وہ بیڈ پر لیٹی آنکھیں بند کیے شہریار کے میسچ کا انتظار کر رہی تھی کہ اچانک شہریار کا میسچ آتا ہے
“کیا کر رہی ہو”
“کچھ نہیں بس،لیٹی ہوئی ہوں”حیا نے جواب دیا
“چلو پھر ہم بات کر لیتے ہیں”شہریار کا میسچ آیا۔
“ہاہاہاہاہاہا، یعنی ٹائم پاس کرنا چاہ رہے ہیں آپ،مجھ سے”حیا نے میسچ کیا
“اپنوں کے ساتھ ٹائم پاس نہیں کیا جاتا”شہریار نے میسچ کیا
“ہاہاہاہاہاہا،اوکے جی”حیا نے میسچ کیا
“حیا مائنڈ نہ کریں،تو آپ مجھے اپنا نمبر دے سکتی ہیں”شہریار نے میسچ کیا
“کیوں بات کرنے کے لیۓ فون نمبر دینا ضروری ہے،آپ مجھ سے فیس بک پر بھی بات کر سکتے ہیں”حیا نے کہ تو دیا مگر اس کے نمبر مانگنے والی بات پر دل میں خوش ہورہی تھی۔اور سوچ رہی تھی کہ اس نے ایک دفعہ بھی اور مانگا تو دے دوں گی۔ویسے بھی وہ رضا انکل کا بیٹا ہے۔اپنا جاننے والا ہی ہے
“نمبر اس لیۓ مانگا ہے کیونکہ اب بندہ ہر وقت تو فیس بک پر آن لائن تو نہیں ہو سکتا نہ۔اور فکر نہ کرے کھا نہیں جاؤں گا میں آپ کو”شہریار کا میسچ آیا
“اچھا مرو نہ،دے رہی ہو نمبر ،ہاہاہاہا”حیا نے جواب دیا۔اور اس نے اپنا نمبر شہریار کو بھیجا۔یہی پر اس نے اپنی زندگی کی پہلی غلطی کی۔جو آگے جاکر اس کے لیۓ بہت سی مشکلات کا باعث بننے والی تھی۔
“گڈ گرل،کل سنڈے ہیں نہ تو آپ اور رانیہ کو میں ٹریٹ دینا چاہتا ہوں ،کے ایف۔سی۔پر ویسے بھی رانیہ تو کہ بھی رہی تھی کہ اسے کے۔ایف۔سی پر ٹریٹ چاہیے ہے”شہریار نے میسچ کیا
“آئیڈیا تو ویسے اچھا ہے،رانیہ سے پوچھ کر آپ کو بتا دوں گی”حیا نے مسکراتے ہوئے میسچ ٹائپ کیا
“دیکھئیے،انکار مت کیجئیے گا،ورنہ مجھے دکھ ہوگا،اور بدھ کو تو ویسے بھی ہمارے گھر آرہی ہیں،تو اگر آپ لوگ نہ آۓ کل، تو آپ کے کھانے میں زیادہ نمک ڈالوں گا جب آپ ہمارے گھر دعوت میں آئینگی شہریار کا میسچ آیا
“زبردستی ہے کیا”حیا نے میسچ کیا
“جی،کچھ ایسا ہی سمجھ لیجیئے،پر پلیز کوشش کیجیئے گا آنے کی”شہریار کا میسچ آیا
“اوکے”حیا نے میسچ کیا
“چلو حیا اب جو بھی بات ہوگی نمبر پر ہوگی،اللہ حافظ”شہریار نے میسچ کیا
“اللہ حافظ”حیا نے کہا
اس کو باۓ کرنے کے بعد اس نے ایک منٹ نہ لگایا رانیہ کو میسچ کرنے میں۔جس کا جواب کچھ ہی لمحوں میں آگیا
“کیا سچ کہ رہی ہو،حیا،شہریار نے واقعی میں تم سے تمھارا نمبر مانگا”رانیہ نے میسچ کیا
“نہیں،تمھیں کیا لگتا ہے،میں جھوٹ بول رہی ہوگی،حد ہے ویسے”حیا نے میسچ کیا۔حیا کے میسچ کرنے کی دیر تھی کہ رانیہ کی فورن کال آگئی،حیا نے بھی پہلی ہی رنگ میں فون اٹھا لیا۔
“یار تو کیا تم نے اسے نمبر دے دیا”رانیہ نے تجسس بھرے انداز میں پوچھا
