نیا گھر تھا اور اسکا پہلا ہی ایسا دن تھا اسے یاد تھا جب جب اسے کوئی نئی چیز ملی وہ اسکے لئے نقصان کا باعث ہی بنی تھی چاہے وہ گھر سے ملی آزادی یا پھر یونیورسٹی کی اجازت ہی کیوں نا ہوئی ۔۔۔
لیکن کل رات سے ابھی تک وہ نا جانے کیوں لیکن خود کو محفوظ تصور کر رہی تھی اسے سرور نہیں پسند تھا اور لگا بھی تھا کہ وہ اس پر ظلم کے پہاڑ توڑنے والا ہے لیکن ایسا ہوا تو کچھ بھی نا تھا ۔۔۔
اس نے پہلی رات ہی اس پر اپنی اور اس رشتے کی اہمیت واضح کر دی تھی ۔۔۔
یہ اسکی اچھائی نہیں تھی تو کیا تھا ؟ جو وہ سب جاننے کے باوجود بھی اس سے نا صرف نکاح بلکہ اسے بیوی ہونے کا درجہ بھی دے چکا تھا ۔۔ لیکن میں یہ سب اتنی جلدی ہضم نہیں کر پا رہی تھی ۔۔
کیا کوئی شوہر ایسا کر سکتا ہے ؟ اسکی غیرت گوارا کر سکتی ہے ایک ایسی لڑکی سے شادی کرے اور اگے بڑھائے جسکا کردار اسکی نظروں گر چکا ہو ۔۔۔پھر آخر کیا وجہ تھی جو سرور نے مجھے قبول کر لیا ؟۔۔
سوچ سوچ کر میرا سر درد سے پھٹا جا رہا تھا ۔کتنی عجیب بات تھی نا مجھے شہیر سے باتیں کرتے وقت یا ملاقاتیں کرتے وقت کچھ بھی ایسا محسوس نا ہوتا تھا اور اب جب اللّه مجھ پر مہربان تھا یا جو بھی وجہ تھی اسکے پیچھے سوچ سوچ کر میں خود ہمکو ہلکان کر رہی تھی ۔۔۔
ابھی تو بس تھوڑی دیر کے لئے ہی سب کزنز مجھے اکیلے چھوڑ کر اندر گئی تھی اور اتنی دیر میں ہی میں خود سے بیزار ہو گئی ہوں تو اگے کیا ہوگا میرا ۔۔
لیکن اب ایک بات تو طے ہے میں اب کسی حرام کام میں نہیں پڑنے والی تھی لیکن سرور کی بھی کوئی من مانی نہیں چلنے دینے والی تھی لیکن کیا میں کچھ کر سکتی ہوں ؟
نہیں میں کچھ نہیں کر سکتی ۔۔اگر گھر چلی گئی یہاں سے لڑ جھگڑ کر تو ابا تو جان سے مار دینگے ۔۔ویسے بھی کل سے جتنا سمجھ پائی ہوں سرور کوئی خراب بندہ تو نہیں لگ رہا اگر میں اسکے ساتھ سہی رہوں اور اسے یقین دلا دوں کہ میں مخلص ہوں اس رشتے سے تو وہ بھی تو مرد ہی ہے نا کب تک بھاگے گا اسے یقین کرنا ہوگا اور میں بس کر دکھاؤں گی سب کو ۔۔خوش بھی رہوں گی ۔۔
کس کے بارے میں سوچ رہی ہو ۔۔۔اپنی سوچوں میں گم مجھے پتا ہی نا چلا کب سرور سہن مو موجود چارپائی پر میرے ساتھ اکر بیٹھ گیا اور میرے کان میں سرگوشی کرتے میرے چہرے پر نظریں گاڑھے مجھے گھورنے لگا ۔۔۔
کسی کے بارے میں سوچنے کی فرصت کہا ہے مجھے ۔۔بس اپنی زندگی کے بارے میں ہی سوچ رہی ہوں جو پہلے تھی پھر جو سب میرے ساتھ ہوا اسکے بعد اب اچانک یہ شادی نیا رشتہ اور تم ۔۔
