’’سوری حریم میں تم سے محبت نہیں کرتا ہمارے درمیان جو بھی ہوا جسٹ ایک فلرٹ تھا تم اسے وقت گزاری یا پھر ٹائم پاس بھی کہہ سکتی ہو اور تم اس لسٹ میں کس نمبر پر تھی یہ میں بھی نہیں جانتا۔‘‘ کلائی کی رگ کاٹتے ہوئے اسے اتنا درد نہیں ہوا تھا جتنی اذیت ان چند جملوں پر ہو رہی تھی۔
’’ٹائم پاس، وقت گزاری، فلرٹ۔‘‘ اسے لگ رہا تھا جیسے کسی نے اوپر کہکشاؤں پرلے جا کر اس کا ہاتھ چھوڑ دیا ہو وہ جیسے خلا میں معلق تھی جہاں ہوا کا وجود ناگزیر تھا وہ بمشکل سانس کھینچ رہی تھی۔
اس کا دم گھٹ رہا تھا اور حواس تاریکیوں میں ڈوب گئے تھے، کبھی کسی نے تاریکیوں میں اجالے دیکھے ہیں، مگر وہ دیکھ رہی تھی، لیکن وہ اجالا تو نہیں تھا اجالا تو روشنی ہے اور روشنی تو امید ہوتی ہے یہ آگ تھی، جو شمال کے کنارے سے زمین کی سمت لپک رہی تھی، اس کے دل پر وحشت چھانے لگی خوف کی شدت جبکہ سماعتیں ہولناک دھماکوں کی زد میں تھیں، یوں لگتا تھا جیسے وہ آگ ساری کائنات کو جلا کر خاکستر کر ڈالے گی۔
’’کیا میں مر رہی ہوں۔‘‘ آگ نے اس کا دامن پکڑا تھا جب اچانک اس کے حواس لوٹ آئے اس نے خوفزدہ نظروں سے اپنے اوپر جھکی مایا کو دیکھا وہ لندن ہاسپٹل کے پرائیویٹ روم میں تھی۔
’’بھگوان کا شکر ہے کہ تمہیں ہوش آ گیا۔‘‘ ابھی وہ شکر گزاری کے ابتدائی مراحل میں تھی کہ اچانک اس کی زرد پڑتی رنگت اور کانپتے وجود پر بوکھلا کر رہ گئی۔
’’حریم کیا ہوا؟‘‘ اس نے آگے بڑھ کر بے ساختہ اس کا ہاتھ تھام لیا تھا جبکہ وہ مسلسل روئے جا رہی تھی یہاں تک کہ اس کی ہچکیاں بندھ گئیں کس نیکی کے عوض اللہ نے اسے آگ سے بچا لیا تھا۔
’’والدین کی ناراضگی اس پر اقدام خود کشی اگر میں مر جاتی تو…‘‘ اس سے آگے کا منظر اس قدر وحشت ناک تھا جس کی ہیبت اور ہولناکی ابھی تک اس کے دل پر طاری تھی۔
’’حریم پلیز ہوش میں آؤ یہ پانی پیو۔‘‘ مالا اسے سنبھالنے میں لگی ہوئی تھی اس نے ایک ہی گھونٹ میں گلاس خالی کر کہ واپس رکھ دیا تھا۔
’’میں اسے کبھی معاف نہیں کروں گی مالا اس نے میری زندگی برباد کر دی ہے میں بھی اسے کبھی آباد نہیں ہونے دوں گی مجھے سعودیہ جانا ہے، بس۔‘‘
’’اچھا ابھی تم پہلے ٹھیک تو ہو جاؤ میں خود چلوں گی تمہارے ساتھ۔‘‘ مالا نے اسے بہلاتے ہوئے اٹھ کر بیٹھنے میں مدد دی اور ٹشو سے اس کا چہرہ صاف کیا وہ سمجھ سکتی تھی کہ اس وقت وہ کس قدر اذیت اور ذہنی ابتری کا شکار ہے۔
