ہسپتال کے کمرے میں اس وقت سبھی لوگ موجود تھے ابان نمل اماں بے جی اور ندرت اور سبھی بہت خوش تھے وجہ وہ ننھا گول مٹول مہمان تھا جس کی آمد نے سب کو پھر سے مسکرانے پہ مجبور کر دیا تھا۔۔
اردگرد ہنسنے کی آوازوں سے روشم کی آنکھ کھلی۔۔ اسے آنکھیں کھولتا دیکھ کر نمل ہاتھ میں بے بی کو پخڑے اس کے قریب آئی۔۔
دیکھیں اماں روشم کو ہوش آ گیا ہے۔۔ آج پورے دو دن بعد اسے ہوش آیا تھا ڈلیوری کے وقت اس کا بی پی کافی لو ہو گیا تھا جس کی وجہ سے سے اس کی حالت کافی بگڑ گئی تھی۔۔ ابھی صبح ہی ڈاکٹر اس کو چیک کر کے گئی تھی اور مکمل یقین دلا کر گئی تھی کہ آج اسے ہوش آ جائے گا اس لیے اس کے ہوش میں آنے پہ سب نے شکر کا کلمہ پڑھا۔۔
یہ دیکھو روشم۔۔ اللہ نے کتنا پیارا گول مٹول سا تحفہ دیا ہے ہمیں۔۔ اس کے پاس آ کر بے بی کو تھوڑا روشم نکی طرف اس نے جھکایا تا کہ وہ با آسانی اسے دیکھ سکے۔۔
روشم نے بمشکل آنکھیں پوری کھول کر اسے دیکھا ۔۔ آنکھوں میں ہلکی دھندلاہٹ ابھی بھی تھی لیکن اس دھندلاہٹ کے باوجود وہ دیکھ سکتی تھی کہ وہ سارا عرش میر کی ڈیٹو کاپی تھا۔۔
ویسے ہی نین نقش۔۔ ویسی ہی ناک ویسا ہی رنگ۔۔ کچھ بھی تو چینج نہیں تھا۔۔ آنکھوں میں چھائی دھندلاہٹ آنسوئوں کے سبب اور ذیادہ ہو گئی تھی۔۔
کتنا پیارا ہے نا؟؟ اب بتائو اس کا نام کیا رکھیں۔۔ میں نے تو کہا ہے کہ اس کا نام ابراہیم رکھنا ہے پر اماں کہتی ہیں کہ نام تم رکھو گی۔۔ وہ اپنی رو میں بول رہی تھی روشم کے چہرے کی طرف اس نے دیکھا ہی نہ تھا۔۔ کمرے میں سب ہی نمل کے اتاولے پن پہ ہنس رہے تھے۔۔
نام۔۔ نام کا کیا کروں گی میں۔۔ وہ تو رہا ہی نہیں جس کو اس کے پیدا ہونے کی سب سے ذیادہ خوشی تھی۔۔ بات کرتے ہی اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے تھے۔۔ اس کی بات پہ سب نے ہی ایکدوسرے سے نظریں چرائیں۔۔ کہہ تو وہ ٹھیک ہی رہی تھی لیکن اب وہ سب بھی کیا کر سکتے تھے یہ غم تو اب عمر بھر کا تھا ۔۔
ماحول میں اچانک ہی خاموشی اور اداسی کا عنصر بڑھ سا گیا۔۔ اس کو بے جی کی آواز نے ہی توڑا۔۔
ارے ابان ذرا صدقے کے بکروں کا انتظام تو کرو۔۔ میری بیٹی کو ہوش آیا ہے اب تو صدقہ لازمی بنتا ہے۔۔ اور ندرت تم بھی گاڑی سے وہ سارا سامان تو کے کر آئو۔۔ میں اپنی بیٹی کو دکھائوں۔۔
کمرے میں چھائی اداسی کی ہوا کو کم کرنے کے لیے وہ خوش اخلاقی سے بولی۔۔ جبکہ ابان اور ندرت جی اچھا کہتے دونوں باہر کی طرف بڑھے۔۔
لیکن کمرے کی فضا اب تک ویسی ہی تھی۔۔ بن آواز کتنے ہی آنسو روشم کی آنکھوں سے گرے۔۔ اسے اس گھڑی احساس ہو رہا تھا کہ ایک شوہر کا اپنی بیوی کے پاس ایسے حالات میں رہنا کتنا ضروری ہے۔۔ آج اسے صحیح معنوں میں عرش میر کی کمی محسوس کوئی تھی۔۔
***
آپ مائنڈ نہ کریں تو ایک بات ہوچھوں۔۔ اس وقت دونوں ہاسپٹل کے کاریڈور سے گزر رہے تھے جب پاکٹس میں ہاتھ ڈالے ابان نے ندرت سے پوچھا۔۔
جی پوچھے۔۔ سب کچھ ٹھیک ہونے کے بعد ندرت کا اعتماد کافی حد تک واپس آ چکا تھا اب تو اس کی چال میں بھی ایک وقار جھلکتا نظر آتا تھا
آپ کی ایج کیا ہے۔۔ کافی عجیب سوال تھا۔۔ ندرت کے ساتھ ساتھ ابان کو بھی حیرت ہوئی۔۔ بات کرنے کے چکر میں اس کو سمجھ ہی نہیں آئی کہ وہ پوچھ کیا بیٹھا ہے۔۔
28 ۔۔ ابان کو توقع نہیں تھی کہ وہ جواب دے گی۔۔ ندرت کے جواب دینے پہ وہ مسکرایا۔۔
یہ تو اچھی بات ہے کہ ہم ایج فیلو ہیں۔۔ اب آپ اگر شادی کے بعد مجھے ڈانٹیں گی بھی تو اتنا فیل نہیں ہو گا۔۔ ہنستت ہوئے کہتا وہ ندرت کو شاکڈ کر گیا۔۔