“ہاں،یار وہ اتنا فورس کر رہا تھا،میں کیسے منع کرتی”حیا نے اپنے حق میں گواہی دینا چاہی
“ہاں،اچھا کیا ہے،میں بھی تمھیں یہی مشورہ دیتی کہ نمبر دے دو، ویسے ایک بات بتاؤ ،مجھے کیوں لگتا ہے کہ شہریار تمھیں لائک کرتا ہے”رانیہ نے کہا
(یہ وہی رانیہ تھی جس کو جب پتا چلا تھا کہ حیا نے ایک نقاب پوش لڑکی کو اپنا نمبر دیا تھا۔تو کتنا ناراض ہوئی تھی وہ حیا سے،مگر آج وہ خود حیا کو ایک لڑکے کو نمبر دینے کا مشورہ دے رہی تھی ،صرف اس وجہ سے کہ وہ خوش شکل ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اچھی فیملی سے تعلق رکھتا تھا ۔خیر یہ تو ہمارے معاشرے کا المیہ ہے کہ لوگوں کی پہچان ان کی دولت دیکھ کر کی جاتی ہے۔اور اسی وجہ سے تو ہم لوگوں کو پہچاننے میں دھوکا کھا جاتے ہیں)
“نہیں یار ہم تو صرف اچھے دوست ہیں اور کچھ نہیں،اچھا ایک اور بات بھی بتانی تھی تمھیں،شہریار نے مجھے اور تمھیں کل انوائٹ کیا ہے کے۔ایف۔سی پر،وہ بہت پلیز کر رہا تھا،اگر تمہارے لیۓ ممکن ہے تو ہم کل چلے جاتے ہیں”حیا نے کہا
“ہاں چلے جاتے ہیں،ہمارا کیا جارہا ہے،مفت کا برگر مل جائے گا”رانیہ نے ہنستے ہوئے کہا
“اوکے,تم کل دو بجے تیار رہنا،میں تمھیں پک کر لوں گی،اللہ حافظ”حیا نے کہا
“اللہ حافظ”رانیہ نے کہا اور کال کاٹ دی
رانیہ سے بات کرنے کے بعد حیا یہ سوچنے میں لگ گئی کہ وہ کل کیا پہن کر جاۓ کہ اچانک اس کے کمرے میں دستک ہوتی ہے۔وہ جاکر دروازہ کھولتی ہے،سامنے آسیہ بیگم ہوتی ہے جو مٹھائی کا ٹوکرا لے کر کھڑی ہوتی ہیں۔
“مبارک ہو حیا،تمھاری کزن کا رشتہ طے ہوگیا،یہ دیکھو تمھاری تائی جان نے تمھاری لیۓ مٹھائی بجوائی ہے”آسیہ بیگم نے مسکراتے ہوئے گلاب جامن کو حیا کے منہ میں ڈالتے ہوئے کہا
“مبارک ہو”حیا نے کہا
“آؤ نیچے لاؤنج میں چلتے ہیں، میں تمھیں لڑکے کے بارے میں بتاتی ہوں اور پتا ہے تم لڑکے کو جانتی بھی ہو،اپنا ہی بچہ ہے،سنا ہے کہ سدرہ کی پسند ہے”آسیہ بیگم نے کہا
“نہیں ماما،میں ابھی پڑھ رہی ہوں رات کو بات کریں گے اس بارے میں،اور ویسے بھی ہمیں کیا لگا ہم تو بس چلے جائیں گے شادی میں”حیا نے کہا
“اچھا،چلو جیسی تمہاری مرضی،خوب محنت کرو،کچھ چاہیے ہو تو مجھ سے مانگ لینا”آسیہ بیگم نے مسکراتے ہوئے کہا
اور یہ کہ کر وہ نیچے لاؤنج میں چلی گئی۔حیا ایک بار پھر اپنے کمرے میں آکر بیڈ پر لیٹ جاتی ہے۔اور شہریار کو میسچ کیا
“ہم کل آئیں گے،تمھاری جیب خالی کرنے”
،اس کو میسچ کرنے کے بعد وہ اس کے جواب کا انتظار کر رہی ہوتی ہے کہ فاطمہ کا میسچ آتا ہے۔
