہیں کہنا” عثمان آخری بات کر انگلی اٹھاتے ہوئے بولا اور حیا اسکو دیکھتی رہ گئی
“اب دیکھ کیوں رہی ہو چلو نا” وہ مسلسل اسکو دیکھتا پا کر گویا ہوا
“پر یہ کام۔۔۔” وہ ڈرتے ڈرتے بولی ایک تو صبح لیٹ آئی تھی اوپر سے کام بھی نہیں ہوا تھا پتہ نہیں کیا سوچے وہ بھی
“ارے چھوڑو ہوجائیگا تم چلو” وہ آؤٹ ڈور کی طرف چل دیا حیا کو مجبورا اسکے پیچھے آنا پڑا
“حیا ایسا کرنا تم اندر جاکر ایمان کو لے آنا میں باہر ویٹ کرتا ہوں” وہ اسکول کی طرف گاڑی روکتے ہوئے بولا تو حیا اتر کر ایمان کو لے آئی اور اریشہ کو اسکے اسکول سے پک کرکے گاڑی کا رخ مال کی طرف موڑ دیا
_________________________________________
“حسین” زنیرہ اور حسین پارک میں بیٹھے تھے کہ زونیرہ کی آواز پر اس نے چونک کر دیکھا
“ہوں”
“عثمان بھائی کیسے ہیں؟” وہ خلا میں گھورتے ہوئے بولی
“اچھے ہیں اور اےےےے تم کیوں پوچھ رہی ہو؟” وہ برہم سے بولا کی زونیرہ کی ہنسی چھوٹ گئی
“حیا آپی کیلئے” وہ سنجیدہ ہوتے ہوئے بولی
“حیا کیلئے؟” اس نے حیرانی سے اسکی طرف دیکھا
“ہاں”
“تم جانتی ہو اس نے شادی سے صاف انکار کردیا ہے” حسین کو اسکی دماغی حالت پر شبہ ہورہا تھا سب جانتے تھے کہ حیا اس ٹاپک سے سخت نفرت کرتی ہے
“انہوں نے انکار کردیا ہے تو کیا مطلب ایسے ہی بیٹھی رہیں گی ہمیں بھی ڈھونڈنا چاہئے نا کوئی ایسا جو آپی کو سنبھال لے انکے دکھ سمیٹ لے” زنیرہ دکھی آواز میں بولی جسپر حسین نے لب بھینچ لئے
“ہممم” وہ فقط اتنا بولا
“کیا ہممم جواب دیں نا” وہ جھنجلا کر بولی آج حسین اس سے بات نہیں کر رہا تھا اسکے جواب پر بس ہوں ہاں کر رہا تھا
“کیا جواب دوں” وہ اسکی طرف دیکھتا ہوا بولا
“کیا ہوگیا ہے آپکو حسین کوئی پریشانی ہے؟” زنیرہ نے پریشانی سے پوچھا
“نن نہیں تو کیوں؟” حسین ایک دم گڑبڑاگیا
“آپ میری بات کا جواب نہیں دے رہے مسلسل آپکا دماغ پتہ نہیں کہاں غائب ہے” وہ جھنجھلا کر بولی
“نہیں یار ایسی بات نہیں” وہ سر کو پیچھے کی جانب کرتے ہوئے ہاتھ سے بال سہلاتے ہوئے بولا
“ٹھیک ہے نہیں بتائیں میں اپنی تھوڑی ہوں جو کوئی اپنی پریشانی شیئر کریں گے” وہ ناراضگی سے کہتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی تو حسین نے ہاتھ پکڑ کر اسکو واپس بٹھادیا
“تم اپنی سے بھی اپنی ہو میری جان” وہ اسکو پیار سے دیکھتے ہوئے بولا
“پھر بتائیں” زنیرہ اسکی طرف دیکھتے ہوئے بولی
“وعدہ کرو ناراض نہیں ہوگی؟” حسین اسکی ناراضگی سے بہت ڈرتا تھا
“نہیں ہونگی” وہ بچوں کی طرح نفی میں سر ہلاتے ہوئے بولی
“زنیرہ وہ۔۔” وہ خاموش ہوگیا
“اب بولیں بھی نا” وہ کچھ تجسس کچھ پریشانی سے بولی ایسی کیا بات تھی کہ حسین بتاتے ہوئے اتنا رک رہا تھا
“زنیرہ میں ایک سال کیلئے سعودیہ جارہا ہوں” وہ اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولا جہاں حیرانی بے یقینی تھی ایک پل کیلئے زنیرہ ساکت ہوگئی
“کک کیوں” زنیرہ کو اپنی آواز کھائی سے آتی محسوس ہورہی تھی
“زونی بابا بھیج رہے ہیں وہاں کی برانچ سنبھالنی ہے” وہ سر جھکاتے ہوئے بولا اسکے آنسو نہیں دیکھ سکتا تھا نا
“نہیں حسین آپ مجھے چھوڑ کر نہیں جائیں گے پلیز میرا آپکے علاوہ کون ہے میں اپنی باتیں آپکے علاوہ کسی سے شیئر نہیں کرتی” وہ روتے ہوئے حسین کا ہاتھ پکڑ کر منٹ کر رہی تھی اور حسین بے بسی سے اسکے آنسو دیکھ رہا تھا جو اسی کی وجہ سے نکل رہے تھے اور اس سے برداشت نہیں ہو رہے تھا