رک کر اس نے گھوم کر ابان کی طرف دیکھا وہ اس سے ایک قدم پیچھے چل رہا تھا۔۔ فورا رکا۔۔
آپ کو کس نے کہہ دیا ہے کہ میں آپ سے شادی کروں گی۔۔ سینے پہ ہاتھ باندھ کر بھنویں اچکا کر پوچھتی وہ سیدھا ابان کے دل کے سیکریٹ پورشن میں چلی گئی جہاں صرف سپیشل لوگ بسا کرتے ہیں۔۔
میری چھٹی حس نے۔۔ اس کی طرف جھک کر اس نے سرگوشی کی جیسے بہت راز کی بات بتائی ہو۔۔
بدقسمتی کے ساتھ لیکن آپ کی چھٹی حس فلاپ ہو چکی ہے۔۔ کیونکہ میں اپنے پہلے اتنے تلخ ایکسپیریئنس کے بعد دوبارہ رسک لینے کا سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔۔ وہ اپنی طرف سے بات ختم کر کے آگے بڑھی لیکن ابان کے ہاتھ پکڑنے پہ وہ وہی رک گئی۔۔
میں جانتا ہوں کہ آپ نے اس سے پہلے بہت تلخ زندگی گزاری ہے۔۔ ایک ایسی انسان کے ساتھ زندگی گزارنا جو آپ کی عزت کے ساتھ ساتھ آپ کی روح کو بھی پامال کرے یقینا بہت مشکل کام ہے۔۔ پر مجھے روشم نے بتایا تھا کہ آپ نے میرے لیے شکریہ کا پیغام چھوڑا ہے۔۔ تو کیا اپنے محسن کو یوں خالی ہاتھ لوٹا دے گی؟؟۔۔
اس کی باتوں سے ندرت کو اندازہ ہوا کہ وہ واقعی باتوں کا کھلاڑی تھا۔۔ ندرت کی اب تک اس کی طرف پیٹھ ہی تھی۔۔ ابان کی باتوں نے اسے واقعی سوچنے پہ مجبور کر دیا تھا۔۔
اس نے ایک گہرا سانس لیا۔۔ فیصلہ مشکل تھا پر ناممکن نہیں ۔۔
آپ اتنے عقلمند ہیں۔۔ پھر بھی آپ کو یہ نہیں پتہ کہ ایسی باتیں کرنے کے لیے گھر والوں کو بھیجا جاتا ہے نہ کہ شرموں کی طرح خود کی جاتی ہیں۔۔
اپنی بات کہہ کر وہ رکی نہیں اپنا ہاتھ چھڑا کر فورا باہر کی طرف بھاگی۔۔ جبکہ پیچھے کھڑے ابان کو پہلے تو سمجھ ہی نہیں آئی اور جب آئی تو اس کے لبوں پہ ایک دلفریب مسکرا ہٹ بھی آ گئی۔۔ کچھ غلطیوں کی سزا بے حد حسین ہوتی ہے اس کا اندازہ اسے آج ہوا تھا۔۔
***
آج وہ ڈسچارج ہو کر گھر آ گئی تھی۔۔ بے جی اور ندرت نے بہت کہا ہے کہ وہ ان کے ساتھ چلے لیکن اس نے منع کر دیا۔۔ لیکن بے جی پھر بھی نہ مانی تو اسے وعدہ کرنا ڑا کہ وہ ایک ہفتے بعد لازمی آئے گی۔۔
وہ کہہ تو آئی تھی پر اس کی ہمت نہیں ہو رہی تھی وہاں جانے کی۔۔ کیا کچھ نہ ہو گا وہاں۔۔ عرش میر کا کمرہ اس کی خوشبو اس کی یادیں۔۔ وہ آگے ہی اسے نہیں بھلا پا رہی تھی کجا کہ وہاں جاتی پھر۔۔ کیسا وقت بدلا تھا نا کبھی وہ وہاں پہ بری یادوں کہ وجہ سے جانا نہیں چاہتی تھی اور اب وہ وہاں پہ اس کی خوشبو اس کے وہاں بچپن سے بڑے ہونے تک کے احساس کی وجہ سے نہ جانا چاہتی تھی۔۔
ایک نظر پاس لیٹے ابراہیم کی طرف ڈالی۔۔
ابراہیم۔۔ نام لیتے ماضی کا عکس پھر سے ذہن کے پردے پہ جھلملانے لگا۔۔
روشم میں نے سوچ لیا ہے۔۔ ہمارے بیٹے کا نام ابراہیم ہو گا۔۔ آواز کے ساتھ ساتھ لہجے میں بھی بات منوانے کی ضد تھی۔۔
مجھے نہیں پسند ابراہیم نام۔۔ اس کی ہر بات کی نفی کرنا تو روشم کا شیوہ تھا اب بھی اسے پسند تو آیا تھا لیکن محض اسے چڑانے کے اس نے ناک بو چڑایا۔۔
کیوں نہیں پسند۔۔ اتنا تو پیارا ہے۔۔ بس میں بھی چاہتا ہوں ہمارا بیٹا حضرت ابراہیم کی طرح اللہ کے قریب ہو۔۔ کھڑکی سے آسمان کو دیکھتے وہ جیسے کہیں خدا سے کہہ رہا تھا کہ اسے اپنی قربت میں رکھنا۔۔ دوست کی طرح ۔۔
ابراہیم کے کسمسانے پہ وہ یادوں کے بھنور سے باہر آئی۔۔ ایک دم ہی اسے لگا ہوا میں آکسیجن کم ہق گئی اور گھٹن بڑھ سی گئی ہے۔۔ بیڈ سے اتر کر وہ کھڑی کی پاس آئی۔۔ اور پٹ کھول کر لمبے لمبے سانس لیے۔۔
