بیڈ کے کنارے پر بیٹھی بلکل بچوں کی طرح آنکھوں میں ہاتھ دیے رو رہی تھی
عورت کی ناراضگیاں ۔۔روٹھنے ماننے کا تعلق صرف اُسکے پسندیدہ مرد کے لیے ہی ہوتا جس سے جوڑا مان کا رشتا اور دلی محبت سب کچھ اپنے محرم شخص سے ہی منسوخ ہوتا ہے اور عندلیب کے ساتھ بھی یہی تھا وہ چاہتی تھی اُسکے مان نخرے اُٹھائے جائیں اُسکا شوہر اُسے سر آنکھوں پر بیٹھیے
جبکہ طالش اپنی فائلز کو ایک بیگ میں ڈال رہا تھا ساتھ ساتھ ایک نظر روتی ہوئی اپنی معصوم سی بیوی کو دیکھ رہا تھا جو آج بھی اُسکا جانا مُشکل کر رہی تھی
"دیب جلدی آجاؤں گا اور اگر لیٹ ہوگیا تو کل پرسوں کو آجاؤں گا ملنے کے لیے اِس طرح تو مت کرو ”
اب بیگ رکھ کر اُسکے برابر آکر بیٹھ چُکا تھا اور ایک ہاتھ سے اپنے ساتھ لگا کر تسلی دی
"طالش آپ اتنی دیر بعد تو ملیں ہیں آپ مجھے اب بھی دور چلے جاتے ہیں”
اُسکے سینے سے سر اٹکائے شکوہ کرنے میں مصروف تھی
"ایک بات بتاؤں”
اُسکے بالوں پر لب رکھتے ہوئے بولا
جبکہ اُسنے بس سے ہلنے پر ہی اتکفاده کیا
"تم بھی مجھے اچھی لگتی تھی مجھے لگتا تھا تم پر بس میرا حق ہے لیکن مسئلہ یہ تھا کہ تم نے کبھی اظہار نہیں کو اور مجھے کبھی موقع نہیں ملا ”
عندلیب نے بے یقینی سے سے اُٹھا کر دیکھا تو آنکھوں میں ایک خوشی کی لہر تھی اپنا آپ ساری دنیا سے معتبر لگ رہا تھا
"بھائی آجائیں باقی رومانس پھر کبھی”
باہر سے چہکتی ہوئی آواز تو طالش کو اُسکی بے وقت انٹری پر غُصہ آیا لیکن کلاک کی طرف دیکھتا ہوئے جھٹکے سے اُٹھا
"دیب میں بہت لیٹ ہوگیا ہوں اب تم اپنا بہت سارا خیال رکھنا کوئی کام کرنے کی ضرورت نہیں ہے سوتے وقت مجھے یاد کر لینا اور کوئی بھی ٹینشن ہو امی کو نہیں دآمل کو بتا دینا ”
نصیحتیں کرتے ہوئے اُسکی کشدہ پیشانی اور ہونٹ رکھے اور ساتھ ہی اپنے سینے میں بھینچ لیا
"آپ بھی مجھے یاد کر لینا”
معصومیت سے بولی تو طالش کے چہرے پر مسکراہٹ در آئی چہرے کا ڈمپل واضح ہوا تو عندلیب نے جیجکتے ہوئے اُسکے ڈمپل پر انگوٹھا پھیرا اور چھینپ کر اُسکے سینے میں منہ دے دیا
"تم کبھی بھولی ہی نہیں”
اُسے خود سے الگ کیا آج اُسے مسکراتا ہُوا چھوڑ کر جارہا تھا تو دل عجیب سی خوشی سے سرشار تھا
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
لڑکی میری بات کان کھول کر سن لو اگر تم طالش کو اپنی طرف مائل کرنے میں کامیاب ہو چکی ہو تو یہ مت سمجھو کے مجھے معلوم نہیں پڑا ۔۔۔یہ تمھیں کوئی معافی مل سکتی ہے”
کچن میں کام کرتی عندلیب کے بال رُخسار کی مٹھی میں تھے
"وہ میرے شوہر ہیں کوئی گناہ نہیں کیا میں”
یہ سب طالش کی دی ہوئی محبت اور مان کا نتیجہ تھا جو اُسے بولنے پر مجبور کر گیا تھا
"ہاں تیری اتنی ضرت کے مجھے بتایا ۔۔۔۔اپنی زبان کو لگام دو لڑکی یہ نہ ہو کبھی بولنے کے قابل ہے نہ رہو”
بال چھوڑ کر اُسکا جبڑا دبوچا
"ایک بات اور جو کچھ ہوگیا اُس پر معاف کر رہی ہوں لیکن اگر تمہاری کھوک میں بچے کا وجود آیا نا تو اُسکے ساتھ تمھیں بھی موت کے منہ میں ڈال دونگی ”
