زرداب اس وقت بہت پریشان تھا تھوڑی دیر پہلے ہی اسے سکندر کی موت کی خبر ملی تھی ۔ ۔ ۔ ۔ سکندر پکڑا گیا تھا کوئی راہ فرار نہ پا کر اس نے سوسائیڈ کر لی تھی ۔ ۔ ۔ ۔ بلاشبہ وہ ایک جاں نثار اور وفادار ساتھی تھا بچپن سے لے کر اب تک وہ زرداب کے ہر راز کا امین تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس کی موت سے زرداب کو شدید دھچکا لگا تھا ۔ ۔ ۔ ۔
زاشہ سے دوری ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ڈیول کی قید ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اب سکندر کی موت ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان سب باتوں نے جیسے اسے پاگل سا کر دیا اس نے ہاتھ میں پکڑا حرام مشروب کا گلاس سامنے دیوار پہ دے مارا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس کے بعد جو چیز ہاتھ لگی وہ تباہ ہوتی گئی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سارے ملازم اس کے کمرے سے آنے والی آوازیں سن کر سہمے کھڑے رہے کسی میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ جا کر اس کو روک لے ۔۔۔۔۔
پندرہ منٹ میں وہ کمرے کا نقشہ بگاڑ چکا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ اب لڑکھڑاتے قدموں کے ساتھ وہ صوفے پہ گرا اور نشے کی زیادتی سے گھومتا سر دونوں ہاتھوں میں تھام لیا ۔ ۔ ۔ ۔ تھوڑی ہی دیر میں ہوش و حواس سے بیگانہ ہوتے وہیں صوفے پہ لڑھک گیا ۔
نور اور تیمور زاشہ کو پارلر سے پک کرنے آئے تھے جبھی ساتھ والی شاپ سے نکلتے نبیل کی نظر تیمور کے ساتھ فرنٹ سیٹ پہ بیٹھی نک سک سی تیار نور پہ گئی ۔ ۔ ۔ ۔
وہ ایک پل کے لئے فریز ہوا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
” خالہ تو کہہ رہی تھیں کہ اس نور کا کوئی بوائے فرینڈ نہیں ہے اور نہ ہی یہ اس ٹائپ کی لڑکی ہے ۔ ۔ ۔
لیکن یہاں تو گیم ہی سالی کچھ اور ہے ۔ ۔ ۔ ”
نبیل گھٹیا پن سے سوچ رہا تھا ۔ ۔ ۔ ۔
” ہممممم ایسے تو قابو میں نہیں آنے والی یہ تتلی ۔ ۔ ۔ اس کے پر تو کاٹنے ہی پڑیں گے ۔ ”
وہ دور ہوتی گاڑی پہ نظر جمائے سوچ رہا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ایک بڑی ہی كمینی سی مسکراہٹ نے اسکے لبوں کو چھوا۔
“””””””””””””””””””””””””
تیمور کا سارا دھیان ساتھ بیٹھی نور پہ تھا ۔ ۔ ۔ ۔ باٹل گرین میکسی میں اسکا گورا رنگ لشکارے مار رہا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ وہ پیچھے بیٹھی زاشہ کی وجہ سے خاموش تھا ورنہ دل تو چاہ رہا تھا کہ ساتھ بیٹھی دلربا کے حسن کی نذر ایک آدھ غزل تو کر ہی دے ۔
نور تیمور کی خود پہ جمی نگاہوں سے پزل ہو رہی تھی ۔ ۔ ۔ جو بلیو ڈنرسوٹ میں بہت ہینڈسم لگ رہا تھا ۔ ۔ ۔
نور نے گھبرا کر گاڑی میں سی ڈی پلیئر آن کر دیا۔
