آج کتنے دنوں بعد سورج نے اپنی ہلکی سی جھلک دیکھائی تھی۔ پچھلے دنوں کی نسبت آج سردی کم تھی۔ موسم میں تبدیلی کے ساتھ ہی مزاجوں میں بھی تبدیلی آ گئی تھی۔ مگر ملکی سیاست کا موسم خاصا گرم تھا۔ بہت سارے سیاست دان بھی اصغر خان کی بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہے تھے ان کے نام منظر عام پر آنے کے بعد ہر روز کانفرنس کی جاتی تھی اپنے اوپر لگے الزامات کو دھونے کے لیے اسے اپنے خلاف سازش قرار دیا جا رہا تھا۔ زائر کے خلاف عدالت میں جانے کا اعلان بھی کر دیا تھا ۔
“اب ہر روز یہ تماشہ ہو گا اصغر خان پاکستان نہیں آئے گا اور جو پاکستان میں ہیں وہ کل کو اس سے بڑا معاملہ سامنے لائیں گے دو دن کے اندر یہ بات قصہ پارینہ بن جائے گی سب بھول جائیں گے۔۔۔۔۔ یہی ہوتا آیا ہے اور یہی ہو گا”۔ مرسلین غصے میں ادھر ادھر چکر لگاتا کہہ رہا تھا۔ زائر نے سنجیدہ نظروں سے اسے دیکھا جس کی غصے سے رنگت لال ہو رہی تھی۔
بلکل ٹھیک کہا تم نے یہی ہوتا آیا ہے مگر مرسلین حیدر !! اب ایسا نہیں ہو گا ۔۔۔۔ وہ ایک ایک لفظ چبا چبا کر بولا۔
اب ایسا نہیں ہو گا کوئی مجرم اپنا جرم نہیں چھپا سکے گا اور نا ہی بچ سکے گا ۔۔۔۔ اللّٰہ نے لوگوں کو اتنا شعور دے دیا ہے کہ وہ سچ اور جھوٹ ، غلط اور صیح میں فرق کر سکیں ۔۔۔ ہماری عوام اب ان لوگوں کے ہاتھوں بیوقوف نہیں بن سکتی ۔۔۔ اورجہاں تک بات ہے ان تماشوں کی تو ۔۔۔ وہ ہلکا سا مسکرایا۔
یہ لوگ بکھلا چکے ہیں اور بکھلاہٹ میں یہ روز ایسے ہی کریں گے دوسروں پر الزامات ، سازش ، یا مجھ پر اٹیک ، لیکن اس سب میں وہ مزید غلطیاں کریں گے ، ان کی زبان ان کے لیے مصیبت لائے گی۔۔۔ اس لیے تم بس خاموشی سے سنو اور دیکھو ان لوگوں کا تماشہ !!”۔
“زائر ٹھیک کہہ رہا ہے ہمیں خاموش رہ کر بس دیکھنا ہے ، ان کے ووٹ کم ہو رہے ہیں جس کی وجہ سے یہ بکھلاہٹ کا شکار ہیں ، پارٹی صدر کی طرف سے ان پر بہت زیادہ پریشر پڑ رہا ہے ، وہ ان لوگوں کو پارٹی سے نکالنے کی کوشش میں ہے ، اپنی پوزیشن بچانے کے چکر میں یہ لوگ ہر حد تک جائیں گے”۔ مرسلین کے چہرے کی سرخی قدرے کم ہوئی مگر اس کے تاثرات ابھی بھی غصیلے تھے۔
※••••••※
مرسلین رات گئے تک گھر آیا تھا اس کا موڈ ابھی بھی خراب ہی تھا۔ ہادیہ صوفے پر بیٹھی فائلز دیکھ رہی تھی جبکہ نیچے مومل لیپ ٹاپ پر بزی تھی ، فہد ٹی وی دیکھ رہا تھا مرسلین صوفے پر نیم دراز سا آنکھیں موند گیا۔ ہادیہ نے ناگواری سے اسے دیکھا اور اپنے پاؤں سمیٹ لیے۔