سرور کی انکھوں سے نظریں ہٹا کر اس نے اپنی نظروں کا زاویہ اپنے ہاتھوں کی طرف کیا تھا جو وہ اپس میں الجھائے بیٹھی تھی ۔۔۔
کیا تمہیں مجھ پر غصہ نہیں ؟
نہیں ۔۔۔یک لفظی جواب آیا تھا ۔۔
ماضی میں جو کچھ بھی تم نے دیکھا اسکے بعد بھی نہیں ۔ وہ کیا جاننا چاہتی تھی سرور کو سب سمجھ میں آرہا تھا ۔۔۔
نہیں تب بھی نہیں ۔۔یہ جواب دیتے اسکے چہرے پر اطمینان اب بھی قائم تھا ۔
کیوں آخر کیوں ؟ کیا تم غیرت مند مرد نہیں ہو ؟ کیوں کہ میں نے سن رکھا ہے مرد کو کبھی بھی ایسی لڑکی نہیں پسند ہوتی جو کسی اور سے عشقی معشوقی کر چکی ہو ۔۔پھر تم اتنی آسانی سے کیسے بھول سکتے ہو ؟یا پھر کوئی اور وجہ ہے ۔۔ سرور کو وہ ذہنی طور پر بہت توڑ پھوڑ کا شکار لگی جو اپنے لڑکپن میں ہوئی اس غلطی پر ابھی تک پیشماں تھی اور نا خود بھولنا چاہ رہی تھی بلکہ اسے بھی بار بار یاد کروا رہی تھی ۔وہ نہیں چاہتا تھا یہ سب اس لئے اسے اپنی باتوں سے قائل کرنے کی کوشش کرنے لگا اور یقین تھا اسے وہ عبیر اس فیز میں سے نکال لے گا ۔۔
مجھ سے زیادہ غیرت مند اور کون ہو سکتا ہے ؟جب میں تمہیں جانتا بھی نہیں تھا اسکے باوجود میں نے آج تک کسی کو بھی لڑکی کے جذبات سے کھیلنے نہیں دیا ۔۔اور جب چچا نے مجھے تمہارے بارے میں بتایا تو جان کر افسوس بہت ہوا لیکن اسکے باوجود بھی اس شہیر کی کتے والی حالت کر کے اسے یونی سے نکلوا دیا ۔۔۔
یہ سب جاننے کے بعد نا میں نے تمہیں تمہارے حق سے محروم رکھا اور نا ہی تمہیں اپنا حق مارنے کی اجازت دوں گا ۔۔ میں کوئی ٹین ایجر یا فضول کی ذہنیت کا انسان نہیں ہوں جو تمہاری پچھلی غلطی کو لیکر بے وجہ تمہیں ماروں پیٹو اور اپنی انا کو تسکین دوں ۔۔اور اس سے تسکین غیرت مند نہیں بلکہ بے غیرت لوگوں کو ہوتی ہے ۔۔۔
مجھے کوئی سروکار نہیں ماضی میں تم نے کیا کیا اور کیا نہیں ۔۔۔ لیکن اب تم میری بیوی ہو میری عزت اور اگر میں تب تمہارے لئے بول سکتا ہوں اور پیٹ کر اس شہیر کو نکال سکتا ہوں تو اب اگر مجھے دھوکہ دیا تو میں تمہاری جان لینے میں بھی دیر نہیں لگاؤ گا ۔۔ اب میرا ہر مطلب صرف تم سے ہے کیوں کہ اب تم بھی میری زندگی کا حصّہ ہو ۔۔
میری زندگی اصولوں پر چلتی ہے جو کہ میرے اپنے ہی بنائے ہوئے ہیں ۔۔ تم یہاں ہو میرے ساتھ مخلص رہو مجھے بھی خود کے ساتھ بہت اچھا پاؤ گی ۔۔ تمہاری شان میں اب قصیدے تو پڑھنے سے رہا کیوں کہ میری ایسی نیچر ہے نہیں ۔۔
