شیریں کی موت کی خبر سن کر فرہاد کا جان دینا اور شیریں کا اس کی لاش پر آ کر گریہ و زاری کر کے مرنا پھر خسرو کا بھی فیصلہ ہے قصہ کا خاتمہ ہے
فرہاد کوہ بے ستون کی صفائی میں سرگرم تھا اور نہایت درد سے یہ اشعار پڑھتا تھا۔ اشعار:
طاقت الفت جاناں مددے
قوت بازوئے حرماں مددے
آئی نزدیک شب وصل صنم
اشتیاق مہر تاباں مددے
جلد ہو جائے یہ رستہ تیار
آرزوئے دل نالاں مددے
قوت عشق سے کاٹا یہ پہاڑ
اے مرے تیشۂ براں مددے
کبھی جب فراق یار میں زیادہ گھبراتا تو یہ غزل زبان پر لاتا:
غزل رضاؔ لکھنوی فرنگی محلی
قتل کے شوق میں کہتا ہوا قاتل قاتل
لب کے باہر نکل آیا ہے مرا دل قاتل
کیا کہوں کون ہے اے رونق محفل قاتل
دشمن جاں ہے جگر اور مرا دل قاتل
شمع پر روشنی شمع سے پروانہ گرا
تیری شوخی سے میں تجھ پر ہوا مائل قاتل
حشر میں ہوں گے اگر داد کے خواہاں بسمل
کیسی اُس روز پڑے گی تجھے مشکل قاتل
ناتواں ہوتے ہیں دق ضیقِ نفس سے لیکن
سخت جانوں کے لیے ہے مرض سل قاتل
بیڑیاں زلف کی پہنا دے کہ جھنکار نہ ہو
جان لے گی مری آواز سلاسل قاتل
پڑ گیا آئینۂ تیغ پہ جب عکس اُس کا
نظر آنے لگا قاتل کے مقابل قاتل
مردمِ دیدہ یہ کہتے ہیں بچشمِ انصاف
آنکھ کا اس بت سفاک کی ہے تل قاتل
ایسا دیکھا نہیں میں نے کوئی بانکا ترچھا
تیری ہر وضع ہے میرے لیے قاتل قاتل
بہ گئے پہلے ہی وہ ہجر میں خون ہو ہو کر
ڈھونڈھ پہلو میں نہ میرے جگر و دل قاتل
تیرے کوچے میں رضاؔ کو جو قضا آئے گی
مرکے فردوس میں ہو جائے گا داخل قاتل
آج فرہاد کے آہ و نالے کچھ اس بے بسی کے ہیں کہ خود بتا رہے ہیں کہ اس فراق نصیب حرماں کو یہ فلک اس کوہ کنی، بادیہ پیمائی میں بھی دیکھ نہیں سکتا۔ اس کی نخل امید نہال زندگی کو اپنے مخالف جھوکوں سے بیخ و بن سے اکھاڑ کر بے نام و نشاں کرنے پر مستعد، اس کے دلی تمناؤں کا خون کرنے پر آمادہ ہے۔ اتنے میں جاماسب فرہاد کے قریب آیا اور “ہائے شیریں ہائے شیریں” کا کلمہ زبان پر لایا۔ فرہاد اس جملہ کو سن کر بے قرار ہوا اور زیادہ اشک بار ہوا۔ جاماسپ سے پوچھا: او عورت! تو کون ہے کیوں یہاں آئی ہے اور یہ وحشت افزا جملہ کیوں زبان پر لائی ہے؟ جاماسپ بولا: میں شیریں کی دائی ہوں، اس کے بچپنے کی کھلائی ہوں۔ آج باغ عالم سے اُس گل رعنا کا سفر ہوا، ہم سب کی عیش و راحت کا سامان ابتر ہوا۔ اس کے ماتم میں نالاں ہر صغیر و کبیر ہے، جوئے اشک چمۂ شیر ہے۔ یہ سنتے ہی فرہاد نے ہائے شیریں کہہ کر کلیجہ تھام لیا۔ پھر ٹھنڈی سانس لی اور یہی نام لیا کہنے گا: اے دنیا! آج تو میری آنکھوں میں تیرہ و تار ہے۔ اے بے ستون! تو میرے لیے گوشۂ مزار ہے۔ اے زیست! میں تجھ سے رخصت ہوتا ہوں۔ اے محبت! میں عاشقی میں نام کر کے ناکام رہا۔ آج اپنی جان کھوتا ہوں۔ یہ کہہ کر تیشہ مار کر اپنے کو ہلاک کیا، بکھیڑا پاک کیا۔
تمام شہر میں اس کا چرچا ہوا۔ شیریں نے جب یہ عبرت افزا واقعہ سنا، کششِ عشق اُس کو پہاڑ پر کھینچ لائی، اپنے دلدادہ کی لاش دکھائی۔
دیکھ کر نعش یار سینہ فگار
لگی کہنے بدیدۂ خونبار
اے مرے جان نثار راہ وفا
کشتۂ تیغ خنجرِ اعدا
اے سفر کردۂ دیار عدم
اے مرے عاشقی میں راسخ دم
اے مرے زخمی خدنگ نگاہ
کس سے اپنا کہوں میں حال تباہ
میرے جان دادۂ غم ہجراں
میرے مقتول درد بے درماں
ہائے اے میرے چاہنے والے
بات اپنی نباہنے والے
ہائے اے میرے یار ماہ لقا
تجھ کو یوں دیکھنا مُقدر تھا
ہائے اے میرے مستمندِ وصال
یوں فلک نے تجھے کیا پامال
ہائے یہ تیری نوجوانی ہائے
ہائے یہ تیری جانفشانی ہائے
کوچ میں اپنے ایسی کی تعجیل
کہ خبر بھی نہ کی بوقت رحیل
گر تو ملک عدم کا عازم تھا
چھوڑ جانا نہ مجھ کو لازم تھا
شرط الفت یہ ہے کہ میں بھی مروں
زندگانی سے اپنی در گذروں
بھول جاؤں گر اس محبت کو
لاکھ نفریں ہے میری غیرت کو
کر چکی جب یہ درد و غم کا بیاں
با دلِ زار دیدۂ گریاں
نعش سے وہ لپٹ کے لیٹ گئی
ہستی اپنی جہاں سے میٹ گئی
شوق سے مل گئے گلے دونوں
ایک ہی آگ میں جلے دونوں
غرض اُن دونوں جاں نثار کا کام
عشق نے کر دیا بخیر انجام
گرچہ ظاہر میں خان و مان سے گئے
سُرخرو لیکن اس جہان سے گئے
جب خسرو اس واقعہ سے آگاہ ہوا، شیریں کی موت سے اُس کا بھی حال تباہ ہوا۔ بے ستون پر آیا، فراقِ دلدار کی تاب نہ لایا۔ حکومت کو چھوڑا، سلطنت سے منہ موڑا، اُن دونوں کے ساتھ اپنی بھی جان گنوائی۔ بے خطا فرہاد کی جان لینے کی سزا پائی۔ شہر میں کہرام ہوا۔ بے ستون پر ازدحام ہوا۔ عشق کے مقتول زیر خاک ہوئے۔ غریب امیر اس صدمے میں گریبان چاک ہوئے۔
شرح بے داد عشق ہے دشوار
ہے یہ وادی کمال صعب گزار
طاقت اب دل میں ہے نہ جی میں ہے
رہیے خاموش لطف اسی میں ہے
تمت