سلور اور پنک کلر کی میکسی زیب تن کئے ہوئے نفیس جیولری پہنے وہ پرستان کی پری لگ رہی تھی اور ساتھ کھڑا۔ جہانگیر شہزادہ لگ رہا تھا۔ جو بھی انھیں دیکھ رہا تھا سراہے بنا نہیں رہ سکا ۔۔۔۔
“کہتے ہیں نہ کبھی کبھی حالات ہمیں ہمارے خلاف لگتے ہیں لیکن ان مشکل حالات میں چھپی ہوئی آسانیوں کو نہیں جان سکتے ۔۔۔ ہمارا رب ایک دروازہ بند کرنے سے پہلے ہزار راستیں کھول دیتا ہے اسکی مصلحتیں وہ ہی جانے ہماری ناقص عقل وہاں تک نہیں پہنچ سکتی۔۔۔
“بے شک وہ ہمارے لئے جو کرتا ہے بہترین کرتا ہے ”
ولیمہ کا۔ فنکشن اپنے عروج پر تھا سب رشتہ داروں اور محلہ داروں کو مدعو کیا گیا تھا ۔۔۔۔۔
جیسے ہی جہانگیر اور سحرش کی انٹری ہوئی حال مختلف روشنیوں سے جگمگا اٹھا۔۔۔اور ہر طرف تالیوں اور موسیقی کی آوازیں گونجنے لگیں۔۔۔۔۔۔
لیکن سحرش کی انکھیں کسی کو ڈھونڈ رہیں تھیں مکمل ماحول میں اسے سب آدھور سا لگ رہا تھا اور وہ کمی سحرش کی ماں کی تھی اس کی انکھوں میں بار بار آنسو امڈ آئے تھے جنھیں وہ اپنے اندر اتار رہی تھی کئ بار اس نے جہانگیر سے کہنے کی سوچا بھی لیکن ہمت نہیں ہوئی اسی لمحہ ایک لڑکا اسٹیج پر آیا اور جہانگیر کے کانوں میں کچھ کہا پھر چلا گیا ۔۔۔۔
تھوڑی دیر بعد جہانگیر نے سحرش کا ہاتھ پکڑا اور ہال کے دروازے کی جانب لے گیا ابھی انھیں کھڑے دو منٹ بھی نہیں گزرے تھے کہ رابعہ بیگم کا وجود گاڑی میں سے نمودار ہوا پہلے تو وہ ان کی موجودگی کا یقین کرنے لگی۔۔۔۔ پھر بھاگتے ہوئے ان کے گلے سے لگی اس وقت وہ بھول گئ تھی وہ ایک دلہن ہے اسے یاد تھا تو بس یہ کہ سامنے کھڑی اسکی ماں ہے اور وہ ایک بیٹی ۔۔۔ جو اپنی ماں سے چار سال بعد مل رہی تھی۔۔۔
ماں سے مل کر اسے باپ کا غم یاد آگیا تھا ۔۔۔ وہ جیسا بھی تھا لیکن اس کیلئے تو ایک شفیق باپ ہی تھا ۔۔۔۔ آج لگتا تھا دل پھٹ جائے گا۔۔۔۔
رابعہ نے ہی دھیرے سے اسے خود سے الگ کیا ۔۔۔ اور اس کے ماتھے پر ممتا بھری مہر ثبت کی۔۔۔۔۔۔
جب سارے آنسو بہالئے تو جہانگیر کا خیال آیا پیچھے مڑ کر دیکھا تو جہانگیر اسی کے انتظار میں کھڑا تھا ۔۔۔ جہانگیر نے اگے بڑھ کر رابعہ بیگم کو سہارا دیا اور ہال میں لایا جب کہ سحرش اسکے ساتھ ہمقدم تھی۔۔۔۔۔۔۔
جہانگیر اسٹیج سے اٹھ کر اپنے دوستوں کے پاس چلا گیا تھا جبکہ سحرش رابعہ بیگم سے باتوں میں مشغول ہوگئ تھی ۔۔۔۔
رابعہ بیگم نے نگین سے معافی مانگی اور انھیں گلے لگایا۔۔۔۔۔۔۔ نگین نے اعلی ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انھیں خوش دلی سے معاف کردیا تھا۔۔۔۔
