“اسوہ بچے کیا ہوا ہے؟” زرینہ گل اسکے رونے کی آواز سن کر اسکے کمرے کی طرف دوڑیں تھیں۔
“مورے وہ جا رہا ہے، وہ بھی جا رہا ہے۔” اسوہ نے روتے ہوئے کہا۔
“کون بیٹا کوئی نہیں جا رہا ہے۔ دیکھو سب تمہارے پاس ہیں۔” گل بی بی نے اسکے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا۔
“نہیں مورے عمیر بھی مجھے چھوڑ کر جا رہا ہے۔” اسوہ کچھ سن نہیں رہی تھی۔
“مورے پہلے میر لالہ چلا گیا اور اب عمیر لالہ بھی جا رہا ہے۔ آپ بھی چلے جاؤ گے سب مجھے چھوڑنا چاہتے ہیں۔ سب مجھ سے نفرت کرتے ہیں۔” اسوہ اب چیخ رہی تھی۔
“اسوہ بچے عمیر پڑھنے جا رہا ہے۔ دیکھنا تمہارا لالہ بہت جلد واپس آئے گا۔” گل بی بی نے اسے تسلی دی لیکن وہ اب انکے قابو میں نہیں آرہی تھی۔ اسکی ذہنی حالت روز بروز بگڑتی جا رہی تھی۔ جو اسکے ساتھ ہوا تھا اسکے بعد تو وہ اپنے حواسوں پہ قابو رکھ ہی نہیں پاتی تھی۔
عمیر یوسفزئی جب دوستوں سے مل کر حویلی آیا تو شور کی آواز سن کر وہ بھاگا تھا اور سیدھا اسوہ کے کمرے میں آیا تھا۔
“اسوہ کیا ہوا ہے؟” عمیر فوراً اسکے پاس آیا تھا جس پر وہ اسکے گلے لگ کر رونے لگی تھی۔
“لالہ تم مجھے چھوڑ کر نہ جاؤ۔ مجھ سے نفرت نہ کرو۔ لالہ مت جاؤ!” اسوہ بار بار ایک ہی بات کر رہی تھی۔
“ارے میں اپنی پیاری بہن سے نفرت کیوں کروں گا اور میں پڑھنے جا رہا ہوں گڑیا جلدی آؤں گا نا۔” عمیر نے اسے بہلانا چاہا۔
“نہیں لالہ آپ نہیں جاؤ۔” اسوہ نے روتے ہوئے کہا وہ اسے زور سے پکڑے ہوئے تھی۔
“اچھا میں نہیں جا رہا لیٹ جاؤ۔” عمیر نے اسے کہا اور اسے نیند کی گولی کھلائی اور اسکے پاس ہی بیٹھ گیا جبکہ گل بی بی اپنے آنسو صاف کر رہی تھیں۔
” عمیر میری لاڈلی کا حال دیکھو کیا ہو گیا ہے۔” گل بی بی بولیں تو وہ انھیں ساتھ لگاتے ہوئے بولا “مورے پریشان نہ ہوں ہم نے تو کسی کا کچھ نہیں بگاڑا تھا۔ کسی پر ظلم نہیں کیا تھا پھر پتہ نہیں میری لاڈلی بہن کے ساتھ ایسا کیوں ہوا۔”
اسکی بات پر گل بی بی کے ذہن میں ماضی چلنے لگا تھا مگر پھر وہ انھیں باہر لے آیا اور میر یوسفزئی کو فون کر کے اپنی اکلوتی بہن کی حالت کے بارے میں بتانے لگا۔
– – – – – – – – – – – – – – – – –
– – – – – – – – – – – – – – – – –
“مہمل بچے تمہیں کچھ لوگ دیکھنے آ رہے ہیں۔ خدا کا واسطہ کوئی مسئلہ مت کھڑا کرنا۔” رقیہ بیگم نے مہمل سے کہا جس پر وہ بس انھیں دیکھ کر رہ گئی۔
“امی ابھی میری پڑھائی رہتی ہے۔” مہمل نے کہا تو وہ بولیں “ابھی صرف نکاح ہوگا پڑھائی کے بعد رخصتی ہوگی۔”
“مگر۔۔۔۔۔۔۔” مہمل بولتے بولتے چپ ہو گئی۔
