سالک کمرے میں لوٹا تو چھوٹی سی ٹرے میں دودھ کا گلاس تھا اور ساتھ ہی گولیاں تھیں۔
’’دودھ پی کر یہ میڈیسن لے لو۔ درد میں افاقہ ہو گا۔‘‘ ٹرے اس کے سامنے کئے وہ کہہ رہا تھا۔ وہ ایک پل کو ہی اس اونچے لمبے چوڑے مرد کو دیکھ سکی تھی۔
’’شکریہ ……مجھے نہیں دودھ پینا۔‘‘ انداز میں اب بھی نروٹھا پن تھا۔ صاف انکار کیا تھا۔
’’تمہیں پلانے، یا خدمتیں کرنے کا مجھے بھی شوق نہیں ہے۔ تمہاری سسکیوں سے مجھے نیند نہیں آئے گی جبکہ میں سونا چاہتا ہوں۔ یہ گولیاں درد میں افاقہ کریں گی۔‘‘ سالک کے لہجے میں بھی نرمی شاید چند لمحوں کے لئے آئی تھی۔ اس کا کڑوا لہجہ سن کر وہ اپنے لب و لہجے کو بھی کڑوا ہونے سے نہیں روک سکا تھا۔
’’مجھے بھی کوئی شوق نہیں تھا۔ کس نے کہا تھا راستے میں لیٹنے کو…….سارا قصور آپ کا ہے۔ اتنی ہی ناقابل برداشت ہوں تو کہہ دیا ہوتا میں خود ہی کمرے سے نکل جاتی۔ کم از کم آپ کو زمین پر سونے کی زحمت تو نہ اٹھانا پڑتی۔ دوسرے میں نے دعوت نہیں دی تھی ہمدردی جتانے کی۔ منع کیا تھا میں نے……‘‘ وہ اس سے زیادہ تند لہجے میں کہہ گئی تھی۔سالک کے اندر اک اشتعال سا برپا ہونے لگا۔ یہ سب زبان درازی کڑواہٹ کا مظاہرہ کرنا اشتعال انگیزی وغیرہ قسم کے جذبات اس کی طبیعت کا خاصا نہیں تھے۔ وہ تو شروع سے ہی بہت تحمل مزاج تھا یہ تو دو تین دن سے یہ کیفیت ہو گئی تھی۔ آتے ہوئے وہ خوا مخواہ کامران سے جھگڑ پڑا تھا۔ یہاں آنے کے بعد اب یہ طنزیہ جملے وہ ایکدم اپنے ہونٹوں کو سختی سے بھینچ گیا۔ بہر حال وہ تکلیف میں تھی۔ اور اسے اس وقت میڈیسن کی ضرورت تھی۔
’’پلیز اسوہ! ہر بات میں ضد اچھی نہیں ہوتی۔‘‘ ایکدم نرمی سے کہہ رہا تھا۔ نہ چاہتے ہوئے بھی اسوہ نے گلاس تھام لیا۔ اس نے دل ہی دل میں شکر کا کلمہ پڑھا ، بغیر مزید کوئی نخرہ دکھائے اس نے میڈیسن بھی کھا لی تھی۔ اس نے ٹرے ایک طرف رکھ کر گھڑی دیکھی جو چار بجا رہی تھی۔ اسوہ اب بیڈ کے کنارے پر تھی۔ باقی سارا بیڈ خالی تھا پہلے موڑ پر پہلی رات میں ہی یہ تلخ تجربہ اسے کچھ سمجھا گیا تھا۔ سو دوبارہ زمین پر سونے کے بجائے بیڈ کی دوسری طرف آ کر تکیہ درست کیا۔
’’تم سوئو گی یا لائٹس جلتی رہنے دوں؟‘ ‘ اس نے پوچھا تھا۔ وہ کوئی جواب دئے بغیر دراز ہو کر چادر سر تک تان گئی تھی۔ وہ چند لمحے تاسف بھری نظروں سے اس کی پشت کو گھورتا رہا پھر آگے بڑھ کر لائٹس آف کر دیں۔
