“ہم ماضی کے متعلق کوئی بات نہیں کریں گے۔۔۔ ”
وہ نگاہیں اٹھاےُ اسے دیکھ رہی تھی۔
“اوکے۔۔۔ اور کچھ؟”
وہ دلفریب مسکراہٹ چہرے پر سجاےُ اسے دیکھ رہا تھا۔
“نہیں بس یہی۔۔۔ ”
وہ معدوم سا مسکرائی۔
“تم خوش ہو؟”
وہ اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتا ہوا بولا۔
وہ اثبات میں سر ہلانے لگی۔
“گڈ نائٹ۔۔۔ ”
وہ اس کا رخسار تھپتھپاتا ہاتھ چھوڑ کر چلنے لگا۔
لائٹ آف کر کے وہ اپنے کمرے میں آ گیا۔
چند لمحے ساکت کھڑے وہ اپنے کمرے کا جائزہ لینے لگا۔
سب کچھ ویسا ہی تھا جیسا وہ چھوڑ کر گیا تھا۔
وہ سانس خارج کرتا بیڈ کو دیکھنے لگا۔
“آج عرصے بعد میں یہاں سکون سے سو سکوں گا۔۔۔ ”
وہ بیڈ پر گرتا ہوا بولا۔
“عشاء کی نماز؟”
یہ خیال بجلی کی سی تیزی کے ساتھ اس کے دماغ میں کوندا۔۔۔
“شٹ میں نے نماز پڑھی ہی نہیں۔۔۔ ”
وہ سر پر ہاتھ مارتا کھڑا ہو گیا۔
گھڑی پر نظر ڈالی جو گیارہ بجا رہی تھی۔
“ٹائم ختم نہیں ہوا۔۔۔ پڑھ سکتا ہوں ابھی۔”
وہ گھڑی اتارتا ہوا بولا۔
نماز پڑھ کر وہ بیڈ پر لیٹ گیا۔
“جب تم مجھے خود کہو گی تب ہی ہم ایک کمرے میں رہیں گے۔۔۔ ”
وہ آنکھیں بند کرتا ہوا بڑبڑایا۔
بستر پر لیٹتے ہی نیند اس پر مہربان ہو گئی۔
وہ لیمپ آف کئے بنا ہی سو گیا۔
~~~~~~~~
“احسن؟”
وہ جھجھکتے ہوۓ بولی۔
“ہاں بولو؟”
نکاح کے بعد وہ اب اس سے مخاطب ہوا۔
“تم نے مجھ سے۔۔۔۔ مجھ سے نکاح۔۔۔۔ ”
وہ گھبراہٹ کا شکار تھی۔
“تم ایزی ہو کر مجھ سے بات کر سکتی ہو۔۔۔ یہاں کافی سٹوڈنٹس ہیں وہاں سائیڈ پر چلتے ہیں۔۔۔ ”
وہ اس کی پریشانی سمجھتا ہوا بولا۔
وہ سر جھکاےُ اس کے عقب میں چلنے لگی۔
“اب بولو۔۔۔ اور ڈرو مت جو کہنا چاہتی ہو کہہ سکتی ہو۔”
وہ دیوار سے ٹیک لگاتا ہوا بولا۔
“وہ مجھے پوچھنا تھا تم نے مجھ سے نکاح کیوں کیا؟”
وہ تیز تیز بول کر اسے دیکھنے لگی۔
احسن مسکرایا پھر چہرہ جھکا گیا۔
“کسی وجہ سے۔۔۔ لیکن تم پریشان مت ہو پوری کوشش کروں گا تمہیں ایک اچھی زندگی دے سکوں۔”
وہ بغور اس کا چہرہ دیکھتا ہوا بولا۔
صاف رنگت، کپکپاتے گلابی ہونٹ، سیاہ پتلیوں میں خوف نمایاں تھی۔
وہ معصوم تھی یا شاید احسن کو ایسا معلوم ہوتا تھا۔
“کیا وجہ؟”
وہ لب کاٹتی آگے دیکھنے لگی۔
“جب تم میرے گھر آ جاؤں گی بتا دوں گا۔کلاس کا ٹائم ہو رہا ہے چلیں؟”
وہ گھڑی اس کے سامنے کرتا ہوا بولا۔
وہ اثبات میں سر ہلاتی قدم اٹھانے لگی۔
~~~~~~~~
“وائز تم ابھی بلکل ٹھیک نہیں ہوۓ پھر یونی جانا ضروری ہے کیا؟”
وہ منہ بنا کر بولی۔
