” عدیم ۔۔۔۔ میں کورا نہیں ہوں۔۔۔۔
میں۔۔۔تمہاری کزن کورا نہیں ہوں ۔” کورا اول نے کہا۔
” اوہ رئیلی۔۔۔؟ پھر تم کون ہو ؟ کورا کی بچپن میں کھوگئی جڑواں بہن ۔۔۔؟” عدیم نے اس کی بات کو مذاق سمجھتے کہا۔
” حقیقت تو یہ ہے کہ میری اپنی الگ سے کوئی پہچان بھی نہیں۔۔۔نہ کوئی نام۔۔۔ نہ کوئی شناخت۔۔۔” کورا اول نے کہا۔
” میں کچھ سمجھ نہیں پایا۔۔۔” عدیم نے کہا۔
” میں کورا کی کلون ہوں۔۔۔۔” کورا اول نے کہا۔
” کلون۔۔۔؟ یہ انسان کی کلوننگ کب سے شروع ہوگئی۔۔۔؟” عدیم نے کہا۔
” میں نہیں جانتی اس سائنسدان کا نام کہ جس نے مجھے کلون کیا ۔۔۔ کیونکہ مجھے ستی نے اس کا نام نہیں بتایا تھا۔” کورا نے کہا۔
” اب یہ ستی کہاں سے آگئی اس مدعے میں ۔۔۔؟” عدیم نے کہا۔
” اسی نے تو حادثے میں کورا کو فوت شدہ سمجھ کر اسے کلون کیا ، وہ بھی دو مرتبہ۔۔۔” کورا اول نے کہا۔
” لیکن کورا تو حادثے سے بچ نکلی تھی ۔۔۔” عدیم نے کہا۔
” ہاں ، لیکن ستی تب اس بات سے آگاہ نہیں تھی ۔۔۔” کورا اول نے کہا۔
” تو یعنی اب ایک کی بجائے تین کورا وجود رکھتی ہیں۔۔۔؟” عدیم نے کہا۔
” ہاں ۔۔۔ تین ، اور گزشتہ کچھ عرصے سے تمہارے سے درجن سے زائد ملاقاتیں کرنے والی میں تھی ، کلون نمبر 1 ، کورا اول۔۔۔” کورا اول نے کہا۔
عدیم چند لمحے خاموش رہا اور پھر بےاختیار ہنس دیا ، ساتھ میں وہ تالیاں بجا رہا تھا ۔۔۔۔
” امیزنگ۔۔۔۔ مجھے تمہارے اس ٹیلنٹ کا پہلے کبھی علم نہ تھا ۔۔۔ یقین مانو کورا تم بہترین سکرپٹ رائیٹر بن سکتی ہو۔۔۔ اگر میں کوئی پروڈیوسر ہوتا تو لازماً اس آئیڈیا پر ایک بہترین فلم بنا سکتا تھا ۔۔۔۔
آج اگر یکم اپریل کا دن نہ ہوتا ، تو سیریسلی میں بھی تمہاری اس کہانی پر ایک لمحے کو سوچ میں پڑ جاتا ۔۔۔ جینیئس۔” عدیم نے جیسے اس سیچویشن کو انجوائے کرتے کہا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جارڈی ، بلیوڈیل میں واقع کارٹیل کے کمپاونڈ میں اپنے کمرے میں موجود تھا کہ اس کا سیل فون بج اٹھا ، اس نے نمبر دیکھا تو اس کے باس مکاریوس کی کال تھی ۔
اس نے کال ریسیو کی،
” رپورٹ ۔۔۔؟” رابطہ قائم ہوتے ہی بلاتمہید مکاریوس کی آواز سنائی دی ۔
” جی باس ، ہمارے دو کارکن کورا کی نگرانی کررہے ہیں۔۔۔ مناسب موقع میسر آتے ہی اسے اغواء کرلیا جائے گا۔۔۔لیکن باس۔۔۔ ” جارڈی نے کہا۔
” لیکن کیا ۔۔۔؟” مکاریوس نے سخت لہجے میں کہا۔
” باس ، ایک حیرت انگیز بات سامنے آئی ہے۔۔۔” جارڈی نے کہا۔
” بولتے رہو۔۔۔۔” مکاریوس نے کہا۔