اسے تو پہلے ہی شک تھا کہ وہ شخص حریم کے ساتھ مخلص نہیں ہے وہ تو ایک فیک ورلڈ تھی جھوٹی دنیا، جہاں لوگ ایک چہرے پر دس چہرے سجائے پھرتے ہیں اور اصل حقیقت کسی کو نظر نہیں آتی۔
’’حریم یہ سب کیوں کیا تم نے۔‘‘ زیب ابھی ابھی ایگزمینیشن ہال سے واپس آئی تھی اور اسے ہوش میں دیکھ کر متفکر سی اس کے سامنے کھڑی تاسف بھری نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی حریم نے کوئی جواب نہیں دیا تھا۔
’’تم نے واپس جانے سے منع کر دیا تھا میں نے تمہارا ساتھ دیا مما کو کنوینس کیا پھر یہ سب کی مجھے سمجھ نہیں آ رہی۔‘‘ اب وہ اس کے پاس بیٹھ چکی تھی مگر وہ ہنوز لب باہم پیوست کیے بیٹھی رہی تھی زیب نے اس کی مسلسل خاموشی سے تنگ آ کر مالا کو دیکھا۔
’’مالا تمہیں تو معلوم ہو گا۔‘‘
’’کچھ خاص نہیں بس اس کے گھر والوں نے کزن میرج سے انکار پر اس کا بائیکاٹ کر دیا ہے جس پر یہ بہت ڈیپریس ہو گئی تھی۔‘‘ اس نے بروقت ایک مثبت جواز تراش کر صورتحال کنٹرول کی تھی۔
’’اوہو حریم تم نے جسٹ اپنا حق استعمال کیا ہے اب زیادہ گلٹ فیل کرنے کی ضرورت نہیں ہے ابھی وقتی غصہ ہے بے فکر رہو چند دنوں میں مان جائیں گے مالا تم اسے جوس وغیرہ پلاؤ میں ڈیوز کلیئر کر کے آتی ہو۔‘‘ اسے تسلی سے نوازنے کے بعد مالا کو ہدایت کرتی وہ دروازے سے واپس پلٹی تھی۔
’’خود کشی کا کیس تھا کوئی پرابلم تو نہیں ہوئی۔‘‘
’’ڈاکٹر ولیم میرے جاننے والے تھے انہوں نے ہینڈل کر لیا تھا۔‘‘ انرجی ڈرنک کاٹن کھولتے ہوئے وضاحت آمیز بیان کے بعد وہ حریم کی سمت متوجہ ہو چکی تھی۔
٭٭٭
’’چلو یہ سوپ پیو جلدی سے اور دماغ پر اب بالکل بوجھ نہیں ڈالنا خوش رہا کرو یار، ڈپریشن کسی بھی مسئلے کا حل نہیں ہے الٹا تم اپنی صحت خراب کر لو گی رنگت دیکھو ذرا، ایک ہی دن میں کس قدر زرد ہو چکی ہے۔‘‘ زیب اس کا آج کل بہت خیال رکھ رہی تھی مالا بھی فری ٹائم میں اسے کمپنی دینے آ جاتی تھی مگر اس کے وجود میں جیسے آگ دہک رہی تھی دل کی جگہ آتش فشاں بھڑک رہا تھا کیا وہ اتنی ارزاں تھی کہ اسے دل بہلانے کی خاطر استعمال کیا جاتا اپنی توہین کسی بھی صورت برداشت نہیں ہو رہی تھی۔
اعتبار اور مان تو ٹوٹا ہی تھا لیکن اس کے ساتھ ساتھ سارے خواب بھی راکھ کا ڈھیر ہو گئے تھے۔
’’ایان کو بھی اتنا ہی درد ہوا ہو گا۔‘‘ آج اپنے دل پر چوٹ لگی تھی تو اس کے ساتھ کی گئی بیوفائی کا احساس بھی جاگ اٹھا تھا۔
