چیئرس۔۔۔۔!
سرد رات دھند بکھیرتی اپنا سفر طے کررہی تھی۔ ایسے میں آفیسرز کالونی کے اس کشادہ و آراستہ لان میں زندگی کے سب رنگ چھائے ہوئے تھے۔۔۔
پول کے شفاف پانی کنارے دھیمے سروں میں بجتی مویسیقی اور زندگی سے بھرپور قہقہے ماحول کو اور بھی خوابناک سا بنارہے تھے۔۔۔
واؤ۔۔۔۔مسز عثمانی! یو آر لکنگ سو ینگ اینڈ گورجیئس۔۔۔!
عائشہ عثمانی کے سرکل کی کسی خاتون نے متاثرکن انداز میں کہا تھا۔ اور اس میں کوئی شک بھی نہیں تھا کہ بیالیس کے سن میں بھی وہ اپنی خوبصورتی اور گرومڈ پرسنیلٹی کی وجہ سے تیس بتیس سے زیادہ کی نہیں لگتی تھیں۔۔۔
اس وقت بھی سیاہ ویلویٹ اور نیٹ کامبینیشن کے ساتھ گلے اور کانوں میں جگمگاتی ڈائمنڈ جیولری کے ساتھ عائشہ عثمانی نے ساری محفل ہی جگمگا ڈالی تھی۔
شہر کی کریم زبیر عثمانی کی اس پارٹی میں شریک تھی۔۔۔یوں تو یہ ایک گیٹ ٹو گیدر ہی تھی لیکن عائشہ عثمانی کی بہترین منتظمانہ طبیعت کی غماز تھی۔۔۔
تھینک یو مسز فراست!
عائشہ عثمانی نے مسکرا کر تعریف وصول کی تھی اور ساتھ ہی ہلکے پھلکے انداز میں کھلے باکوں کو ایک ادا سے جھٹکا دیکر گویا ہوئی تھیں۔
” لکنگ؟” بھئی ہم ینگ ہیں۔۔۔!
اس کے ساتھ ہی ان سب کا تائیدی قہقہہ گونجا تھا۔۔
اس میں تو واقعی کوئی شک نہیں۔۔۔کہ آپ ینگ ہیں۔
آپ کا اور زبیر صاحب کا کپل تو ہر پارٹی کی جان ہوتا ہے، لگتا ہی نہیں آپ لوگ ایک جوان بیٹے کے والدین ہیں!
خواتین کے پاس ان دونوں کی تعریف کے علاوہ کوئی موضوع ہی نہیں تھا۔جبکہ عائشہ ان تعریفوں کی عادی ہوچکی تھیں اور ان سے بیزار بھی۔۔۔
اس کے برخلاف زبیر عثمانی کے لیے یہ پارٹی کام کا حصہ تھی۔۔۔
بڑے بڑے منسٹرز اور کاروباری حضرات جن کی وجہ سے زبیر عثمانی کی سیٹ قائم تھی۔۔۔اس محفل کا حصہ تھے۔۔۔
زبیر عثمانی کے لیے یہ اور اس طرح کی پارٹیز ناگزیر تھیں۔
آخر کو یہی لوگ زبیر عثمانی جیسے سول آفیسرز کے سرپرست تھے اور انھی لوگوں کی ٹیکس اور پراپرٹی فائلز زبیر عثمانی کی وجہ سے آگے بڑھتی تھی۔
ہائی وے والے پروجیکٹ کا کیا بنا؟
شہباز کریم نے ڈرنک کا گلاس ہاتھ میں لیے زبیر عثمانی کو مخاطب کیا۔۔۔آج کل زبیر عثمانی کے سرکل میں سب سے زیادہ نظر آنے والا چہرہ شہباز کریم کا ہی تھا۔
ارے آپ بالکل فکر نہ کریں سر۔۔۔وہ پلاٹ آپ کا تھا اور آپ کا ہی رہے گا۔
حسب عادت زبیر عثمانی نے اپنی مخصوص خوش آمدانہ مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا تھا۔