اور اب اسطرح منہ بنا کر بیٹھی رہو گی تو اماں کو بھی شک میں ڈالو گی ۔اب تم پر ہے کہ اپنی اگے کی زندگی کو آسان کرنا ہے یا مشکلات پیدا کرنی ہیں ۔۔
نا جانے وہ کتنی دیر تک میرے ہاتھوں کو اپنی حدت پہنچاتے ہوئے مجھے اپنے لفظوں کے سحر میں جکڑتا رہا ۔۔ وہ جا چکا تھا لیکن میں ابھی تک اسکے خیالوں میں ہی کھوئی ہوئی تھی ۔کتنے مظبوط کردار کا حامل تھا وہ بغیر مار پیٹ کے پیار سے وہ مجھے اپنی اہمیت بھی سمجھا گیا اور اگر اب میں نے غلطی کی تو اسکی سزا بھی بتا گیا ۔۔
بھابی ہمیں معلوم ہے ہمارے بھائی اچھے ہیں لیکن برے ہم بھی نہیں جو اپ کب سے انکے ہی خیالوں میں کھوئی ہوئی ہیں ۔ نوری جو کب سے اسے کسی سوچ میں ڈوبا دیکھ رہی تھی اپنا مطلب نکالتی اسے تنگ کرنے لگی ۔۔ جب کہ عبیر کے دل میں ابھی تک تو ایسا کچھ نا تھا لیکن انے والے دنوں میں بہت کچھ ایسا ہونے والا تھا جو اسکی سوچ کے بلکل برعکس ہونے والا تھا ۔
اسکے بعد پورا دن سکینہ بیگم نے اسے یہاں کے طور طریقوں کے ساتھ ساتھ یہاں لے ماحول کے بارے میں بھی بہت کچھ بتا دیا تھا اسے سب کچھ جان کر بہت خوشی ہوئی تھی یہاں کے سبھی لوگ بہت سادہ دل تھے گاؤں کی کئی عورتیں اسے دیکھنے بھی آئی تھی اور سب کی زبان پر ایک ہی فکرا ہوتا چاند سی بہو لائی ہے سکینہ اپنے سرور کے لئے ۔۔۔
عبیر ان سب میں بلکل خاموش بیٹھی انکی باتیں سن رہی تھی جب کوئی لڑکی اسکے اور سرور کے لئے کوئی فکرا کستی تو وہ نا چاہتے ہوئے بھی چھنپ جاتی اور سب اسکے گلابی چہرے کو دیکھتے اسے ڈھیروں دعائیں دیتی ۔۔۔
رات ہو چکی تھی وہ اپنے کمرے میں موجود تھی جب سرور بھی تھوڑی دیر بعد آگیا تھا ۔۔
کیسا گزرا آج کا دن ؟ یقینا میرے بغیر اچھا ہی گزرا ہوگا ۔ بھئی پڑھ تو لیا لیکن میں کرنے والا کچھ نہیں یہی گاؤں میں رہ کر اپنی زمین کو دیکھوں گا اور یہی سے میں تم اور میرے بچے بھی کھائے گے ۔ جب اپنی زمین موجود ہی تو کیوں میں شہر جا کر خوار ہوتا پھروں ؟ اپنا کام ہے اور میں خوش ہوں ۔۔ اب تم اس وجہ سے مجھے پینڈو کہو یا کچھ اور لیکن مجھے فرق نہیں پڑنے والا ۔۔ وہ آرام سے اپنی شال اتار کر شیشے کے سامنے آتے اپنے بال سنوارتے ہوئے مجھ سے بات بھی کئے جا رہا تھا ۔
اتنا سب ہونے کے بعد میں حیران تھی مجال ہے جو اس انسان کو ذرا بھی پریشانی یا غصّہ آیا ہو ۔۔ وہ ایسے بات کر رہا تھا جیسے ہم برسوں سے ایک دوسرے کو جانتے ہوں ۔