’’تمہیں میرے دل پر لگے ایک ایک زخم کا حساب دینا ہو گا میں تمہاری زندگی کو جہنم بنا دوں گی۔‘‘ غم و غصے کا احساس اس قدر حاوی تھا کہ اس کا بس چلتا تو وہ ساری دنیا کو تہس نہس کر دیتی، اوور کوٹ کی پاکٹ میں رکھے سیل فون کے ٹکڑے نکال کر اس نے کچرا دان میں پھینک دئیے تھے۔
’’مالا وہ جس اٹالین کمپنی میں جاب کرتا ہے، اس کا مرکزی دفتر برمنگھم میں ہے، ہمیں وہاں سے اس کا مکمل ایڈریس مل سکتا ہے ویسے بھی زیب کے ایگزیم ختم ہو چکے ہیں وہ اپنے ماموں کے پاس چھٹیاں گزارنے کا پلان بنا رہی ہے میں بھی اس کے ساتھ جاؤں گی۔‘‘ اسٹور سے واپسی پر واک کرتے ہوئے اس نے مالا کو اپنے لائحہ عمل سے آگاہ کیا تو وہ رک کر ترحم بھری نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے گویا ہوئی۔
’’حریم میری جان کیوں خود کو تھکا رہی ہو جو ہوا فارگیٹ اٹ۔‘‘
’’بہت مشکل ہے مالا۔‘‘ پلکوں پر امڈ آنے والی نمی کو اس نے بمشکل آنسوؤں میں ڈھلنے سے روکا اور تیزی سے فرسٹ فلور کی سیڑھیاں چڑھ گئی، لیکن اپارٹمنٹ میں قدم رکھتے ہی اس کی نظروں میں جیسے زمان و مکان گھوم کر رہ گئے تھے۔
کھٹکے پر دونوں نے سر اٹھا کر مرکزی دروازے کی سمت دیکھا تو زیب کے لبوں پر استقبالیہ مسکراہٹ امڈ آئی تھی جبکہ شہروز اسے کسی حسین یونانی مورتی کی مانند دروازے میں ایستادہ دیکھ کر بے ساختہ اٹھ کھڑا ہوا تھا، وہ جس چہرے کی تلاش میں لاہور کی خاک تک چھان آیا تھا وہ یہاں تھی اس کی کزن کے اپارٹمنٹ میں، عجیب اتفاق تھا لیکن انتہائی خوشگوار بھی، ابھی چند روز قبل ہی اس نے اپنا تبادلہ برمنگھم سٹی میں کروایا تھا لیکن آفس جوائن کرنے سے قبل وہ ایک بار اس چہرے کو تلاش کرنا چاہتا تھا جس کے بغیر اب خوابوں کے رنگ پھیکے تھے۔
اس کی ذات ادھوری تھی اور دل خالی تھا، یہ ساری چھٹیاں اس نے لاہور پھپھو کے گھر کم اور جناح پارک میں زیادہ گزاری تھیں اور اب جبکہ وہ بالکل مایوس ہو کر لوٹ آیا تھا، تو تقدیر اسے اچانک سامنے لے آئی تھی، اسے جانے کیوں یقین سا تھا کہ وہ ملے گی ضرور اور اب اسے سامنے دیکھ کر اسے احساس ہوا تھا کہ اس کی لگن اس کا یقین سچا ہی تھا۔
’’کیا اللہ مجھ پر ابھی بھی اتنا مہربان ہے اس نے مجھے ایک بار پھر خوار ہونے سے بچا لیا ہے ورنہ اس شخص کی تلاش میں جانے کہاں کہاں بھٹکنا پڑتا۔‘‘ زیب کل سے ہی بے حد پر جوش تھی اپنے کزن کی بھرپور مردانہ وجاہت پر زمین و آسمان کے قلابے ملائے جا رہے تھے اس کے لئے خاصی ڈشز تیار کروائی گئی تھیں ان سب کے برعکس وہ اپنی ذاتی تیاری پر بھی بہت کانشس ہو رہی تھی۔