شہباز کریم، پس منظر کے لحاظ سے ایک فیوڈل خاندان سے تعلق رکھنے والا نیا بزنس مین تھا۔ لیکن بے حد یوشیار اور مضبوط ہاتھ پیروں کا مالک۔۔۔اگر اسے زبیر عثمانی کی ضرورت تھی تو زبیر عثمانی بھی سمندر میں رہ کر مگرمچھوں سے دشمنی نہیں رکھنا چاہتے تھے۔۔۔یہ ان کی پالیسی ہی نہیں تھی۔
شہباز کریم کے چہرے پر مسکراہٹ دوڑ گئی جس کی وجہ سے اس کا کشادہ تن وتوش جل تھل کرکے رہ گیا۔
آپ کو نہیں لگتا؟ کہ اولاد کے بارے میں آپ لوگوں سے جلد بازی ہوگئی؟
ایک اور خاتون نے ازراہ مذاق پوچھا تھا۔۔
ارے ہم نے کہاں۔۔۔؟ ہمارے بیٹے کو ہی جلدی تھی دنیا دیکھنے کی۔۔۔
عائشہ نے بمشکل سوال کی کڑواہٹ حلق سے اتاری تھی۔۔۔مگر چہرے پر ایک شکن بھی لائے بغیر جواب سے نوازا تھا۔۔۔
ہا۔۔۔ہاہا۔۔ویل سیڈ! بعض اوقات ایسا ہوجاتا ہے۔۔۔میڈیکل سائینس کتنی بھی ترقی کرلے لیکن کچھ معاملات میں سائینس کی بالکل نہیں چلتی۔۔۔۔!
اب میری ایک فرینڈ نے بھی برتھ کنٹرول کی بہت میڈیسنز استعمال کیں۔۔ لیکن شادی کے دوسرے سال ہی ماں بن گئی۔۔
وہ خاتون اس موضوع پر آگے ہی آگے بڑھتی جارہی تھیں۔۔۔
یقینا آپ نے بھی بہت کوشش کی ہوگی۔۔
مجھے ایسا کوئی شوق نہیں تھا۔۔ جو کچھ ہوا وہ نیچرل تھا۔۔۔
عائشہ نے بگڑتے مزاج کی طنابیں مشکل سے تھام رکھی تھیں۔۔۔
یہ ان کی دکھتی رگ تھی جس پر ہاتھ نہیں اس عورت نے پیر رکھ دیا تھا۔
پھر آپ نے اپنی مینٹی نینس اب تک کیسے برقرار رکھی ہوئی ہے؟
آج اس راز سے پردہ اٹھا ہی دیں۔۔۔
وہ خاتون مسکرا کر پوچھ رہی تھیں۔
جوابا عائشہ مسکرا دیں۔
بھئی راز تو کوئی نہیں ہے میں بس نیند بھرپور لیتی ہوں اور پانی کے زیادہ استعمال کے ساتھ نیگیٹیو چیزوں سے دور رہتی ہوں۔۔۔ اسی لمحے عائشہ کا سیل بول پڑا تھا اور وہ شکر کا کلمہ پڑھتی
ایکسکیوز می۔۔۔
کہہ کر منظر سے ہی ہٹ گئی تھی۔۔۔اور اس وقت وہ یہی چاہتی تھیں۔
سیل ہاتھ میں لیے وہ لان عبور کرتی ہوئی جب پورچ تک پہنچیں۔۔۔ابشام گاڑی سے نکل کر اندر کی جانب بڑھ رہا تھا۔
عائشہ اس کے پیچھے کمرے تک پہنچ گیئیں۔۔
*********
ابشام نے گردن کے گرد لپٹا مفلر اتار کر بیڈ پر اچھالا اور ابھی جوتوں سے پیر آزاد کر ہی رہا تھا کہ دروازے پر دستک ہوئی تھی۔۔۔
وہ ٹھنڈی سانس لے کر رہ گیا جانتا تھا اس وقت اتنے استحقاق سے کون ڈسٹرب کرسکتا ہے؟
کیا ہے مام۔۔۔؟
وہ اپنی جگہ سے اٹھے بغیر پکارا تھا۔
میں بات کرنا چاہتی ہوں دروازہ کھولو شامی!
عائشہ نے معمول کے لہجے میں اسے جواب دیا تھا۔۔
ناٹ اگین پلیز!