” گزشتہ روز گیرٹ کورا کی نگرانی کررہا تھا اور اس نے اطلاع کی کہ کورا ، اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ ‘ہوٹل سپرنگ بلاسم’ میں ہے۔۔۔۔ لیکن اسی وقت راجن کی کال آگئی جس نے بتایا کہ کورا اس وقت وِش مارکیٹ کی ایک دکان سے کاسمیٹکس کی خریداری کررہی ہے ۔۔۔ اور ٹھیک پانچ منٹ بعد مجھے جابر کی کال ملی جس نے اطلاع کی کہ اس نے کورا کو اس کے گھر کے باہر دیکھا ہے ۔۔۔۔میری سمجھ سے باہر ہے کہ یہ سب کیا ہے۔” جارڈی نے کہا۔
” یہ ناممکن ہے۔۔۔ ایک انسان بھلا ایک ہی وقت میں تین جگہ کیسے ہوسکتا ہے۔۔۔شاید انہیں کوئی غلط فہمی ہوئی ہوگی ۔۔۔ بہرحال تم اس کی نگرانی جاری رکھو ، اور مجھے باقاعدگی سے رپورٹ کرتے رہنا ۔۔۔” مکاریوس نے کہا اور کال منقطع ہوگئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ملبری ٹاؤن پر شام کا نیلگوں اجالہ چھا چکا تھا، عدیم اپنے لان میں ایک آرام دہ نشست پر بیٹھا اپنے لیپ ٹاپ پر مصروف تھا کہ اسے فون پر میسج بیپ سنائی دی ، اس نے فون دیکھا تو کورا کا میسج تھا ۔۔۔ ” گھر ہو ؟”
” جی ہاں ۔۔۔” اس نے جوابی ٹیکسٹ کیا۔
” اوکے میں آرہی ہوں۔۔۔” چند لمحے بعد کی جواب آگیا۔۔ عدیم نے میسج پڑھا اور پھر سے اپنے لیپ ٹاپ پر مصروف ہوگیا ۔
10 منٹ بعد گھر کی ڈور بیل بجنے کی آواز سنائی دی ، اور وہ اٹھ کر دروازے تک گیا ، حسبِ توقع دروازے پر کورا ہی تھی ۔۔۔۔
” ویلکم کزن۔۔۔ کیسی ہو ؟” عدیم نے اس کا استقبال کرتے کہا اور دروازے سے ہٹ کر اسے راستہ دیا۔
” ہاں خیریت ہے۔۔۔” کورا نے گھر میں قدم رکھتے کہا۔
” آؤ ، لان میں ہی بیٹھتے ہیں۔۔۔” عدیم نے لان کی جانب قدم بڑھاتے کہا ۔
” ضرور، لیکن پہلے میں زرا آنٹی سے مل آؤں ۔۔۔” کورا نے کہا اور لاؤنج کی طرف بڑھ گئی۔
کچھ دیر بعد کورا واپس لان میں پہنچی ، اس نے ایک اور چیئر کھینچ کر عدیم کی چیئر کے پاس کی اور ادھر براجمان ہوگئی۔۔۔ عدیم تب تک لیپ ٹاپ بند کر چکا تھا ۔
” سناؤ کزن پڑھائی کیسی چل رہی ہے۔۔۔؟” عدیم نے کورا سے پوچھا ۔
” اچھی چل رہی ہے ۔۔۔ اب تو ایگزامز بھی قریب ہیں۔ بس دو ہفتے رہ گئے۔” کورا نے کہا۔
” تو کیسی تیاری ہے تمہاری۔۔۔۔۔؟ عدیم نے پوچھا ۔
” تیاری بس اوسط ہی ہے۔۔۔ محنت کرنی پڑے گی اب جتنا وقت باقی ہے۔” کورا نے کہا۔
” ہمممم۔۔۔۔ گڈ لک !” عدیم نے کہا۔
” آئیندہ دو ہفتے تو میں بیحد مصروف رہوں گی ، اور پھر امتحانات کے دو ہفتے بھی سر کجھانے کی فرست نہ ہوگی۔۔۔” کورا نے کہا۔