اسوہ نے بیڈ پر دوسرے وجود کو لیٹتے محسوس کر کے اندھیرے میں چادر چہرے سے ہٹا لی تھی ۔ ایک گہری سانس خارج کرتے ہوئے وہ غیر محسوس طریقے سے دائیں سے بائیں طرف کروٹ بدل گئی تھی جدھر وہ تھا۔
X X X
اسے آئے کتنے دن ہو گئے تھے۔ پہلے تو رشتہ داروں سے ملنا ملانا رہا پھر وہ بھی ختم ہو گیا۔ ہر وقت حویلی میں رہنے پر بور ہونے لگا تو چاچا جانی کے ساتھ زمینوں اور باغات پر چلا جاتا تھا۔ وقت آرام سے گزرنے لگا تھا۔ وہ جس مقصد کے لئے آیا تھا اسوہ کی طرف سے ابھی تک کوئی پیش رفت نہیں ہوئی تھی۔ بہت چاہنے کے باوجود وہ خود بھی کوئی بات نہیں کر پا رہا تھا۔ شروع کے چند دن تو الجھتا رہا مگر جب اسوہ کے انداز و اطوار دیکھے تو نجانے کیوں دل اپنے وعدے سے منکر ہونے کو چاہنے لگا تھا۔ گزرے وقت نے اسوہ کو کافی بدل دیا تھا۔ وہ حیران تھا ، وہ موڈی سی ، نک چڑھی سی، ضدی جھگڑالو لڑکی نجانے کہاں جا چھپی تھی ۔ اب تو جب بھی اسے دیکھا تو وہ ایک نئے روپ میں ہی نظر آئی ۔ کبھی بی بی جان کی خدمت کر رہی ہے، کبھی چچی جان کے ساتھ لگی ہوئی ہے، کبھی کچن میں مصروف ہے تو کبھی حویلی کے دوسرے کاموں میں الجھی ہوئی ہے۔ ملنے ملانے والے الگ اس کی سیرت و خوش گفتاری کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتے تھے۔ وہ اسے نہ پہلے سمجھ سکا تھا اور نہ ہی اب بلکہ اب تو سالک کا اپنا دل بھی مشکوک سا ہونے لگا تھا اس کی طرف سے ۔ وہ نجانے کیا کھیل کھیلنا چاہتی تھی۔ اتنے عرصے بعد خود اس نے خط لکھ کر اسے بلوایا تھا اور اب یہاں وہ تھا تو یوں بنی ہوئی تھی جیسے کوئی واسطہ ہی نہ ہو۔ وہ اسے سمجھنے سے قطعی قاصر تھا۔ بظاہر وہ خود کو پر سکون رکھے ہوئے تھا مگر اسوہ کے انداز اطوار دیکھ کر اس کے اندر تلاطم برپا ہونے لگے تھے۔ کبھی دل خوش کن احساسات میں گھرنے لگتا تھا تو کبھی بے شمار منفی سوچیں اسوہ کے گزشتہ روّیے یاد آ آ کر اس کے اندر کا سکون تباہ کرنے لگتے تھے۔ وہ کیا کرے وہ بے بس سا خود کو عجیب احمق سا محسوس کرنے لگا تھا۔
کچھ پہلی رات جو واقعہ ہوا تھا پائوں میں کانچ لگنے سے اگلے تین چار دن تک وہ شدید بخار میں مبتلا رہی تھی۔ اس کی بیماری کے دوران تو اس کے اندر ہمت ہی نہیں ہوئی تھی کہ ایک لفظ بھی کہہ لے بعد میں اس نے کئی دفعہ بات شروع کی تو وہ ادھر اُدھر ہونے لگی تھی۔ اور اس کی یہی حرکت اسے سب سے زیادہ کھٹک رہی تھی۔ وہ چاہتا تھا کہ بات جلد از جلد نمٹ جائے وہ چاچا جانی کے ساتھ زمینوں پر نکلا ہوا تھا، باغات کے کچھ معاملات تھے۔ چچا جان کے ساتھ اسے شہر جانا پڑ گیا تھا۔ دونوں عصر کے قریب گائوں پہنچے تھے۔ راستے میں اسوہ، اور اس کی مشترکہ پھوپو کا گھر پڑتا تھا، چاچا جان بہن کے گھر اتر گئے تھے۔ وہ تنہا ہی حویلی پہنچا تھا۔ سارے دن کی بھاگ دوڑنے اسے تھکا دیا تھا۔ آتے ہی وہ صوفے پر گرگیا تھا۔ پانی کی طلب ہو رہی تھی اٹھ کر جگ دیکھا وہ خالی تھا۔ پھر یونہی بستر پر الٹے منہ دراز ہو گیا تھا۔ ب بی جان اور چچی جان سے نیچے ہی سامنا ہو گیا تھا۔ اسوہ کہیں دکھائی نہیں دی تھی۔ شاید حویلی میں نہیں تھی سو وہ کمرے آ گیا تھا۔ ابھی اسے لیٹے کچھ دیر ہی ہوئی تھی کہ دروازہ کھلا اور کوئی اندر داخل ہوا تھا۔ اس نے چہرے کا رخ بدلا تو اسوہ چھوٹی ٹیبل پر کھانے کی ٹرے رکھ رہی تھی۔
’’کھانا کھا لیں…..بی بی جان نے بھجوایا ہے۔ ‘‘ شاید اسے عادت تھی بی بی جان یا چچی جان کے کہنے پر ہی اس کے کام کرتی تھی۔ یہاں سے جانے سے پہلے رخصتی سے پہلے اور اب بھی اسوہ نے اس کا جب بھی کوئی کام کیا تھابی بی جان چچی جان کا حوالہ ضرور دیا تھا۔ اس کے دل میں حسرت ہی رہی تھی کہ وہ خود سے بھی اس کے لئے کوئی کام کرے۔ یہ ایسی واحد ان ہونی خواہش تھی جو وہ اپنا حق سمجھتا تھا ، مگر واہ ری قسمت …….وہ اٹھ بیٹھا……..ایک گہری مگر بھرپور نظر اس کے اجلے ، بجلیاں گراتے سراپے پر ڈالی ، سوائے چند بار کے اس نے آج تک اسے بکھرے ہوئے حلئے میں نہیں دیکھا تھا۔ رواج کے مطابق لباس زیب تن کئے ہونٹوں پر ہلکی سی لپ اسٹک لگائے نازک سی گولڈ کی جیولری پہنے ہوئے تھی۔ پتا نہیں یہ بنائو سنگھار بھی اس نے کسی کے کہنے پر کیا تھا یا …….اس کے ہاتھوں میں پڑے سونے کے کنگنوں اور کانچ کی چوڑیوں کی کھنکھنا ہٹ سالک کو ڈسٹرب کرنے لگی تھی۔ وہ اٹھ کر باتھ روم میں گھس گیا۔
منہ ہاتھ دھو کر آیا تو وہ الماری میں سر دیئے نہ جانے کیا تلاش کر رہی تھی۔ وہ نظر انداز کئے ٹرے اپنے آگے سرکا کر کھانا کھانے لگا تھا۔ اس دوران وہ الماری سے ہٹی تو ڈریسنگ کی ترتیب شدہ چیزوں کو نئے سرے سے ترتیب دینے لگی۔ سالک کی اگرچہ ساری توجہ کھانے پر تھی مگر اس کی موجودگی بھی نظر انداز نہیں کر پا رہا تھا۔ ہر ہر حرکت اور ہر ہر انداز کو بغور دیکھ رہا تھا۔ اوپر سے اس کی چوڑیوں کی کھنک …….وہ کھانا ختم کر چکا تھا ، نیپکن سے ہاتھ صاف کر کے ٹرے پرے کھسکائی تو ادھر اُدھر مصروف اسوہ بھی قریب آ گئی۔
——————