جب سے وہ گیا تھا تب سے وہ اس کی ہر یاد کو نجانے کرنی بار دہرا چکی تھی ذہن میں۔۔ لیکن ہر بار سوچنے پہ وہ بلکل نئی سی لگتی تھی۔۔ آج بھی جب نمل نے ابراہیم نام لیا تو وہ وہی خاموش ہو گئی۔۔ یہ نام اسے کہسے نا پسند ہو سکتا تھا یہ نام تو عرش میر نے خود چنا تھا۔۔ اس کی چنی چیز میں اسے اب اختلاف ہو سکتا تھا۔۔
کھڑکی کے پٹ سے سر ٹکائے آنسو پھر روانی سے بہنے لگے۔۔ یادوں کا ایک سیلاب تھا جو اسے بھی اپنے ساتھ بہا لے جا رہا تھا۔۔
***
میں چاہتا ہوں ہمارا بیٹا ہو۔۔ کہتے ساتھ ہی عرش میر نے اسے بازوئوں کے ہلکے میں لیا۔۔ وہ خود کو چھڑانا چاہتی تھی پر اس کی گرفت خاصی مضبوط تھی اور رات کے اس پہر وہ شور مچانا نہیں چاہتی تھی۔۔
اوہ۔۔ تو آپ کا شمار بھی پھر ان سو کالڈ وڈیروں میں ہی ہوا نا جو بیٹی کی جگہ بیٹا چاہتے ہیں۔۔ خود تو چھڑوا تو نہ سکتی تھی لیکن اپنے منہ سے طنز کے تیر تو چلا سکےی تھی اور وہ کام وہ بخوبی کر رہی تھی۔۔
نہیں نہیں مائی لیڈی۔۔ غلط سمجھی ہیں آپ۔۔ بیٹا میں اس لیے چاہتا ہوں کیونکہ۔۔ وہ رکا۔۔
کیونکہ۔۔ اس کے ذیادہ دیر خاموش ہونے پہ روشم نے تجسس کے ہاتھوں مجبور ہو کر پوچھ ہی لیا۔۔
کیونکہ میں نہیں چاہتا کہ جو دکھ میں نے انجانے میں کسی کی بیٹی کو دیے ہیں وہ مکافات عمل میں میری بیٹی کو ملیں چاہے انجانے میں ہی سہی۔۔ مجھے ڈر لگتا ہے روشم۔۔ اتنا حوصلہ نہیں ہے مجھ میں ۔۔ اتنا صبر نہیں ہے۔۔ اتنی برداشت نہیں ہے۔۔
اپنے سر سے اس کے سر کو ٹکاتا وہ آنسوئوں سے بول رہا تھا اور روشم ٹرانس کی کیفیت میں اس کے آنسوئوں کو دیکھ رہی تھی جو وہ نجانے کتنی بار اس کے سامنے بہا چکا تھا۔۔
مت رو۔۔ اس کے آنسو روشم نے اپنے ہاتھوں سے صاف کیے۔۔
کیوں۔۔ عرش میر کو انجانی سی خوشی ہوئی۔۔
مجھے ڈر ہے مجھے تمہارے آنسو پگھلا نہ دیں۔۔ دل کا خوف لبوں پہ آ ہی گیا۔۔ اس کی بات پہ عرش میر کا ہلکا قہقہہ لگا۔۔
یہ تو زبردست بات ہے۔۔ اپنے بیٹے کو یہی گر سکھائوں گا کہ اگر اس کی ماما اس سے ناراض ہو جائیں تو اسے بس تھوڑے سے آنسو نکالنے ہیں۔۔ وہ یوں مان جائیں گی۔۔
ہاتھ کی چٹکی بجاتا وہ پھر ہنسا۔۔
اللہ نہ کرے۔۔ میرا بیٹا کیوں روئے۔۔ میں اس سے کبھی ناراض ہوں گی ہی نہیں۔۔ روانی میں وہ مزید بولنے لگی تھی جب عرش میر کھ قہقہے نے اسے احساس دلایا کہ وہ کیا بول رہی ہے۔۔ اس نے فورا اپنی زبان اپنے دانتوں تلے دبائی۔۔
وہ یادوں کے بھنور سے نکل آئی تھی لیکن عرش میر کے قہقہے ابھی بھی اس کے کانوں میں گونج رہے تھے۔۔ اسے یاد کرتے کتنے آنسو اس کی آنکھوں سے گرے اس کا حساب تو شاید اس کی آنکھوں کو بھی نہ تھا۔۔
کیوں رو رہی ہو مائی لیڈی۔۔وہ کھڑکی کے پٹ پہ سر رکھے رونے میں مصروف تھی جب اسے عرش میر کی آواز آئی۔۔ روشم نے حیرت سے مڑ کر پیچھے دیکھا ۔۔
وہ بیڈ پہ بیٹھا اسے ہی دیکھ کر مسکرا رہا تھا۔۔
عرش میر۔۔ لبوں نے بے آواز جنبش کی۔۔
جی جان عرش میر۔۔ ادھر آئو میرے پاس۔۔ پیار سے کہتے اس نے اپنا ہاتھ آگے کیا۔۔
روشم جو مسمرائز ہو کر اسے دیکھ رہی تھی اس کے ہاتھ بڑھانے پہ شاکڈ سی آگے بڑھی۔۔ آنسو کیا اسے تو لگ رہا تھا وقت نھی رک گیا ہے۔۔ پاس پہنچ کر اس نے اس کے ہاتھ کے اوپر اپنا ہاتھ رکھنے ہی لگی تھی جب عرش میر کا وجود ہوا میں تحلیل ہو گیا۔۔
روشم فورا دو قدم پیچھے ہوئی۔۔ آنسوئوں کے ساتھ اب وقت بھی چلنے لگا تھا۔۔ روشم نے اردگرد دیکھا وہ کہیں نہیں تھا۔۔ وہ ہوتا تو آتا نا۔۔ وہ تو وہاں چلا گیا تھا جہاں سے کوئی کبھی نہیں آ پایا۔۔ پیکن وہ پھر بھی ہزار دفعہ اس کے عکس کے فریب میں آ چکی تھی۔۔