’’ماموں کا ارادہ میری اور شہروز کی انگیج منٹ کا ہے رات فون کر کے مما نے میری مرضی دریافت کی تھی اف حریم میں کیا بتاؤں کہ میں کتنی خوش ہوں وہ اتنا ڈیشنگ اور چارمنگ ہے کہ بس بندہ دیکھتا ہی رہ جائے۔‘‘ رات اس نے کس قدر پر جوش اور والہانہ انداز میں اسے سب بتایا تھا اور وہ واقعی دیکھتی ہی رہ گئی تھی۔
’’حریم وہاں کیوں کھڑی ہو آؤ نا ان سے ملو یہ میرے کزن ہے شہزور، اور یہ میری دوست حریم ہے۔‘‘ زیب نے اسے بازو سے تھام کر تعارف کروایا تھا۔
’’نائس ٹو میٹ یو۔‘‘ وہ مبہم سا مسکرایا، جبکہ حریم ساکت کھڑی اس کی آنکھوں میں شناسائی کی رمق ڈھونڈ رہی تھی، مگر وہاں تو کسی اور ہی جذبوں کا رنگ تھا، وہ رنگ جو کچھ روز قبل وہ اس کی آنکھوں سے نوچ کر پھینک چکا تھا اسے جانے کیوں لگا کہ وہ اس کے چہرے سے واقف تھا اور نام سے انجان جبکہ حقیقت تو اس کے برعکس تھی۔
’’حریم تم جلدی سے پیکنگ کر لو شہروز ہمارے ساتھ ہی جائے گا۔‘‘ کافی کا آخری گھونٹ بھرتے ہوئے زیب نے دونوں مگ اٹھائے اور اٹھ کر کچن میں چلی گئی۔
’’حریم، نائس نیم۔‘‘ وہ توصیفی نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے یوں بولا جیسے یہ نام پہلی بار سنا ہو وہ اک سرسری نگاہ اس پر ڈال کر اپنے بیڈ روم میں چلی آئی تھی جبکہ دل اس قدر زور سے دھڑک رہا تھا جیسے پسلیاں توڑ کر باہر نکل آئے گا دھڑکنوں کی بے اختیاری سے گھبرا کر اس نے جلدی سے پیکنگ شروع کر دی تھی زیب کے دو سوٹ کیس تیار پڑھے تھے جس کا مطلب تھا وہ اپنی پیکنگ کر چکی ہے اپنا مختصر سا سامان سمیٹ کر جب وہ باہر آئی تو زیب ڈائیننگ ٹیبل پر کھانا لگائے منتظر بیٹھی تھی۔
’’آ جاؤ بھئی تمہارے انتظار میں ہم نے بھی کھانا شروع نہیں کیا۔‘‘ اس قدر پذیرائی۔
مانا کہ وہ بہت خوش اخلاق، ملنسار اور پر خلوص لڑکی تھی مگر حریم نہیں چاہتی تھی کہ وہ اب اس کا اس قدر خیال کرے۔
’’کیا میں اتنی خود غرض اور بے حس ہو چکی ہوں۔‘‘ پلیٹ میں خالی چمچ چلاتے ہوئے اس نے زیب کو دیکھا خوشی دھنک رنگوں میں ڈھل کر اس کے چہرے پر بکھری ہوئی تھی، آنکھوں میں شوخی، لبوں پر شرمگیں سا تبسم، وہ کتنے اصرار سے اس کی پلیٹ میں ہر دو منٹ کے بعد کچھ نہ کچھ ڈالے جا رہی تھی، مگر وہ… زیب کی بجائے اس کی سمت متوجہ تھا۔