دو دن پہلے جہانگیر خان زادہ ہاوس گیا تھا ۔۔۔۔
“انٹی میں اپکی بیٹی کا گنہگار ہوں ” اپکے سامنے ہوں جو چاہیں سزا دیں ۔۔۔”
” نہ بیٹا نہ۔۔۔۔۔۔ معافی تو مجھے تم سے مانگنی تھی جو یاسر نے تمھارے خاندان کے ساتھ کیا ۔۔ اسکو تو خدا نے معافی مانگنے کی بھی مہلت نہیں دی کار ایکسیڈینٹ میں دھچیاں آڑھ گئیں اسکے جسم کو تو کفن بھی نصیب نہیں ہوا ۔۔۔”
میری سحرش کیسی ہے ؟؟؟ ” وہ بہت معصوم ہے بیٹا اس سے اسکے باپ کا بدلہ نہ لینا ۔۔۔”
جہانگیر کے پاس کہنے کو کچھ نہیں تھا ندامت اور شرمندگی سے سر جھکتا چلاگیا تھا ۔۔۔
“انٹی میں سحرش اور اپنے ولیمہ کا کارڈ دینے آیا ہوں ۔۔۔” آپ ائیں گی نہ ؟؟؟
” ہاں بیٹا کیوں نہیں ۔۔۔”
سحرش کی نظروں نے جہانگیر کو تلاشا تو جہانگیر اپنے آفس کے ورکروں کے ساتھ مصروف تھا اور وہ ہی لڑکی آج بھی موجود تھی۔۔۔۔۔ سحرش کے اندر رقابت کی ایک لہر ڈور گئ ۔۔ اسے وہ لڑکی ایک انکھ نہ بھائی۔۔۔۔ اس کا دل چاہا اس لڑکی کو اٹھا کر باہر پھینک دے۔۔۔۔۔
کھانے کا۔ دور چلا تو سب کھانا کھانے لگے جبکہ سحرش کی تو بھوک ہی مرگئ تھی ۔۔۔
البتہ جہانگیر نے ڈٹ کر کھایا تھا ۔۔۔ اسکے چہرہ پر چمک واضح تھی جیسے کوئی قارون کا خزانہ اسکے ہاتھ لگا ہو۔۔۔۔
بلیک ٹوپیس میں ملبوس بردبار سا مردانہ وجاہت لئے سب سے مبارک باد لے رہا تھا تھوڑی دیر بعد جب سارے مہمان جانے لگے تو جہانگیر سحرش کو لے کر گاڑی میں آبیٹھا ۔۔۔۔۔
سحرش کا موڈ ہنوز خراب ہی تھا اس نے جہانگیر سے کوئی بات نہیں کی ۔۔۔۔ جہانگیر نے بات کرنا چاہی تو سحرش نے صاف ہری جھنڈی دیکھا دی ۔۔۔۔۔۔
“یار آج کے دن تو موڈ اچھا کرلو ”
جہانگیر نے صلح جو انداز اپنایا۔۔۔۔۔۔
سحرش نے رخ کھڑکی کی طرف کرلیا ۔۔۔۔۔
جہانگیر نے ایک یاتھ سے اسٹیرینگ سنبھالا اور دوسرے ہاتھ سے اسکا بازو پکڑ کر اسکا رخ اپنی جانب کیا۔۔۔۔۔
“کیا ہوا تھوڑی دیر پہلے تو تمھارا موڈ تھیک تھا ”
اب کیا ہوا ہے ؟؟؟ جب تک بتاو گی نہیں کیسے پتا چلے گا ؟؟؟ ہر وقت لال پیلی رہتی ہو ۔۔۔۔
جہانگیر نے اسے چھیڑ کر بولنے پر اکسایا۔۔ اور یہ طریقہ کار آمد ثابت ہوا ۔۔۔۔
وہ لڑکی کون تھی ؟؟؟
سحرش نے کڑے تیواروں سے پوچھا:
کون لڑکی ؟؟؟
جہانگیر نے ناسمجھی سے پوچھا:
“وہ ہی جس کے ساتھ آپ ہوتے ہیں تو بتیسی اندر ہی نہیں جاتی۔۔۔۔” اور وہ محترمہ کافی کلوز لگتی ہے اپکے؟؟؟
سحرش نے جلے بھونے انداز میں پوچھا ۔۔۔۔
تم ۔۔۔۔ تمھیں جیلیسی ہورہی ہے ؟؟؟
اوہ گاڈ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔
“جلتی ہے میری جوتی ۔۔”