” ہاں بالکل۔۔۔ تمہیں تو پڑھنا بھی معمول سے زیادہ ہے اس مرتبہ ۔” عدیم نے کہا ۔
” تو میں سوچ رہی تھی کہ شدید مصروفیت کے اس مہینے سے قبل ۔۔۔ کیوں نہ ہم دونوں گھومنے پھرنے کا کوئی پلان بنا لیں۔” کورا نے کہا ۔
” ہاں ضرور ۔۔۔ کدھر چلنا ہے ؟ کچھ سوچا ؟” عدیم نے کہا۔
” بلوم لینڈ پارک کے بارے میں کیا خیال ہے۔۔۔؟ کافی شہرت سنی ہے اس کی ۔” کورا نے کہا ۔
” چند دن پہلے ہی تو گئے ہیں بلوم لینڈ پارک۔۔۔کوئی اور جگہ سوچو ۔” عدیم نے کہا اور کورا اس بری طرح سے چونکی کہ کرسی الٹتے الٹتے بچی۔
” ارے کیا ہوگیا ہے۔۔۔؟؟؟ عدیم نے پوچھا ۔
” بلوم لینڈ پارک ؟۔۔۔۔ہم گئے تھے ؟۔۔۔۔ کیا مطلب عدیم ؟” کورا نے حیرت بھرے لہجے میں پوچھا ۔
” پھر سے بھول گئی کیا ۔۔۔؟” عدیم نے پوچھا ۔
” پھر سے بھول گئی۔۔۔۔؟ یعنی میں پہلے بھی کچھ بھولی ہوں۔۔؟” کورا نے لرزتی آواز میں کہا۔
” ہاں کزن۔۔۔ اس حادثے کے بعد سے تمہیں کبھی کبھار STML کا مسئلہ رہتا ہے۔۔۔تمہی نے تو بتایا مجھے۔” عدیم نے کہا ۔ اور کورا کے دماغ جیسے دھماکے سے اڑ گیا۔
” ایک بات بتاؤ عدیم۔۔۔۔ جب سے اس حادثے کے بعد میری واپسی ہوئی۔۔۔۔ کتنی مرتبہ ہمارے درمیان ملاقات ہوئی ہوگی ؟” کورا نے پوچھا ۔
” دس پندرہ مرتبہ تو ہوئی ہوگی۔۔۔ کیوں ؟” عدیم نے الجھن آمیز لہجے میں پوچھا ۔
” اور ہم کہاں ملے ۔۔۔۔؟” کورا نے پوچھا ۔
” کیا ہوگیا ہے ڈئیر ۔۔۔ بھول گئی سب کچھ ؟
ہم نے اس دوران شہر کے سبھی مشہور سیاحتی مقامات کا وزٹ کیا ہے۔۔۔۔” عدیم نے کہا۔
یہ سن کر کورا کو یوں لگا کہ جیسے اس کی حرکتِ قلب بند ہوجائے گی ۔
اس کی آنکھوں میں آنسو امڈ آئے ۔۔۔ وہ اپنی نشست سے اٹھی اور بغیر کچھ کہے سنے تیز قدموں دروازے کی طرف بڑھ گئی۔
عدیم اسے اس طرح جاتا دیکھ کر تیزی سے اٹھا اور اس کی جانب لپکا۔۔۔۔
” کورا ۔۔۔۔ کیا ہوگیا ہے یار ؟؟ ایسے کہاں جارہی ہو ۔۔۔؟؟” عدیم نے اس سے پوچھا۔
” یہیں ٹھہرو ۔۔۔ ہم کل ملیں گے ۔۔۔ فی الوقت مجھے اکیلا چھوڑ دو پلیز۔۔” کورا نے سخت لہجے میں کہا دروازے سے باہر نکلی اور دروازہ بند کر دیا ۔۔۔۔ عدیم حیرت و تشویش کے عالم میں وہیں کا وہیں کھڑا رہ گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کورا اول اور کورا ثانی اپنے اپارٹمنٹ میں موجود تھیں ، کورا اول اپنے موبائل پر ایک فٹبال میچ دیکھنے میں مگن تھی جبکہ کورا ثانی کچن میں تھی ۔
اسی وقت دور بیل کی آواز سنائی دی اور کورا ثانی کچن سے نکل کر دروازے کی طرف بڑھی ۔۔۔
” کون ؟” کورا ثانی نے پوچھا ۔