تیرے سامنے آ جانے سے یہ دل میرا دھڑکا ہے ۔ ۔ ۔ ۔
یہ غلطی نہیں ہے تیری قصور نظر کا ہے ۔ ۔ ۔ ۔
جس بات کا تجھ کو ڈر ہے وہ کر کے دکھا دوں گا ۔ ۔ ۔ ۔
ایسے نہ مجھے تم دیکھو ۔ ۔ ۔ ۔
سینے سے لگا لوں گا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
تم کو میں چرا لوں گا تم سے ۔ ۔ ۔ ۔
دل میں چھپا لوں گا ۔ ۔ ۔ ۔
گانے کے معنی خیز بول نور کو بوکھلا رہے تھے ۔ ۔ ۔ مستزاد تیمور کے ہونٹوں میں دبی مسکراہٹ ۔ ۔ ۔
اس میں اتنی ہمت بھی نہیں تھی کہ سی ڈی پلیئر ہی آف کر دے ۔
اس نے ذرا سا رخ موڑ کر پیچھے بیٹھی زاشہ کے تاثرات دیکھنے چاہے مگر وہ تو مکمل طور پہ اپنے فون میں گم تھی ۔۔۔۔۔ نور نے شکر کیا تھا ۔
تم سے پہلے تم سا کوئی ہم نے نہیں دیکھا ۔ ۔ ۔ ۔
تمھیں دیکھتے ہی مر جائیں گے یہ نہیں تھا سوچا ۔ ۔ ۔ ۔
بانہوں میں تیری میری یہ رات ٹھہر جائے ۔ ۔ ۔
تجھ میں ہی کہیں پہ میری صبح بھی گزر جائے ۔ ۔ ۔ ۔
جب گانے کے بول ناقابل برداشت ہو گئے تو نور نے جھٹ سے سی ڈی پلیئر آف کر دیا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اسکا چہرہ بے حد سرخ ہو رہا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تیمور کا سارا دھیان اسی کی طرف تھا لیکن وہ زاشہ کی وجہ سے خاموش بیٹھا تھا۔
جبھی وہ لوگ ہال میں پہنچ گئے نور نے شکر ادا کیا کہ سفر تمام ہوا اور گاڑی سے اتر کر زاشہ کی طرف بڑھ گئی۔
پیچ کلر ویسٹرن طرز کی لانگ ٹیل میکسی میں زاشہ کا حسن دیکھنے والی نگاہوں کو خیرہ کر رہا تھا اس کے ساتھ کھڑا تبریز گرے تھری پیس سوٹ میں بہت ہینڈسم لگ رہا تھا سب سے بڑھ کر اسکی بھوری آنکھوں کی چمک اور خوبرو چہرے پہ چھائی خوشی اسے بہت مکمل دکھا رہی تھی۔
فوزیہ بیگم نے کئی نوٹ دونوں سے وار کر ویٹر کو تھمائے ۔
ہر کسی کی زبان پہ دونوں کی جوڑی کے لئے تعریف تھی اوورآل فنکشن بہت اچھا رہا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تبریز نے اپنے تمام دوستوں سے زاشہ کا تعارف کروایا تھا۔
فنکشن ختم ہونے کے بعد نور فوزیہ بیگم سے اجازت لے کر گھر چلی گئی تھی کیوں کہ نفیس کرمانی صبح واپس آ رہے تھے وہ جلد از جلد ان سے بات کرنا چاھتی تھی۔
“””””””””””””””””””””””””””
زاشہ آئینے کے سامنے کھڑی تھی پورے کمرے کی لائٹس آف تھیں کینڈل سٹینڈ پہ جلتی کینڈلز کی مدھم روشنی ماحول کو خوابناک بنا رہی تھی سامنے دیوار پہ بیڈ کے پیچھے وال پہ دونوں کے نکاح کی انلارج پکچر لگی ہوئی تھی جس میں زاشہ کے چہرے پہ شرمیلی مسکان سجی تھی اور تبریز دل آنکھوں میں لئے اسے دیکھ رہا تھا یہ خوبصورت منظر تیمور نے کیمرے میں قید کر لیا تھا تصویر کے گرد فینسی لائٹس جل بجھ رہی تھیں بیڈ کی دونوں سائیڈز پہ سرخ گلاب کے پھولوں کے بکے ماحول کومزید خوابناک بنا رہے تھے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تبریز کا یہ سرپرائز زاشہ کو بہت اچھا لگا تھا مگر وہ خوش نہیں ہو پا رہی تھی۔