’’بیٹھو مجھے تم سے ضروری بات کرنی ہے۔‘‘ تکئے کے سہارے کمر سیدھی کرتے ہوئے وہ بیٹھ گیا تھا۔ وہ ٹرے اٹھا رہی تھی جب اس نے کہا تھا۔ وہ سیدھی کھڑی ہو گئی۔
’’کہیئے ، میں سن رہی ہوں۔‘‘ وہی اکھڑ لہجہ تھا۔ تند خو……وہ الجھا…….سب کے ساتھ اس کا رویہ بہت ملنسار اور محبت کرنے والا ہوتا تھا۔
‘‘مجھے کھڑے کھڑے ہی تم سے یہ بات کرنا ہوتی تو میں آٹھ سال گمنام نہ رہتا ۔ بہت پہلے یہ مسئلہ حل ہو چکا ہوتا۔ چندمنٹ کے لئے تم بیٹھو۔‘‘ اس کا لہجہ سخت تھا۔
’’ایم سوری …….میں نیچے کچن میں کچھ کام چھوڑ کر آئی ہوں۔ بیٹھنے کا میرے پاس وقت نہیں۔ اتنی دیر جو رکی ہوئی تھی تو یہ امی جان کی تاکید تھی ورنہ…….بہر حال اگر آپ کی بات وضاحت طلب یا طویل ہے تو پھر کر لیجئے گا۔‘‘ وہ سالک کے لہجے کی سختی سے ذرا بھی مرعوب نہیں ہوئی تھی۔ جانے لگی تو سالک ایک دم اٹھ کر اس کے راستے میں آیا ۔ اسوہ کے لئے یہ عمل باعث حیرت تھا۔ سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگی۔
’’جب تمہارے پاس وقت ہی نہیں تھا تو میرے اچھی بھلی زندگی میں ایک دفعہ پھر پتھر کیوں ڈالا تم نے؟ کیوں بلوایا مجھے ؟ یہ خط کیا معنی رکھتا ہے؟ کیا چاہتی ہو اب تم؟‘‘ اپنی جیب سے خط نکال کر اس نے اس کے سامنے لہرایا تو بجائے وہ شرمندہ ہونے کے، مسکرانے لگی۔ مسکراہٹ بھی بڑی طنزیہ سی تھی اور نظروں کی کاٹ حد سے سوا۔
’’کیا چاہتی ہوں میں؟‘‘ اس نے خود سے دہرایا تھا پھر ہنس دی۔‘‘ بڑے عرصے بعد یہ سوال کرنے کا خیال آیا۔‘‘ وہ سالک کی آنکھوں میں دیکھنے لگی تھی۔ وہ لب بھینچ گیا۔ ’’ آپ کو کیوں بتائوں میں کیا چاہتی ہوں……ہٹیے پیچھے…….اس وقت میں مصروف ہوں بعد میں یہ بات زیر بحث لے آئیے گا۔ بے فکر رہیے کہیں نہیں بھاگی جا رہی میں۔ جبکہ بقول آپ کے آپ کچھ عرصے تک یہیں ہیں۔‘‘ کتنا پر اعتماد انداز تھا۔ شکست دیتا ہوا۔ نجانے وہ کیا تھی۔ ہمیشہ اسے مجبور کر دیتی تھی مگر اس دفعہ وہ مجبور نہیں ہونا چاہتا تھا۔ محبت میں انا بھی شامل ہونے لگی تھی۔ اب کے اس کے لئے اپنی ذات کی توہین برداشت نہیں تھی۔ اپنے رشتے کی پامالی گوارا نہیں تھی۔
’’اٹ از ٹو مچ اسوہ، تم کہیں نہیں جائو گی۔ میری بات سنے اور میرے سوال کا جواب دیئے بغیر …… ‘‘انگلی اٹھا کر غصے سے کہا۔
’’آپ مجھے روک بھی نہیں سکیں گے۔ میں ضرور جائوں گی۔‘‘ اس نے مسکرا کر سالک کی غصہ بھری آنکھوں میں دیکھتے ہوئے اس کے ضبط کو آواز دی تھی۔ انداز و لہجہ نہایت چیلنجنگ تھا۔ اچھا خاصا کول مائنڈڈ سالک ایک دم لوز ٹیمپرڈ ہوا تھا۔