“ہاں ضروری ہے۔۔۔ دوستوں کے ساتھ تھوڑا ٹائم پاس ہو جاتا ہے۔”
وہ پرفیوم اٹھاتا ہوا بولا۔
“اور میں؟ جو سارا دن یہاں اکیلی رہتی ہو؟ میرا خیال نہیں تمہیں؟”
وہ خفا انداز میں بولی۔
“تمہیں باہر نہیں لے جا سکتا بس کچھ وقت ہے اس کے بعد تمہارا اکیلا پن بھی دور ہو جاےُ گا ہمارا بےبی آ جاےُ گا نہ۔۔۔”
وہ اس کی ناک دباتا ہوا بولا۔
“تم اپنی ہی مرضی کرو گے۔۔۔ ”
وہ پیر پٹختی کمرے سے باہر نکل گئی۔
“یار مجھے کچھ کام بھی ہیں سمجھا کرو نہ۔۔۔ شکر مناؤں مجھ میں بابا سائیں والی عادتیں نہیں۔”
وہ کمرے سے باہر نکلتا ہوا بولا۔
“اچھا ٹھیک ہے لیکن جلدی آ جانا۔۔۔ مجھے اکیلے تسلی نہیں ہوتی اس واقعے کے بعد اب ڈر لگتا ہے۔”
وہ غیر مرئی نقطے کو دیکھتی ہوئی بول رہی تھی۔
“ڈرنے کی ضرورت نہیں تم ریلیکس رہو۔۔۔۔۔ اور میں جلدی آ جاؤں گا۔”
وہ چابیاں اٹھاتا ہوا بولا۔
وہ خاموش شکوہ کرتی نگاہوں سے اسے دیکھ رہی تھی جو ہاتھ ہلاتا باہر نکل گیا۔
وہ دروازے بند کر کے کمرے میں چلی گئی۔
دوپہر کے تین بج رہے تھے۔
زرش گھڑی کو دیکھتی ضبط کر رہی تھی۔
یکدم لائٹ چلی گئی۔
“لائٹ کیوں چلی گئی؟”
وہ چہرہ اوپر اٹھاتی ہوئی بولی۔
اگلے لمحے اسے دروازہ بجانے کی آواز سنائی دینے لگی۔
“دروازے پر کون ہے؟”
وہ گھبراتی ہوئی کمرے سے باہر نکل آئی۔
کوئی لاک کھولنے کی کوشش کر رہا تھا۔
وہ تھوک گلے سے اتارتی واپس اپنے کمرے میں آ گئی۔
دروازہ اچھی طرح لاک کیا اور فون اٹھا کر نمبر ملانے لگا۔
نمبر بزی جا رہا تھا۔
اس کے ہاتھ ٹھنڈے پڑ رہے تھے۔
پیشانی پر پسینے کی ننھی ننھی بوندیں نمودار ہونے لگیں۔
“وائز فون اٹھاؤ؟”
وہ فون کان سے لگاےُ سرگوشی کر رہی تھی۔
چہرے پر خوف و ہراس نمایاں تھا۔
“کہاں بزی ہوں تم؟”
وہ جھنجھلا کر کہتی آوازیں سننے لگی۔
آوازیں بلند ہوتی جا رہی تھیں۔
زرش کے ہاتھ کپکپانے لگے۔
حواس ساتھ چھوڑتے جا رہے تھے۔
وہ پھر سے وائز کا نمبر ملانے لگی۔
احسن زینے چڑھتا اوپر آیا تو آنکھوں میں تحیر سمٹ آیا۔
اپارٹمنٹ کا دروازہ کھلا تھا۔
وہ سرعت سے آگے بڑھتا اندر آ گیا۔
“کون ہو تم لوگ؟”
وہ ان نقاب پوشوں کو دیکھتا ہوا چلایا۔
وہ دونوں نقاب پوش ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔
احسن کے دماغ میں جھماکا ہوا تو الٹے قدم اٹھانے لگا۔
“کیا لینے آےُ ہو یہاں؟”
وہ انہیں دیکھتا ہوا بول رہا تھا۔
ان دونوں کے پاس ہتھیار نہیں تھے ایک دوسرے کو اشارہ کرتے وہ احسن کی جانب بڑھے۔
احسن ہاتھ عقب میں کے جا کر دراز کھولنے کی سعی کر رہا تھا۔
“ہلنا بھی مت۔۔۔ ”