باتوں میں نفرت اور حقارت صاف واضح تھی
"یہ بات آپ اپنے بیٹے سے کریں میرے بس میں کچھ نہیں ہے”
عندلیب نے سہولت سے انکار کردیا کون عورت چاہتی ہے کے اُسکے بدن میں کوئی وجود پروان نہ چڑھے اپنی اولاد کے لیے تو چڑیا بھی سانپ کا مقابلہ کر لیتی ہے
باہر سے آتی گاڑی کی آواز پر رخسار جلدی سے باہر چلی گی جب کے عندلیب نے شکر کا کلمہ پڑا
____________________
"ابے باہر کوئی میڈم کار میں آئی ہے اپنے محلے میں ”
دوسری منزل پر گھر ہونے کی وجہ سے باہر کو لگی ہوئی ونڈو میں نوفل نیچے کو جنکاتا ہُوا بولا
"دیکھ چل کیسے رہی ہے؟”
اپنے شک کو غلط ثابت کرنے کے لیے جھاڑو لگاتا ہوا بولا ایک آف وائٹ رنگ کی شلوار جس کا رنگ بلکل پیلا ہوچکا تھا پانچھے سے سلایں کھولی ہوئیں تھیں جبکہ چوڑا سینا بغیر کسی کپڑے سے تھا بال ابھی بھی ایوب کھوسہ کے بالوں کو شکست دے رہے تھے اور منہ ایسے جیسے صدیوں سے دھونا نصیب ہی نہ ہوا ہو ہاتھ میں پکڑا ہُوا جھاڑو اپنی بد قسمتی پر بے آواز تصبے بہہ رہا تھا کیوں کہ بچارا آدھا فرش اور آدھا اُسکے ہاتھ میں تھا
"اکڑ کر چل رہی ہے سیدھی لکیر کو دیکھ کر”
وہیں نظریں جمائے ہوئے بولا جبکہ محد جھاڑو پھینک کر چھو منتر ہُوا
"فتر تم کہنا میں گھر پر نہیں ہوں ”
کمرے کا دروازہ بند کرتا ہُوا بولا تو نوفل نے ونڈو کا پلو چھوڑ اُسکی طرف کو آیا جب دروازہ بجا
"ج۔۔۔۔۔۔جی کون ہیں آپ”
ایک دستک دینے کے بعد اندر آگئی جبکہ بچارا نوفل تو صدمے سے مرنے والا تھا
"پپو کو بلاؤ کس کمرے میں چھپا ہے ”
ایک نظر نیچے گرے ہوئے جھاڑو کو دیکھا جبکہ دوسری نظر کمرہ کا دروازہ دیکھ جس کی کنڈی ابھی بھی ہل رہی تھی سارا گھر اعلٰی صفائی کا منظر پیش کر رہا تھا ایک طرف گندے برتن جبکہ دوسری طرف کپڑے جو کسی طرف سے بھی دھوئے ہوئے معلوم نہیں ہورہے تھے ہاں البتہ تھوڑی دور تبت صابن کا ریپر نیچے پڑا تھا
"میڈم وہ گھر پر نہیں ہے”
اسکو کمرے کی طرف جاتا دیکھ کر نوفل جلدی سے بولا جس کا کوئی اثر نہیں ہوا تھا جاکر دروازہ کھول دیا سامنے محد شرٹ لیس کھڑا دیکھ کر جلدی سے آنکھوں پر ہاتھ رکھنے پر مجبور ہوگئی عجیب سی اُلجھن ہوئی تھی اُسکی باڈی کو دیکھ کر ہاں سیکس پیگ اور چھوڑا سینا اُسے آنکھیں بند کرنے پر مجبور کر گیا تھا
محد نے پاس پڑے بڑی سی چادر اپنے گرد لیپٹ لی بالوں کو جلدی سے ہاتھ سے ٹھیک کرنے کی کوشش کی اُسکے ہاتھ پاؤں لڑکیوں کی طرح کانپ رہے تھے
"تم کوئی کام کیوں نہیں کرتے”
جس دن سے بازل گیا تھا محد کا سوچ سوچ کر عجیب سی ٹینشن ہورہی تھی اسلیے بغیر سوچے سمجھے وہاں اگی لیکن اب کوئی بہانہ ذہن میں نہیں آرہا تھا
"نہیں جی ابھی جھاڑو لگا رہا تھا آج سالن بھی اسی نے مانگ کر لانا ہے اور کپڑے بھی بھائی نے ہے دھوئے ہیں ”
پیچھے سے نوفل نے بہت ہی تیز رفتاری سے اُسکا کام نامہ سُنایا کہیں دیر ہونے پر اُسکے جگری دوست کو شرمندگی نہ اٹھانی پڑے
جبکہ مایا کے ذہن میں ایک مرتبہ باہر پھیلائے ہوئے کپڑے آئے جو کسی نکمی عورت سے بھی چار ہاتھ آگے معلوم ہورہے تھے