“حیا کل میرے تایا ابو کی بیٹی کا نکاح ہے،آپ بھی آنا،آپ کی شرکت میرے اور میرے گھر والوں کے لیۓ خوشی کا باعث ہوگی”
حیا ابھی اس کو انکار کرنے کے لیۓ میسچ کر رہی ہوتی ہے کہ شہریار کا میسچ آتا ہے،
،گڈ،کل ملتے ہیں،فکر نہ کریں،میں اپنا والٹ بھر کر لاؤں گا”
حیا اس کا میسچ پڑھنے کے بعد فاطمہ کو میسچ کرتی ہے
“میرا اور رانیہ کا کوئی اور پروگرام ہے ورنہ ہم ضرور آتے،سوری”
کچھ دیر بعد فاطمہ کا میسچ آتا ہے
“کچھ نہیں ہوتا،پھر کبھی،لیکن جب میں اپنے گھر بلاؤں گی،تو آنا پڑے گا پھر آپ کو”
“جی انشاللہ”حیا نے میسچ کیا
اس کے بعد حیا اپنا موبائل آف کر دیتی ہے اور لائٹ آف کر کے کل کے بارے میں سوچنے لگ جاتی ہے۔
_________________
اسے پتا بھی نہیں چلا اور وہ نیند کی وادیوں میں کھو گئ۔ رات کو آٹھ بجے اس کی آنکھ کھلی۔آنکھیں کھولتے ہی اس نے گھڑی کی طرف دیکھا۔گھڑی آٹھ بجے کا وقت بتا رہی تھی۔اس نے بیڈ پر لیٹے ہوۓ ہی بال باندھے اور انگڑائیاں لیتے ہوۓ واشروم میں منہ دھونے کے لیۓ چلی گئی۔پانچ منٹ بعد وہ واشروم سے نکلی۔وہ تولیۓ سے منہ صاف کررہی ہوتی ہے کہ دروازے پر دستک ہوتی ہے۔دروازے پر اس کے گھر کام کرنے والی آنٹی،سلیمہ ہوتی ہیں۔وہ منہ صاف کرنے کے بعد دروازہ کھولتی ہے۔
“حیا رانی آپ کو بیگم صاحبہ کھانے کے لیۓ بلا رہی ہیں”سلیمہ نے کہا
“میں آتی ہوں،آپ جائیں”حیا نے کہا
یہ سننے کے بعد سلیمہ وہاں سے چلی جاتی ہے۔حیا تولیۓ بیڈ پر پھینک کر کمرے کی لائٹ آف کر کے باہر نکل جاتی ہے۔وہ سیڑھیاں اتر کر نیچے لاؤنج میں آجاتی ہیں۔ڈائینگ ٹیبل پر کھانا لگا ہوا ہوتا ہے۔وہ ڈائینگ ٹیبل پر بیٹھتے ہوۓ آسیہ بیگم اور سلیم صاحب کو سلام کرتی ہے۔
“وعلیکم السلام”
“حیا،دیکھو میں نے آج سارا کھانا تمھاری پسند کا بنایا ہے،یہ لو بریانی کھاؤ”آسیہ بیگم حیا کی پلیٹ میں بریانی ڈالتے ہوۓ بولیں
“حیا،تم آجکل بہت کھوئی کھوئی رہتی ہوں،خیر ہے؟میڈیکل زیادہ مشکل تو نہیں لگ رہا،آج بھی تم چھ گھنٹے اپنے کمرے میں بند رہی ہو”سلیم صاحب نے کہا
“نہیں بابا،ایسی کوئی بات نہیں،آج میرے سر میں درد تھا تو میں نے سوچا تھوڑا ریسٹ کرلوں۔اس لیۓ سو گئی تھوڑی دیر کے لیۓ”حیا نے مسکراتے ہوئے کہا
“اچھا،تو میڈم جی آرام کر رہی تھی،مجھے پڑھنےکا بتا کر”آسیہ بیگم قہقہے لگاتے ہوۓ کہا
“نہیں،ماما پہلے پڑھ ہی رہی تھی،بعد میں نیند آئی تو سو گئی”حیا نے مسکراتے ہوئے کہا
“اچھا کیا سو کر، سونے سے مائنڈ فریش ہوتا ہے”سلیم صاحب نے کہا