پارلر سے واپس آتے ہوئے اسے سکندر کی موت کی خبر میلی تھی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس کے بعد وہ سارا وقت الجھی اور پریشان رہی تھی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ابھی بھی آئینے کے سامنے کھڑی وہ اسی کے بارے میں سوچ رہی تھی ۔
سکندر کی موت کا مطلب تھا آغا زرداب کی واپسی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اور آغا زرداب کی واپسی مطلب ۔ ۔ ۔ زاشہ کی زندگی بہت سے امتحانوں کی زد میں آنے والی تھی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
وہ تبریز سے اس بارے میں بات کرنا چاہتی تھی مگر فلحال اس کے پاس کوئی پروف نہیں تھا جس سے وہ بےگناہ ثابت ہو پاتی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سوچ سوچ کر اسکا دماغ ماؤف ہو رہا تھا۔
تبریز واشروم کا دروازہ کھول کر باہر نکلا وہ اس وقت ٹراؤزر میں ملبوس تھا گیلا تولیہ شانوں پہ دھرا تھا۔
وہ ابھی کچھ دیر پہلے ہی روم میں آیا تھا زاشہ تب فوزیہ بیگم کے پاس تھی اس لئے وہ شاور لینے چلا گیا تھا۔
وہ تولیہ صوفے پہ اچھالتا ہوا زاشہ کی طرف آیا۔
زاشہ چونک کر اپنے خیالوں سے نکلی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
تبریز دونوں ہاتھوں سے اسکے گرد حصار بنائے تھوڑی اسکے کندھے پہ ٹکائے اس کے پیچھے کھڑا تھا ۔ ۔ ۔ ۔
” یہ بے جان آئینہ کیا تعریف کرے گا تمہاری ۔ ۔ ۔ ۔ تعریف تو کوئی دل والا ہی کر سکتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور تمہارا دل والا تمہارے پیچھے کھڑا ہے ۔ ۔ ”
وہ اس کے رخسار کو لبوں سے چھوتے ہوئے بولا۔
زاشہ اس کو کل رات والے موڈ میں دیکھ کر پریشان ہوئی تھی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ تبریز سے بات کرنا چاہتی تھی ۔ ۔ ۔ کیوں کہ اب مزید وہ اس سے کچھ چھپانا نہیں چاھتی تھی ۔
” تبریز ۔ ۔ ”
اپنے گرد بندھے اس کے ہاتھ پہ ہاتھ رکھتے ہوئے وہ تبریز سے بولی جو کراؤن سے لگے اسکے دوپٹے کو اتار کر سائیڈ پہ رکھ رہا تھا ۔
” ھممم ۔ ۔ ۔ ۔ کیا ہوا ”
وہ دوبارہ اس پہ جھکتے ہوئے بولا ۔
اس کے ہونٹوں کو اپنی شہ رگ پہ محسوس کر کے زاشہ حیا سے لرز اٹھی ۔ ۔ ۔ ۔ ایسے میں اس کے حلق سے آواز کیا خاک نکلتی ۔
” تبریز ۔ ۔ ”
وہ دوبارہ ہمت کرتی ہوئی بولی۔
لیکن اب کی بار تبریز نے کوئی رسپانس نہیں دیا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ وہ اس کی میکسی کے شولڈر پہ لگی ڈوریاں کھول رہا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اسکی میکسی لوز ہو کر شولڈرز سے ڈھلک گئی ۔ ۔ ۔ ۔