گڈ نائٹ مام!
وہ اونچی آواز میں عائشہ کو سنا کر باتھ روم میں گھس گیا تھا۔
شامی۔۔۔۔! شامی!
کچھ دیر تک عائشہ دروازے پر کھڑی دستک دیتی رہیں۔۔۔پھر کوئی ردعمل نہ پاکر واپس پلٹ گئیں۔
*********
فریش ہوکر جب وہ واپس آیا تو بنی سنوری عائشہ ٹانگ پر ٹانگ چڑھائے اسی کی منتظر تھیں۔ عائشہ کو دیکھ کر شامی نہ چونکا نہ ہی اسے کچھ حیرت ہوئی۔
آپ تو سارے مینرز ہی بھولتی جارہی ہیں مام!
وہ تولیہ سے سر رگڑتا ہوا آئینے کے سامنے جا کھڑا ہوا تھا۔
تم سے بات کرنے کے لیے مجھے کیا کچھ کرنا پڑتا ہے۔۔۔؟ یہ میرا دل ہی جانتا ہے۔
عائشہ نے زاویہ بدلہ تھا۔
پلیز مام۔۔۔۔آپ مجھے ڈسٹرب کررہی ہیں۔ جوکہنا ہے جلدی کہیں، آپ کے گیسٹس آپ کا ویٹ کررہے ہوں گے۔
وہ ہنوز اپنے مشاغل میں مصروف رہا۔۔
اب وہ چہرے پر آفٹر شیو کا اسپرے کررہا تھا۔۔۔
کمرے میں مختلف النوع خوشبوئیں گڈ مڈ سی گردش کررہی تھیں۔
تم اکیڈمی کیوں نہیں جارہے۔۔۔؟
آپ کب تک میری جاسوسی کرتی رہیں گی؟ آئی ایم ناٹ آ پیٹ۔۔۔
اس نے ذرا سا رخ عائشہ کی جانب کیا تھا۔
وہاں سے کال آئی تھی۔۔۔تم پورے ڈیڑھ ماہ سے غائب ہو۔۔۔۔
کرکیا رہے ہو؟ آج کل؟
عائشہ نے اس کے الفاظ یکسر نظرانداز کردئیے تھے۔
اب کے وہ پورا ماں کی طرف گھوما۔
یہ سب آپ لوگوں کی ہی ضد تھی مجھے اس میں کوئی انٹرسٹ نہیں ہے۔
اور اٹھ کر بیڈ کی طرف بڑھ گیا تھا۔پہلے سیمسٹر تک تو سب ٹھیک تھا۔۔۔اب کیا ہوگیا تمہارے انٹرسٹ کو؟
نہ چاہتے ہوئے بھی عائشہ کا لہجہ تیکھا ہوگیا تھا۔
بس میرا دل بھر گیا ہے!
اب دل نہیں لگتا کسی چیز میں!
وہ بے پروائی کا مظاہرہ کرتا سر کے نیچے ہاتھ رکھے سیدھا لیٹ گیا تھا۔
آخر تم زندگی میں کرنا کیا چاہتے ہو؟
عائشہ کسی لمبی چوڑی بحث میں پڑنا نہیں چاہتی تھیں لیکن اس سوال کو زبان پر لانے سے بھی نہ روک سکیں۔
او۔۔۔مام۔۔۔ اس ٹاپک پر پھر بات کرلیں گے۔۔۔اس وقت پلیز مجھے معاف کردیں۔۔۔!
