پروین بھابی آپ نے بات کی پھر ایمان سے شادی کے سلسلے میں ؟
وہ سب ڈنر کے بعد لاؤنج میں بیٹھے ہوئے تھے ایمان کے ایگزامز شروع تھے وہ اپنے روم میں تھی –
جی بھائی کی ہے لیکن وہ اس بارے میں کوئی بات نہیں سننا چاہتی ہے –
آنٹی آپ کہتی ہیں تو میں بات کرتی ہوں ایمان سے –
میرے خیال میں فوزیہ بیٹی ٹھیک کہہ رہی ہے فوزیہ بیٹی آپ بات کرؤ اس کو سمجھنے کی کوشش کرنا حیات آفندی بولے –
” جی انکل ”
پاپا آپ نے وقار انکل سے بات کی ہے ؟
جی زوہیب بیٹا وقار سے میری بات ہو گئی ہے –
تو بھائی صاحب انہوں نے کیا کہا ہے
یوسف وقار تو خوش ہوا ہے جب میں نے ایمان کے سلسلے میں بات کی وہ تو خود آج کل سکندر کی شادی کے بارے میں سوچ رہا تھا اسے تو کوئی اعتراض نہیں ہے وہ کہہ رہا تھا-
سکندر سے بھی بات کرؤں گا مجھے یقین ہے کہ اسے کوئی اعتراض نہیں ہو گا اس رشتے پر –
بھائی آپ نے مکمل بات تو بتائی ہے ناں کہ ہم ایمان کی شادی اتنی جلدی میں کیوں کر رہے ہیں یہ نا ہو کہ بعد میں جنید کے بارے میں سکندر یا ان کو پتہ چلے کوئی اعتراض نہ کریں –
یوسف بھئی تمہیں پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ساری بات میں نے ان کو بتا دی اسے کوئی اعتراض نہیں ہے وہ ایمان کو اپنی بیٹی کی طرح سمجھتے ہیں وہ ان کو تسلی دیتے ہوئے بولے-
***************
اس وقت وہ سب لاؤنج میں بیٹھے ہوئے تھے –
بیٹا وہاں اپنا خیال رکھنا –
مما آپ تو ایسے کہہ رہی ہیں جیسے میں بچہ ہوں-
جنید بیٹا جتنے بھی بڑے ہو جاؤ میرے لیے تم بچے ہی ہو وہ پیار سے بولیں –
پہلے بھی تو گھومنے پھرنے جاتا رہتا ہے تمہارا بیٹا لندن میں کون سا پہلی بار جارہا ہے جو آج آپ کو بہت پیار آ رہا ہے کیا بات ہے –
آج کی کیا بات ہے میں تو شروع دن سے ہی اپنے بیٹے سے بہت پیار کرتی ہوں- وہ پیار سے اسے دیکھتے ہوئے بولیں جنید آج بزنس کے سلسلے میں لندن جارہا تھا –
ٹھیک ہے مما اب چلتا ہوں رضا کو بھی پک کرنا ہے لیٹ ہی نہ ہو جاؤں –
ٹھیک ہے بیٹا –
رضا اور تم جا تو رہے ہو لیکن بزنس کو بھی دیکھنا یہ نا ہو سارا دن آوارہ گردی کرتے پھرو تم دونوں مل کر وہ سختی سے نصیحت کرتے ہوئے بولے –
پاپا اب میں ایسا بھی نہیں ہوں بزنس کے سلسلے میں جارہا ہوں تو کام بھی کرؤں گا وہ اپنی صفائی دیتے ہوئے بولا –
وقار اب بس بھی کریں کبھی تو پیار سے بات کر لیا کریں –
ٹھیک ہے بیٹا تم جاؤ تمہارے پاپا کی تو باتیں ختم نہیں ہونی ہے –
اوکے مما آپ بھی اپنا خیال رکھنا وہ وہاں سے جاتے ہوئے بولا –
میرا سامان کار میں رکھ دیا ہے ناں وہ کار میں بیٹھتے ہوئے ڈرائیور سے تصدیق کرتے ہوئے بولا –
جی صاحب جی سب رکھ دیا ہے ٹھیک ہے اب چلو –
************
کیا میں اندر آ سکتی ہو؟
فوزیہ بھابی آپ دروازے پر کیوں کھڑی ہیں اندر آجائیں آپ کو اس میں پوچھنے کی ضرورت نہیں ہے ایمان خوش دلی سے بولی –
بھئی پڑھنے میں مصروف ہو وہ بیڈ پر پھیلی ہوئی کتابوں کو دیکھتے ہوئے بولیں –
جی بھابی آپ کو تو پتہ ہے ایگزامز شروع ہیں تو اس لیے پڑھنے میں مصروف تھی وہ کتابوں کو ایک طرف رکھتے ہوئے بولی –
آپ ٹھیک طرح سے بیٹھ جائیں –
ایگزامز کیسے ہو رہے ہیں ؟
ابھی تک تو ٹھیک ہو رہے ہیں بھابی –
چلو اچھی بات ہے ” جی ”
آپ رات کے اس وقت میرے روم میں آج کیا کوئی بات کرنی تھی –