یا پھر بس میں ہی فضول میں سوچ رہی تھی اتنا ۔۔ سہی کہہ رہا تھا وہ ماضی کو بھول کر اپنے حال میں خوش رہنا اور شکر کرنا ہی عقلمندی ہے ۔
نہیں مجھے تو کوئی مسلہ نہیں ہے اپ کو جو سہی لگے ۔۔
ہائے ایک دن میں اتنی فرمہ بداری ۔۔لگتا ہے رنگ چڑھ رہا ہے میرا ۔۔اسکی رگ ظرافت ایک بار پھر بھڑکی تھی اور اسے تنگ کرنے کی نیت سے اسکی طرف اپنے قدم بڑھائے تھے لیکن اب عبیر کو کوئی جگہ نا ملی تھی جہاں وہ چھپ سکے ۔۔۔
____________________
زندگی پھر سے نارمل ہو گئی تھی جس میں سب سے زیادہ ہاتھ سرور کا تھا جس نے عبیر پر اعتماد کیا تھا اور وہ خود بھی اب کافی حد تک مطمئن تھی لیکن جب بھی ماضی کا سوچتی تو رونگٹے جاتے اگر سرور کو پتا چل جاتا کے اسے چھونے والا وہ پہلا مرد نہیں تو نجانے وہ کیا کر بیٹھتا ۔بیشک اللّه نے اسے بچا لیا تھا لیکن اس نے خود کو خود ہی برباد کیا تھا جسکی وجہ سے وہ وسوسوں کا شکار رہتی ۔
اسے یہاں کا ماحول بہت بھایا تھا وہ خوش تھی یہاں کئی بار نقاب کر کے سرور کے ساتھ وہ گاؤں کی سیر بھی کر چکی تھی انکی زمین پر بھی جا چکی تھی ۔۔
اسے ان چھوٹی چھوٹی چیزوں سے خوش ہوتے دیکھ سرور کو دلی خوشی ہوتی تھی وہ پاک تھی بہت معصوم سی شائد اسی کا فائدہ اٹھانے کی کوشش شہیر نے بھی کی تھی جس سے اس نے خود کو نا صرف بچا لیا تھا بلکہ اب سرور کے ساتھ اپنے رشتے کو بھی بہتر کرنے کی کوشش کرتی رہتی ۔۔۔
کچھ ساس کی ھدایت تھی کہ گھر میں نا سہی لیکن شوہر کے انے سے پہلے کمرے میں بن سنور کر رہا کرے اس پر عمل بھی وہ کر چکی تھی جب سرور نے بھی یہ نئی تبدیلی محسوس کی تھی اسکا دل کیا تھا وہ اسے تنگ کرے لیکن ابھی تو وہ کوشش کر رہی تھی اور یہ شروعات تھی اس لئے وہ نہیں چاہتا تھا وہ تنگ اکر اپنی کوشش ترک کرے ۔۔۔
بلکہ وہ تو خوش ہوتا تھا اسے اپنے لئے یہ سب کرتے دیکھ کر اور اسکے بعد اتنا گھبرانے لگتی جیسے چوری کر کے تیار ہوئی ہو اور اب چوری پکڑے جانے کا ڈر ہو ۔۔ لیکن وہ اپنے تاثرات کو نارمل رکھ کر نا صرف اسکا۔ ڈر دور کر دیتا تھا بلکے اسے سراہتا بھی تھا ۔۔
عبیر کی سنگت کو وہ بھی اب پسند کرنے لگا تھا یہ عادت تھی یا محبت اسے نہیں معلوم تھا لیکن اب وہ اسے اچھی لگنے لگی تھی وہ اسکے دل میں اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہو چکی تھی ۔۔
اکثر وہ گھر کے کام میں جب سکینہ بیگم کا ہاتھ بٹاتے دیکھتا تو وہ اسے تب اچھی لگتی جب وہ شام میں گھر میں موجود باغیچے میں بیٹھتی وہ تب بھی اسے اچھی لگتی اسے اپنے کام کرتے دیکھتا تو خوشی کے ساتھ ساتھ دل میں عجیب سی گدگدی ہوتی تھی ۔۔