تبریز کے پرحدت لمس کو اپنے شولڈرز اور بیک پہ محسوس کر کے وہ حیا سے آنکھیں موند گئی ہر بات اس کے ذہن سے محو ہوتی چلی گئی۔
رات نور جب گھر آئی تو پتا چلا کہ نفیس صاحب ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی لوٹے ہیں وہ ان کے روم میں جا کر بات نہیں کرنا چاہتی تھی کیوں کہ وہاں مسز کرمانی بھی موجود تھیں اس لئے صبح بات کرنے کا سوچتی ہوئی اپنے روم میں آ گئی۔
اب جو نور نے گھڑی کی طرف دیکھا تو وہ دن کے 2 بجا رہی تھی۔
” یا اللّه ۔ ۔ ۔ میں اتنی دیر تک سوتی رہی
بابا تو آفس کے لئے نکل گئے ہوں گے۔”
نور بولتے ہوئے بیڈ سے اتر آئی۔
فریش ہو کر وہ روم سے باہر آئی سامنے ہی صوفے پہ مسز کرمانی نبیل کے ساتھ بیٹھی تھیں ۔ ۔ ۔
نور انھیں اگنور کرتے ہوئے کچن کی جانب بڑھی تھی جب مسز کرمانی کی آواز پہ رک گئی۔
” اگر دس دن بعد گھر آ ہی گئی ہو تو ڈھنگ سے بات تو کر لو کسی سے ۔ ۔ ۔ چلو سلام ہی کر لو ۔ ۔ ۔
مگر میں بھی کس سے کہہ رہی ہوں جس کو تمیز چھو کر بھی نہیں گزری ۔ ۔ ۔ ہنہہہ ۔ ۔ ۔ ۔ ”
نور بل کھا کے پلٹی تھی ۔
” میں فضول لوگوں سے بات کرنا پسند نہیں کرتی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس وقت میرا موڈ بہت اچھا ہے بہتر ہو گا کہ آپ میرے منہ نہ لگیں۔”
” ارے ہاں بھئی ۔ ۔ ۔ آپ کو پتہ ہے خالہ جان آپ کے شوہر کی بیٹی باہر کے مردوں کو بہت شوق سے منہ لگاتی ہے بلکہ ان کے ساتھ گاڑی میں فرنٹ سیٹ پہ بیٹھتی ہے ”
نبیل خباثت سے بولا۔
” ہاؤ ڈیر یو ! ۔ ۔ ۔ تمہاری اتنی اوقات نہیں ہے کہ میرے کریکٹر پہ کوئی بات کرو ۔ ۔ ۔ ۔ اور نہ ہی میں تم لوگوں کو کوئی صفائی دینے کی پابند ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اور آپ مسز نفیس کرمانی صاحبہ ۔ ۔ ۔ ۔ بھول جائیے کہ میں آپ کے اس آوارہ بھانجے سے شادی کروں گی۔”
نور چباچباکر بولتی دونوں کو آگ لگا گئی تھی۔
” دیکھا آپ نے خالہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیسے تیور دکھاتی ہے (گالی )”
نبیل غصے سے کف اڑاتے ہوئے بولا۔
” میری جان تھوڑا برداشت کر لو ۔ ۔ ۔ ۔ میں نفیس صاحب کو منا چکی ہوں وہ تم دونوں کی شادی کے لئے تیار ہیں ”
وہ اسکو پچکارتی ہوئی بولیں ۔ ۔ ۔ لیکن اسکا شیطانی دماغ کچھ اور ہی سوچ رہا تھا۔
زاشہ چائے لے کر فوزیہ بیگم کے کمرے میں آئی جو اپنے ارد گرد مختلف البم پھیلائے بیٹھی تھیں۔
” ماما کیا دیکھ رہی ہیں ”
زاشہ اب انکو تبریز کی طرح ماما ہی کہتی تھی۔
” زرش بیٹا آؤ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ دیکھو یہ تبریز کے بچپن کی تصویریں ہیں ”
زاشہ ان کے پاس بیٹھ کر اشتیاق سے پکس دیکھنے لگی۔
” واؤ ماما تبریز تو بچپن میں بہت کیوٹ اور ہیلدی تھے ”