” مگر کیا؟ ساری زندگی تم نے اس گھر میں تو نہیں رہنا۔” رقیہ بیگم نے اسے جواب دیا۔
“امی میرا انتقام پورا ہونے کا انتظار کریں۔” مہمل نے پست لہجے میں کہا۔
“مہمل کیوں اپنی ماں کی زندگی اجیرن کر رہی ہو۔ کوئی انتقام نہیں لینا ہمیں انتقام لے کر اپنی ماں کی ساری زندگی کے صبر کو رائیگاں کرنا چاہتی ہو۔” رقیہ بیگم کی آنکھوں میں آنسو تھے۔
“تو میں کیا کروں امی مجھے سکون نہیں ملتا۔ راتوں کو میرے خواب میں آپی اور دانی آتے ہیں۔ میں پاگل ہو جاؤں گی اگر انتقام نہ لیا۔” مہمل نے کہا اور اندر چلی گئی جبکہ رقیہ بیگم وہیں صحن میں تخت پر ڈھے سی گئیں تھیں مہمل انکی کسی طور نہیں سنتی تھی۔
– – – – – – – – – – – – – – – – – – –
– – – – – – – – – – – – – – – – – – –
“نور تم اسوہ کا علاج کیوں نہیں کر دیتی؟” اس نے نور سے پوچھا۔
“تم ایک بات بتاؤ اسوہ کا اتنا خیال کیوں ہے تمہیں کہیں کچھ۔۔۔۔۔۔” نور نے تیکھے لہجے میں کہا تو وہ فوراً بولا “خدا کا خوف کرو چھوٹی بہنوں جیسی ہے وہ میری۔”
“اسکا مطلب وہ اس سب کی زد میں نہیں آئے گی۔” نور نے سوال پوچھا۔
“نہیں ویسے بھی اسکے ساتھ اتنا بڑا حادثہ ہوا ہے جسکی وجہ اسکا باپ ہے۔ اب اس کو مزید کسی آزمائش میں نہیں ڈالنا۔” اس شخص نے وضاحت دی۔
“جب اتنے سالوں میں وہ ٹھیک نہیں ہو سکی تو اب کیسے ہوگی؟ میرے خیال سے اس واقعے نے اسکے ذہن پہ گہرا اثر چھوڑا ہے۔ اور ویسے بھی میں سائیکاٹرسٹ تو نہیں ہوں نا۔ پتہ نہیں شاہ کیوں چاہتا کہ میں اسکا علاج کروں؟” نور نے سوچتے ہوئے کہا۔
” تمہاری آنکھیں اسکی سب سے بڑی وجہ ہے جو بھی دیکھتا ہے کچھ نہ کچھ محسوس کرتا ہے اور یوسفزئی تو خاص طور پر محسوس کریں گے اور دوسرا یہ کہ تمہیں بات سے بات نکالنا آتا ہے اور اسوہ کو ایک ایسے ہی بندے ہے ساتھ وقت گزارنے کی ضرورت ہے۔” اس نے وضاحت کی۔
“چلو پھر دیکھتے ہیں کہ کیا کرنا ہے ہم نے۔” نور نے کہا جب وہ بولا” تم شاہ کا فیصلہ کرو جلدی زیادہ دیر میں نے برداشت نہیں کرنا۔ اور فون بند کر دیا۔
– – – – – – – – – – – – – – – – – – – –
– – – – – – – – – – – – – – – – – – – –
میر یوسفزئی اس وقت حویلی کے سامنے موجود تھا۔
عمیر کے جانے کے بعد اسوہ کی حالت بہت خراب تھی اسی وجہ سے اسے فوراً پشاور آنا پڑا تھا۔
“کیسے ہیں داجی آپ؟” میر نے جہاندار خان سے بغلگیر ہوتے ہوئے کہا۔
“میرا بیٹا آیا ہے۔ اب تو میں بلکل ٹھیک ہوں۔” انھوں نے ہنستے ہوئے کہا۔
“میں مورے کو مل کر آتا ہوں۔” میر یوسفزئی گل بی بی کے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔
“مورے!!!”