عائشہ نے ایک نظر اس کے لاپرواہ انداز کو دیکھا اور ۔۔۔
ٹھیک ہے پھر صبح تم سے تمہارے ڈیڈ ہی بات کریں گے۔۔۔
لیکن عائشہ کی دھمکی کا اس پر کوئی اثر نہیں ہوا تھا۔
عائشہ اس سے زیادہ اسے سرزنش نہیں کرسکتی تھیں کہ ابشام ان کے قابو میں تھا ہی کب؟
***********
عائشہ کے جانے کے بعد وہ اٹھ بیٹھا اور فرصت سے سیل میں قید اس تصویر کو تکنے لگا۔۔۔جس نے آج کل اس کا سکون نیند آرام سب غارت کر رکھا تھا۔ تصویر میں وہ پنک اسکارف میں لپٹی روسٹرم کے سامنے کھڑی نظر آرہی تھی۔
یہ تصویر لیتے ہوئے شامی نے بہت احتیاط برتی تھی مگر پھر بھی چہرے کا تھوڑا سا حصہ مائیک کے پیچھے چھپ گیا تھا۔
ابشام نے انگلی سے اسے آگے سرکایا۔ ایک اور تصویر اس کے سامنے تھی۔۔
سیاہ اسٹول اور ایش وائٹ کالر کوٹ میں۔۔۔! اس تصویر میں اس کا چہرہ پورے چاند کی مانند اسکرین پر چھایا ہوا تھا۔۔۔
اور یہ چند تصاویر نہیں تھیں،ایسی ان گنت تصاویر تھیں جو ابشام کے موبائل اور لیپ ٹاپ میں محفوظ تھیں۔۔۔
وہ ہرروز اسے کیپچر کرتا تھا اور گھر آتے ہی لیپ ٹاپ میں محفوظ کرلیتا تھا۔۔۔
اس کے علاوہ بھی اس کا ایک اور مشغلہ تھا۔ اس کی اسکیچ بکس بھی عشال کی تصویروں سے بھرتی جارہی تھی۔
***********
سفید گلابوں کا بڑا سا بکے لیے وہ سہج سہج قدم اٹھاتی بینکویٹ کے استقبالیہ پر کھڑی تھی۔۔۔سر کو ایش وائٹ اسٹول میں لپیٹے اس کا لمبا سفید فراک پیروں سے ذرا ہی اونچا تھا۔۔ پاوں بند فلیٹ چپل میں قید تھے۔۔۔
ایک طائرانہ نظر پورے ماحول پر ڈالتی ہوئی جب وہ آگے بڑھی تو گہری براؤن آنکھوں کی چمک ماحول کی ساری روشنیوں اور رنگوں کو ماند کرہی تھیں۔۔۔
ارے عشال؟ یہاں کیوں کھڑی ہیں پلیز آئیے ناں؟
خوش اخلاق میزبان نے آگے بڑھ کر اسے خوش آمدید کہا تھا۔۔
یہ میری ماما جان ہیں۔۔۔!
عشال نے ساتھ کھڑی سطوت آراء کا تعارف کروایا تھا۔۔
اور ماما یہ ہیں وقار۔۔۔! میرے بہت اچھے اسٹوڈنٹ۔۔۔! وقار ہم سے ایک سال جونیئر ہیں۔
وقار نے مسکرا کر انھیں ویلکم کیا تھا۔۔
السلام علیکم آنٹی! آئیے میں آپ لوگوں کو اپنی ماما سے ملواتا ہوں۔۔۔پھر اطمینان سے باتیں کریں گے۔۔۔
اور کچھ ہی فاصلے پر کھڑی نورین کا اطمینان کچھ رخصت ہوا تھا۔
***********
سطوت آراء اور عشال اس لڑکے جس کا نام وقار تھا، کی معیت میں چل پڑی تھیں۔ ایکسکیوز می ممی! وقار نے نہایت شائستگی سے ماں کو مخاطب کیا تھا۔
ممی یہ ہیں عشال جن کا میں نے آپ سے ذکر کیا تھا اور یہ ان کی مما ہیں، نورین کو تو آپ جانتی ہی ہیں عشال اور نورین کزن ہیں۔
وقار نے خاصی تفصیل سے ساتھ آنے والے تینوں مہمانوں کا تعارف کروایا تھا۔
مبارک ہو۔۔۔آپ کو!
اور پھول اور تحائف ان کی طرف بڑھائے تھے۔
شکریہ! آپ نے خواہ مخواہ تکلف کیا۔
وقار کی والدہ سلجھی ہوئی خاتون تھیں۔
تکلف کیسا؟ یہ تو آپ کے بیٹے کا حق تھا،آخر اتنی بڑی کامیابی حاصل کی ہے، ایئر ناٹیکل انجینئرنگ کا امتحان پاس کرنا اور وہ بھی ٹاپ پوزیشن کے ساتھ! چھوٹی بات نہیں ہے۔
سطوت آراء واقعی متاثر نظر آرہی تھیں۔
بہت شکریہ! بس اللہ کا شکر ہے جس نے ہمیشہ عزت رکھی۔۔۔اور سب میرے صارم کی محنت ہے!