وہ گلدان توڑ کر احسن کے گلے پر شیشہ رکھتا ہوا بولا۔
وہ گردن اوپر اٹھاےُ دونوں کو دیکھنے لگا۔
“تو جا کر کمرے میں دیکھ۔۔۔ ”
وہ دوسرے کو اشارہ کرتا ہوا بولا۔
وہ اثبات میں سر ہلاتا وائز کے کمرے میں چلا گیا۔
کمرہ خالی تھا وہ بے دھیانی میں کھڑی سے باہر دیکھنے لگا تو نظر وائز سے ٹکرائی جو گاڑی سے باہر نکل رہا تھا۔
“بھائی نکل وہ آ رہا ہے۔۔۔ ”
وہ دوسرے کو کہتا باہر نکل گیا۔
دوسرا لڑکا احسن کو دھکا دیتا دروازہ بند کر کے باہر بھاگ گیا۔
وہ پیشانی مسلتا باہر نکلا لیکن وہ دونوں غائب ہو چکے تھے۔
“کہاں گئے؟”
وہ سیڑھیوں کے وسط میں کھڑا تھا۔
“عجیب بات ہے اتنی جلدی نیچے کیسے جا سکتے ہیں؟”
وہ بڑبڑاتا ہوا واپس اوپر آ گیا۔
اسی اثنا میں وائز بھی آ گیا۔
“یہ سب کیا؟”
وہ ہکا بکا رہ گیا۔
“کہاں تھے آپ؟”
احسن آبرو اچکا کر بولا۔
“میں کچھ کام سے گیا تھا لیکن یہ سب؟ زرش کہاں ہے؟”
وہ پھٹی پھٹی نگاہوں سے ٹوٹے ہوۓ گلدان اور گری ہوئی چیزوں کو دیکھ رہا تھا۔
“شاید کمرے میں ہوں دیکھ لیں۔۔۔ ”
وہ کہتا ہوا کچن کی جانب بڑھ گیا۔
“زرش دروازہ کھولو۔۔۔ ”
وہ دروازہ بجاتا ہوا چلایا۔
زرش چہرہ صاف کرتی دروازے کے پاس آئی۔
“یار میں ہوں دروازہ تو کھولو۔۔۔ ”
اس کی پریشانی میں اضافہ ہو رہا تھا۔
وہ دروازہ کھول کر شکوہ کناں نظروں سے اسے دیکھنے لگی۔
“کیا ہوا تمہیں؟ کوئی مجھے بتاےُ گا یہاں ہوا کیا یے؟”
وہ چلا کر بولا تاکہ احسن بھی سن لے۔
“کہاں بزی تھے تم؟ جانتے ہو میں نے کتنی کالز کیں تمہیں لیکن تم۔۔۔ ”
وہ تاسف سے دیکھتی اندر چلی گئی۔
“ہوا کیا ہے مجھے بتاؤ تو سہی۔۔۔ ”
وہ اس کے پیچھے آ گیا۔
“پتہ نہیں وہ کون تھے۔۔۔ لاک کھول کر اندر آ گئے اور پھر اس کے بعد احسن کی آواز سنائی دی۔۔۔ مجھے نہیں پتہ کیا ہوا ہے۔۔۔ ”
وہ چہرے پر ہاتھ رکھے رونے لگی۔
“وہ تمہارے کمرے میں تو نہیں آےُ؟”
وہ اس کے سامنے گھٹنے زمین پر رکھے بول رہا تھا۔
وہ نفی میں سر ہلانے لگی۔
“اوکے آئم سوری۔۔۔ فون میرے پاس نہیں ہے سعد کے پاس تھا۔”
وہ اس کے چہرے سے ہاتھ ہٹاتا ہوا بولا۔
“اگر احسن نہ آتا تو سوچا ہے تم نے کیا ہوتا؟”
آنکھیں آسوؤں سے لبریزہتھیں۔
“تم روتی ہوئی اچھی نہیں لگتی۔۔۔ میں دیکھتا ہوں یہ سب بھی۔”
وہ اس کے آنسو چنتا ہوا بولا۔
“وائز مجھے ڈر لگ رہا ہے۔۔۔ ”
آنسوؤں کی روانی میں اضافہ ہو گیا۔
“میں آ گیا ہوں نہ فکر مت کرو۔۔۔ ”
وہ اسکے ہاتھ اپنے ہاتھ میں لئے بول رہا تھا۔
“ہم کسی دوسری جگہ شفٹ ہو جاتے ہیں۔۔ ”