وہ تبریز کی گول مٹول تصویر دیکھ کر بولی۔
” ہاں بیٹا بلکل ایسا ہی تھا ۔ ۔ ۔ ۔ اور اس کو نظر بھی بہت جلدی لگ جاتی تھی ”
وہ مسکراتی ہوئی بول رہی تھیں لہجے میں محبت ہی محبت تھی ۔
فوزیہ بیگم کی شادی اور جوانی کی پکچرز دیکھتے ہوئے زاشہ دم چونکی تھی۔
” ماما یہ کون ہیں ”
فوزیہ بیگم کے ساتھ ایک بہت ہی خوبصورت اور نازک سی لڑکی کی تصویر دیکھ کر اس نے بے اختیار پوچھا۔
” بیٹا یہ میری سگی بہن ہے ”
انکی آواز آنسوؤں میں بھیگی ہوئی تھی۔
” تو ماما یہ اب کہاں ہیں۔”
پوچھتے ہوئے زاشہ کی آواز لرز رہی تھی۔
” یہ تو میں بھی نہیں جانتی کہ زرینہ اس وقت کہاں ہے ۔ ۔ ۔ یونیورسٹی میں کسی کو پسند کر کے اس سے کورٹ میرج کر لی تھی اس نے ۔ ۔ ۔ اماں ابا شروع میں تو بہت ناراض رہے مگر وقت کے ساتھ ساتھ انکی ناراضگی بھی ختم ہو گئی مگر اس نے پلٹ کر نہیں دیکھا۔”
فوزیہ بیگم آزردگی سے بول رہی تھیں۔
زاشہ سے جب سسکیاں کنٹرول نہ ہوئیں تو وہ وہاں سے اٹھ کر بھاگ گئی۔
زاشہ کو ایسے جاتا دیکھ کر فوزیہ بیگم پریشانی سے اس کے پیچھے لپکیں۔
زاشہ اپنے کمرے میں بیڈ پہ بیٹھی پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی ایک تصویر اسکی گود میں پڑی تھی۔
تصویر دیکھ کر فوزیہ بیگم اپنی جگہ سے ہل نہیں سکیں ۔
” زرش کیا تم میری زرینہ کی بیٹی ۔ ۔ ۔ ”
آنسوؤں نے انکی بات پوری نہیں ہونے دی۔
وہ زاشہ کو گلے لگا کر خوب روئیں تھیں ایک طرف بھانجی کے ملنے کی خوشی تھی تو دوسری طرف عزیز بہن کی موت کا دکھ۔
تبریز جب گھر لوٹا تو دونوں کے افسردہ چہرے دیکھ کر اسے حیرت ہوئی تھی۔
” ماما کیا ہوا آپ دونوں کو ”
فوزیہ بیگم کے آنسوؤں کو پھر سے راستہ مل گیا تھا تبریز نے بمشکل دونوں کو سنبھالا تھا۔
اسے خالہ کی موت کا دکھ تو ہوا تھا مگر یہ جان کر خوشی بھی ہوئی تھی کہ زاشہ اسکی کزن ہے۔
تیمور اس وقت پولیس سٹیشن میں تبریز کے سامنے بیٹھا تھا۔
” میں ہر طرح سے چیک کر چکا ہوں آغا زرداب کے سفید محل کی سیکورٹی بہت ٹائٹ ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں نے کچھ عرصہ نگرانی بھی کروائی ہے لیکن کوئی خاص فائدہ نہیں ہوا ۔ ۔ ۔ ۔ کوئی آیا گیا نہیں ہے محل میں ۔”
تبریز اسکی بات سن کر الجھا تھا۔
” لیکن یہ کیسے پاسیبل ہے کہ اتنے عرصے سے نہ کوئی اندر گیا ہے اور نہ ہی باہر آیا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ضرور کوئی خفیہ راستہ بھی ہو گا محل میں آنے جانے کا ”
تبریز پر خیال انداز میں گویا ہوا۔
” ہممممم میرا خیال ہے آج واپسی پہ ھم ایک چکر وہاں ارد گرد لگا لیں ۔ ۔ ۔ ۔ کیا کہتے ہو ”
تیمور نے اس کی رائے مانگی تھی۔
” ہاں دیکھنے میں تو کوئی حرج نہیں ہے آج دیکھ لیں گے ۔ ۔ ۔ ۔ اور حنیف سے بولو ذرا ہوشیار رہے سکندر کی موت زرداب کو اس کے بل سے باہر نکال ہی لائے گی ”