گٹنوں میں سر دیے وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔۔ باہر بادل بھی اس کے غم میں رو رہے تھے۔۔ پورا ماحول ہی روشم کے ساتھ غمزدہ تھا۔۔
میرے دل پہ میری روح پہ
تیری ابھرتی یادوں کا بسیرا ہے
میں مر جائوں یا مٹ جائوں
تو دل میں اب بھی میرا ہے
تجھے ڈھونڈوں میں کہاں کہاں
ہر جگہ ہی ویرانیوں کا ڈیرا ہے
***
ایک ہفتہ کیسے گزرا اسے پتہ ہی نہ چلا۔۔ شاید جس دن کی انسان شدت سے نہ آنے کی دعا کرتا ہے وہ بھاگ کر آ جاتی ہے۔۔ یہی حال روشم کا ہوا تھا۔۔ سات دن پلک جھپکتے ہی گزر گئے تھے۔۔
بے جی نیچے آئی بیٹھی تھی اور اب اسے جانا تھا۔۔ وہی۔۔ اسی جگہ۔۔ جہاں سے وہ کبھی واپس نہ جانے کی قسم کھا کر آئی تھی۔۔ جہاں جاتے اسے جاتے اسے خوف آتا تھا آج ڈر نہیں تھا پر جسم کپکپا ضرور رہا تھا۔۔
بیگ اور ابراہیم کو پکڑے وہ سیڑھیوں سے نیچے آئی۔۔ سامنے ہی بے جی بیٹھی تھی اس کے آنے پہ فورا آگے بڑھی۔۔
ماشااللہ یہ تو اور پیارا ہو گیا ہے۔۔ ابراہیم کو پیار کرنے کے بعد انہوں نے اس کے سر پہ ہاتھ پھیرا۔۔ روشم ان کی بات پہ صرف مسکرا سکی۔۔
چلیں عظمی بہن اب ہمیں اجازت دیں۔۔ اپنے بازووں کے حلقے میں اسے لیتے وہ آگے بڑھی۔۔ روشم تو بس ان کے ساتھ گھسیٹتی جا رہی تھی۔۔
بلکل بلکل لے جائیں۔۔ ہم بھی جلدی آئیں گئے اپنی امانت لینے آپ سے۔۔ اماں کی بات پہ دونوں ہی ہنس پڑیں جبکہ روشم اپنی سوچوں میں اےنی گم تھی کہ پوچھ ہی نہ پائی کہ کس امانت کی بات ہو رہی ہے۔۔
وہ تو بس ٹرانس کی کیفیت میں ان کے ساتھ چل رہی تھی کب وہ گاڑی میں بیٹھی اور بے جی نے اس سے کیا باتیں کی اسے کچھ ہوش نہ تھا۔۔ وہ بس ہوں ہاں میں ہی جواب دیتی رہی۔۔
ہوش تو تب آیا جب گاڑی حویلی کے پورچ میں آ کر رکی۔۔ دل کی دھڑکن ایکدم سے ہلکی ہو گئی۔۔ پورے نو ماہ بعد وہ اس حویلی کے سامنے کھڑی تھی۔۔ جب گئی تھی تب اور جب اب آئی تھی دونوں ہی حالتوں میں بہت فرق آ چکا تھا۔۔ اب یہ وہ حویلی رہی ہی نہیں تھی جسے وہ چھوڑ کر گئی تھی۔۔
حویلی میں اس کا بہت پر جوش طریقے سے استقبال کیا گیا۔۔ روشم کو اپنا پہلا دن یاد آنے لگا جب وہ یہاں آئی تھی کیسے اسے ایک ملازمہ کمرے میں لے کر گئی تھی اور آج کیسا جشن تھا۔۔ واقعی ۔۔ وقت بدل گیا تھا۔۔۔
***
رات کا آخری پہر تھا جب روشم کی آنکھ کھلی۔۔ ابراہیم گلا پھاڑ پھاڑ کر روتا اپنے بھوکے ہونے کا اعلان کر رہا تھا۔۔ روشم نے اسے پیار سے گود میں بٹھا کر سر پہ پیار کیا اور اس کی ضرورت پوری کی۔۔
بھوک مٹتے ہی وہ سکون سے دوبارہ سے نیند ہی کی وادی میں چلا گیا۔۔ اسے سائڈ پہ لٹا کر روشم ایدھی ہوئی ہی تھی جب پیروں والی سائڈ پہ عرش میر کو بیٹھے دیکھا۔۔ وہ اسے ہی دیکھ رہا تھا۔۔
روشم نے اسے دیکھ کر گہرا سانس لیا اور بیڈ کی بیک سے ٹیک لگا کر اسے دیکھنے لگی۔۔
جانتی ہوں آپ میرا ایک وہم ہیں۔۔ آپ کو ہاتھ لگانے کے لیے آگے بڑھوں گی تو غائب ہو جائیں گئے۔۔ کیوں آتے ہیں جب غائب ہی ہونا ہوتا ہے۔۔ مجھے یوں تڑپا کر کونسی تسکین ملتی ہے آپ کو۔۔ کیوں چھوڑ گے مجھے یوں سسکتا رونے کے لیے۔۔
ہر بار کی طرح اب بھی اس کی آنکھوں سے بھل بھل آنسو گرنے لگے۔۔
نہیں ہوں گا اب غائب ۔۔ ہاتھ لگا کر دیکھو۔۔ عرش میر نے گہرا سانس لے کر کہتے اپنا ہاتھ آگے کیا۔۔ اس کی بات پہ وہ استہزئیہ ہنسی۔۔
جھوٹ۔۔ جھوٹ بولتے ہیں آپ۔۔ ہر بار ایسا ہی کہتے ہیں اور پھر غائب بھی ہو جاتے ہیں۔۔ منہ بنا کر کہتی وہ اسے خاصی خفا لگی تھی۔۔