” کورا ۔۔۔” مختصر جواب آیا ۔ اور کورا ثانی نے دروازہ کھول دیا۔
کورا اندر داخل ہوئی اور چہرے پر غضباک تاثرات لیے بیڈروم کی طرف بڑھی ،
” ارے کورا ۔۔۔ کیا ہوا ؟” اس کی یہ حالت دیکھ کر کورا ثانی بھی اس کے پیچھے بیڈروم تک پہنچی۔
” تم منحوس ۔۔۔۔” کورا اول کو دیکھتے ہی وہ کسی بھوکی شیرنی کی طرح اس پر لپکی ۔
کورا اول بھی ہڑبڑا کے اٹھ گئی۔
” تم میری زندگی میں آئی ہی کیوں زہریلی ناگن۔۔۔” کورا اول نے چلاتے ہوئے کہا لیکن اس سے قبل کہ وہ اس پر جھپٹ پڑتی۔ کورا ثانی نے اپنے دونوں ہاتھوں سے اس کا بازو مظبوطی سے تھام لیا۔
” تمہیں ہو کیا گیا ہے کورا ۔۔۔” کورا ثانی نے اسے اپنی طرف کھینچتے کہا۔
کورا اول شاک زدہ حالت مین کھڑی تھی ۔۔۔
” اس سے پوچھو کیا ہوا ہے ۔۔۔۔ کیوں اس نے میری زندگی میں نقب لگانے کی کوشش کی ۔۔۔ کیوں اس نے عدیم کو مجھ سے چھیننے کی کوشش کی ۔۔۔” کورا نے اپنا بازو کورا ثانی سے چھڑایا اور دونوں ہاتھوں سے اپنا چہرہ ڈھکتے ہوئے بری طرح سے رو پڑی۔
” کوئی کچھ پھوٹے گا بھی سہی کہ یہاں چل کیا رہا ہے ۔۔۔؟؟ ” کورا ثانی نے غصہ بھری آواز میں کہا۔
” کورا ۔۔۔ تم اوور ری ایکٹ کررہی ہو۔” کورا اول نے کہا۔
” میں اوور ری ایکٹ کررہی ہوں۔۔۔۔؟؟ تم نے کورا بن کر عدیم سے ملاقاتیں کیں ، خود کو کورا ظاہر کرکے اس کے قریب آئی ، اس کے ساتھ وقت گزارا ، میرے بچپن کا تعلق خطرے میں ڈال دیا ، میرے اعتماد کا خون کیا ، میری محبت پر ڈاکہ ڈالنے کی کوشش کی اور میں اوور ری ایکٹ کررہی ہوں۔۔۔؟؟ آخر چاہتی کیا ہو تم ؟؟” کورا نے دھاڑتے ہوئے کہا۔
” یہ سب کیا ہے اول۔۔۔۔؟” کورا ثانی نے شاک زدہ لہجے میں کہا۔
” میں سب ایکسپلین کر سکتی ہوں۔۔۔۔پر کوئی میری بات سنے بھی تو سہی۔۔۔میں تو خود عدیم کو یہ بتانا چاہتی تھی کہ۔۔۔۔” کورا اول نے کچھ کہنا چاہا لیکن اس کی بات کاٹ دی گئی۔
” سننے سنانے کو اب کچھ رہا ہے کیا ۔۔۔ چلی جاؤ میری زندگی سے تم۔۔۔ اتنی دور کہ پھر کبھی تمہاری شکل تک نہ دیکھنی پڑے مجھے۔۔۔” کورا نے آنسوؤں کی بہتی آبشار کے ساتھ چیختے ہوئے کہا۔
” آل رائیٹ ۔۔۔ میں چلی جاتی ہوں۔۔۔ اور پھر تم میری شکل کبھی نہیں دیکھو گی۔۔۔ جو ہوا اس پر میں شرمندہ ہوں ۔۔۔” کورا اول نے کہا ۔ اور مزید کچھ کہے سنے دروازے کی طرف بڑھ گئی۔۔ چند ہی لمحے میں دروازہ بند ہونے کی آواز سنائی دی۔
” خدایا ، میں کیا کروں اب ۔۔۔” کورا ثانی نے تشویش آمیز لہجے میں خود کلامی کے انداز میں کہا۔