ہنہوں ۔۔۔۔
سحرش نے منہ ٹیڑا کر کہ کہا :
جہانگیر نے زور دار قہقہہ لگایا۔۔۔۔
کہیں تمھیں مجھ سے محبت تو نہیں ہوگئی ؟؟
سحرش نے اب کہ کوئی جواب نہیں دیا ۔۔۔
جہانگیر نے سحرش کا ہاتھ پکڑا ۔۔۔
“یار وہ صرف میری کولیگز ہے اور اسکا انداز ہی ایسا ہے بات کرنے کا تم خوامخواہ خفا ہورہی ہو ۔۔۔۔ ”
جہانگیر نے اب اور تنگ کرنے کا ارادہ ترک کردیا۔۔۔
سحرش نے گاڑی سن سان راستوں پر جاتی ہوئی دیکھی تو پریشان ہوگئ۔۔۔
یہ کہاں جارہے ہیں ؟؟ یہ گھر کا راستہ تو نہیں ہے ؟؟؟
کیا تمھیں مجھ پر بھروسہ نہیں ہے ؟؟؟؟
آپکو کیا لگتا ہے ؟؟ جن حالات میں آپ مجھے لے کر آئے تھے کیا مجھے بھروسہ کرنا چاہیئے؟؟؟
سحرش کی بات پر جہانگیر نے اپنے دونوں ہونٹ بھینچ لیے اسے تکلیف ہوئی تھی سحرش کے جواب پر ۔۔۔۔۔
سحرش نے تلخ حقیقت بیان کی تھی وہ بھی اپنی جگہ درست تھی ۔۔لیکن اس وقت جہانگیر کو اس سے اس جواب کی توقع نہیں تھی جبھی وہ خاموش ہوگیا ۔۔۔۔۔۔۔
سحرش کو اپنی تلخ بات کا احساس ہوا تو بول اٹھی :
“مجھے معاف کردیں میرا وہ مطلب نہیں تھا ۔۔۔۔۔”
گاڑی جھٹکا کھا کر ساحل سمندر کے قریب رکی ۔۔۔۔
سحرش نے جہانگیر کو دیکھا :
جہانگیر اپنی سیٹ سے اتر کر سحرش کی سائیڈ کا دروازہ کھولا اور اس کا ہاتھ پکڑ کر ساحل سمندر کی طرف لے گیا ۔۔۔۔ جہاں سمندر کی لہریں چمکتے ہوئے چاند کو چھونے کی کوشش کررہیں تھیں ۔۔۔۔ سرد ہوائیں اس پر پانی کی لہروں کا۔ شور الگ ہی سماء پیدا کررہا تھا۔۔۔۔۔
جہانگیر نے جھک کر اپنے شوز اتارے اور سحرش کا ہاتھ پکڑ کر پانی کی جانب چلاگیا۔۔۔۔۔
سحرش بھاری ڈریس میں دلہن بنی ہوئی ساحل سمندر پر پاوں تک آتے پانی میں موجود تھی ۔۔۔۔
لہریں آتیں اور ان کے پاوں کو چھو کر گزر جاتیں ۔۔۔۔۔۔
جہانگیر نے سحرش کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑا ہوا تھا اور اسے محوت سے تک رہا تھا۔۔۔۔۔۔
” میں اپکا شکریہ ادا کرنا چاہتی ہوں “۔۔۔
جہانگیر نے کچھ نہیں کہا سوائے دیکھتا رہا۔۔۔۔۔
سحرش نے جھک کر اپنی سینڈل اتاری اور سینڈل کو ہاتھوں میں پکڑ لیا اور ریت کی نمی کو اپنے اندر اتارنے لگی ۔۔۔۔۔۔ دونوں ہی پانی میں کھڑے سمندر کی موجوں کو دیکھ رہے تھے ہاتھوں کو مضبوطی سے تھامے کبھی نہ چھوڑنے کیلئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“دونوں ہی کھٹن راستوں کے مسافر تھے لیکن اب انکی منزل آسان اور صاف تھی ۔۔۔۔
باقی نوک جھوک تو ساری زندگی ہی چلتی ریتی ہے اور اسی کا نام زندگی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔”
” ختم شد”