(Last Updated On: )
شور ہر چند مری دیدہ دری کا بھی ہے
مجھ پہ الزام کچھ آشفتہ سری کا بھی ہے
ہم بُرے ہی سہی پر اتنے گئے گزرے نہیں
یعنی کچھ عیب تری بد نظری کا بھی ہے
ٹمٹماتا تھا سو اب بجھ گیا خوابوں کا دِیا
اِس میں کچھ ہاتھ ہوائے سحری کا بھی ہے
سب کی سننی ہے مگر کچھ نہیں کہنا ہے مجھے
اِمتحاں اب کے مری بے جگری کا بھی ہے
دیکھنا کیا ہے؟ نگاہوں کا مِٹا دینا ہے
یعنی کچھ فائدہ یاں بے بصری کا بھی ہے
میں ہتھیلی تو سمجھتا نہیں لیکن اسلمؔ
اِک نشاں اس میں مِری دربہ دری کا بھی ہے
٭٭٭