تبریز نے اسکو دیکھتے ہونے کہا تھا ۔
” ہاں میں ابھی دیکھتا ہوں ”
تیمور بولتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا ۔
“””””””””””””””””””””””””
زاشہ اپنے کمرے میں بیٹھی گود میں رکھے کرسٹل باکس کو دیکھ رہی تھی آج تبریز کے جانے کے بعد فوزیہ بیگم کو نور سے ملنے کا کہہ کر وہ سفید محل گئی تھی ایک تو آج بوا کو اپنے گاؤں جانا تھا اور دوسرا زاشہ ایک بار پھر سے کوشش کرنا چاہتی تھی ۔ ۔ ۔ ۔ کیا پتہ اب کی بار کچھ مل ہی جاتا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اور واقعی اس بار وہ خالی ہاتھ نہیں لوٹی تھی اسے ایک فائل برابر یہ باکس ملا تھا جسے وہاں کھولنے کا ٹائم نہیں تھا اسی لئے زاشہ وہ اپنے ساتھ لے آئی تھی ۔
زرداب جب بھی پاکستان آتا تھا تو اپنا زیادہ تر وقت وہ سٹڈی روم میں گزارتا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ زاشہ کو پورا یقین تھا کہ یہاں سے اسے کچھ نہ کچھ مل ہی جائے گا ۔ ۔ ۔ ۔
مگر پوری سٹڈی چھاننے کے بعد بھی جب اسے کچھ نہیں ملا تو اس نے مایوسی سے ہاتھ بک شیلف کے ساتھ دیوار پہ مارا تھا ۔ ۔ ۔ مگر یہ کیا ۔ ۔ ۔ ۔ دیوار کا وہ حصہ جہاں زاشہ کا ہاتھ لگا تھا کسی ڈرا کی طرح دیوار سے باہر نکل آیا تھا اور سامنے ہی ایک چھوٹا سا لاکر تھا ۔ ۔ ۔ ۔
دو بار زاشہ نے پاس ورڈ ڈالا دونوں بار ہی ناکام ہوئی ۔ ۔ ۔ ۔
آخری چانس میں اس نے دھڑکتے دل کے ساتھ
Z۔A۔A۔S۔H۔A
لکھا تو لاکر کلک کی آواز کے ساتھ کھل گیا ۔ ۔ ۔ ۔
وہاں صرف یہ باکس ہی موجود تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
باکس چاروں سائیڈ سے بلکل ایک جیسا تھا کہیں بھی کھولنے کے لئے کوئی نشان نہیں تھا زاشہ کو سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اسے کیسے کھولے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس باکس میں جو بھی راز تھا بہت اہم تھا تبھی زرداب نے اسے اتنا چھپا کے رکھا ہوا تھا۔
ابھی وہ باکس کا جائزہ ہی لے رہی تھی جب فوزیہ بیگم نے اسے آواز دی ۔ ۔ ۔ ۔ وہ جلدی سے باکس کو چھپا کے باہر لپکی تھی۔
” بابا آخر آپ میری بات سمجھ کیوں نہیں رہے ۔ ۔ ۔ ۔
مجھے نبیل سے شادی نہیں کرنی ۔ ۔ ۔ ۔
آپ میرے ساتھ زبردستی کیسے کر سکتے ہیں ۔ ۔ ۔ ”
نور نفیس کرمانی سے بات کرتی ہوئی اذیت کی آخری حد پہ تھی۔
” جب اولاد ۔ ۔ ۔ ۔ خاص کر کےتم جیسی اولاد حد سے زیادہ نافرمان اور بدلحاظ ہو جائے تو والدین کو اپنی عزت کی خاطر ایسے فیصلے کرنے پڑتے ہیں۔”
نفیس صاحب کا لہجہ بےحد ٹھنڈا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نور تو انکی بات پہ سن سی رہ گئی۔
” بابا یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں ۔ ۔ ”