“وہ ماما بابا مجھے آپ سے پرمیشن لینی تھی ایک،میں اور رانیہ کل،کے۔ایف۔سی پر جانا چاہتے ہیں،اگر آپ کی اجازت ہو تو چلے جائیں”حیا نے کہا۔وہ چاہ کر بھی یہ نہ بتا سکی کہ کل کے۔ایف۔سی پر شہریار ٹریٹ دے رہا ہے تو وہ اس لیۓ جارہی ہے۔کیونکہ وہ چاہے جتنی بھی لبرل کیوں نہ ہو اسے یہ پتا تھا کہ وہ اسلامی معاشرے میں رہ رہی ہے اور اسلامی معاشرے میں یہ سب غلط سمجھا جاتا ہے۔اسے یہ بھی پتا تھا کہ شہریار کا نام سن کر اس کے بابا تو اجازت دے دیں گے مگر آسیہ بیگم کبھی بھی نہیں دیں گی۔
“ہاں چلی جاؤں بےشک،تمھارے کریڈٹ کارڈ میں پیسے تو ہیں نہ یا میں دوں”سلیم صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا۔سلیم صاحب شروع سے ہی ایسے تھے۔انھوں نے حیا کی بچپن سے لے کر آج تک کی ہر فرمائش آنکھیں بند کر کے پوری کی تھی۔
“تھینک یو سو مچ بابا،میرے پاس پیسے ہیں،ابھی پیچھیلے مہینے ہی تو آپ نے میرے بینک اکاؤنٹ میں پیسے جمع کرواۓ تھے۔”حیا نے مسکراتے ہوئے کہا۔ویسے بھی اس کے پاس پیسے نہ بھی ہو تو کیا ہوا،ٹریٹ تو شہریار نے دینی تھی۔
“کوئی بات نہیں بیٹا جانی،آپ خوب انجوائے کرنا”سلیم صاحب نے پیار سے حیا کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوۓ کہا
“حیا تھوڑا گھرداری میں بھی توجہ دے دیا کرو،اب دیکھو نہ سدرہ تمھاری جتنی ہے اور اس کا رشتہ بھی ہوگیا،وہ بھی اتنی اچھی جگہ ،ماشااللہ”آسیہ بیگم نے حیا کی طرف دیکھتے ہوئے کہا
“جب وقت آیا نہ،تو حیا کا بھی ہو جاۓ گا،ابھی اس کے کھیلنے کودنے کے دن ہے”سلیم صاحب نے کہا
“اتنے بھی کھیلنے کودنے کے دن نہیں ہے،میڈم اگلے سال بیس سال کی ہو جائیں گی”آسیہ بیگم نے کہا
“اچھا،چھوڑو نہ،کیا بچی کے پیچھے پڑ گئی ہو،اتنے دنوں بعد کہیں جارہی ہے جانے دو نہ”سلیم صاحب نے کہا
“اوکے حیا تم چلی جانا،مگر گھر جلدی واپس آنا”آسیہ بیگم نے مسکراتے ہوئے کہا
“تھینک یو ماما”
___________________
حیا کھانا کھا چکی تھی تو وہ ان کو شب بخیر کہنے کے بعد اپنے کمرے میں آگئی۔چونکہ وہ پورا دن سوئی رہی تھی۔اور کل جانے کی بھی خوشی تھی تو اسے نیند ہی نہیں آرہی تھی۔وہ پھر بھی لائٹ آف کر کے بیڈ پر لیٹ گئی۔اور فیس بک کھول لی۔
فیسبک میں استعمال کرنے کے لیے کچھ تھا ہی نہیں،رانیہ بھی نہیں آن لائن تھی۔تو اس نے سوچا کیوں نہ شہریار کا اکاؤنٹ کھول لیا جاۓ۔ایک منٹ بعد شہریار کا اکاؤنٹ اس کے سامنے تھا۔ اس نے جب اس کی فرینڈ لسٹ کھولنا چاہی تو پتا چلا کہ فرینڈ لسٹ پرائیویسی لگی ہوئی کے۔لیکن باہمی دوست کی لسٹ میں اسے سدرہ کا نام نظر آرہا تھا۔اس نے موبائل بند کیا اور سوچنے لگ گئی کہ شہریار نے سدرہ کو کیوں اپنے ساتھ ایڈ کیا ہے۔پھر وہ خود ہی اپنے سوالات کے جوابات دینے لگ گئی۔شاید رضا انکل تایا ابو کے بھی دوست ہیں اس لیۓ ایڈ کیا ہوگا۔یہی سوچتے سوچتے وہ سو گئی۔