میرے بیٹے نے کبھی مجھے مشکل میں نہیں ڈالا۔۔۔باپ کے دنیا سے جانے کے بعد اور بھی ذمہ داری اور سنجیدگی سے اپنی تعلیم پر توجہ دی ہے اس نے!
شافیعہ خاتون کی آنکھین فرط مسرت سے جھلملانے لگیں تھیں۔سطوت آراء نے فورا انھیں اپنے ساتھ لگاتے ہوئے تشفی دی۔
بے شک ! آپ ایک بہادر خاتون ہیں۔ اور آپ کے دونوں بیٹے بھی۔ عشال اکثر وقار بیٹے کی باتین کرتی رہتی ہےاللہ انھین بھی کامیاب کرے۔
سطوت آراء کی باتوں سے شافیعہ خاتون کا دھیان بٹ گیا تھا۔اور اب وہ معمول کے مطابق خوش ہی نظر آرہی تھیں۔
غم ہو یا خوشی زندگی کی راہ مین بچھڑ جانے والے رشتے زیادہ شدت سے اپنی کمی کا احساس دلاتے ہیں، شافیعہ خاتون کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی معاملہ تھا۔ اور اس موقع پر انھیں کسی ڈھارس بندھانے والے مخلص رشتے کی ضرورت تھی۔ مگر بد قسمتی سے مشکل وقت مین ساتھ چھوڑ جانے والے مطلبی اور خوش آمدی تعلق دار تو بہت تھے مگر خلوص کا ہاتھ بڑھا کر بوجھ بانٹنے والے نہ ہونے برابر تھے۔
ایسے میں سطوت آراء انھیں بھرپور مورل سپورٹ دیتی رہیں کچھ ہی دیر میں ان کے درمیان ایسی بے تکلفی پیدا ہوگئی گویا برسوں سے ایک دوسرے کو جانتی ہوں۔ ویسے بھی بہت سے معاملات میں وہ ہم مزاج واقع ہوئی تھیں۔
نورین کو عشال سے ابشام کے معاملے پر بات کرنے کا موقع ہی نہین ملا۔۔۔لیکن اس رات تقریب کے اختتام تک تین دماغ ایک نکتے پر اتفاق پا چکے تھے۔
*********
تم سنجیدہ ہو؟
ضیاءالدین صاحب اس وقت اسٹڈی روم میں تھے اور شہیر کو خاص طور پر اسی موضوع پر گفتگو کے لیے انھوں نے بلایا تھا۔
کمرے میں ملگجی سی روشنی تھی اور سطوت آراء دانستہ باپ بیٹے کی گفتگو کا حصہ نہیں بنی تھیں۔ دل سے وہ چاہتی تھیں کہ شہیر امریکہ جانے کا ارادہ بدل دے لیکن اس پر دباؤ بھی نہیں ڈالنا چاہتی تھیں۔
جی بابا! اگر سنجیدہ نہ ہوتا تو اپلائی ہی کیوں کرتا؟
شہیر کا لہجہ مضبوط تھا۔
ضیاءالدین صاحب کچھ دیر کو خاموش ہو گئے تھے۔
آپ چاہتے ہیں،میں نہ جاؤں؟
شہیر نے نظر اٹھا کر ان کے چہرے کو دیکھا تھا۔جہاں گہری خاموشی تھی۔
نہیں خیر میں نے ایسا تو نہیں کہا۔۔۔
ضیاءالدین صاحب اس کی امیدیں بھی نہین توڑنا چاہتے تھے۔
کم آن بابا! آپ کے دل میں کچھ ہے تو پلیز بولیں!