ایک آخری دفع کوشش کر لو۔۔ لگائو ہاتھ۔۔ اپنا ہاتھ مزید آگے کرتا وہ اسے موقع دے رہا تھا۔۔ روشم حیرت سے اسے دیکھنے لگے۔۔ اس کے لیے یہ سب کچھ نیا تو نہ تھا۔۔ پھر بھی ایک آخری بار اسے پکڑنے میں کیا حرج تھا۔۔
ٹیک چھوڑ کر وہ آگے بڑھی اور اس کے ہاتھ پہ ہاتھ رکھا۔۔ توقع تو یہ تھی کہ وہ غائب ہو جائے گا۔۔ لیکن اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب اس کا ہاتھ واقعی عرش میر کے ہاتھ پہ آ گیا۔۔
شاکڈ سی وہ آگے بڑھ کر اب عرش میر کا ایک ایک نقش چھو رہی تھی۔۔ اس کے بال۔۔ اس کا ماتھا۔۔ اس کی آنکھیں۔۔ اس کے ہونٹ۔۔ وہ بلکل دیوانہ وار اسے چھوتی اس کے ہونے کا یقین کر رہی تھی۔۔ وہ اس کا وہم نہیں تھا وہ سچ میں وہاں تھا۔۔
عرش میر۔۔ آواز سرگوشی سے ذیادہ نہ تھی۔۔
جی جان عرش میر۔۔ ایک جذب سے کہا گیا۔۔ وہی دلفریب انداز۔۔ ہاں وہ سچ میں تھا اس کا عرش میر۔۔ روشم فورا سے اس کے گلے لگ گئی۔۔ آنسو تھے کہ انکھوں سے رکنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے لیکن کتنے عرصے ان آنکھوں نے دکھ پہ نہیں بلکہ خوشی پہ آنسو بہائے تھے۔۔
کہاں چلے گئے تھے آپ۔۔ مجھے سب نے کہا کہ آپ مجھے چھوڑ کر چلے گئے ہیں اللہ جی کے پاس۔۔ پتا ہے عرش میر میں بہت روئی۔۔ میں نے سب کو بار بار کہا کہ آپ نہیں جا سکتے مجھے چھوڑ کر۔۔ آپ نے تو کہا تھا جب تک معاف نہیں کرو گی جب تک میری محبت کا یقین نہیں کرو گی تب تک آئوں گا۔۔ میں نے سب کو یہی کہا تھا لیکن سب نے میری بات کی تردید کی۔۔ کوئی نہیں مان رہا تھا۔۔۔
اس کے سینے پہ سر رکھے وہ کسی بچے کی طرح اس سے شکایتیں کر رہی تھی۔۔ اس کی حالت دیکھ کر عرش میر نے اسے متاع حیات کی طرح سمیٹ لیا۔۔
شش۔۔ اب آ گیا ہوں نا۔۔ سب سے پوچھوں گا۔۔ مت رو۔۔ اسے سینے میں بھینچتا اسے مساسل اسے اپنے ہونے کا یقین دلا رہا تھا۔۔
کتنی دیر وہ اس کے سینے سے لگی روتی رہی نجانے کتنے لمحے گزر گئے۔۔ دونوں نے ہی دھیان نہیں دیا۔۔ وہ تو بس ایکدوسرے کے ہونے کو فی الحال محسوس کر رہے تھے۔۔
سب نے مجھے کہا کہ آپ کو گولی لگی ہے۔۔ کیا واقعی گولی لگی تھی۔۔ اس کے سینے کی چلتی دھڑکن کو محسوس کرتی وہ اس سے پوچھ رہی تھی۔۔ خوشی اتنی تھی کہ اس کے مرنے کے جھوٹ کے بارے میں بھی خفا نہیں ہوئی۔۔ شاید وہ وجہ جاننے کی متمنی تھی۔۔
ہاں لگی تھی۔۔ ہنوز ویسے ہی اسے سینے سے لگائے وہ بولا۔۔
مجھے سب جاننا ہے کیا ہوا۔۔ اور مجھے کیوں کہا سب نے کہ آپ ہم سب کو چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔۔ بات کرتے پھر سے آنکھوں میں نمی آ گئی وہ وقت ہی بہت کٹھن تھا۔۔ لیکن وہ سچ سننا چاہتی تھی اس لیے آنکھوں کی نمی کو اندر دھکیلا۔۔
اس کی بات پہ عرش میر نے گہرا سانس لیا۔۔ اور پھر سب بتاتا چلا گیا۔۔
***
روشم کے گھر سے ہو کر وہ یونہی سڑکوں پہ گھوم رہا تھا۔۔ گاڑی وہ وہی چھوڑ آیا تھا۔۔ سب جانتے تھے کہ وہ روشم سے ملنے آتا ہے تو اسے اس بارے میں تو پریشان ہونے کی ضرورت ہی نہ تھی۔۔
روشم کے آنسو اس کو بے چین کرنے کو کافی تھے۔۔ اتنی دیر ہو گئی تھی اس سب کو۔۔ اسے جو لگتا تھا وہ آہستہ آہستہ اپنی محبت سے اسے پگلا دے گا تو وہ غلط تھا۔۔
اس کی محبت بھی اب تک اس کے غموں اور دکھوں کا مداوا نہیں کر سکی تھی۔۔ اب بھی وہ سب یاد کر کے وہ روتی تھی۔۔
یا اللہ روشم کے سارے غم مجھے دے دے۔۔ میری خوشیاں اسے دے دے۔۔ میں مزید اسے غمگین نہیں دیکھ سکتا۔۔ سر اوپر کیے پاکٹس میں ہاتھ ڈالے وہ پھر سے رو پڑا۔۔
اور شاید وہی قبولیت کا وقت تھا۔۔ وہ اپنے دھیان میں اوپر آسمان کق دیکھ رہا تھا جب دور کھڑے فاروق نے اس کا نشانہ لیا۔۔ بے شک اندھیرا تھا لیکن اسے اندھیروں میں ہی تو قتل کرنے کی عادت ہو چکی تھی۔۔