وہ اس کے جھکے ہوۓ سر کو دیکھ رہی تھی۔
“ضرورت نہیں بس مجھے ایک دو دن کا ٹائم دو۔۔۔ میں سب سنبھال لوں گا۔ امی کو بلوا لیتا ہوں پھر تم اکیلی نہیں رہو گی۔ اب تم آرام کرو میں احسن سے بات کر لوں۔”
وہ کہتا ہوا کھڑا ہو گیا۔
وہ خاموش اسے دیکھنے لگی۔
“میں لاؤنج میں بیٹھا ہوں اس لئے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔”
وہ دروازہ ہاتھ میں پکڑے بول رہا تھا۔
وہ چہرہ موڑ کر پانی پینے لگی۔
وائز دروازہ بند کرتا باہر نکل گیا۔
“کون تھے؟”
وہ احسن کو دیکھتا ہوا بولا۔
“معلوم نہیں چہرے پر نقاب تھا۔”
وہ گلاس سلیب پر رکھتا ہوا بولا۔
“تم کب آےُ؟”
وہ آبرو اچکا کر بولا۔
“ابھی پانچ منٹ پہلے۔۔۔ امی نے بھابھی کے لئے کھانے کو کچھ بھیجا تھا میرا خیال ہے باہر ہی گر گیا۔”
وہ باہر دیکھتا ہوا بولا۔
“آپ کو کیا لگتا ہے یہ چاچی کا کام ہے؟”
وہ صوفے پر بیٹھتا ہوا بولا۔
“کچھ کہا نہیں جا سکتا۔۔۔ ”
وہ نفی میں سر ہلاتا ہوا بولا۔
“ہاں ایک بات وہ آپ کو پہچانتے تھے۔ یقیناً آپ کی تصویر دی گئی ہو گی۔”
وہ بالوں میں ہاتھ پھیرتا ہوا بولا۔
“یہ چوٹ ابھی لگی ہے؟”
وہ اس کی پیشانی پر ہاتھ رکھتا ہوا بولا۔
“معمولی سی ہے۔۔۔ ”
وہ اس کا ہاتھ ہٹاتا ہوا بولا۔
وائز خاموش ہو گیا۔
اس کا دماغ مختلف نوعیت کی سوچوں میں الجھا ہوا تھا۔
~~~~~~~~
“نور تم خوش نہیں ہو؟”
حمزہ اس کے سامنے آتا ہوا بولا۔
“نہیں ایسی کوئی بات نہیں۔”
وہ جبراً مسکرائی۔
“میں نوٹ کر رہا ہوں۔۔۔ نکاح کے بعد سے تم کچھ عجیب سی ہو گئی ہو۔”
وہ بغور اس کا چہرہ دیکھتا ہوا بولا۔
“حمزہ ایسی کوئی بات نہیں۔۔۔ بس تم جانتے ہی ہو وہ وائز بھائی والا واقعہ تو امی پریشان رہتی ہیں بس اسی وجہ سے۔”
وہ نظریں چراتی بہانہ بنانے لگی۔
“دیکھو میں نے نکاح اس لئے پہلے کیا تاکہ ہم ہنی مون پر باہر جا سکیں۔۔۔ اب تم بتاؤ کہاں جانا چاہتی ہو؟”
وہ ریلنگ پر ہاتھ رکھے مسکراتا ہوا بولا۔
نور کی نظروں کے سامنے کچھ ماضی کے پل گردش کرنے لگے۔
“اچھا چلو بتاؤ تمہیں کون سا ملک پسند ہے؟ ہم ہنی مون کے لئے وہیں جائیں گے۔”
وہ بائیں آنکھ دباتا ہوا بولا۔
“تم مذاق کر رہے ہو نہ۔۔۔ ”
وہ اس کی بازو پر مکا جھڑتی ہوئی بولی۔
“ارے نہیں مذاق کیوں۔۔۔ ایسی باتیں سنجیدگی سے کی جاتی ہیں اب جلدی بتاؤ میں ویزہ تیار کرواؤں۔۔۔ ”
وہ شرارت سے بولا۔
“سوئٹزرلینڈ۔۔۔۔”
وہ اشتیاق سے بولی۔
“ہممم۔۔۔ دیکھو کوئی ایسا ملک ہو جس کا نام این سے شروع ہوتا ہو۔”
وہ لب دباےُ مسکراہٹ دبا رہا تھا۔
“یہ کیا بات ہوئی؟ تم ہو ہی بدتمیز میں جانتی ہوں۔۔۔ ”