_________________
صبح گیارہ بجے اس کی آنکھ کھلی۔گھڑی کو دیکھتے ساتھ اس کے منہ پر بارہ بج گے۔وہ خود کلامی کرتے ہوۓ بولی
“اف،اب کیا کروں،بارہ بجے کا ٹائم تو رانیہ کو دیا ہوا تھا ایک گھنٹے میں کیسےتیار ہوں گی۔
یہ کہتے ہوۓ وہ بال باندھتے ہوۓبیڈ سے اٹھ گئی۔اور دوڑتے ہوۓ واشروم میں چلی گئی۔اس کی آنکھیں سوجھی ہوئی تھی۔آنکھوں کا کاجل خراب ہونے کی وجہ سے وہ کافی حد تک چیڑیل لگ رہی تھی۔اس نےجلدی جلدی منہ دھویا اور واشروم سے باہر آگئی۔
الماری کھولنے کے بعد وہ سوچ میں پڑ گئی کہ وہ آج کیا پہن کر جاۓ۔کچھ دیر بعد اس نے آج پہن کر جانے کے لیے پنک کلر کی فراک جس پر بلیو کلر کی کڑائی ہوئی تھی،اور بلیو کلر کی جینز پسند کی۔
دس منٹ بعد اس نے کپڑے پہن لیۓ تھے۔پنک کلر کی شارٹ فراک اس پر کافی اچھی لگ رہی تھی۔اسنے جلدی جلدی پنک لپسٹک اور مسکارا لگایا اور باہر آگئی۔پنک کلر کی شارٹ فراک اور بلیو کلر کی جینز میں وہ بالکل پری لگ رہی تھی۔سلیم صاحب اور آسیہ بیگم لان میں بیٹھ کر ناشتہ کر رہے تھے۔حیا ان کے پاس آئی اور ان کو سلام کیا۔
“وعلیکم السلام،آج تو ہماری بیٹی چاند کا ٹکڑا لگ رہی ہے”سلیم صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا
“حیا ،ماشاللہ تم بہت پیاری لگ رہی ہو،اپنا بہت خیال رکھنا اور جلدی گھر واپس آنا”
“تھینک یو،مجھے دیر ہو رہی ہے تو میں چلتی ہوں،اللہ حافظ”حیا نے کہا
“اللہ حافظ”
ان کو باۓ کرنے کے بعد وہ اپنی گاڑی میں جاکر بیٹھ گئی اور گاڑی سٹارٹ کرنے لگی۔کچھ ہی دیر بعدوہ گھر سے نکل چکی تھی۔
“میں گھر سے نکل آئی ہوں،تم تیار رہو”حیا نے رانیہ کو میسچ کیا
دس منٹ بعد وہ رانیہ کے گھر کے سامنے تھی۔رانیہ بھی بلیک شرٹ اور بلیک جینز میں اچھی لگ رہی تھی۔
“واؤ،حیا تم بہت پیاری لگ رہی ہو،ماشاللہ” رانیہ نے مسکراتے ہوئے کہا
“تم بھی کترینہ کیف سے کم نہیں لگ رہی ہو”حیا نے رانیہ کو آنکھ مارتے ہوئے کہا
“ہاہاہاہاہاہا،اچھا،جلدی چلو،ہم لیٹ ہوگے ہیں،پتا نہیں وہ بے چارہ کب سے ہمارا ویٹ کر رہا ہو”رانیہ نے کہا
“”کرتا ہے تو کرتا رہے”حیا نے آگے دیکھتے ہوۓ کہا
__________________
بیس منٹ کی ڈرائیو کے بعد وہ لوگ، کے۔ایف۔سی کے سامنے تھے۔رانیہ کا حیا کا ہاتھ پکڑتے ہوۓ ریسٹورنٹ میں داخل ہوئی ،کارنر والے بینچ پر شہریار بیٹھا ہوا تھا۔بلیک جینز اور وائٹ ٹی شرٹ میں کافی خوبصورت لگ رہا تھا۔اس نے اپنے بال بھی جیل کی مدد سے سیٹ کیے ہوۓ تھے۔شہریار نے ان دونوں کو دیکھ کر ہلکا سا مسکرایا اور اپنا ہاتھ ہلایا۔وہ دونوں بھی اس کو دیکھ کر مسکرائی۔مگر حیا کی مسکراہٹ اسی پل غائب ہوگئی جب اس نے سامنے والی بینچ پر بیٹھے کسٹمرز کو دیکھا۔
