وہ سیڑھیاں اُترتی نیچے آئی تو لاؤنج میں ہی اسے سیما خالہ بیٹھی چائے پیتی نظر آ گئیں۔ وہ مسکراتی ان کے پاس چلی گئی۔
” اچھا ہوا لڑکی تم آ گئیں، رحیم ابھی تمہارا ہی پوچھ رہا تھا۔ تم تیار ہو؟ ” سیما خالہ اسے میں برقعے میں دیکھتے ہوئے بولیں۔
” جی !! میں تیار ہوں۔ لیکن آپ بھی چلیں نا مزہ آئے گا۔” آئینور خوشی سے چہکتے لہجے میں بولی۔
” نہیں بابا !! تم جاؤ، میں تو گھر پر ہی آرام کروں گی۔” سیما خالہ نے کہہ کر چائے کا کپ منہ سے لگا لیا۔
” چلیں ٹھیک ہے !! میں جلدی آ جاؤں گی۔” آئینور نے کہتے ہوئے ان کے آگے سر جھکا دیا۔
” ہاں !! جلدی آنا۔”
سیما خالہ نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔ پھر وہ انہیں خداحافظ کہتی باہر چلی گئی۔ جہاں رحیم کھڑا اس کا ہی انتظار کر رہا تھا۔
۔*******************۔
موسم قدرے خوشگوار تھا۔ آسمان پر بادل چھائے ہوئے تھے۔ ایسے میں وہ پارک میں موجود بینچ پر بیٹھی مسکراتے چہرے کے ساتھ سامنے ان بچوں کو کھیلتا دیکھ رہی تھی۔ پاس ہی رحیم کھڑا خود بھی مسکراتے ہوئے بچوں کو دیکھ رہا تھا جو موسم کے مزے لوٹنے کے ساتھ ساتھ کھیلنے میں لگے تھے۔ بارش کے موسم میں یوں کھلی فضا میں سانس لینے کا مزہ ہی کچھ اور تھا۔ آئینور مسرور سی ماحول کے مزے لے رہی تھی۔ اسے کافی وقت گزر چکا تھا یہاں آئے۔ لیکن اس کا دل ہی نہیں بھر رہا تھا کہ یہاں سے جائے اور رحیم نے بھی جانے کا نہیں کہا تھا، تو وہ بھی خاموشی سے بیٹھی رہی۔ اس کی نظر بچوں پر تھی جو گھانس پر بیٹھے اپنے ماں باپ کے ساتھ کھیلنے میں لگے تھے۔ اسے اپنا بچپن یاد آنے لگا۔ جب وہ بھی “ماہ نور” کے ساتھ پارک جایا کرتی تھی۔ یکدم اس کی آنکھیں ماں کو یاد کر کے نم ہونے لگیں۔ وہ اُٹھ کھڑی ہوئی۔
” چلیں۔۔۔ رحیم بھائی !! ”
آئینور کے بھائی کہنے پر چونک کر اس نے آئینور کی طرف دیکھا۔ نقاب سے جھانکتی آنکھیں اس کے جواب کی منتظر تھیں۔
“جی !! ”
وہ اثبات میں سر ہلاتا گاڑی کی طرف چل دیا۔ آئینور بھی اس کے پچھے چل دی۔ گاڑی کے پاس پہنچ کر رحیم نے اس کے لیے پچھلا دروازہ کھولا۔ وہ برقعہ سنبھالتی گاڑی میں بیٹھ گئی۔ رحیم اس کی طرف کا دروازہ بند کرتا فوراً ڈرائیونگ سیٹ پر آ کر بیٹھ گیا اور گاڑی سٹارٹ کر کے گھر کے راستے پر ڈال دی۔
راستے میں بھی آئینور باہر دیکھ رہی تھی۔ رحیم تھوڑی تھوڑی دیر بعد بیک مرر سے اس پر نظر ڈال لیتا۔ اسے اس کا بھائی کہنا اچھا لگا تھا۔ وہ ابھی بھی اسے ہی دیکھ رہا تھا کہ اچانک گاڑی کا توازن بگڑا، وہ ڈگمگا گئی۔
پیچھے سے فائر ہوا تھا۔ جو گاڑی کے پچھلے شیشے کو چکنا چور کر گیا تھا۔
” یہ کیا ہو رہا ہے۔” آئینور خود کو سنبھالتی بامشکل بولی۔ آنکھیں خوف سے پھیل گئی تھیں۔
” آپ سیٹ کو مضبوطی سے پکڑلیں اور نیچے جھک جائیں۔”