ٹھاہ۔۔ فائر چلا تھا اور عرش میر کے دل کے مقام سے آر پار ہو گئی۔۔
عرش میر نے حیرت سے اپنا ہاتھ پنے سینے پہ رکھا۔۔ خون سے اس کا ہاتھ بھی رنگ چکا تھا۔۔ درد سے اس سے مزید کھڑے رہنا محال تھا وہ وہی بیٹھتا چلا گیا۔۔ محض ایک گولی اس کا کام تمام کر چکی تھی۔۔
فاروق ایک اور گولی کا نشانہ لینے ہی والا تھا جب اسے پولیس کے سائرن کی آواز سنائی دی۔۔ دوسرے فائر کا ارادہ ترک کر کے وہ اپنی گاڑی کی طرف بھاگا۔۔ پر شو مئی قسمت۔۔ پولیس کی گاڑی اس کے گاڑی کے بے حد قریب تھی۔۔ پولیس اسے دور سے سٹریٹ لائٹس کی روشنی میں دیکھ چکی تھی۔۔
فاروق نے اپنے قریب موت کو آتا دیکھ کر اندھا دھند ہی سڑک پہ دوڑنا شروع کر دیا۔۔ جلدی میں وہ اپنی بندوق بھی وہی گرا آیا تھا۔۔ اس کے بھاگنے پہ پیچھے سے انسپیکٹر نے اس کی ٹانگ کا نشانہ لے کر فائر کیا۔۔
گولی لگتے ہی فاروق درد سے کراہ اٹھا۔۔ اب مزید اس کے لیے چلنا محال تھا۔۔ دوڑنا تو دور کی بات تھی۔۔ پولیس کی گاڑی اب قریب آ چکی تھی۔۔
یہ عرش میر کی خوش قسمتی ہی تھی کہ اس رات پولیس رائونڈ پہ تھی گولی کی آواز سن کر فورا اس طرف آئی۔۔ سڑک پہ عرش میر کو بے جان لیٹا دیکھ کر اسے جلد از جلد ہاسپٹل پہنچایا گیا۔۔ کیونکہ ابھی اس کی نبض سلو ہی سہی چل رہی تھی۔۔
***
کیسے ہو اب۔۔ پورے دو ہفتے بعد اسے ہوش آیا تھا۔۔ گولی دل میں تو نہیں لیکن دل کے قریب مقام پہ لگی تھی اسی وجہ سے بر وقت امداد ملنے پہ وہ بچ گیا تھا۔۔ اس سارے واقع کی خبر روشم کے علاوہ سب کو تھی لیکن ابان کے کہنے پہ ہی سب نے اسے نہ بتایا تھا۔۔
ٹھیک ہوں۔۔ منہ پہ اب تک اس کے آکسیجن ماسک لگا تھا۔۔ عرش میر نے محض لبوں کو جنبش دے کر سر ہلایا۔۔
رکو میں ڈاکٹرز کو بلا کر آتا ہوں۔۔ اس کے ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کر ابان نے اسے تسلی دی اور باہر کی طرف بڑھنے ہی لگا تھا جب عرش میر نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔۔
روشم۔۔ روشم۔۔ کیسی ہے۔۔ اسے بتایا؟؟۔۔ اس کا ہاتھ پکڑ کر وہ پہلے روشم کے بارے میں اسے کنفرم کرنا چاہتا تھا۔۔
ہاں وہ ٹھیک ہے۔۔ اور اسے ابھی نہیں بتایا کچھ بھی۔۔ ابان نے اسے تسلی دی۔۔
مم۔۔ مت بتانا۔۔ اسے کہو کہ مر گیا ہوں میں۔۔ آکسیجن ماسک کی وجہ سے اس سے ٹھیک بولا نہیں جا رہا تھا۔۔
لیکن کیوں۔۔ ابان کو حیرت ہوئی۔۔
پلیز ابان۔۔ اس کے ہاتھ کو زور سے پکڑتے عرش میر نے جیسے التجا کی۔۔ ابان کو یہ سب عجیب تو لگ رہا تھا پر یقینا عرش میر نے کچھ سوچ رکھا ہو گا۔۔ اسی وجہ سے اثبات میں سر ہلا کر وہاں سے چلا گیا۔۔
***
آپ۔۔ آپ اتنی دیر مجھ سے جان بوجھ کر دور رہے۔۔ ساری بات سننے کے بعد روشم ایک کرب سے بولی۔۔ کیا کچھ نہیں تھا اس کے لہجے میں۔۔
ہاں۔۔ کیوںکہ میرا زندہ ہونا تو ہمارے رشتے کو ٹھیک نہیں کر پا رہا تھا۔۔ بلکہ تم ان اذیت ناک دنوں کو یاد کر مزید روتی تھی۔۔ مجھ سے تمہاری آنکھوں میں آنسو دیکھے نہیں جاتے تھے روشم۔۔ اس لیے میں نے سوچا کہ جب تک ابراہیم کی پیدائش نہیں ہو جاتی۔۔ تمہیں اس جھوٹ کے ساتھ اکیلا چھوڑنا بہتر ہے۔۔ کیونکہ زندہ رہتے تو تمہیں میری محبت کی کبھی قدر نہ ہوتی۔۔
اس کے سر سے سر ٹکائے وہ بول رہا تھا۔۔ روشم اس کی بات پہ غصہ چاہتی تھی لیکن پھر چپ ہو گئی۔۔ وہ ٹھیک ہی تو کہہ رہا تھا روشم نے اسے ہمیشہ دھتکارا ہی تو تھا۔۔
میں اتنا روئی آئے کیوں نہیں۔۔ اور ابراہیم کی پیدائش کو بھی آٹھ دن ہو گئے ہیں۔۔ نیا شکوہ حاضر تھا۔۔