__________________
سامنے والے ٹیبل پر فاطمہ بیٹھی ہوئی تھی۔مگر اس کے ساتھ ایک لڑکا بھی بیٹھا ہوا تھا۔فاطمہ کی پشت حیا کی طرف تھی۔اس وجہ سے وہ حیا کو نہ دیکھ پائی۔مگر اس کے ساتھ بیٹھا ہوا لڑکا،حیا کو بہت غور سے دیکھ رہا تھا۔
“یہ دیکھا تم نے،سب نقاب پوش لڑکیاں ایسی ہی ہوتی ہے۔کرتی یہ سب کچھ ہیں مگر نام صرف ہمارا لیا جاتا ہے”رانیہ نے غصے سے فاطمہ اور اس لڑکے کو دیکھتے ہوۓ کہا
یہ ہمارے معاشرے کی تلخ حقیقت ہے کہ جہاں لڑکا لڑکی ساتھ ہوں انھیں کپل سمجھنے لگ جاتے ہیں۔کیا کوئی بھائی اپنی بہن کو ریسٹورنٹ نہیں لے کر آسکتا، یا کوئی کزن اپنی کزن کو نہیں لے کر آسکتا، ہم کون ہوتے ہیں کسی پر تنقید کرنے والے اور نہ ہی ہمیں یہ حق حاصل ہے کہ ہم کسی کے بارے میں کوئی غلط بات کرے۔مگر آج کل کے لوگ تو خدا بن بیٹھے ہیں۔یہ جانے بغیر کہ یہ بھی غیبت اور بہتان ہے۔
“نہیں،یار جیسا تم سوچ رہی ہو،ضروری نہیں ہے کہ سچ ہو،ہم خود ہی جاکر مل لیتے ہیں فاطمہ سے،اور کم ازکم ان لوگوں کے سامنے تو میں کبھی بھی شہریار سے نہیں ملنے والی”حیا نے شہریار کو دیکھتے ہوئے کہا
یہ کہ کر حیا نے شہریار کو میسچ کیا کہ وہ دو منٹ ویٹ کرے۔اس کو میسچ کرنے کے بعد وہ رانیہ کا ہاتھ پکڑ کر فاطمہ کے سامنے آکر کھڑی ہوگئی۔فاطمہ حیا کو دیکھتے ساتھ ہی کھڑی ہوگئی۔
“السلام علیکم حیا،کیسی ہو آپ دونوں،ان سے ملو یہ میرے بڑے بھائی ہیں،سالار احمد، اور بھائی یہ میری کالج کی دوستیں ہیں۔ حیا اور رانیہ “فاطمہ نے رانیہ اور حیا سے ہاتھ ملاتے ہوۓ کہا
“وعلیکم السلام
“کیسے ہو آپ لوگ”سالار نے گفتگو میں حصہ لیتے ہوۓ کہا
“ہم ٹھیک ہیں،آپ کیسے ہیں”ان کی بات کا جواب صرف رانیہ نے دیا،حیا نے جواب دینا ضروری نہیں سمجھا
“الحمدللہ،میں بھی ٹھیک ہوں،آئیں ہمارے ساتھ بیٹھیں “سالار نے حیا کی طرف دیکھتے ہوۓ کہا (بات وہ رانیہ سے کر رہا تھا،مگر دیکھ حیا کی طرف رہا تھا)
“نہیں شکریہ آپ انجوائے کریں”رانیہ نے فاطمہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا
“فاطمہ، آج تو آپ کی کزن کی شادی تھی نہ ،پھر یہاں کیسے”حیا نے پہلی بار کچھ بولا
“جی حیا ،شادی تو ہے، آج رات مہندی ہے،کچھ شاپنگ رہ گئی تھی تو اس لیۓ مارکیٹ آۓ تھے۔پھر کچھ کھانے کے لیۓ ادھر آئیں،آپ اور رانیہ آجائیں نہ آج”فاطمہ نے مسکراتے ہوئے کہا
“یہ بھی کوئی کہنے کی بات ہے،ہم ضرور آئیں گے”رانیہ نے مسکراتے ہوۓ کہا
