لفظ محبت کی انسانی زندگی میں بڑی اہمیت ہے۔ انسانی زندگی کا رجحان تصور اس کے بغیر بے معنی ہے۔ یہ تو سب کو معلوم ہے کہ رشتوں کو برقرار رکھنے میں محبت کا زبردست ہاتھ ہوتا ہے۔ جس گھر میں محبت براجمان ہو تو سمجھ لیجئے وہ گھر تمام تر دشواریوں کے باوجود اپنی راہ پر گامزن رہتا ہے کیونکہ اس کے افراد ہر حال میں ایک رہتے ہیں اور ایک دوسرے کے خوشی اور غم میں یکساں جذبات رکھتے ہیں۔ ایسا ہی خوبصورت گھر اردو کے معروف شاعر و ادیب حیدر قریشی صاحب کا ہے۔ گذشتہ ماہ مبارکہ حیدر کے انتقال سے اس گھر کی خوشی میں کمی آئی ہے لیکن محبت میں شدت پہلے جیسی ہے۔ ان کے انتقال کے بعد حیدر قریشی صاحب کے بیٹوںعثمان حیدر اور طارق محمود حیدر (ٹیپو)بڑی بیٹی رضوانہ کوثر اور چھوٹی بیٹی در ثمین انور نے ان کی یادوں پر مشتمل مضمون لکھے جو بیٹوں، بیٹیوں کی طرف سے محبت کا عمدہ اظہار ہیں۔ یہ تحریریں دل کو چھو لینے والی ہیں۔
اس سلسلے کی ایک اور کڑی شعیب حیدر کی مرتب کردہ کتاب’’ ہماری امی‘ مبارکہ حیدر‘‘ ہے جو ۲۰۱۵ء میں شائع ہوئی تھی۔ یہ کتاب اس لئے اہم ہے کہ اس میں نہ صرف مبارکہ حیدر کی شخصیت ابھر کر سامنے آئی ہے بلکہ خاندان کے دیگر افراد کی شخصیت بھی ابھر آئی ہے۔ اس میں سب سے نمایاں حیدر قریشی کی شخصیت ہے۔ حیدر قریشی ایسے قلمکار ہیں جنھوں نے اپنی ڈھیر ساری کتابوں میںاپنی بیوی کا ذکر کیا ہے۔ انھیں تحریروں کو بنیاد بنا کر شعیب حیدر نے اپنی امی کا خاکہ تیار کیا ہے جو اس قدرر دلچسپ ہے کہ قاری اس میں کھو جاتا ہے۔ شعیب حیدر کا کمال یہ ہے کہ تانے بانے کو پروتے وقت کتاب کی روانی کو مجروح نہیں ہونے دیا ہے۔ اس کتاب کو پڑھنے سے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ حیدر قریشی کے بچوں میں والدین کی محبت کا عکس نمایاں ہے۔
حیرت اور خوشی اس بات کی ہوتی ہے کہ غیر ملک میں رہتے ہوئے بھی وہ اپنی بنیاد سے جڑے ہو ئے ہیں۔ شعیب اپنی امی ابو کا ذکر کرتے ہوئے اپنی کتاب میں یوں رقمطراز ہیں
’’پہلا کمال امی کا ہے کہ انھوں نے اپنی محبت اور وفا سے ابو کے دل میں اس حد تک گھر کرلیا کہ وہ اتنی سرشاری کے ساتھ ان کا ذکر کرتے چلے گئے دوسرا کمال ابو کا ہے کہ انھوں نے ادبی دنیا کے رائج شدہ طریقوں کے برعکس اپنے خاکوں میں،یادوں میں،افسانوں میں ، انشائیوں میں،انٹرویوز میں اور دوسری کتابوں میں امی کا ذکر بڑی محبت سے کیا اور کرتے چلے گئے۔‘‘
اس کتاب پر ڈاکٹر انور سدید نے بہت عمدہ تبصرہ کیا ہے۔وہ لکھتے ہیں۔
’’میں کہہ سکتا ہوں کہ’’ہماری امی‘‘اپنی نوعیت کی اولین کتاب ہے جس کی ترتیب و تدوین پر حیدر قریشی کے بچے مبارک باد کے مستحق ہیں۔سرورق پر مبارکہ حیدر کی تصویر ہے۔یہ تصویر ان کی اپنی ہے لیکن سرپر ٹوپی حیدر قریشی کی ہے جو ان کے’’سرتاج‘‘ہیں۔‘‘
گلزار،بمبئی سے اس کتاب کی رسید بھیجتے ہوئے لکھتے ہیں۔
Thank you for the book “Hamari Ammi”. A very affectionate effort
ترنم ریاض نے ایک ماں کی حیثیت سے اس کاوش کو دیکھا اور لکھا۔
’’واہ۔۔۔اس سے بڑا خراجِ عقیدت اور کیا ہو سکتا ہے۔اللہ محبتوں کی زبان بولنے والے ان بچوں کو کامرانی عطا کرے۔دودھ کا حق ادا کردیا۔‘‘
مذکورہ کتاب میں کل سترہ ابواب ہیں جن کے سہارے شعیب حیدر نے اپنی امی کی شخصیت کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے جو حیدر قریشی کی تحریروں کی دین ہیں۔ مرتب کی خوبی یہ ہے کہ اس نے بڑی فنکاری کے ساتھ اس کی کڑیوں کو کا میابی کے ساتھ جوڑا ہے بلکہ اس کی روانی اور تسلسل کو بھی برقرار رکھا ہے۔ یہ کتاب ا گرچہ مبارکہ حیدر کی محبت میں لکھی گئی ہے لیکن اس میں حیدر قریشی اور ان کے بچوں کی تصاویر بھی ابھر آئی ہیں نیز ان کے درمیان محبت سے لبریز رشتے کا بھی پتا چلتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