شہیر نے ان کے ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیے تھے۔
ضیاءالدین صاحب نے ہاتھ نہیں چھڑائے اور بولے۔
دیکھ لو۔۔۔کہیں تمہاری ساری محنت اکارت نہ چلی جائے؟
وہ تذبذب کا شکار تھے۔۔۔
آپ فکر نہ کریں بابا! مجھ پر بھروسہ رکھیں۔ میں نے آج تک آپ کو مایوس نہیں کیا تو آگے بھی نہیں کروں گا۔۔۔آپ بس میرے لیے دعا کریں۔۔
شہیر نے مسکرا کر انھیں تسلی دی تھی۔
میں چاہتا تھا تم میری کرسی سنبھالو لیکن تم نے میڈیسن کو چوز کرلیا۔
اب سوچ رہا ہوں، پتہ نہیں آگے کیا کروگے؟
ضیاءالدین صاحب کے لہجے میں اندیشے بول رہے تھے۔
شہیر مسکرا دیا تھا۔
آپ کو اپنے بیٹے پر اعتبار نہیں؟
اعتبار توہے، لیکن اتنے لمبے عرصے کے لیے تمہیں گھر سے دور بھیجنے کو دل آمادہ نہیں ہورہا۔
ضیاءالدین صاحب کے دل کی بات بالآخر زبان پر آہی گئی تھی۔
لمباعرصہ؟ پانچ سال کی ہی تو بات ہے۔۔۔پھر لوٹ کر تو مجھے یہیں آنا ہے!
شہیر نے ہلکے پھلکے انداز میں انھیں باور کروایا۔
پانچ سال؟ اتنی محنت کے بعد، تم یہاں جاب کرسکوگے؟
ضیاءالدین صاحب نے اسے ٹٹولا؟
شہیر نے ایک بار پھر ان کے ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیکر مضبوط لہجے میں کہا تھا۔
بابا! میں وہاں پیسہ بنانے نہیں جارہا۔۔۔میرا ایک مقصد ہے اور میں نے لوٹ کر یہیں آنا ہے میرا وعدہ ہے آپ سے، ہاؤس جاب ختم ہوتے ہی اگلی شام میری یہاں ہوگی۔
ضیاءالدین صاحب بے اختیار مسکرادیے تھے۔
اب ایسا بھی نہیں ہے۔۔۔
میں بس اتنا چاہتا ہوں، تم جاب یہیں کرو!
بس پھر سارے خدشات ذہن سے نکال دیں،آپ کا بیٹا بھیڑ چال میں آنے والوں میں سے نہیں!
ہاں ماما کو آپ نے ہی سنبھالنا ہے، یہ روگ میرے بس کا نہیں!
اس نے صاف ہاتھ جھاڑے تھے۔
ضیاءالدین صاحب تائیدی انداز میں ہنس دیے تھے۔
ویسے بھی سطوت آراء کو قائل کرنا دنیا کا مشکل ترین کام تھا جو ضیاءالدین صاحب کے علاوہ کسی کے بس کی بات نہیں تھی۔
*********
صبح بھیگی بھیگی سی عثمانی مینشن میں اتری تھی۔ رات ہلکی پھوار نے لان کی مخملیں گھاس اور پودوں کو مزید نکھار دیا تھا۔
ڈائننگ ٹیبل پر اس وقت صبح کا ناشتہ سرو کیا جارہا تھا۔
ابشام کے کمرے میں اس وقت الارم کی تیز چبھتی ہوئی آواز گونج رہی تھی۔کمبل سے ابشام کا ہاتھ برآمد ہوا اور اس نے اوندھے منہ لیٹے لیٹے الارم کا منہ بند کیا تھا،اور ابھی دوبارہ آنکھیں بند کیے چند ہی منٹ گزرے تھے کہ دروازے پر دستک ہونے لگی۔ ابشام نے چلا کر پوچھا کیا موت پڑرہی ہے؟
بابا آپ کو بیگم صاحبہ نیچے بلارہی ہیں!