کہا تو تھا تم سے بے جی نے کہ آ جائو حویلی۔۔ خود ہی لیٹ آئی تم۔۔ اس کے ناک سے ناک رگڑتا وہ بولا۔۔
کیا میرے علاوہ سب کو پتہ تھا آپ کے اس جھوٹ کا۔۔ خفا نظروں سے اسے دیکھتی وہ گویا ہوئی۔۔ اب اس کے سامنے بتانا بنتا تو تھا نہ کہ وہ ناراض ہے۔۔
ہاں۔۔ عرش میر کے اثبات پہ سر ہلانے پہ روشم نے ایک زور دار مکا اس کے سینے پہ مارا۔۔
بہت برے ہیں آپ۔۔
آئوچ۔۔ کیا کر رہی ہو لڑکی۔۔ یہی پہ گولی لگی ہے۔۔ اس کے مکا مارنے پہ وہ کراہا۔۔ آخر گرینڈ سرجری ہوئی تھی اس کی چند ماہ میں تو زخم ہیل ہونے والا نہیں تھا۔۔
اوہ سوری۔۔ کیا بہت درد ہوا؟؟ شرٹ کے اوپر سے اس کے سینے پہ ہاتھ پھیرتی وہ گویا ہوئی۔۔
ہاں بہت۔۔ روشم کا ہاتھ پھیرنا اسے اچھا لگ رہا تھا۔۔ روشم نے ایک نظر اسے دیکھا پھر اس کے دل کے مقام پہ اپنے ہونٹ رکھ دیے۔۔ ایک سرسرایت سی عرش میر کے رگ و پے میں دوڑ گئی ۔۔ اس نے روشم کو ویسے ہی اپنے سینے میں بھینچ لیا۔۔
اس سے پہلے کہ وہ مزید کوئی جسارت کرتا ابراہیم نے پھر سے کسمسا کر رونا شروع کر دیا۔۔
ارے یار میں تو آپ کو بھول ہی گیا تھا۔۔ لیکن اس میں رونے والی کیا بات تھی۔۔ روشم کو چھوڑ کر اس نے پاس پڑے ابراہیم کو اپنی گود میں اٹھا لیا۔۔
بابا کا پیارا بیٹا۔۔ روشم یہ تو بلکل مجھ پہ گیا ہے۔۔ ہے نا۔۔ اس کے گال پہ پیار کر کے عرش میر نے اسے غور سے دیکھا۔۔ ابراہیم بھی اب چپ کر کے اپنے باپ کو دیکھ رہا تھا۔۔
ہاں نا۔۔ جب یہ پیدا ہوا تھا تو مجھے یوں ہی لگا کہ لٹل عرش میر پیدا ہو گیا ہے۔۔ روشم نے ہنستے ہوئے اس کے کندھے پہ سر رکھ دیا۔۔
ہاں بھئی تو سنائیں کیسے ہیں آپ لٹل عرش میر؟؟۔۔ اس کے ناک پہ چھوٹی سی کس کر کے روشم کے دیے گئے نام سے اسے پکارا۔۔ اور حیرت انگیز طور پہ وہ ہنسا تھا۔۔ شاید اسے بھی عرش میر کی طرح روشم کا دیا گیا نام پسند آیا تھا۔۔ تینوں ہی اس چاندنی رات میں مسکرا رہے تھے۔۔
***
ایک سال بعد
میں بہت خوش ہوں ندرت بھابھی کے لیے۔۔ شکر ہے اب ان کی بھی گود بھر جائے گی۔۔ وہ ابھی نیلم اور وجدان کے ولیمے سے واپس آئے تھے۔۔ روشم کو نیلم دوبارہ لاہور میں ہی ملی تھی جب وہ عرش میر کے ساتھ وہاں کسی کام سے گئی تھی۔۔
روشم کو دیکھ کر نیلم واقعی بہت خوش ہوئی تھی اور جب عرش میر کو اس کے شوہر کے روپ میں دیکھا تو اس کی حیرت کی انتہا نہ تھی۔۔ اس نے پوچھا بھی تھا کہ یہ سب کیسے تو روشم نے یہ کہہ کر ٹال دیا تھا کہ یہ ایک لمبی کہانی ہے۔۔ جسے سنتے سنتے اس کی عمر گزر جائے گی۔۔ اس لیے وہ بھی چپ کر گئی۔۔
ندرت اور ابان کی ابھی چھ ماہ پہلے ہی شادی ہوئی تھی۔۔ اور آج وجدان اور نیلم کے ولیمے پہ اسے پتہ چلا تھا کہ ندرت امیس سے ہے جس کی روشم کو دل سے بہت خوشی ہوئی تھی۔۔ اور کیوں نہ ہوتی ندرت نے اس سے ذیادہ لمبی تلخ مدت کو کاٹا تھا لیکن اب اللہ نے اسے انعام دے ہی دیا تھا۔۔
ہاں واقعی۔۔ ندرت بھابھی تھی ہی بہت اچھی۔۔ میرے دل سے بھی ان کے لیے ہمیشہ دعائیں ہی نکلی ہیں۔۔ وہ مرر کے سامنے اپنے جھمکے اتار رہی تھی جب عرش میر نے پیچھے سے آ کر اسے اپنے بازوئوں کے حلقے میں لیا۔۔
ایک بات پوچھوں عرش میر آپ سے۔۔ آئینے میں اس کے عکس کو دیکھتی وہ گویا ہوئی۔۔
ہمم پوچھو۔۔ اس کے بالوں میں منہ چھپاتا وہ بلکل مدہوش تھا۔۔
کیا عورت کا واقعی کوئی ٹھکانہ نہیں ہوتا۔۔ وہ جو کوئی جسارت کرنے لگا تھا روشم کی بات نے اسے ٹھٹھکنے پہ مجبور کر دیا۔۔
تمہیں کس نے کہا ہے یہ۔۔ اسے آئینے میں دیکھ کر وہ پوچھ رہا تھا۔۔