وہ خفا انداز میں کہتی چلنے لگی۔
“اچھا چلو لکھ لو کہیں پر۔۔۔ احسن رضی حیات تمہیں وہیں لے کر جاےُ گا۔”
وہ اس کی کلائی پکڑتا ہوا بولا۔
احسن کی جانب نور کی پشت تھی۔
وہ دھیرے سے مسکرانے لگی۔
“خالہ آ جائیں گیں۔۔ ”
وہ اپنا ہاتھ چھڑواتی ہوئی بولی۔
“کہاں گم ہو گئی؟”
حمزہ اس کے سامنے چٹکی بجاتا ہوا بولا۔
وہ جیسے حال میں واپس آئی۔
” کہیں نہیں۔۔۔تم جہاں کہو گے وہیں ٹھیک ہے۔۔۔”
وہ اداسی سے بولی۔
“میں تمہاری خوشی کو ترجیح دے رہا ہوں اور تم میری مرضی کو۔۔۔ ”
اس نے مسکراتے ہوۓ بات ادھوری چھوڑ دی۔
“میرا خیال ہے امی بلا رہی ہیں۔۔۔”
وہ ریلنگ پر ہاتھ رکھے نیچے جھانکتی ہوئی بولی۔
“ٹھیک ہے پھر بعد میں طے کر لیں گے۔”
وہ مسکراتا ہوا زینے اترنے لگا۔
“خواب تو وہ تھے جو تمہارے ساتھ دیکھے تھے۔۔۔ ”
وہ بے خیالی میں کہتی احسن سے مخاطب تھی۔
~~~~~~~~
“جینی کہاں ہے؟”
اس کا چہرہ غصے کے باعث سرخ ہو چکا تھا۔
“اپنے کمرے میں ہو گی۔۔۔ ”
عینی اسے دیکھتی گھبرا کر بولی۔
وہ سرعت سے سیڑھیاں پھلانگتا اوپر چلا گیا۔
“تم کیا سمجھتی ہو مجھے علم نہیں ہوگا؟”
وہ جینی وہ گلے سے پکڑ کر دیوار کے ساتھ لگاتا ہوا بولا۔
وہ بوکھلا کر اسے دیکھنے لگی۔
اس اچانک حملے کے لیے وہ تیار نہ تھی۔
وہ آسمانی رنگ کی شرٹ پہنے ہوۓ تھا جو باہر نکلی ہوئی تھی۔ شیو بڑھی ہوئی، سیاہ آنکھوں سے چنگاریاں نکل رہی تھیں۔
بال بڑے ہو کر کنپٹی پر آےُ ہوۓ تھے۔
“تم پاگل ہو کیا۔۔۔ ”
وہ اس کا ہاتھ ہٹانے کی سعی کرتی ہوئی بولی۔
وائز کی فولادی گرفت کو ہٹانا سہل نہیں تھا۔
جینی کی آنکھیں پھیل گئیں۔
وائز نے گرفت ڈھیلی کی تو وہ اس کا ہاتھ ہٹاتی کھانسنے لگی۔
“آئیندہ مجھ سے اور میری فیملی سے دور رہنا ورنہ انجام بہت برا ہو گا۔”
وہ قہر برساتی نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا۔
“ڈرتی نہیں ہوں میں تمہاری دھمکیوں سے۔۔”
وہ لمبے لمبے سانس لے رہی تھی۔
“جو میں کروں گی تمہاری سوچ سے بھی پرے ہے اور یہ تم اچھی طرح جانتی ہو وائز رضی حیات کسی کے باپ سے بھی نہیں ڈرتا۔۔۔ ”
وہ ہنکار بھرتا کمرے سے باہر نکل گیا۔
وہ لب بھینچے فرش کو گھورنے لگی۔
“بھاڑ میں جاؤ تم اور وہ تمہاری بیوی۔۔۔ ”
وہ ڈریسنگ پر پڑے سامان کو ہاتھ مارتی ہوئی بولی۔
ہر شے زمین بوس ہو چکی تھی۔
~~~~~~~~~
“کس کے ساتھ آئی ہے تو؟”
زاہد اسے دیکھتا ہوا چارپائی سے اتر آیا۔
“عمر کے ساتھ۔۔۔ ”
وہ گھبرا کر دو قدم پیچھے ہٹ گئی۔