نوکر نے فرض ادا کیا تھا۔
جاؤ ان سے کہہ دو میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔۔۔اور خبردار مجھے دوبارہ ڈسٹرب مت کرنا۔
ابشام کہہ کر دوبارہ کمبل میں غائب ہوگیاتھا۔
ملازم اپنا سا منہ لے کر پلٹ گیا تھا۔
تمہاری اس انکوائری کا کیا بنا؟
عائشہ نے گھونٹ گھونٹ جوس حلق سے اتارتے ہوئے زبیر عثمانی سے پوچھا تھا۔
زبیر عثمانی نے آملیٹ کا ٹکڑا کانٹے میں پھنسایا۔
نتھنگ۔۔۔! ملک صاحب سے تمہاری میٹنگ خاصی successful رہی تھی۔۔۔تو پھر انکوائری کا کیا ہونا تھا!
ویسے کیا جادو کرتی ہو؟ لوگوں پر کہ جس کو دیکھو تمہارے گن گارہا ہے؟
زبیرعثمانی نے مسکراکر کہا تھا۔
عائشہ عثمانی کی خوبصورت گردن فخر سے کچھ اور تن گئی تھی۔
جادو کیسا؟ منسٹر ہوں یا ٹائیکونز، کوئی بھی سوشل ورکرز سے بگاڑنا نہیں چاہتا!
مگر اب ذرا سنبھل کر رہنا آج کل کلب میں اچھی خبریں گردش نہیں کررہیں۔
عائشہ نے پاستہ کو کانٹے میں لپیٹتے ہوئے زبیر عثمانی کو جیسے خبردار کیاتھا۔
ڈونٹ وری! ایک بیوروکریٹ کی زندگی میں ایسے اتارچڑھاؤ آتے رہتے ہیں۔
زبیر صاحب اب خاصے مطمئین تھے۔
ہاں لیکن اوورکانفیڈنس انسان کو لے ڈوبتا ہے۔۔۔اور تمہیں میرا تھینک فل ہونا چاہیے زبیرعثمانی! اگر میں تمہاری زندگی میں نہ ہوتی تو تم دوقدم بھی نہیں چل سکتے تھے۔۔۔تمہاری زندگی کی ساری success میری وجہ سے ہے۔
عائشہ نے زبیر صاحب کی کامیابی ان کے منہ پر دے ماری تھی۔ اور ستم ظریفی کہ وہ عائشہ کی کسی بات سے انکار نہیں کرسکتے تھے۔
میری زندگی میں، تم بھی تو میری وجہ سے ہی ہو!
زبیر صاحب نے ذرا سا جھک کر عائشہ کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے گویا حساب برابر کیا تھا۔
تمہاری زندگی میں میں کیوں ہوں؟ اس ٹاپک کو رہنے ہی دو تو بہتر ہے،خواہ مخواہ تمہاری خوش فہمیاں ڈوب جائیں گی، زبیرعثمانی!
عائشہ کا موڈ بگڑگیا تھا وہ زبیر صاحب کو مزید لتاڑنے کے موڈ میں تھیں لیکن،
بیگم صاحبہ، چھوٹے صاحب کہہ رہے ہیں ان کی طبیعت خراب ہے۔
ملازم نے آکر اطلاع پہنچائی تھی۔
اور اس اطلاع میں سچ کتنے فیصد ہے؟
زبیر صاحب نے بے پرواہ سے انداز میں ملازم سے پوچھا تھا۔
پتہ نہیں جی؟
وہ سمجھ نہیں سکا کہ اب اسے کیاکہنا چاہیے۔
شرافت! تم جاؤ۔
عائشہ نے ملازم کی مشکل آسان کی تھی۔
کم ازکم ملازمین کا تو لحاظ کرلیا کرو! پتہ نہیں تم مینرز کب سیکھو گے؟
اور نیپکن سامنے ٹیبل پر پٹخ دیا تھا۔
گویا عائشہ نے زبیر صاحب کو ان کی کلاس یاد دلائی تھی۔
مجھے مینرز سکھانے کے بجائے بہتر ہوگا اگر تم اپنے اس پرنس کو سنبھال لو!
کل تک انجینیئرنگ اس کا جنون تھا۔۔۔اور اب؟ پھر اس کا موڈ چینج ہوگیا ہے۔۔ آخر وہ چاہتا کیا ہے؟ پوچھو اس سے! ساری زندگی باپ سر پر نہیں بیٹھا رہے گا۔
عائشہ سے پہلے زبیر صاحب نے ڈائیننگ ٹیبل چھوڑی تھی۔
*********
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...