“تمیز نام کی تو چیز ہی نہیں ہے اس آدمی میں “۔ وہ بڑبڑائی۔
“تم آفس سے کس خوشی میں چھٹیاں کر رہی ہو ؟؟ اگر کل آفس نا آئی نا تو پرسوں استعفی پہنچ جائے گا تمہارے کمرے میں ہنہ نکمے لوگ ‘ کام چور ‘ مفت خور”۔ مرسلین ناگواری سے بولا۔ اس کی بات پر ہادیہ کے سر پہ لگی ‘ تلووں پہ بجھی۔
میں آفس سے کسی بھی خوشی میں چھٹیاں کروں تم کون ہوتے ہو مجھ سے پوچھنے والے، میں جاؤں نا جاؤں تمہیں کیا؟؟ تم نکالو گے مجھے نوکری سے جسے خود نہیں پتا کہ اس کی جاب کب تک ہے ، کتنے خزانے تم نے لٹا دیے ہیں ہم مفت خوروں پر ؟؟”۔ وہ غصہ سے بھڑکتی ہوئی پوچھ رہی تھی۔
“اپنی آدھی سلطنت تو لٹا ہی دی ہے میں نے تم پر اور کیا چاہتی ہو ؟؟ !!”۔ وہ پرسکون لہجے میں بولا۔ فہد نے قہقہہ لگایا۔
ہادیہ نے ناگواری سے اس کی طرف دیکھا مگر خاموش رہی۔
مومل مسکراہٹ دبائے ان دونوں کو دیکھ رہی تھی۔
بھائی چائے !! فضا نے اس کے سامنے کپ رکھا۔
“زائر پر کیس کر دیا ہے ان لوگوں نے کیا؟؟”۔ وہ فکر مندی سے پوچھ رہی تھی۔
“نہیں !! مگر کر سکتے ہیں پریس کانفرنس میں تو یہی کہا ہے”۔
“پھر کیا ہو گا ؟؟”۔
“نا تو ہماری عدالتیں اندھی ہیں اور نا ہی ججز۔۔۔۔ میڈیا سب دکھا رہا ہے وہ خود بھی جانتے ہیں کہ سچ کیا ہے اس کیس کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا”۔
“تم کل مجھے اس کے گھر لے جاؤ گے ؟؟”۔
“کس کے گھر ؟؟”۔ مرسلین نے حیرت سے پوچھا۔
“زائر کے ، اس کی شادی کے بعد میں گئی ہی نہیں اُس کے گھر ، مریم سے اور ، آنٹی سے بھی مل لوں گی”۔
“میں صرف اپنی بیوی کو لے کر جاؤ گا اگر منظور ہے تو بولو “۔ وہ مسکراہٹ دبائے بولا۔
“ہاں تو لے جانا اپنی بیوی کو بھی میں نے کب منع کیا ہے کل صبح تم مجھے وہاں چھوڑ دینا “۔ وہ اس کی بات پر غور کیے بغیر بولی۔
مرسلین ہنس دیا جبکہ وہ ہنوز اپنی فائلز میں گم تھی۔
※••••••※
ایک ہفتے تک ہر طرف خاموشی چھائی رہی تھی۔ حکومت کے جتنے عہدداروں کے نام آئے تھے ان سب سے استعفی لے لیا گیا تھا۔ اصغر خان اور اس کے بیٹے کی تاحال کوئی خبر نہیں تھی۔ گیارہ بجے زائر کا شو ختم ہوا تھا۔ تین دن زائر کا شو جبکہ تین دن مرسلین کا شو ہوتا تھا۔
وہ دونوں کافی پی رہے تھے اور ساتھ ساتھ ملکی صورت حال پر بھی گفتگو ہو رہی تھی۔ کچھ ہی دیر میں احمد بھی آ گیا۔