” کورا ، بیٹھو شاباش۔۔۔” اس نے کورا کو صوفے پر بٹھاتے ہوئے نرم لہجے میں کہا۔
پھر اس نے میز پر پڑے جگ سے ایک گلاس میں پانی انڈیلا اور کورا کو گلاس پکڑایا۔۔۔۔ ” پانی پی لو اور خود کو ریلیکس کرو ” کورا ثانی نے کہا۔
کورا نے بمشکل آدھا گلاس پانی پیا۔۔۔اور گلاس رکھ دیا۔
” جیسی بھی قیامت آگئی تھی کم از کم تم دونوں کو ایک مرتبہ سکون سے بیٹھ کر بات تو کرلینا چاہیے تھی ۔۔۔ ہم تینوں مل بیٹھ کر کوئی حل نکال ہی لیتے۔۔۔اب سنو ! تم یہیں ٹھہرو ۔۔۔ میں اول کو ڈھونڈ کر واپس لاتی ہوں۔ ٹرسٹ می مسئلہ جتنا بھی پیچیدہ کیوں نہ ہو ہم تینوں مل بیٹھ کر اس کا کوئی مناسب حل نکال ہی لیں گے تب تک تم یہیں رکنا اور ہاں دروازہ بند کرلو۔۔۔ ٹھیک ہے ؟” کورا ثانی نے کہا لیکن کورا نے کوئی جواب نہ دیا۔ اس کے آنسو بدستور رواں تھے ۔
” ایک تو یہ اپنا موبائل بھی یہیں چھوڑ گئی ہے ۔۔۔۔” کورا ثانی نے بستر پر پڑے کورا اول کے موبائل پر نظر ڈالتے کہا اور دروازے کی طرف بڑھ گئی۔
باہر نکلنے کے بعد اس نے ارد گرد نظر دوڑائی لیکن کورا اول ادھر موجود نہ تھی ۔۔۔ ” نجانے کہاں گئی ہوگی ” کورا ثانی یہ سوچتے ہوئی ایلیویٹر کی طرف بڑھ گئی۔
اگلے بیس منٹ تک وہ بلڈنگ کی سبھی منزلیں چھان چکی تھی لیکن کورا اول کا کوئی اتا پتہ نہ تھا ۔۔۔۔ اس کے بعد وہ بلڈنگ سے نکلی اور اس کے سامنے موجود ایک چھوٹے سے پارک میں داخل ہوئی ۔۔۔ لیکن کورا اول وہاں بھی اسے کہیں نظر نہ آئی۔
پھر اچانک اس کے ذہن میں ایک خیال بجلی کی طرح لپکا۔۔۔اور وہ نزدیک کھڑی ایک ٹیکسی کی طرف بڑھی ۔
” مجھے سیونتھ برِج تک جانا ہے ۔۔۔” اس نے ٹیکسی ڈرائیور سے کہا ۔
” لیکن وہ تو واکنگ ڈسٹنس پر ہے۔۔۔” ڈرائیور نے حیرت بھرے لہجے میں کہا ۔
” میرے پاس زیادہ وقت نہیں۔۔۔ کم آن ۔” کورا ثانی نے پچھلی سیٹ پر بیٹھتے ہوئے کہا اور ڈرائیور نے اس کے لہجے میں موجود عجلت کو محسوس کرتے ہوئے بغیر مزید تاخیر گاڑی سٹارٹ کردی ۔
محض چھے سات منٹ کی ڈرائیو کے بعد ہی گاڑی ، شہر کے بیچوں بیچ سے گزرے دریا پر قائم متعدد پلوں میں اس ایک پل پر پہنچ گئی۔۔۔۔ یہ ایک چھوٹا ، ذیلی پل تھا جس کا استعمال کافی کم تھا ، اس وقت بھی وہاں اکا دکا گاڑیاں یا بائیکس کی نظر آرہی تھیں۔
گاڑی نے ابھی پل کا نصف حصہ ہی عبور کیا تھا کہ کورا ثانی نے ڈرائیور کو گاڑی روکنے کا کہہ دیا، اور ڈرائیور نے گاڑی روک دی ۔۔۔ کورا ثانی نے ایک چھوٹا نوٹ اس کے حوالے کیا ۔ اور ڈرائیور نے گاڑی بڑھادی۔