’’کیا سمجھتی ہو؟ میں اگر کچھ نہیں کہتا تو بے بس و مجبور ہوں۔ مائنڈ اٹ تم میری بیوی ہو….. سارے اختیار رکھتا ہوں میں تم پر ……‘‘ اس کے ہاتھوں سے ٹرے چھین کر میز پر پٹختے ہوئے اس کا بازو تھام کر اسے بستر پر دھکیلتے وہ غرّایا تھا۔ زندگی میں پہلی دفعہ اس نے اپنی نیچر ، طبیعت اور مزاج کے خلاف کچھ کیا تھا۔ اسوہ نے منہ کے بل بستر پر گرنے کے بعد کوئی حرکت نہیں کی تھی۔ دوپٹہ اپنے ہی پائوں میں الجھ کر کچھ قالین اور کچھ بستر پر گر گیا تھا۔
’’اب مجھے جواب دو……کیوں بلوایا تھا تم نے مجھے؟ کیا ارادے ہیں تمہارے ؟‘‘ اس کا رخ سیدھا کیا تھا۔ پھولوں سے گندھی دراز کالے سیاہ بالوں کی چوٹی آگے آ گئی تھی۔ کہنیوں کے سہارے وہ ابھی بھی بے توازن نیم دراز سی تھی۔ جبکہ نظریں اب اس سے گریزاں تھیں۔ سالک کی کن پٹیاں جھلسنے لگیں۔
’’جواب دو اسوہ ، مجھے، میں کچھ بکواس کر رہا ہوں۔‘‘ آج تو اس کا لب و لہجہ کیا ہر انداز ہی نرالا تھا۔ اسوہ صرف ایک نظر اس پر ڈال کر رہ گئی۔ برسوں کی خواہش آج شاید پوری ہو گئی تھی۔
’’میں نے خط میں ظاہر کر دیا تھا کہ میں کیا چاہتی ہوں۔‘‘ چند ثانیے بعد اس کی مضبوط آواز گونجی تھی ۔ سالک صرف دیکھتا رہا۔ دل میں بہت کچھ آن واحد میں ٹوٹ گیا تھا۔ شاید حالات بدل گئے ہوں ، شاید اس کی سوچ نے کچھ مثبت رخ اختیار کیا ہو۔ وہ شاید کے گمانوں میں الجھا نہ جانے کیا کچھ لاشعور میں آ کر اب اسے اکسانے لگی تھیں۔ ذہن پر ، دل پر کچو کے لگانے لگی تھیں۔ اس کے اندر کے متحمل مزاج کم گو آدمی کو تندرو مشتعل مزاج بنانے لگی تھیں۔
’’تم …..‘‘ وہ کچھ کہتے کہتے رک گیا تھا۔ اسوہ اگرچہ اس وقت خود کو مضبوط ظاہر کر رہی تھی۔ مگر اس کی لمحہ بہ لمحہ بدلتی کیفیت اسے اندر ہی اندر ہراساں کر رہی تھی۔
’’تم……تمہاری ہر خواہش پوری کروں گا……پہلے تمہیں میرے آٹھ سالوں کا قرض ادا کرنا ہو گا۔ کہو منظور ہے……میں وعدے کا پکا انسان ہوں ۔ جو کہتا ہوں کرتا ہوں۔ کہو سودے بازی کرو گی۔‘‘ اپنی محبت کو دل کے کسی کونے میںدفن کرتے ہو ئے اپنے مزاج و عادات کے خلاف اس نے اس کا بازو چٹانی گرفت میں لئے پہلی دفعہ استحقاق سے بھر پور انداز میں اسوہ کو اپنے حلقے میں مقید کر لیا تھا۔ وہ پھڑ پھڑا کر رہ گئی۔