“نہیں،ہم نہیں آسکتے،میں نے ماما بابا سے پرمیشن نہیں لی ہوئی”حیا نے ایک خفا سی نگاہ رانیہ پر ڈالتے ہوۓ کہا
“تو یہ کون سی بڑی بات ہے،ابھی پورا دن پڑا ہے،میں خود انکل آنٹی سے پرمیشن لے لوں گی،اب فاطمہ اتنا انسسٹ کر رہی ہے،ہم ضرور آئیں گے”رانیہ نے سالار کی طرف دیکھتے ہوۓ کہا
“یہ تو بہت اچھی بات ہے،چلیں اب سب مل کر کچھ کھاتے ہیں”سالار نے مسکراتے ہوۓ حیا کو دیکھتے ہوۓ کہا
ابھی حیا ان کو منع کرنے ہی والی ہوتی ہے کہ رانیہ ٹیبل پر بیٹھ جاتی ہے،اور حیا کو نہ چاہتے ہوۓ بھی ان کے ساتھ بیٹھنا پڑتا ہے
“اگر آپ لوگوں کو آنے کا مسلۂ ہے تو میں اور فاطمہ خود آپ کو پک اور ڈراپ کر دیں گے،ویسے بھی مہندی کے فکشن میں دیر ہوجاۓ گی،تو اس لیۓ ہم خود آپ کو لینے آجائیں گے”سالار نے مسکراتے ہوئے کہا
“جی ٹھیک ہے”رانیہ نے کہا
سالار کچھ کہنے ہی والا ہوتا ہے کہ ویٹر برگر ، چیپس اور کولڈ ڈرنک لے کر آجاتا ہے۔سالار ویٹر کو آتا دیکھ کر چپ ہو جاتا ہے۔
سب لوگ کھانے میں مصروف ہو جاتے ہیں۔رانیہ اور فاطمہ برگر سے بھرپور انصاف کر رہی ہوتی ہیں۔جبکہ حیا موبائل میں مصروف ہوجاتی ہے۔اور سالار دنیا سے الگ حیا کو دیکھ رہا ہوتا ہے
“آپ کچھ لے کیوں نہیں رہی”سالار نے موبائل میں کھوئی ہوئی حیا کی طرف دیکھتے ہوۓ کہا
اس کے کہنے پر حیا نے ٹن کھولا اور پینے لگ گئی۔وہ کب سے شہریار کو میسچ کر رہی تھی۔لیکن وہ جواب نہیں دے رہا تھا۔جب اسنے رانیہ اور حیا کو ٹیبل پر بیٹھتے ہوۓ دیکھا وہ اسی ٹائم غصے سے گاڑی کی چابی اٹھا کر باہر نکل گیا تھا۔
“برگر اور چیپس بھی لے نہ”سالار نے ایک بار پھر خیالوں میں کھوئی ہوئی حیا کو بولا
“میرا خیال ہے ،اب ہمیں چلنا چاہیے،گھر میں ماما بابا بھی ویٹ کر رہے ہونگے”حیا نے موبائل میں ٹائم دیکھتے ہوۓ کہا
“لیکن آپ نے تو کچھ لیا ہی نہیں”فاطمہ نے کہا
“پھر کبھی”حیا نے کہا
یہ کہنے کے بعد حیا کھڑی ہوگئی،اس کو کھڑا ہوتا دیکھ کر رانیہ بھی کھڑی ہوگئی۔
“اللہ حافظ”فاطمہ نے کہا
“اللہ حافظ”رانیہ نے کہا
یہ کہنے کے بعد وہ دونوں باہر آگئی۔فاطمہ اور سالار دونوں کو جاتا ہوا دیکھ رہے تھے۔
“یہ تمہاری دوست حیا کے منہ پر بارہ کیوں بجے ہوۓ تھے، حلانکہ جب وہ کے۔ایف۔سی پر آئی تھی تب تو بہت خوش تھی،مگر پھر پتا نہیں کیوں ہم سے بات کرکے موڈ آف ہوگیا”سالار نے ریسٹورنٹ کے شیشے سے گاڑی میں بیٹھی ہوئی حیا کو دیکھتے ہوۓ کہا
“نہیں بھائی،وہ ایسی نہیں،شاید آپ کو دیکھ کر کنفیوز ہوگئی ہوگی”فاطمہ نے کہا
“کیوں،میں کوئی جن ہوں جو اس کو کھا جاتا،جو مجھے دیکھ کر پریشان ہوگئی ہوگی”سالار نے مصنوعی ناراضگی سے کہا
اس کی بات سن کر فاطمہ ہسنے لگی