“ارے میرا بچہ کیسا ہے؟ تو کتنے عرصے بعد آیا ہے تو وہ بھی اسوہ کیلئے۔ ماں تو تجھے یاد آتی ہی نہیں ہے۔” انھوں نے شکوہ کیا تھا ۔
” نہیں مورے بس مصروفیت بہت زیادہ تھی۔ اسی وجہ سے آ نہیں پا رہا تھا۔” میر نے کہا اور پھر بیڈ پر لیٹی اسوہ کی طرف بڑھا ۔
“میری بہن کیسی ہے؟” میر نے نرمی سے پوچھا۔
” دور رہیں مجھ سے، سب مجھ سے نفرت کرتے ہیں۔ آپ بھی عمیر لالہ کی طرح چلے جائیں گے جائیں۔ آپ میرے لالہ نہیں ہیں۔” اسوہ اس وقت ہوش میں ہی نہیں تھی۔
” اسوہ بچے لالہ سے ایسے کون بات کرتا ہے۔” میر نے اسے ساتھ لگایا لیکن پندرہ سالہ اسوہ بےہوش ہو چکی تھی
میر نے اسے لٹایا اور پھر گل بی بی کو باہر بھیجا اور خود اسکے پاس ہی بیٹھ گیا ۔
وہ لوگ چار بہن بھائی تھی سب سے بڑا میر جو ابھی پچیس سال کا تھا۔
اس سے چھوٹا ارحم جو بچپن میں فوت ہو گیا تھا۔
پھر عمیر تھا جو کہ میر سے چھ سال چھوٹا تھا اور انیس سال کا تھا۔
اور پھر سب سے چھوٹی اسوہ تھی جو ابھی پندرہ سال کی تھی یعنی میر سے دس سال چھوٹی تھی لیکن وہ ایک حادثے کا شکار ہو چکی تھی جس کے بعد سے ذہنی طور پر وہ بہت خوفزدہ ہو چکی تھی۔
– – – – – – – – – – – – – – – – – – – –
– – – – – – – – – – – – – – – – – – – –
مہمل کے گھر میں آج رشتے والے موجود تھے ۔
وہ لوگ واقعی بہت اچھے تھے اور لڑکا بہت ہی اچھے اخلاق والا تھا ۔
مہمل اس وقت چڑچڑی ہو رہی تھی کیونکہ اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کرے۔
ہیلو مہمل نے اپنے فون پر آتی کال ریسیو کی۔
“تم اس رشتے سے انکار کرو۔”مشوانی نے کہا۔
“تم نگرانی کر رہے ہو میرے گھر کی شرم نہیں آتی تمہیں؟” مہمل کے ماتھے پر بل پڑے تھے۔
“بعد میں چاہے گالیاں دینا مگر ابھی ان لوگوں کو چلتا کرو یہاں سے۔” داؤد نے جان چھڑانے والے انداز میں کہا۔
“مگر کیوں؟ وجہ بھی تو ہو نہ انکار کی۔ مہمل کو اس سے بحث کرنے میں مزہ آ رہا تھا۔
“وجہ تم اچھے سے جانتی ہو۔ داؤد نے جواب دیا۔
“وہ وجہ قابلِ قبول نہیں جب تم شاہ سے نکاح کروانا چاہ رہے تھے تب یاد نہیں آئی وہ وجہ اور یاد رکھو یہ لڑکا تمہارے اس دوست شاہ سے اچھا ہے سمجھے؟” مہمل نے کہا اور فون بند کر دیا۔
– – – – – – – – – – – – – – – – – – –
– – – – – – – – – – – – – – – – – – –
“کل تمہارے بھائی کو تم سے دور لے جائیں گے ہم لوگ۔” وہ شخص خباثت سے بولا تھا۔