“میں نے بہت منع کرنا چاہا زونی پر بابا مجھے ہی بھیجنا چاہتے ہیں زیادہ منع کیا تو انہوں نے سب کے سامنے بے عزت کردیا میں کیا کروں زونی میں کب جانا چاہتا ہوں” وہ اسکے آنسو پونچھتے ہوئے بولے جسپر زنیرہ نے اسکے ہاتھ جھٹک دیئے
“زونی تم تو سمجھو” وہ بے بسی سے بولا
“نہیں سمجھنا مجھے کچھ آپ نہیں جائیں گے بس” وہ روتے ہوئے ضد کرتے ہوئے بولی
“پلیز زونی” وہ اسکو منانا چاہ رہا تھا پر زنیرہ ایک دم سے اٹھ کر پارک سے باہر نکل آئی اور گاڑی میں بیٹھ گئی حسین بھی گاڑی میں آکر بیٹھ گیا اور گھر تک کا سفر زنیرہ کے آنسوؤں اور حسین کی خاموشی میں گزرا
________________________________________
“ہاں بھئی کیسا لگ رہا ہے ایمان؟” عثمان بشاشت سے بولا
“بہت اچھا پر مانی بھائی آپ پہلے کیوں نہیں آئے ہمارے گھر؟” ایمان کو جو سوال تنگ کر رہا تھا اس نے پوچھ ڈالا اور اسکے سوال پر وہ دنگ رہ گیا حیا نے بے ساختہ اسکی طرف دیکھا جو اسی کو دیکھ رہی تھی
“آں گڑیا میں وہ کام کرتا تھا نا اس لئے نہیں آتا تھا” عثمان نے ایک بھونڈا سا بہانہ پیش کیا اور ایمان کے اگلے سوال پر حیا کی دماغ کی رگیں تن گئیں
آپی بابا کو بتادیں نا کہ بھائی آگئے پھر بابا آجائیں گے”ایمان نے معصومیت سے کہا
“بابا مر گئے ہیں وہ نہیں آئیں گے نہیں آئیں گے نہیں آئیں گے” حیا ایک دم پھٹ پڑی
“حیا ریلیکس” عثمان اسکے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے تسلی آمیز لہجے میں بولا حیا نے اپنا چہرہ ہاتھوں میں چھپا لیا حیا کے اس رویے پر ایمان بھی ڈر گئی اور خاموش ہو کہ بیٹھ گئی جبکہ عثمان لب بھینچے گاڑی چلا رہا تھا
________________________________________
نجانے قسمت کے کونسے موڑ پر آگیا ہوں۔۔۔ عشق ہوا بھی تو اس سے جسکو حاصل نہیں کر سکتا۔۔آہ آج بھی وہ کتنی پیاری لگ رہی تھی کئی بار اسکی نظریں مجھ پر پڑی ہونگیں ۔۔ کاش کہ وہ مجھے مل جائے کاش۔۔۔۔۔۔یہ محبت اتنی ظالم کیوں ہے اتنا تڑپاتی کیوں ہے۔۔۔۔
آج پھر وہ لڑکا سونے سے پہلے اپنی قسمت کو کوستا سو رہا تھا اور مستقبل کے حسین خواب سوچ کر اپنے حال سے بھی ناواقف تھا
_________________________________________
“دادا آپ تو سب جانتے ہیں نا” زنیرہ دادا کی گود میں سر رکھے آنسو بہا رہی تھی دادی بھی اسکے پاس بیٹھی اسکی قسمت کیلئے اسکی خوشیوں کیلئے دعا کر رہی تھیں
“بیٹا اسکے آفس کا کام ہے نا” دادا کو سمجھ نہیں آرہا تھا اسکو تسلی کیسے دیں رو رو کر اسکی آنکھیں سرخ ہوگئی تھیں
“میں کیسے رہوں گی میں مرجاوں گی دادا اس گھر میں آپکے اور انکے علاوہ مجھے کوئی نہیں سمجھتا” باہر کھڑا حسین بے بسی سے لب کاٹ رہا تھا وہ کل سے اس سے بات نہیں کر رہی تھی اور آج رو رہی تھی حسین کی برداشت ختم ہورہی تھی وہ اندر داخل ہوگیا زنیرہ نے سر اٹھا کر دیکھا ایک پل کیلئے دونوں کی نظریں ملیں۔۔ زنیرہ کی لال سوجی ہوئی آنکھیں دیکھ کر حسین ساکت رہ گیا اور زنیرہ اسکو دیکھ کر فورا کمرے سے چلی گئی اور دادا کھلے دروازے کی جانب تک رہے تھے
آہ کتنا تڑپاتی ہے یہ محبت۔۔۔یہ عشق۔۔۔یا اللہ اگر وہ میرے نصیب میں نہیں تو اسکی محبت دل سے نکال دیں نا۔۔۔یہ روز روز تڑپا نہیں جاتا۔۔۔روز روز امیدیں لگا کر نا امید نہیں ہوا جاتا۔۔۔میں تھک گیا۔۔۔
بالکونی میں کھلتے پھولوں کو دیکھ کر وہ اداسی سے اپنے رب سے مخاطب تھا