رحیم نے کہہ کر گاڑی کے سٹیرنگ ویل پر گرفت مضبوط کردی۔ وہ بے قابو ہوتی گاڑی کو قابو میں کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ سنسان سڑک پر گاڑی ادھر سے اُدھر ڈگمگا رہی تھی کہ تبھی ایک اور فائر کی آواز فضا میں گونجی اور اس بار گولی گاڑی کے اگلے شیشے کو توڑتی ہوئی گزری تھی۔ رحیم نے گن نکال کر پیچھے ہاتھ کیا اور اندھادھند فائرنگ شروع کر دی۔
پیچھے آتی بلیک مرسیڈیز نے بھی اندھادھند فائر کرنے شروع کر دیئے تھے۔ فضا میں صرف گولیوں کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔ رحیم ایک ہاتھ سے گاڑی چلاتا دوسرے ہاتھ سے فائر کرتا جا رہا تھا کہ اچانک گن میں گولیاں ختم ہوئیں۔ اس نے لب بھیچ کر گن کو ایک طرف پھینکا اور گاڑی کی رفتار تیز کر دی۔
پیچھے سے مسلسل فائرنگ ہو رہی تھی۔ رحیم سڑک پر ادھر سے اُدھر گاڑی کو کرتا تیز رفتاری سے بھگا رہا تھا۔ پیچھے آتی گاڑی نے بھی اپنی رفتار تیز کر دی۔ رحیم نے ان کو پاس آتا دیکھ گاڑی کا رخ گلیوں کی جانب موڑ دیا۔ تنگ گلیوں سے گاڑی گزارتا وہ بار بار پیچھے مڑ کر دیکھ رہا تھا۔ اس جگہ آبادی ہونے کے باعث پیچھے آتی گاڑی لوگوں کی آمدو رفت کی وجہ سے اپنی رفتار سست کر چکی تھی۔ مگر رحیم نے اپنی رفتار کم نہ کی تھی۔ وہ لوگوں کی پرواہ کیے بغیر گاڑی کو بھگا رہا تھا۔ لوگ گاڑی کو پاس آتے دیکھ ادھر سے اُدھر بھاگ رہے تھے۔ شور بڑھ گیا تھا۔ گلیوں میں بھگدڑ سی مچ اُٹھی تھی۔ رحیم نے ایک بار پھر مڑ کر پیچھے دیکھا۔ وہ گاڑی آہستہ آہستہ نظروں سے اوجھل ہو رہی تھی۔ جب پوری طرح سے گاڑی دکھائی دینا بند ہو گئی تو رحیم نے شکر کا سانس لے کر گاڑی کی رفتار کم کی پھر چہرہ موڑ کر آئینور کو دیکھا جو نیچے جھکی ہوئی تھی۔
” اب آپ اُٹھ جائیں۔ خطرہ ٹل گیا ہے۔”
رحیم نے اسے دیکھتے ہوئے مسکرا کر کہا مگر آئینور کے وجود میں کوئی حرکت نہ ہوئی۔
” بہنا اُٹھ جاؤ ڈرو نہیں، بس اب گھر آنے والا ہے۔” رحیم نے کہتے ہوئے چہرہ سامنے کرلیا اب اس کی نظریں سڑک پر تھیں۔ آئینور یونہی نیچے جھکی ہوئی تھی۔ اس کے دوبارہ کہنے پر بھی اس نے سر تک نہ اُٹھایا۔
“بیچاری !! کافی ڈر گئی۔”
رحیم نے سوچتے ہوئے گاڑی کی رفتار تیز کر دی۔ آئینور کی وجہ سے اب وہ جلد از جلد گھر پہنچنا چاہتا تھا۔ تیز رفتار سے سڑک پر دوڑتی تھوڑی ہی دیر میں گاڑی گھر کے دروازے کے سامنے جا رکی۔ چوکیدار نے آنکھوں میں حیرت لیے گاڑی کی ابتر حالت کو دیکھا۔
” ایسے کیا دیکھ رہے ہو جلدی دروازہ کھولو۔”
رحیم کے غصّے سے کہنے پر چوکیدار گڑبڑا گیا اور فوراً ہی دروازہ کھول دیا۔ رحیم گاڑی کو اندر بڑھا لے گیا۔ پورچ میں گاڑی روکتے ہی اس نے پیچھے مڑ کر آئینور کو دیکھا۔ وہ اب بھی اُسی حالت میں تھی۔
” گھر آ گیا، اب تو اُٹھ جائیں۔”
