سپہ گری کے کاموں اور عشق بازی میں ان لوگوں کا انہماک اس قدر بڑھا ہوا تھا کہ بعض بعض جہلا میں خیال پیدا ہو گیا کہ سوا سپہ گری کے اور کوئی پیشہ اختیار کرنا نائٹوں کے لیے حرام ہے اور نائٹوں کو دین کی برکتوں اور فیاضیوں سے یہ حق مل گیا ہے کہ مضرت سے بچنے کے لیے جس کسی سے جب انتقام چاہیں لے لیں۔ یہاں تک کہ قوانین تمدن اور فوجی باضابطگی کے قیود سے وہ آزاد ہیں۔ چنانچہ کسی قانون کا پابند ہونا وہ اپنی ذلت تصور کرتے۔
برچھا نائٹ کا خاص سلاح تھا۔ اُس کا گھوڑا اوروں کے جانوروں سے قد آور، بھاری بھر کم اور طاقتور ہوتا۔ ایک خاص ملازم گھوڑے کا دہانہ پکڑے ہوئے ہمیشہ اُس کے ساتھ ساتھ رہتا اور جب تک لڑنے کا وقت نہ آ جاتا نائٹ صاحب اُس پر سوار نہ ہوتے۔ وہ کسی اور تیز قدم یا بو یا معمولی گھوڑے پر سوار رہتے۔ نائٹ کا خَود، زِرہ، موزے اور تلوار خاص شان اور آن بان کے ہوتے۔ میدان جنگ میں اُن کا قاعدہ تھا کہ برچھے کو دشمن کی طرف جھُکا کے آڑا کر لیتے اور گھوڑے کو ایڑ بتا کے آگے ریل دیتے۔ میدان جنگ میں ہر نائٹ کے ساتھ اُس کا ایک وفا دار رفیق رہتا جو ’’اسکوائر‘‘ کہلاتا۔ اسکوائر ہمیشہ اپنے نائٹ کا ہم سن اور شریف النسل ہوا کرتا اور در اصل وہ نائٹ ہونے کا امیدوار ہوتا۔ تیر کمان، شمشیر و خنجر یا اور حربے جن سے نائٹ صاحب لڑتے ساتھ ساتھ رہتے اور صرف نیزے ہی کا اتنا سامان ہوتا جو پانچ پانچ چھ چھ آدمیوں پر لدا ہوتا اور وہ سب لڑائی میں سائے کی طرح اس کے ساتھ رہتے۔ عرصۂ جنگ میں اُن کا بانا اور اُن کا شعار ہر ایک میں کوئی جدت اور خصوصیت ہوتی۔
اس گروہ کے پیدا ہو جانے سے یورپ کے زمینداروں اور سربرآوردہ لوگوں کو یہ آسانی ہو گئی تھی کہ اپنے ذاتی جھگڑوں میں اُن سے مدد لیتے اور اُن کی کارگزاریوں کا معاوضہ کرتے۔ گویا خدائی فوجداروں کا ایک گروہ پیدا ہو گیا تھا جن کو معتدبہ رقم دے کر جو چاہتا بُلا لیتا اور اپنے جھنڈے کے نیچے آسانی سے ایک زبردست لشکر جمع کر لیتا۔
مگر یورپ کے ان بانکے نائٹوں میں اُس وقت اور زیادہ اہمیت پیدا ہو گئی جب صلیبی مجاہدوں کا لشکر بیت المقدس کے فتح کرنے کے لیے یورپ سے چلا۔ کلیسائے مسیحی نے اپنے برکت کے آغوش میں لے کے انہیں مذہبی وقعت پہلے ہی دے دی تھی۔ لیکن جب وہ اپنی جان و مال کو دین کی نذر کر کے جان دینے کے لیے گھر سے نکلے اور سینے اور پیٹھ پر صلیبیں بنا کے مشرق کی جانب روانہ ہوئے تو اُن میں بالکل ایک نئی شان پیدا ہو گئی اور باعتبار ذمہ داریوں اور خدمتوں کے اُن میں دو تفریقیں ہو گئیں۔
بیت المقدس میں پہونچنے اور اُس پر قابض ہو جانے کے بعد ان لوگوں کو اصلی سروکار تو ہولی سپلکر (کنیسۂ مرقد مسیح) سے تھا مگر حضرت سلیمان کا بنایا ہوا خانۂ خدا جو اب مسلمانوں کی مسجد بنا ہوا تھا، جسے مسلمان مسجد اقصیٰ اور مسیحی مسجد عمر کہتے تھے، دُنیا کی ایک قدیم یادگار تھا۔ اور عیسائی بھی تسلیم کرتے تھے کہ یہی وہ مبارک بُقعہ تھا جس پر اس سرزمین میں پہلا معبد الٰہی قائم ہوا۔ اس میں جتنے مسلمان پناہ گزین ہوئے تھے وہ تو کمال بے رحمی سے شہید کیے گئے۔ اور اُن حامیانِ توحید سے خالی کرانے کے بعد ضرورت تھی کہ اُس یادگار زمانہ عمارت سے بھی کوئی کام لیا جائے جس کی تعمیر میں خلفائے بنی اُمیہ نے لاکھوں روپے صرف کر دیے تھے۔