میں نے کیا کہنا ہے۔۔ سب ایسے ہی کہتے ہیں۔۔ جب ماں باپ کے گھر میں ہوتی ہے تو وہ کہہ رہے ہوتے ہیں کہ اپنے گھر میں جا کر اپنے شوق پورے کرنا۔۔ اور شادی کے بعد شوہر کہہ رہا ہوتا ہے کہ یہ تمہارا گھر نہیں کہ جو مرضی کرو۔۔
روشم کہ بات پہ وہ چونک ہہ تو گیا تھا۔۔ لیکن اسے پتہ تھا کہ اپنی بیوی کو کیسے ہینڈل کرنا ہے۔۔ بہت پیار سے اس نے اس کا رخ اپنی طرف موڑا۔۔
تمہیں پتہ ہے عورت محبت سے گوندھی ہوتی ہے۔۔ اسے ان ظاہری عمارتوں کی ضرورت نہیں ہوتی۔۔ اس لیے اس کا ٹھکانہ شوہر کا دل ہوتا ہے۔۔ اور جس عورت کو وہ مل جائے اسے کسی گھر کی نہ فکر ہوتی ہے ضرورت۔۔ وہ تو بس پھر اپنے شوہر کے دل پہ راج کرتی ہے۔۔
اس کے سائڈ پہ آئے بالوں کو وہ پیچھے کرتا اسے سمجھا رہا تھا۔۔
تو پھر ندرت بھابھی جیسی عورتیں کیا بے گھر ہوتی ہیں؟؟ کیونکہ عرشمان بھائی نے تو انہیں کبھی دل میں جگہ دی ہی نہیں۔۔ ایک نیا سوال حاضر تھا۔۔
تمہیں کس نے کہا ہے کہ مرد کے دل میں عورت نہیں ہوتی۔۔ روشم یہ جو نکاح ہے نا یہ بہت طاقتور چیز ہے۔۔ مرد کے دل میں جیسے تیسے کر کے گھر بنوا لیتی ہے۔۔ لیکن یہ بات پھر مرد کے ظرف پہ ڈیپینڈ کرتی ہے کہ وہ اپنی بیوی کو دل کی جھونپڑی میں رکھے یا محل میں۔۔ عرشمان کا اتنا ظرف ہی نہیں تھا کہ وہ ندرت بھابھی کو محل میں رکھ سکتا۔۔ ان کے پاس جھونپڑی جتنا ہی ظرف تھا۔۔
اسے پیار سے سمجھاتا وہ روشم کو قائل کر چکا تھا۔۔
کیا میرا ٹھکانہ بھی آپ کا دل ہے؟؟ کیا میں بھی آپ کے دل کے محل میں رہتی ہوں عرش میر۔۔ روشم اس کی آنکھوں میں دیکھ رہی تھی جیسےجواب وہاں ڈھونڈنا چاہتی ہو۔۔
تمہیں اس بات پہ ذرہ برابر بھی شک نہیں ہونا چاہیے ۔۔ یقینا میرا دل ہی تمہارا ٹھکانہ ہے۔۔ اور تم اس ٹھکانے کی ملکہ ہو۔۔۔ اس کے کان کی لو کو چومتا وہ گویا ہوا۔۔ روشم کو اب کسی اور چیز کا اقرار نہیں چاہیے تھا۔۔ اس کا لمس اس کی لہجہ اس کی آنکھیں سب چیخ چیخ کر بتا رہی تھی کہ عرش میر خان روشم سے عشق کرتا ہے۔۔
اس سے پہلے کہ عرش میر کی جسارتیں مزید بڑھتی ابراہیم نے گلا پھاڑ پھاڑ کر پھر سے رونا شروع کر دیا۔۔
یارررر۔۔ میں اس اپنے چھوٹے سے رقیب سے بہت تنگ آ گیا ہوں۔۔ اپنا کوئی بہن بھائی ہی نہیں آنے دے رہا۔۔ عرش میر نے دہائی دی۔۔ اور بیچارہ کیوں نہ دیتا ہمیشہ سے ہوتا ہی ایسے آ رہا تھا۔۔ وہ جب بھی روشم کے قریب جاتا ابراہیم کا نجانے کونسا سینسر آن ہو جاتا تھا کہ وہ گلا پھاڑ پھاڑ کر رونا شروع کر دیتا تھا۔۔
یہ رقیب بھی آپ ہی کا بیٹا ہے۔۔ اس کی بات پہ روشم ہنستے ہوئے ابراہیم کو گود میں اٹھا لیا۔۔
بیٹا نہیں باپ ہے یہ میرا۔۔ عرش میر بھی منہ بنا کر روشم کی گود میں چڑھے ابراہیم کی طرف بڑھا۔۔ اس کی شکل دیکھ کر روشم زور سے کھکھلائی اور اس بار روشم کو دیکھ کر عرش میر بھی ہنس پڑا تھا جبکہ ابراہیم اپنا رونا دھونا بھول کر دونوں کو ہونقوں کی طرح دیکھ رہا تھا۔۔
کچھ مشکلوں اور صعوبتوں کے بعد زنگی نہ صرف کھل کر مسکرائی تھی بلکہ پیشگی خوشیاں کی نوید بھی ساتھ لے کر آئی تھی۔۔
سو باتیں رد کر کر میں ایک بات لکھ دوں
میں صرف تجھ کو اپنی کائنات لکھ دوں
سو شکوئوں کا نچوڑ لکھ دوں
میں خود کو تجھ سے دور لکھ دوں
سو لفظوں کی غزل چھوڑو
میں ایک شعر میں تجھ کو سکون لکھ دوں
سو ستاروں کی جو چمک جو دیکھوں
میں تجھ کو یار مہتاب لکھ دوں
م سے محبت
س سے سکون
ق سے قرار
چھوڑو__
میں تجھ کو “ع” سے عشق لکھ دوں۔۔
از قلم “ایچ اے”
ختم شد
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...