“کہاں ہے عمر؟ سچ سچ بتا دے کس بے غیرت کے ساتھ آئی ہے تو؟”
وہ حیا کی بازو دبوچتا ہوا بولا۔
“امی دیکھیں اسے۔۔۔ دن بہ دن پاگل ہوتا جا رہا ہے میں عمر کے ساتھ آئی ہوں وہ باہر دکان پر رک گیا تھا۔۔۔ ”
وہ اپنی بازو چھڑوانے کی سعی کر رہی تھی۔
“زبان تو دیکھو کیسے قینچی کی طرح چل رہی ہے؟ گتی سے باہر کھینچ لوں گا اگر میرے سامنے چلائی تو۔۔۔ ”
وہ خونخوار نظروں سے گھورتا ہوا بولا۔
“اب تو اسے بخش دو۔۔ نکاح ہو گیا ہے بہت جلد رخصت بھی ہو جاےُ گی۔۔۔ ”
صفیہ اسے دھکا دیتی ہوئی بولی۔
“اس کی حرکتیں ہیں بخشنے والی۔۔۔ ”
وہ آگ بگولہ ہو گیا۔
حیا اشک بہاتی صفیہ کے عقب میں چھپ گئی۔
“کیا کر دیا ہے اس نے؟”
عمر اندر آتا ہوا بولا۔
“یہ تمہارے ساتھ آئی ہے؟ پتہ چلے کل کو کوئی نیا عاشق آ جاےُ اس کا بعد میں کیا جواب دوں گا رضی حیات کو میں۔۔۔ ”
وہ صفیہ پر دھاڑا۔
“جی یہ میرے ساتھ آئی ہے۔۔۔ ”
عمر پرسکون انداز میں بولا۔
“ہممم۔۔”
وہ کہتا ہوا چارپائی پر بیٹھ کر روٹی کھانے لگا۔
“اپنی بہن پر یقین نہیں ہے تمہیں۔۔۔ ”
صفیہ اسے کمرے میں بھیجتی ہوئی بولی۔
“ہاں نہیں ہے۔۔۔کچن میں جاؤ تم۔ واحد میں کمانے والا ہوں اس گھر کا سربراہ،، گریز برتا کرو بات کرتے ہوۓ۔۔۔ ”
وہ سر جھٹکتا کھانے لگا۔
“تم ہاتھ منہ دھو لو پھر ایک ساتھ کھانا کھا لینا۔۔۔ ”
وہ عمر سے مخاطب تھی۔
“بات کرتا ہوں میں اسے رخصت کر کے لے جائیں یہاں سے۔۔۔ پڑھائی سسرال والے کروا لیں گے پوری۔”
وہ کہاں خاموش رہنے والا تھا۔
صفیہ اسے نظر انداز کرتی کچن میں چلی گئی۔
عمر سرد آہ بھرتا واش روم کی جانب چل دیا۔
جب سے اس کے ماں باپ گئے تھے اس گھر میں وہ یہی تماشے دیکھ رہا تھا ہر روز زاہد ایک نیا مسئلہ کھڑا کر دیا اور مجرم ہمیشہ حیا ہوتی۔
“میں سمجھتا تھا میرا کوئی نہیں ہے یہ زیادتی ہے۔۔۔ لیکن میرے خیال میں کوئی نہ ہونا ہی بہتر ہے۔”
وہ حیا کے بارے میں سوچتا ہوا بڑبڑایا۔
“حیا تم ٹھیک ہو؟”
وہ اس کے سامنے بیٹھتا ہوا بولا۔
“پہلی بار تو نہیں ہو رہا یہ سب۔۔۔ ”
وہ تلخی سے بولی۔
“زاہد بچپن سے ایسا ہی تھا یا تایا ابو کی وفات کے بعد؟”
آج اس نے یہ سوال کر ہی لیا۔
“میں نہیں جانتی۔۔۔ میں جب سے کالج میں گئی ہوں وہ ایسا ہی ہے۔”
وہ سرد مہری سے بولی۔
“آج امی ابو کو گئے تین سال ہو گئے ہیں۔۔۔ ”
وہ آسودگی سے بولا۔
حیا خاموش تھی شاید اس کے پاس ہمدردی کے دو بول بھی نہیں تھے۔
“تم اپنا باقی کا آدھا گھر کب سیل کرو گے؟”
اس نے موضوع تبدیل کیا۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...