چنانچہ صلیبی فاتحوں میں سے چند شریف النسل اشخاص مسجد اقصیٰ میں جمع ہوئے اور باہم حلف اُٹھائی کہ جو زائرین یہاں آئیں گے ہم اُن کی حمایت و خبرگیری کریں گے۔ یہ جماعت نائٹ ٹمپلرز (ہیکل سلیمانی والے بانکے) کے نام سے مشہور ہوئی اور اپنے گروہ کو اِن لوگوں نے حصول برکت کے لیے ولی برنارڈ کے نام سے وابستہ کر دیا۔ حرم سلیمانی میں بیٹھ کے اُنہوں نے جو حلف اُٹھائی تھی اُس کی رُو سے یہ لوگ صرف دین کے سپاہی بن گئے تھے۔ اُنہوں نے دنیا چھوڑ دی تھی۔ وطن بھُلا دیے تھے۔ بیت المقدس کے سوا کسی شہر کو اپنا وطن اور شہر نہ سمجھتے۔ گھر بار سے دست بردار ہو گئے تھے اور سوا مسیح کے خاندان کے کسی کو اپنا گھرانا نہ بتاتے۔ جائداد سب کی مشترک رہتی اور مشترک زندگی بسر کرتے۔ ایک ہی سرمایہ سب کی دولت تھا۔ خطروں اور مصیبتوں میں ایک دوسرے کے جان نثار تھے۔ گویا ایک قوت اور ایک ہی روح سب پر حکومت کر رہی تھی۔ ان کا سامان زینت صرف ہتھیار تھے۔ ان کے گھروں میں جو عبادت خانوں کا حکم رکھتے، نہ روپیہ پیسہ ہوتا نہ سامان دولت و حشمت۔ زینت و نمائش کی چیزوں سے انہیں نفرت تھی۔ بہت ہی سادی اور بھدّی چیزوں سے اپنے ضروریات زندگی کو پورا کرتے۔ نمائش کے لیے وہاں صرف ڈھالیں، تلواریں، نیزے اور مسلمانوں سے چھینے ہوئے عَلم نظر آتے۔ لڑائی کا نام سُنتے ہی اپنے فولادی اسلحہ لے کے دوڑتے۔ پھر نہ حریف کی کثرت سے ڈرتے اور دشمنوں کے جوش و خروش کی پروا کرتے۔ فتحیں اُن کا سرمایۂ ناز تھیں۔ مسیح کے نام پر جان دینا اُن کی اعلیٰ ترین کامیابی تھا۔ انہیں یقین تھا کہ فتح صرف خدا کی عنایت سے حاصل ہوتی ہے، مگر کوشش میں جان دے دینا اپنا فرض ہے۔ غرض ان نائٹوں کا پہلا گروہ یہ تھا۔
دوسرے گروہ کی بنیاد یوں پڑی کہ صلیبی مجاہدین جب یورپ سے چلے تو ان کے ہمراہ وہاں سے ایک ہاسپٹل بھی آیا تھا جو فلاکت زدہ زائروں اور بیت المقدس کے مفلس و شکستہ حال نصرانیوں کی خبر گیری کے لیے تھا، خصوصاً ان بہادروں کی تیمار داری کے لیے جو مسلمانوں سے لڑیں۔ اس خدمت کو جن لوگوں نے اپنے ذمے لیا وہ بھی ایک قسم کے بانکے تسلیم کیے گئے، ’’نائٹ ہاسپٹلرز‘‘ کے نام سے مشہور ہوئے اور اُنہوں نے اپنے کو ولی یوحنا کی طرف منسوب کر کے اپنا خطاب ’’نائٹس آف سینٹ جان‘‘ یعنی ’’ولی یوحنا کے بانکے‘‘ قرار دیا۔
یہ دونوں قسم کے نائٹ فولادی خود اور چار آئینے پہنتے۔ ’’نائٹ آف ہولی سپلکر‘‘ (مرقد مسیح کے بانکے) کہلانے کے باعث سب سے زیادہ معزز خیال کیے جاتے اور چونکہ ’’لاطینی سلطنتِ ارضِ مُقَدّس‘‘ کو (جو لاکھوں کروروں بندگانِ خدا کے خون کا سیلاب بہا کے عین مسلمانوں کے بیچ میں قائم کی گئی تھی) ان لوگوں سے مدد ملتی، وہ ان کی بے انتہا قدر کرتی اور اپنی زندگی کو انہیں کے اسلحہ پر منحصر تصور کرتی۔ زائرین یہاں سے واپس جا جا کے ساری مسیحی دنیا میں ان کی جانبازی اور بہادری کے قصے بیان کرتے۔
چند ہی روز میں اِن کی اس قدر شہرت ہوئی کہ ہر حصۂ ملک کے اُمرا اور دولتمند خصوصاً وہاں کے پُرانے بانکے آ آ کے ان کے گروہ میں شامل ہونے لگے اور تھوڑے دنوں بعد یورپ کا کوئی نامور اور دولتمند خاندان نہ تھا جس کا کوئی نہ کوئی گروہ اِن مذہبی بانکوں اور وضعدار مجاہدوں کی جماعت میں نہ شریک ہو گیا ہو۔