جبکہ شرم کے مارے محد کی آنکھیں زمین پر گڑی ہوئیں تھیں
"میرے ساتھ کام کرو ۔۔۔۔تمہاری تنخواہ میں دونگی اور رہنا میرے ساتھ پڑے گا ہر ٹائم”
محد کی انکھوں میں ایک خوشی کی لہر آئی دو منٹ کے لیے اپنی قسمت اور یقین نہیں ہوا
"جی کروں گا”
ایک قدم آگے ہوکر بولا خوشی نہ قابلِ برداشت تھی
"لوگوں کو جان سے مارنا پڑتا ہے اپنی جان داؤ پر لگانی پڑتی ہے کر سکتے ہو؟؟؟”
اُس کی آنکھوں میں ناچتی خوشی دیکھ کر ڈرانے کی کوشش کی جو کامیاب نہ ہوسکی
"آپ کے لیے تو سات بار مرنا قبول ہے مجھے”
جذبات میں آکر زبان پھسل گئی تو خود ہی شرمسار سا ہوکر ایک قدم پیچھے ہوا کیا پتہ سامنے سے تھپڑوں کی برسات ہوجائے
"ٹھیک ہے جلدی آؤ میں انتظار کر رہی ہوں”
ایک خوف تھا کہیں اس معصوم اور سچے دل کے انسان کو بازل جیسا وحشی انسان اُس سے چھین نے لے اُسے محد کے دلِ جذبات اور کوئی اور معاملہ نہیں تھا بس یہ تھا کہ معصوم اور غریب انسان اپنی زندگی سے نہ جاتا رہے اور وہ پھر بغیر کسی مخلص انسان کے دُنیا میں رہ جائے
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
"عبداللہ آج شام کو مرینا کلب میں بہت بڑی پارٹی ہونے والی ہے اور مایا بھی وہیں ہوگئی کیوں کے آج وہ مغل حنان کو ختم کرنے کا اردہ رہتی ہے لیکن تمھیں اُسے اُسی کلب سے اغواء کرنا ہے کسی بھی قیمت پر ”
ایک وسیع لان میں بیٹھے بازل شاہ نے کافی کا کپ رکھتے ہوئے کہا
"سر ہمیں کیا فائدہ ہوگا ”
عبداللہ ہاتھ بندھ کر کھڑا بہت ہی دوستانہ روئیے سے بولا
"وہ لڑکی اب مجھے برباد کرے گی اُس سے پہلے اُسکے پاؤں میں بیڑیاں ڈالنی ضروری ہے ”
خلافِ توقع اُسنے جواب دیا جبکہ عبداللہ کی نظریں اسکی ویسٹ پر بنے ہوئے ٹیٹو پر تھیں جس پر وہ بھی بہت ریسرچ کر چُکا تھا لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا تھا
"بابا”
پیچھے سے آتی مخصوص آواز پر بازل پیچھے کو ہوا تو آنکھیں ایک بار چمک اٹھیں اُسکی قل کائنات چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی اُسکی طرف آرہی تھی سبز رنگ کی کامدار فراک جس کے اوپر لیدر کی جیکٹ سردی سے بچاو کے لئے پہنا رکھی تھی ایک ہاتھ میں فیڈر جبکہ دوسرے میں نیپکن پکڑا ہوا تھا واضح تھا کے وہ اُسکی گود میں دودھ پینے کے لیے آئی ہے
"بابا کا شیر بیٹا ”
اپنی جگہ سے اٹھ کر اُسے اپنی باہوں میں اٹھایا دونوں گالوں کو پیار سے چوما جبکہ عبداللہ وہاں سے چلا گیا تھا
اُسے اپنی گود میں لیٹا کر فیڈر منہ میں ڈالا جو کے ایک ہاتھ سے اُسکے داڑھی کے چھوٹے چھوٹے بالوں کو کھنچنے کی کوشش کر رہی تھی جس پر بازل کے چہرے پر خوشی نمایا تھیں پہلی بار ہوا تھا کے وہ نور کے ساتھ اتنا وقت گزار رہا تھا ورنہ ایسا کبھی ممکن بھی ہوا تھا دوسرے ممالک میں رشوت بہت کم چلتی ہے اور اگر جائے تو بھی وہاں کے بہت شاطر ہوتے ہیں جو کسی اور ذریعے سے پھسا دیتے اور پاکستان میں چاہے چار سو بندہ مار کر پولیس کا منہ بند کر دو تو سات پستوں تک خبر لیک نہیں ہوتی اسی بات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بازل نور کو اپنے ساتھ ہی رکھ رہا تھا