وہ خوش تھا اسکے اندر آئی اتنی ساری مثبت تبدیلیوں کو دیکھتے ۔۔ اگر اس نے اسکے ماضی کو بھولا کر اسے اسکے آج کے ساتھ اپنایا تھا تو عبیر نے بھی ثابت کیا تھا وہ واقعی محبت کرنے کے لائق ہے ۔ آج اسے اپنا فیصلہ بلکل درست لگا تھا کبھی کبھی جو کام سختی نہیں کر پاتی وہ کام پیار کروا لیتا ہے اس نے بھی کروا لیا تھا ۔۔۔
لیکن اب ایک نئی مصیبت جیسے باہیں پھیلائے عبیر کی منتظر تھی سرور کاچچا زاد کزن فیاض اکثر اسے گھورتا رہتا اسکی نظروں میں اسے وہی تاثر نظر اتا جو کبھی شہیر کی نظروں میں ہوتا تھا وہ کیسے بھول سکتی تھی اپنا سیاہ ماضی ؟ لیکن وہ اسے دوہرا بھی نہیں سکتی تھی ۔
اب وہ بہت ڈرنے لگی تھی کہ دوبارہ سے وہی رسوائی اسکا مقدر نا بنے ۔۔ کوئی دوسرا شہیر اسکی زندگی میں نا آئے ۔۔ لیکن فیاض اتنا چالاک تھا کہ سرور کی آنکھوں میں بھی دھول جھونکتے اسکی ہی بیوی پر اپنی نظریں جمائے بیٹھا تھا وہ سب کے سامنے بہت ہی شریف ہونے کا ڈھونگ کرتا جب کے میری طرف کسی بھوکے اور للچائے کتے ہی طرح اپنی آنکھیں میرے جسم کے آر پار کرتا نظر اتا ۔۔۔
ایک گھر میں رہتے وہ اس سے کیسے دور رہ سکتی تھی یہ تو نا ممکن سی بات تھی ۔۔ اور سرور کو بتانے کی غلطی وہ بھول کر بھی نہیں کر سکتی تھی کیوں کہ جیسا اسکا غصّہ تھا وہ کچھ نا دیکھتا ۔۔۔۔ لیکن کیا وہ فیاض کے معملے میں میری بات کا یقین کرے گا جب کہ اسے میرے ماضی کا بھی سب کالا چھٹا معلوم تھا ۔۔ہو سکتا ہے فیاض اسے کوئی بھی کہانی سنا دے اور میں بری ثابت ہو جاؤ کے بھائی جیسے کزنوں میں پھوٹ ڈلوا رہی ہوں ۔۔
میری زندگی میں شائد سکون کہی بھی نہیں تھا کچھ دنوں کی خوشی تھی جو اب فیاض کی وجہ سے پھر سے عذاب بن گئی تھی آخر کیا غلطی ہے میری ۔۔۔میرا رنگ گورا ہے تو اس میں میری کیا خطا مجھے کیوں اسکی وجہ سے ہر بار مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا میرے ماں باپ بھائی بہن سب کا یقین مجھ سے اٹھ گیا اور اب اگر شوہر کا یقین حاصل کر پائی ہوں تو پھر سے ایک نئی شکل کے ساتھ ایک اور شہیر آگیا ۔۔۔
سر درد سے پھٹا جا رہا تھا اور آج انھیں سوچوں کی وجہ سے سرور کا انتظار کئے بغیر میں بستر میں جا لیٹی تھی اور کب نیند کا غلبہ مجھ پر آیا مجھے کچھ خبر نا ہوئی ۔۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...