رحیم کہتے ہوئے سیٹ کی پشت پر ہاتھ رکھتا تھوڑا نیچے کو جھکا مگر اگلے ہی لمحے چونک اُٹھا۔ ہاتھ پر کچھ نمی سی محسوس ہوئی تھی۔ اس نے سیٹ کی پشت سے ہاتھ ہٹا کر اپنے سامنے کیا تو دنگ رہ گیا۔ ہاتھ پر خون تھا جو یقیناً آئینور کا تھا۔
” یہ۔۔۔ یہ کیا ہو گیا، اب کیا کروں؟ سی۔۔۔ سیما خالہ ہاں، ان کو بلاتا ہوں۔”
وہ خود سے بڑبڑاتا فوراً گاڑی سے نکلا اور اندر کی جانب بڑھ گیا۔ اسے خوف محسوس ہو رہا تھا۔ کوئی بعید نہیں تھا، اس حادثے کی خبر ہوتے ہی کردم اس کی جان لے لیتا۔ اس لیے اب اسے جلد از جلد کچھ کرنا تھا، تاکہ آئینور کی جان بچائی جاسکے۔
۔*******************۔
اڈے پر آئے مال کو حفاظت سے ٹرک سے نکالا رہے تھا۔ فاروق اپنی نگرانی میں مال ٹرک سے اُتروا رہا تھا۔ وہیں رحمت کھڑا مال کے ڈبے کھلوا کر مال چیک کر رہا تھا جب کردم ان کے پاس چلا آیا۔
” رحیم ابھی تک نہیں آیا؟ ” جیب میں ہاتھ ڈالے وہ کھڑا پوچھ رہا تھا۔
” نہیں دادا۔” جواب رحمت کی طرف سے آیا۔
” ٹھیک ہے !! آجائے تو میرے پاس بھیجنا۔”
” جی ٹھیک ہے۔” رحمت نے تابعداری سے بولا۔
کردم ایک نظر سب پر ڈالتا جانے کے لیے پلٹا ہی تھا کہ فاروق کی آواز پر رک گیا۔
” دادا وہ “مرسل” ( جمشید کا ماتحت ) کا فون آیا تھا۔” فاروق اس کے پاس آ کر بولا۔
” اچھا !! کیوں فون کیا تھا؟ ” کردم بیزار سا پوچھنے لگا۔
” دادا آپ تو جانتے ہیں۔ کل رات ملتان میں لڑکیوں کی سمگلنگ کے وقت پولیس نے چھاپا مارا تھا۔” فاروق نے اسے یاد دلایا۔
” تو؟ ”
کردم کی بیزاری میں زرا فرق نہ آیا۔ وہ ویسے ہی بیزار سا پوچھ رہا تھا۔
” تو جمشید بھا چاہتے ہیں کہ آپ ان کے آدمیوں کو چھڑوانے میں ان کی مدد کریں۔ آپ کا اور غفار کا فون کل رات سے بند تھا اس لیے انہوں نے مرسل کے زریعے مجھے فون کیا۔” فاروق کہہ کر خاموش ہو گیا۔ اب وہ کردم کے جواب کا منتظر تھا جو ماتھے پر بل ڈالے اس کے سامنے کھڑا تھا۔
” یہ میرا مسئلہ نہیں ہے۔ اب فون آئے تو بول دینا مجھے اس معاملے سے دور رکھیں۔” کردم ناگواری سے کہتا وہاں سے چلا گیا۔
فاروق نے رحمت کی طرف دیکھا جو اسے ہی دیکھ رہا تھا۔
” دادا کچھ عجیب نہیں ہیں؟ دنیا کے ہر بُرے کام میں ملوث ہیں سوائے لڑکیوں کی اسمگلنگ کے، نہ خود اسمگلنگ کرتے ہیں نہ کسی کی اس سلسلے میں مدد کرتے ہیں۔”
” اب یہ تو اُنہیں ہی معلوم ہوگا، معاملہ کیا ہے۔”
فاروق کی بات پر رحمت کندھے اچکا کر کہتا واپس اپنے کام میں لگ گیا۔ فاروق بھی سر جھٹکتا ٹرک کی جانب بڑھ گیا، جس میں سے ابھی بھی مال اُتارا جا رہا تھا۔
۔*******************۔
سٹریچر پر اسے لیٹائے وہ ہسپتال میں آ گے بڑھتے جا رہے تھے۔ ارد گرد موجود لوگ آتے جاتے اسے دیکھ رہے تھے۔ جس کے خون سے سٹریچر تک رنگ گیا تھا۔ رحیم اور سیما خالہ اسے لیے ڈاکٹر کے روم کے سامنے جا رکے ان کے ساتھ نرس بھی موجود تھیں۔
” سیما خالہ آپ یہیں رکیں، میں ڈاکٹر سے بات کرتا ہوں۔” رحیم کہتا ہوا روم میں چلا گیا۔