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
"آج جس گھر میں بازل شاہ رہتا ہے اُسکے تمام سیکورٹی لاکذ اور الارم ڈسکینایکٹد کرنے ہیں تاکہ اُس کے پاس پڑی ساری فائلز اُسکے کمپیوٹر سے لی جا سکیں”
منان مغل اپنی چیئر پر جھولتا ہوا بولا
"سر کراچی کی آدھی رینجر اُسکے گھر کا محاصرہ کیے رکھتی ہے یہ مشکل کام ہے”
اُسکا منیجر سامنے کمپیوٹر سکرین پر چلتی ویڈیو دیکھ کر بولا
"آج وہ پارٹی پر انوائیٹ ہوگا مرینا کلب میں اور زیادہ سیکیورٹی اُسکے ساتھ وہاں ائے گئی اور ہمارا کام آسان ہوجائے گا”
ٹیبل پر پڑا پیپر ویٹ اُٹھا کر بولا
"گھر میں شاید اُسکی بیوی ہو اُسے اگر ختم کرنا پڑے تو کے دینا”
انکھوں میں ایک شرارت تھی یہ کوئی جیت کا نشا
"نہیں دو سال پہلے قتل ہوگیا تھا اُنکا سر”
مینیجر نے اپنی طرف سے بہت بڑی خبر سے آگاہ کیا
"اوہ ہو پھر تو افسوس بنتا ہے چلو ہر چیز کا اکٹھا افسوس ہوگا”
چہرے پر شیطانی مسکراہٹ ہوبہو قائم تھی
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
"سر ایک لڑکی ضد کر رہی ہے آپ سے ملنے کی ”
ابھی نور اُسکی گود میں ہی ماجود تھی اور اب غنودگی میں جارہی تھی فیڈر اب بازل کے ہاتھ میں تھا
"کون ہے؟؟”
پہلی بار یہ ہورہاتھا کے کوئی اسکو اکسیس کر رہا تھا اسلیے تھوڑا متاثر بھی تھا
"سر نوین ہے کپٹن مایا کی اسسٹنٹ”
عبداللہ نے اُسکا کارڈ سامنے کرتے ہوئے کہا
"ڈرائنگ روم میں بیٹھیں آتا ہوں”
سوتی ہوئی نور کو اُٹھا کر اندر کی طرف بڑھتے ہوئے عبداللہ کو حیران کر گیا
تھوڑی دیر میں بازل کمرے میں آیا تو نوین بیٹھی چائے اور دوسرے لوازمات سے دو دو ہاتھ کرنے میں مصروف تھی جبکہ عبداللہ بچارا حیران کھڑا اُس لڑکی کی ہمت کو دیکھ رہا تھا
"سر میں آپکی بہت بڑی فین ہوں اُس دن آپ اپنا کارڈ چھوڑ کر آئے تھے تو میں آپکو ڈھونڈ لیا ۔۔آپ بہت ہی سمارٹ ہینڈسم اور ہاٹ ہیں ۔۔۔بس اپنے آٹو گراف کی جگہ میرے ہاتھ پر تھوڑی سی کس کر دیں ”
بنا شرمایا کسی رکھ رکھاؤ کے سیدھی بات منہ پر ماری حیرت کی زیاتی سے دونوں کے منہ کھولے ہی رہ گئے
وہ تو مایا کی وجہ سے مل رہا تھا کہ شاید وہ ڈیل کے لیے راضی ہوجائے اور یہاں تو معاملہ ہی اُلٹ تھا اتنا ہٹ ہونے کے باوجود بھی کبھی کسی مغربی لڑکی نے بھی اُسے ایسے القابات نے نہیں نوازہ تھا اور یہ مشرقی لڑکی ۔۔۔۔۔۔
"عبداللہ اسے ڈیل کرو میرے پاس اتنا فضول ٹائم نہیں ہے”
رعب سے کہتا چلا گیا جب عبداللہ نے اپنا ہاتھ آگے کیا
"کیا ہے”
اُسکے لہجے کنگ کھڑی تھی عبداللہ کی حرکت پر تین قدم پیچھے ہوئی
"سر کہہ کر گے ہیں کس کردوں”
وہ تین قدم آگے ہُوا تو نوین اپنا بیگ اٹھا کر نو دو گیارہ ہوئی
پیچھے عبداللہ کا قہقہہ پورے ڈرائنگ روم میں گونجا
°°°°°°°°°°°°°°°°°°
جب قانون موجود نہ ہو۔۔۔۔ ایک حیرت انگیز سچا واقعہ
یہ 1 نومبر 1955 کی بات ہے کہ جان گلبرٹ گراہم نامی ایک امریکی شہری کہ جس کا اس کی...