“اتنی سردی میں مجھے یہاں بلانے کی کیا تک تھی ؟؟”۔ اس نے زائر کو گھورا۔
“جب سے ہم واپس آئیں ہیں تم ملے ہی نہیں تو اب ہم نے سوچا تمہیں اپنا دیدار کروا ہی دیں “۔ مرسلین شرارت سے بولا۔
زائر نے خاموشی سے اس کے آگے کارڈ رکھ دیے۔
احمد نے سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔
کارڈ زائر کے ریسپشن کا تھا جو ایک ہفتے بعد تھا۔
“مبارک ہو بھائی !!” احمد اٹھ کر اس کے گلے لگا۔
“مرسلین حیدر صاحب آپ کب کارڈ دیں رہے ہیں اس طرح کا ؟؟”۔
“آہ کیا پوچھ لیا میرے بھائی !!”۔
“اصغر خان کے کیس پر پروگرس ہوئی ؟؟ “۔
مرسلین کے ڈرامے کو لمبا ہوتا دیکھ کر احمد نے بات بدل دی مرسلین دونوں کو گھورا۔
“این جی او تو بند ہو گیا ہے کورٹ نے سمن جاری کیا ہے اسے مگر وہ نہیں آئے گا”۔
“اپنے کیے کا حساب وہ ضرور دے گا کہاں تک بچے گا اس کی پکڑ ضرور ہو گی اس دنیا میں نہیں تو اگلی دنیا میں سہی۔۔۔۔”۔
“ہم اس ٹاپک کو بند کر سکتے ہیں اب ؟؟”۔ مرسلین نے سنجیدگی سے کہا۔
“ضرور کیوں نہیں !!”۔
زائر ایک بجے آفس سے نکلا تھا مرسلین پہلے ہی چلا گیا تھا جبکہ احمد اس کے ساتھ تھا۔احمد کو اس کے گھر چھوڑا اور گاڑی کی سپیڈ بڑھا دی۔
ایک گاڑی مسلسل اس کے تعاقب میں تھی یہ گاڑی آفس سے کچھ فاصلے پر ہی ان کے پیچھے تھی زائر نے سر جھٹک کر اس خیال سے پیچھا چھرایا۔ کچھ دور جا کر گاڑی نے یک دم زائر کی گاڑی کو اوور ٹیک کیا جبکہ دوسرے شخص نے فائرنگ شروع کر دی۔
زائر کا سر سٹیرنگ پر لگا ۔ کوئی چیز اسے اپنے کندھے میں گھستی محسوس ہوئی اُس نے آنکھیں میچ کر اپنے درد پر قابو پانے کی کوشش کی مگر وہ کامیاب نہیں ہو سکا۔ سڑکیں سنسان تھی اکا دوکا گاڑیاں گزر رہی تھی ۔ کسی نے بھی رک کر دیکھنے کی کوشش نہیں کی۔۔۔۔ دوسری طرف سے فائرنگ مسلسل ہو رہی تھی۔ گاڑی کے شیشے ٹوٹ ٹوٹ کر اس کے گردن میں چُب رہے تھے۔ دوسری گولی اس کے بازو میں لگی اسے محسوس ہو رہا تھا لوہے کی دھکتی سلاخیں اس کے جسم کے آر پار ہو رہی ہیں ۔
اس کی آنکھوں کے آگے دھند چھا رہی تھی ۔ پھر یکدم خاموشی چھا گئی ، قبر کی سی خاموشی ۔۔۔۔ وہ سانس لینے کی کوشش کر رہا تھا مگر وہ کامیاب نہیں ہو سکا ۔ اسے سائرن کی آواز آ رہی تھی ، کسی کے چیخنے کی آوازیں ، اس کا سر ایک طرف کو ڈھلک گیا گہری خاموشی نے اس کے وجود کو اپنے گھیرے میں لے لیا۔۔۔۔!!