اندر داخل ہو کر اس نے دروازہ لاک کیا اور ڈاکٹر کی طرف بڑھا جو آنکھیں سکیڑے اس کو گھور رہا تھا۔
” یہ کیا کرہے ہو؟ اور اندر کس نے آنے دیا؟ ” ڈاکٹر غصّے سے بولا۔
رحیم اس کی بات کو نظر انداز کرتا آگے بڑھا اور کالر سے پکڑ کر ایک جھٹکے سے اپنے مقابل کھڑا کیا۔
” چل باہر جو لڑکی اسٹریچر پر ہے اُس کا فوراً آپریشن شروع کروا ورنہ تیری آنے والی سات نسلوں کو ہمیشہ علاج کی ضرورت پڑتی رہے گی۔” رحیم دانت پیستا ہوا بولا۔
” یہ کیا بدتمیزی ہے چھوڑو مجھے، میں ابھی گارڈ کو بلاتا ہوں۔”
ڈاکٹر ایک ہاتھ سے اپنا کالر چھڑوانے کی کوشش کرتا دوسرا ہاتھ ریسیور کی جانب بڑھانے لگا کہ تبھی رحیم نے گن نکال کر اس کے سر پن تان دی۔
” لگتا ہے تجھے سمجھ نہیں آ رہی، ابھی اُتاروں تیری کھوپڑی میں گولیاں؟ ” رحیم غرایا۔
” دیکھو میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔ رحم کرو !! ” ڈاکٹر نے اس کے سامنے ہاتھ جوڑ دیئے۔
” یہ ڈرامہ چھوڑ اور باہر چل کر اُس لڑکی کو دیکھ جلدی۔” رحیم کی بات پر ڈاکٹر نے سر ہلایا جس پر رحیم نے اسکا کالر چھوڑ دیا۔ ڈاکٹر فوراً دروازے کی جانب بڑھ گیا۔ رحیم نے بھی گہرا سانس لے کر گن واپس پینٹ میں پھنسا لی اور کوٹ ٹھیک کرتا خود بھی اس کے پیچھے چل دیا۔
باہر آیا تو نرس سیما خالہ سے بحث کرتی نظر آئی۔
” کیا ہو رہا ہے یہاں؟ ” ڈاکٹر نے ان کے قریب جا کر پوچھا۔
” ڈاکٹر اس پیشنٹ کو گولی لگی ہے۔ یہ پولیس کیس ہے، میں کب سے انہیں سمجھا رہی ہوں مگر یہ سن ہی نہیں رہیں۔” نرس پریشان سی بولی۔
اس کی بات پر ڈاکٹر نے ایک نظر آئینور کی طرف دیکھا جو اب بھی برقعے میں موجود اسٹریچر پر پڑی تھی۔ اس نے اپنا رخ رحیم کی طرف کیا اور کچھ بولنے کے لیے منہ کھولا ہی تھا کہ تبھی رحیم نے بائیں ہاتھ سے کوٹ ہٹا کر اسے گن دکھائی۔ ڈاکٹر نے فوراً اپنا رخ نرس کی طرف موڑ لیا۔
” آپ پیشنٹ کو آپریشن تھیٹر میں لے کر جائیں اور آپریشن کی تیاری شروع کریں۔ ہم پولیس کا انتظار نہیں کر سکتے۔” ڈاکٹر کے کہنے پر نرس فوراً اسٹریچر لیے آپریشن تھیٹر کی جانب بڑھ گئی۔ اس کے جاتے ہی رحیم ڈاکٹر سے گویا ہوا۔
” اُسے کچھ ہونا نہیں چاہیئے ورنہ سلامت تم بھی نہیں رہو گے۔”
ڈاکٹر تھوک نگلتا اثبات میں سر ہلا کر وہاں سے چلا گیا۔ اتنا تو سمجھ گیا تھا کہ رحیم ایک سرپھرہ انسان ہے۔ اس سے کچھ بھی کہنا موت کو دعوت دینا تھا۔
” میری بچی ٹھیک تو ہو جائے گی نا؟ ” سیما خالہ روتے ہوئے پوچھنے لگیں۔ کچھ ہی عرصے میں وہ انہیں بیٹی کی طرح عزیز ہوگئی تھی۔
” آپ فکر نہ کریں۔ وہ ٹھیک ہو جائے گی اور بس اب رونا بند کریں، میں زرا دادا کو کال کر لوں۔”
رحیم کہتا ہوا وہاں سے چلا گیا۔ سیما خالہ وہیں بینچ پر بیٹھ کر آئینور کے لیے دعائیں مانگنے لگیں۔
۔******************۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...