کیا میں ویسے نہیں آ سکتی تمہارے روم میں ؟
نہیں بھابی آپ کا جب دل کرے آ سکتی ہیں میں ویسے بات کر رہی تھی –
تمہاری بات بھی ٹھیک ہے آج تو میں تم سے بات کرنے ہی آئی ہوں –
جی بھابی میں نے آپ کو دیکھ کر ہی اندازہ لگا لیا تھا –
کیونکہ میں بے خبر نہیں ہوں جو باتیں آج کل میرے بارے میں ہمارے گھر میں ہو رہی ہیں –
ہاں ایمان میں تمہاری شادی کے بارے میں ہی بات کرنی ہی آئی ہوں –
“بھابی جب میں نے امی جان سے کہہ دیا ہے میں اس سلسلے میں بات نہیں کرنا چاہتی تو انہوں نے اب آپ کو کیوں بھیج دیا وہ ناراض سے لہجے میں بولی ”
ایمان تمہیں اعتراض کیوں ہے ؟
بس بھابی مجھے شادی کی کوئی جلدی نہیں ہے آپ سب لوگ جانتے ہیں مجھے پڑھنے کا اور کچھ کر دکھانے کا کتنا شوق ہے –
تم جانتی ہو یہ فیصلہ سب نے مل کر تمہاری بہتری کے لیے کیا ہے جنید نے اگر تمہیں اغواء کر لیا تو پھر تم کیا کرؤ گئی بتاؤ تم خود ایمان سمجھ دار ہو ایک لڑکی کی عزت کتنی نازک ہوتی ہے وہ اسے سمجھتے ہوئے بولیں اور تم یہ بھی جانتی ہو انکل آنٹی سب گھر والے تم سے کتنا پیار کرتے ہیں وہ تمہیں تکلیف میں کیسے دیکھ سکتے ہیں اور نہ ہی تمہارے لیے کچھ برا سوچ سکتے ہیں۔
بھابی آپ لوگ مجھے سمجھنے کی کوشش نہیں کر رہے ہیں میں جنید سے ڈر کر شادی نہیں کرنا چاہتی نہ ہی اس کی وجہ سے اپنی زندگی تباہ کرنا چاہتی ہوں وہ ناراضگی سے بولی –
تمہاری زندگی کون تباہ کر رہا ہے شادی کے بعد تم سب کچھ کر سکتی ہو ان لوگوں کو کوئی اعتراض نہیں ہے اور زوہیب بھی کہہ رہے تھے -سکندر بہت اچھا ہے تمہیں ہمیشہ خوش رکھے گا
زوہیب کافی عرصے سے جانتے ہیں ان کا دوست ہے –
” گھوم پھر کر یہی دو نام ہی میرے سامنے کیوں آ جاتے ہیں ”
کیا تم نے کچھ کہا ” نہیں بھابی ”
بھابی یہ سکندر کون ہے اب ؟
یہ حیات انکل کے دوست جو وقار ہیں ان کا بیٹا ہے سکندر جس سے تمہاری شادی کرنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں
اچھا کرتا کیا ہے ؟
“اپنا بزنس ہے ان کا ”
اس کا مطلب تم راضی ہو اس رشتے پر وہ مسکراتے ہوئے بولیں –
یہ آپ سے کس نے کہہ دیا –
اس کے بارے میں پوچھ جو رہی ہو
وہ تو ویسے میں پوچھ رہی تھی میں کسی سکندر سے شادی نہیں کرنے والی آپ لوگ بار بار مجھے تنگ نہ کریں وہ سخت لہجے میں بولی –
ایمان ایک بات بتاؤ تم انکل آنٹی سے محبت کرتی ہو ؟
یہ کوئی پوچھنے والی بات ہے بھابی
تو پھر تم ان کی بات مان لو انکل آنٹی بھی تم سے بہت پیار کرتے ہیں آج تک انہوں نے تمہاری ہر خواہش پوری کی ہے کبھی کوئی زبردستی نہیں کی تم ان کی صرف ایک خواہش پوری نہیں کر سکتی ہو وہ اسے سمجھتے ہوئے بولیں –
“دوسری بات ماں باپ اپنی اولاد کے لیے کیسے کچھ غلط سوچ سکتے ہیں وہ جو کچھ بھی کر رہے ہیں تمہاری بہتری کے لیے کر رہے ہیں ”
تم شاید نہیں جانتی وہ تمہاری وجہ سے کتنے پریشان ہیں -ٹھیک ہے ایمان میں اب چلتی ہوں میں جانتی ہوں میری باتیں تمہیں اچھی نہیں لگ رہی ہوں گئی لیکن ایک بار اس بارے میں سوچنا ضرور –
بھابی ایسی بات نہیں ہے چلیں میں آپ کو سوچ کر بتاؤں گئی نہ چاہتے ہوئے بھی یہ سب کچھ کہنا پڑا اسے وہ شکست خور لہجے میں بولی –
مجھے یقین ہے تم کوئی اچھا فیصلہ ہی کرؤ گئی کیونکہ تم ہم سب سے بہت محبت کرتی ہو – ہمیشہ خوش رہو اب میں چلتی ہوں –