صدمے سے اسکی آواز پھٹ سی گئی تھی اسے یقین نہیں آ رہا تھا کہ ابھی جو کچھ بھی اس نے سنا ہے وہ اس کے سگے باپ نے کہا ہے ۔
” میں جو کہہ رہا ہوں وہ تم اچھے سے سمجھ رہی ہو ۔ ۔ ۔ ۔
نبیل اچھا لڑکا ہے وہ تمہاری ہر بدتمیزی اور بے حیائی جانتے ہوئے بھی تم سے شادی کرنے کے لئے تیار ہے ۔ ۔ ۔ ۔
مجھے تو یقین نہیں آتا کہ تم نے میری دی ہوئی آزادی کا اس حد تک ناجائز فائدہ اٹھایا ہے کہ لوگ مجھے یہ کہہ رہے ہیں کہ نفیس کرمانی کی بیٹی لڑکوں کے ساتھ آوارہ گردی کرتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میرا سر شرم سے جھکا دیا ہے تم نے اب میں مزید کوئی رسک نہیں لینا چاہتا ۔ ۔ ۔ ”
وہ بولتے بولتے ہانپ گئے تھے۔
نور تو جیسے سکتے کی کیفیت میں تھی اسکے بابا کے ذہن میں اتنا زہر بھر دیا گیا تھا اس کے خلاف کہ انھیں اپنی بیٹی کے آنسو اسکا درد دکھائی ہی نہیں دے رہا تھا۔
” بابا ۔ ۔ ۔ آپ ۔ ۔ آپ سمجھ نہیں رہے ۔ ۔ ۔ وہ ۔ وہ عورت اور اسکا بھانجا مل کر سازش کر رہے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ وہ اچھی عورت نہیں ہے بابا وہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ”
اس سے پہلے کہ اسکا جملہ مکمل ہو پاتا نفیس صاحب کا ہاتھ اٹھا اور نور کے رخسار پہ نشان چھوڑ گیا۔۔۔۔۔
” وہ عورت ماں ہے تمہاری صرف جنم نہیں دیا باقی ہر فرض اسی عورت نے پورا کیا ہے تمہاری ہر بدتمیزی کو ہنس کے سہہ جاتی ہے وہ عورت جسے تم سازشی اور نہ جانے کیا کیا کہہ رہی ہو ”
نور جواب میں انکو یہ نہیں بتا سکی تھی کہ اس عورت نے صرف انکی بیوی ہونے کا حق نبھایا ہے ماں تو وہ کبھی بنی ہی نہیں اسکی ۔ ۔ ۔ ۔
وہ دکھ سے انھیں دیکھتی ہوئی باہر نکل آئی۔
اسکا رخ گاڑی کی طرف تھا ۔ ۔ ۔ ۔ وہ سکون سے کہیں جا کے آنسو بہانا چاہتی تھی اس گھر سے دور جانا چاہتی تھی نفیس صاحب اپنی بیوی کی باتوں میں آ کر پہلے بھی اسے ڈانٹ دیا کرتے تھے مگر کبھی ہاتھ نہیں اٹھایا تھا لیکن آج یہ بھی کر گزرے تھے۔
نبیل جو مسز کرمانی کے ساتھ روم کے باہر کھڑا ساری صورتحال ملاحظہ کر رہا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لبوں پہ كمینی سی مسکراہٹ لے کر نور کے پیچھے لپکا تھا جو اپنی گاڑی گیٹ سے باہر نکال رہی تھی۔
” یار یہاں سے تو دیوار بہت اونچی اور مضبوط ہے اس کو پھلانگنا تو ناممکن ہے تقریباْ ۔ ۔ ۔ ”
تیمور کی اس بے تکی بات پہ تبریز نے اسے گھورا تھا۔
” ھم یہاں جیمز بانڈ بننے نہیں آئے سفید محل کا جائزہ لینے آئے ہیں کوئی خفیہ راستہ ڈھونڈنے ”
وہ دونوں اس وقت سفید محل کی پچھلی سائیڈ پہ جنگل میں موجود تھے ۔
” میں تو بس تمھیں ہنسانے کے لئے بول رہا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ناراض محبوبہ جیسی صورت بنائے کھڑے ہو ”