※••••••※
رات کے تین بج رہے تھے فاطمہ پریشان سی صوفے پہ بیٹھی تھی مریم بھی ان کے ساتھ بیٹھی انہیں تسلی دی رہی تھی ۔ صائم اور عمر زائر کے دوستوں کو فون کر رہے تھے۔ مرسلین اور احمد کو بھی اس کا کچھ پتا نہیں تھا۔ گاڑی رکنے کی آواز پر صائم باہر کو لپکا۔ مرسلین تیز قدموں سے چلتا اندر آیا احمد بھی اس کے پیچھے تھا۔ مرسلین نے ایک نظر مریم کو دیکھا جس کی آنکھیں نم تھی۔
“مرسلین ، زائر!!” فاطمہ بھرائی آواز میں بولی۔
“آنٹی کچھ نہیں ہوا اسے میرا خیال ہے وہ فیصل کی طرف ہو گا ہم ادھر ہی جا رہے ہیں میں نے سوچا صائم کو بھی ساتھ لے لیتے ہیں “۔
“بیٹا اُس کا فون بھی بند ہے “۔
“بیٹری ڈاؤن ہو گئی تھی اس کے موبائل کی بہر حال ہم جا کر دیکھ لیتے ہیں آپ ٹینشن نا لیں ۔۔۔!!”۔ احمد نے انہیں تسلی دی۔
عمر آنٹی اور بھابھی کا خیال رکھنا اور پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے انشااللّٰہ سب ٹھیک ہو گا۔۔۔”۔ احمد اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر بولا۔ عمر نے سر ہلا دیا۔
انشااللّٰہ !! سب کے منہ سے بےاختیار نکلا۔
ان لوگوں کے جانے کے بعد لاؤنچ میں سناٹا چھا گیا۔ وہ تینوں اپنی اپنی سوچوں میں گم تھے۔
فاطمہ اٹھی اور وضو کر کے نوافل پڑھنے لگ گئی۔
عمر مسلسل مرسلین سے رابطہ میں تھا۔ دو گھنٹے ہو گئے تھے مگر زائر کی ابھی کوئی خبر نہیں ملی تھی۔
مریم مسلسل زائر کے بارے میں سوچ رہی تھی۔ پتا نہیں کیوں اس کا دل اتنا گھبرا رہا تھا۔
“عمر احمد بھائی کو فون کر کے پوچھو “۔ وہ جھجھکتی ہوئی بولی۔
جی آپی!!
اس نے فون ملایا مگر احمد نے اس کا فون نہیں اٹھایا۔
اس نے مریم کی طرف دیکھ کر سر نفی میں ہلایا۔ مریم کا دل دھک سے رہ گیا۔ جبکہ عمر ایک دفعہ پھر احمد کو فون کر رہا تھا۔
※••••••※
مرسلین کی گاڑی فیصل کے گھر جا کر رکی۔ وہ تینوں تیزی سے گاڑی سے نکلے ۔ فیصل سامنے ہی پریشان سا ٹہل رہا تھا۔
“کچھ پتا چلا زائر گا ؟؟”۔ مرسلین نے چھوٹتے ہی اس سے پوچھا۔
“میں تم لوگوں کا ہی انتظار کر رہا تھا ابھی ابھی فون آیا ہے مجھے مرتضی کا ( مرتضی مقامی ایس ایچ او تھا) وہ ہسپتال بلا رہا ہے جلدی کرو “۔ فیصل کہہ کر تیزی سے اپنی گاڑی کی طرف بڑھا۔
“انہوں نے ہسپتال کیوں بلایا ہے مرسلین بھائی؟؟”۔ صائم نے بھرائی آواز میں اس سے پوچھا۔
“ڈونٹ وری کچھ نہیں ہوا ہم نے بس چیک کرنا ہے کم اون ۔۔۔ جلدی کرو ہمیں جلدی پہنچنا ہے وہاں “۔ فیصل بولا۔
پندرہ منٹ بعد وہ چاروں ہسپتال پہنچ چکے تھے مرتضی انہیں باہر ہی مل گیا تھا۔
آپ میری بات حوصلے سے سنیے گا مجھے آدھا گھنٹہ پہلے ہی اطلاع ملی تھی۔۔۔۔۔ وہ چاروں سانس روکے اسے سن رہے تھے۔
“زائر پر قاتلانہ حملہ ہوا ہے تین بجے کے قریب ، ڈاکٹرز آپریشن کر رہے ہیں اس کا۔۔۔۔۔۔ اُس کی کنڈیشن کے بارے میں ابھی ڈاکٹرز کچھ نہیں کہہ سکتے ۔۔۔۔ خون بہت بہہ چکا ہے میرے ایک کولیگ ہیں انہوں نے ارینج کر دیا ہے بلڈ کا۔۔۔۔!!