وہ یہ سب کیوں کر رہا تھا وہ خود بھی نہیں جانتا تھا۔شاید اس کے لاشعور میں بہت کچھ ٹوٹ گیا تھا۔ اس کا مان……اس کے برسوں سے قائم کئے گئے مفروضے اور محبت کی طاقت ……اتنے سالوں کا ضیاع …….اگرچہ وہ مائنڈ میک اپ کر کے آیا تھا۔ اپنے دل کو بہلا کر ، سمجھا کر آیا تھا مگر اب دل ہر حقیقت ماننے سے انکاری تھا۔ دماغ کے آگے سب دلیلیں بے کار تھیں۔ دل و نگاہ سب صرف یہ دیکھ رہے تھے کہ یہ لڑکی جو اس کی بیوی ہے۔ اس کی غیرت و عزت ، انا و مردانگی ، عزت نفس و خودداری پر گہری چوٹ لگانے کا سبب بنی ہے۔ اس کی محبت کی پامالی کا سبب بنی ہے۔
’’کیوں ……مل گیا تمہیں اپنا گوہر مقصود……تمہارا محبوب عالی جو قسمیں کھاتا تھا کہ وہ تمہیں بہن کے علاوہ کچھ نہیں سمجھتا …….اب کیسے اس نے تمہیں بہن کے علاوہ کچھ اور بنا لینے کی جرأت کر لی ہے۔ بھئی شوہر ہوں تمہارا……مجھے نہیں بتائو گی۔‘‘ ہاتھ سے اس کی تھوڑی اٹھا کر اوپر کرتے اپنے چہرے کے قریب لے جاتے ہوئے وہ پوچھ رہا تھا۔ پہلے والا سالک کہیں تھا ہی نہیں……آنکھوں میں ایک عجیب سا استہزاء تھا۔ اسوہ کا وجود کٹنے لگا۔ اس کی بات کا مفہوم وہ بخوبی سمجھ گئی تھی۔ کچھ کہنے کے بجائے وہ اپنے لب کترنے لگی تھی۔ سالک کی سانسوں کی حدت و گرمی اس کا چہرہ سلگائے دے رہی تھی۔ اوپر سے اس کی یہ قربت …..اس کے وجود کی سحر انگیزی ……دست و نگاہ کی کہر میں لپٹی ہوئی ٹھنڈک ……اس کے پورے وجود میں ایک پھریری سی دوڑا گئی تھی۔
’’آپ کو اس سلسلے سے کوئی دلچسپی نہیں ہونی چاہئے۔ آپ اپنے وعدے کا سوچیں۔‘‘ اس کا لہجہ زہر خند ہو گیا تھا۔
’’کیوں ……کیوں ……دلچسپی نہیں ہونی چاہئے اسوہ بیگم؟ تمہیں اتنا یقین و اعتماد کیوں ہے کہ میں اپنے وعدے کو ایفاء کرنے اتنی دور سے آیا ہوں۔ ہیں بولو، تمہاری اتنی خوش فہمی کس سلسلے میں ہے کہ میں اپنا کوئی حق استعمال نہیں کروں گا۔ مائی ڈیئر وائف اتنی جلدی تو ہم بھی رہائی نہیں دیں گے۔‘‘ یہ لب و لہجہ اس کی عادت نہیں تھا۔ وہ ہر ہر لفظ اپنے مزاج کے خلاف بول رہا تھا۔ ہر ہر حرکت اس کی طبیعت کے متضاد تھی۔ اسوہ صرف دیکھ کر رہ گئی۔ نجانے دل کو خوشی ہوئی تھی کہ کیا ہوا تھا۔
’’اس لئے سالک صاحب کہ نظر شناسی کی صلاحیت آپ میں سرے سے ہے ہی نہیں۔ اپنی ذات کے گرد فصیلیں کھڑی کرتے کرتے بالکل ڈھے گئے ہیں۔ کبھی اپنی ذات سے نکل کر دیکھیں تو میرا مطالبہ برا نہیں لگے گا۔‘‘ اتنی گہری چوٹ لگا جائے گی اس کے تو وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔ اس کے وجود کے گرد اس کے ہاتھ ایک دم ڈھیلے پڑ گئے تھے۔ وہ استہزائیہ ہنسی۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...