” جی بھابی ”
ایک لڑکی کی بھی زندگی عجیب ہوتی ہے ابھی تو کتنے خواب میرے تھے میں نے تو شادی کے بارے میں اتنے جلدی سوچا بھی نہیں تھا -یہ سب کچھ اس سکندر شاہ کی وجہ سے ہو رہا ہے – نا وہ اس دن جنید کے سامنے بڑا ہیرو بن کر آتا نہ ہی جنید ضد پکڑتا مجھے سے شادی کرنے کی سکندر شاہ مجھے تم سے شدید نفرت ہے -پتہ نہیں میرے ساتھ ہی یہ سب کچھ کیوں ہو رہا ہے اللہ میاں میں نے تو کبھی کسی ساتھ کچھ برا نہیں کیا اور پتہ نہیں اب یہ سکندر کون ہے جس سے گھر والے میری شادی کرنا چاہتے ہیں -وہ بیڈ پر لیٹی ہوئی سوچ رہی تھی –
*************
پاپا آپ کب آئے ہیں وہ جائے نماز تہہ کر کے رکھتا ہوا بولا –
سکندر بیٹا جب تم کسی کے لیے دعا کررہے تھے وہ مسکراتے ہوئے بولے –
پاپا میں تو سب لوگوں کے لیے دعا مانگتا ہوں کسی ایک کے لیے تو نہیں وہ ان کے سامنے چئیر پر بیٹھتے ہوا بولا –
وہ اس وقت شلوار قمیض میں ملبوس تھا اور سر پر ٹوپی ویسے موجود تھی –
بھئی میں تو مذاق کر رہا تھا تم تو سیریس ہو گئے وہ پیار سے اپنے بیٹے کو دیکھتے ہوئے بولے-
پاپا میں آپ کو بتا رہا تھا صرف –
اچھا چھوڑؤ اس وقت میں بہت اہم بات کرنے آیا تھا –
“جی پاپا کیجئے ”
سکندر بیٹا میں تمہاری شادی کے بارے میں سوچ رہا تھا ماشاءاللہ سے تم نے اب بزنس بھی سنبھال لیا ہے اور تمہارے لیے اس سلسلے میں نے لڑکی بھی دیکھ لی ہے بہت پیاری بچی ہے –
پاپا آپ یہ سب کیا کہہ رہے ہیں وہ حیران ہوتے ہوئے بولا میں نے تو ابھی شادی کے بارے میں نہیں سوچا –
“کیوں بیٹا کیا کسی لڑکی کو پسند کرتے ہو ”
“نہیں پاپا ایسی بات نہیں ہے وہ چاہتے ہوئے بھی یہ نہیں بتا سکتا تھا کہ وہ ایک لڑکی کو پسند کرتا ہے کیونکہ وہ اسے پسند نہیں کرتی ہے ”
“تو پھر انکار کیوں کر رہے ہو ”
پاپا میں ابھی شادی نہیں کرنا چاہتا
بیٹا شادی پھر بھی کرنی ہے اور بعد میں بھی اب میرے کہنے پر کر لو اصل میں میرے دوست حیات کو تو جانتے ہو –
“جی پاپا ”
اس کے بھائی کی بیٹی ایمان سے میں تمہاری شادی کرنا چاہتا ہوں حیات نے بھی مجھ سے درخواست کی ہے اس لیے بھئی ورنہ میں تمہیں نہ کہتا –
“لیکن پاپا کیوں ”
ان کی بیٹی کو کوئی لڑکا پسند کرتا تھا رشتہ بھی اس نے بھیجا لیکن ایمان بیٹی اس سے شادی نہیں کرنا چاہتی تھی پھر وہ لڑکا اسے یونیورسٹی میں تنگ کرنے لگا پھر ایک دن گھر میں دھمکی دے گیا ہاں نہیں کی تو میں اغواء بھی کر سکتا ہوں بس اس لیے وہ اپنی بیٹی کی سادگی سے جلدی شادی کر رہے ہیں وہ ایمان کو تاکہ کوئی نقصان نہ پہنچا دے وہ اس تفصیل بتاتے ہوئے بولے –
لیکن پاپا میں ابھی نہیں کرنا چاہتا
یار میری درخواست سمجھ لو اور کر لو پہلی بار میرے دوست نے مجھے سے کوئی درخواست کی ہے میں اسے انکار نہیں کر سکتا وہ اسے سمجھتے ہوئے بولے –
“ٹھیک ہے پاپا آپ کہتے ہیں تو میں تیار ہوں اس سے شادی کے لیے ”
مجھے یقین تھا میرا بیٹا کبھی کوئی بات میری ٹال ہی نہیں سکتا وہ پیار سے اپنے بیٹے کو دیکھتے ہوئے بولے تمہارے اس فیصلے سے مجھے بہت خوش ہے چلو میں چلتا ہوں اب یہ خوش خبری تمہاری ماں کو بھی سناتا ہوں شب بخیر –
“شب بخیر پاپا ”
***********
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...