حملہ کن لوگوں نے کیا ہے ابھی تک کچھ پتا نہیں چل سکا ۔۔۔۔ ہماری پوری کوشش ہے کہ ان لوگوں کو جلد از جلد پکڑا جا سکے۔۔۔۔!!
وہ انہیں ساتھ لیے آپریشن تھیٹر کے باہر آ کھڑا ہوا۔ صائم نے اپنے آنسوں پر قابو پانے کی کوشش کی مگر وہ کامیاب نہیں ہو سکا۔ مرسلین کے گلے لگ کر وہ بےاختیار سسک اٹھا۔
“میرا بھائی ، باپ ، دوست سب کچھ ہیں وہ انہیں کچھ نہیں ہونا چاہیئے”۔
“کچھ نہیں ہو گا اسے تم دعا کرو بس “۔
وہ چاروں خاموشی سے کوڑیڈور میں کھڑے تھے ۔
“میں جانتا ہوں یہ کام کس کا ہے “۔ مرسلین کی آواز پر وہ تینوں چونکے مرتضی کچھ فاصلے پر کھڑا اپنے ساتھیوں کو ہدایات دے رہا تھا۔
فیصل نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا ۔
“اصغر خان !!”
احمد اور فیصل نے بےاختیار اس کی طرف دیکھا وہ واقعی سچ کہہ رہا تھا ۔ یہ کام اصغر خان کا ہی ہو سکتا تھا۔ اس کی دم پر پاؤں زائر نے ہی رکھا تھا اس نے جوابی وار کر دیا تھا۔ صائم خاموشی سے ان لوگوں کو سن رہا تھا۔
“بہت کہا تھا اس کو مگر نہیں مانا ، سسٹم ٹھیک کرنے کا بھوت سوار تھا اس پر ، تین صحافیوں کے قتل کے بعد بھی اس نے سبق نہیں سیکھا۔ ان گھٹیا لوگوں کے چنگل میں پھنس گیا ہے”۔ مرسلین کی رنگت گلابی پڑ رہی تھی۔
“یہ وقت ان باتوں کا نہیں ہے دعا کرو اس کا آپریشن کامیاب ہو جائے ان باتوں کے لیے بہت وقت ہے مرسلین “۔ فیصل نے نرمی سے کہا۔
“گھر نہیں بتایا بھائی کا؟؟”۔ صائم نے احمد سے پوچھا۔
“ابھی نہیں اس کی کنڈیشن کا پتا چل جائے پھر بتائیں گے ان کو “۔ احمد اسے جواب دے کر نرس کی طرف متوجہ ہوا جو آپریشن تھیٹر سے تیزی سے باہر آئی تھی۔
“پیشنٹ کیسا ہے اب ؟؟”
وہ تینوں بھی تیزی سے اس تک پہنچے۔
“ان کی حالت سیریس ہے ہمیں بلڈ چاہیے آپ میں سے کسی کا میچ ہے تو بتائیں ؟؟”۔
“میرا اور اس کا میچ کرتا ہے “۔ مرسلین تیزی سے بولا۔
“آئیں میرے ساتھ ۔۔۔”۔
ان لوگوں کے جانے بعد وہ تینوں اس سرد کوریڈور میں کھڑے تھے۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...