کورا ثانی تقریباً بھاگتے ہوئے پل کے Grill کے نزدیک وہاں پہنچی کہ جہاں اس نے کورا اول کی جھلک دیکھنے کے بعد گاڑی روکنے کا کہا تھا ۔۔۔
کورا اول دونوں ہاتھ گِرل پر رکھے دریا پر نظر جمائے کھڑی تھی ۔
کورا ثانی کے نزدیک پہنچنے پر اس نے ایک مرتبہ سر موڑ کر اسے دیکھا اور پھر سے بہتے دریا پے نظر جما دی۔۔۔۔
” کورا ۔۔۔؟” کورا ثانی نے اسے پکارا ۔
” تم نے مجھے ڈھونڈ کیسے لیا۔۔۔؟” کورا اول نے دریا سے نظریں ہٹائے بغیر بےتاثر لہجے میں کہا۔
” تمہی نے ایک مرتبہ بتایا تھا کہ جب تم اداس ہوتی ہو تو یہاں آکے کچھ وقت گزارتی ہو۔۔۔” کورا ثانی نے کہا ۔
” میرے ساتھ واپس چلو ۔۔۔ پلیز۔” کورا ثانی نے کہا ۔
” کس لیے۔۔۔۔؟” اس نے بدستور دریا پر نظر جمائے کہا ۔
” ہم تینوں مل بیٹھ کر اس مسئلے کا کوئی حل نکالتے ہیں یار۔۔۔” کورا ثانی نے کہا۔
” پانی سر سے گزر چکا ہے ۔۔۔ اب کچھ نہیں ہوسکتا۔ ” کورا اول نے کہا۔
” تو کیا کرو گی تم ؟ کہاں جاؤ گی آخر ۔۔۔؟” کورا ثانی نے جھنجھلا کر کہا۔
” وہ میرا مسئلہ ہے۔۔۔ خدا کی زمین بہت وسیع ہے ۔۔۔ مل جائے گی مجھے بھی کسی کونے کھدرے میں جگہ۔” کورا اول نے کہا۔
” مت کرو ایسے ۔۔۔۔ مسئلہ تمہارے اور کورا کے درمیان ہے ناں۔۔۔ مجھے کس بات کی سزا دے رہی ہو ۔۔۔؟ ” کورا ثانی نے کہا ۔
” سب ختم ہوگیا۔۔۔۔” کورا اول نے ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے کہا۔
اسی ٹائم ایک گاڑی ان کے نزدیک آ کے رکی ، اس کے دروازے کھلے اور ہینڈ گنز سے لیس دو مسلح افراد نکل کر ان کی جانب لپکے ۔
” ہینڈز اپ۔۔۔” ان دونوں نے ایک گرجدار آواز سنی اور مڑ کر اس جانب دیکھا۔
لیکن انہیں دیکھ کر وہ مسلح افراد بھی چونک سے اٹھے ۔۔۔۔
” باس ، یہاں تو دو ہیں ۔۔۔ ان میں سے کسے پکڑنا ہے ؟” ایک مسلح شخص نے دوسرے ہاتھ سے موبائل نکال کر اس پے کہا ، شاید کارروائی کے پیشِ نظر پہلے سے ہی وہ متواتر کال پر تھا ۔
” تم جس کی نگرانی پر مامور تھے, وہی لڑکی جو فیری حادثے کی واحد سروائیور تھی ۔۔ اسے ہی لے کر آؤ ۔۔۔ دوسری کو یہیں شوٹ کردو” دوسری طرف سے جواب آیا ۔
” لیکن یہ دونوں ہی وہ لڑکی ہیں کہ جس کی ہم نگرانی کرتے آرہے تھے ۔۔۔۔ جیسے جڑواں ہوں ۔” اس نے کال پر کہا۔
” شٹ اپ۔۔۔۔ نشے میں ہو کیا ؟” دوسری طرف سے آواز آئی۔
” ثانی ، کورا سے کہہ دینا کہ مجھے معاف کردے ۔۔۔” کورا اول نے کہا اور بجلی کی سی تیزی سے اپنے دونوں ہاتھوں سے کورا ثانی کو اس طرح دھکیلا کہ وہ پل کی مختصر سی گِرل کے اوپر سے ہوتی دریا میں گرتی چلی گئی۔