___________________
“حیا آہستہ گاڑی چلاؤ،مرنے کا ارادہ ہے، ریسٹورنٹ میں بھی تمہارا برتاؤ اچھا نہیں تھا۔فاطمہ کا بھائی کیا سوچ رہا ہوگا۔رانیہ نے ایک خفا سی نگاہ حیا پر ڈالتے ہوۓ کہا
“سوچتا ہے تو سوچتا رہے،اس منحوس کی وجہ سے ہمارا پروگرام فلاپ ہو گیا،اب میں کب سے شہریار کو میسچ کر رہی ہوں،مگر وہ جواب نہیں دے رہا،تمھیں اس سو کالڈ نیک انسان کی فکر ہے ،شہریار کی نہیں،پتا نہیں وہ کیا سوچ رہا ہوگا ہمارے بارے میں”حیا نے چیختے ہوئے کہا
“کچھ نہیں ہوتا ،وہ خود مان جاۓ گا۔میں خود کل اس سے ایکسیوز کر لوں گی۔”رانیہ نے کہا
دس منٹ بعد رانیہ کا گھر آگیا تھا۔وہ رانیہ کو اس کے گھر چھوڑ کر اب اپنے گھر جاری تھی۔
__________________
“یار تم بالکل ٹھیک کہ رہی تھی،قسم سے تمھاری کزن میں بہت غرور ہے،مجھے بلا کر کسی اور کے ساتھ جاکر بیٹھ گئی،اب کب سے میسچ کر رہی ہے مجھے بےچاری ،ہاہاہاہا
شہریار نے بیڈ پر لیٹتے ہوۓ کہا
“تمھیں اسکی فکر کیوں ہو رہی ہے”سدرہ نے گویا چیختے ہوۓ کہا
“او یار کیا ہوگیا ہے،اس جیسی لڑکیوں سے صرف ٹائم پاس کیا جاتا ہے”شہریار نے کہا
“اس لیۓ تو تمھیں کہا تھا کہ تم اس سے جھوٹا پیار کا ناٹک کرو،پھر جب دھوکا دوں گے نہ،تو ساری اکڑ خود ہی ختم ہوجاۓ گی،لیکن مجھے ڈر ہے کہ تم کہیں اس کے پیار میں نہ پڑ جاؤ”سدرہ نے منہ پر آۓ ہوۓ بالوں کو پیچھے کرتے ہوۓ کہا
“کیا ہو گیا ہے یار،اگر تم سے پیار نہ ہوتا تو تمھارے گھر اپنے والدین کو بھیجواتا،اور ویسےبھی جہاں تک تمہاری کزن کی بات ہے اس جیسی لڑکیوں کو اپنے گھر کی عزت کون بناتا ہے،جو نامحرم کے ایک بار بلانے پر اس سے ملنے چلیں جاۓ”شہریار نے ٹی۔وی آن کرتے ہوۓ کہا
“اچھا میں کچھ کھا لوں جاکر، تم لوگوں کے چکروں میں کچھ کھایا ہی نہیں ہے۔بعد میں بات کرتی ہوں تم سے”سدرہ نے کہا
“باۓ”
____________________
حیا نے جیسے ہی لان میں قدم رکھا۔اسے سلیم صاحب اور آسیہ بیگم کھانا کھاتے ہوے نظر آۓ۔ دونوں اس کو دیکھ کر مسکرانے لگے۔
“آگئی ہماری بیٹی،کیسا رہا دن”سلیم صاحب نے کہا
“اچھا رہا، دن بہت مزا آیا آج”حیا نے مسکراتے ہوئے جواب دیا
کوئی دل کے جزبات چھپانا حیا سے سیکھے۔وہ کبھی بھی اپنے فیلنگز کسی سے شعیر نہیں کیا کرتی تھی۔
“یہ تو بہت اچھی بات ہے،جاؤ فریش ہوکر آؤ،اور ہمارے ساتھ آکر کھانا کھاؤ”آسیہ بیگم نے مسکراتے ہوئے کہا
“نہیں ماما،میں کھانا کھا چکی ہوں،اب تھوڑا ریسٹ کرنا چاہوں گی،شام کو ملتے ہیں”حیا نے کھانےکی طرف دیکھتے ہوۓ کہا
یہ کہنے کے بعد وہ اندر چلی گئی۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...