پر شوق نگاہوں میں ان کہے جذبوں کی آنچ تھی حریم کا دل سلگنے لگا وہ اتنی حسین تھی کہ کوئی بھی اسے دیکھ کر پہلی نظر کی محبت کا شکار ہو سکتا تھا مگر اس کے انداز بتاتے تھے جیسے وہ برسوں سے اس کے حسن کا اسیر ہو۔
لاتعلقی کا مظاہر کرتے ہوئے اس نے اپنی تمام تر توجہ کھانے کی جانب مبذول کر دی تھی وہ کسی خوش فہمی کا شکار نہیں ہونا چاہتی تھی ایک بار کا تجربہ کافی تھا۔
’’میں اسے جتنا اگنور کروں میرے فیور میں اتنا ہی اچھا ہے بڑا غرور ہے نا اسے اپنی شاندار مردانہ وجاہت پر، بھلا نظر انداز ہونا کہاں گوارہ کرے گا۔‘‘
’’کھانا تو بہت ٹیسٹی ہے تم اتنی اچھی کک نہیں ہو سکتی۔‘‘ مشرومز والا پاستا بریانی اور مٹن کباب کے بعد اب شاہی ٹکڑوں سے مکمل انصاف کرتے ہوئے اس نے زیب کو دیکھا تو وہ حریم کی سمت اشارہ کرتے ہوئے بولی۔
’’یہ سب ان محترمہ کا کمال ہے۔‘‘
’’زیب میں مالا سے مل کر آتی ہوں۔‘‘ نیپکن سے ہاتھ صاف کرنے کے بعد وہ کرسی گھسیٹ کر اٹھ کھڑی ہوئی تھی زیب اس کی سنجیدگی کو سابقہ حالات کا تقاضا سمجھ کر خاموشی رہی جبکہ شہروز کو اس کا یہ بے نیازی بھرا انداز اچھا لگا تھا وہ پریوں سی آن بان والی لڑکی ایسا ہی شاہانہ مزاج ڈیزرو کرتی تھی۔
٭٭٭
مالا سے مل کر وہ واپس آئی تو زیب اپارٹمنٹ لاک کر رہی تھی شہروز پارکنگ سے گاڑی نکال چکا تھا اس نے آگے جھک کر اپنا بیگ اٹھایا اور دونوں باتیں کرتے ہوئے لفٹ میں داخل ہو گئیں۔
’’تمہیں شہروز کیسا لگا۔‘‘ زیب کو جاننے کی بے تابی تھی۔
’’ٹھیک ہے۔‘‘ وہ لاپروائی سے بولی تو زیب کا صدمے سے برا حال ہو گیا۔
’’ہاں بس ٹھیک۔‘‘ سن گلاسز آنکھوں پر ٹکاتے ہوئے لفٹ سے نکل آئی تو وہ زیب اس کی پشت کو گھورتے ہوئے بڑبڑائی۔
’’اب اتنی بھی کیا خود پسندی۔‘‘
’’تم کیا جانو مجھے کس قدر نفرت ہے اس شخص سے۔‘‘ اپنے اندر اٹھتے ابال کو بمشکل ضبط کرتے ہوئے وہ گاڑی تک آئی تو زیب کو فرنٹ ڈور کھولتے دیکھ کر اسے کچھ یاد آ گیا تھا۔
’’جب میں لندن آؤں گا تو تمہیں اپنی ساری گاڑیوں میں گھماؤں گا آئی وش تم میرے ساتھ فرنٹ پر بیٹھو۔‘‘ اس کی سماعتیں سلگنے لگیں بس نہیں چل رہا تھا کہ اس ہنستے ہوئے شخص کا منہ نوچ لے اس کا حلیہ بگاڑ دے وہ حشر کرے کہ لوگ اس کے خوبصورت چہرے سے نفرت کرنے لگیں، مگر افسوس اسے بھیانک انجام سے دوچار کرنے کے لئے ابھی ضبط کے کڑے مراحل باقی تھے۔
’’ایان بھی میرے متعلق یہی سوچتا ہو گا۔‘‘ اگلا خیال اسے اندر تک جھنجھوڑ گیا تھا۔