تیمور غور سے ارد گرد دیکھتے ہوئے بولا۔
” یہ یہاں پہ جھاڑیاں کچھ زیادہ ہی گھنی ہیں یہاں چیک کرتے ہیں۔”
تبریز نے دیوار سے ذرا فاصلے پہ موجود جگہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
سورج تقریباْڈھل ہی چکا تھا۔
ابھی وہ دونوں جھاڑیوں کی طرف جھکے ہی تھے جب کسی نسوانی چیخ نے انکی توجہ کھینچی تھی۔
دونوں نے چونک کر ایک دوسرے کو دیکھا۔
” یہاں اس وقت کون ہو سکتا ہے ”
تبریز ارد گرد دیکھتے ہوئے بولا ۔ ۔ ۔
جبکہ تیمور کا سارا دھیان آواز کی طرف تھا۔
تبھی ایک اور چیخ سنائی دی تھی جو پہلے سے زیادہ اونچی اور واضح تھی۔
” آواز قریب سے آ رہی ہے چلو دیکھتے ہیں ”
تیمور بولتے ہوئے گن نکال کر ہاتھ میں پکڑ چکا تھا۔
تھوڑا آگے جا کر ایک ٹوٹا پھوٹا سا کمرہ دکھائی دیا تھا جو شاید کسی زمانے میں مسافروں کے آرام کے لئے بنایا گیا تھا اب تو اسکی حالت بہت خراب تھی۔
آواز شاید یہیں سے آئی تھی۔
ہر طرف خاموشی تھی۔
دروازے کے قریب پہنچ کر ہلکی ہلکی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔
تیمور نے لکڑی کے دروازے کو لات ماری تھی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کمزور سا دروازہ پٹ سے کھل گیا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
سامنے کا منظر دیکھ کر تیمور کے دل نے شدت سے موت کی آرزو کی تھی۔
سامنے ہی نور ابتر حالت میں خون سے لت پت پڑی تھی اور نبیل اس کے اوپر جھکا ہوا تھا۔
نور پہ ایک نگاہ ڈال کر تبریزبھی تکلیف سے رخ موڑ گیا نبیل اپنے سامنے دو پولیس والوں کو دیکھ کر گھبرا گیا
تبریز اس پہ پل پڑا تھا کمزور سا نبیل اس کی لاتوں اور گھونسوں کی زد پہ تھا۔
تیمور لپک کر نور تک پہنچا تھا اسکے سر پہ کوئی چیز ماری تھی نبیل نے جس کی وجہ سے وہ بےہوش ہو چکی تھی اور سر سے بہتا خون ارد گرد کی زمین کو رنگین کر رہا تھا۔
نور کی ساری شرٹ سامنے سے پھٹی ہوئی تھی تیمور نے جلدی سے اپنی جیکٹ سے اسے کوور کیا اور اسکا چہرہ تھپتھپایا مگر اس کے وجود میں کوئی جنبش نہیں ہوئی۔
تبھی تبریز کی مار سے ادھ موا نبیل اس کے پاس گرا ۔ ۔ ۔ ۔
تیمور کا خون کھولنے لگا تھا اس کو دیکھ کر وہ نور کو چھوڑ کر نبیل پہ ٹوٹ پڑا۔
تبریز نے بمشکل اسے قابو کیا۔
” تیمور ہوش میں آؤ ۔ ۔ ۔ مر جائے گا یہ ۔ ۔ ۔ ۔
تم نور کو ہوسپیٹل لے کر جاؤ ۔ ۔ ۔ ۔ اسے میں ہینڈل کرتا ہوں ۔ ۔ ۔ ۔
گو فاسٹ ۔ ۔ ۔ ۔ نور کی کنڈیشن ٹھیک نہیں ہے ”
تبریز نے اسکی توجہ نور پہ دلائی۔
” اس كمینے کو زندہ رکھنا تابی ۔ ۔ ۔ ۔ اس نے میری نور کی یہ حالت کی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ میں اسے اپنے ہاتھوں سے ماروں گا ”
تیمور نے جاتے جاتے نبیل کو زوردار لات رسید کی ۔ ۔ ۔ ۔ اور نور کو اٹھا کر وہاں سے نکل گیا۔