“دیکھو ایسے نہیں کرو امی ابو پتہ نہیں کہاں ہے۔ اب دانی کو نہیں لے کر جاؤ۔” مومی اسکے پاؤں پکڑ رہی تھی۔
“ارے ہٹو پیچھے!” اس شخص نے پاؤں پیچھے کھینچا اور وہاں سے چلا گیا جبکہ مومی پیچھے چیختی رہی۔
دانی کی آواز اسے آ رہی تھی وہ چیخ چیخ کر اسے بلا رہا تھا۔ مگر وہ وہاں سے نکل نہیں پا رہی تھی کیونکہ کمرے کے باہر کتے کو بٹھایا گیا تھا۔
ظالموں کو اس معصوم پر رحم بھی نہیں آتا تھا۔
– – – – – – – – – – – – – – – –
– – – – – – – – – – – – – – – –
ان لوگوں کو مہمل بہت پسند آئی تھی آخر کو وہ تھی ہی اتنی پیاری۔
مہمل رشتہ ہونے سے پہلے لڑکے سے ایک بار بات کرنا چاہتی تھی جسکے حق میں رقیہ بیگم نہیں تھی۔ کیونکہ انہیں مہمل کی حرکتوں سے ڈر لگتا تھا مگر پھر انھوں نے اجازت دی تو وہ اس لڑکے کے ساتھ صحن میں موجود تھی۔
“میں آپ سے کچھ چھپانا نہیں چاہوں گی۔ اپنی زندگی کے بارے میں سب بتانا چاہتی ہوں۔” میں مہمل نے کہا تو وہ بولا۔
“مہمل میں آپ کے بارے میں سب جانتا ہوں۔ رقیہ آنٹی نے سب بتا دیا تھا۔”
“جی انھوں نے سب بتایا لیکن یہ نہیں بتایا کہ میں انتقام لئے بغیر نہیں بیٹھوں گی۔ اور آپ بہت امیر اور طاقتور خاندان سے ہیں۔لیکن کیا آپ یوسفزئی خاندان کے مقابلے میں کھڑے ہو سکیں گے میرے ساتھ؟”مہمل نے پوچھا۔
“آپ کو کیا لگتا ہے آپ اکیلی انکے خلاف کھڑی ہو سکتی ہیں۔ تو میں سیاسی خاندان کا چشم و چراغ آپ کا ساتھ دینے کیلئے کھڑا نہیں ہو سکتا؟ “اس لڑکے یعنی حماد نے کہا۔
“دیکھیں یہی تو مسئلہ ہے کہ آپ کا خاندان سیاست میں ہے اور سیاست کرنے کے چکر میں میرا انتقام کہیں رک نہ جائے۔” مہمل نے اسے جتایا تو وہ مسکرایا تھا۔
” آپ بہت ذہین ہیں بے شک ہم سیاستدان ہر بات سیاست کیلئے استعمال کرتے ہیں۔ لیکن یقین رکھیں میں آپ کے ساتھ ہی کھڑا رہوں گا ۔” اس نے مہمل کو جواب دیا۔
” پھر اچھی بات ہے۔ مجھے کوئی اعتراض نہیں اس رشتے پر۔” مہمل نے اسے کہا اور پھر اندر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولی چلیں۔ جس پر وہ اندر کی طرف بڑھا جس پر مہمل کچھ دیر سوچتی رہی لیکن پھر پرسکون ہوتی اندر چلی گئی۔ یہ جانے بغیر کہ کسی کا سکون برباد ہو چکا ہے اس سب کے بعد!
– – – – – – – – – – – – – – – – – – – – –
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...