’’مجھے اس شخص کے ساتھ ساتھ خود سے بھی نفرت کرنی چاہیے میں بھی تو خود غرض، بے وفا اور مطلب پرست نکلی ہوں یہ اذیت جو میرے حصے میں آئی ہے وہ بھی تو سہہ رہا ہو گا۔‘‘
’’حریم کچھ کھاؤ گی۔‘‘ شہروز سے باتیں کرتے ہوئے اسے اچانک گھنٹہ بھر سے خاموش بیٹھی حریم کا خیال آیا تو شہروز نے بھی بیک مرر اس پر ٹکا دیا تھا وہ اچھی خاصی جز بز ہوئی۔
’’نہیں۔‘‘ لیکن انکار کے باوجود شہروز نے راستے سے انہیں برگر، کولڈ ڈرنک اور چپس وغیرہ لے کر دی تھیں اس کے علاوہ وہ ایک جیولری شاپ پر بھی رکا تھا زیب نے اس سے پوچھا بھی کہ کیا لائے ہو مگر وہ خوبصورتی سے ٹال گیا تھا۔
’’تم بور تو نہیں ہو رہی۔‘‘ وہ سیٹ کی پشت پر ہاتھ رکھے اب مکمل طور پر اس کی سمت متوجہ تھی اس نے نفی میں سر ہلا دیا اس وقت اس کا کوئی بھی بات کرنے کو دل نہیں چاہ رہا تھا۔
’’اور میں تمہیں بور ہونے بھی نہیں دوں گی دیکھنا یہ دن تمہاری زندگی کے سب سے یادگار دن ہوں گے تم بہت انجوائے کرو گی۔‘‘ وہ یادگار پر زور دیتے ہوئے پورے وثوق سے بولی تھی۔
’’دن تو یہ تمہارے یادگار ہوں گے مجھ سے اتنی محبت نہ کرو کہ میرے لئے تمہاری نفرت بہت مشکل ہو جائے۔‘‘ سیٹ کی پشت پر سر ٹکاتے ہوئے اس نے آنکھیں موند لیں ذہن مختلف سوچوں کی آماجگاہ بن چکا تھا۔
’’یہ کیا میں پژمردہ سی بیٹھی ہوں ایسا سوگوار روتا بسورتا چہرہ اسے بھلا کیا خاک اچھا لگے گا لیکن نہیں اسرار میں تو کھوج ہوتی ہے اس کی آنکھوں میں پسندیدگی کے رنگ نہیں کسی جنون کا عکس جھلملاتا ہے مجھے اس مقام پر مات نہیں ہو گی۔‘‘ گھر آنے تک وہ اپنا مائینڈ اچھا خاصا میک اوور کر چکی تھی۔
شہروز راستہ بھر بیک ویو مرر میں سے اسے دیکھتے ہوئے آیا تھا پورے سفر میں وہ محض دو بار بولی تھی جبکہ اس کا بار بار دل چاہا تھا کہ وہ اسے مخاطب کرے مگر اس کے سنجیدہ رویے اور سپاٹ انداز نے کسی بھی قسم کی پیش قدمی سے باز رکھا تھا۔
وہ اپنی تصویر سے بھی زیادہ دلکش اور حسین تھی سوگواریت میں ڈھلا اس کا نوخیز پیکر، کتابی چہرہ، گوری رنگت، ہیزل گرین آنکھیں، سیاہ سلکی بال اور شنگرفی لبوں کے کونے میں چمکتا ہوا سیاہ تل، پر وقار چال کے ساتھ جب وہ اس کے پاس سے گزری تو ایسا لگا جیسے برمنگھم کا موسم مہک اٹھا ہو، وہ اس کے گھر میں تھی یہ خیال ہی کس قدر مسرت آمیز تھا۔
٭٭٭
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...